Maktaba Wahhabi

502 - 645
یہ سب لوگ خالص الاسلام تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو دل کی سچائی سے اسلام لائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید رضی اللہ عنہ کے بعد ان کو والی ٔ شام مقرر کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طرف داری کرنے والے نہ تھے اور نہ انھیں کسی کی ملامت کی پرواہ تھی۔یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما بہترین مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کا شمار ان جرنیلوں میں ہوتا ہے جنہیں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے شام فتح کرنے کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ ان جرنیلوں میں یزید بن ابو سفیان ‘شرحبیل بن حسنہ ؛ عمرو ابن العاص ؛ابو عبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم ہیں ۔ جب یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس علاقہ پر والی مقرر فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ اور نہ ہی آپ ولایت سے محبت رکھنے والے تھے۔ مزید برآں معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے دوستانہ مراسم بھی نہ تھے۔ بلکہ اسلام سے پہلے ابو سفیان کے بڑے دشمنوں میں سے ایک تھے۔ یہاں تک کہ جب فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو بارگاہ نبوی میں لائے تھے تو آپ اسے قتل کرنا چاہتے تھے۔[1] اسی بنا پر آپ کے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تلخ گفتگو بھی ہوئی۔کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ بغض رکھتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کرنا کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے نہ تھا۔ اگر آپ امیربنائے جانے کے مستحق نہ ہوتے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کبھی بھی آپ کو امیر نہ بناتے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دمشق اور دیگر بلاد شام میں بیس سال تک امیر اور بیس سال تک خلیفہ رہے۔ آپ کی رعایا آپ کے حسن سلوک، تالیف قلب اور خوبیٔ انتظام و انصرام کی مداح تھی اور آپ پر جان چھڑکتی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ صفین میں انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دیا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نظائر و امثال سے افضل و اولیٰ بالحق تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فوجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے معترف تھے۔اور سبھی اس بات کے معترف تھے کے خلافت کے حق دار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔آپ کی فضیلت کا انکار صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو حق کے سامنے سرکش اور خواہشات نفس کے سامنے اندھا ہو۔ ادھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی مسئلہ تحکیم سے پہلے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے خلافت کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ۔ اور نہ ہی آپ کو امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔ آپ نے تحکیم کے بعد خلافت کی طلب کی۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کئی ایک لوگ ایسے تھے جو یہ سوال اٹھاتے تھے : ہم علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیوں کریں ؟ جب کہ آپ کو نہ ہی سابقت اسلام کا شرف حاصل ہے ‘ اور نہ ہی کوئی دیگر ایسی فضیلت ؛ او رنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف [جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہے] اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی نسبت خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس چیز کا اعتراف کیا کرتے
Flag Counter