بہر حال اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ابراہیم کے متعلق شعبہ کی تکذیب اپنے معروف معنی کے ساتھ ہی ثابت ہے اور جرح اس کے نامقبول ہونے کی کوئی وجہ اور دلیل نہیں ہے۔ قولہ: یزید بن ہارون ابراہیم کے بڑے مداح تھے۔فرماتے ہیں:ما قضی علیٰ الناس یعنی فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ(تہذیب)یعنی ہمارے زمانہ میں ان سے زیادہ عادل کوئی قاضی نہیں ہوا ...........اس کی شہادت کے بعد ابراہیم کے تدین میں تو شک کی گنجائش نہیں رہتی۔(رکعات ص59) ج: یزیدبن ہارون نے جو ابراہیم کے محکمۂ قضا کے منشی تھے۔صرف مقدمات اور قضایا کے فیصلوں کے بارے میں ابراہیم کے عادل ہونے کی شہادت دی ہے۔رہا یہ کہ ان کی عام زندگی میں تقویٰ اور ورع کی پابندی کا کیا حال تھا؟تو اس کے متعلق یزید بن ہارون نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔جھگڑوں اور مقدمات کے فیصلوں میں عادل ہونے سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ عدالت اور تقویٰ کا وہ معیار پایا جاتا تھا جو روایت کے مقبول ہونے کے لئے شرط ہے؟عدل فی القضاء تو بعض غیر مسلموں کا بھی ضرب المثل ہے۔نوشیروانِ عادل کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا۔بقول شیح سعدی مرحوم: نوشیرواں نہمرد کہ نام نکو گذاشت سیر و احادیث کی کتابوں میں واقعہ مذکور ہے کہ حضرت ہانی بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مشہور تابعی شریح کے والد ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک وفد کے ساتھ حاضر ہوئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قول کے لوگوں سے سنا کہ وہ ہانی کو ابو الحکم کہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہانی سے اس کی وجہ دریافت کی۔انہوں |