ان لوگوں کی طرح جو تم سے پہلے تھے ‘ وہ تم سے زیادہ قوت والے اور زیادہ مال و اولاد والے تھے تو انھوں نے اپنے دنیوی نصیبہ سے فائدہ اٹھا لیا تو تم نے بھی اپنے حصہ سے فائدہ اٹھا لیا جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے لطف اندوز ہوئے تھے اور تم بھی اسی طرح دنیا میں مست ومگن رہے جس طرح وہ مست رہے تھے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:’’یعنی انھوں نے دنیا اور دنیا کی رنگینیوں سے اپنے حصہ کا لطف اٹھالیا‘ اور﴿خلاق﴾کے معنیٰ مقدر کردہ نصیبہ کے ہیں‘ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا﴾یعنی تم اسی طرح دنیا میں مست ومگن رہے جس طرح وہ مست رہے تھے‘یہ باطل یعنی شبہات میں پڑنا ہے۔چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ان چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا جن سے دلوں اور دینوں کی بربادی ہوتی ہے،یعنی دنیوی ساز وسامان میں مست و مگن رہنا اور اور باطل میں پڑنا‘ کیونکہ دین کی خرابی یاتو باطل اعتقاد اور اس کے پرچار کرنے یا صحیح علم کے خلاف عمل کرنے سے ہوتی ہے،پہلی چیز بدعت اور اس کے متعلقات ہیں اور دوسری چیز اعمال کی خرابی ‘ چنانچہ پہلی خرابی شبہات کی جانب سے جبکہ دوسری خرابی خواہشات نفس کی جانب سے ہوتی ہے[1]۔
شبہات کے فتنہ کو یقین سے اور خواہشات نفس کے فتنہ کو صبر کے ذریعہ دفع کیاجاتا ہے،اسی لئے اللہ عزوجل نے دین کی امامت صبر و یقین پر موقوف قرار دیا ہے‘ ارشاد باری ہے:
﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ(٢٤)﴾[2]۔
اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے‘ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
معلوم ہواکہ صبر ویقین سے دین میں امامت حاصل ہوتی ہے،چنانچہ عقل و صبر کے کمال سے شہوت کے فتنہ کا اور بصیرت و یقین کے کمال سے شبہات کے فتنے کا مقابلہ کیا جاتا ہے[3]۔
|