Maktaba Wahhabi

360 - 532
بدعت کا وقوع ہوجاتا ہے،خوا ہ اسے حرام سمجھا جائے یا نہ سمجھاجائے،کیونکہ کسی چیز کو جو شرعاً حلال اور جائز ہے،اگر انسان اسے اپنے اوپر حرام کرلے یا قصداً ترک کردے تو اس کا یہ ترک کرنا دو صورتوں سے خالی نہ ہوگا،یا تو اس کا کوئی شرعی جواز ہوگا،یا اس کے برعکس،اب اگر اس کا کوئی شرعی جواز ہے تو اسے ترک کرنے میں ادنیٰ حرج نہیں،کیونکہ یہ چیز تو شرعاً جائز اور مطلوب امر ہے،جیسے کوئی شخص کسی خاص قسم کے کھانے کو اس لئے ترک کردے کہ وہ کھانا اس کے جسم یا عقل یا دین کے لئے کسی بھی حیثیت سے ضرررساں ہے،تو اس میں کوئی حرج نہیں،بلکہ یہ تو ضرررساں امور سے حفظان(بچاؤ)کے قبیل سے ہے،جس کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج،فإنہ أغض للبصر وأحصن للفرج،ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم؛ فإنہ لہ وجائ‘‘[1]۔ اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جسے شادی کی طاقت ہو اسے چاہئے کہ شادی کرلے،کیونکہ وہ نگاہوں کو زیادہ پست کرنے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے،اور جسے شادی کی استطاعت نہ ہو،وہ روزہ رکھے،کیونکہروزہ اس کے لئے گناہوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح اگر حرج والے کاموں سے بچنے کے لئے غیر حرج والے کاموں کو بھی ترک کردے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں،کیونکہ یہ حرام میں وقوع کے خوف سے اور دین و آبرو کی حفاظت کی خاطر شبہات سے اجتناب کے قبیل سے ہے۔ اور اگر ترکِ عمل کسی اور غرض کے لئے ہو تو بھی دوصورتوں سے خالی نہیں،یا تو دینی نقطہ ٔ نظر سے ہوگا،یا غیر دینی نقطہ ٔ نظر سے،اب اگر غیر دینی نقطہ ٔ نظر سے یونہی اس کا تارک ہے،تو اس کو حرام سمجھنا یا قصداً انجام نہ دینا لغو اور عبث کام ہے،لیکن اس صورت میں اسے بدعت کی عمومی تعریف میں شامل نہ ہونے کے سبب بدعت نہ کہا جائے گا،البتہ ان لوگوں کی تعریف کے مطابق ضرور کہا جائے گا جو عادات میں بھی بدعت کے
Flag Counter