Maktaba Wahhabi

44 - 56
٭ اور یہ باتیں سن کر صوفیوں کی راہیں نہ جاننے والا طالب علم سمجھتا ہے کہ یہ لوگ دین کے ماہر ہیں۔اور ورع و اخلاص کے ایسے مقام پر فائز ہیں کہ کوئی بات اس وقت تک نہیں بولتے جب تک کہ وہ کتاب و سنت کے موافق نہ ہو۔وہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ اپنے اقوال وافعال میں کتاب و سنت کے پیروکار ہیں۔اس لئے بیچارہ نادم اور عموماً لا جواب ہوجاتا ہے۔البتہ کبھی کبھی یہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ پھر یہ لوگ اپنے عرسوں اور اپنی محفلوں میں ناچتے کیوں ہیں؟ اور یہ مجذوب کیا ہیں جو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں،اور چیختے چلاتے ہیں۔مگر اس کے جواب میں وہ کٹھ حجت صوفی کہتا ہے کہ……نہیں……یہ تو غفلت کے مارے ہوئے عوام ہیں۔حقیقی صوفی نہیں ہیں۔صوفیت تو کچھ اور ہی ہے۔حالانکہ یہ بات فطری طور پر جھوٹ ہوتی ہے۔لیکن اس قسم کا جواب طالب علم پر چل جاتا ہے،اور وہ چپ ہو رہتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تصوف اس امت کے جسم میں اپنا کام کرتا رہتا ہے،اور پتہ بھی نہیں چلتا۔ ٭ اور چونکہ بہت سے طالب علموں کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ تصوف کی کتابیں دیکھ سکیں۔اور ان میں جو کچھ ہے اس کی حقیقت معلوم کرسکیں۔اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بعض کتابیں دیکھتے ہیں تو حق پوشیدہ رہ جاتا ہے اور باطل سے ممیز نہیں ہوپاتا۔کیوں کہ اس میں ایسی تلبیس اور ملاوٹ ہوتی ہے کہ پڑھنے والا ایک مریض کے قول کے پہلو بہ پہلو ایک صحیح قول دیکھتا ہے۔اور چھپے ہوئے لفظوں میں کفر والے ایک قول سے گزرتا ہے تو ایک چوتھا قول ایسا دیکھتا ہے جس سے حکمت پھوٹتی محسوس ہوتی ہے اس لئے وہ گڑ بڑا جاتا ہے،اور حقیقت نہیں دیکھ پاتا۔اور یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ کون سے راستے سے گزررہا ہے۔ ٭ اس لئے ہم تصوف کے بنیادی اور کلی قضیوں کو بتلانے اور اساطین تصوف کے ساتھ مباحثہ کا ڈھنگ سکھانے کے لئیے یہ مختصرسا خلاصہ لکھ رہے ہیں۔اس کی روشنی
Flag Counter