یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سخاوی نے جو یہ لکھا ہے کہ منکر الحدیث وصف فی الرجل یستحق بہ الترک لحدثیہ تو یہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس کی توثیق کسی دوسرے ماہر فن محدث نے نہ کی ہو لہٰذا عیسیٰ کے حق میں اس کلام کو پیش کرنا بالکل بے محل ہے۔ ہماری اس تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ ابو زرعہ او رابن حبان کی توثیق کے بعد امام ابو داؤد کے منکر الحدیث کہنے سے عیسیٰ کی تضعیف لازم نہیں آتی۔لہٰذا اصولاً اس کی روایت نا قابل قبول بھی نہیں کہی جا سکتی۔یہی حال حافظ ابن حجر کی جرح کا بھی ہے۔اس سے بھی عیسیٰ کی روایت کا قابل ترک ہونا لازم نہیں آتا۔انہوں نے تقریب التہذیب میں صرف فیہ لین من الرابعة کہا ہے۔محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیے ہیں۔:اسہلہا قولہم فی مقال او ادنی مقال ..... اولین الحدیث او فیہ لین ......(ظفرالامانی ص34)حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: واسہلہا ای الالفاظ الداة علی الجرح قولہم فلان لین الحدیث وسیٔ الحفظ او فیہ ادنی مقال اٰہ .....(شرح نحبہ ص109) امام نووی تقریب میں لکھتے ہیں:فاذا قالوا لین الحدیث کتب حدیثہ ونظر فیہ اعتباراً۔اسی کے بعد امام سیوطی لکھتے ہیں:ومن ہٰذہ المرتبة ما ذکرہ العراقی فیہ لین فیہ مقال ....(تدریب مع التقریب ص126) معلوم ہواکہ جس راوی کے متعلقفیہ لین یا لین الحدیث کہا ہو اس کی روایت قابل طرح وترک نہیں ہے۔امام دارقطنی سے پوچھا گیا کہ آپ جب فلان لیّن کہتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہوتی ہے؟انہوں نے کہا: لا یکون ساقطا متروک الحدیث ولکن مجروحا بشٔ لا یسقط عن |