Maktaba Wahhabi

134 - 393
بارے میں فیصلہ فرمایا، جس نے اس کے شوہر کے ساتھ یہ شرط رکھی تھی کہ وہ اسے بھی کچھ دے گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ فرمایا کہ یہ بھی اس کے مہر میں شامل ہے۔ [1] حافظ ابن ابی شیبہ نے امام اوزاعی سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے ایک ہزار دینار کے بدلے اپنی بیٹی کا رشتہ دیا اور یہ شرط عائد کی ایک ہزار دینار اسے بھی دیا جائے، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ باپ کی بجائے یہ دو ہزار دینار عورت ہی کو دیئے جائیں۔ [2] امام عبدالرزاق نے عطاء سے روایت کیا ہے کہ جو عورت نکاح کرے اور وہ اپنے شوہر سے یہ شرط طے کرلے کہ اس کی بھائی، اس کی ماں اور اس کے باپ کی اس قدر عزت افزائی کی جائے، تو انھوں نے فرمایا کہ یہ بھی اس کا مہر ہی ہوگا، اگر اس سلسلہ میں وہ کوئی بات کرے، تو وہ اس کی زیادہ مستحق ہے، اگر شوہر اسے طلاق دے دے تو اسے اس سب کچھ کا نصف ملے گا اور اگر اس کے ورثاء مہر کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کریں، تو انھیں اس کا حق حاصل نہیں ہے۔ [3] امام ابن قدامہ رحمہ اللہ ’’ المغنی ‘‘ میں اس مسئلہ کے بارے میں ائمہ کرام کی آراء نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عطاء، طاؤس، عکرمہ، عمر بن عبدالعزیز، ثوری اور ابوعبید رحمہم اللہ علیہم کا قول ہے کہ یہ سب کچھ عورت کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر وہ ایسا کرے، تو عورت کو مہر مثل ملے گا، نام لینا فاسد ہوجائے گا کیونکہ اس شرط فاسد کی وجہ سے مہر میں کمی ہوجائے گی۔ ‘‘ امام احمد رحمہ اللہ نے اگرچہ لینے کو جائز قرار دیا ہے لیکن مطلق نہیں بلکہ دو شرطوں کے ساتھ …(۱)کہ باپ کے علاوہ کوئی اور لے، ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ شرط اولیاء میں سے باپ کے علاوہ کوئی اور لگائے مثلاً دادا، بھائی اور چچا تو یہ شرط باطل ہے، امام احمد سے اس بارے میں نص
Flag Counter