{أَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ}[1] اوربلاشبہ ایسا کرنا سنگین ترین ممنوعہ باتوں میں سے ہے۔[2]
ب: اس بات کی سنگینی اور تردید کی غرض سے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
{وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدْجِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا۔ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا۔ أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ أَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا۔ إِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ إِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۔ لَقَدْ أَحْصٰھُمْ وَعَدَّھُمْ عَدًّا۔ وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا}[3]
[اور انہوں نے کہا، کہ رحمن نے کسی کو اپنی اولاد بنا رکھا ہے۔ بلاشبہ تم نے [یہ کہہ کر] بہت بھاری گناہ کیا ہے۔ قریب ہے، کہ اس کے اثر سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین میں شگاف پڑ جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر جائیں ، اس لیے کہ وہ لوگ رحمن کا لڑکا ثابت کرتے ہیں ۔ رحمن کے لیے یہ مناسب ہی نہیں ہے ، کہ وہ اپنے لیے کسی کو لڑکا بنائیں ۔ آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں ، وہ سب رحمن کے سامنے بندے کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔ انہوں نے ان سب کو خوب اچھی طرح گن رکھا ہے اور سب کے سب رو زِ قیامت ان کے روبرو تنہا آئیں گے۔]
شیخ سعدی نے اپنی تفسیر میں تحریر کیا ہے: ’’اس میں [حق سے ] عناد رکھنے والے اور اس کا انکار کرنے والے لوگوں کے قول کی خرابی اور بُرائی کا بیان ہے، جو یہ غلط گمان رکھتے ہیں ، کہ رحمن نے بیٹا بنایا ہے ، جیسا کہ نصرانیوں نے کہا: [مسیح۔ علیہ السلام ۔
|