اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق رافضی الزام پر ردّ
فصل:....رافضی کہتا ہے: ’’ بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ رب تعالیٰ میں بندوں جیسی بھی قدرت نہیں ۔‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ مسئلہ دقیقِ کلام میں سے ہے، اہلِ سنت کے خصائص میں سے نہیں ، اور نہ متفق علیہ خلفاء کے ماننے والوں کا ہے۔ بلکہ یہ بعض قدریہ کا قول ہے۔ رہے قدر کو ثابت کرنے والے اہلِ سنت تو ان میں سے کوئی اس کا قائل نہیں ۔ یہ قدریہ کے ان شیوخ کا قول ہے جو توحید اور عدل کے مسائل میں ان متاخرین امامیہ کے بھی شیوخ ہیں ۔ کیونکہ ان متاخرین امامیہ جیسے ابن نعمان، موسوی المرتضیٰ اور ابوجعفر طوسی وغیرہ۔ [1] میں سے جس نے بھی عدل اور توحید کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ معتزلہ کی کتابوں سے ماخوذ ہے۔ بلکہ اکثر عبارتیں تو من وعن ہیں ۔ البتہ بعض عبارات میں معمولی تصرف ہے۔
اسی طرح صفات اور قدر سے متعلق آیات کی تفسیر کا حال بھی یہی ہے۔ کہ وہ معتزلہ کی تفسیر سے منقول ہے۔ جیسے الاصم[2]، جبائی[3]، عبدالجبار بن احمد الہمدانی[4]، رمانی [5]ابو مسلم اصبہانی[6] وغیرہ کہ متقدمین امامیہ میں سے کسی ایک سے بھی ان اقوال میں سے ایک حرف بھی منقول نہیں ۔ نہ تو اصولِ عقلیہ میں اور نہ تفسیر قرآن میں ۔
امامیہ کے متقدمین کا اپنے آئمہ پر ان متاخرین سے زیادہ اجماع تھا۔ چنانچہ وہ لوگ جعفر صادق کے اقوال کو زیادہ لیتے تھے۔ تب پھر اگر تو ان متاخرین کے اقوال حق ہیں تو جملہ متقدمین گمراہ ہیں اور اگر ان متقدمین کے اقوال حق ہیں ۔ یہ متاخرین سب کے سب گمراہ ہیں ۔
|