فلما حکم الذھبی بان اسنادہ وسط بعد ذکر الجرح والتعدیل فی عیسی بن جاریة وھو من اھل الاستقراء التام فی فقد الرجال فحکمہ بان اسنادہ وسط ھو الصواب ویؤیدہ اخراج ابن خزیمة وابن حبان ھذ الحدیث فی صحیحیھما ولا یلتفت الی ما قال النیموی ویشھد لحدیث جابر ھذا حدیث عائشة المذکورہ ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة انتھی(تحفة الاحوذی ص 74 ج 2) سیاق کلام پر غور کیجئے!صاف ظاہر ہے کہ حضرت الشیخ نے نیموی کے قول لیس بصواب کے جواب میں ذہبی کے اس فیصلہ کو ھوالصواب کہا ہے۔کوئی ضابطہ کلیہ نہیں بیان کیا ہے کہ ''نقد رجال کے باب میں ذہبی جو حکم فرمائیں وہی صواب''۔اور پھر ذہبی کے اس فیصلہ کی مولانا نے جو تصویب فرمائی ہے تو محض تقلیداً نہیں بلکہ ساتھ ہی اس کی تین دلیلیں دی ہیں۔ 1۔ پہلی دلیل تو یہ دی کہ ذہبی نے یہ فیصلہ عیسی بن جاریہ کے متعلق جرح و تعدیل دونوں کے ذکر کرنے اور ان دونوں کے فرقِ مراتب کو سمجھنے کے بعد کیا ہے اور نیموی کی نگاہ صرف جرحوں پر ہے۔جیسا کہ مؤلفِ ''رکعاتِ تراویح'' کو خود اس کا اعتراف ہے۔لکھتے ہیں: ''حافظ ذہبی کا اس کی اسناد کو وسط کہنا خود انہی کی ذکر کی ہوئی ان جرحوں کے پیش نظر جو انہوں نے عیسیٰ کے حق میں ائمہ فن سے نقل کی ہیں۔حیرت انگیز اور بہت قابل غور ہے۔اسی وجہ سے علامہ شوق نیموی نے اس کو ناصواب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ متوسط نہیں بلکہ اس سے بھی گھٹیا ہے ''۔(ص 31)۔ |