Maktaba Wahhabi

23 - 127
ایک زمانے میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جادوگر مشہور کر دیا گیا تھا جس کی تردید اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید میں کرنا پڑی کہ: وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ ـ (بقره: ۲۰۱) کسی کے کہنے سے کیا ہوتا ہے کہنے والوں نے تو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت کچھ کہہ دیا ہے سینکڑوں نہیں ہزاروں موضوع روایتیں ادھر ادھر کتابوں میں بکھری پڑی ہیں تو کیا ہم انہیں صحیح تسلیم کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی سوء ظن قائم کر لیں گے؟ یہ محدثین کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے فن اسماء الرجال کو کام میں لا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ الگ کر دیا ہے۔ علم اصول حدیث کی روشنی میں اب الحمدللہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، یہ ضعیف اور مشکوک ہے اور یہ موضوع ہے۔ نا انصافی:۔ خود عثمانی صاحب اپنے مطلب کے خلاف پڑنے والی حدیثوں کی اسناد پر پوری طرح جراحی فرماتے ہیں۔ اولیائے کرام کے بارے میں بے سند حوالوں پر نہ جانے کیوں آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ہیں اسے ناانصافی اور اولیائے دشمنی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ داستانِ امیر حمزہ:۔ ایک معمولی مثال لیجئے۔ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کے حالات میں حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مرشد جس حال میں بھی ہو اپنے مریدوں کے حال سے با خبر ہوتے ہیں۔ (کشف المحجوب: ص۱۳۱)۔
Flag Counter