کی عادت نہیں تھی بلکہ یہ فطرت الٰہی، سنت انبیاء اور دین ہے۔ داڑھی نہ رکھنا مشرکوں ، یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں اور بے دین لوگوں کا فعل ہے۔یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت فعلی نہیں بلکہ قولی و حکمی بھی ہے۔ میرے مسلمان بھائی! یہ تھا نبوی فعل او رقول، آیئے ذرا دیکھیں کہ نبوی تقریر (اقرار یا انکار) بھی داڑھی کو لا گو کرتی ہے یا نہیں۔ چنانچہ 1۔ عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں : ((جَائَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجُوسِ اِلَیٰ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَقَدْ حَلَقَ لِحْیَتَہٗ وَاَطَالَ شَارِبَہٗ فَقَالَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم :مَا ھٰذَا؟ قَالَ: ھٰذَا دِینُنَا، قَالَ: لٰکِنْ فِی دِینِنَا اَنْ نَجُزَّ الشَّوَارِبَ وَاَنْ نَعْفی اللَّحِیٰ))[1] ’’ایک مجوسی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے اپنی داڑھی مونڈھی ہوئی تھی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ کیا ہے؟ کہنے لگا: یہ ہمارا دین ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ہم مونچھیں کاٹتے ہیں اور داڑھیاں بڑھاتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کی تابعی تک سند کے سب راوی ثقہ اور معتبر ہیں اور یہ روایت اگرچہ مرسل ہے لیکن متابعت اور شہادت کے لیے کافی ہے کیونکہ اس کے لیے ایک اور مرسل شاہد ہے جس کو امام حارث بن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے (المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ2/ 374 باب احفاء الشوارب وتوفیر اللحیۃ من کتاب اللباس) میں ذکر کیا ہے۔ 2۔ عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے : ((جَائَ مَجُوسِیُّ اِلَیٰ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَدْ اَعْفَیٰ شَارِبَہٗ وَاَحْفَیٰ لِحْیَتَہٗ فَقَالَ: مَنْ اَمَرَکَ بِھٰذَا؟ قَالَ: رَبِّی، قَالَ : لٰکِنْ رَبِّی اَمَرَنِی |