کٹوائی اور میں کدو کی طرح صاف کرکے رکھتا ہوں۔ یہ تضاد اور تعارض قول و فعل میں اسی وقت رونما ہوتا ہے جب عقل اپنی خوراک قرآن وسنت محروم ہو جاتی ہے پھر وہ روز روشن کی طرح عیاں دلائل کے سامنے بودے بیت العنکبوت(مکڑی کے جالے) کی مانند دلائل لاتا ہے ۔ آخر میں تمام مسلمان بھائیوں سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ غیرت ایمانی کو بلند کریں اور اس داڑھی کے زیور کے ساتھ اپنے اور اپنے بیٹوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کے چہروں کو مزین کریں شاید کہ یہی زیور قیامت کے دن اے مسلمان! تیری نجات کا سبب بن جائے اور اس کا انکار جہنم کا سبب بن جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((کُلُّ اُمَّتِی یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ اَبَیٰ قَالُوا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَنْ یَاْبَیٰ؟ قَالَ: مَنْ اَطَاعَنِی دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ اَبَیٰ))[1] ’’میری ساری اُمت جنت میں جائے گی مگر جس نے جنت میں جانے سے انکار کر دیا، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جنت میں جانے سے کون انکار کرے گا؟ تو فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور جس نے نافرمانی کی تو اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔‘‘ اس لیے حیلے بہانے چھوڑو اور سنت نبوی کو چہرے پر سجاؤ۔ یاد رکھنا ! اگر آج تمہارا ایمان چند گرام بالوں کا وزن چہرے پر نہیں اٹھا سکتا تو شاید وہ تمہارے گناہوں کو اٹھا کر پل صراط بھی پار نہ کر سکے۔ اے وہ مسلمان! جو یہ بہانے لگاتا ہے کہ داڑھی رکھنے سے اس کی بیوی ناراض ہو گی یا منگیتر ناخوش ہو گی، یا رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ ذرا سوچ جس کی بیوی سے اس کا رسول ہار جائے اس کے ایمان کا کیا حال ہے؟ اور جس رشتے میں یہ شرط ہو کہ کھتری کا چہرہ، یہودی ومجوسی کا چہرہ آئے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لے کر بارات نہ آئے۔ ذرا سوچ! تو کسی |