ہیں جن امور میں شرعاً ان کی فرمانبرداری روا ہے۔ شیعہ کے ائمہ کا اجلال و اکرام اہل سنت کے یہاں اسی طرح ضروری ہے جس طرح ان کے مسلم ائمہ کی عزت و افزائی مثلاً ابوبکر و عمر ،ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ، ابو الدرداء اور سابقین اولین میں سے ان کے ہمنوا و ہم پلہ لوگ رضی اللہ عنہم ۔ اور تابعین و تبع تابعین میں سے سعید ابن المسیب؛ سلیمان بن یسار، عبیداﷲ بن عبداﷲ، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد، ابوبکر بن عبدالرحمن، خارجہ بن زید؛ یہ لوگ مدینہ کے سات فقہاء ہیں ۔
جیسے علقمہ، اسود بن زید،اسامہ بن زید، محمد بن سیرین، حسن بصری، سالم بن عبداﷲ، ہشام بن عروہ، عبدالرحمن بن قاسم، زہری، یحییٰ بن سعید انصاری، ابوالزناد۔علاوہ ازیں امام مالک، اوزاعی، لیث بن سعد، ابو حنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل ، اسحاق بن ابراہیم وغیرہم رحمہم اللہ ۔
مذکورہ بالا اصحاب کی علمی حیثیت ہر گز مساوی نہیں ، بلکہ ان میں بعض اکابر کا علمی پایہ حدیث اور فتوی میں دوسروں کی نسبت بلند تر ہے۔ اور ان کی شہرت کثرت علم، قوت دلیل یا دوسرے اوصاف کی رہین منت ہے۔ بنابریں اہل سنت یہ نہیں کہتے کہ یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ ، جعفر بن محمد رحمہ اللہ کی نسبت اولیٰ بالاتباع ہیں ۔
علی ہذا القیاس وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ امام زہری، یحییٰ بن ابی کثیر، حماد بن ابی سلمہ، سلیمان بن یسار اور منصور بن معتمر کی اطاعت جعفر بن محمد کے والد ابو جعفر الباقر کی نسبت واجب تر ہے، نہ یہ کہ قاسم بن محمد ،عروہ بن زبیر اور سالم بن عبداﷲ رحمہم اللہ کی فرمانبرداری علی بن حسین کی اطاعت سے زیادہ ضروری ہے۔
اس کے عین برخلاف اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر امام کی مرویات و منقولات وثوق و اعتماد کے قابل ہیں ۔اور جو کچھ ان سے نقل کیا گیا ہے؛ اس میں وہسچے ہیں ۔اور کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا جو حکم واضح ہو؛توپس وہی اصل علم ہے جو ان لوگوں سے مستفاد ہورہا ہے۔[1] [اور کتاب وسنت کی مطابقت وتوضیح میں ان کاہر ارشاد واجب الاتباع ہے]۔ جب کوئی امام ایسا فتویٰ دے جو دوسرے علماء و ائمہ کے خلاف ہو تو امر متنازع کو بفحوائے قرآن کریم اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا، یہ حکم سب ائمہ کے لیے عام ہے، کوئی امام استثنائی حیثیت کا حامل نہیں ، عہد رسالت اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے زریں دور میں بھی مسلمان اسی پر عمل پیرا تھے۔
|