بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ بے شعوری میں بدعات و گمراہی اور ہلاکت انگیز امور میں جاواقع ہوتا ہے‘ اور یہ تاریکی قوی تر ہوتی ہے یہاں تک کہ آنکھ میں ظاہر ہوتی ہے ‘ پھر اور قوی ترہوتی ہے یہاں تک کہ چہرے پر چھاجاتی ہے ‘ الغرض اس کی ذات میں ایسی تاریکی پیدا ہوجاتی ہے کہ ہر شخص کو نظر آتی ہے[1]۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’نیکی چہرے پر روشنی‘دل میں نور‘روزی میں وسعت‘جسم میں قوت اور مخلوق کے دلوں میں محبت(کاسبب)ہوتی ہے‘ اور بدی چہرے پرسیاہی‘ دل میں تاریکی‘ جسم میں کمزوری‘روزی میں کمی اور مخلوق کے دلوں میں بغض و نفرت(کا سبب)ہوتی ہے‘‘[2]۔
(5)گناہ دل کوکھوکھلا اور کمزور کردیتا ہے:
رہی دل کی ناتوانی تو گناہ اسے کھوکھلا کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ مکمل طورپر اس کی زندگی ختم کردیتے ہیں[3]۔
اور جہاں تک دل کو کمزور کرنے کی بات ہے تو گناہ اسے(درج ذیل)طریقوں سے کمزور کرتے ہیں:
(الف)بندے کے دل میں اللہ جل جلالہ کی عظمت و وقار کو کمزور کردیتے ہیں ‘ اور بندہ چاہے یا نہ چاہے ایسا ہونا ہی ہے،اگر اللہ کی عظمت و وقار بندے کے دل میں پیوست ہوتی تو وہ اللہ کی نافرمانیوں کی جرأت ہی نہ کرتا‘کیونکہ بندے کے دل میں اللہ کی جلال و عظمت کا وجود اللہ کے حرمات کی تعظیم و توقیر کامتقاضی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ﴾[4]۔
یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے۔
بندے کے دل میں اللہ کے حرمات کی تعظیم بندے اور اس کے گناہوں کے درمیان حائل ہوجاتی ہے[5]۔
(ب)گناہ بندے کے دل میں خیر کے ارادہ کو کمزور اور گناہ کے ارادہ کو مضبوط بنادیتا ہے،چنانچہ اس کے
|