Maktaba Wahhabi

87 - 234
البتہ جب کسی کا مال بلا استحقاق لے لیا گیا یا چھین لیا گیا، اور مال کے مالکوں تک اس کا پہنچانا کسی وجہ سے دشوار ہے مثلاً سلطانی مال کہ ایسا مال مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کرنا چاہئے جیسے جہاد، اور لڑائی کے مورچے﴿چوکیاں، چیک پوسٹیں، چھاؤنیاں﴾ وغیرہ قائم کرنے پر خرچ کیا جائے، یا مجاہدین اور جنگ کرنے والو ں پر خرچ کیا جائے تو یہ نیکی و تقویٰ کی اعانت و امداد ہو گی، کیونکہ سلطان﴿حاکم وقت﴾ پر واجب و لازم ہے کہ اس قسم کا مال جبکہ اصل مالکوں کی وجہ سے نہ پہنچا سکے، اور نہ دے سکے، اور اس کے وارثوں کو نہ دے سکے تو سلطان کا فرض ہے کہ اگر اسی نے ظلم کیا ہے تو پہلے توبہ کرے، اور پھر مال کو مسلمانوں کی مصلحتوں پر مسلمانوں کے کاموں میں خرچ کرے، اور یہ جمہورعلماء کا قول ہے، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں، اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا منقول ہے، اور شرعی دلائل بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ منصوص ہے۔ اگر وہ مال دوسروں نے لے لیا ہے توسلطان کا فرض ہے کہ وہ اس مال کو اسی طرح خرچ کرے، اگر وہ مال جو سلطان نے کسی وجہ سے اصل مالک کو نہ دیا ہو تو مالک مال کی مصلحتوں پر خرچ کرنے میں اعانت کرے، کیونکہ مال ضائع کرنے کے مقابلہ میں مسلمانوں کی مصلحتوں میں خر چ کرنا اولیٰ اور بہتر ہے، اس لیے کہ شریعت کا دارو مدار اللہ کے اس قول پر ہے: فَاتَّقُواللّٰه مَا اسْتَطَعْتُمْ(تغابن:16) مسلمانو! جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اَللّٰه حَقَّ تُقَاتَہٖ(آل عمران:102) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ کی تفسیر کرتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر دارو مدار ہے: اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِاَمرٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ(اخرجاہ فی الصحیحن) جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو تم اپنی طاقت کے مطابق اُسے انجام دو۔ اور اس قول پر دارومدار ہے، ’’مصالح کی تحصیل و تکمیل کرنا‘‘۔ اور مفاسد کو کلیۃً دور کرنا یا کم کرنا واجب و ضروری ہے۔
Flag Counter