ابن عفان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے؛ اور خود حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کی ہے۔ یہ تمام اسناد قریب قریب ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر کمزور اسناد بھی ہیں ۔ لیکن صحیح روایت دوسری تمام روایات سے مستغنی کردیتی ہے۔[1] محدثین رحمہم اللہ کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے آپ کو قتل کیا؛ وہی تھے جو براہ راست آپ کے قتل کے مرتکب ہوئے۔حدیث میں مطلق ’’باغی‘‘ کے الفاظ ہیں ۔ اسے کسی مفعول کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا﴾ (الکہف ۱۰۸)
’’ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، وہ اس سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان گرامی ہے:
((الذِین ہم فِیکم تبع لا یبغون أہلا ولا مالا۔))[2]
’’وہ لوگ جو تم میں تمہارے تابع ہیں ؛ وہ نہ اپنا گھر چاہتے ہیں نہ ہی مال۔‘‘
جب لفظ بغی کااطلاق کیا جاتا ہے؛تو اس سے مراد ظلم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی ﴾ (الحجرات ۹)
’’ پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے:
﴿، فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ ﴾ (البقرہ ۱۷۳)
’’پھر جو مجبور کر دیا جائے، اور وہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا۔‘‘
مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملے اس وقت ارشاد فرمائے جب وہ مسجد کی تعمیر کے لیے اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ لوگ ایک ایک اینٹ اٹھا کر لاتے۔ جبکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھا کر لاتے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ افسوس ! عمارتم انہیں جنت کی دعوت دو گے اور وہ تمہیں جہنم کی دعوت دے رہے ہوں گے۔‘‘
|