Maktaba Wahhabi

39 - 234
اور اسی معنی کے اعتبار سے تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یتیم کا والی و وصی﴿پرورش کرنے والا﴾ ناظر اوقاف﴿دیکھ بھال کرنے والا﴾ اور کسی آدمی کا کوئی وکیل ہو، اور اسکے مال میں تصرف کرے تو الاصلح فالاصلح(یعنی زیادہ اہل پھر اس سے کم مرتبہ اہلیت والا) کے اصول کے تحت تصرف کرے جیسااللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ الَِّابِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ(انعام:152) یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو احسن ہو یعنی سب سے اچھا ہو۔ اس آیت میں اللہ تعا لیٰ نے یہ نہیں فرما یا ’’بِالَّتِیْ ھِیَ حَسَنَۃٌ‘‘ یعنی اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، اور یہ اس لیے کہ والی اور حاکم ایسا ہی لوگوں کا راعی﴿یعنی ذمہ دار﴾ ہے جیسا کہ بکریوں کا راعی﴿چرواہا ذمہ دار﴾ ہوا کرتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِی بَیْتِ زَوْجِھَا وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْ رَاعِیَّتِھَا وَ الْوَلَدُ رَاعٍ فِیْ مَالِ اَبِیْہٖ وَھُوَ مَسْئُولٌ عِنْ رَ عِیَّتِہٖ وَ الْعَبْدُ رَاعٍ فِیْ مَالِ سَیِّدِہٖ وَ ھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ اَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ(بخاری و مسلم) تم میں سے ہر ایک راعی﴿ذمہ دار حاکم﴾ ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا، پس حاکم وقت لوگوں کا، راعی﴿ذمہ دار﴾ ہے اور اس سے اپنی رعیت﴿رعایا اور عوام الناس﴾ کا سوال ہو گا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی راعی﴿ذمہ دار﴾ ہے اور اس سے اپنی رعیت(یعنی گھر کی ذمہ داری) کا سوال ہو گا، اور بیٹا اپنے باپ کے مال کا راعی ہے، اور اس سے اپنی رعیت کا سوال ہو گا۔ اور غلام اپنے سیّد و آقا اور مالک کے ما ل کا راعی ہے اور اس سے اپنی رعیت(یعنی مال کے خرچ) کا سوال ہو گا۔ خبردار رہو کہ تم میں سے ہر ایک راعی﴿ذمہ دار حاکم﴾ ہے اور ہر ایک سے اپنی رعیت کا سوال ہو گا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَا مِنْ رَاعٍ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰه رَعِیَّۃً یَمُوْتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ ھُوَ عَاشٍ لَھَا اِلاَّ حَرَّمَ اللّٰه ُ
Flag Counter