محدثین رحمہ اللہ اس حدیث پر بھی موضوع کا حکم لگاتے ہیں جوصحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہو اس میں بھی محدثین حدیث پر حکم متن نہیں بلکہ سند دیکھ کر لگاتے ہیں یہ بھی موضوع حدیث کی علامت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف ہوتی ہے۔اسی طرح موضوع حدیث بدہیات کے خلاف بھی ہوتی ہے جیسا کہ اس کی مثال سفینہ نوح والی روایت میں گزر چکی ہے۔(بدہیات یہ عام منطقی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے’’کہ عادت و فطرت اس کو قبول کرنے میں مانع ہو۔‘‘) مندرجہ بالا عبارات میں یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ محدثین کے اقوال سے مراد یہ نہیں جو حدیث عقل یا قرآن کے خلاف ہو وہ موضوع ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ موضوع حدیث عقل کے خلاف ہوتی ہے اور اس کے موضوع ہونے کا حکم راوی حدیث کے وضاع اور کذاب ہونے کی وجہ سے لگایا جاتا ہے اصول حدیث کی کتابوں میں جہاں کہیں اس طرح کی مثالیں بیاں کی گئی ہیں وہاں کسی بھی محدث نے دلیل کے طور پر صحیح سند سے مروی حدیث کو یہ کہہ کر رد کیا ہو کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے بلکہ یہ ضرور نقل فرمایا ہے کہ موضوع حدیث عقل کے خلاف ہوتی ہے اور دلیل کے طور پر کوئی روایت پیش کرکے اس کی سند پر کلام فرمایا ہے کہ اس کی سند میں فلاں راوی کذاب وغیرہ ہے لہٰذا یہ حدیث موضوع ہے اور موضوع حدیث عقل کے خلاف ہوتی ہے سوال۔محدثین کرام نے قرآن وحدیث سے استنباط کرکے حفاظت حدیث کے لئے جو اصول مرتب فرمائے ہیں کیا ان میں ترمیم کی جاسکتی ہے ؟ بالعموم یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جس طرح وہ اصول بناسکتے ہیں اسی طرح ہم بھی اصول مرتب کرسکتے ہیں ؟ جواب :۔اس اعتراض کا جواب دینے سے قبل یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اصول حدیث کیا ہیں،کیوں ہیں،اور کس لئے مرتب کئے گئے ہیں۔ |