جمہور علماء اہل حجاز اور اہل حدیث کا یہی مسلک ہے۔ مثلاً امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ وغیرہ اور بعض علماء کا قول ہے: قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنے کانصاب ایک دینار یا دس درہم ہے۔ اور صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے مجن(ڈہال) کی چوری میں جس کی قیمت تین درہم تھی ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا ہے اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں: قَطَعَ سَارِقًا فِیْ مَجَنٍّ قِیْمَتُہ‘ ثَلَاثَۃَ دَرَاھِم ۔(رواہ مسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کی چوری میں جس کی قیمت تین درہم تھی ایک چور کا ہاتھ کاٹا۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قَطْعُ الْیَدِ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارِ فَصَاعِدًا چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جائے۔ صحیح مسلم کی روایت یہ ہے: لَا تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ اِلَّا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا چور کا ہاتھ اُس وقت تک نہ کاٹا جائے جب تک کہ ربع﴿¼﴾ دینار یا زائد نہ چرائے بخاری کی ایک روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِقْطَعُوْا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارِ وَلَا تَقْطَعُوْا فِیْمَا دُوْنَ مِنْ ذَالِکَ ربع(چوتھائی) دینار میں ہاتھ کاٹو، اس سے کم میں نہ کاٹو۔(رواہ البخاری) اس وقت ربع دینار کی قیمت تین درہم کے برابر ہوا کرتی تھی اور دینار کی قیمت بارہ درہم ہوا کرتی تھی۔ اور چور کو اس وقت تک چور نہیں کہا جاتا تھا کہ مال حفاظت میں رکھا ہوا نہ چرائے۔ جو مال کہ ضائع شدہ ہے، یا جنگل میں بلا احاطہ اور چار دیواری کے اس میں درخت لگے ہیں اور اس پر سے پھل پھول لیے جائیں یا جو چوپایہ بغیر چوپان کے ہو، اس کے مثل میں ہاتھ نہ کاٹا جائے لیکن لینے والے کے لیے تعزیر ضرور ہو گی۔ اور ڈبل جرمانہ دلوایا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ اور اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ زیادتی کتنی دلوائی جائے۔ اور یہی قول امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے۔ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: |