Maktaba Wahhabi

18 - 35
اور یہ بات بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شائد غربت و افلاس کی وجہ سے ایسا نہ کیا ہو۔ بلکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّی زندگی کو محدود معنوں میں قدرے تنگدستی کی زندگی بھی سمجھ لیا جائے تو ہجرت ِمدینہ کے بعد دس سال کے دَوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم دولتِ اسلامیہ کے بانی و حاکم ہوگئے تھے۔ عرب وعجم اور ممالکِ مشرق ومغرب کے تمام خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے تھے۔ مگر اس فارغ البالی کے باوجُود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تادمِ آخرکسی سال بھی اس قِسم کی عِید اور جشن نہیں منایا تھا۔اور جب خود صاحبِ میلادنے ایسا نہیں کیا۔اور نہ ہی کرنے کا حکم دیا،تو ایسے کا م کو سرانجام دینا کس طرح نیکی وثواب ہوسکتا ہے؟ اگر اس کام میں نیکی و ثواب ہوتا یاکوئی بھی دینی یا دنیوی فائدہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اﷲعنہم کو ضرور اس کا حکم دے دیتے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تو خود اﷲ تعالیٰ نے سُورۃ التوبہ آیت ۱۲۷ میں ارشاد فرمایا ہے: {لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَوُئْ فٌ رَّحِیْمٌ} ’’دیکھو تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تمہیں میں سے ہے۔ تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق گزرتاہے۔تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے۔ ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق اور رحیم ہے‘‘۔ ایسے شفیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کو کسی نیکی سے کیسے محروم رکھ سکتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے قولاً اور فعلاً دو ہی عیدوں کا پتہ چلتا ہے،جو عیدالفطر اور عیدالاضحٰی ہیں۔اور تیسرے نام کی عید کا تصوّر تک نہیں ملتا۔البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات میں یومِ جمعہ کو عید بلکہ دونوں معروف عیدوں سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ بہر حال موقع ہونے اور کوئی امرِ مانع بھی نہ ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ خود جشن منانا،نہ اس کا حکم دینا،اس بات کا واضح ثبُوت ہے کہ یہ کوئی کارِخیر نہیں۔
Flag Counter