انہوں نے گواہی دی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔’’ سب محدثین نے روایت کیا ہے کہ ام ایمن ایک جنتی خاتون ہیں۔‘‘
جواب :یہ ایک جاہلانہ بات ہے، شیعہ مصنف ایسی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہونے کی بجائے مضر ہے۔ اگرایسی بات حجاج بن یوسف یا مختار بن ابی عبید جیسے ظالم لوگوں کے منہ سے بھی نکلتی تو اس کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالی معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا خصوصاً جب کہ مدعی ایک ایسی چیز کی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہو جو کسی اور کے زیر تصرف ہو اورظاہر میں وہ کسی غیر کا حق ہو۔مگر یہاں تو اس کے قائل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے صادق القول بزرگ ہیں ۔
[اشکال ]:شیعہ مضمون نگار نے کہا ہے کہ حدیث ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘ سب محدثین نے روایت کی ہے۔‘‘
[جواب]: یہ صریح کذب ہے۔ یہ روایت کتب حدیث میں مذکور نہیں اور نہ ہی کسی محدث نے اسے روایت کیا ہے۔ ام ایمن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ رہ چکی تھیں ۔[1]یہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچی تھیں اور صحابیات میں بڑی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔ بایں ہمہ روایت حدیث میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے؛ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل علم پر افترا پر دازی کر کے کوئی روایت بیان نہیں کی جا سکتی ۔
باقی رہی یہ بات کہ بقول شیعہ مصنف ’’ یہ روایت سب نے ذکر کی ہے۔‘‘ بالکل غلط ہے، ایسا دعویٰ صرف حدیث متواتر کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص اکابر صحابہ کی بیان کردہ حدیث ’’ لَایورث ‘‘ کا منکر ہو اور ام ایمن کے بارے میں ذکر کردہ حدیث کو متواتر قرار دیتا ہو اس کے اجہل الناس اور منکر حق و صداقت ہونے کے بارے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بشرط صحت حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے؛ توایسا مژدہ آپ نے دیگر صحابہ کے بارے میں بھی سنایا ہے۔ آپ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جنت کی بشارت سنائی ہے۔
نیز یہ بھی فرمایا کہ :بیعت الشجرہ میں شمولیت کرنے والوں میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائے گا۔[2]
یہ حدیث سنداً صحیح اور محدثین کرام کے نزدیک مسلّم ہے۔وہ حدیث جس میں آپ نے صحابہ کے بارے میں جنت
|