حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ شادی کرکے آپ کو دکھ پہنچانا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام ذاتی غرض پر مبنی تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے ۔ مذکورہ بالا واقعات اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذا سے متعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل مذمت کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے، اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے ایسا کیا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذاتی غرض کی بنا پر ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کی تھی۔ ظاہر ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرنے کی نیت سے ہجرت کرنے والا، ان کا ہم پلہ کیسے ہو سکتا ہے۔[1]
بے شک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باعث رنج و ملال ہے،بشرطیکہ وہ بات حکم الٰہی کے خلاف نہ ہو۔ جب کسی بات میں حکم الٰہی موجود ہو تو اس کی انجام دہی ضروری ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ امر کسی کے لیے موجب اذیت ہو۔ اﷲ کی اطاعت کرتے ہوئے باعث اذیت وہ بات ہو گی جو اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے منافی ہو۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل حدیث نبوی ہے:
’’ جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی حکم عدولی کی، اور جس نے میرے امیر کے حکم
|