Maktaba Wahhabi

54 - 532
جگہ سے پکارے جارہے ہیں۔ قرآن کریم انہیں ہدایت کی راہ اور صراط مستقیم کی رہنمائی کرتا ہے اور ایسے نفع بخش علوم سکھاتا ہے جس سے مکمل ہدایت حاصل ہوتی ہے،وہ ان کے لئے دلوں کی بیماریوں سے شفا ہے،کیونکہ وہ انہیں برے اخلاق سے توبیخ کرتا اور اس توبۂ نصوح(خالص توبہ)کی رغبت دلا تا ہے جو ان کے گناہوں کو دھوتا اور دلوں کو شفا عطاکرتا ہے،رہے وہ لوگ جو قرآن پر ایمان نہیں لاتے تو ان کے کانوں میں قرآن کی سماعت سے بہرا پن اور اعراض ہے اور وہ ان کے لئے اندھے پن اور تاریکی کا سبب ہے،اس لئے انہیں اس سے ہدایت نظر نہیں آتی اور وہ راہ یاب نہیں ہوتے،بلکہ اس سے مزید ان کی گمراہی میں اضافہ ہی ہوتا ہے،کیونکہ جب انھوں نے حق کو ٹھکرا دیا توان کے اندھے پن اور گمراہی میں مزید اضافہ ہوگیا،اور انہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ نہیں سنتے‘ بعینہ اس شخص کی طرح جسے بلایا جائے اور آواز دی جائے دراں حالیکہ وہ دور ہو تو وہ نہ ہی بلانے والے کی آواز سنے اور نہ ہی آواز لگانے والے کی جانب متوجہ ہو،مقصود یہ ہے کہ جو لوگ قرآن پر ایمان نہیں لاتے ہیں وہ اس کی ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھاتے،نہ اس کی روشنی سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے کسی خیر وبھلائی کا استفادہ ہی کرپاتے ہیں،کیونکہ انھوں نے اپنے کفر واعراض کے سبب خود ہی اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کرلئے ہیں[1]۔ آیت کریمہ کے شروع میں اللہ کے ارشاد﴿وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا﴾کے سلسلہ میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کا میلان یہ ہے کہ اس میں ’’روح‘‘ سے مراد قرآن کریم ہے،نیز حافظ ابن کثیر اور علامہ سعد ی رحمہما اللہ کے نزدیک قطعی بات یہی ہے،اور کہا گیا ہے کہ یہاں ’’روح‘‘ سے مراد نبوت ہے،اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ’’رحمت‘‘ ہے نیز کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ’’وحی‘‘ ہے[2]۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’یعنی ہم نے اس روح کو ایک ایسا نور
Flag Counter