یا تو مصنف کی عقل میں خلل ہے یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہے کہ جب حدیث عام ہوتی ہے تو اس کے متعلقات خود بخود اس میں داخل ہوتے ہیں حدیث میں قرأت کے واجب ہونے کا حکم عام ہے تو اس وجوب میں امام مقتدی منفرد سب داخل ہیں۔ مقتدی کو داخل کرنے کے لئے سینہ زوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ’انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا ہوگیا ہے کچھ لوگوں کو کہ اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اپنی نمازوں میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :باز آجائیں وہ لوگ اپنے اس عمل سے ورنہ ضرور ان کی آنکھوں کو اچک لیا جائے گا‘۔(صحیح بخاری کتاب الأذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ رقم الحدیث 750) اب اگر کوئی یہ کہے کہ حدیث کے الفاظ عام ہیں لہذا صرف مقتدیوں یا صرف ائمہ کے لئے ممانعت ہے باقیوں کو اوپر دیکھنے کی اجازت ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ اس کی عقل میں خلل ہے۔ (5) مصنف صفحہ 94پر رقمطراز ہے۔ ۔۔تو پھر معلوم ہوا کہ امام بخاری کا مذہب صرف فاتحہ خلف الامام نہ ہوا۔ ۔۔۔۔تو امام بخاری کا باب باندھنا ہی جھوٹ ہوا۔ ۔۔۔الخ (مزید لکھتا ہے اس کا قائل کوئی محدث نہیں ) جواب :۔ متکلم کی منشاء کومتکلم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اور فاتحہ کے بعد مقتدی کا خاموش رہنا دیگر احادیث سے ثابت ہے لہٰذا اعتراض حد درجہ فضول ہے۔ نہ معلوم کہ مصنف محدث سے مراد کسے لیتا ہیں اگر انہیں جنہیں ہم محدث مانتے ہیں تو ان کی بیان کردہ احادیث میں سے کچھ احادیث آپ کے سامنے ذکر کردی گئی ہیں۔اور اگر خود کو محدث سمجھتا ہیں تو ان کا مقام ہم بیان کرہی رہے ہیں۔ (6)مصنف صفحہ 95پر لکھتا ہیں :(ترجمہ حدیث )نہیں جائز نماز اس کی جو نہ قراء ت کرے ساتھ فاتحہ الکتاب کے۔ ۔۔۔۔۔آخر قراء ۃ الکتاب اور قراء ۃ بالکتاب کی ترکیب میں کافی فرق ہے۔ ۔۔۔با ء بمعنی مع ہوگی کہ ہر وہ نماز جس میں فاتحہ سمیت قراء ت نہ کی جائے۔ ۔۔۔الخ جواب :۔ |