غارت جائے گی ، اور وقار جاتا رہے گا۔ ‘‘[1]
۳: علامہ قرطبی رقم طراز ہیں : ’’ [یَھْدِيْ] سے مراد راہ نمائی کرنا اور پہنچانا ہے۔ [اَلْبِرّ] کا معنی عمل صالح یا جنت ہے ، اور [اَلْفُجُوْر] سے مقصود بُرے اعمال ہیں ، [عَلَیْکُمْ ] جوش دلانے کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں سے ہے اور یہ صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کناں ہے ، کہ اس کا کرنا لازمی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فرمان کو سمجھنے والے ہر شخص کے لیے ضروری ہے ، کہ وہ گفتار میں سچائی ، اعمال میں اخلاص اور احوال میں ستھرائی کو اختیار کرے۔ اور جو بھی ایسے ہو گا، وہ [الأبرار] میں شامل ہو جائے گا اور غفّار کی خوش نودی حاصل کر لے گا۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے والے تین [ صحابہ کرام] کے احوال کا تذکرہ فرماتے ہوئے اس سب کچھ کی طرف راہ نمائی فرما دی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} [2]
[اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔]
ممنوعہ جھوٹ کے بارے میں گفتگو سچ گوئی کے متعلق بیان کردہ بات کے برعکس ہے۔‘‘ [3]
ب: حضرات ائمہ احمد، بخاری، ابن ماجہ ، ابن حبان اور ابو یعلی الموصلی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ وہ فرماتے ہیں ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ ، فَإِنَّہُ مَعَ الْبِرِّ، وَھُمَا فِي الْجَنَّۃِ۔
|