تھے۔ اس طرح جس طرح کسی کے میراث و ترکہ غصب کر لیا جاتا ہے، اور پھر اُسے واپس دلوایا جاتا ہے۔ اگر چہ اس سے پیشتر وہ دوسروں کے قبضے میں تھا۔ اس کا قبضہ نہیں تھا، یا جس طرح کہ یہود و نصاریٰ سے جزیہ لیا جاتا ہے، یا جس سے دشمن کے ساتھ صلح کی جاتی ہے، یا وہ مال جو سلطان کو غیر مسلموں سے ہدیہ میں ملتا ہے، یا جس طرح کہ نصاریٰ وغیرہ آبادیوں سے گزرتے وقت سواری کا انتظام کیا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض! یہ کہ مالِ فئے مسلمانوں کے لیے حلال و جائز کر دیا۔ تاکہ مسلمان اس مال سے قوت حاصل کریں۔ اور اللہ کی عبادت کیا کریں۔ اور سوداگران اور تجار اہل حرب سے جو کچھ لیا جاتا ہے، وہ مال کا دسواں حصہ یعنی عشر ہے۔ اگر یہ سوداگر ذمّی ہیں اور اپنی آبادیوں سے نکل کر دوسروں کی آبادیو ں میں تجارت کرتے ہیں تو ان سے نصف عشر یعنی بیسواں حصہ لیا جائے، خلیفہ ٔدوم سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اور وہ مال بھی اس میں داخل ہو گا جو عہد شکنی کرنے والوں سے لیا جاتا ہے۔ اور خراج کا مال بھی اس میں شامل ہوگا، جو کفار پر لاگو کیا گیا ہے، اگر چہ اس میں سے کچھ حصہ بعض مسلمانوں پر بھی لاگو ہو جائے گا۔(اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے کافر کے پاس کوئی زمین تھی اور اب وہ مسلمان کے پاس آگئی تو اصل چونکہ خراجی زمین ہے، مسلمان پر بھی وہی خرا ج ہو گا، جو اصل زمین پر مقرر کیا گیا تھا)۔ اور پھر یہ کہ مالِ فئے کے ساتھ ہمہ قسم کا مال جمع کر دیا جائے گا، اور جس قدر بھی سلطانی مال ہے وہ سب مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا، مثلاً وہ مال جس کا کوئی مالک نہیں، اور اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان فوت ہو گیا اور اس کا کوئی وارث نہیں ہے، یا مالِ مغصوب، یا مال عاریت یا مال ودیعت کہ جن کے مالکوں کا پتہ نہیں اور یہ مال زمین ہے یا مال منقولہ، اور اس قسم کے دوسرے مال، یہ سب کا سب مال مسلمانوں کا ہے۔ اور بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا ۔ اور قرآن مجیدمیں صرف مال فئے کا ذکر ہے، دوسرے مال کا ذکر نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جس قدر اموات ہوئیں ان کے وارث موجود تھے۔ صحابۂ کرام ث کا نسب سب کو معلوم تھا۔ |