Maktaba Wahhabi

407 - 670
شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے بچے کا حکم: سوال:ایک آدمی نے کسی بالغہ کنواری لڑکی سے شادی کی اور اس سے دخول کیا تو اس کو واقعتاً کنواری ہی پایا ،پھر اس لڑکی نے مرد کے دخول کے چھ مہینے کے بعد بچے کو جنم دیا، کیا اس بچے کو اس آدمی کے ساتھ منسوب کیا جائے گا ؟کیونکہ خاوند نے قسم اٹھائی کہ یہ بچہ اسی کے نطفے سے ہے اگر ایسا نہ ہوتو اس کی بیوی کو طلاق ہو۔ تو کیا اس کے ساتھ طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟اور بچہ بھی ٹھیک ٹھاک صحیح الخلقت ہے اور کئی سال کا ہو چکا ہے، جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجورہوں ۔ جواب:جب اس نے خاوند کے دخول کے چھ مہینے کے بعد بچے کو جنم دیا، چاہے ایک لحظہ ہی چھ مہینے سے زیادہ ہو تو ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ بچہ اس دخول کرنے والے باپ کی طرف ہی منسوب ہوگا، اسی طرح کا ایک واقعہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چھ مہینے کا صحیح بچہ ہونے پر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو دلیل بنایا: "وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا" (الاحقاف:15) "اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔" اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ساتھ ملایا: "وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ "(البقرۃ:233) "اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔" جب آیت میں مذکورہ تیس مہینوں کی مدت سے دو سال مدت رضاعت نکالی جائے تو حمل چھ مہینے کا ہوتا ہے، پس آیت مذکورہ میں حمل کی کم از کم مدت اور رضاعت کی کامل مدت کو جمع کیا گیا ہے۔ اور اگر وہ اس بچے کو اب اپنی طرف منسوب نہیں کر رہا تو اس کے گزشتہ اقرارکا کیا بنے گا جو اس نے بچے کو اپنے ساتھ منسوب کرنے کے حوالے سے کیا ہے؟بلکہ اگر وہ کسی مجہول النسب بچے کو بھی اپنے ساتھ منسوب کر لے اور کہے کہ بلا شبہ وہ میرا بیٹا ہے تو مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ بچہ اس کی طرف منسوب ہو جائے گا ۔جب اتنی مدت کے
Flag Counter