تمہارے پروردگار کی قسم ہم ان کو جمع کریں گے اور شیطانوں کو بھی پھر ان سب کو جہنم کے گرد حاضر کریں گے اور وہ گھٹنوں کے بل گر رہے ہوں گے۔ ۭوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ [1] اور بخل ہر نفس میں موجود ہے۔ وَاِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْـضَرُوْنَ 32ۧ [2] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے۔ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ 75 [3] اور وہ ان کی فوج ہوکر حاضر کئے جائیں گے۔ تو ان قرآنی نصوص کے مطابق حاضر کا معنی ہوا(یہاں ہمارے پاس موجود) ایسا عقیدہ اہل سنت کا نہیں ہے بلکہ صوفیوں کا ہے جیسا کہ کتاب کے شروع میں سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا تھا۔ سید اتباع التابعین امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : کیف نعرف ربنا؟قال بانه فوق السماء السابعة علی العرش بائن من خلقه ہم اپنے رب کو کیسے پہچانیں؟فرمایا (اس طرح پہچانو کہ )وہ ساتوں آسمانوں کے اورپر عرش پر ہے اور مخلوق سے الگ ہے۔ امام عثمان بن عبداللہ الدارمی رحمہ اللہ نے مذکور قول کتاب الرد علی الجہیمہ ص 23پر اس سند سے ذکر کیا : قال حدثنا الحسن بن الصالح البزار ثنا علی بن الحسن بن شفیق عن المبارك الخ |