’’گھوڑے کی رسّی کو لمبا کیا اور پردے کو لٹکایا۔‘‘ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : (( ومعناہ اترکو ولا تتعرضوا لھا بتغییر۔)) ’’ اس کا معنی ہے کہ داڑھیوں کو چھوڑ دو ان میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کی جسارت نہ کرو۔‘‘ مذکورہ بالا احادیث میں چار طرح کے الفا ظ سے حکم وارد ہوا ہے وَفِّرُوا،اعْفُوا، اَوْفُوا،اَرْخُوااور بعض روایات میں اَرْجُوا کا لفظ بھی آیا ہے۔ امام نووی، قاضی عیاض سے نقل کرتے ہیں :(ومعناہ اَخّروھا واتر کوھا) یعنی ان کو چھوڑ دو اور مؤخر کر دو۔ پھر امام نووی فرماتے ہیں : ((فحصل خمس روایات: اعفوا واوفروا وارخوا وارجوا ووفروا و معناھا کلھا ترکھا علی حال ، ھذاھو الظاہر من الحدیث الذی یقتضیہ الفاظہ)) ’’جملہ پانچ الفاظ جو کہ پانچ روایات میں،آئے ہیں، ایک میں اَعْفُوا دوسری میں اَوْفُوا تیسری میں اَرْخُوا چوتھی میں اَرْجُوا پانچویں میں وَفِّرُوا ہے ان سب کا معنی یہی ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ اور یہ بھی ان احادیث میں واضح ہے کہ داڑھی کا معاف نہ کرنا اور اس کو اس کے حال پر نہ چھوڑنا مشرکوں اورمجوسیوں کا کام ہے لیکن پھر بھی اگر کوئی مسلمان اس کو اپنے چہرے پر بوجھ تصور کرے تو گویا اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر میں گستاخی کی اور اس کو غلط گردانا اور جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر میں خطا تصور کرتا ہے وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتا ہے، چنانچہ کسی نے کیا خوب کہا تھا: رسول کے امر میں جو خطا پائے گا وہ ظالم دیوانہ کدھر جائے گا |