مثنی بن بشیر نے کہا کہ ابوعبداللہ مروزی اہل خراسان کے ایک شیخ کے ہاں گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس نے روشنی کے لیے سبز رنگ کی مٹی کا چراغ جلایا ہوا ہے تو شیخ نے اس سے کہا بخدا تمہارے ہاتھوں کبھی کوئی اچھا کام نہ ہوا، میں نے تمہیں پتھر کا چراغ لانے پر ملامت کی تھی اور تم نے اس کا ازالہ مٹی کے چراغ سے کیا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ مٹی اور پتھر دونوں بڑی بری طرح تیل کو جذب کرتے ہیں اس شخص نے کہا کہ میں آپ کے قربان جاؤں ۔میں نے یہ چراغ اپنے ایک تیلی دوست کو دیا تھا اس نے اسے مہینہ بھر تیل صاف کرنے کے برتن میں ڈالے رکھا یہ تیل میں اس درجہ تر ہوچکا ہے کہ اب اسے مزید تیل جذب کرنے سے روکنے کا آسان نسخہ ہے جو تم نے آزمالیا ہے لیکن تمہیں معلوم ہے کہ چراغ میں آگ کی جگہ بتی کے پاس ہوتی ہے جہاں ہروقت آگ کا شعلہ ہوتا ہے جس سے وہ جگہ خشک ہوتی رہتی ہے جب بھی وہ جگہ تیل سے تر ہو جاتی ہے تو آگ جلنے کے بعد دوبارہ اسے خشک کردیتی ہے اور یہ اس کا مستقل عمل ہے اگر تم اس بات کا اندازہ کرتے کہ یہ جگہ کتنا تیل چوستی ہے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ جتنا تیل بتی کے چوسنے میں خرچ ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ خشک ہوکر ضائع ہوتا ہے۔(کتاب البخلاء از ابوعثمان عمروبن بحر الجاحظ) سید محمد جعفری اور شوکت تھانوی کراچی کی ایک شاہراہ سے گزر رہے تھے سڑک کے کنارے جراثیم کش تیل کی شیشیاں پکڑے ایک شخص کھڑا آواز لگا رہا تھا....’’کھٹمل مارو،پسو مارو۔‘‘ شوکت تھانوی چلتے چلتے رک گئے اور جعفری صاحب سے کہنے لگے: ’’سن رہے ہیں شاہ صاحب! یہ شخص قادیانی لگتا ہے جو ہم دونوں کے |