Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الفاتحة
2 ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے الفاتحة
3 جو رحمت والا ہے اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کر رہی ہے الفاتحة
4 جو اس دن کا مالک ہے جس دن کاموں کا بدلہ لوگوں کے حصے میں آئے گا الفاتحة
5 (خدایا !) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں) مدد مانگتے ہین الفاتحة
6 (خدایا) ہم پر (سعادت کی) سیدھی راہ کھول دے الفاتحة
7 وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تو نے انعام کی۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے الفاتحة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے البقرة
1 الف۔ لام۔ میم۔ البقرة
2 یہ الکتاب ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ متقی انسانوں پر (سعادت کی) راہ کھولنے والی البقرة
3 (متقی انسان وہ ہیں) جو غیب (کی حقیقتوں) پر ایمان رکھتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہے اسے (نیکی کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں البقرة
4 نیز وہ لوگ جو اس (سچائی) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو تم پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل ہوئی ہے اور ان تمام (سچائیوں پر) جو تم سے پہلے (یعنی پیغمبر اسلام سے پہلے) نازل ہوچکی ہیں اور (ساتھی ہی) آخرت (کی زندگی) کے لیے بھی ان کے اندر یقین ہے البقرة
5 تو یقیناً یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے (ٹھہرائے ہوئے) راستہ پر ہیں اور یہی ہیں ( دنیا اور آخرت میں) کامیابی پانے والے البقرة
6 (لیکن) وہ لوگ جنہوں نے (ایمان کی جگہ) انکار کی راہ اختیار کی (اور سچائی کے سننے اور قبول کرنے کی استعداد کھودی) تو (ان کے لیے ہدایت کی تمام صدائیں بیکار ہیں) تم انہیں (انکار حق کے نتائج سے) خبرار کرو یا نہ کرو وہ ماننے والے نہیں البقرة
7 ان کے دلوں اور کانوں پر اللہ نے مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا سو (جن لوگوں نے اپنا یہ حال بنا لیا ہے) وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتے۔ کامیابی کی جگہ، ان کے لیے عذاب جانکاہ ہے البقرة
8 (ان دو قسم کے آدمیوں کے علاوہ) کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مومن نہیں البقرة
9 وہ (ایمان کا دعوی کرکے) اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، حالاکہ وہ خود دھکوے میں پڑے ہیں اگرچہ (جہل و سرکشی سے) اس کا شعور نہیں رکھتے البقرة
10 ان کے دلوں میں (انکار کا) روگ ہے۔ پس اللہ نے (دعوت حق کامیاب کر کے) انہیں اور زیادہ روگی کردیا اور ان کے عذاب جانکاہ ہوگا اس لیے کہ اپنی نمائش میں سچے نہیں البقرة
11 جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں خرابی نہ پھیلاؤ (اور بدعملیوں سے باز آجاؤ) تو کہتے ہیں (ہمارے کام خرابی کا باعث کیسے ہوسکتے ہیں) ہم تو سنوارنے والے ہیں۔ البقرة
12 یاد رکھو یہی لوگ ہیں جو خرابی پھیلانے والے ہیں اگرچہ (جہل و سرکشی سے اپنی حالت کا) شعور نہیں رکھتے البقرة
13 اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ایمان کی راہ اختیا کرو جس طرح اور لوگوں نے اختیار کی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح (یہ) بے وقوف آدمی ایمان لے آئے ہیں (یعنی جس طرح ان لوگوں نے بے سروسامنی و مظلومی کی حالت میں دعوت حق کا ساتھ دیا اسی طرح ہم بھی بے وقوف بن کر ساتھ دے دیں؟) یاد رکھو فی الحقیقت یہی لوگ بے وقوف ہیں اگرچہ (جہہل وغرور کی سرشاری میں اپنی حالت کا) شعور نہیں رکھتے البقرة
14 جب یہ لوگ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو (دعوت حق پر) ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے۔ لیکن جب اپنے شیطانوں کے ساتھ اکیلے میں بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارا اظہار ایمان اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ہم تمسخر کرتے تھے البقرة
15 (حالانکہ) حقیقت یہ ہے کہ خود انہی کے ساتھ تمسخر ہورہا ہے کہ اللہ (کے قانون جزا) نے رسی ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور سرکشی (کے طوفان میں) میں بہکے چلے جا رہے ہیں البقرة
16 (یقین کرو) یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی۔ لیکن نہ تو ان کی تجارت فائدہ مند نکلی نہ ہدایت ہی پر قائم رہے البقرة
17 ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی (رات کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا۔ اس) نے (روشنی کے لیے) آگ سلگائی لیکن جب (آگ سلگ گئی اور اس کے شعلوں سے) آس پاس روشن ہوگیا تو قدرت الٰہی سے ایسا ہوا کہ (اچانک شعلے بجھ گئے، اور) روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی کے بعد اندھیرا چھا گیا اور آنکھیں اندھی ہو کر رہ گئیں کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا البقرة
18 بہرے، گونگے، اندھے ہو کر رہ گئے۔ پس (جن لوگوں کی محرومی و شقاوت کا یہ حال ہے) وہ کبھی اپنی گم گشتگی سے لوٹ نہیں سکتے البقرة
19 یا پھر ان لوگوں کی مثال ایسی سمجھو جیسے آسمان سے پانی کا برسنا کہ اس کے ساتھ کالی گھٹائیں اور بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک ہوتی ہے (فرض کرو دنیا پانی کے لیے بے قرار تھی۔ اللہ نے اپنی رحمت سے بارش کا سماں باندھ دیا۔ تو اب ان لوگوں کا حال یہ ہے بارش کی برکتوں کی جگہ صرف اس کی ہولناکیاں ہی ان کے حصے میں آئی ہیں) بادل جب زور سے گرجتے ہیں تو موت کا ڈر انہٰں دہلا دیتا ہے (اس کی گرج تو روک سکتے نہیں) اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے لگتے ہیں۔ حالانکہ (اگر بجلی گرنے والی ہی ہو تو ان کے کان بند کرلینے سے رک نہیں جائے گی) اللہ کی قدرت تو (ہر حال میں) منکروں کو گھیرے ہوئے ہے البقرة
20 (جب) بجلی (زور سے چمکتی ہے تو ان کی خیرگی کا یہ حال ہوتا ہے گویا) قریب ہے کہ بینائی اچک لے۔ اس کی چمک سے جب فضا روشن ہوجاتی ہے تو دوچار قدم چل لیتے ہیں۔ جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو (ٹھٹک کر) رک جاتے ہیں۔ اگر اللہ چاہے تو یہ بالکل بہرے اندھے ہو کر رہا جائیں۔ اور یقیناً اللہ ہر بات پر قادر ہے البقرة
21 اے افراد نسلِ انسانی ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو (اس پروردگار کی) جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو بھی پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (اور اس لیے پیدا کیا) تاکہ اس کی نافرمانی سے بچو البقرة
22 وہ پروردگار عالم، جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی، اور آسمان کو چھت کی طرح بلند کردیا اور (پھر تم دیکھ رہے ہو کہ وہی ہے) جو آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے زمین شاداب ہوجاتی ہے اور طرح طرح کے پھل تمہاری غذا کے لیے پیدا ہوجاتے ہیں۔ پس (جب خالقیت اسی کی خالقیت ہے اور ربوبیت اسی کی ربوبیت تو) ایسا نہ کرو کہ اس کے ساتھ کسی دوسری ہستی کو شریک اور ہم پایہ بناؤ۔ اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے ! البقرة
23 اور (دیکھو) اگر تمہیں اس (کلام) کی سچائی میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل کیا ہے۔ تو (اس کا فیصلہ بہت آسان ہے۔ اگر یہ محض ایک انسانی دماغ کی بناوت ہے، تو تم بھی انسان ہو۔ زیادہ نہیں) اس کی سی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن (طاقتوں) کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لو البقرة
24 اور پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو اور حقیقت یہ ہے کہ کبھی نہ کرسکو گے، تو اس آگ کے عذاب سے ڈرو جو (لکڑی کی جگہ) انسان اور پتھر کے ایندھن سے سلگتی ہے، اور منکرین حق کے لیے تیار ہے البقرة
25 (لیکن ہاں) جن لوگوں نے (انکار و سرکشی کی جگ) ایمان کی راہ اختیار کی، اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے، تو ان کے لیے (آگ کی جگہ ابدی راحت کے) باغوں کی بشارت ہے۔ (سرسبزوشاداب باغ) جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ( اور اس لیے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں) جب کبھی ان باغوں کا کوئی پھل ان کے حصے میں آئے گا (یعنی بہشتی زندگی کی کوئی نعمت ان کے حصے میں آئے گی) تو بول اٹھیں گے، یہ تو وہ نعمت ہے جو پہلے ہمیں دی جاچکی ہے (یعنی نیک عملی کا وہاجر ہے جس کے ملنے کی ہمیں دنیا میں خبر دی جا چکی ہے) اور (یہ اس لیے کہیں گے کہ) باہم دگر ملتی جلتی ہوئی چیزیں ان کے سامنے آئیں گی (یعنی جیسا کچھ ان کا عمل تھا، ٹھیک ویسی ہی بہشتی زندگی کی نعمت بھی ہوگی) علاوہ بریں ان کے لیے نیک اور پارسا بیویاں ہوں گی اور ان کی راحت ہمیشگی کی راحت ہوگی کہ اسے کبھی زوال نہیں ! البقرة
26 اللہ (کا کلام جو انسانوں ککو ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب کرنا چاہتا ہے) اس بات سے نہیں جھجکتا کہ کسی (حقیقت کے سمجھانے کے لیے کسی حقیر سے حقیر کی) مثال سے کام لے۔ مثلاً مچھر کی، یا اس سے بھی زیادہ کسی حقیر چیز کی پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ (مثالیں سن کر ان کی دانائی میں غور کرتے ہیں اور) جان لیتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہے ان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ لیکن جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کی ہے تو وہ (جہل اور کج فہمی سے حقیقت نہیں پا سکتے۔ وہ) کہتے ہیں بھلا ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بس کتنے ہی انسان ہیں جن کے حصے میں اس سے گمراہی آئے گی اور کتنے ہی ہیں جن پر اس (کی سمجھ بوجھ سے) راہ (سعادت) کھل جائے گی۔ اور (خدا کا قانون یہ ہے کہ) وہ گمراہ نہیں کرتا مگر انہی لوگوں کو جو (ہدایت کی تمام حدیں توڑ کر) فاسق ہوگئے ہیں البقرة
27 (فاسق کون ہیں؟ فاسق وہ ہیں) جو احکام الٰہی کی اطاعت کا عہد کر کے پھر اسے تور ڈالتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کے کاٹنے میں بے باک ہیں اور (اپنی بدعملیوں اور سرکشیوں سے) ملک میں فساد پھیلاتے ہیں سو (جن لوگوں کی شقاوتوں کا یہ حال ہے وہ ہمیشہ گمراہی کی چال ہی چلین گے۔ اور فی الحقیقت) یہی لوگ ہیں جے کے لیے سرتسر نامرادی اور نقصان ہے البقرة
28 (اے افراد نسل انسای !) تم کس طرح اللہ سے (اور اس کی عبادت سے) انکار کرسکتے ہو جبکہ حالت یہ ہے کہ تمہار اوجود نہ تھا، اس نے زندی بخشی پھر وہی ہے جو زندگی کے بعد موت طاری کرتا ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشے گا، اور بالآخر تم سب کو اسی کے حضور لوٹنا ہے البقرة
29 (اور دیکھو) یہ اسی (پروردگار) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں (تاکہ جس طرح چاہو ان سے کام لو) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان درست کردیے (جن سے طرح طرح کے فوائد تمہیں حاصل ہوتے ہیں) اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے البقرة
30 (اور اے پیغمبر اس حقیقت پر غور کر) جب ایسا ہوا تھا کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا : "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" فرشتوں نے عرض کیا "کیا ایسی ہستی کو خلیفہ بنایا جا رہا ہے جو زمین خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی؟ حالانکہ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہوئے تیری پاکی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں (کہ تیری مشیت برائی سے پاک اور تیرا کام نقصان سے منزہ ہے) اللہ نے کہا " میری نظر جس حقیق پر ہے، تمہیں اس کی خبر نہیں"۔ البقرة
31 (پرھ جب ایسا ہوا کہ مشیت الٰہی نے جو کچھ چاہا تھا ظہور میں آگیا) اور آدم نے (یہاں تک معنوی ترقی کی کہ) تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کرلیے تو اللہ نے فرشتوں کے سامنے وہ (تمام حقائق) پیش کردیے اور فرمایا "اگر تم (اپنے شبہ میں) درستی پر ہو تو بتلاؤ ان (حقائق) کے نام کیا ہیں؟ البقرة
32 فرشتوں نے عرض کیا" خدایا ساری پاکیاں اور بڑائیاں تیری ہی لیے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھلا دیا ہے۔ علم تیرا علم ہے اور حکمت تیری حکمت البقرة
33 (جب فرشتوں نے اس طرح اپنے عجز کا اعتراف کرلیا، تو) حکم الٰہی ہوا۔ "اے آدم، تم (اب) فرشتوں کو ان (حقائق) کے نام بتلا دو" جب آدم نے بتلا دیے تو اللہ نے فرمایا " کیا میں نے تم سنے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے تمام غیب مجھ پر روشن ہیں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میری علم میں ہے اور جو کچھ تم چھپاتے تھے وہ بھی مجھ سے مخفی نہیں" البقرة
34 اور پھر (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا۔ آدم کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔ وہ جھک گئے۔ مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی اس نے نہ نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منکروں میں سے تھا البقرة
35 پھر (ایسا ہوا کہ) ہم نے آدم سے کہا "اے آدم تو اور تیری بیوی دنووں جنت میں رہو جس طرح چاہو کھاؤ پیو، امن چین کی زندگی بسر کو، مگر دیکھو، وہ جو ایک دخرت ہے تو کبھی اس کے پاس بھی نہ پھٹکنا، اگر تم اس کے قریب گئے تو (نتیجہ یہ نکلے گا کہ) حد سے تجاوز کر بیٹھو گے، اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤ گے جو زیادتی کرنے والے ہیں البقرة
36 پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان کی وسوہ اندازی نے ان دونوں کے قدم ڈگمگا دیے، اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسی کچھ (راحت و سکون کی) زندگی بسر کر رہے تھے اسے نکلنا پڑا۔ خدا کا حکم ہوا "یہاں سے نکل جاؤ۔ تم میں سے ہر وجود دوسرے کا دشمن ہے" اب تمہیں (جنت کی جگہ) زمین میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک کے لیے (جو علم الٰہی میں مقرر ہوچکا ہے) اس سے فائدہ اٹھانا ہے البقرة
37 پھر ایسا ہوا کہ آدم نے اپنے پروردگار کی تعلیم سے چند کلمات معلوم کرلیے (جن کے لیے اس کے حضور قبولیت تھی) پس اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی اور بلاشبہ وہی ہے جو رحمت سے درگزر کرنے والا ہے اور اس کی درگزر کی کوئی انتہا نہیں البقرة
38 (آدم کی توبہ قبول ہوگئی اور) ہمارا حکم ہوا، تو اب تم سب یہاں سے نکل چلو (اور جس نئی زندگی کا دروازہ تم پر کھولا جا رہا ہے اسے اختیا کرو) لیکن (یاد رکھو) جب کبھی ایسا ہوگا کہ ہماری جانب سے تم پر راہ (حق) کھولی جائے گی تو (تمہارے لیے دو ہی راہیں ہوں گی) جو کوئی ہدایت کی پیرو کرے گا اس کے لیے کسی طرح کی غمگینی نہیں البقرة
39 جو کوئی انکار کرے گا اور ہماری نشانیاں جھٹلائے گا وہ دوزخی گروہ میں سے ہوگا۔ ہمیشہ عذاب میں رہنے والا البقرة
40 اے بنی اسرائیل ! میری نعمت یاد کرو، وہ نعمت جس سے میں تمہیں سرفراز کیا تھا اور دیکھو اپنا عہد پورا کرو (جو ہدایت قبول کرنے اور اس پر کاربند ہونے کا عہد ہے) میں بھی اپنا عہد پورا کروں گا (جو ہدایت پر کاربند ہونے والوں کے لیے کامرانی و سعادت کا عہد ہے) اور دیکھو میرے سوا کوئی نہیں پس دوسروں سے نہیں صرف مجھی سے ڈرو البقرة
41 اور اس کلام پر ایمان لاﷺ جو میں نازل کیا ہے، اور جو اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا نمایاں ہوا ہے جو تمہارے پاس (پہ ٩ لے سے) موجود ہے اور ایسا نہ کرو کہ اس کے انکار میں (شقاوت کا) پہلا قدم جو اٹھے وہ تمہارا ہو۔ اور (دیکھو) میرے سوا کوئی نہیں، پس میری نافرمانی سے بچو البقرة
42 اور ایسا نہ کرو کہ حق کو باطل کے ساتھ ملا کر مشتبہ بنا دو اور حق کو چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو حقیقت حال کیا ہے؟ البقرة
43 اور نماز قائم کرو (جس کی حقیقت تم نے کھو دی ہے) اور زکوۃ ادا کرو (جس کا تم میں اخلاص باقی نہیں رہا) اور جب اللہ کے حضور جھکنے والے جھکیں تو ان کے ساتھ تم بھی سرِ نیاز جھکا دو البقرة
44 تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر خود اپنی خبر نہیں لیتے کہ تمہارے کاموں کا کیا حال ہے حالانکہ خدا کی کتاب تمہارے پاس ہے اور ہمیشہ تلاوت کرتے رہتے ہو؟ (افسوس تمہاری عقلوں پر !) کیا اتنی سی موٹی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی البقرة
45 اور (دیکھو) صبر اور نماز (کی قوتوں) سے (اپنی اصلاح میں) مدد لو لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو (انسان کی رحت طلب طبیعت پر) بہت ہی کٹھن گزرتا ہے۔ البتہ جن لوگوں کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں البقرة
46 اور جو سمجھتے ہیں انہیں اپنے پروردگار سے ملنا اور (بالآخر) اس کے حضور لوٹنا ہے تو ان پر یہ عمل کٹھن نہیں ہوسکتا البقرة
47 اے بنی اسرائیل ! میری نعمتیں یاد کرو جن سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا اور (خصوصا) یہ (نعمت) کہ دنیا کی قوموں پر تمہیں فضیلت دی تھی البقرة
48 اس دن کی پکڑ سے ڈرو جبکہ (انسان کی کوئی کوشش بھی اسے برے کاموں کے نتیجوں سے نہیں بچاسکے گی اس دن) نہ تو کوئی انسان دوسرے انسان کے کے کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش سنی جائے گی، نہ کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا، اور نہ کہیں سے کسی طرح کی مدد ملے گی البقرة
49 اور (اپنی تاریخ حیات کا) وہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں خاندان فرعون (کی غلامی) سے جنہوں نے تمہیں نہایت سخت عذاب میں ڈال رکھا تھا نجات دی تھی۔ وہ تمہارے لڑکوں کو بے دریغ ذبح کرڈالتے (تاکہ تمہاری نسل نابود ہوجائے) اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے (حکمراں قوم کی لونڈیاں بن کر زندگی بسر کریں اور فی الحقیقت اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے بڑی ہی آزمائش تھی البقرة
50 اور پھر وہ وقت یاد کرو جب (تم مصر سے نکلے تھے اور فرعون تمہارا تعاقب کر رہا تھا) ہم نے سمندر کا پانی اس طرح الگ الگ کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا، اور تم (کنارے پر کھڑے) دیکھ رہے تھے البقرة
51 اور ( پھر وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں والا وعدہ کیا تھا۔ (پھر جب ایسا ہوا کہ وہ چالیس دن کے لیے تمہیں چھوڑ کر پہاڑ پر چلا گیا تو اس کے جاتے ہی) تم نے ایک بچھڑے کی پرستش اختیار کرلی، اور تم راہ حق سے ہٹ گئے تھے (یہ تمہاری بڑی گمراہی تھی) البقرة
52 لیکن ہم نے (اپنی رحمت سے) درگزر کی تاکہ اللہ کی بخشائشوں کی قدر کرو البقرة
53 اور پھر وہ واقعہ بھی یاد کرو جب ہم نے (چالیس راتوں وال اوعدہ پورا کیا تھا، اور) موسیٰ کو الکتاب (یعنی تورات) اور الفرقان (یعنی حق وباطل میں امتیاز کرنے والی قوت) عطا فرمائی تھی، تاکہ تم پر (سعادت و فلاح کی) راہ کھل جائے البقرة
54 اور (پھر وہ وقت) جوب موی (کتاب الٰہی کا عطیہ لے کر پہاڑ سے اترا تھا اور تمہیں ایک بچھڑے کی پوجا میں سرگرم دیکھ کر) پکار اٹھا تھا : اے میری قوم ! افسوس تمہاری حق فراموشی پر) تم نے بچھڑے کی پوجا کر کے خود اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہ کردیا ہے۔ پس چاہیے کہ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور گوسالہ پرستی کے بدلے اپنی جانوں کو قتل کرو۔ اسی میں خدا کے نزدیک تمہارے لیے بہتری ہے۔ چنانچہ تمہاری توبہ قبول کرلی گئی، اور اللہ بڑا ہی رحمت والا، اور رحمت سے سے درگزر کرنے والا ہے البقرة
55 اور (پھر وہ واقعہ یاد کرو) جب تم نے کہا تھا : اے مرسی ! ہم کبھی تم پر یقین کرنے والے نہیں جب تک کہ کھلے طور پر اللہ کو (تم سے بات کرتا ہوا) نہ دیکھ لیں۔ پھر (تمہیں یاد ہے کہ اس گمراہانہ جسارت کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ یہ نکلا تھا کہ) بجلی کے کڑاکے نے (اچانک) آگھیرا، اور تم نظر اٹھائے تک رہے تھے البقرة
56 پھر ہم نے تمہیں اس ہلاکت کے بعد (دوبارہ) اٹھا کھڑا کی اتاکہ اپنے آپ کو نعمت الٰہی کا قدر شناس ثابت کرو ! البقرة
57 اور (پھر جب ایسا ہوا تھا کہ صحراسینا کی بے آب و گیاہ سرزمین میں دھوپ کی شدت اور غزا کے نہ ملنے سے تم ہلاک ہوجانے والے تھے تو) ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلادیا اور من اور سلوی کی غذا فراہم کردی (تم سے کہا گیا :) خدا نے تمہاری غذا کے لیے جو اچھی چیزیں مہیا کردی ہیں انہیں بفراغت کھاؤ اور کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرو (لیکن اس پر بھی تم اپنی بدعملیوں سے باز نہ آئے۔ غور کرو) تم نے (اپنی ناشکریوں سے) ہمارا کیا بگاڑا؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے البقرة
58 اور پھر (کیا اس وقت کی یاد بھی تمہارے اندر عبرت پیدا نہیں کرسکتی) جب (ایک شہر کی آبادی تمہارے سامنے تھی اور) ہم نے حکم دیا تھا کہ اس آبادی میں (فتح مندانہ) داخل ہوجاؤ اور پھر کھاؤ پیو، آرام چین کی زندگی بسر کرو، لیکن جب شہر کے دروازے میں قدم رکھو، تو تمہارے سر اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور تمہاری زبانوں پر توبہ واستغفار کا کلمہ جاری ہو کہ حطۃ! حطۃ! (خدایا ہمیں گناہوں کی آلودگی سے پاک کردے ! اگر تم نے ایسا کیا، تو) اللہ تمہاری خطائیں معاف کردے گا، اور (اس کا قانون یہی ہے کہ) نیک کردار انسانوں کے اعمال میں برکت دیتا ہے اور ان کے اجر میں فراوانی ہوتی رہتی ہے البقرة
59 لیکن پھر ایسا ہوا کہ تم میں سے ان لوگوں نے جن کی راہ ظلم و شرارت کی راہ تھی خدا کی بتلائی ہوئی بات ایک دوسری بات سے بدل ڈالی (اور عجز و عبودیت کی جگہ غفلت و غرور میں مبتلا ہوگئے) نتیجہ یہ نکلا کہ ظلم وشرارت کرنے والوں پر ہم نے آسمان سے عذاب نازل کیا اور یہ ان کی نافرمانیوں کی سزا تھی البقرة
60 اور پھر (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تھا اور ہم نے حکم دیا تھا پنی لاٹھی سے پہاڑ کی چٹان پر ضرب لگاؤ(تم دیکھو گے کہ پانی تمہارے لیے موجود ہے۔ موسیٰ نے اس حکم کی تعمیل) چنانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے اپنے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کرلی (اس وقت تم سے کہا گیا تھا) کھاؤ پیو خدا کی بخشائس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس سرزمین میں جھگڑ فساد نہ کرو البقرة
61 اور پھر (دیکھو تمہاری تاریخ حیات کا وہ واقعہ بھی کس درجہ عبرت انگیز ہے) جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی طرح کے کھانے پر قناعت کرلیں، پس اپنے پروردگار سے دعا کرو ہمارے لیے وہ تمام چیزیں پیدا کردی جائیں جو زمین کی پیداوار ہیں۔ سبزی، ترکاری، گھیہوں، دال، پیاز، لہسن وغیرہ (جو مصر میں ہم کھایا کرتے تھے) موسیٰ نے یہ سن کر کہا (افسوس تمہاری غفلت اور بے حسی پر !) کیا تم چاہتے ہو ایک ادنی سی بات کے لیے (یعنی غذا کی لذت کے لیے) اس (مقصد عظیم) سے دست بردار ہوجاؤ جس میں بڑی ہی خیر و برکت ہے؟ (یعنی قومی آزادی و سعادت سے؟ اچھا اگر تمہاری غفلت و بدبختی کا یہی حال ہے تو) یہاں سے نکلو، شہر کی راہ لو، وہاں یہ تمام چیزیں مل جائیں جن کے لیے ترس رہے ہو۔ بہرحال بنی اسرائیل پر خواری و نامرادی کی مار پڑی اور خدا کے غضب کے سزاوار ہوئے اور یہ اس لیے ہوا کہ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور اس کے نبیوں کے ناحق قتل میں بے باک تھے، اور (گمراہی و شقاوت کی یہ روح ان میں) اس لیے (پیدا ہوگئی) کہ (اطاعت کی جگہ) سرکشی سما گئی تھی اور تمام حدیں توڑ کر بے لگام ہوگئے تھے ! البقرة
62 جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاری اور صابی ہوں (کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں سے ہو) لیکن جو کوئی بھی خدا پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
63 اور پھر (اپنی تاریخ حیات کا وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے تمہارا عہد لیا تھا اور (یہ ووہ وقت تھا کہ تم نیچے کھڑے تھے اور) کوہ طور کی چوٹیاں تم پر بلند کردی تھیں : (دیکھو) جو کتاب تمہیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھو۔ (اور یہ اس لیے ہے) تاکہ تم (نافرمانی سے بچو۔ البقرة
64 لیکن پھر تم اپنے عہد سے پھر گئے ور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارا ساتھ نہ دیتی تو (تمہاری گمراہی کی چال تو ایسی تھی کہ) فوراً ہی تباہی کے حوالے ہوجاتے البقرة
65 اور یقیناً تم ان لوگوں کے حال سے بے خبر نہیں ہو جو تم ہی میں سے تھے اور جنہوں نے "سبت" (یعنی تعطیل اور عبادت کے مقدس دن) کے معاملہ میں راست بازی کی حدیں توڑ ڈالی تھیں (یعنی حکم شریعت سے بچنے کے لیے حیلوں اور مکاریوں سے کام لیا تھا) ہم نے کہا ذلیل و خوار بندروں کی طرح ہوجاؤ (انسانوں کے پاس سے ہمیشہ دھتکارے نکالے جاؤ گے) البقرة
66 چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم نے اس معاملہ کو ان سب کے لیے جن کے سامنے ہوا اور ان کے لیے بھی جو بعد کو پیدا ہوئے تازیانہ عبرت بنا دیا اور ان لوگوں کے لیے جو متقی ہیں اس میں نصیحت و دانائی رکھ دی البقرة
67 اور پھر (وہ معاملہ یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے یہ بات کہی تھی کہ یہ خدا کا حکم ہے ایک گائے ذبح کردو۔ (بجائے اس کے کہ راست بازی کے ساتھ اس پر عمل کرتے، لگے طرح طرح کی کٹ حجتیاں کرنے) کہنے لگے : معلوم ہوتا ہے تم ہمارے ساتھ تمسخر کر رہے ہو۔ موسیٰ نے کہا نوعذ باللہ اگر میں (احکام الٰہی کی تبلیغ میں تمسخر کروں اور) جاہلوں کا سا شیوہ اختیار کروں البقرة
68 (یہ سن کر) وہ بولے (اگر ایسا ہی ہے تو) اپنے پروردگار سے درخواست کرو وہ کھول کر بیان کردے کس طرح کا جانور ذبح کرنا چاہے ی؟ (یعنی ہمیں تفصیلات معلوم ہونی چاہیں) موسیٰ نے کہا۔ خدا کا حکم یہ ہے کہ ایسی گائے ہو جو نہ تو بالکل بوڑھی ہو نہ بالکل بچھیا۔ درمیانی عمر کی ہو۔ اور اب (کہ تمہیں تفصیل کے ساتھ حکم مل گیا ہے) چاہیے کہ اس کی تعمیل کرو البقرة
69 (لیکن انہوں نے پہلے سوال کا جواب پا کر ایک دوسرا سوال کھڑا کردیا) کہنے لگے اپنے پروردگار سے درخواست کرو۔ وہ یہ بھی بتلا دے کہ جانور کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ موسیٰ نے کہا حکم الٰہی یہہ ہے کہ اس کا رنگ پیلا ہوخوب گہرا پیلا۔ ایسا کہ دیکھنے والوں کا جی دیکھ کر خوش ہوجائے البقرة
70 (جب رنگ کی خصوصیت بھی معین ہوچکی تو انہوں نے اور الجھاؤ پیدا کردیا) کہنے لگے (ان ساری باتوں کے بعد بھی) ہمارے لیے جانور کی پہچان مشکل ہے اپنے پروردگار سے کہو کہ (اور زیادہ کھول کے) بتلا دے کہ جانور کیسا ہونا چاہیے؟ انشاء اللہ ہم ضرور پتہ لگا لیں گے البقرة
71 اس پر موسیٰ نے کہا اللہ فرماتے ہے۔ ایسی گائے ہو جو نہ تو کبھی ہل میں جوتی گئی ہو نہ کبھی آب پاشی کے لیے کام میں لائی گئی ہو۔ پوری طرح صحیح سالم، داغ دھبے سے پاک و صاف۔ (جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو پھر عاجز ہو کر بولے۔ ہاں اب تم نے ٹھیک ٹھیک بات بتلا دی۔ چنانچہ جاور ذبح کیا گیا۔ اگرچہ ایسا کرنے پر وہ (دل سے) آمادہ نہ تھے البقرة
72 اور پھر (غور کرو وہ واقعہ) جب تم نے (یعنی تمہاری قوم نے) ایک جان ہلاک کردی تھی، اور اس کی نسبت آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے اور جو بات تم چھپانی چاہتے تھے خدا اسے آشکارا کردینے والا تھا البقرة
73 چنانچہ ایسا ہوا کہ ہم نے حکم دیا اس (شخص) پر (جو فی الحقیقت قاتل تھا) مقتول کے بعض (اجزائے جسم) سے ضرب لگاؤ (جب ایسا کیا گیا تو حقیقت کھل گئی اور قاتل کی شخصیت معلوم ہوگئی) اللہ اسی طرح مردوں کو زندگی بخشتا اور تمہیں اپنی (قدرت و حکمت کی) نشنایاں دکھلاتا ہے تاکہ سمجھ بوجھ سے کام لو البقرة
74 اور پھر تمہارے دل سخت پڑگئے ایسے ست، گویا پتھر کی چٹانیں ہیں !(نہیں) بلکہ پتھر سے بھی زیادہ سخت کیونکہ پتھروں میں تو بعض پتھر ایسے بھی ہیں جن میں سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور انہی پتھروں میں ایسی چٹانیں بھی ہیں جو شق ہو کر دو ٹکڑے ہوجاتی ہیں اور ان میں سے پانی اپنی راہ نکال لیتا ہے، اور پھر انہی میں وہ چٹانیں بھی ہوئیں جو خوف الٰہی سے (لرز کر) گر پڑتی ہیں (پس افسوس ان دلوں پر، جن کے آگے پتھر کی سختی اور چٹانوں کا جماؤ بھی ماند پڑجائے) اور (یاد رکھو) خدا (کا قانون) تمہارے کرتوتوں کی طرف سے غافل نہیں ہے البقرة
75 (مسلمانو !) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ (کلام حق پر غور کریں گے اور اس کی سچائی پرکھ کر) تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور اس کا مطلب سمجھتا تھا لیکن پھر بھی جان بوجھ کر اس میں تحریف کردیتا تھا (یعنی اس کا مطلب بدل دیتا تھا) البقرة
76 اور (دیکھو ان کا حال تو یہ ہے کہ) جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں، تو اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتے ہیں لیکن جب اکیلے میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں "جو کچھ تمہیں خدا نے (تورات کا) علم دیا ہے وہ ان لوگوں پر کیوں ظاہر کرتے ہو؟ کیا اس لیے کہ وہ تمہارے خلاف تمہارے پروردگار کے حضور اس سے دلیل پکڑیں) یعنی تورات سے تمہارے خلاف دلیل لائیں؟ کیا (اتنی موٹی سی بات بھی) تم نہیں سمجھتے؟ البقرة
77 (افسوس ان کے دعوائے ایمان و حق پرستی پر !) کیا یہ نہیں جانتے کہ (معاملہ انسان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے اور) اللہ کے علم سے کوئی بات چھپی ؟ وہ جو کچھ چھپا رکھتے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں وہ بھی اس کے سامنے ہے؟ البقرة
78 اور پھر انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو ان پڑھ ہیں، اور جہاں تک کتاب الٰہی کا تعلق ہے (خوش اعتقادی کی) آرزوؤں اور ولولوں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے، اور محض وہموں گمانوں میں مگن ہیں البقرة
79 پس افسوس ان پر جن کا شیوہ یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں (یعنی اپنی رایوں اور خواہشوں کے مطابق احکام شرع کی کتابیں بناتے ہیں) پھر لوگوں سے کہتے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ہے (یعنی اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ کتاب الٰہی کے احکام ہیں) اور یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں ایک حقیر سی قیمت دنیوی فائدہ فائدہ کی حاصل کرلیں۔ پس افسوس اس پر جو کچھ ان کے ہاتھ لکھتے ہیں، اور افسوس اس پر، جو کچھ وہ اس ذریعہ سے کماتے ہیں البقرة
80 یہ لوگ (یعنی یہودی) کہتے ہیں جہنم کی آگ ہمیں کبھی چھونے والی نہیں (کیونکہ ہماری امت خدا کے نزدیک نجات پائی ہوئی امت ہے) اگر ہم آگ میں ڈالے بھی جائیں گے تو (اس لیے نہیں کہ ہمیشہ عذاب میں رہیں بلکہ) صرف چند گنے ہوئے دنوں کے لیے (تاکہ گناہ کے میل کچیل سے پاک صاف ہو کر پھر جنت میں جا داخل ہوں)۔ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دو یہ بات جو تم کہتے ہو تو (دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو) تم نے خدا سے (غیر مشروط) نجات کا کوئی پٹہ لکھا لیا ہے کہ اب وہ اس کے خلاف جا نہیں سکتا، اور یا پھر تم خدا کے نام پر ایک ایسی بات کہہ رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں البقرة
81 نہیں (آخرت کی نجات کسی ایک گروہ ہی کی میراث نہیں ہے کہ ہر حال میں اسی کے لیے ہو۔ خدا کا قانون تو یہ ہے کہ کوئی انسان ہو اور کسی گروہ کا ہو، لیکن) جس کسی نے بھی اپنے کاموں سے برائی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے گھیرے میں لے لیا، تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا البقرة
82 اور جو کوئی بھی ایمان لایا اور اس کے کام بھی اچھے ہوئے تو وہ بہشتی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ بہشت میں رہنے والا البقرة
83 اور پھر (وہ وقت) یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (وہ عہد کیا تھا؟ کیا اسرائیلیت کے گھمنڈ اور یہودی گروہ بندی کی نجات یافتگی کا عہد تھا؟ نہیں، ایمان و عمل کا عہد تھا) اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، عزیزوں قریبوں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، یتیموں مسکینوں کی خبر گیری کرنا، تمام انسانوں سے اچھا برتاؤ کرنا، نماز قائم کرنی، زکوۃ ادا کرنی (ایمان و عمل کی یہی بنیادی سچائیاں ہیں جن کا تم سے عہد لیا گیا تھا) لیکن تم اس عہد پر قائم نہیں رہے) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب الٹی چال چلے، اور حقیقت یہ ہے کہ (ہدایت کی طرف سے) تمہارے رخ ہی پھرے ہوئے ہیں البقرة
84 اور پھر و (وہ معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا : آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو (یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی) یہ بات مانتے ہو۔ البقرة
85 لیکن (پھر دیکھو) تم ہی وہ اقرار کرنے والی جماعت ہو جس کے افراد ایک دوسرے کو بے دریغ قتل کرتے ہیں اور ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف ظلم و معصیت سے جتھا بندی کر کے اس اس کے وطن سے نکال باہر کرتا ہے (اور تم میں سے کسی کو بھی یہ بات یاد نہیں آتی کہ اس بارے میں خدا کی شریعت کے احکام کیا ہیں؟) لیکن پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تمہارے جلا وطن کیے ہوئے آدمی (دشمنوں کے ہاتھ پڑجاتے ہیں اور) قیدی ہو کر تمہارے سامنے آتے ہیں تو تم فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو (اور کہتے ہو شریعت کی رو سے ایسا کرنا ضروری ہے) حالانکہ (اگر شریعت کے حکموں کا تمہیں اتنا ہی پاس ہے تو) شریعت کی رو سے تو یہی بات حرام تھی کہ انہیں ان کے گھروں اور بستیوں سے جلا وطن کردو (پھر یہ گمراہی کی کیسی انتہا ہے کہ قیدیوں کے چھڑانے اور ان کے فدیہ کے لیے مال جمع کرنے میں تو شریعت یاد آجاتی ہے لیکن اس ظلم و معصیت کے وقت یاد نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ دشمنوں کے ہاتھ پڑے اور قید ہوئے؟) کیا یہ اس لیے ہے کہ کتاب الٰہی کا کچھ حصہ تو تم مانتے ہو اور کچھ حصے سے منکر ہو؟ پھر بتلاؤ تم میں سے جن لوگوں کے کاموں کا یہ حال ہے انہیں پاداش عمل میں اس کے سوا کیا مل سکتا ہے کہ دنیا میں ذلت و رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سسے سخت عذاب ! یاد رکھو اللہ (کا قانون جزا) تمہارے کاموں کی طرف سے غافل نہیں ہے البقرة
86 یقینا یہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت (کی زندگی) تاراج کرکے دنیا کی زندی مول لی ہے۔ (پس ایسے لوگوں کے لیے علاج کی کوئی امید نہیں) نہ تو ان کے عذاب میں کمی ہوگی، نہ کہیں سے مدد پا سکیں گے البقرة
87 اور (پھر دیکھو) ہم نے (تمہاری رہنمائی کے لیے پہلے) موسیٰ کو کتاب دی۔ پھر موسیٰ کے بعد ہدایت کا سلسلہ پے در پے رسولوں کو بھیج کر جاری رکھا، بالآخر مریم کے بیٹے عیسیٰ کو سچائی کی روشن نشانیاں دیں، اور روح القدس کی تائید سے ممتاز کیا (لیکن ان میں سے ہر دعوت کی تم نے مخالفت کی) پھر کیا تمہار شیوہ ہی یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کا کوئی رسول ایسی دعوت لے کر آئے جو تمہاری نفسانی خواہشوں کے خلاف ہو، تو تم اس کے مقابلے میں سرکشی کر بیٹھو، اور کسی کو جھٹلاؤ، کسی کو قتل کردو البقرة
88 اور (یہ لوگ اپنے جماؤ اور بے حسی کی حالت پر فخر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں (یعنی اب کسی نئی بات کا اثر ان تک پہنچ ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ اعتقاد کی پختگی اور حق کا اثبات نہیں ہے) بلکہ انکار حق کے تعصب کی پھٹکار ہے (کہ کلام حق سننے اور اثر پذیر ہونے کی استعداد ہی کھو دی) اور اسی لیے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ دعوت حق سنیں اور قبول کریں البقرة
89 چنانچہ جب ایسا ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لیے ایک کتاب نازل ہوئی اور وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی تھی جو پہلے سے ان کے پاس موجود ہے تو باوجودیکہ وہ (تورات کی پیشین گوئیوں کی بنا پر اس کے ظہور کے منتظر تھے، اور) کافروں کے مقابلے میں اس کا نام لے کر فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے تھے، لیکن جب وہی جانی بوجھی ہوئی بات سامنے آگئی، تو صاف انکار کرگئے، پس ان لوگوں کے لیے جو (جان بوجھ کر) کفر کی راہ اختیار کریں اللہ کی لعنت ہے، (یعنی ایسوں پر فلاح و سعادت کی راہ کبھی نہیں کھلتی) البقرة
90 (افسوس ان کی شقاوت پر) کیا ہی بری قیمت ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا چکایا ! انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی سچائی سے انکار کیا، اور صرف اس لیے انکار کیا کہ وہ جس کسی پر چاہتا ہے اپنا فضل کردیتا ہے (اس میں خود ان کی نسل و جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے پہلے ہی ذلیل و خوار ہوچکے تھے، لیکن اس نئے انکار سے اور زیادہ ذلت و خواری کے سزاوار ہوئے) پس اللہ کا غضب بھی ایک کے بعد ایک ان کے حصے میں آیا اور اس کا قانون یہی ہے کہ انکار حق کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) رسوا کرنے والا عذاب ہوتا ہے البقرة
91 اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے جو کچھ خدا نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں ہم تو صرف وہی بات کہیں گے جو ہم پر اتری ہے (یعنی اس کے سوا جو کچھ ہے اس سے انہیں انکار ہے) حالانکہ وہ خدا کا سچا کلام ہے جو ان کی کتاب کی تصدیق کرتا ہوا نمودار ہوا ہے۔ اے پیغمبر، تم ان لوگوں سے کہو اچھا اگر واقعی تم (اپنی کتاب پر) ایمان رکھنے والے ہو (اور قرآن کی دعوت سے صرف اس لیے انکار کرتے ہو کہ تورات پر ایمان رکھنے کے بعد اس کی ضرورت نہیں) تو پھر تم نے پچھلے وقتوں میں خدا کے نبیوں کو کیوں قتل کیا (جو تمہیں تورات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے، اور کیوں ایمان کی جگہ انکار و سرکشی کی راہ اختیار کی) البقرة
92 اور پھر دیکھو، یہ واقعہ ہے کہ موسیٰ سچائی کی روشن دلیلوں کے ساتھ تمہارے پاس آیا لیکن جب (چالیس دن کے لیے) تم سے الگ ہوگیا تو تم بچھڑے کے پیچھے پڑگئے، اور ایسا کرتے ہوئے یقینا تم حق سے گزر گئے تھے البقرة
93 اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (دین الٰہی پر قائم رہنے کا) تم سے عہد لیا تھا اور کوہ طور کی چوٹیا تم پر بلند کردی تھیں (تو تم نے اس کے بعد کیا کیا؟ تمہیں حکم دیا گیا تھا کہ) جو کتاب تمہیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور اس کے حکموں پر کاربند ہو، تم نے (زبان سے) کہا سنا اور (دل سے کہا) نہیں مانتے۔ اور پھر ایسا ہوا کہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے دلوں میں بچھڑے کی پوجا رچ گئی (اے پیغمبر) ان سے کہو (دعوت حق سے بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے) تم اپنے جس ایمان کا دعوی کرتے ہو اگر وہ یہی ایمان ہے تو افسوس اس ایمان پر، کیا ہی بری راہ ہے جس پر تمہارا ایمان تمہیں لے جا رہا ہے البقرة
94 یہ لوگ کہتے ہیں آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے) تم ان سے کہو اگر آخرت کا گھر خدا کے نزدیک صرف تمہارے ہی لیے ہے۔ اور تم اپنے اس اعتقاد میں سچے ہو تو (تمہیں دنیا کی جگہ آخرت کا طلب گار ہونا چاہیے۔ پس بے خوف ہو کر) موت کی آرزو کرو (حیات فانی کے پجاری نہ بنو) البقرة
95 اے پیغمبر ! تم دیکھ لوگے کہ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے جس کا ذخیرہ جمع کرچکے ہیں۔ کبھی ایسا کرنے والے نہیں اور اللہ ظلم کرنے والوں کو اچھی طرح جانتا ہے البقرة
96 اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ تم دیکھو گے، زندگی کی سب سے زیادہ حرص رکھنے والے یہی لوگ ہیں۔ مشرکوں سے بھی زیادہ (ان مدعیان توحید کے دلوں میں حیات فانی کا عشق ہے) ان میں ایک ایک آدمی کا دل یہ حسرت رکھتا ہے کہ کاش ایک ہزار برس تک توحید کے دلوں میں حیات فانی کا عشق ہے) ان میں سے ایک ایک آدمی کا دل یہ حسرت رکھتا ہے کہ کاش ایک ہزار برس تک تو جیے ! حالانکہ عمر کی درازی انہیں عذاب آخرت سے نجات نہیں دلا دے گی اور جو کچھ کررہے ہیں، اللہ کی نظر سے چھپا ہوا نہیں ہے البقرة
97 (اے پیغمبر ! یہ اللہ کا کلام ہے جو جبرایل نے اس کے حکم سے تمہارے دل میں اتارا ہے اور یہ اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے، جو اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے۔ اس میں انسان کے لیے ہدایت ہے اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (فلاح و کامیابی کی) بشارت البقرة
98 (پھر اگر یہ لوگ اللہ کی وحی و نبوت کے سلسلہ کے مخالف ہیں اور جہل و تعصب سے کہتے ہیں ہم جبریل کا اتارا ہوا کلام نہیں مانیں گے اس سے ہماری دشمنی ہے تو) تم کہہ دو جو کوئی اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکال کا دشمن ہے، تو یقینا اللہ بھی منکرین حق کا دوست نہیں ہے البقرة
99 اے پیغمبر ! یقین کرو ہم نے تم پر سچائی کی روشن دلیلیں نازل کی ہیں، اور ان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر صرف وہی جو راست بازی کے دائرہ سے باہر ہوگیا ہے البقرة
100 جب کبھی ان لوگوں نے اتباع حق کا کوئی عہد کیا تو کسی نہ کسی گروہ نے ضرور ہی اسے پس پشت ڈال دیا اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جن کے دل ایمان سے خالی ہیں البقرة
101 چنانچہ (دیکھو) جب ایسا ہوا کہ اللہ کا ایک رسول اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوا آیا جو پہلے سے ان کے پاس موجود تھی (یعنی حضرت مسیح کا ظہور ہوا) تو ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے کہ کتاب الٰہی رکھتے تھے، کتاب الٰہی اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دی گویا اسے جانتے ہی نہیں البقرة
102 اور پھر (دیکھو) ان لوگوں نے (کتاب الٰہی کی تعلیم فراموش کرکے جادوگری کے) ان (مشرکانہ) عملوں کی پیروی کی جنہیں شیطان سلیمان کے عہد سلطنت کی طرف منسوب کرکے پڑھا پڑھایا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان کبھی کفر کا مرتکب نہیں ہوا۔ دراصل یہ انہی شیطانوں کا کفر تھا کہ لوگوں کو جادوگری سکھلاتے تھے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماورت پر اس طرح کی کوئی بات نازل ہوئی تھی (جیسا کہ ان لوگوں میں مشہور ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ) وہ جو کچھ بھی کسی کو سکھلاتے تھے تو یہ کہے بغیر نہیں سکھلاتے تھے کہ دیکھو ہمارا وجود تو ایک فتنہ ہے، پھر تم کیوں کفر میں مبتلا ہوتے ہو؟ (یعنی جادوگری کی باتوں کا برا ہونا ایک ایسی مانی ہوئی بات ہے، کہ جو لوگ اس کے سکھانے والے تھے وہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ بات خدا پرستی کے خلاف ہے) لیکن اس پر بھی لوگ ان سے ایسے ایسے عمل سیکھتے جن کے ذریعے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈالنا چاہتے، حالانکہ وہ کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ ہاں یہ ہوسکتا تھا کہ خدا کے حکم سے کسی کو نقصان پہنچنے والا ہو اور نقصان پہنچ جائے۔ (بہرحال) یہ لوگ (کتاب الٰہی کی تعلیم فراموش کرکے) ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو انہیں سراسر نقصان پہنچانے والی ہیں۔ اور (پرھ کچھ یہ بات بھی نہیں کہ انہیں احکام الٰہی کی خبر نہ ہو) انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کوئی (اپنا دین و ایمان بیچ کر) جادوگری کا خریدار ہوتا ہے اس کے لیے آخرت کی برکتوں میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پس افسوس ان کی اس خرید و فروخت پر ! کیا ہی بری جنس ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کی نجات بیچ ڈالی ! کاش وہ اس حقیقت کی خبر رکھتے البقرة
103 اگر یہ لوگ (خا کے حکموں پر سچائی کے ساتھ) ایمان لاتے اور نیک عملی کی چال اختیار کرتے، تو ان کے لیے اللہ کے حضور بہتر اجر تھا۔ کاش وہ سمجھ بوجھ سے کام لیں البقرة
104 مسلمانو ! (پیغمبر اسلام کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہو، تو ان منکرین حق کی طرح) یہ نہ کہو کہ "راعنا" (جو مشتبہ اور ذومعنی رکھنے والا لفظ ہے، بلکہ) کہو "انظرنا" ہماری طرف التفات کیجیے !" اور پھر وہ جو کچھ بھی کہیں اسے جی لگا کر سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ باقی رہے یہ منکرین حق تو یاد رکھو انہیں (پاداش عمل میں) دردناک عذاب ملنے والا ہے البقرة
105 اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ اور مشرک دونوں نہیں چاہتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر خیر و برکت (یعنی وحی الٰہی) نازل ہو (اور اس لیے وہ طرح طرح کے شک پیدا کرکے تمہیں سچائی کی راہ سے باز رکھنا چاہتے ہیں) لیکن اللہ (کا قانون اس بارے میں انسانی خواہشوں کا پابند نہیں ہوسکتا وہ) جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بہت بڑا فضل رکھنے والا ہے البقرة
106 ہم اپنے احکام میں سے جو کچھ بدل دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اس سے بہتر یا اس جیسا حکم نازل کردیتے ہیں (پس اگر اب ایک نئی شریعت ظہور میں آئی ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پو لوگوں کو حیرانی ہو) کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں البقرة
107 (اگر وہ ایک مرتبہ تمہاری ہدایت کے لیے حسب ضرورت احکام بھیج سکتا ہے تو یقینا اس کے بعد بھی بار بار ایسا کرسکتا ہے) اور پھر کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی سلطانی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہارا دوست اور مددگار ہو البقرة
108 پھر کیا تم چاہتے ہو اپنے رسول سے بھی (دین کے بارے میں) ویسے ہی سوالات کرو جیسے اب سے پہلے موسیٰ سے سے کیے جا چکے ہیں؟ (یعنی جس طرح بنی اسرائیل نے راست بازی کی جگہ کٹ حجتیاں کرنے اور بلا ضرورت باریکیاں نکالنے کی چال اختیار کی تھی ویسی ہی تم بھی اختیار کرو؟ سو یاد رکھو) جو کوئی بھی ایمان کی نعمت پا کر پھر اسے کفر سے بدل دے گا تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور فلاح و کامیابی کی منزل اس پر گم ہوگئی البقرة
109 یاد رکھو اہل کتاب میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو چاہتے ہیں، تمہیں ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹا دیں، اور اگرچہ ان پر سچائی ظاہر ہوچکی ہے لیکن پھر اس حسد کی وجہ سے جس کی جلن ان کے اندر ہے، پسند نہیں کرتے کہ تم راہ حق میں ثابت قدم رہو۔ پس چاہیے کہ (ان سے لڑنے جھگرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو، اور) عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہر ہوجائے (اور وہ حق کو فتح مند کرکے بتلا دے کہ کون حق پر تھا اس کس کی جگہ باطل پرستی کی جگہ تھی) بلاشبہ وہ ہر بات پر قادر ہے البقرة
110 اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ یاد رکھو جو کچھ بھی تم اپنے لیے نیکی پونجی پہلے سے اکٹھی کرلوگے، اللہ کے پاس اس کے نتیجے موجود پاؤگے (یعنی مستقبل میں اس کے نتائج و ثمرات ظاہر ہوں گے) تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے البقرة
111 اور یہودی کہتے ہیں جنت میں کوئی آدمی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو۔ اسی طرح عیسائی کہتے ہیں جنت میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ عیسائی نہ ہو۔ (یعنی ان میں سے ہر گروہ سمجھتا ہے آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے اور جب تک ایک انسان اس کی مذہبی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پاسکتا۔ (اے پیغمبر) یہ ان لوگوں کی جاہلانہ امنگیں اور آرزوئیں ہیں۔ نہ کہ حقیقت حال۔ تم ان سے کہ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو تو ثابت کرو تمہارے دعوے کی دلیل کیا ہے البقرة
112 ہاں (بلاشک نجات کی راہ کھلی ہوئی ہے مگر وہ کسی خاص گروہ بندی کی راہ نہیں ہوسکتی۔ وہ تو ایمان و عمل کی راہ ہے) جس کسی نے بھی اللہ کے آگے سر جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہوا تو وہ اپنے پروردگار سے اپنا اجر ضرور پائے گا۔ نہ تو اس کے لیے کسی طرح کا کھٹکا ہے نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
113 یہودی کہتے ہیں، عیسائیوں کا دین کچھ نہیں ہے، عیسائی کہتے ہیں، یہودیوں کے پاس کیا دھر اہے؟ حالانکہ اللہ کی کتاب دونوں پڑھتے ہیں (اور اصل دین دونوں کے لیے ایک ہی ہے) ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب نے کہ وہ بھی صرف اپنے طریقہ ہی کو سچائی کا طریقہ سمجھتے ہیں) اچھا، قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان حاکم ہوگا اور جس بات میں جھگڑ رہے ہیں اس کا فیصلہ کردے گا البقرة
114 اور غور کرو اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والا انسان کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی عبادت گاہوں میں اس کے نام کی یاد کو روکے اور ان کی ویرانی میں خوش ہو؟ جن لوگوں کے ظلم کا یہ حال ہے یقینا وہ اس لائق نہیں کہ خدا کی عبادت گاہوں میں قدم رکھیں۔ بجز اس حالت کے کہ (دوسروں کو اپنی طاقت سے ڈرانے کی جگہ خود دوسروں کی طاقت سے) ڈرے سہمے ہوئے ہوں۔ یاد رکھو، ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی سخت عذاب ہے البقرة
115 اور دیکھو، پورب ہو یا پچھم ساری دنیا اللہ ہی کے لیے ہے (اس کی عبادت کسی ایک رخ اور مقام ہی پر موقوف نہیں) جہاں کہیں بھی تم اللہ کی طرف رخ کرلو اللہ تمہارے سامنے ہے۔ بلاشبہ اس کی قدرت کی سمائی بڑی ہی سمائی ہے، اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
116 اور (عیسائیوں کو دیکھو) انہوں نے کہا خدا نے (نوع انسانی کا گناہ معاف کرنے کے لیے مسیح کو) اپنا بیٹا بنایا حالانکہ خدا کی ذات اس سے پاک (وہ کیوں اس بات کا محتاج ہو کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے) زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمان کے آگے جھکے ہوئے ہیں البقرة
117 وہ آسمان و زمین کا صناع ہے۔ وہ جب کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو ( نہ تو اسے کسی مددگار کی ضرورت ہوتی ہے نہ ذریعوں کی) بس وہ حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور جیسا اس نے حکم دیا تھا ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے البقرة
118 اور جو لوگ (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب) وہ کہتے ہیں (اگر یہ تعلیم خدا کی طرف سے ہے تو کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ خدا ہم سے براہ راست بات چیت کرے یا اپنی کوئی (عجیب و غریب)ٰ نشانی ہی بھیج دے، تو (دیکھو گمراہی کی) جیسی بات یہ کہہ رہے ہیں، ٹھیک ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اس بارے میں پہلوں اور پچھلوں سب کے دل ایک ہی طرح کے ہوئے۔ (بہرحال اگر یہ لوگ نشانیوں ہی کے طلب گار ہیں تو چاہیے نشانیوں کی پہچان بھی پیدا کریں، ہم نے ان لوگوں کے لیے جو ماننے والے ہیں کتنی ہی نشانیاں نمایاں کردی ہیں البقرة
119 اے پیغمبر ! یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے تمہی (خلق اللہ کی ہدایت کے لیے) بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ (ایمان و عمل کی برکتوں کی) بشارت دو، اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کردو (یعنی تمہاری دعوت تمام تر خدا پرستی اور نیک عملی کی دعوت ہے۔ پھر جو لوگ نشانیاں مانگ رہے ہیں اگر فی الحقیقت ان میں سچائی کی طلب ہے تو غور کریں، تمہاری دعوت سے بڑھ کر اور کون سی نشانی ہوسکتی ہے؟ جو لوگ (اپنی محرومی و شقاوت سے) دوزخی گروہ ہوچکے، تم ان کے لیے خدا کے حضور جوابدہ نہیں ہوگے (تمہارا کام صرف پیام حق پہنچا دینا ہے) البقرة
120 اور (حقیقت یہ ہے کہ اپنی سچائی کی کتنی ہی نشانیاں پیش کرو، لیکن) یہود اور نصاری تم سے خوش ہونے والے نہیں۔ وہ تو صرف اسی حالت میں خوش ہوسکتے ہیں کہ تم ان کی (بنائی ہوئی) جماعتوں کے پیرو ہوجاؤ (کیونکہ جس بات کو انہوں نے دین سمجھ رکھا ہے وہ گروہ پرستی کے تعصب کے سوا کچھ نہیں) پس تم ان سے (صاف صاف) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت کی راہ تو وہی ہے جو ہدایت کی اصلی راہ ہے (نہ کہ تمہاری خود ساختہ گروہ بندیاں) اور یاد رکھو اگر تم نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی باوجودیکہ تمہارے پاس علم و یقین کی روشنی آچکی ہے تو (یہ ہدایت الٰہی سے منہ موڑنا ہوگا اور پھر) اللہ کی دوستی اور مددگاری سے تم یکسر محرم ہوجاؤگے البقرة
121 اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب الٰہی کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کرتے ہیں (یعنی راست بازی و اخلاص کے ساتھ پڑھتے ہیں) تو وہی ہیں جو (قبولیت کی استعداد رکھتے ہیں اور اس لیے وہی ہیں جو) اس پر ایمان لائیں گے اور جو کوئی ان میں سے انکار کرتا ہے تو (اس کی ہدایت کی کوئی امید نہیں) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے تباہی و نامرادی ہے البقرة
122 اے بنی اسرائیل میری وہ نعمتیں یاد کرو جن سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا۔ میں نے تمہیں دنیا کی قوموں میں برگزیدگی عطا فرمائی تھی البقرة
123 اور دیکھو اس دن سے ڈرو جو یقینا آنے والا ہے (اور جس دن ہر انسان کو اپنے اعمال کے نتیجوں سے دو چار ہونا ہے) اس دن نہ تو کوئی جان دوسری جان کے کام آئے گی (کہ اپنے بزرگوں اور پیشواؤں کا نام لے کر اپنے آپ کو بخشوا لو) نہ کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا (کہ اپنی بدعملیوں کا فدیہ دے کر جان چھڑا لو) نہ کسی سعی و سفارش چل سکے گی ( کہ ان کا وسیلہ پکڑ کے کام نکال لو) اور نہ ہی ایسا ہوگا کہ مجرموں کو کہیں سے مدد ملے البقرة
124 اور (پھر غور کرو وہ واقعہ) جب ابراہیم کو اس کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا تھا اور وہ ان میں پورا اترا تھا۔ جب ایسا ہو تو خدا نے فرمایا اے ابراہیم ! میں تجھے انسانوں کے لیے امام بنانے والا ہوں (یعنی دنیا کی آنے والی قومیں تیری دعوت قبول کریں گی اور تیرے نقش قدم پر چلیں گی) ابراہیم نے عرض کیا جو لوگ میری نسل میں سے ہوں گے ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ ارشاد ہو جو ظلم و معصیت کی راہ اختیا کریں تو ان کا میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں البقرة
125 اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ) کے اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کے گرد آوری کا مرکز اور امن و ھرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنا لی جائے۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں، عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سوجد کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا) البقرة
126 اور (پھر) جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے خدا کے حضور دعا مانگی تھی (اے پروردگار ! اس جگہ کو (جو دنیا کی آباد سرزمین سے دور اور سرسبزی و شادابی سے یک قلم محروم ہے) امن و امان کا ایک آباد شہر بنا دے اور پنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ یہاں کے بسنے والوں میں جو لوگ تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہوجائے" اس پر ارشاد الٰہی ہوا تھا کہ (تمہاری دعا قبول کی گئی، یہاں کے باشندوں میں سے) جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا سو اسے بھی ہم (سروسامان رزق سے) فائدہ اٹھانے دیں گے۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا بہت تھوڑا ہوگا۔ کیونکہ بالآخر اسے (پاداش عمل میں) چاروناچار دوزخ میں جانا ہے اور کیا ہی برا اس کا ٹھکانا ہوا البقرة
127 اور (پھر دیکھو وہ کیسا عظیم الشان اور انقلاب انگیز وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی نیو ڈال رہا تھا اور اس معیل بھی اس کے ساتھ شریک تھا (ان کے ہاتھ پتھر چن رہے تھے اور دل و زبان پر یہ دعا طاری تھی) اے پروردگار ! ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو ! بلاشبہ تو ہی ہے جو دعاؤں کا سننے والا اور (مصالح عالم کا) جاننے والا ہے البقرة
128 اے پروردگار (اپنے فضل و کرم سے) ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہم سچے مسلم (یعنی تیرے حکموں کے فرمانبردار ہوجائیں اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی امت پیدا کردے جو تیرے حکموں کی فرمانبردار ہو ! خدایا ! ہمیں ہماری عبادت کے (سچے) طور طریقے بتلا دے اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر۔ بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو رحمت سے درگزر کرنے والی ہے اور جس کی رحیمات نہ درگزر کی کوئی انتہا نہیں ! البقرة
129 اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار ! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے البقرة
130 (یہ ہے ابراہیم کا طریقہ) اور ان لوگوں کے سوا جنہوں نے اپنے آپ کو نادانی و جہالت کے حوالے کردیا ہے کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے منہ پھیر سکتا ہے؟ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں بھی اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا اور آخرت میں بھی اس کی جگہ نیک انسانوں کے زمرے میں ہوگی البقرة
131 جب ابراہیم کے پروردگار نے اسے حکم دیا تھا کہ "فرمانبردار ہوجا" تو وہ پکار اٹھا تھا میں اس کے حکموں کا فرمانبردار ہوگیا جو تمام دنیا کا پروردگار ہے البقرة
132 اور پھر اسی طریقہ کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور (اس کے پوتے) یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی۔ انہوں نے کہا "اے میرے بیٹو ! خدا نے تمہارے لیے اس دین (حقیقی) کی راہ پسند فرما لی ہے تو دیکھو، دنیا سے نہ جانا مگر اس حالت میں کہ تم مسلم ہو (یعنی فرمانبردار ہو) البقرة
133 پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کے سرہانے موت آ کھڑی ہوئی تھی اور اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے پوچھا تھا "میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے جواب دیا "اسی خدائے واحد کی جس کی تو نے عبادت کی ہے اور تیرے بزرگوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق نے کی ہے اور ہم اس کے حکموں کے فرمانبردار ہوئے۔ البقرة
134 (بہرحال) یہ ایک مات تھی جو گزر چکی اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا۔ تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم اپنے عمل سے کماؤ گے۔ تم سے کچھ اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان لوگوں کے اعمال کیسے تھے البقرة
135 یہودیوں نے کہا یہودی ہوجاؤ ہدایت پاؤ گے، نصاری نے کہا نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاؤگے۔ لیکن تم کہو، نہیں (خدا کی عالمگیر سچائی ان گروہ بندیوں میں محدود نہیں ہوجا سکتی) اس کی راہ تو وہی "حنیفی" راہ ہے جو ابراہیم کی راہ تھی یعنی تمام انسانی طریقوں سے منہ موڑنا اور صرف خدا کے سیدھے سادھے فطری طریقہ کا ہو رہنا) اور یقینا وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا البقرة
136 مسلمانو ! تم کہو، ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں۔ قرآن پر ایمان لائے ہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے۔ ان تمام تعلیموں پر ایمان لائے ہیں جو ابراہیم کو، اسماعیل کو، اسحاق کو، یعقوب کو اور اولاد یعقبو کو دی گئیں۔ نیز ان کتابوں پر جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دی گئی تھیں۔ اور (صرف اتنا ہی نہیں بلکہ) ان تمام تعلیموں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو دنیا کے تمام نبیوں کو ان کے پروردگار سے ملی ہیں۔ ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے (کہ اسے نہ مانیں۔ باقی سب کو مانیں۔ یا اسے مانیں۔ مگر دوسروں سے منکر ہوجائیں۔ خدا کی سچائی کہیں بھی اور کسی پر بھی آئی ہو) ہم خدا کے فرمانبردار ہیں البقرة
137 پھر اگر یہ لوگ بھی ایمان کی راہ اختیار کرلیں۔ اسی طرح جس طرح تم نے اختیار کی ہے تو سارے جھگڑے ختم ہوگئے، اور انہوں نے ہدایت پا لی۔ لیکن اگر اس سے روگردانی کریں تو پھر سمجھ لو کہ (ان کے ماننے کی کوئی امید نہیں) ان کی راہ (طلب حق کی جگہ) ہٹ دھرمی کی راہ ہے۔ پس (ان سے قطع نظر کرلو اور اپنے کام میں سرگرم رہو) وہ وقت دور نہیں جب اللہ کی مدد تمہیں ان مخالفتوں سے بے پروا کردے گی۔ وہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ! البقرة
138 (ہدایت اور نجات کی راہ کسی رسمی اصطباغ یعنی رنگ دینے کی محتاج نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا شیوہ ہے) یہ اللہ کا رنگ دینا ہے اور بتلاؤ اللہ سے بہتر اور کس کا رنگ دینا ہوسکتا ہے؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں البقرة
139 (اے پیغمبر) تم ان لوگوں سے کہو، ہماری راہ تو خدا پرستی کی راہ ہے۔ پھر، کیا تم خدا کے بارے میں جھگڑتے ہو؟ (یعنی خدا پرستی کے شیوے ہی سے تمہیں اختلاف ہے؟ حالانکہ ہماری اور تمہارا دونوں کا پروردگار وہی ہے۔ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ اور ہمارا طیقہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف اسی کی بندگی کرنے والے ہیں البقرة
140 جس کے پاس اللہ کی ایک گواہی موجود ہو اور وہ اسے چھپائے؟ (اور محض اپنی بات کی پچ کے لیے سچائی کا اعلان نہ کرے؟) یاد رکھو جو کچھ بھی تم کر رہے ہو، اللہ اس سے غافل نہیں ہے البقرة
141 (اور پھر جو کچھ بھی ہو) یہ ایک امت تھی جو گزر چکی۔ اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا۔ تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم اپنے عمل سے کماؤگے۔ تم سے کچھ اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان کے اعمال کیسے تھے البقرة
142 جو لوگ عقل و بصیرت سے محروم ہیں وہ کہیں گے مسلمان جس قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے کیا بات ہوئی کہ ان کا رخ اس سے پھر گیا؟ (اے پیغمبر) تم کہو پورب ہو یا پچھم سب اللہ ہی کے لیے ہے (وہ کسی خاص مقام یا جہت میں محدود نہیں) وہ جس کسی کو چاہتا ہے (کامیابی و سعادت کی) سیدھی راہ دکھا دیتا ہے البقرة
143 اور (مسلمانو ! جس طرح یہ بات ہوئی کہ بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ قبلہ قرار پایا) اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ ہم نے تمہیں نیک ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تم انسانوں کے لیے (سچائی کی) گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لیے اللہ کا رسول گواہی دینے والا ہو۔ اور اگر ہم نے اتنے دنوں تک تمہیں اسی قبلہ پر رہنے دیا جس کی طرف تم رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہ اس لیے تھا، تاکہ (وقت پر) معلوم ہوجائے کون لوگ اللہ کے رسول کی پیروی میں سچے ہیں اور کون لوگ (دل کے کچے ہیں جو آزمائش میں پڑ کر) الٹے پاؤں پھر جانے والے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں کے سوا اور سب کے لیے اس معاملہ میں بڑی ہی سخت آزمائش تھی۔ بہرحال (جو لوگ آزمائش میں پورے اترے ہیں وہ یقین کریں ان کی استقامت کے ثمرات بہت جلد انہیں حاصل ہوں گے) ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا تمہارا ایمان رائگاں جانے دے۔ وہ تو انسان کے لیے سرتاسر شفقت و رحمت رکھنے والا ہے البقرة
144 (اے پیغمبر) ہم دیکھ رہے ہیں کہ (حکم الٰہی کے شوق و طلب میں) تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ اتھ جاتا ہے تو یقین کرو ہم عنقریب تمہارا رخ ایک ایسے ہی قبلہ کی طرف پھر دینے والے ہیں جس سے تم خوشنود ہوجاؤگے (اور اب کہ اس معاملہ کے ظہور کا وقت آگیا ہے) تو چاہیے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں بھی تم اور تمہارے ساتھی ہوں، ضروری ہے کہ (نماز میں) رخ اسی طرف کو پھر جایا کرے۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے (یعنی یہود اور نصآری) وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے (کیونکہ ان کے مقدس نوشتوں میں اس کی پیشین گوئی موجود ہے اور جیسے کچھ ان کے اعمال ہیں اللہ ان سے غافل نہیں ہے البقرة
145 اگر تم اہل کتاب کے سامنے دنیا جہان کی ساری دلیلیں بھی پیش کردو جب بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں۔ نہ یہ ہوسکتا ہے کہ (علم و بصیرت سے بے بہرہ ہوکر) تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے لگو اور نہ خود وہی کسی ایک قبلہ پر متفق ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ کا قبلہ ماننے والا نہیں۔ اور یاد رکھو اگر تم نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی باوجودیکہ تمہیں اس بارے میں علم حاصل ہوچکا ہے تو یقینا نافرمانی کرنے والوں میں سے ہوجاؤگے البقرة
146 کسی بات کا حق ہونا ہی اس کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ حق کے معنی ہی قائم و ثابت رہنے کے ہیں اور جو بات قائم و ثابت رہنے والی ہے اس کے لیے اس کے قیام و ثبات سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہوسکتی ہے البقرة
147 یقین کرو یہ (تحویل قبلہ کا) معاملہ تمہارے پروردگار کی طرف سے امر حق ہے (اور جو بات حق ہو تو وہ اپنے قیام و ثبات سے اپنی حقانیت کا اعلان کردے گی) پس دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ البقرة
148 اور (دیکھو ہر گروہ کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ (عبادت کے وقت) رخ پھیر لیتا ہے۔ (پس یہ کوئی ایس بات نہیں جسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے۔ اصلی چیز جو مقصود ہے وہ تو نیک عملی ہے) پس نیکیوں کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو (یعنی جس جگہ اور جس سمت میں بھی خدا کی عبادت کرو) خدا تم سب کو پا لے گا۔ یقیناً اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں البقرة
149 اور (اے پیغمبر) تم کہیں سے بھی نکلو (یعنی سمت اور کسی مقام میں بھی ہو) لیکن نماز میں) رخ اسی طرف کو پھیر لو جس طرف مسجد حرام واقع ہے اور یقین کرو یہ یہ معاملہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے اور جانتے رہو کہ اللہ (تمہارے اعامل کی طرف سے غآفل نہیں ہے البقرة
150 اور (دیکھو) تم کہیں سے بھی نکلو (اور کسی مقام میں بھی ہو) لیک چاہیے کہ (نماز میں اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیر لو اور (اے پیروان دعوت قرآنی) تم بھی اپنا رخ اسی طرف کو کرلیا کرو۔ خواہ کسی جگہ اور کسی سمت میں ہو۔ اور یہ (جو تقرر قبلہ پر اس قدر زور دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے تاکہ تمہارے خلاف لوگوں کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہے (اور یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ معبد ابراہیمی ہی تمہارا قبلہ ہے) البتہ جو لوگ حق سے گزر چکے ہیں (ان کی مخالفت ہر حال میں جاری رہے گی) تو ان سے نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو۔ اور علاوہ بریں یہ (حکم) اس لیے بھی (دیا گیا) ہے کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کردوں۔ نیز اس لیے کہ (سعی و عمل کی) سیدھی راہ پر تم لگ جاؤ البقرة
151 یہ اسی طرح کی بات ہوئی جیسے یہ ہوئی کہ ہم نے تم میں سے ایک شخص کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا۔ وہ ہماری آیتیں تمہیں سناتا ہے (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) تمہارے دلوں کو صاف کرتا ہے، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور وہ باتیں سکھلاتا ہے جن سے تم یکسر نا آشنا تھے البقرة
152 پس (اب) میری یاد میں لگے رہو۔ میں بھی لگے رہو۔ میں بھی تمہاری طرف سے غافل نہ ہوں گا (یعنی قانون الٰہییہ ہے کہ اگر تم اللہ سے غافل نہ ہوگے، تو اللہ کی مدد و نصرت بھی تمہاری طرف سے غافل نہ ہوگی) اور دیکھو، میری نعمتوں کی قدر کرو۔ ایسا نہ کرو کہ کفران نعمت میں مبتلا ہوجاؤ البقرة
153 مسلمانو ! صبر اور نماز (کی معنوی قوتوں) سے سہارا پکڑو۔ یقین کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے البقرة
154 اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوجاتے ہیں تو یہ مت کہو کہ مردے ہیں۔ نہیں وہ تو زندہ ہیں، لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے البقرة
155 اور یاد رکھو یہ ضرور ہونا ہے کہ ہم تمہارا امتحان لیں۔ خطرات کا خوف، بھوک کی تکلیف، مال وجان کا نقصان، پیداوار کی تباہی، وہ آزمائشیں ہیں جو تمہیں پیش آئیں گی۔ پھر جو لوگ صبر کرنے والے انہیں (فتح و کامرانی کی) بشارت دے دو البقرة
156 یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی کوئی مصیبت ان پر آن پڑتی ہے تو (بے قرار ہونے کی جگہ ذکر الٰہی سے اپنی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں، اور) ان کے زبان حال کی یہ صدا ہوتی ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون !(ہماری زندگی اور موت، رنج و غم، سود و زیاں، جو کچھ بھی ہے سب کچھ اللہ کے یلے ہے، اور ہم سب کو بالاآخر مرنا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے) البقرة
157 سو یقینا ایسے ہی لوگ ہیں، جن پر ان کے پروردگار کے الطاف و کرم ہیں، جن پر اس کی رحمت اترتی ہے، اور یہی ہیں جو اپنے مقصد میں) کامیاب ہیں البقرة
158 بلاشبہ صفا اور مروی (نامی دو پہاڑیا) اللہ کی (حکمت و رحمت کی) نشانیوں میں سے ہیں پس جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے اس گھر کا (یعنی خانہ کعبہ کا) قصد کرے تو اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان طواف کے پھیرے کرلے۔ اور جو کوئی خوش دلی کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے، تو اللہ ہر عمل کی اس کی منزلت کے مطابق قدر کرنے والا، اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
159 جن لوگوں کا یہ شیوہ ہے کہ (دنیا کے خوف یا طمع سے) ان باتوں کو چھاپتے ہیں جو سچائی کی روشنیوں اور رہنمائیوں میں سے ہم نے نازل کی ہیں باوجودیکہ ہم نے انہیں کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے تو یقین کرو ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے (یعنی اس کی رحمت سے محروم ہوجاتے ہیں) تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتیں بھی ان کے حصے میں آتی ہیں۔ البقرة
160 مگر ہاں (توبہ کا دروازہ ہر گناہ کے بعد کھلا ہوا ہے۔ پس) جن لوگوں نے اس گناہ سے توبہ کرلی اور اپنی (بگری) حالت ازسر نو نوار لی اور ساتھ ہی (احکام حق کو چھپانے کی گہ) بیان کرنے کا شیوہ اختیار کرلیا تو ایسے لوگوں کی توبہ ہم قبول کرلیتے ہیں۔ اور ہم بڑے ہی درگزر کرنے والے اور رحمت سے بخش دینے والے ہیں البقرة
161 (لیکن) جن لوگوں نے راہ حق سے انکار کیا اور پھر مرتے دم تک اسی پر قائم رہے تو (ظاہر ہے کہ ان کے لیے اصلاح حال کا کوئی موقعہ باقی نہ رہا) یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی، انسانوں کی، سب کی لعنت ہوئیئ البقرة
162 ہمیشہ اسی حالت میں رہنے والے۔ نہ تو کبھی ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت ملے گی البقرة
163 اور (دیکو) تمہار معبود ایک ہی معبود ہے کوئی معبود نہیں مگر صرف اسی کی ایک ذات۔ رحمت والی اور اپنی رحمت کی بخشش سے تمام کائنات ہستی کو فیضیاب کرنے والی البقرة
164 بلاشبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اور جہاز میں جو انسان کی کار براریوں کے لیے سمندر میں چلتا ہے، اور برسات میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی (آب پاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین کے پھیلاؤ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہواؤں کے (مختلف رخ) پھرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے ہوئے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھنے والے ہیں (اللہ کی ہستی و یگانگی اور اس کے قوانین رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں البقرة
165 اور (دیکھو) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو خدا کے سوا دوسری ہستیوں کو اس کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جیسی چاہت اللہ کے لیے ہوقنی چاہیے۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے دلوں میں تو سب سے زیادہ محبت اللہ ہی کی ہوتی۔ جو بات ان ظالموں کو اس وقت سوجھے گی جب عذاب ان کے سامنے آجائے گا کاش ! اس وقت سوجھتی۔ اس دین یہ دیکھیں گے کہ قوت اور ہر طرح کی قوت صرف اللہ ہی کو ہے، اور (اگر اس کے قوانین حق سے سرتابی کی جائے تو) اس کا عذاب بڑا ہی سخت عذاب ہے البقرة
166 اور (دیکھو) جب ایسا ہوگا کہ وہ (جھوٹے پیشوا) جن کی پیروی کی گئی تھی ( بجائے اس کے کہ اپنے پیروؤں کے کام آئیں) اپنے پیروؤں سے بیزار ظاہر کرنے لگیں گے (یعنی کہیں گے ہمیں ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں) کیونکہ عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان باہمی رشتوں وسیلوں کا تمام سلسلہ ٹوٹ جائے گا ( کہ نہ تو کوئی کسی کا ساتھ دے گا اور نہ کسی کو کسی کی فکر ہوگی) البقرة
167 تب وہ لوگ جنہوں نے ان کی پیروی کی تھی پکار اٹھیں گے۔ کاش ہمیں ایک دفعہ پھر دنیا میں لوٹنے کی مہلت مل جائے تو ہم ان (جھوٹے پیشواؤں) سے اسی طرح بیزاری ظاہر کردیں جس طرح یہ ہم سے بیزار ظاہر کر رہے ہیں ! سو دیکھو اس طرح اللہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کی حقیقت دکھلا دے گا کہ سرتاسر حسرت و پشیمانی کا منظر ہوگا اور وہ آتش عذاب سے چھٹکارا پانے والے نہیں البقرة
168 اے افراد نسل انسانی ! زمین میں جس قدر حلال اور پاکیزہ چیزیں (تمہاری غذا کے لیے) مہیا کردی گئی ہیں شوق کسے کھاؤ اور (یہ جو لوگوں نے اپنے وہموں خیالوں سے طرح طرح کی رکاوٹیں اختیار کر رکھی ہیں تو یہ شیطانی وسوسے ہیں۔ تم) شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے البقرة
169 وہ تو تمہیں بری اور قبیح باتوں ہی کے لیے حکم دے گا۔ نیز اس (گمراہی) کے لیے اکسائے گا کہ اللہ کے نام سے جھوٹی باتیں کہو جن کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں البقرة
170 اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو ہدایت نازل کی ہے اس کی پیرو کرو تو کہتے ہیں نہیں ہم تو اسی طرقے پر چلیں گے جس پر اپنے بڑے بوڑھوں کو چلتے دیکھ رہے ہیں۔ کوئی ان لوگوں سے پوچھے اگر تمہارے بڑے بوڑھے عقل سے کورے اور ہدایت سے محروم رہے ہوں تو تم بھی عقل و ہدایت سے انکار کردو گے؟ البقرة
171 اور (حقیقت یہ ہے کہ) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو ان کی مثال ایسے ہے (یعنی انہیں کورانہ تقلید کی جگہ عقل و ہدایت کی دعوت دینا ایسا ہے) جیسے ایک چرواہا چارپایوں کے آگے چیختا چلتا ہے کہ چارپائے کچھ بھی نہیں سنتے مگر صرف ہلانے اور پکارنے کی صدائیں۔ وہ بہرے گونگے اندھے ہو کر رہ گئے پس کبھی سوچنے سمجھنے والے نہیں البقرة
172 مسلمانو ! اگر اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو (اور سمجھتے ہو کہ حلال و حرام میں حکم اسی کا حکم ہے تو) وہ تمام پاکیزہ چیزیں بے کھٹکے کھاؤ جو اللہ نے تمہاری غذا کے لیے مہیا کردی ہیں اور اس کی نعمتیں کام میں لا کر اس کی بخشایشوں کے شکر گزار رہو البقرة
173 اللہ نے جو چیزیں تم پر حرام کردی ہیں وہ تو صرف یہ ہیں کہ مردار جانور، حیوانات کا خون، سور کا گوشت، اور وہ (جانور) جو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کے نام پر پکارے جائیں۔ البتہ اگر ایسی حالت پیش آجائے کہ ایک آدمی (حلال غذا نہ مل سکنے کی وجہ سے) بہ حالت مجبور کھا لے اور یہ بات نہ ہو کہ حکم شریعت کی پابندی سے نکل جانا چاہتا ہو یا اتنی مقدار سے زیادہ کھانا چاہتا ہو جتنے کی (زندگی بچانے کے لیے) ضرورت ہے تو اس صورت میں مجبور آدمی کے لیے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ بلاشبہ اللہ (خطاؤں لغزشوں کو) بخش دینے والا اور (ہر حال میں) تمہارے لیے رحمت رکھنے والا ہے البقرة
174 جو لوگ ان حکمتوں کو جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں چھپاتے ہیں، اور اس (کتمان حق) کے بدلے دنیا کے حقیر فائدے خریدتے ہیں تو یقین کرو یہ وہ لوگ ہیں جو آگ کے شعلوں سے اپنا پیٹ بھر رہے ہیں (کیونکہ یہ کمائی ان کے لیے آتش عذاب کے شعلے بننے والی ہے) قیامت کے دن یہ اللہ کے خطاب سے محروم رہیں گے، وہ انہیں (بخش کر) گناہوں سے پاک نہیں کرے گا۔ ان کے لیے عذاب دردناک میں مبتلا ہونا ہے البقرة
175 یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت بیچ کر گمراہی مول لی اور مغفرت کے بدلے عذاب کا سودا کیا تو (برائی کی راہ میں ان کا حوصلہ کیا ہی عجیب حوصلہ ہے اور) جہنم کی آگ کے لیے ان کی برداشت کیسی سخت ہی برداشت ہے البقرة
176 یہ اس لیے ہوا کہ اللہ نے کتاب (تورات) سچائی کے ساتھ نازل کردی تھی (اور جب وحی الٰہی کی روشنی آجائے تو پھر انسانی گمانوں وہموں کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی پھر بھی یہ لوگ اختلافات میں پڑگئے) اور جن لوگوں نے کتاب اللہ ( کے احکام میں) الگ الگ راہیں اختیار کی ہیں تو وہ تفرقہ و مخالفت کی دور دراز راہوں میں کھوئے گئے البقرة
177 نیکی اور بھلائی (کی راہ) یہ نہیں ہے کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف پھیر لیا یا پچھم کی طرف کرلیا ( یا اسی طرح کی کوئی دوسرت بات رسم ریت کی کرلی) نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر،، آسمانی کتابوں پر اور خدا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ خدا کی محبت کی راہ میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں۔ جب قول و قرار کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرکے رہتے ہیں۔ تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے (اور اپنی راہ میں ثابت قدم) ہوتے ہیں۔ تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو نیکی کی راہ میں سچے ہوئے اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے انسان ہیں البقرة
178 مسلمانو ! جو لوگ قتل کردیے جائیں ان کے لیے تمہیں قصاص (یعنی بدلہ لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ (لیکن بدلہ لینے میں انسان دوسرے انسان کے برابر ہے) اگر آزاد آدمی نے آزاد آدمی کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہی قتل کیا جائے گا (یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کی بڑائی یا نسل کے شرف کی وجہ سے دو آدمی قتل کیے جائیں جیسا کہ عرب جاہلیت میں دستور تھا) اگر غلام قاتل ہے تو غلام ہی قتل کیا جائے گا ( یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کے آزاد ہونے کی وجہ سے دو غلام قتل کیے جائیں) عورت نے قتل کیا ہے تو عورت ہی قتل کی جائے گی۔ اور پھر اگر ایسا ہو کہ کسی قاتل کو مقتول کے وارث سے کہ (رشتہ انسانی میں) اس کا بھائی ہے معافی مل جائے (اور قتل کی جگہ خوں بہا لینے پر راضی ہوجائے) تو (خوں بہا لے کر چھوڑ دیا جاسکتا ہے) اور ( اس صورت میں) مقتول کے وارث کے لیے دستور کے مطابق (خوں بہاکا) مطالبہ ہے اور قاتل کے لیے خوش معاملگی کے ساتھ ادا کردینا۔ اور دیکھو یہ ( جو قصاص کے معاملہ کو تمام زیادتیوں سے پاک کرکے عدل و مساوات کی اصل پر قائم کردیا گیا ہے تو یہ) تو تمہارے پروردگار کی طجرف سے تمہارے لیے سختیوں کا کم دکردینا اور رحمت کا فیضان ہوا۔ اب اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے گا تو یقین کرو وہ (اللہ کے حضور) عذاب دردناک کا سزاوار ہوگا البقرة
179 اور ارباب دانش ! قصاص کے حکم میں (اگرچہ بظاہر ایک جان کی ہلاکت کے بعد دوسری جان کی ہلاکت گوارا کرلی گئی ہے، لیکن فی الحقیقت یہ ہلاکت نہیں ہے) تمہارے لیے زندگی ہے اور یہ سب کچھ اس لیے تاکہ تم برائیوں سے بچو البقرة
180 مسلمانو ! یہ بات بھی تم پر فرض کردی گئی ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی محسوس کرے کہ اس کے مرنے کی گھڑی آگئی اور وہ اپنے بعد مال و متاع میں سے کچھ چھوڑ جانے والا ہوں تو چاہیے کہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے اچھی وصیت کرجائے۔ جو متقی انسان ہیں ان کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے البقرة
181 پھر جو کوئی ایسا کرے کہ کسی آدمی کی وصیت سننے (اور اس کے گواہ اور امین ہونے) کے بعد اس میں ردوبدل کردے تو اس گناہ کی ذمہ داری اسی کے سر ہوگی جس نے ردوبدل کیا ہے (وصیت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا اس کی تعمیل ہر حال میں ضروری ہوگی) یقین کرو اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ البقرة
182 اور اگر کسی شخص کو وصیت کرنے والے سے بے جا رعایت کرنے یا کسی معصیت کا اندیشہ ہو اور وہ (بروقت مداخلت کرکے یا وارثوں کو سمجھا بجھا کر) ان میں مصالحت کرا دے تو ایسا کرنے میں کوئی گنا نہیں (کیونکہ یہ وصیت میں ردوبدل کرنا نہیں ہوگا بلکہ ایک برائی کی اصلاح کردینا ہوگا اور) بلاشبہ اللہ (انسانی کمزوریوں کو) بخشنے والا اور (اپنے تمام احکام میں) رحمت رکھنے والا ہے البقرة
183 مسلمانو ! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں روزہ فرض کردیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کردیا گیا ہے تاکہ تم میں پرہیز گاری پیدا ہو البقرة
184 (یہ روزے کے) چند گنے ہوئے دن ہیں۔ (کوئی بڑی مدت نہیں) پھر جو کوئی تم میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر روزے کے دنوں کی گنتی پوری کرلے۔ اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے لیے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو (جیسے نہایت بوڑھا آدمی کہ نہ تو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے نہ یہ توقع رکھتا ہے کہ آگے چل کر قضا کرسکے گا) تو اس کے لیے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا ہے۔ پھر اگر کو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ کر (یعنی زیادہ مسکینوں کو کھلائے) تو یہ اس کے لیے مزید اجر کا موجب ہوگا۔ لیکن اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو سمجھ لو کہ روزہ رکھنا تمہارے لیے (ہر حال میں) بہتر ہے البقرة
185 یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول (شروع) ہوا۔ وہ انسانوں کے لیے رہنما ہے، ہدایت کی روشن صداقیں رکھتا ہے اور حق کو باطل سے الگ کردینے والا ہے۔ پس جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے تو چاہیے کہ اس میں روزہ رکھے۔ ہاں جو کوئی بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ دوسرے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ سخی و تنگی نہیں چاہتا۔ اور یہ (جو بیماروں اور مسافروں کے لیے روزہ قضا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے کہ (حکمت الٰہی نے روزے کے فوائد کے لیے دنوں کی ایک خاص گنتی ٹھہرا دی ہے تو تم اس کی) گنتی پوری کرلو (اور اس عمل میں ادھورے نہ رہو) اور اس لیے بھی کہ اللہ نے تم پر راہ (سعادت) کھول دی ہے تو اس پر اس کی بڑائی کا اعلان کرو۔ نیز اس لیے کہ (اس کی نعمت کام میں لا کر) اس کی شکر گزاری میں سرگرم رہو البقرة
186 اور (اے پیغمبر) جب میرا کوئی بندہ میری نسبت تم سے دریافت کرے (کہ کیونکر مجھ تک پہنچ سکتا ہے؟ تو تم اسے بتلا دو کہ) میں تو اس کے پاس ہوں وہ جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور اسے قبول کرتا ہوں۔ پس (اگر وہ واقعی میری طلب رکھتے ہیں تو) چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ حصول مقصد میں کامیاب ہوں البقرة
187 تمہارے لیے یہ بات جائز کردی گئی ہے کہ روزہ کے دنوں میں رات کے وقت اپنی بیویوں سے خلوت کرو۔ تم میں اور ان میں چولی دامن کا ساتھ ہے (یعنی ان کی زندگی تم سے وابستہ ہے۔ تمہاری ان سے) اللہ کے علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہے کہ تم اپنے اندر ایک بات کا خیال رکھ کر پھر اس کی بجا آوری میں خیانت کررہے ہو (یعنی اپنے ضمیر کی خیانت کر رہے ہو۔ کیونکہ اگرچہ اس بات میں برائی نہ تھی مگر تم نے خیال کرلیا تھا کہ برائی ہے) پس اس نے (اپنے فضل و کرم سے تمہیں اس غلطی کے لیے جو اب وہ نہیں ٹھہرایا) تمہاری ندامت قبول کرلی اور تمہاری خطا بخش دی۔ اور اب ( کہ یہ معاملہ صفا کردیا گیا ہے) تم (بغیر کسی اندیشہ کے) اپنی بیویوں سے خلوت کرو اور جو کچھ تمہارے لیے (ازدواجی زندگی میں) اللہ نے ٹھہرا دیا ہے اس کے خواہش مند ہو۔ اور (اسی طرح رات کے وقت کھانے پینے کی بھی کوئی روک نہیں) شوق سے کھاؤ پیو۔ یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) کالی دھاری سے الگ نمایاں ہوجائے (یعنی صبح کی سب سے پہلی نمود شروع ہوجائے) پھر اس وقت سے لے کر رات (شروع ہونے) تک روزے کا وقت پورا کرنا چاہیے۔ البتہ اگر تم مسجد میں اعتکاف کررہے ہو تو اس حالت میں نہیں چاہے کہ اپنی بیویوں سے خلوت کرو ( جہاں تک روزے کا تعلق ہے) یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں پس ان سے دور دور رہنا۔ اللہ اسی طرح اپنے احکام واضح کردیتا ہے تاکہ لوگ (نافرمانی سے) بچیں البقرة
188 اور (دیکھو) ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھاؤ اور نہ ایسا کرو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہنچنے کا (یعنی انہیں اپنی طرف مائل کرنے کا) ذریعہ بناؤ۔ تاکہ دوسروں کے مال کا کوئی حصہ ناحق حاصل کرلو۔ اور تم جانتے ہو کہ حقیقت حال کیا ہے البقرة
189 اے پیغمبر لوگ تم سے (مہینوں کی) چاند رات کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہہ دو یہ انسان کے لیے وقت کا حساب ہے اور اس سے حج کے مہینے کا تعین ہوجاتا ہے (باقی جس قدر توہمات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی رسمیں اختیار کر رکھی ہیں تو ان کی کوئی اصلیت نہیں) اور یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں (دروازہ چھوڑ کر) پچھواڑے سے داخل ہو) جیسا کہ عرب کی رسم تھی کہ حج کے مہینے کا چاند دیکھ لیتے اور احرام باندھ لینے کے بعد اگر گھروں میں داخل ہونا چاہتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے، پچھواڑے سے راہ نکال کر جاتے) نیکی تو اس کے لیے ہے جس نے اپنے اندر تقوی پیدا کیا۔ پس (ان وہم پرستیوں میں مبتلا نہ ہو) گھروں میں آؤ تو دروازے ہی کی راہ آؤ۔ (پچھواڑے سے راہ نکالنے کی مصیبت میں کیوں پڑو) البتہ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ (طلب سعادت میں) کامیاب ہو البقرة
190 اور (دیکھو) جو لوگ تم سے لڑائی لڑ رہے ہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں تم بھی ان سے لڑو۔ (پیٹھ نہ دکھلاؤ) البتہ کسی طرح کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرنے والے ہیں البقرة
191 (اہل مکہ نے تمہارے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے تو تمہارے طرف سے بھی اب اعلان جنگ ہے) جہاں کہیں پاؤ انہیں قتل کرو اور جس جگہ سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے تم بھی انہیں لڑ کر نکال باہر کرو۔ اور فتنہ کا قائم رہنا قتل و خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے (باقی رہا حرم کی حدوں کا معاملہ کہ ان کے اندر لڑائی کی جائے یا نہ کی جائے؟ تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ)ٰ جب تک وہ خود مسجد حرام کی حدود میں تم سے لڑائی نہ کریں تم بھی اس جگہ ان سے لڑائی نہ کرو۔ پھر اگر ایسا ہوا کہ انہوں نے لڑائی کی تو تمہارے لیے بھی یہی ہوگا کہ لڑو۔ منکرین حق (کی ظالمانہ پیش قدمیوں) کا یہی بدلہ ہے البقرة
192 لیکن اگر ایسا نہہوا کہ وہ لڑائی سے باز آگئے تو (پھر اللہ کا دروازہ بخشش بھی بند نہیں ہے) بلاشبہ وہ رحمت سے بخش دینے والا ہے البقرة
193 اور دیکھو ان لوگوں سے لڑائی جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی ظلم و فساد) باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ یہ لوگ لڑائی سے باز آجائیں تو (تمہیں بھی ہاتھ روک لینا چاہیے۔ کیونکہ) لڑائی نہیں لڑنی ہے۔ مگر انہی لوگوں کے مقابلہ میں جو ظلم کرنے والے ہیں البقرة
194 اگر حرم کے مہینوں کے رعایت کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی رعایت ہونی چاہیے۔ اگر نہ کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی نہیں ہے۔ (مہینوں کی) حرمت کے معاملہ میں (جب کہ لڑائی ہو) ادلہ کا بدلہ ہے (یعنی جیسی روش ایک فریق جنگ کی ہوگی، ویسی ہی دوسرے فریق کو بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فریق تو مہینوں کی حرمت سے بے پروا ہو کر حملہ کردے اور دوسرا فریق حرمت کے خیال سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے) پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو چہایے کہ ججس طرح کا معاملہ اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے ویسا ہی معاملہ تم بھی اس کے ساتھ کرو، البتہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (انے تمام کاموں میں) پرہیز گار ہیں البقرة
195 اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ ایسا نہ کرو کہ (جہاد کی اعانت سے غافل ہو کر) اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو، نیکی کرو، یقینا اللہ کی محبت انہی لوگوں کے لیے ہے جو نیکی کرنے والے ہیں﷽ البقرة
196 اور (دیکھو) حج اور عمرہ کی جب نیت کرلی جائے تو اسے اللہ کے لیے کرنا چاہیے اور اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ تم (اس نیت سے نکلے مگر) راہ میں گھر گئے (لڑائی کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے) تو پھر ایک جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔ جیسا کچھ بھی میسر آجائے۔ اور اس وقت تک سر کے بال منہ منڈاؤ (جو اعمال حج سے فارغ ہو کر احرام اتارتے وقت کیا جاتا ہے) جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص بیمار ہو یا اسے سر کی کسی تکلیف کی وجہ سے مجبوری ہو تو چہایے کہ (بال اتارنے کا) فدیہ دے دے اور وہ یہ ہے کہ روزہ رکھے یا صدقہ دے یا جانور کی قربانی کرے۔ اور پھر جب ایسا ہو کہ تم امن کی حالت میں ہو اور کوئی شخص چاہے کہ (عمرہ حج سے ملا کر) تمتع کرے (یعنی ایک ہی سفر میں دونوں عملوں کے ثواب سے فائدہ اٹھائے) تو اس کے لیے بھی جانور کی قربانی ہے جیسی کچھ میسر آجائے۔ اور جس کسی کو قربانی میسر نہ آئے تو اسے چاہیے تین روزے حج کے دنوں میں رکھے سات روزے واپسی پر، یہ دس کی پوری گنتی ہوگئی۔ البتہ یاد رہے کہ یہ حکم (یعنی عمرہ کے تمتع کا حکم) اس کے لیے ہے جس کا گھر بار مکہ میں نہ ہو ( باہر حج کے لیے آیا ہو) اور دیکھو ہر حال میں اللہ کی نافرمانی سے بچو اور یقین کرو وہ (نافرمانوں کو) سزا دینے میں بہت ہی سخت ہے البقرة
197 حج (کی تیاری) کے مہینے عام طور پر معلوم ہیں۔ پس جس کسی نے ان مہینوں میں حج کرنا اپنے اوپرلازم کرلیا تو (وہ حج کی حالت میں ہوگیا اور) حج کی حالت میں نہ تو عورتوں کی طرف رغبت کرنا ہے، نہ گناہ کی کوئی بات کرنی ہے، اور نہ لڑائی جھگڑا۔ اور (یاد رکھو) تم نیک عملی کی باتوں میں سے جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں رہتا، پس (حج کرو تو اس کے) سروسامان کی تیاری بھی کرو۔ اور سب سے بہتر سروسامان (دل کا سروسامان ہے اور وہ) تقوی ہے اور اے ارباب دانش (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو (کہ خوف الٰہی سے پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے) البقرة
198 (اور دیکھو) اس میں تمہارے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں اگر (اعمال حج کے ساتھ) تم اپنے پروردگار کے فض (رح) کی بھی تلاش میں رہو (یعنی کاروبار تجارت کا بھی مشغلہ رکھو) پس جب عرفات (نامی مقام) سے انبوہ در انبوہ لوٹو تو مشعر الحرام (یعنی مزدلفہ میں (ٹھہر کر) اللہ کا ذکر کرو۔ اور اسی طرح ذکر کرو جس طرح ذکر کرنے کا طریقہ تمہیں بتلا دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے تم بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو راہ حق سے بھٹک گئے ہیں البقرة
199 پھر (یہ بات بھی ضروری ہے کہ) جس جگہ (تک جا کر) لوگ انبوہ در لوٹتے ہیں تم (اہل مکہ) سے بھی وہیں سے لوٹو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ بلاشبہ اللہ (خطائیں) بخشنے والا اور (ہرحال مٰں) رحمت رکھنے والا ہے البقرة
200 پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کرچکو تو چاہیے کہ جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کی بڑائیوں کا ذکر کیا کرتے تھے اب اسی طرح اللہ کا ذکر کیا کرو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ (کہ تمام اعمال حج سے اصل مقصود یہی ہے) اور پھر (دیکھو) کچھ لوگ تو ایسے ہیں (جو صرف دنیا ہی کے پجاری ہوتے ہیں اور) جن کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ خدایا ! ہمیں جو کچھ دینا ہے دنیا ہی میں دے دے پس آخرت کی زندگی میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوتا البقرة
201 اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو (دنیا و آخرت دنوں کی فلاح چاہتے ہیں۔ وہ) کہتے ہیں خدایا ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچالے البقرة
202 تو یقین کرو ایسے ہی لوگ ہیں جنہیں ان کے عمل کے مطابق (دنیا و آخرت کی) فلاح میں حصہ ملنا ہے اور اللہ (کا قانون) اعمال کی جانچ میں سست رفتار نہیں (وہ ہر انسان کو اس کے عمل کے مطابق فورا نتیجہ دینے والا ہے) البقرة
203 اور (دیکھو) حج کے گنے ہوئے دنوں میں (جو معلوم ہے اور دسویں ذوالحج سے لے کر تیرہویں تک ہیں) اللہ کی یاد میں مشغول رہو۔ پھر جو کوئی (واپسی میں) جلدی کرے اور دو ہی دن میں روانہ ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور جو کوئی تاخیر کرے تو وہ تاخیر بھی کرسکتا ہے۔ لیکن یہ (جلدی اور تاخیر کی رخصت) اسی کے لیے ہے جس میں تقوی ہو (کیونکہ تمام اعمال سے اصل مقصود تقویٰ ہے۔ اگر ایک شخص کے ارادے اور عمل میں تقوی نہیں تو اس کا کوئی عمل بھی صحیح نہیں ہوسکتا) پس ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولوں کہ تم سب کو (ایک دن مرنا اور پھر) اس کے حضور جمع ہونا ہے البقرة
204 اور (دیکھو) بعض آدمی ایسے ہیں کہ دنیوی زندگی کے بارے میں ان کی باتیں تمہیں بہت ہی اچھی معلوم ہوتی ہیں، اور وہ اپنے ضمیر کی پاکی پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ فی الحقیقت وہ دشمنی اور خصومت میں بڑے ہی سخت ہیں البقرة
205 جب انہیں حکومت مل جاتی ہے تو ان کی تمام سرگرمیاں ملک میں اس لیے ہوتی ہیں تاکہ خرابی پھیلائیں اور انسان کی زراعت اور محنت کے نتیجوں کو اور اس کی نسل کو ہلاک کردیں۔ حالانکہ اللہ یہ کبھی پسند نہیں کرسکتا کہ (زندگی و آبادی کی جگہ) ویرانی و خرابی پھیلائی جائے۔ البقرة
206 اور جب ان لوگوں سے کہا جائے خدا سے ڈرو (اور ظلم و فساد سے باز آؤ) تو ان کا گھمنڈ انہیں (اور زیادہ) گناہ پر اکساتا ہے۔ پس (جن لوگوں کا حال ایسا ہو تو وہ کبھی ظلم و فساد سے باز آنے والے نہیں) انہیں تو جہنم ہی کفایت کرے گا (اور جس کسسی نے جہنم کا ٹھکانا ڈھونڈھا تو اس کا ٹھکانا) کیا ہی برا ٹھکانا ہوا البقرة
207 (برخلاف ان کے) کچھ آدمی ایسے بھی ہیں جو (نفس پرستی کی جگہ خدا پرستی کی روح سے معمور ہوتے ہیں اور) اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اپنی جانیں تک بیچ دالتے ہیں (یعنی رضائے الٰہی کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں) اور (جو کوئی ایسا کرتا ہے تو یاد رکھے) اللہ بھی اپنے بندوں کے لیے سرتاسر شفقت و مہربانی رکھنے والا ہے البقرة
208 مسلمانو ! پوری طرح اور (اعتقاد و عمل کی) ساری باتوں میں مسلم ہوجاؤ۔ اور دیکھو شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے البقرة
209 پھر اگر ایسا ہوا ہے کہ تم ڈگمگا گئے باوجودیکہ ہدایت کی روشن دلیلیں تمارے سامنے آچکی ہیں تو یاد رکھو اللہ (کے قانون جز اکی پکڑ سے تم بچ نہیں سکتے۔ وہ) سب پر غالب اور (اپنے کاموں میں) حکمت والا ہے البقرة
210 پھر یہ لوگ کس بات کے انتظام میں ہیں؟ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا ان کے سامنے نمودار ہوجائے (اور اس طرح نمودار ہوجائے کہ) بادل اس پر سایہ کیے ہوں اور فرشتے (صف باندھے کھڑے) ہوں اور جو کچھ ہونا ہے ہوچکے؟ (اگر اسی بات کے منتظر ہیں تو یاد رکھیں یہ بات دنیا میں تو ہونے والی نہیں) اور تمام کاموں کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے البقرة
211 بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں (علم و بصیرت کی کتنی روشن نشانیاں دی تھیں؟ اور جو کوئی خدا کی نعمت پا کر پھر اسے (محرومی و شقاوت) سے بدل ڈالے تو یاد رکھو خدا کا (قانون مکافات) بھی سزا دینے میں بہت سخت ہے البقرة
212 منکرین حق کی گناہوں میں تو صرف دنیا کی زندگی ہی سمائی ہوئی ہے۔ وہ ایمان والوں کی (موجودہ بے سروسامانی دیکھ کر) ہنسی اڑاتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ متقی ہیں قیامت کے دن وہی ان منکروں کے مقابلے میں بلند مرتبہ ہوں گے۔ اور (پھر یہ منکرین حق نہیں جانتے کہ جو لوگ آج مال و جاہ دنیوی سے تہی دست ہی کل کو اللہ کے فضل سے مالا مال ہوجاسکتے ہیں۔ اور) اللہ جسے چاہتا ہے، اپنے رزق بے حساب سے مالا مال کردیتا ہے البقرة
213 ابتدا میں ایسا تھا کہ لوگ الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے نہیں تھے۔ ایک ہی قوم و جماعت تھے (پھر ایسا ہوا کہ باہم دگر مختلف ہوگئے اور الگ الگ ٹولیاں بن گئیں) پس اللہ نے (ایک کے بعد ایک) نبیوں کو مبعوث کیا۔ وہ ( ایمان و عمل کی برکتوں کی) بشارت دیتے اور (انکار و بد عملی کے نتائج سے) متنبہ کرتے تھے۔ نیز ان کے ساتھ کتاب الٰہی نازل کی گئی تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے ان میں وہ فیصلہ کردینے والی ہو (اور تمام لوگوں کو راہ حق پر متحد کردے) اور یہ جو لوگ باہم دگر مختلف ہوئے تو اس لیے نہیں ہوئے کہ ہدایت سے محروم اور حقیقت سے بے خبر تھے۔ نہیں وحی الٰہی کے واضح احکام ان کے سامنے تھے مگر پھر بھی محض آپس کی ضد اور مخالفت کرنے لگتے تھے۔ بالآخر اللہ نے ایمان لانے والوں کو (دین کی) وہ حقیقت دکھا دی جس میں لوگ مختلف ہوگئے تھے (اور ایک دوسرے کو جھٹلا رہے تھے) اور اللہ جسے چاہتا ہے دین کی سیدھی راہ دکھلا دیتا ہے البقرة
214 پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ (محض ایمان کا زبانی دعوی کرکے) تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو تمہیں وہ آزمائشیں پیش ہی نہیں آئی ہیں جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آچکی ہیں۔ ہر طرح کی سختیاں اور محنتیں انہیں پیش آئیں، شدتوں اور ہولناکیوں سے ان کے دل دہل گئے۔ یہاں تک کہ اللہ کا رسول اور جو لوگ ایمان لائے تھے پکار اٹھے اے نصر الٰہی ! تیرا وقت کب آئے گا؟ (تب اچانک پردۂ غیب چاک ہوا اور خدا کی نصرت یہ کہتی ہوئی نمودار ہوگئی) ہاں گھبراؤ نہیں خدا کی نصرت تم سے دور نہیں ہے البقرة
215 اے پیغمبر تم سے سے لوگ دریافت کرتے ہیں کہ خیرات کے لیے خرچ کریں تو کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو جو کچھ بھی تم اپنے مال میں سے نکال سکتے ہو نکالو، تو اس کے مستحق تمہارے ماں باپ ہیں، عزیز و اقربا ہیں، یتیم بچے ہیں، مسکین ہیں (مصیبت زدہ) مسافر ہیں اور یاد رکھو جو کچھ بھی تم بھلائی کے کاموں میں سے کرتے ہو تو وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا (کہ اکارت جائے) وہ سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
216 لڑائی کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے لیکن بہت ممکن ہے ایک بات کو تم ناگوار سمجھتے ہو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ایک بات تمہیں اچھی لگتی ہو اور اسی میں تمہارے لیے برائی ہو۔ اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔ البقرة
217 اے پیغمبر لوگ تم سے پوچھتے ہیں جو مہینہ حرمت کا مہینہ سمجھا جاتا ہے اس میں لڑائی لڑنا کیسا ہے؟ ان سے کہہ دو اس میں لڑائی لڑنا بڑی برائی کی بات ہے۔ مگر (ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ) انسان کو اللہ کی راہ سے روکنا (یعنی ایمان اور خدا پرستی کی راہ اس پر بند کردینا) اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام نہ جانے دینا، نیز مکہ سے وہاں کے بسنے والوں کو نکال دینا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برائی ہے اور فتنہ (یعنی ظلم و فساد) قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور (یاد رکھو) یہ لوگ تم سے برابر لڑتے ہی رہیں گے۔ یہاں تک کہ اگر بن پڑے تو تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کردیں۔ اور دیکھو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے گا اور اسی حالت برگشتگی میں دنیا سے جائے گا تو یادرکھو اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جن کے تمام اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت گئے اور ایسے ہی لوگ ہیں جو کا گروہ دوزخی گروہ ہے، ہمیشہ عذاب میں رہنے والا البقرة
218 (برخلاف اس کے) جو لوگ ایمان لائے (اور راہ ایمان میں ثابت قدم رہے) اور جن لوگ نے وطن سے بے وطن ہونے کی سختیاں برداشت کیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی (سچی) امیدواری کرنے والے ہیں، اور جو کوئی اللہ کی رحمت کا سچے طریقہ پر امیدوار ہو تو) اللہ (بھی) رحمت سے بخش دینے والا ہے البقرة
219 اے پیغمبر ! تم سے لوگ شراب اور جوے کی بابت دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دو، ان دونوں چیزوں میں نقصان بہت ہے اور انسان کے لیے فائدے بھی ہیں۔ لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے اور تم سے پوچھتے ہیں (راہ حق میں خرچ کریں تو) کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو جس قدر (تمہاری ضروریات معیشت سے) فاضل ہو۔ دیکھو اللہ اس طرح کے احکام دے کر تم پر اپنی نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ دنیا اور آخرت (دونوں) کی مصلحتوں میں غور و فکر کرو البقرة
220 اور لوگ تم سے یتیم بچوں کی نسبت پوچھتے ہیں۔ ان سے کہہ دو جس بات میں ان کے لیے اصلاح و درستگی ہو وہی بہتر ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو (یعنی انہیں اپنے گھرانے میں شامل کرلو) تو بہرحال وہ تمہارے بھائی ہیں (کچھ غیر نہیں) اور اللہ جانتا ہے کون اصلاح کرنے والا ہے کون خرابی کرانے والا ہے۔ (پس اگر تمہاری نیت بخیر ہے، تو تمہیں یتمیوں کے مال کی ذمہ داری لینے سے گھبرانا نہیں چاہیے) اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (یعنی اس بارے میں سخت پابندیاں عائد کردیتا۔ کیونکہ یتیموں کے حقوق کا معاملہ بہت ہی اہم ہے) بلاشبہ وہ غلبہ و طاقت کے ساتھ حکم رکھنے والا ہے البقرة
221 اور دیکھو مشرک عورتوں سے، جب تک ایمان لے آئے آئیں، نکاح نہ کرو۔ ایک مشرک عورت تمہیں (بظاہر) کتنی ہی پسند آئے، لیکن مومن عورت اس سے کہیں بہتر ہے۔ اور اسی طرح مشرک مرد جب تک ایمان نہ لے آئیں، مومن عورتیں ان کے نکاح میں نہ دی جائیں۔ یقینا خدا کا مومن بندہ ایک مشرک مرد سے بہتر ہے اگرچہ بظاہر مشرک مرد تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ یہ لوگ (یعنی مشرکین عرب) تمہیں (دین حق سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ اپنے حکم سے (دین حق کی راہ کھول کر) تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے ( پس ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تمہاری سازگاری کیونکر ہوسکتی ہے؟) اللہ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنی آیتیں واضح کردیتا ہے تاکہ متنبہ ہوں اور نصیحت پکڑیں البقرة
222 اور اے پیغمبر ! لوگ تم سے عورتوں کے ماہواری ایام کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دو وہ مضرت (کا وقت) ہے۔ پس چاہیے کہ ان دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو۔ اور جب تک وہ (ایما سے فارغ ہوکر) پاک و صاف نہ ہو لیں ان سے نزدیکی نہ کرو۔ اور (یہ بات بھی یاد رکو کہ) جب وہ پاک صاف ہولیں اور تم ان کی طرف ملتفت ہو، تو اللہ نے (فطری طور پر) جو بات جس طرح ٹھہرا دی ہے اسی کے مطابق ہونی چاہیے۔ (اس کے علاوہ کسی دوسری خلاف فطرت بات کا خیال نہ کرو) اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو (برائی سے) پناہ مانگنے والے ہیں اور ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو پاکی وہ صفائی رکھنے والے ہیں البقرة
223 (جہاں تک وظیفہ زوجیت کا تعلق ہے) تمہاری عورتیں تمہارے لیے ایسی ہیں جیسے کاشت کی زمین پس جس طرح بھی چاہو اپنی زمین) فطری طریقہ سے) کاشت کرو اور اپنے لیے مستقبل کا سروسامان کرو (اور اصلی بات یہ ہے کہ ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو، اور یہ بات نہ بھولو کہ (ایک دن تمہیں مرنا اور) اس کے حضور حاضر ہونا ہے، اور ان کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (دین حق کی سہولتوں اور بے جا قید و بند سے پاک ہونے کی) بشارت ہے البقرة
224 اور دیکھو ایسا نہ کرو کہ کسی کے ساتھ بھلائی کرنے یا پرہیز گاری کی راہ اختیار کرنے یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرا دینے کے خلاف قسمیں کھا کر اللہ کے نام کو نیکی سے بچ نکلنے کا بہانہ بنا لو (یعنی پہلے تو کسی اچھے کام کے خلاف قسم کھالو۔ پھر کہو خدا کی قسم کھا کر ہم کیونکر یہ کام کرسکتے ہیں) یاد رکھو اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ البقرة
225 تمہاری قسموں میں جو لغو اور بے معنی قسمیں ہوں، ان پر اللہ پکڑ نہیں کرے گا (اور اس لیے ان کو کوئی اعتبار نہیں) جو کچھ بھی پکڑ ہوگی، وہ تو اسی بات پر ہوگی جو (سچ مچ کو تم نے سمجھ بوجھ کرکی ہے، اور اس لیے) تمہارے دلوں نے (اپنے عمل سے) کمائی ہے اور اللہ (ہر حال میں بخشنے والا، تحمل کرنے والا ہے البقرة
226 جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے کی قسم کھا بیٹھیں تو ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر اس عدت کے اندر وہ رجوع کرلیں (یعنی بیوی سے ملاپ کرلیں) تو رحمت سے بخشنے والا ہے البقرة
227 لیکن اگر (ایسا نہ ہوسکے اور) طلاق ہی کی ٹھان لیں، تو (پھر بیوی کے لیے طلاق ہے۔ البتہ ملاپ کی جگہ جدائی کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بات نہ بھولو کہ) اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے البقرة
228 اور جن عورتوں کو ان کے شوہروں) نے طلاق دے دی ہو تو انہیں چاہیے ماہواری ایام کے تین مہینوں تک اپنے ٓپ کو (نکاح ثانی سے) روکے رکھیں۔ اور اگر وہ اللہ پر اور ٓخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، تو ان کے لیے جائز نہیں کہ جو چیز اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کردی ہو، اسے چھپائیں (یعنی اگر حمل سے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ اسے ظاہر کردیں) اور ان کے شوہر (جنہوں نے طلاق دی ہے) اگر عدت کے اس مقررہ زمانے کے اندر اصلاح حال پر ٓمادہ ہوجائیں تو وہ انہیں اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔ اور دیکھو، عورتوں کے لیے بھی اسی طرح کے حقوق مردوں پر ہیں۔ جس طرح کے حقق مردوں کے عورتوں پر ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک خاص درجہ دیا گیا ہے۔ اور یاد رکھو اللہ زبردست حکمت رکھنے والا ہے البقرة
229 طلاق (جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے) دو مرتبہ (کرکے دو مہینوں میں دو طلاقیں ہیں)۔ پھر اس کے بعد شوہر کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو اچھے طریقے پر روک لینا (یعنی رجوع کرلینا) یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا۔ (یعنی تیسرے مہینے تیسری طلاق دے کر جدا ہوجا) اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اپنی بیویوں کو دے چکے ہو (طلاق دیتے ہوئے) اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر شوہر اور بیوی کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے (تو باہمی رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے) تو اگر تم دیکھو ایسی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ واقعی) اندیشہ ہے خدا کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے، تو پھر شوہر اور بیوی کے لیے اس میں کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر بیوی (اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے) بطور معاوضے کے (اپنے حق میں سے) کچھ دے دے (اور شوہر اسے لے کر علیحدگی پر راضی ہوجائے) یاد رکھو، یہ اللہ کی ٹھرائی ہوئی ھد بندیاں ہیں، پس ان سے قدم باہر نہ نکالوں (اور اپنی اپنی حدوں کے اندر رہو) جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے نکل جائے گا، تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں البقرة
230 اگر ایسا ہوا کہ ایک شخص نے (دو طلاقوں کے بعد رجوع نہ کیا اور تیسرے مہینے تیسری) طلاق دے دی تو پھر (دونوں میں قطعی جدائی ہوگئی، اور اب شوہر کے لیے وہ عورت جائز نہ ہوگی جب تک کہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں نہ آجائے۔ پھر اگر ایسا ہوا کہ دوسرا مرد (نکاح کرنے کے بعد خود بخود) طلاق دے دے (اور مرد و عورت از سر نو ملنا چاہیں) تو ایک دوسرے کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ اس میں ان کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ بشرطیکہ دونوں کو توقع ہو اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں پر قائم رہ سکیں گے۔ اور (دیکھو) یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیاں ہیں، جنہیں وہ ان لوگوں کے لیے جو (مصالح معیشت کا) علم رکھتے ہیں واضح کردیتا ہے البقرة
231 اور جب ایسا ہوا کہ تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دے اور ان کی (عدت کی) مدت پوری ہونے کو آئے تو پھر (تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو (طلاق سے رجوع کرکے) انہیں ٹھیک طریقے پر روک لو، یا (آخری طلاق دے کر) ٹھیک طریقے پر جانے دو۔ ایسا نہ کرو کہ انہیں نقصان پنچانے کے لیے روکے رکھو، تاکہ ان پر جور و ستم کرو (یعنی نہ تو رجوع کرو۔ نہ جانے دو۔ بیچ میں لٹکائے رکھو) اور یاد رکھو جو کوئی ایسا کرے گا تو اپنے ہاتھوں خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ اللہ کے حکموں کو ہنسی کھیل بنا لو ( کہ آج نکاح کیا۔ کل بلاوجہ طلاق دے دی) اللہ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو۔ اس نے کتاب و حکمت میں جو کچھ نازل کیا ہے اور اس کے ذریعے تمہیں نصیحت کرتا ہے، اسے نہ بھولو، اور اللہ سے ڈرو، اور یاد رکھو کہ اس کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔ البقرة
232 اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ اپنی (عدت) کی مدت پوری کرچکیں، تو (پھر انہیں اپنی پسند سے دوسرا نکاح کرلینے کا اختیار ہے) اگر وہ اپنے (ہونے والے) شوہروں سے مناسب طریقے پر نکاح کرنا چاہیں، اور دونوں آپس میں رضامند ہوجائیں، تو اس سے انہیں نہ روکو۔ تم میں سے ہر اس انسان کو جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس حکم کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے؟ اسی بات میں تمہارے لیے زیادہ برکت اور زیادہ پاکی ہے اور اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے البقرة
233 اور جو شخص (اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور بیوی کی گود میں بچہ ہو اور وہ) ماں سے بچے کو دودھ پلوانا چاہے، تو اس صورت میں چاہیے پورے دو برس تک ماں بچے کو دودھ پلائے، اور جس کا بچہ ہو اور وہ) ماں سے بچے کو دودھ پلوانی چاہے، تو اس صورت میں چاہیے پورے دو برس تک ماں بچے کو دودھ پلائے، اور جس کا بچہ ہے، اس پر لازم ہے کہ ماں کے کھانے کپڑے کا مناسب طریقہ پر انتظام کردے (یہ انتظام ہر شخص کی حالت اور حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اصل اس بارے میں یہ ہے کہ) کسی شخص پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ نہ تو ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے۔ نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے۔ اور اگر باپ کا اس اثنا میں انتقال ہوجائے تو جو اس کا) وارث (ہو، اس) پر (عورت کا کھانا کپڑا) اسی طرح ہے (جس طرح باپ کے ذمہ تھا) پھر اگر (کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ) ماں باپ آپس کی رضا مندی اور صلاح مشورہ سے (قبل از مدت) دودھ چھڑانا چاہیں تو (ایسا کرسکتے ہیں) ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور اگر تم چاہو اپنے بچوں کو (ماں کی جگہ) کسی دوسری عورت سے دود پلواؤ، تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ (ماؤں کی حق تلفی نہ کرو اور جو کچھ انہیں دینا کیا تھا) دستور کے مطابق ان کے حوالہ کردو اور دیکھو (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو، اور یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کی نظریں اسے دیکھ رہی ہیں البقرة
234 اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو انہیں چاہیے چار مہینے دس دن تک (عدت و فات میں) اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پھر جب وہ یہ مدت پوری کرلیں تو (انہیں اپنے معاملے کا اختیار ہے) وہ جو کچھ جائز طریقے پر اپنے لیے کریں (یعنی اپنے دوسرے نکاح کی تیاری کریں) اس کے لیے تمہارے سر کوئی الزام نہیں (کہ تم نکاح سے مانع آؤ یا زیادہ عرصہ تک سوگ کرنے پر مجوبر کرو) اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے البقرة
235 اور جن بیوہ عورتوں سے تم نکاح کرنا چاہو تو تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں اگر اشارے کنایے میں اپنا خیال ان تک پہنچا دو۔ یا اپنے دل میں نکاح کا ارادہ پوشیدہ رکھو۔ اللہ جانتا ہے کہ (قدرت طور پر) ان کا خیال تمہیں آئے گا لیکن ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ چوری چھپے نکاح کا وعدہ کرلو۔ الا یہ کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہی جائے۔ اور جب تک ٹھہرائی ہوئی مدت (یعنی عدت) پوری نہ ہوجائے۔ نکاح کی گرہ نہ کسو) کہ عدت کی حالت میں عورت کے لیے نکاح کی تیاری جائز نہیں) اور یقین کرو کہ جو کچھ تمہارے اندر (اس بارے میں نفس کی پوشیدہ کمزوری) ہے اللہ اسے اچھی طرح جانتا ہے پس اس ڈرتے رہ اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا اور (نفس انسانی کی کمزوریوں کے لیے بہت) برباد ہے البقرة
236 اور اگر (ایسی صورت پیش آجائے کہ) بغیر اس کے کہ تم نے عورت کو ہاتھ لگایا ہو، اور اس کے لیے جو کچھ (مہر) مقرر کرنا تھا، مقرر کیا ہو، طلاق دے دو تو (ایسا بھی کرسکتے ہو) اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ایسی صورت میں (عورت کو رشتہ جوڑنے اور پھر توڑ دینے سے جو نقصان پہنچا ہے اس کے معاوضے میں ضروری ہے کہ) اسے فائدہ پہنچاؤ۔ ایسا فائدہ جو دستور کے مطابق پہنچایا جائے۔ مقدور والا اپنی حیثیت کے مطابق دے تنگ دست اپنی حالت کے مطابق۔ نیک کردار آدمیوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کریں البقرة
237 اور اگر ایسا ہو کہ تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو اور جو کچھ (مہر) مقرر کرنا تھا مقرر کرچکے ہو، تو اس صورت میں مقررہ مہر کا آدھا دینا چاہیے۔ الا یہ کہ عورت (اپنی خوشی سے) معاف کردے یا (مرد) جس کے ہاتھ میں نکاح کا رشتہ ہے (پورا مہر دے کر آدھی رقم رکھ لینے کے حق سے) درگزر کرے۔ اور اگر تم (مرد) درگزر کروگے تو یہ زیادہ تقوے کی بات ہوگی۔ دیکھو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنا نہ بھولو اور یاد رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کی نظر سے مخفی نہیں ہے البقرة
238 اور (دیکھو) اپنی نمازوں کی حفاظت میں کوشاں رہو۔ خصوصاً ایسی نماز کی جو (اپنے ظاہر و باطن میں) بہترین نماز ہو اور اللہ کے حضور کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو البقرة
239 پھر اگر ایسا ہو کہ تمہیں (دشمن کا) ڈر ہو (اور مقررہ صورت میں نماز نہ پڑھ سکو) تو پیدل ہو یا سوار جس حالت میں بھی ہو اور جس طرح بھی بن پڑے نماز پڑھ لو۔ پھر جب مطمئن ہوجاؤ (اور خوف و جنگ کی حالت باقی نہ رہے) تو چاہیے کہ اسی طریقے سے اللہ کا ذکر کیا کرو (یعنی نماز پڑھو) جس طرح اس نے تمہیں سکھلایا ہے اور جو تمہیں پہلے معلوم نہ تھا البقرة
240 اور جو لوگ تم میں سے وفات پائیں اور اپنے پیچھے بیوہ عورتیں چھوڑ جائیں اور (مرنے سے پہلے اس طرح کی) وصیت کرجائیں کہ برس دن تک انہیں نان و نفقہ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں اور پھر ایسا ہو کہ وہ (اس مدت سے پہلے) گھر چھوڑ دیں (اور دوسرا نکاح کرلیں یا نکاح کی بات چیت کریں) تو جو کچھ وہ جائز طریقہ پر اپنے لیے کریں، اس کے لیے تم پر کوئی گناہ عائد نہ ہوگا (کہ تم انہیں وصیت کی تعمیل کے خیال سے روکو اور سال بھر تک سوگ منانے پر مجبور کرو) یاد رکھو، اللہ سب پر غالب اور (اپنے ہر کام میں) حکمت رکھنے والا ہے البقرة
241 اور (یاد رکھو) جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو تو چاہیے کہ انہیں مناسب طریقہ پر فائدہ پہنچایا جائے (یعنی ان کے ساتھ جس قدر حسن سلوک کیا جاسکتا ہے کیا جائے) متقی انسانوں کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے البقرة
242 اس طرح اللہ تم پر اپنی آیتیں واضح کردیتا ہے تاکہ عقل سے کام لو اور سوچو سمجھو البقرة
243 (اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کی سرگزشت پر غور نہیں کیا جو اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اور باوجودیکہ ہزاروں کی تعداد میں تھے مگر (دلوں کی بے طاقتی کا یہ حالت تھا کہ) موت کے ڈر سے بھاگ گئے تھے۔ اللہ کا حکم ہوا (تم موت کے ڈر سے بھاگ رہے ہو تو دیکھو اب تمہارے لیے موت ہی ہے (یعنی ان کی بزدلی کی وجہ سے دشمن ان پر غالب آگئے) پھر (ایسا ہوا کہ) اللہ نے انہیں زندہ کردیا (یعنی عزم و ثبات کی ایسی روح ان میں پیدا ہوگئی کہ دشمنوں کے مقابلہ پر آمادہ ہوگئے اور فتح مند ہوئے) یقینا اللہ انسان کے لیے بڑا ہی فضل و بخشش رکھنے والا ہے لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر) اکثر آدمی ایسے ہیں جو ناشکری کرنے والے ہیں البقرة
244 اور (دیکھو) اللہ کی راہ میں (لڑائی پیش آجائے تو موت سے نہ ڈرو بے خوف ہو کر) لڑو ! اور یقین کرو اللہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
245 کون ہے جو (انسان کی جگہ خدا سے معاملہ کرتا ہے اور) خدا کو خوش دلی کے ساتھ قرض دیتا ہے تاکہ خدا اس کا قرض دو گنا سہ گنا زیادہ کرکے ادا کردے؟ (یعنی مال حقیر راہ حق میں خرچ کرکے دین و دنیا کی بے شمار برکتیں اور سعادتیں حاصل کرلے؟ اور (باقی رہا تنگ دستی کا خوف جس کی وجہ سے جس کی وجہ سے تمہارا ہاتھ رک جاتا ہے تو یاد رکھو) تنگی اور کشائش دونوں کا رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے اور اسی کے حضور تم سب کو لوٹنا ہے البقرة
246 (اے پیغمبر) کیا تم نے اس واقعہ پر غور نہیں کیا جو موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سردروں کو پیش آیا تھا؟ بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے عہد کے نبی سے درخواست کی تھی کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے۔ ہمارے لیے ایک حکمراں مقرر کردو۔ نبی نے کہا (مجھے امید نہیں کہ تم ایسا کرسکو) اگر تمہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو کچھ بعید نہیں تم لڑنے سے انکار کردو۔ سرداروں نے کہا ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم اپنے گھروں سے نکالے جا چکے ہیں اور اپنی اولاد سے علیحدہ ہوچکے ہیں، لیکن پھر دیکھو جب ایسا ہوا کہ انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو (ان کی ساری گرم جوشیاں ٹھنڈی پڑگئیں، اور) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب نے پیٹھ دکھلا دی۔ اور اللہ نافرمانوں (کے دلوں کے کھوٹ) سے بے خبر نہیں ہے البقرة
247 اور پھر ایسا ہوا کہ ان کے نبی نے کہا اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو حکمراں مقرر کردیا ہے (سو اس کی اطاعت کرو اور اس کے ماتحت جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ) انہوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اے ہم پر حکمرانی مل جائے حالانکہ اس سے کہیں زیادہ حکمراں ہونے کے ہم خود حقدار ہیں۔ علاوہ بریں یہ بھی ظاہر ہے کہ اسے مال و دولت کی وسعت حاصل نہیں۔ نبی نے یہ سن کر کہا اللہ نے طالہوت ہی کو (حکمرانی کی قابلیتوں کے لحاظ سے) تم پر برگزیدگی عطا فرمائی ہے اور علم کی فراوانی اور جسم کی طاقت، دونوں میں اسے وسعت دی ہے۔ اور (قیادت و حکمرانی تمہارے دے دینے سے کسی کو مل نہیں سکتی) وہ جسے چاہتا ہے اپنی زمین کی حکمرانی بخش دیتا ہے۔ اور وہ (اپنی قدرت میں) بڑی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
248 اور پھر ان کے نبی نے کہا (تم طالوت کے استحقاق حکومت پر اعتراض کرتے تھے تو دیکھو) اس کی (اہلیت) حکومت کی نشانی یہ ہے کہ (مقدس) تابوت (جو تم کھو چکے ہو اور دشمنوں کے ہاتھ پڑچکا ہے) تمہارے پاس واپس) آجائے گا، اور (حکمت الٰہی سے ایسا ہوگا کہ) فرشتے اسے اٹھا لائیں گے۔ اس تابوت میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے (فتح کامرانی کی) دلجمعی ہے اور جو کچھ موسیٰ اور ہارون کے گھرانے (اپنی مقدس یادگاریں) چھوڑ گئے ہیں، ان کا بقیہ ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو تو یقینا اس واقعے میں تمہارے لیے بڑی ہی نشانی ہے البقرة
249 پھر جب (کچھ عرصہ کے بعد) اییسا ہوا کہ طالوت نے لشکر کے ساتھ کوچ کیا تو اس نے کہا دیکھو (راہ میں ایک ندی پڑے گی) اللہ (اس) ندی کے پانی سے (تمہارے صبر اور اطاعت کی) آزمائش کرنے والا ہے۔ پس یاد رکھو، جس کسی نے اس ندی کا پانی پیا اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔ وہ میر جماعت سے خارج ہوجائے گا۔ میرا ساتھی وہی ہوگا جو اس کے پانی کا مزہ تک نہ چکے۔ ہاں اگر آدمی (بہت ہی مجبور ہو اور) اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے اور پی لے تو اس کا مضائقہ نہیں لیکن (جب لشکر ندی پر پہنچا تو) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب نے پانی پی لیا (اور صبر و اطاعت کی آزمائش میں پورے نہ اترے) پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ وہ لوگ جو (حکم الٰہی پر سچا) ایمان رکھتے تھے ندی کے پار اترے تو ان لوگوں نے (جنہوں نے طالوت کے حکم کی نافرمانی کی تھی) کہا "ہم میں یہ طاقت نہیں کہ آج جالوت سے (جو فلسطینیوں کے لشکر کا ایک دیوہیکل سردار تھا) اور اس کی فوج سے مقابلہ کرسکیں" لیکن وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ انہیں (ایک دن) اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے پکار اٹھے (تم دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہراساں ہوئے جاتے ہو؟) کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر حکم الٰہی سے غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے البقرة
250 اور پھر جب وہ میدان جنگ میں جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے آئے تو انہوں نے کہا۔ "خدایا (تو دیکھ رہا ہے کہ ہم کمزور ہیں اور تھوڑے ہیں اور مقابلہ ان سے ہے جو طاقتور ہیں اور بہت ہیں۔ پس) ہم (صبر و ثبات کے پیاسوں) پر صبر (کے جام) انڈیل دے (کہ عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں) اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جما دے (کہ کسی حال میں بھی پیچھے نہ ہٹھیں) اور پھر (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر فتح مند ہوجائیں البقرة
251 چنانچہ (ایسا ہی ہوا) انہوں نے حکم الٰہی سے اپنے دشمنوں کو ہزیمت دی اور داود کے ہاتھ سے جالوت مارا گیا۔ پھر اللہ نے داود کو بادشاہی اور حکمت سے سرفراز کیا اور (حکمرانی و دانشوری کی باتو میں سے) جو کچھ سکھلانا تھا سکھلا دیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ ایسا نہ کرتا کہ انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کو راہ سے ہٹاتا رہتا تو دنیا خراب ہوجاتی (اور امن و عدالت کا نام و نشان باقی نہ رہتا) لیکن اللہ دنیا کے لیے فضل و رحمت رکھنے والا ہے (اور یہ اس کا فضل ہے کہ کوئی ایک گروہ سدا ایک ہی حالت میں نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ ہمیشہ منازعت اور مدافعت جاری رہتی ہے۔ البقرة
252 (اے پیغمبر) یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے تو یقین کرو اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں اور ہمارا سنانا برحق ہے یقینا تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں ہم نے اپنی پیغمبری کے لیے چن لیا ہے البقرة
253 یہ ہمارے پیغمبر ہیں، جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے (یعنی اگرچہ پیغمبری کے لحاظ سے سب کا درجہ یکساں ہے لیکن اپنی اپنی خصوصیتوں کے لحاظ سے مختلف درجے رکھتے ہیں) ان میں کچھ تو ایسے تھے جن سے اللہ نے کلام کیا (یعنی ان پر اپنی کتاب نازل کی) بعض ایسے تھے جن کے درجے (ان کے وقتوں اور حالتوں کے مطابق دوسری باتوں میں) بلند کیے گئے اور (تم سے پہلے) مریم کے بیٹے عسی کو (ہدایت کی) روشن دلیلیں عطا فرمائی، اور روح القدس (یعنی وحی) تائید سے سرفراز کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو (اس کی قدرت سے یہ بات باہر نہ تھی کہ) جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد پیدا ہوئے، وہ ہدایت کی روشن دلیلیں پالینے کے بعد پھر (اختلاف و نزاع میں نہ پر تے اور) آپس میں نہ لڑتے۔ لیکن (تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ انسان کو کسی ایک حالت پر مجبور نہ کردے۔ ہر طرح کے ارادہ و فعل کی استعداد دے دے۔ پس) پیغمبروں کے بعد لوگ آپس میں مخالف ہوگئے کچھ لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی۔ کچھ لوگوں نے کفر کا شیوہ پسند کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے (یعنی ان سے لڑائی کی قوت سلب کرلیتا) لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (تم اس کے کاموں کی حکمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتے) البقرة
254 مسلمانوں ! ہم نے مال و متاع دنیا میں سے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے، اسے ( صرف اپنے نفس کے آرام و راحت پر نہیں بلکہ راہ حق میں بھی) خرچ کرو اور ہاتھ نہ روکو۔ قبل اس کے کہ (زندگی کی عارضی مہلت ختم ہوجائے، اور آنے والا دن سامنے آئے جائے۔ اس دن نہ تو (دنیا کی طرح) خرید و فروخت ہوسکے گی (کہ قیمت دے کر نجات خرید لو)، نہ کسی کی یاری کام آئے گی (کہ اس کے سہارے گناہ بخشوا لو) نہ ایسا ہی ہوسکے گا کہ کسی کی سعی و سفارش سے کام نکال لیا جائے، (اس دن صرف عمل ہی نجات دلا سکے گا) اور یاد رکھو، جو لوگ اس حقیقت سے) منکر ہیں، تو یقینا یہی لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔ البقرة
255 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ "الحی" ہے (یعنی زندہ ہے اور اس کی زندگی کے لیے فنا و زوال نہیں۔ القیوم ہے، (یعنی ہر چیز اس کے حکم سے قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لیے کسی کا محتاج نہیں) اس (کی آنکھ) کے لیے نہ تو اونگ ہے نہ (دماغ کے لیے) نیند۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور اسی کے حکم سے ہے۔ کون ہے جو اس کے سامنے، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت کے لیے زبان کھولے، جو کچھ انسان کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ پیچھے ہے وہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں۔ انسان اس کے علم سے کسی بات کا بھی احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر یہ کہ جتنی بات کا علم وہ انسان کو دینا چاہے اور دے دے۔ اس کا تخت (حکومت) آسمان و زمین کے تمام پھیلاؤ پر چھایا ہوا ہے اور ان کی نگرانی و حفاظت میں اس کے لیے کوئی تھکاوٹ نہیں۔ اس کی ذات بڑی ہی بلند مرتبہ ہے البقرة
256 دین کے بارے میں کسی طرح کا جبر نہیں (کیونکہ وہ دل کے اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے، اور جبر و تشدد سے اعتقاد پیدا نہیں کیا جاسکتا) بلاشبہ ہدایت کی راہ گمراہی سے الگ اور نمایاں ہوگئی ہے (اور اب دونوں راہیں لوگوں کے سامنے ہیں۔ جسے چاہیں اختیار کریں۔ پھر جو کوئی طاغوت سے انکار کرے (یعنی سرکشی و فساد کی قوتوں سے بیزار ہوجائے) اور اللہ پر ایمان لائے تو بلاشبہ اس نے (فلاح و سعادت کی) مضبوط ٹہنی پکڑ لی۔ یہ ٹہنی ٹوٹنے والی نہیں (جس کے ہاتھ آگئی وہ گرنے سے محفوظ ہوگیا) اور یاد رکھو اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ البقرة
257 اللہ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو ایمان کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ انہیں (ہر طرح کی) تاریکیوں سے نکالتا اور روشنی میں لاتا ہے۔ مگر جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، تو ان کے مددگار سرکش اور مفسد (معبودان باطل) ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکالتے اور تاریکیوں میں لے جاتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کا گروہ دوزخی گروہ ہوا۔ ہمیشہ عذاب جہنم میں رہنے والا البقرة
258 (اے پیغمبر) کیا تم نے اس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے اس کے پروردگار کے بارے میں حجت کی تھی اور اس لیے حجت کی تھی کہ خدا نے اسے بادشاہت دے رکھی تھی؟ (یعنی تاج و تخت شاہی نے اس کے اندر ایسا گھمنڈ پیدا کردیا تھا کہ خدا کے بارے میں حجت کرنے لگا تھا) جب ابراہیم نے کہا، میرا پروردگار تو وہ ہے جو مخلوقات کو جلاتا (زندہ کرتا) ہے اور مارتا ہے، تو اس نے جواب میں کہا جلانے (زندہ کرنے والا) اور مارنے والا تو میں ہوں (جسے چاہوں ہلاک کردوں، جسے چاہوں بخش دوں)۔ اس پر ابراہیم نے کہا اچھا اگر ایسا ہی ہے تو اللہ سورج کو پورب کی طرف سے (زمین پر) طلوع کرتا ہے تم پچھم سے نکال دکھاؤ۔ یہ جواب سن کر وہ بادشاہ جس نے کفر کا شیوہ اختیار کیا تھا، ہکا بکا ہو کر رہ گیا (اور ابراہیم کے خلاف کچھ نہ کرسکا) اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ظالموں پر (کامیابی و فلاح کی) راہ نہیں کھولتا البقرة
259 اور پھر اسی طرح اس شخص کی حالت پر بھی غور کرو جو ایک ایسی بستی پر سے گزرا تھا جس کے مکانوں کی چھتیں گرچکی تھیں اور گری ہوئی چھتوں پر درودیوار کا ڈھیر تھا (یہ حال دیکھ کر) بول اٹھا "جس بستی کی ویرانی کا یہ حال ہے کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ اسے موت کے بعد (دوبارہ) زندہ کردے" (یعنی دوبارہ آباد کردے)۔ پھر ایسا ہوا کہ اللہ نے اس شخص پر سو برس تک موت طاری کردی۔ پھر اس حالت سے اسے اٹھا دیا اور پوچھا کتنی دیر اس حالت میں رہے؟ عرض کیا۔ ایک دن تک یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ ارشاد ہوا نہیں، بلکہ سو برس تک، پس اپنے کھانے اور پانی پر نظر ڈالو۔ ان میں برسوں تک پڑے رہنے کی کوئی علامت نہیں اور (اپنی سواری کے) گدھے پر بھی نظر ڈالو (کہ وہ کس حالت میں) اور (یہ جو کچھ کیا گیا) اس لیے کیا گیا، تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے (حق کی) ایک نشانی ٹھہرائیں (اور تمہارا علم ان کے لیے یقین و بصیرت کا ذریعہ ہو) اور پر (جسم کی) ہڈیوں پر غور کرو۔ کس طرح ہم (ان کا ڈھانچہ بنا کر) کھڑا کردیتے ہیں اور پھر (کس طرح) اس ـ(ڈھانچے) گوشت پر گوشت کا غلاف چرھا دیتے ہیں (کہ ایک مکمل اور متشکل ہستی ظہور میں آجاتی ہے؟) پس جب اس شخص پر یہ حقیقت کھل گئی تو وہ بول اٹھا۔ میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں۔ بلاشبہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ البقرة
260 اور پھر (دیکھو) جب ایسا ہوتا تھا کہ ابراہیم نے کہا تھا "اے پروردگار ! مجھے دکھلا دے کس طرح تو مردوں کو زندہ کردے گا؟ اللہ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں؟ عرض کیا ضرور ہے لیکن یہ اس لیے چاہتا ہوں تاکہ میرے دل کو قرار آجائے (یعنی تیری قدرت پر تو یقین و ایمان ہے، لیکن یہ جو مایوس کن حالت دیکھ کر دل دھڑکنے لگتا ہے، تو یہ بات دور ہوجائے)۔ اس پر ارشاد الٰہی ہوا، اچھا یوں کرو کہ پرندوں میں سے چار جانور پکڑ لو اور انہیں اپنے پاس رکھ کر اپنے ساتھ ہلا (سدھا) لو (یعنی اس طرح ان کی تربیت کرو کہ وہ اچھی طرح تم سے مل جائیں پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کو (اپنے سے دور) ایک ایک پہاڑ پر بٹھا دو، پھر انہیں بلاؤ۔ وہ (آواز سنتے ہی) تمہاری طرف اڑتے ہوئے چلے آئیں گے ! یاد رکھو اللہ سب پر غالب اور اپنے تمام کاموں میں حکمت رکھنے والا ہے البقرة
261 جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں، ان کی (نیکی اور نیکی برکتوں کی) مثال اس بیج کے دانے کی سی ہے جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ (جب بویا گیا تھا تو صرف ایک دانہ تھا۔ لیکن جب بار آور ہوا، تو) ایک دانہ سے سات بالیاں پیدا ہوگئیں، اور ہر بالی میں سو دانے نکل آئے۔ (یعنی خرچ کیا ایک اور بدلے میں ملے سینکڑوں !) اور اللہ جس کسی کے لیے چاہتا ہے، اس سے بھی دوگنا کردیتا ہے۔ وہ بڑی ہی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
262 جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اور اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ لینے والے کو (اپنے قول و فعل سے کسی طرح کا) دکھ پہنچاتے ہیں، تو ان کے پروردگار کے حضور ان کے عمل کا اجر ہے۔ نہ تو ان کے لیے کسی طرح کا ڈر ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
263 سیدھے منہ سے ایک اچھا بول اور (رحم و شفقت سے) عفو و درگزر کی کوئی بات اس خیرات سے کہیں بہتر ہے جس کے ساتھ خدا کے بندوں کے لیے اذیت ہو۔ اور (دیکھو، یہ بات نہ بھولو کہ) اللہ بے نیاز اور حلیم ہے البقرة
264 مسلمانو ! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور لوگوں کو اذیت پہنچا کر برباد نہ کردو، جس طرح وہ آدمی برباد کردیتا ہے، جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے، اور اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ سو ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے۔ جیسے (پتھر کی) ایک چٹان، اس پر مٹی کی تہہ جم گئی، اور اس میں بیج بویا گیا۔ جب زور سے پانی برسا، تو (ساری مٹی مع بیج کے بہہ گئی) اور ایک صاف اور سخت چٹان کے سوا کچھ باقی نہ رہا (سو یہی حال ان ریا کاروں کا بھی ہے) انہوں نے (اپنے نزدیک خیر خیرات کرکے) جو کچھ بھی کمایا تھا وہ (ریا کاری کی وجہ سے) رائیگاں گیا۔ کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ لگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں پر (فلاح و سعادت) کی راہ نہیں کھولتا جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ البقرة
265 (برخلاف اس کے) جو لوگ اپنا مال (نمود و نمائش کے لیے نہیں، بلکہ) اللہ کی خوشنوی کی طلب میں اپنے دل کے جماؤ کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اونچی زمین پر اگایا ہوا باغ۔ اس پر پانی برسا تو دو چند پھل پھول پیدا ہوگئے اور اگر زور سے پانی نہ برسے، تو ہلکی بوندیں بھی اسے شاداب کردینے کے لیے کافی ہیں ! اور یاد رکھو تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں البقرة
266 کیا تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ بات پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں کے درختوں اور انگوروں کی بیلوں کا باغ ہو۔ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں۔ نیز اس میں اور بھی ہر طرح کے پھل پھول پیدا ہوتے ہوں۔ پھر ایسا ہو کہ جب بڑھاپا آجائے اور ناتواں اولاد اس آدمی کے چاروں طرف جمع ہوں، تو اچانک ایک جھلستی ہوئی آندھی چلے اور (آن کی آن میں) باغ جل کر ویران ہوجائے؟ اللہ ایسی ہی مثالوں کے پیرایہ میں تم پر (حقیقت کی) نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ غو و فکر سے کام لو۔ البقرة
267 مسلمانو ! جو کچھ تم نے (محنت مزدوری یا تجارت سے) کمائی کی ہو اس میں سے خرچ کرو یا جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین میں پیدا کردیتے ہیں، اس میں سے نکالو، کوئی صورت ہو لیکن چاہیے کہ خدا کی راہ میں خیرات کرو تو اچھی چیز خیرات کرو۔ ایسا نہ کرو کہ فصل کی پیداوار میں سے کسی چیز کو ردی اور خراب دیکھ کر خیرات کردو (کہ بیکار کیوں جائے، خدا کے نام پر نکال دیں) حالانکہ اگر ویسی ہی چیز تمہیں دی جائے، تو تم کبھی اسے (خوشدلی سے) لینے والے نہیں مگر ہاں، (جان بوجھ کر) آنکھیں بند کرلو، تو دوسری بات ہے۔ یاد رکھو، اللہ کی ذات بے نیاز اور ساری ستائشوں سے ستودہ ہے (اسے تمہاری کسی چیز کی احتیاج نہیں، مگر اپنی سعادت و نجات کے لیے عمل خیر کے محتاج ہو۔ البقرة
268 شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔ اور برائیوں کی ترغیب دیتا ہے، لیکن اللہ تمہیں ایسی راہ کی طرف بلاتا ہے، جس میں اس کی مغفرت اور کے فضل و کرم کا وعدہ ہے۔ اور یاد رکھو اللہ وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
269 وہ جسے چاہتا، حکمت دے دیتا ہے، اور جس کسی کو حکمت مل گئی تو یقین کرو، اس نے بڑی ہی بھلائی پالی اور نصیحت حاصل نہیں کرتے، مگر وہی لوگ جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں البقرة
270 اور دیکھو، خیرات کی قسم میں سے تم جو کچھ بھی خرچ کرو، یا خدا کی نذر ماننے کے طور پر جو کچھ بھی نکالنا چاہو، تو یہ بات یاد رکھو کہ اللہ کے علم سے وہ پوشیدہ نہیں ہے۔ اور جو معصیت کرنے والے ہیں تو انہیں (خدا کی پکڑ سے بچانے میں) کوئی مددگار نہیں ملے گا البقرة
271 اگر تم (بغیر اس کے کہ دل میں نام و نمود کی خواہش ہو) کھلے طور پر خیرات کرو، تو یہ بھی اچھی بات ہے اگر پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو تو اس میں تمہارے لیے بڑی ہی بہتری ہے۔ یہ تمہارے گناہوں کو تم سے دور کردے گی۔ اور یاد رکھو تم جو کچھ بھی کرتے ہو خدا کے علم سے پوشیدہ نہیں، وہ ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے البقرة
272 (اے پیغمبر) تم پر کچھ اس بات کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ ہدایت قبول ہی کرلیں (تمہاری کام) صرف راہ دکھا دینا ہے، یہ کام اللہ کا ہے کہ جسے چاہے راہ پر لگا دے (پس تم لوگوں سے کہہ دو) جو کچھ بھی تم خیرات کرو گے تو (اس کا فائدہ کچھ مجے نہیں مال جائے گا، اور نہ کسی دوسرے پر اس کا احسان ہوگا) خود اپنے ہی فائدہ کے لیے کروگے۔ اور تمہارا خرچ کرنا اسی غرض کے لیے ہے کہ اللہ کی رضا جوئی کی راہ میں خرچ کرو۔ اور (پھر یہ بات بھی یاد رکھو کہ) جو کچھ تم خیرات کرو گے تو (خدا کا قانون یہ ہے کہ) اس کا بدلہ پوری طرح تمہیں دے دے گا، تمہاری حق تلفی نہ ہوگی البقرة
273 حیرات تو ان حاجت مندوں کا حق ہے جو (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہوکر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کام کے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہو کر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کا مکے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (معیشت کی ڈھونڈھ میں) نکلیں اور دوڑ دھوپ کریں (پھر باوجود فقر و فاقے کے ان کی خود داری کا یہ حال ہے کہ) ناواقف آدمی دیکھے، تو خیال کرے انہیں کسی طرح کی احتیاج نہیں۔ تم ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حالت جان لے سکتے ہو، لیکن وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال کرنے والے نہیں۔ اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی نیکی کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا علم رکھنے والا ہے البقرة
274 (غرض کہ) جو لوگ رات کی تاریکی میں اور دن کی روشنی میں، پوشیدہ طور پر اور کھلے طور پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں، تو یقینا ان کے پروردگار کے حضور ان کا اجر ہے۔ نہ تو ان کے لیے (عذاب کا) ڈر ہوگا، نہ (نامرادی کی) غمگینی البقرة
275 جو لوگ (حاجت مندوں کی مدد کرنے کی جگہ الٹا ان سے) سود لیتے اور اس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں، وہ (یاد رکھیں ان کے ظلم و ستم کا نتیجہ ان کے آگے آنے والا ہے۔ وہ) کھڑے نہیں ہوسکیں گے مگر اس آدمی کا سا کھڑا ہونا جسے شیطان کی چھوت نے باؤلا کردیا ہو۔ (یعنی مرگی کا روگی ہو) یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے (سود کے ناجائز ہونے سے انکار کیا اور) کہا، خرید و فروخت کرنا بھی ایسا ہی ہے جیسے قرض دے کر سود لینا، حالانکہ خرید و فروخت کو تو خدا نے حلال ٹھہرایا ہے، اور سود کو حرام (دونوں باتیں ایک طرح کی کیسے ہوسکتی ہیں) سو اب جس کسی کو اس کے پروردگار کی یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ آئندہ سود لینے سے رک گیا، تو جو کچھ پہلے لے چکا ہے، وہ اس کا ہوچکا، اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے۔ لیکن جو کوئی باز نہ آیا تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ عذاب میں رہنے والا البقرة
276 اللہ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور (یاد رکھو) تمام ایسے لوگوں کو جو نعمت الٰہی کے ناسپاس اور نافرمان ہیں، اس کی پسندیدگی حاصل نہیں ہوسکتی البقرة
277 جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کے کام بھی اچھے ہیں، نیز نماز قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے ہیں، تو بلاشبہ ان کے پروردگار کے حضور ان کا اجر ہے۔ نہ تو ان کے لیے کسی طرح کا ڈر ہوسکتا ہے نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
278 مسلمانو ! اگر فی الحقیقت تم خدا پر ایمان رکھتے ہو، تو اس سے ڈرو، اور جس قدر سود مقروضوں کے ذمے باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو البقرة
279 اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ (کیونکہ ممانعت کے صاف صاف حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا، اللہ اور اس کے رسول کے برخلاف جنگ آزما ہوجانا ہے) اور اگر (اس باغیانہ روش سے) توبہ کرتے ہو، تو پھر تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ اپنی اصلی رقم لے لو اور سود چھوڑ دو۔ نہ تو تم کسی پر ظلم کرو نہ تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے۔ البقرة
280 اور اگر ایسا ہو کہ ایک مقروض تنگ دست ہے (اور فوراً قرض ادا نہیں کرسکتا) تو چاہیے کہ اسے فراخی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے۔ اور اگر تم سمجھ رکھتے ہو، تو تمہارے لیے بہتری کی بات تو یہ ہے کہ (ایسے تنگ دست بھائی کو) اس کا قرض بطور خیرات بخش دو البقرة
281 اور دیکھو، اس دن (کی پرسش) سے ڈرو، جبکہ تم سب اللہ کے حضور لوٹائے جاؤگے، اور پھر ایسا ہوگا کہ ہر جان نے (اپنے عمل سے) جو کچھ کمایا ہے اس کا بدلہ پورا پورا اسے مل جائے گا۔ یہ نہ ہوگا کہ کسی کی بھی حق تلفی ہو البقرة
282 مسلمانو ! جب کبھی ایسا ہو کہ تم خاص میعاد کے لیے ادھار لینے دینے کا معاملہ کرو تو چاہیے کہ لکھا پڑھی کرلو اور تمہارے درمیان ایک لکھنے والا ہو جو دیانت داری کے ساتھ دستاویز قلم بند کردے۔ لکھنے والے کو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے کہ جس طرح اللہ نے اسے (دیانت داری کے ساتھ لکھنا) بتلا دیا ہے اس کے مطابق لکھ دے۔ اسے لکھ دینا چاہیے۔ لکھا پڑھی اس طرح ہو کہ جس کے ذمہ دینا ہے، وہ مطلب بولتا جائے (اور کاتب لکھتا جائے) اور چاہیے کہ ایسا کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا دل میں خوف رکھے۔ جو کچھ اس کے ذمے آتا ہے، اس میں کسی طرح کی کمی نہ کرے ٹھیک ٹھیک لکھوادے۔ اگر ایسا ہو کہ جس کے ذمے دینا ہے، وہ بے عقل ہو یا ناتواں ہو (یعنی لین دین اور معاملہ کی سمجھ نہ رکھتا ہو) یا اس کی استعداد نہ رکھتا ہو کہ خود کہے اور لکھوائے، تو اس صورت میں چاہیے، اس کی جانب سے اس کا سرپرست دیانت داری کے ساتھ مطلب بولتا جائے اور (جو دستاویز لکھی جائے) اس پر اپنے آدمیوں میں سے دو آدمیوں کو گواہ کرلو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد (کے بدلے) دو عورتیں، جنہیں تم گواہ کرنا پسند کرو۔ اگر (گواہی دیتے ہوئے) ایک بھول جائے گی دوسری یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ طلب کیے جائیں تو گواہی دینے سے بچنا نہ چاہیں اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جب تک میعاد باقی ہے، دستاویز لکھنے میں کاہلی نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک اس میں تمہارے لیے انصاف کی زیادہ مضبوطی ہے، شہادت کو اچھی طرح قائم رکھنا ہے، اور اس بات کا حتی الامکان بندوبست کردینا ہے کہ (آئندہ) شک و شبہ میں نہ پڑو۔ ہاں، اگر ایسا ہو کہ نقد (لین دین) کا کاروبار ہو جسے تم (ہاتھوں ہاتھ) لیا دیا کرتے ہو، تو ایسی حالت میں کوئی مضائقہ نہیں اگر لکھا پڑھی نہ کی جائے۔ لیکن (تجارتی کاروبار میں بھی) سودا کرتے ہوئے گواہ کرلیا کرو (تاکہ خرید و فروخت کی نوعیت اور شرائط کے بارے میں بعد کو کوئی جھگڑا نہ ہوجائے) اور کاتب اور گواہ کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے (یعنی اس کا موقعہ نہ دیا جائے کہ اہل غرض ان پر دباؤ ڈالیں اور سچی بات کے اظہار سے مانع ہوں) اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہارے لیے گناہ کی بات ہوگی۔ اور چاہیے کہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہیں (فلاح و سعادت کے طریقے) سکھلاتا ہے، اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے البقرة
283 اور اگر تم سفر میں ہو اور (ایسی حالت ہو کہ باقاعدہ لکھا پڑھی کرنے کے لیے) کوئی کاتب نہ ملے، تو اس صورت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز گرو رکھ کر اس کا قبضہ (قرض دینے والے کو) دے دیا جائے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ تم میں سے ایک آدمی دوسرے کا اعتبار کرے، تو جس کا اعتبار کیا گیا ہے (یعنی جس کا اعتبار کرکے گرو کی چیز اس کی امانت میں دے دی گئی ہے) وہ (قرض کی رقم لے کر مقروض کی) امانت واپس کردے اور (اس بارے میں) اپنے پروردگار (کی پوچھ گچھ) سے بے خوف نہ ہو۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ گواہی چھپاؤ (اور کسی کے خوف یا طمع سے حقیقت کا اظہار نہ کرو) جو کوئی گواہی چھپائے گا، وہ اپنے دل میں گنہگار ہوگا (اگرچہ بظاہر لوگ اس کے جرم سے واقف نہ ہوں اور اسے بے گناہ سمجھیں) اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں البقرة
284 آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، تم اسے ظاہر کرو، یا پوشیدہ رکھو ہر حال میں اللہ جاننے والا ہے۔ وہ تم سے ضرور اس کا حساب لے گا۔ اور پھر یہ اسی کے ہاتھ ہے کہ جسے چاہے بخش دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ ہر بات پر قادر ہے البقرة
285 اللہ کا رسول اس (کلام) پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر نازل ہوا ہے، اور جو لوگ (دعوت حق پر) ایمان لائے ہیں وہ بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ (ان کے ایمان کا دستور العمل یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی کو دوسرے سے جدا نہیں کرتے (کہ اسے مانیں، دوسروں کو نہ مانیں۔ یا سب کو مانیں مگر کسی ایک سے انکار کردیں۔ ہم خدا کے تمام رسولوں کی یکساں طور پر تصدیق کرنے والے ہیں) اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں داعی حق نے پکارا تو) انہوں نے کہا خدایا ! ہم نے تیرا حکم سنا اور ہم نے تیرے آگے اطاعت کا سر جھکا دیا۔ تیری مغفرت ہمیں نصیب ہو۔ خدایا ! ہم سب کو تیری ہی طرف (بالآخر) لوٹنا ہے۔ البقرة
286 اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ ہر جان کے لیے وہی ہے، جیسی کچھ اس کی کمائی ہے۔ جو کچھ اسے پانا ہے، وہ بھی اس کی کمائی سے ہے، اور جس کے لیے اسے جواب دہ ہونا ہے، وہ بھی اس کی کمائی ہے (پس ایمان والوں کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! اگر ہم سے (سعی و عمل میں) بھول چوک ہوجائے تو اس کے لیے نہ پکڑیوں اور ہمیں بخش دیجیو ! خدایا ! ہم پر بندھنوں اور گرفتاریوں کا بوجھ نہ ڈالیو جیسا ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ! خدایا ! بوجھ ہم سے نہ اٹھوائیو جس کے اٹھانے کی ہم (ناتوانوں ٰ میں سکت نہ ہو ! خدایا ہم سے درگزر کر ! خدایا ہم پر رحم کر ! خدایا ! تو ہی ہمارا مالک و آقا ہے۔ پس ان (ظالموں) کے مقابلے میں جن کا گروہ کفر کا گروہ ہے، ہماری مدد فرما البقرة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے آل عمران
1 الف۔ لام۔ میم آل عمران
2 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کوئی نہیں مگر اسی کی ایک ذات الحی (یعنی زندہ کہ اس کے لیے زوال و فنا نہیں) القیوم (کہ کائنات ہستی کی ہر چیز اس سے قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لیے کسی کا محتاج نہیں) آل عمران
3 اسی نے تم پر سچائی کے ساتھ الکتاب نازل کی (یعنی قرآن نازل کیا) اس سے پہلے جس قدر کتابیں نازل ہوچکی ہیں۔ ان سب کی تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے (ان سے الگ نہیں ہے) اور اسی (حی و قیوم ذات) نے اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کی تھی۔ آل عمران
4 نیز اس نے الفرقان (یعنی نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوت) بھی نازل فرمائی۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں (اور حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیتے ہیں) تو (یاد رکھیں) انہیں (پاداش عمل میں) سخت عذاب ملنے والا ہے، اور اللہ سب پر غالب اور (مجرموں کو) سزا دینے والا ہے۔ آل عمران
5 بلاشبہ اللہ کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں آل عمران
6 خواہ زمین میں ہو خواہ آسمان میں۔ یہ اسی کی کار فرمائی ہے کہ جس طرح چاہتا ہے، ماں کے شکم میں تمہاری صورت (کا ڈیل ڈول اور ناک نقشہ) بنا دیتا ہے (اور قبل اس کے کہ دنیا میں قدم رکھو تمہاری حالت و ضرورت کے مطابق تمہیں ایک موزوں صورت مل جاتی ہے) یقیناً کوئی معبود نہیں ہے، مگر وہی غالب و توانا ۃ کہ اسی کے حکم و طاقت سے سے سب کچھ ظہور میں آتا ہے) حکمت والا (کہ انسان کی پیدائش سے پہلے شکم مادر میں اس کی صورت آرائی کردیتا ہے آل عمران
7 (اے پیغمبر) وہی (حی و قیوم ذات) ہے جس نے تم پر الکتاب نازل فرمائی ہے۔ اس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کی ہے ( یعنی ایسی آیتوں کی جو اپنے ایک ہی معنی میں اٹل اور ظاہر ہیں) اور وہ کتاب کی اصل و بنیاد ہیں۔ دوسری قسم متشابہات کی ہے (یعنی جن کا مطلب کھلا اور قطعی نہیں ہے) تو جن لوگوں کے لیے دلوں میں کجی ہے (اور سیدھے طریقے پر بات نہیں سمجھ سکتے) وہ (محکم آیتیں چھوڑ کر) ان آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں جو کتاب اللہ میں متشابہ ہیں۔ اس غرض سے کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرلیں، حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (کیونکہ ان کا تعلق اس عالم سے ہے جہاں تک انسان کا علم و حواس نہیں پہنچ سکتا) مگر جو لوگ علم میں پکے ہیں، وہ (متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے وہ) کہتے ہیں "ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے" اور حقیقت یہ ہے کہ (تعلیم حق سے) دانائی حاصل نہیں کرتے مگر وہی جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں آل عمران
8 (ان ارباب عقل و بصیرت کی صدائے حال ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! ہمیں سیدھے رستے لگا دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ڈانوا ڈول نہ کر، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ! یقینا تو ہی ہے کہ بخشش میں تجھ سے بڑا کوئی نہیں آل عمران
9 خدایا (عالم آخرت کے معاملات ہماری عقل نارسا میں آئیں یا نہ آئیں لیکن) اس میں کوئی شک نہیں کہ تو ایک دن سب کو اپنے حضور جمع کرنے والا ہے (یہ تیرا وعدہ ہے اور) یقیناً تیرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوسکتا آل عمران
10 جن لوگوں نے (ایمان و راست بازی کی جگہ) کفر کی راہ اختیار کی ہے تو (وہ یاد رکھیں) انہیں اللہ کی پکڑ سے نہ تو ان کی دولت بچا سکے گی (جس کی کثرت کا انہیں گھمنڈ ہے) نہ آل اولاد، (جس دنیا کی مصیبتوں مشکلوں میں ان کے کام آتی رہتی ہے) یہ وہ لوگ ہیں کہ آتش عذاب کا ایندھن بن کر رہیں گے آل عمران
11 ان لوگوں کا بھی وہی ڈھنگ ہوا جو فرعون کے گروہ کا تھا، اور ان لوگوں کا تھا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے اللہ کی نشانیاں جھٹلائیں۔ تو اللہ نے بھی پاداش عمل میں انہیں پکڑ لیا اور (یاد رکھو) وہ (جرموں میں کی سزا دینے میں) بہت ہی سخت سزا دینے والا ہے آل عمران
12 (اے پیغمبر !) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، ان سے کہہ دو "وہ وقت دور نہیں جب (آل فرعون کی طرح) تم بھی (غلبہ حق سے) مغلوب ہوجاؤ گے اور جہنم کی طرف ہنکائے جاؤ گے۔ اور (جس گروہ کا آخری ٹھکانا جہنم ہو، تو اس کا ٹھکانا) کیا ہی برا ٹھکانا ہے آل عمران
13 بلاشبہ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں (کلمہ حق کی فتح مندیوں کی) بڑی ہی نشانی تھی، جو (بدر کے میدان میں) ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے۔ اس وقت ایک گروہ تو (مٹھی بھر بے سروسامان مسلمانوں کا تھا جو) اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا۔ دوسرا منکرین حق کا تھا جنہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان سے دو چند ہیں (بایں ہمہ منکرین حق کو شکست ہوئی) اور اللہ جس کسی کو چاہتا ہے، اپنی نصرت سے مددگاری پہنچاتا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو چشم بینا رکھتے ہیں، اس معاملہ میں بڑی عبرت ہے آل عمران
14 انسان کے لیے مرد و عورت کے رشتہ میں، اولاد میں، چاندی سونے کے ذخیروں میں، چنے ہوئے گھوروں میں، مویشی میں اور کھیتی باری میں دل کا اٹکاؤ اور خوش نمائی رکھ دی گئی ہے۔ (اس لیے قدرتی طور پر تمہیں بھی ان چیزوں کی خواہش ہوگی) لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی زندگی کا فائدہ اٹھانا ہے اور بہتر ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے آل عمران
15 (اے پیغمبر) ان سے کہہ دو۔ میں تمہیں بتلاؤ۔ زندگی کے ان فائدوں سے بھی بہتر تمہارے لیے کیا ہے؟ جو لوگ متقی ہیں ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس (نعیم ابدی کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ ان باغوں میں رہیں گے۔ پاک بیویاں ان کے ساتھ ہوں گی۔ اور (سب سے بڑھ کر یہ کہ) اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی۔ اور (یاد رکھو) اللہ اپنے بندوں کا حال دیکھ رہا ہے آل عمران
16 (یہ متقی انسان وہ ہیں) جو کہتے ہیں "خدایا ! ہم تجھ پر ایمان لائے، پس ہمارے گناہ بخش دیجیو اور عذاب جہنم سے ہمیں بچا لیجیو" آل عمران
17 (شدت و مصیبت میں) صبر کرنے والے (قول و عمل میں) سچے، خشوع و خضوع میں پکے، نیکی کی راہ میں خرچ کرے والے، اور رات کی آخری گھڑیوں میں (جب تمام دنیا خواب سحر کے مزے لوٹتی ہے) اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے اور اس کی مغفرت کے طلب گار آل عمران
18 اللہ نے اس بات کی گواہی آشکارا کردی کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف اسی کی ذات یگانہ، عدل کے ساتھ (تمام کارخانہ ہستی میں) تدبیر و انتظام کرنے والی۔ فرشتے بھی (اپنے اعمال سے) اسی کی شہادت دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علم رکھنے والے ہیں۔ ہاں کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی ایک۔ طاقت و غلبہ والا (کہ اسی کی تدبیر سے تمام کارخانہ ہستی قائم ہے) حکمت والا (کہ اسی نے عدل کی بنیاد پر اس کارخانہ کا ہر گوشہ استوار کردیا ہے۔ آل عمران
19 بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دین بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین کی راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پاسنے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ (کا قانون جزا) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں آل عمران
20 اللہ نے اس بات کی گواہی آشکارا کردی کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف اسی کی ذات یگانہ، عدل کے ساتھ (تمام کارخانہ ہستی میں) تدبیر و انتظام کرنے والی۔ فرشتے بھی (اپنے اعمال سے) اسی کی شہادت دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علم رکھنے والے ہیں۔ ہاں کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی ایک۔ طاقت و غلبہ والا (کہ اسی کی تدبیر سے تمام کارخانہ ہستی قائم ہے۔) حکمت والا (کہ اسی نے عدل کی بنیاد پر اس کارخانہ کا ہر گوشہ استوار کردیا ہے) آل عمران
21 بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دیں بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پانے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ ( کا قانون جز) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں آل عمران
22 پھر اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں تو (اے پیغمبر) تم کہہ دو میرے اور میرے پیروؤں کا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیا ہے (یعنی ہماری راہ خدا پرستی کے سوا اور کچھ نہیں ہے) اور اہل کتاب اور (عرب کے) ان پڑھ لوگوں سے پوچھو تم بھی اللہ کے آگے جھکتے ہو یا نہیں؟ اگر وہ جھک جائیں تو (سارا جھگڑا ختم ہوگیا اور) انہوں نے راہ پالی، اگر روگردانی کریں تو پھر (جن لوگوں کو خدا پرستی ہی سے انکار ہو اور محض گروہ بندی کے تعصب کو دین داری سمجھ رہے ہوں، ان کے لیے دلیل و موعظت کیا سود مند ہوسکتی ہے) تمہارے ذمے جو کچھ ہے وہ پیام حق پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں کے حال سے غافل نہیں۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے آل عمران
23 جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں اور اس کے نبیوں کے ناحق قتل میں چھوٹ ہیں۔ نیز ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو حق و عدالت کا حکم دینے والے ہیں تو (ایسے خوش اعمال لوگوں کے لیے اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ) انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری پہنچا دو آل عمران
24 یہی لوگ ہیں جن کا کیا دھرا دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت گیا اور کوئی نہیں جو ان کا مددگار ہوگا آل عمران
25 بھلا اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ہم انہیں ایک ایسے دن ( کا سامنا کرنے) کے لیے جمع کر لائیں گے جس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے اور ہر ہر شخص نے جو کچھ کمائی کی ہوگی وہ اس کو پوری پوری دے دی جائے گی، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
26 کہو کہ : اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (٦) آل عمران
27 تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ (٧) اور تو ہی بے جان چیز میں سے جاندار کو برآمد کرلیتا ہے اور جاندار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے، (٨) اور جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ آل عمران
28 مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، (٩) اور اللہ تمہیں اپنے ( عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف ( سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔ آل عمران
29 (اے رسول) لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ اسے جان لے گا۔ اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، وہ سب جانتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آل عمران
30 وہ دن یاد رکھو جس دن کسی بھی شخص نے نیکی کا جو کام کیا ہوگا، اسے اپنے سامنے موجود پائے گا، اور برائی کا جو کام کیا ہوگا اس کو بھی ( اپنے سامنے دیکھ کر) یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کی بدی کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہوتا۔ اور اللہ تمہیں اپنے ( عذاب) سے بچاتا ہے، اور اللہ بندوں پر بہت شفقت رکھتا ہے۔ آل عمران
31 (اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ آل عمران
32 کہہ دو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر منہ موڑو گے تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ آل عمران
33 اللہ نے آدم، نوح، ابراہیم کے خاندان، اور عمران کے خاندان کو چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ آل عمران
34 یہ ایسی نسل تھی جس کے افراد (نیکی اور اخلاص میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے، (١٠) اور اللہ ( ہر ایک کی بات) سننے والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ آل عمران
35 (چنانچہ اللہ کے دعا سننے کا وہ واقعہ یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا تھا کہ : یا رب ! میں نے نذر مانی ہے کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے ہر کام سے آزاد کر کے تیرے لیے وقف رکھوں گی۔ میری اس نذر کو قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ آل عمران
36 پھر جب ان سے لڑکی پیدا ہوئی تو وہ (حسرت سے) کہنے لگیں : یا رب یہ تو مجھ سے لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔ حالانکہ اللہ کو خوب علم تھا کہ ان کے یہاں کیا پیدا ہوا ہے۔ اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں ہوتا، میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے حفاظت کے لیے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ آل عمران
37 چنانچہ اس کے رب نے اس ( مریم) کو بطریق احسن قبول کیا اور اسے بہترین طریقے سے پروان چڑھایا۔ اور زکریا اس کے سرپرست بنے۔ ( ١١) جب بھی زکریا ان کے پاس ان کی عبادت گاہ میں جاتے، ان کے پاس کوئی رزق پاتے، انہوں نے پوچھا : مریم ! تمہارے پاس یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ وہ بولیں : اللہ کے پاس سے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے آل عمران
38 اس موقع پر زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، کہنے لگے : یا رب مجھے خاص اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرمادے۔ بیشک تو دعا کا سننے والا ہے۔ (١٢) آل عمران
39 چنانچہ ( ایک دن) جب زکریا عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ : اللہ آپ کو یحی کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جو اس شان سے پیدا ہوں گے کہ اللہ کے ایک کلمے کی تصدیق کریں گے، (١٣) لوگوں کے پیشوا ہوں گے، اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر روکے ہوئے ہوں گے، (١٤) اور نبی ہوں گے اور ان شمار راست بازوں میں ہوگا۔ آل عمران
40 زکریا نے کہا : یا رب ! میرے یہاں لڑکا کس طرح پیدا ہوگا جبکہ مجھے بڑھاپا آپہنچا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے ؟ (١٥) اللہ نے کہا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ آل عمران
41 انہوں نے کہا : پروردگار میرے لیے کوئی نشانی مقرر کردیجیے، اللہ نے کہا : تمہاری نشانی یہ ہوگی کہ تم تین دن تک اشاروں کے سوا کوئی بات نہیں کرسکو گے۔ (١٦) اور اپنے رب کا کثرت سے ذکر کرتے رہو، اور ڈھلے دن کے وقت بھی اور صبح سویرے بھی اللہ کی تسبیح کیا کرو۔ آل عمران
42 اور ( اب اس وقت کا تذکرہ سنو) جب فرشتوں نے کہا تھا کہ : اے مریم ! یشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے، تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور دنیا جہان کی ساری عورتوں میں تمہیں منتخب کرکے فضیلت بخشی ہے۔ آل عمران
43 اے مریم ! تم اپنے رب کی عبادت میں لگی رہو، اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع بھی کیا کرو۔ آل عمران
44 ( اے پیغمبر) یہ سب غیب کی خبریں ہیں جو ہم وحی کے ذریعے تمہیں دے رہے ہیں، تم اس وقت ان کے پاس نہیں تھے جب وہ یہ طے کرنے کے لیے اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے گا، ( ١٧) اور نہ اس وقت تم ان کے پاس تھے جب وہ ( اس مسئلے میں) ایک دوسرے سے اختلاف کررہے تھے۔ آل عمران
45 ( وہ وقت بھی یاد کرو) جب فرشتوں نے مریم سے کہا تھا کہ : اے مریم ! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ایک کلمے کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، ( ١٨) جو دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب وجاہت ہوگا، اور ( اللہ کے) مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ آل عمران
46 اور وہ گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرے گا (١٩) اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا۔ آل عمران
47 مریم نے کہا : پروردگار مجھ سے لڑکا کیسے پیدا ہوجائے گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں؟ اللہ نے فرمایا : اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ“ ہوجا ” بس وہ ہوجاتا ہے۔ آل عمران
48 اور وہی ( اللہ) اس کو (یعنی عیسیٰ ابن مریم کو) کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دے گا۔ آل عمران
49 اور اسے بنی اسرائیل کے پاس رسول بنا کربھیجے گا (جو لوگوں سے یہ کہے گا) کہ : میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، (اور وہ نشانی یہ ہے) کہ میں تمہارے سامنے گارے سے پرندے جیسی ایک شکل بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے، اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کردیتا ہوں، اور مردوں کو زندہ کردیتا ہوں، اور تم لوگ جو کچھ اپنے گھروں میں کھاتے یا ذخیرہ کر کے رکھتے ہو میں ہو سب بتا دیتا ہوں۔ (٢٠) اگر تم ایمان لانے والے ہو تو ان تمام باتوں میں تمہارے لیے ( کافی) نشانی ہے۔ آل عمران
50 اور جو کتاب مجھ سے پہلے آچکی ہے، یعنی تورات، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں، اور ( اس لیے بھیجا گیا ہوں) تاکہ کچھ چیزیں جو تم پر حرام کی گئی تھیں، اب تمہارے لیے حلال کردوں۔ (٢١) اور میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں، لہذا اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔ آل عمران
51 بیشک اللہ میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ یہی سیدھا راستہ ہے ( کہ صرف اسی کی عبادت کرو) آل عمران
52 پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں، تو انہوں نے (اپنے پیرووں سے) کہا : کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہوں؟ حواریوں (٢٢) نے کہا : ہم اللہ ( کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لاچکے ہیں، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔ آل عمران
53 اے ہمارے رب ! آپ نے جو کچھ نازل کیا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے رسول کی اتباع کی ہے، لہذا ہمیں ان لوگوں میں لکھ لیجیے جو ( حق کی) گواہی دینے والے ہیں۔ آل عمران
54 اور ان کافروں نے ( عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف) خفیہ تدبیر کی، اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ آل عمران
55 (اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، (٢٣) اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان ( کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے، ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ (٢٤) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ آل عمران
56 چنانچہ جو لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کو تو میں دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دوں گا، اور ان کو کسی طرح کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔ آل عمران
57 البتہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کو اللہ ان کا پورا پورا ثواب دے گا، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ آل عمران
58 (اے پیغمبر) یہ وہ آیتیں اور حکمت بھرا ذکر ہے جو ہم تمہیں پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ آل عمران
59 اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا : ہوجاؤ۔ بس وہ ہوگئے۔ آل عمران
60 حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے آیا ہے، لہذا شک کرنے والوں میں شامل نہ ہوجانا۔ آل عمران
61 تمہارے پاس ( حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (٢٥) آل عمران
62 یقین جانو کہ واقعات کا سچا بیان یہی ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور یقینا اللہ ہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ آل عمران
63 پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو اللہ مفسدوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ آل عمران
64 (مسلمانو ! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، ( اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔ آل عمران
65 اے اہل کتاب ! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد ہی تو نازل ہوئی تھیں، کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے ؟ آل عمران
66 دیکھو ! یہ تم ہی تو ہو جنہوں نے ان معاملات میں اپنی سی بحث کرلی ہے جن کا تمہیں کچھ نہ کچھ علم تھا۔ (٢٦) اب ان معاملات میں کیوں بحث کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے ؟ اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔ آل عمران
67 ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ آل عمران
68 ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ لوگ ہیں جو ( ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔ آل عمران
69 (مسلمانو) اہل کتاب کا ایک گروہ یہ چاہتا ہے کہ تم لوگوں کو گمراہ کردے، حالانکہ وہ اپنے سوا کسی اور کو گمراہ نہیں کر رہے، اگرچہ انہیں اس کا احساس نہیں ہے۔ آل عمران
70 اے اہل کتاب ! اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود (ان کے من جانب اللہ ہونے کے) گواہ ہو۔ (٢٧) آل عمران
71 اے اہل کتاب ! تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں گڈ مڈ کرتے ہو اور کیوں جان بوجھ کر حق بات کو چھپاتے ہو؟ آل عمران
72 اہل کتاب کے ایک گروہ نے (ایک دوسرے سے) کہا ہے کہ : جو کلام مسلمانوں پر نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے شروع میں تو ایمان لے آؤ، اور ان کے آخری حصے میں اس سے انکار کردینا، شاید اس طرح مسلمان ( بھی اپنے دین سے) پھر جائیں۔ (٢٨) آل عمران
73 مگر دل سے ان لوگوں کے سوا کسی کی نہ ماننا جو تمہارے دین کے متبع ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ہدایت تو وہی ہدایت ہے جو اللہ کی دی ہوئی ہو، یہ ساری باتیں تم اس ضد میں کر رہے ہو کہ کسی کو اس جیسی چیز (یعنی نبوت اور آسمانی کتاب) کیوں مل گئی جیسی کبھی تمہیں دی گئی تھی یا یہ ( مسلمان) تمہارے رب کے آگے تم پر غالب کیوں آگئے۔ آپ کہہ دیجیے کہ فضیلت تمام تر اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ آل عمران
74 وہ اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے خاص طور پر منتخب کرلیتا ہے، اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔ آل عمران
75 اہل کتاب میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس دولت کا ایک ڈھیر بھی امانت کے طور پر رکھوا دو تو وہ تمہیں واپس کردیں گے، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو۔ ان کا یہ طرز عمل اس لیے ہے کہ انہوں نے یہ کہہ رکھا ہے کہ : امیوں ( یعنی غیر یہودی عربوں) کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہماری کوئی پکڑ ہیں ہوگی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں۔ آل عمران
76 بھلا پکڑ کیوں نہیں ہوگی؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو اپنے عہد کو پورا کرے گا اور گناہ سے بچے گا تو اللہ ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
77 (اس کے برخلاف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک۔ آل عمران
78 اور انہی میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے ہیں جو کتاب ( یعنی تورات) پڑھتے وقت اپنی زبانوں کو مروڑتے ہیں تاکہ تم ( ان کی مروڑ کر بنائی ہوئی) اس عبارت کو کتاب کا حصہ سمجھو، حالانکہ وہ کتاب کا حصہ نہیں ہوتی، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ( عبارت) اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں۔ آل عمران
79 یہ کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کرے، اور وہ اس کے باوجود لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ (٢٩) اس کے بجائے ( وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ پڑھتے رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے۔ آل عمران
80 اور نہ وہ تمہیں یہ حکم دے سکتا ہے کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا قرار دے دو۔ جب تم مسلمان ہوچکے تو کیا اس کے بعد وہ تمہیں کفر اختیار کرنے کا حکم دے گا؟ آل عمران
81 اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے، اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔ آل عمران
82 اس کے بعد بھی جو لوگ (ہدایت سے) منہ موڑیں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔ آل عمران
83 اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے، (کچھ نے) خوشی سے اور (کچھ نے) ناچار ہوکر، (٣٠) اور اسی کی طرف وہ سب لوٹ کر جائیں گے۔ آل عمران
84 کہہ دو کہ : ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو (کتاب) ہم پر اتاری گئی اس پر، اور اس (ہدایت) پر جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور (ان کی) اولاد پر ان کے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی، اور ان باتوں پر جو موسی، عیسیٰ اور (دوسرے) پیغمبروں کو عطا کی گئیں۔ ہم ان (پیغمبروں) میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (ایک اللہ) کے آگے سرجھکائے ہوئے ہیں۔ آل عمران
85 جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔ آل عمران
86 اللہ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلیا؟ حالانکہ وہ گوہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچے ہیں، اور ان کے پاس ( اس کے) روشن دلائل بھی آچکے تھے۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ آل عمران
87 ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے۔ آل عمران
88 اسی (پھٹکار) میں یہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے لیے عذاب ہلکا کیا جائے گا، اور نہ انہیں کوئی مہلت دی جائے گی۔ آل عمران
89 البتہ جو لوگ اس سب کے بعد بھی توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ آل عمران
90 (اس کے برخلاف) جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی۔ (٣١) ایسے لوگ راستے سے بالکل ہی بھٹک چکے ہیں۔ آل عمران
91 جن لوگوں نے کفر اپنایا اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے، ان میں سے کسی سے پوری زمین بھر کر سونا قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے اس کی پیشکش ہی کیوں نہ کرے۔ ان کو تو دردناک عذاب ہو کر رہے گا، اور ان کو کسی قسم کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔ آل عمران
92 تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خڑچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔ (٣٢) اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ آل عمران
93 تورات کے نازل ہونے سے پہلے کھانے کی تمام چیزیں (جو مسلمانوں کے لیے حلال ہیں) بنی اسرائیل کے لیے ( بھی) حلال تھیں، سوائے اس چیز کے جو اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام) نے اپنے اوپر حرام کرلی تھی۔ (اے پیغمبر ! یہودیوں سے) کہہ دو کہ : اگر تم سچے ہو تو تورات لے کر آؤ اور اس کی تلاوت کرو۔ (٣٣) آل عمران
94 پھر ان باتوں کے (واضح ہونے کے) بعد بھی جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھیں، تو ایسے لوگ بڑے ظالم ہیں۔ آل عمران
95 آپ کہیے کہ اللہ نے سچ کہا ہے، لہذا تم ابراہیم کے دین کا اتباع کرو جو پوری طرح سیدھے راستے پر تھے، اور ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اللہ کی خدائی میں کسی کو شریک مانتے ہیں۔ آل عمران
96 حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینی طور پر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے (اور) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے۔ (٣٤) آل عمران
97 اس میں روشن نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہوتا ہے امن پا جاتا ہے۔ اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔ آل عمران
98 کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب کا گواہ ہے۔ آل عمران
99 کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! اللہ کے راستے میں ٹیڑھ پیدا کرنے کی کوشش کر کے ایک مومن کے لیے اس میں کیوں رکاوٹ ڈالتے ہو جبکہ تم خود حقیقت حال کے گواہ ہو؟ (٣٥) جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ آل عمران
100 اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی بات مان لو گے تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تم کو دوبارہ کافر بان کر چھوڑیں گے۔ آل عمران
101 اور تم کیسے کفر اپناؤ گے جبکہ اللہ کی آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں اور اس کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے؟ اور (اللہ کی سنت یہ ہے کہ) جو شخص اللہ کا سہارا مضبوطی سے تھام لے، وہ سیدھے راستے تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ آل عمران
102 اے ایمان والو ! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار ! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔ آل عمران
103 اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگے کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔ آل عمران
104 اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ آل عمران
105 اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جن کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے تھے، اس کے بعد بھی انہوں نے آپس میں پھوٹ ڈال لی اور اختلاف میں پڑگئے، ایسے لوگوں کو سخت سزا ہوگی۔ آل عمران
106 اس دن جب کچھ چہرے چمکتے ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے۔ چنانچہ جن لوگوں کے چہرے سیاہ پڑجائیں گے ان سے کہا جائے گا کہ : کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا؟ (٣٦) لو پھر اب مزہ چکھو اس عذاب کا، کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے۔ آل عمران
107 دوسری طرف جن لوگوں کے چہرے چمکتے ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں جگہ پائیں گے، وہ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ آل عمران
108 یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنا رہے ہیں، اور اللہ دنیا جہان کے لوگوں پر کسی طرح کا ظلم نہیں چاہتا۔ آل عمران
109 آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، اللہ ہی کا ہے اور اسی کی طرف تمام معاملات لوٹائے جائیں گے۔ آل عمران
110 (مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔ آل عمران
111 وہ تھوڑا بہت ستانے کے سوا تمہیں کوئی نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکیں گے، اور اگر وہ تم سے لڑیں گے بھی تو تمہیں پیٹھ دکھا جائیں گے، پھر انہیں کوئی مدد بھی نہیں پہنچے گی۔ آل عمران
112 وہ جہاں کہیں پائے جائیں، ان پر ذلت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہوجائے یا انسانوں کی طرف سے کوئی ذریعہ نکل آئے جو ان کو سہارا دیدے، انجام کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (نیز) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے، اور ساری حدیں پھلانگ جایا کرتے تھے۔ آل عمران
113 (لیکن) سارے اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں، اہل کتاب ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو (راہ راست پر) قائم ہیں، جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور جو (اللہ کے آگے) سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (٣٧) آل عمران
114 یہ لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اچھائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، اور نیک کاموں کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہے۔ آل عمران
115 وہ جو بھلائی بھی کریں گے، اس کی ہرگز ناقدری نہیں کی جائے گی، اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔ آل عمران
116 (اس کے برعکس) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، اللہ کے مقابلے میں نہ ان کے مال ان کے کچھ کام آئیں گے، نہ اولاد، وہ دوزخی لوگ ہیں، اسی میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ آل عمران
117 جو کچھ یہ لوگ دنیوی زندگی میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سخت سردی والی تیز ہوا ہو جو ان لوگوں کی کھیتی کو جا لگے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کر رکھا ہو اور وہ اس کھیتی کو برباد کردے۔ (٣٨) ان پر اللہ نے ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ہیں۔ آل عمران
118 اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو راد دار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ (٣٩) ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتا دی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔ آل عمران
119 دیکھو تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو، مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اور تم تو تمام (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، اور (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (قرآن پر) ایمان لے آئے، اور جب تنہائی میں جاتے ہیں تو تمہارے خلاف غصے کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دو کہ : اپنے غصے میں خود مر رہو، اللہ سینوں میں چھپی ہوئی باتیں خوب جانتا ہے۔ آل عمران
120 اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو ان کو برا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے ( علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔ آل عمران
121 (اے پیغبر ! جنگ احد کا وہ وقت یاد کرو) جب تم صبح کے وقت اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو جنگ کے ٹھکانوں پر جما رہے تھے، (٤٠) اور اللہ سب کچھ سننے جاننے والا ہے۔ آل عمران
122 جب تمہی میں کے دو گروہوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ ہمت ہار بیٹھیں، (٤١) حالانکہ اللہ ان کا حامی و ناصر تھا، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ آل عمران
123 اللہ نے تو ( جنگ) بدر کے موقع پر ایسی حالت میں تمہاری مدد کی تھی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ (٤٢) لہذا (صرف) اللہ کا خوف دل میں رکھو، تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔ آل عمران
124 جب (بدر کی جنگ میں) تم مومنوں سے کہہ رہے تھے کہ : کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کو بھیج دے ؟ آل عمران
125 ہاں ! بلکہ اگر تم صبر اور تقوی اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی (٤٣) آل عمران
126 اللہ نے یہ سب انتظام صرف اس لئے کیا تھا تاکہ تمہیں خوشخبری ملے، اور اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہو، ورنہ فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے، تمام تر حکمت کا بھی مالک۔ آل عمران
127 (اور جنگ بدر میں یہ مدد اللہ نے اس لئے کی) تاکہ جن لوگوں نے کفر اپنایا ہے ان کا ایک حصہ کاٹ کر رکھ دے، یا ان کو ایسی ذلت آمیز شکست دے کہ وہ نامراد ہو کر واپس چلے جائیں۔ آل عمران
128 (اے پیغبر) تمہیں اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں۔ * آل عمران
129 آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ آل عمران
130 اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو (٤٤) آل عمران
131 اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ آل عمران
132 اور اللہ اور رسول کی بات مانو، تاکہ تم سے رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔ آل عمران
133 اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام اور زمین سما جائیں۔ وہ ان پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ آل عمران
134 جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی ( اللہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
135 اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کر بھی بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کرگزرتے ہیں تو فورا اللہ کو یاد کرتے ہیں کہ اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے؟ اور یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔ آل عمران
136 یہ ہیں وہ لوگ جن کا صلہ ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے، اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہوں گے، جن میں انہین دائمی زندگی حاصل ہوگی، کتنا بہترین بدلہ ہے جو کام کرنے والوں کو ملنا ہے۔ آل عمران
137 تم سے پہلے بہت سے واقعات گزر چکے ہیں، اب تم زمین میں چل پھر کر دیکھو لو کہ جنہوں نے (پیغمبروں کو) جھٹلایا تھا ان کا انجام کیسا ہوا؟ آل عمران
138 یہ تمام لوگوں کے لیے واضح اعلان ہے اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت اور نصیحت۔ آل عمران
139 (مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔ (٤٥) آل عمران
140 اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔ (٤٦) یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ آل عمران
141 اور مقصد یہ ( بھی) تھا کہ اللہ ایمان والوں کو میل کچیل سے نکھار کر رکھ دے اور کافروں کو ملیا میٹ کر ڈالے۔ آل عمران
142 بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ( یونہی) جنت کے اندر جاپہنچو گے؟ حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں، اور نہ ان کو جانچ کر دیکھا ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ آل عمران
143 اور تم تو خود موت کا سامنا کرنے سے پہلے ( شہادت کی) موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ (٤٧) چنانچہ اب تم نے کھلی آنکھوں اسے دیکھ لیا ہے۔ آل عمران
144 اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔ آل عمران
145 اور یہ کسی بھی شخص کے اختیار میں نہیں ہے کہ اسے اللہ کے حکم کے بغیر موت آجائے، جس کا ایک معین وقت پر آنا لکھا ہوا ہے۔ اور جو شخص دنیا کا بدلہ چاہے گا ہم اسے اس کا حصہ دے دیں گے، اور جو آخرت کا ثواب چاہے گا ہم اسے اس کا حصہ عطا کردیں گے، (٤٨) اور جو لوگ شکر گزار ہیں ان کو ہم جلد ہی ان کا اجر عطا کریں گے۔ آل عمران
146 اور کتنے سارے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ ملکر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ! نتیجتا انہیں اللہ کے راستے میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری، نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو جھکایا، اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
147 ان کے منہ سے جو بات نکلی وہ اس کے سوا نہیں تھی کہ وہ کہہ رہے تھے : ہمارے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو بھی اور ہم سے اپنے کاموں میں جو زیادتی ہوئی ہو اس کو بھی معاف فرمادے، ہمیں ثابت قدمی بخش دے، اور کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرمادے۔ آل عمران
148 چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا کا انعام بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی، اور اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
149 اے ایمان والو ! جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے اگر تم ان کی بات مانو گے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں (کفر کی طرف) لوٹا دیں گے، اور تم پلٹ کر سخت نقصان اٹھاؤ گے۔ آل عمران
150 (یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں) بلکہ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہے، اور وہ بہترین مددگار ہے۔ آل عمران
151 جن لوگوں نے کفر اپنایا ہے ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انہوں نے اللہ کی خدائی میں ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ ظالموں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ آل عمران
152 اور اللہ نے یقینا اس وقت اپنا وعدہ پورا کردیا تھا جب تم دشمنوں کو اسی کے حکم سے قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور حکم کے بارے میں باہم اختلاف کیا اور جب اللہ نے تمہاری پسندیدہ چیز تمہیں دکھائی تو تم نے ( اپنے امیر کا) کہنا نہیں مانا (٤٩) تم میں سے کچھ لوگ وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے، اور کچھ وہ تھے جو آخرت چاہتے تھے۔ پھر اللہ نے ان سے تمہارا رخ پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ البتہ اب وہ تمہیں معاف کرچکا ہے، اور اللہ مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ آل عمران
153 (وہ وقت یاد کرو) جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اور رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے، چنانچہ اللہ نے تمہیں (رسول کو) غم ( دینے) کے بدلے (شکست کا) غم دیا، تاکہ آئندہ تم زیادہ صدمہ نہ کیا کرو، (٥٠) نہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے، اور نہ کسی اور مصیبت پر جو تمہیں پہنچ جائے۔ اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔ آل عمران
154 پھر اس غم کے بعد اللہ نے تم پر طمانینت نازل کی، ایک اونگھ جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی۔ (٥١) اور ایک گروہ وہ تھا جسے اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، وہ لوگ اللہ کے بارے میں ناحق ایسے گمان کر رہے تھے جو جہالت کے خیالات تھے، وہ کہہ رہے تھے : کیا ہمیں بھی کوئی اختیار حاصل ہے؟ کہہ دو کہ : اختیار تو تمام تر اللہ کا ہے۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھاتے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ (٥٢) کہتے ہیں کہ اگر ہمیں بھی کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے۔ کہہ دو کہ : اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن کا قتل ہونا مقدر میں لکھا جاچکا تھا وہ خود باہر نکل کر اپنی اپنی قتل گاہوں تک پہنچ جاتے۔ اور یہ سب اس لیے ہوا تاکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے، اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کا میل کچیل دور کردے۔ (٥٣) اللہ دلوں کے بھید کو خوب جانتا ہے۔ آل عمران
155 تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ پھیری جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے، درحقیقت ان کے بعض اعمال کے نتیجے میں شیطان نے ان کو لغزش میں مبتلا کردیا تھا۔ (٥٤) اور یقین رکھو کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے۔ یقینا اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا بردبار ہے۔ آل عمران
156 اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ہے، اور جب ان کے بھائی کسی سرزمین میں سفر کرتے ہیں یا جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو یہ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے، اور نہ مارے جاتے۔ (ان کی اس بات کا) نتیجہ تو (صرف) یہ ہے کہ اللہ ایسی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت کا سبب بنا دیتا ہے، (ورنہ) زندگی اور موت تو اللہ دیتا ہے۔ اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ آل عمران
157 اور اگر تم اللہ کے راستے میں قتل ہوجاؤ یا مرجاؤ، تب بھی اللہ کی طرف سے ملنے والی مغفرت اور رحمت ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔ آل عمران
158 اور اگر تم مرجاؤ یا قتل ہوجاؤ تو اللہ ہی کے پاس تو لے جاکر اکٹھے کیے جاؤ گے۔ آل عمران
159 ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر ( اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔ لہذا ان کو معاف کردو، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب تم رائے پختہ کر کے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ یقینا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
160 اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں، اور اگر وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔ آل عمران
161 اور کسی نبی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ (٥٥) اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
162 بھلا جو شخص اللہ کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف سے ناراضی لے کر لوٹا ہو، اور جس کا ٹھکانا جہنم ہو؟ اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ آل عمران
163 اللہ کے نزدیک ان لوگوں کے درجات مختلف ہیں، اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ اس کو خوب دیکھتا ہے۔ آل عمران
164 حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ آل عمران
165 جب تمہیں ایک ایسی مسیبت پہنچی جس سے دگنی تم (دشمن کو) پہنچا چکے تھے (٥٦) تو کیا تم ایسے موقع پر یہ کہتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟ کہہ دو کہ : یہ خود تمہاری طرف سے آئی ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آل عمران
166 اور تمہیں جو مصیبت اس دن پہنچی جب دونوں لشکر ٹکرائے تھے، وہ اللہ کے حکم سے پہنچی، تاکہ وہ مومنوں کو بھی پرکھ کر دیکھ لے۔ آل عمران
167 اور منافقین کو بھی بھی دیکھ لے، اور ان (منافقوں) سے کاہ گیا تھا کہ آؤ اللہ کے راستے میں جنگ کرو یاد فاع کرو، تو انہوں نے کہا تھا کہ : اگر ہم دیکھتے کہ ( جنگ کی طرح) جنگ ہوگی تو ہم ضرور آپ کے پیچھے چلتے۔ (٥٧) اس دن ( جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے) وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی (٥٨) اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ آل عمران
168 یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے (شہید) بھائیوں کے بارے میں بیٹھے بیٹھے یہ باتیں بناتے ہیں کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے، کہہ دو کہ : اگر تم سچے ہو تو خود اپنے آپ ہی سے موت کو ٹال دینا۔ آل عمران
169 اور (اے پیغبر) جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں، انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں، انہیں اپنے رب کے پاس رزق ملتا ہے۔ آل عمران
170 اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے وہ اس پر مگن ہیں، اور ان کے پیچھے جو لوگ ابھی ان کے ساتھ (شہادت میں) شامل نہیں ہوئے، ان کے بارے میں اس بات پر بھی خوشی مناتے ہیں کہ (جب وہ ان سے آکر ملیں گے تو) نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ آل عمران
171 وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر بھی خوشی مناتے ہیں اور اس بات پر بھی کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ آل عمران
172 وہ لوگ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار کا فرمانبرداری سے جواب دیا، ایسے نیک اور متقی لوگوں کے لیے زبردست اجر ہے۔ آل عمران
173 وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا : یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے ( مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ : ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (٥٩) آل عمران
174 نتیجہ یہ کہ یہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل لے کر اس طرح واپس آئے کہ انہیں ذرا بھی گزند نہیں پہنچی، اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔ آل عمران
175 درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔ آل عمران
176 اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھا رہے ہیں، وہ تمہیں صدمے میں نہ ڈالیں، یقین رکھو وہ اللہ کا ذرا بھی نقصان نہیں کرسکتے، اللہ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کوئی حصہ نہ رکھے، اور ان کے لیے زبردست عذاب (تیار) ہے۔ آل عمران
177 جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر کو مول لے لیا ہے وہ اللہ کو ہرگز ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور ان کے لیے ایک دکھ دینے والا عذاب (تیار ہے۔ آل عمران
178 اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور آگے بڑھ جائیں اور (آخر کار) ان کے لیے ایسا عذاب ہوگا جو انہیں ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ آل عمران
179 اللہ ایسا نہیں کرسکتا کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ رکھے جس پر تم لوگ اس وقت ہو، جب تک وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے، اور (دوسری طرف) وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ تم کو (براہ راست) غیب کی باتیں بتا دے۔ ہاں وہ (جتنا بتانا مناسب سمجھتا ہے اس کے لیے) اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ (٦٠) لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو، اور اگر ایمان رکھو گے اور تقوی اختیار کرو گے تو زبردست ثواب کے مستحق ہوگے۔ آل عمران
180 اور جو لوگ اس (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے، اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے، جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ (٦١) اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ آل عمران
181 اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ : اللہ فقیر ہے اور ہم مال دار ہیں۔ (٦٢) ہم ان کی یہ بات بھی (ان کے اعمال نامے میں) لکھے لیتے ہیں، اور انہوں نے انبیاء کو جو ناحق قتل کیا ہے، اس کو بھی، اور (پھر) کہیں گے کہ : دہکتی آگ کا مزہ چکھو۔ آل عمران
182 یہ سب تمہارے ہاتھوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے جو تم نے آگے بھیج رکھا تھا، ورنہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ آل عمران
183 یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اللہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ کسی پیغمبر پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے جسے آگ کھا جائے۔ (٦٣) تم کہو کہ : مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے پیغمبر کھلی نشانیاں بھی لے کر آئے اور وہ چیز بھی جس کے بارے میں تم نے ( مجھ سے) کہا ہے۔ پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم واقعی سچے ہو؟ آل عمران
184 (اے پیغمبر) اگر پھر بھی یہ لوگ تمہیں جھٹلائیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) تم سے پہلے بھی بہت سے ان رسولوں کو جھٹلایا جاچکا ہے جو کھلی کھلی نشانیاں بھی لائے تھے، لکھے ہوئے صحیفے بھی اور ایسی کتاب بھی جو (حق کو) روشن کردینے والی تھی۔ آل عمران
185 ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آل عمران
186 (مسلمانو) تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں ( جو تمہیں اختیار کرنے ہیں) آل عمران
187 اور (ان لوگوں کو وہ وقت نہ بھولنا چاہئے) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ : تم اس کتاب کو لوگوں کو سامنے ضرور کھول کھول کر بیان کرو گے، اور اس کو چھپاؤ گے نہیں۔ پھر انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سے قیمت حاصل کرلی، اس طرح کتنی بری ہے وہ چیز جو یہ مول لے رہے ہیں۔ آل عمران
188 یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔ آل عمران
189 اور آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ کی ہے، اور اللہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔ آل عمران
190 بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ آل عمران
191 جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ ( ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔ آل عمران
192 اے ہمارے رب ! آپ جس کسی کو دوزخ میں داخل کردیں، اسے آپ نے یقینا رسوا ہی کردیا، اور ظالموں کو کسی قسم کے مددگار نصیب نہ ہوں گے۔ آل عمران
193 اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، چنانچہ ہم ایمان لے آئے۔ لہذا اے ہمارے پروردگار ! ہماری خاطر ہمارے گناہ بخش دیجیے، ہماری برائیوں کو ہم سے مٹا دیجیے، اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر کے اپنے پاس بلایئے۔ آل عمران
194 اور اے ہمارے پروردگار ! ہمیں وہ کچھ بھی عطا فرمایئے جس کا وعدہ آپ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم سے کیا ہے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجئے۔ یقینا آپ وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے۔ آل عمران
195 چنانچہ ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کی (اور کہا) کہ : میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ لہذا جن لوگوں نے ہجرت کی، اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا، اور میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں، اور جنہوں نے (دین کی خاطر) لڑائی لڑی اور قتل ہوئے، میں ان سب کی برائیوں کا ضرور کفارہ کردوں گا، اور انہیں ضرور بالضرور ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے انعام ہوگا، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بہترین انعام ہے۔ آل عمران
196 جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کا شہروں میں (خوشحالی کے ساتھ) چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے۔ آل عمران
197 یہ تو تھوڑا سا مزہ ہے جو یہ اڑا رہے ہیں) پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بدترین بچھونا ہے۔ آل عمران
198 لیکن جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہوئے عمل کرتے ہیں، ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اللہ کی طرف سے میزبانی کے طور پر وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ وہ نیک لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے۔ آل عمران
199 اور بیشک اہل کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے آگے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اس کتاب پر بھی جو تم پر نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو ان پر نازل کی گئی تھی، اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی سی قیمت لے کر بیچ نہیں ڈالتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں۔ بیشک اللہ حساب جلد چکانے والا ہے۔ آل عمران
200 اے ایمان والو ! صبر اختیار کرو، مقابلے کے وقت ثابت قدمی دکھاؤ، اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے جمے رہو۔ (٦٤) اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔ آل عمران
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النسآء
1 اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو، (١) اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے) ڈرو۔ یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کررہا ہے۔ النسآء
2 اور یتیموں کو ان کے مال دے دو، اور اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو، اور ان ( یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ، (٢) بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔ النسآء
3 اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں (٣) دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے، (٤) ہاں ! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلا نہیں ہوگے۔ النسآء
4 اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے د یا کرو۔ ہاں ! اگر وہ خود اس کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑ دیں تو اسے خوشگواری اور مزے سے کھالو۔ النسآء
5 اور ناسمجھ (یتیموں) کو اپنے وہ مال حوالے نہ کرو جن کو اللہ نے تمہارے لیے زندگی کا سرمایہ بنایا ہے، ہاں ان کو ان میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے مناسب انداز میں بات کرلو۔ (٥) النسآء
6 اور یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں، تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو۔ اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں۔ اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریق کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھا لے۔ (٦) پھر جب تم ان کے مال انہیں دو تو ان پر گواہ بنا لو، اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ النسآء
7 مردوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، چاہے وہ (ترکہ) تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔ (٧) النسآء
8 اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار، یتیم اور مسکین لوگ آجائیں، تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دو، اور ان سے مناسب انداز میں بات کرو۔ (٨) النسآء
9 اور وہ لوگ (یتیموں کے مال میں خرد برد کرنے سے) ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور بچے چھوڑ کر جائیں تو ان کی طرف سے فکر مند رہیں گے۔ (٩) لہذا وہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی سیدھی بات کہا کریں۔ النسآء
10 یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔ النسآء
11 اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ : مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ (١٠) اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انہیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے کا) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا (اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد (١١) تمہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمہارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے ؟ یہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں، (١٢) یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ النسآء
12 اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان (بیویوں) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں، نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ (١٣) یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔ النسآء
13 یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ ان (باغات) میں رہیں گے، اور یہ زبردست کامیابی ہے۔ النسآء
14 اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ النسآء
15 تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ بنا لو۔ چنانچہ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روک کر رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کرلے جائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کردے۔ (١٤) النسآء
16 اور تم میں سے جو دو مرد بدکاری کا ارتکاب کریں، ان کو اذیت دو۔ (١٥) پھر اگر وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے درگزر کرو۔ بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ النسآء
17 اللہ نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لی ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کر ڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی۔ النسآء
18 تو بہ کی قبولیت ان کے لیے نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت کا وقت آکھڑا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے اب توبہ کرلی ہے، اور نہ ان کے لیے ہے جو کفر ہی کی حالت میں مرجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ النسآء
19 اے ایمان والو ! یہ بات تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو، اور ان کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ لے اڑو، الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں، (١٦) اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ النسآء
20 اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہتے ہو اور ان میں سے ایک کو ڈھیر سارا مہر دے چکے ہو، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا تم بہتان لگا کر اور کھلا گناہ کر کے (مہر) والس لو گے ؟ (١٧) النسآء
21 اور آخر تم کیسے (وہ مہر) واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوچکے تھے اور انہوں نے تم سے بڑا بھاری عہد لیا تھا؟ النسآء
22 اور جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا (کسی وقت) نکاح کرچکے ہوں، تم انہیں نکاح میں نہ لاؤ، البتہ پہلے جو کچھ ہوچکا وہ ہوچکا۔ (١٨) یہ بڑی بے حیائی ہے، گھناؤنا عمل ہے، اور بے راہ روی کی بات ہے۔ النسآء
23 تم پر حرام کردی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہارے زیر پرورش تمہاری سوتیلی بیٹیاں (١٩) جو تمہاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔ ہاں اگر تم نے ان کے ساتھ خلوت نہ کی ہو (اور انہیں طلاق دے دی ہو یا ان کا انتقال ہوگیا ہو) تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی گناہ نہیں ہے، نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں، اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو، البتہ جو کچھ پہلے ہوچکا وہ ہوچکا۔ بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ النسآء
24 نیز وہ عورتیں (تم پر حرام ہیں) جو دوسرے شوہروں کے نکاح میں ہوں، البتہ جو کنیزیں تمہاری ملکیت میں آجائیں (وہ مستثنی ہیں) (٢٠) اللہ نے یہ احکام تم پر فرض کردیئے ہیں۔ ان عورتوں کو چھوڑ کر تمام عورتوں کے بارے میں یہ حلال کردیا گیا ہے کہ تم اپنا مال (بطور مہر) خرچ کر کے انہیں (اپنے نکاح میں لانا) چاہو، بشرطیکہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کا رشتہ قائم کر کے عفت حاصل کرو، صرف شہوت نکالنا مقصود نہ ہو۔ (٢١) چنانچہ جن عورتوں سے (نکاح کر کے) تم نے لطف اٹھایا ہو، ان کو ان کا وہ مہر ادا کرو جو مقرر کیا گیا ہو۔ البتہ مہر مقرر کرنے کے بعد بھی جس (کمی بیشی) پر تم آپس میں راضی ہوجاؤ، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ یقین رکھو کہ اللہ ہر بات کا علم بھی رکھتا ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔ النسآء
25 اور تم میں سے جو لوگ اس بات کی طاقت نہ رکھتے ہوں کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرسکیں، تو وہ ان مسلمان کنیزوں میں سے کسی سے نکاح کرسکت ہیں جو تمہاری ملکیت میں ہوں، اور اللہ کو تمہارے ایمان کی پوری حالت خوب معلوم ہے۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔، (٢٢) لہذا ان کنیزوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرلو، اور ان کو قاعدے کے مطابق ان کے مہر ادا کرو، بشرطیکہ ان سے نکاح کا رشتہ قائم کر کے انہیں پاک دامن بنایا جائے، نہ وہ صرف شہوت پوری کرنے کے لیے کوئی (ناجائز) کام کریں، اور نہ خفیہ طور پر ناجائز آشنائیاں پیدا کریں۔ پھر جب وہ نکاح کی حفاظت میں آجائیں، اور اس کے بعد کسی بڑی بے حیائی (یعنی زنا) کا ارتکاب کریں تو ان پر اس سزا سے آدھی سزا واجب ہوگی جو (غیر شادی شدہ) آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے۔ (٢٣) یہ سب (یعنی کنیزوں سے نکاح کرنا) تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جن کو (نکاح نہ کرنے کی صورت میں) گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر تم صبر ہی کیے رہو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ النسآء
26 اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (احکام کی) وضاحت کردے، اور جو (نیک) لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں، تم کو ان کے طور طریقوں پر لے آئے، اور تم پر ( رحمت کے ساتھ) توجہ فرمائے، اور اللہ ہر بات کا جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی ہے۔ النسآء
27 اللہ تو چاہتا ہے کہ تمہاری طرف توجہ کرے، اور جو لوگ نفسانی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر بہت دور جا پڑو۔ النسآء
28 اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے اور انسان کمزور پیدا ہوا ہے۔ (٢٤) النسآء
29 اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ (٢٥) یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔ النسآء
30 اور جو شخص زیادتی اور ظلم کے طور پر ایسا کرے گا، تو ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے، اور یہ بات اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔ النسآء
31 اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔ (٢٦) اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔ النسآء
32 اور جن چیزوں میں ہم نے تم کو ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے، ان کی تمنا نہ کرو، مرد جو کچھ کمائی کریں گے ان کو اس میں سے حصہ ملے گا، اور عورتیں جو کچھ کمائی کریں گے ان ان کو اس میں سے حصہ ملے گا۔ (٢٧) اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ النسآء
33 اور ہم نے ہر اس مال کے کچھ وارث مقرر کیے ہیں جو والدین اور قریب ترین رشتہ دار چھوڑ کرجائیں۔ اور جن لوگوں سے تم نہ کوئی عہد باندھا ہوا ان کو ان کا حصہ دو۔ (٢٨) بیشک اللہ ہر چیز کا گواہ ہے۔ النسآء
34 مرد وعورتوں کے نگراں ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرد کیے ہیں۔ چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو) انہیں مار سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کارروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کے اوپر، سب سے بڑا ہے۔ النسآء
35 اور اگر تمہیں میاں بیوی کے د رمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے د رمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔ النسآء
36 اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، (٢٩) ساتھ بیٹھے (یاساتھ کھڑے) ہوئے شخص (٣٠) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ رکھو) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ النسآء
37 ایسے لوگ جو خود بھی کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی تلقین کرتے ہیں، اور اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں، اور ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے زلیل کردینے والا عذاب تیار رکھا ہے۔ النسآء
38 اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ روز آخرت پر، اور شیطان جس کا ساتھی بن جائے تو وہ بدترین ساتھی ہوتا ہے۔ النسآء
39 بھلا ان کا کیا بگڑا جاتا اگر یہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لے آتے اور اللہ نے ان کو جو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ (نیک کاموں میں) خرچ کردیتے؟ اور اللہ کو ان کا حال کو ب معلوم ہے۔ النسآء
40 اللہ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے کئی گنا کردیتا ہے، اور خود اپنے پاس سے عظیم ثواب دیتا ہے۔ النسآء
41 پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت ( ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے؟ (٣١) النسآء
42 جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے اور رسول کے ساتھ نافرمانی کا رویہ اختیار کیا ہے، اس دن وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش انہیں زمین (میں دھنسا کر اس) کے برابر کردیا جائے اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے۔ النسآء
43 اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے سمجھنے نہ لگو۔ (٣٢) اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کرلو، (نماز جائز نہیں) الا یہ کہ تم مسافر ہو (اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو، پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا (اس مٹی سے) مسح کرلو۔ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے۔ النسآء
44 جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) گمراہی مول لے رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ۔ النسآء
45 اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور رکھوالا بننے کے لیے بھی اللہ کافی ہے، اور مددگار بننے کے لیے بھی اللہ کافی ہے۔ النسآء
46 یہودیوں میں سے کچھ وہ ہیں جو (تورات) کے الفاظ کو ان کے موقع محل سے ہٹا ڈالتے ہیں، اور اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے ہیں : سمعنا وعصینا۔ اور اسمع غیر مسمع۔ اور راعنا۔ حالانکہ اگر وہ یہ کہتے کہ : سمعنا واطعنا اور اسمع وانظرنا۔ تو ان کے لیے بہتر اور راست بازی کا راستہ ہوتا (٣٣) لیکن ان کے کفرکی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے، اس لیے تھوڑے سے لوگوں کے سوا وہ ایمان نہیں لاتے۔ النسآء
47 اے اہل کتاب ! جو (قرآن) ہم نے اب نازل کیا ہے، جو تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق بھی کرتا ہے، اس پر ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ ہم کچھ چہروں کو مٹا کر انہیں گدی جیسا بنا دیں، یا ان پر ایسی پھٹکار ڈال دیں جیسی پھٹکار ہم نے سبت والوں پر ڈالی تھی۔ (٣٤) اور اللہ کا حکم ہمیشہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ النسآء
48 بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ (٣٥) اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتا ہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔ النسآء
49 کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ بتاتے ہیں؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اور (اس عطا میں) ان پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوتا۔ (٣٦) النسآء
50 دیکھو یہ لوگ اللہ پر کیسے کیسے جھوٹے بہتان باندھتے ہیں وہ کھلا گناہ ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے۔ النسآء
51 جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے انکو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) بتوں اور شیطان کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں (یعنی بت پرستوں) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ (٣٧) النسآء
52 یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پھٹکار ڈال رکھی ہے، اور جس پر اللہ پھٹکار ڈال دے، اس کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔ النسآء
53 تو کیا ان کو (کوئنات کی) بادشاہی کا کچھ حصہ ملا ہوا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیتے۔ (٣٨) النسآء
54 یا یہ لوگوں سے اس بنا پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا فضل (کیوں) عطا فرمایا ہے؟ سو ہم نے تو ابراہیم کے کاندان کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور انہیں بڑی سلطنت دی تھی؟ (٣٩) النسآء
55 چنانچہ ان میں سے کچھ ان پر ایمان لائے اور کچھ نے ان سے منہ موڑ لیا۔ اور جہنم ایک بھڑکتی آگ کی شکل میں (ان کافروں کی خبر لینے کے لیے) کافی ہے۔ النسآء
56 بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا ہے، ہم انہیں آگ میں داخل کریں گے، جب بھی ان کی کھالیں جل جل کر پک جائیں گی، تو ہم انہیں ان کے بدلے دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں۔ بیشک اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔ النسآء
57 اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور ہم انہیں گھنی چھاؤں میں داخل کریں گے۔ (٤٠) النسآء
58 (مسلمانو) یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم کو جس بات کی نصیحت کرتا ہے وہ بہت اچھی ہوتی ہے۔ بیشک اللہ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ النسآء
59 اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی۔ (٤١) پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔ النسآء
60 (اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لے آئے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا، (لیکن) ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقصد فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں؟ (٤٢) حالانکہ ان کو حکم یہ گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں۔ اور شیطان طاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کردے۔ النسآء
61 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسول کی طرف، تو تم ان منافقوں کو دیکھو گے کہ وہ تم سے پوری طرح منہ موڑ بیٹھتے ہیں۔ النسآء
62 پھر اس وقت ان کا کیا حال بنتا ہے جب خود اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے؟ اس وقت یہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھلائی کرنے اور ملاپ کرادینے کے سوا کچھ نہ تھا۔ (٤٣) النسآء
63 یہ وہ ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی ساری باتیں خوب جانتا ہے۔ لہذا تم انہیں نظر انداز کردو، انہیں نصیحت کر، اور ان سے خود ان کے بارے میں ایسی بات کہتے رہو جو دل میں اتر جانے والی ہو۔ النسآء
64 اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔ النسآء
65 نہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔ النسآء
66 اور اگر ہم ان کے لیے یہ فرض قرار دے دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا کوئی اس پر عمل نہ کرتا۔ اور جس بات کی انہیں نصیھت کی جارہی ہے اگر یہ لوگ اس پر عمل کرلیتے تو ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، اور ان میں خوب ثابت قدمی پیدا کردیتا۔ (٤٤) النسآء
67 اور اس صورت میں ہم انہیں خود اپنے پاس سے یقینا اجر عظیم عطا کرتے۔ النسآء
68 اور انہیں ضرور بالضرور سیدھے راستے تک پہنچا دیتے۔ النسآء
69 اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ النسآء
70 یہ فضیلت اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اور (لوگوں کے حالات سے) پوری طرح باخبر ہونے کے لیے اللہ کافی ہے۔ (٤٥) النسآء
71 اے ایمان والو ! (دشمن سے مقابلے کے وقت) اپنے بچاؤ کا سامان ساتھ رکھو، پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں (جہاد کے لیے) نکلو، یا سب لوگ اکٹھے ہو کر نکل جاؤ النسآء
72 اور یقینا تم میں کوئی ایسا بھی ضرور ہوگا جو (جہاد میں جانے سے) سستی دکھائے گا، پھر اگر (جہاد کے دوران) تم پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ کہے گا کہ اللہ نے مجھ پر بڑا انعام کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ النسآء
73 اور اگر اللہ کی طرف سے کوئی فضل (یعنی فتح اور مال غنیمت) تمہارے ہاتھ آئے تو وہ کہے گا گویا تمہارے اور اس کے درمیان کبھی کوئی دوستی تو تھی ہی نہیں۔ (٤٦) کہ کاش میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا تو بہت کچھ میرے بھی ہاتھ لگ جاتا۔ النسآء
74 لہذا اللہ کے راستے میں وہ لوگ لڑیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ دیں۔ اور جو اللہ کے راستے میں لڑے گا، پھر چاہے قتل ہوجائے یا غالب آجائے، (ہر صورت میں) ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔ النسآء
75 اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمار لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔ النسآء
76 جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں۔ لہذا (اے مسلمانو) تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔ النسآء
77 کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے (مکی زندگی میں) کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روک کر رکھو، اور نماز قائم کیے جاؤ اور زکوۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے ایک جماعت (دشمن) لوگوں سے ایسی ڈرنے لگی جیسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگی، اور ایسے لوگ کہنے لگے کہ : اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، تھوڑی مدت تک ہمیں مہلت کیوں نہیں دی؟ کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے اور جو شخص تقوی اختیار کرے اس کے لیے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے، (٤٧) اور تم پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ النسآء
78 تم جہاں بھی ہوگے (ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جاپکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ رہ رہے ہو۔ اور اگر ان (منافقوں) کو کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر ان کو کوئی برا واقعہ پیش آجاتا ہے تو (اے پیغمبر) وہ (تم سے) کہتے ہیں کہ یہ برا واقعہ آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ کہہ دو کہ ہر واقعہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے نزدیک تک نہیں آتے؟ النسآء
79 تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، وہ تو تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ ( اس بات کی) گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ (٤٨) النسآء
80 جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جو (اطاعت سے) منہ پھیر لے تو (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجا (کہ تمہیں ان کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے) النسآء
81 اور (دیکھو) یہ لوگ تمہارے سامنے تو تمہاری باتیں مان لیتے ہیں، اور) کہتے ہیں آپ کا حکم ہمارے سر آنکھوں پر ! لیکن جب تمہارے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں، تو ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو راتوں کو اپنی مجلسیں جماتے اور جو کچھ تم کہتے ہو، اس کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور راتوں کی (ان) مجلسوں میں وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ (کے علم سے چھپا نہیں، وہ ان کے نامہ اعمال میں) لکھ رہا ہے۔ پس (جب ان لوگوں کا حال یہ ہے تو) چاہیے کہ ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ کارسازی کے لیے اللہ کی کارسازی بس کرتی ہے النسآء
82 پھر کیا یہ لوگ قرآن (کے مطالب) میں غور و فکر نہیں کرتے؟ (اور خدا کی دی ہوئی سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے) اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا، اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو ضوری تھا کہ یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے (حالانکہ وہ اپنی ساری باتوں میں اول سے لے کر آخر تک، کامل طور پر ہم آہنگ اور یکساں ہے) النسآء
83 اور جب ان لوگوں کے پاس امن کی یا خوف کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ (فورا) اسے لوگوں میں پھیلانے لگتے ہیں اگر یہ اسے (لوگوں میں پھیلانے کی جگہ) اللہ کے رسول کے سامنے اور ان لوگوں کے سامنے جو ان میں حکم و اختیار والے ہیں پیش کرتے تو جو (علم و نظر والے) بات کی تہ تک پہنچنے والے ہیں، وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے (اور عوام میں تشویش نہ پھیلتی) اور (دیکھو) اگر اللہ کا تم پر فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو (تمہاری کمزوریوں کا یہ حال تھا کہ) معدودے چند آدمیوں کے سوا سب کے سب شیطان کے پیچھے لگ لیے ہوتے النسآء
84 پس (اے پیگمبر) تم اس بات کی بالکل پروا نہ کرو کہ یہ لوگ تمہارا ستاھ دیتے ہیں یا نہیں) تم اللہ کی راہ میں جنگ کرو، کہ تم پر تمہاری ذات کے سوا اور کسی کی زمہ داری نہیں اور مومنوں کو بھی جنگ کی ترگیب دو۔ عجب نہیں کہہ بہت جلد اللہ منکرین حق کا زور اور تشدد روک دے اور اللہ کا زور سب سے زیادہ قوی اور سزا دینے میں وہ سب سے زیادہ سخت ہے النسآء
85 جو انسان دوسرے انسان کے ساتھ نیکی کے کام میں ملتا اور مددگار ہوتا ہے تو اسے اس کام کے (اجر و نتائج) میں حصہ ملے گا اور جو کوئی برائی میں دوسرے کے ساتھ ملتا اور مددگار ہوتا ہے تو اس کے لیے اس برائی میں حصہ ہوگا اور اللہ ہر چیز کا محافظ اور نگران ہے (وہ ہر حالت اور ہر عمل کے مطابق بدلہ دیتا ہے) النسآء
86 اور (مسلمانو) جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا (کم از کم) جو کچھ کہا گیا ہے اسی کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوتی بات بھی اس کے محاسبہ سے چھوٹ نہیں سکتی) النسآء
87 (یاد رکھو) اللہ ہی کی ایک ذات ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر صرف وہی۔ وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن (اپنے حضور) اکٹھا کرے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں (یہ خود اللہ کا کہنا ہے) اور اللہ سے بڑا کر بات کہنے میں کون سچا ہوسکتا ہے النسآء
88 (مسلمانو) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فریق بن گئے ہو؟ حالانکہ اللہ نے ان بدعملیوں کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی ہیں انہیں الٹآ دیا ہے (یعنی وہ راہ حق سے پھر چکے ہیں) کیا تم چاہتے ہو، ایسے لوگوں کو راہ دکھا دو جن پر خدا نے راہ گم کردی (یعنی جن پر خدا کے قانون سعادت و شقاوت کے بموجب ہدایت کی راہ بند ہوگئی ہے) اور (یاد رکھو) جس کسی پر اللہ راہ گم کردے (یعنی جس کسی پر اس کے قانون کا فیصلہ لگ جائے کہ اس کے لیے راہ پانا نہیں) تو پھر تم اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکال سکتے النسآء
89 ان منافقوں کی دلی تمنا تو یہ ہے کہ جس طرح انہوں کفر کی راہ اختیار کرلی ہے تم بھی کرلو اور تم سب ایک ہی طرح کے ہوجاؤ۔ پس (دیکھو) جب تک یہ لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں ( اور دشمنوں کا ساتھ چھور کر تمہارے پاس نہ آجائیں) تمہیں چاہیے ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ۔ پھر اگر یہ ہجرت کرنا قبول نہ کریں، تو (جو کوئی جنگ کی حالت میں دشمنوں کا ساتھ دیتا ہے یقینا اس کا شمار بھی دشمنوں ہی میں ہوگا پس) انہیں گرفتار کرو جہاں کہیں پاؤ، قتل کرو، اور نہ تو کسی اپنا دوست بناؤ نہ کسی کو اپنا مددگار النسآء
90 مگر ہاں جو لوگ (دشمنوں سے الگ ہو کر) کسی ایسی قوم سے جا ملیں کہ تم میں اور اس میں عہد و پیمان ہوچکا ہے، یا ایسے لوگ ہوں کہ لڑائی سے دل برداشتہ ہو کر تمہارے پاس چلے آئیں۔ نہ تم سے لڑیں نہ (تمہاری طرف سے) اپنی قوم کے ساتھ لڑیں (تو ایسے لوگ اس حکم میں داخل نہیں۔ ان کے خلاف تمہاری ہاتھ نہ اٹھے) اگر خدا چاہتا تو ان لوگوں کو بھی مسلط کردیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے۔ پس اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوگئے اور جنگ نہیں کرتے نیز صلح کا پیغام بھیج رہے ہیں، تو پھر خدا نے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں رکھ کہ ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کرو النسآء
91 ان کے علاوہ کچھ لوگ تمہیں ایسے بھی ملیں گے جو (لڑائی کے خواہشمند نہیں ہیں) تمہاری طرف سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، اور اپنی قوم کی طرف سے بھی۔ لیکن جب کبھی فتنہ و فساد کی طرف لوٹا دیے جائیں تو اوندھے منہ اس میں گر پڑیں (اور اپنی جگہ قائم نہ رہ سکیں) سو اگر ایسے لوگ کنارہ کش نہ ہوجائیں اور تمہاری طرف پیام صلح نہ بھیجیں اور نہ لڑائی سے ہاتھ روکیں تو انہیں بھی گرفتار کرو، اور جہاں کہیں پاؤ قتل کرو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے برخلاف ہم نے تمہیں کھلی حجت (جنگ) دے دی ہے النسآء
92 اور (دیکھو) کسی مسلمان کو سزا وار نہیں کہ کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے، مگر یہ کہ غلطی سے (اور شبہ میں) اس کے ہاتھ سے کوئی قتل ہوجائے۔ اور جس کسی نے ایک مسلمان کو غلطی سے (اور شبہ میں) قتل کردیا ہو تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو اس کا خوں بہا دے۔ اگر مقتول کے وارث خون بہا معاف کردیں تو کردے سکتے ہیں۔ اور اگر مقتول اس قوم میں سے ہو جو تمہاری دشمن ہے (یعنی تم سے لڑ رہی ہے) اگر مومن ہو (اور کسی نے یہ سمجھ کر کہ یہ بھی دشمنوں میں سے ہے اسے قتل کردیا ہو) تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے۔ (خوں بہا کا دلانا ضروری نہ ہوگا کیونکہ اس کے وارثوں اور ساتھیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہے)۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ صلح ہے (یعنی معاہد ہو) تو چاہیے کہ قاتل، مقتول کے وارثوں کو خوں بہا بھی دے، اور ایک مسلمان غلام آزاد بھی کرے۔ اور جو کوئی غلام نہ پائے (یعنی اس کا مقدور نہ رکھتا ہو کہ غلام کو مال کے بدلے حاصل کرے اور آزاد کرائے تو اسے چاہیے، لگاتار دو مہینے روزے رکھے۔ اس لیے کہ اللہ کی طرف سے یہ (اس کے گناہ کی) توبہ ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور (اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
93 اور جو مسلمان کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے، تو (یاد رکھو) اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی پھٹکار پڑی، اور اس کے لیے خدا نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے النسآء
94 مسلمانو ! جب ایسا ہو کہ تم اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) باہر جواؤ تو چہایے کہ (جن لوگوں سے مقابلہ ہو، ان کا حال) اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (کہ وہ دشمنوں میں سے ہیں یا دوستوں میں سے ہیں) جو کوئی تمہیں سلام کرے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے) تو یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو ( ہم تم سے ضرور لڑیں گے) کیا تم دنیا کے سروسامن زندگی کے طلب گار ہو ( کہ چالتے ہو) جو کوئی بھی ملے اس سے لڑ کر مال غنیمت لوت لیں؟ اگر یہی بات ہے تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سی (جائز غنیمتیں موجود ہیں (تم ظلم و معصیت کی راہ کیوں اختیار کرو) تمہاری حالت بھی تو پہلے ایسی ہی تھی (اور بجز کلمہ اسلام کے اسلام کا اور کوئی ثبوت نہیں رکھتے تھے) پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (کہ تمام باتیں اسلامی زندگی کی حاصل ہوگئیں) پس ضوری ہے کہ (لڑنے سے پہلے) لوگوں کا حال تحقیق کرلیا کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے النسآء
95 مسلمانوں میں سے جو لوگ معذور نہیں ہیں اور بیٹھھے رہے ہیں (یعنی جہاد میں شریک نہیں ہوئے ہیں) وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو اپنے مال سے اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ اللہ نے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر باعتبار درجے کے فضیلت دی ہے اور (یوں تو) خدا کا وعدہ نیک سب کے لیے ہے (کسی کا بھی عمل نیک ضائع نہیں ہوسکتا لیکن درجے کے اعتبار سے سب برابر نہیں) اور (اسی لیے) بیٹھ رہنے والوں کے مقابلے میں جہاد کرنے والوں کو ان کے بڑے اجر میں بھی اللہ نے فضیلت عطا فرمائی النسآء
96 یہ اس کی طرف سے (ٹھرائے ہوئے) درجے ہیں اس کی بخشش اور رحمت ہے اور وہ (بڑا ہی) بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے النسآء
97 جو لوگ (دشمنوں کے ساتھ رہ کر) اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہے ہیں، ان کیر وح قبض کرنے کے بعد فرشتے ان سے پوچھیں گے "تم کس حال میں تھے؟ "(یعنی دین کے اعتبار سے تمہارا حال کیا تھا؟) وہ جواب میں کہیں گے "ہم کیا کرتے؟ ہم ملک میں دبے ہوئے اور بے بس تھے" (یعنی بے بسی کی وجہ سے اپنے اعتقاد و عمل کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتے تھے) اس پر فرشتے کہیں گے (اگر تم اپنے ملک میں بے بس ہو رہے تھے تو) کیا خدا کی زمین سیع نہ تھی کہ کسی دوسری جگہ ہجرت کرکے چلے جاتے غرض کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہوا، اور اور جس کا ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری جگہ ہے النسآء
98 مگر (ہاں) جو مرد، عورتیں، بچے ایسے مجبور اور بے بس ہوں کہ کوئی چارہ کار نہ رکھتے ہوں، اور (ہجرت کی) کوئی راہ نہ پاتے ہوں النسآء
99 تو امید ہے، اللہ (ان کی معذوری دیکھتے ہوئے) انہیں معاف کردے، اور وہ معاف کردینے والا، بخش دینے والا ہے النسآء
100 اور (دیکھو) جو کوئی اللہ کی راہ میں (انا گھر بار چھوڑ کر) ہجرت کرے گا، تو اسے خدا کی زمین بہت سے اقامت گاہیں ملیں گی، اور (ہر طرح کی) کشائش پائے گا (کہ معیشت کی نئی نئی راہیں اس کے سامنے کھل جائیں گی) اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے، اور پھر (راہ ہی میں) موت آجائے، تو اس کا اجر اللہ کے حضور ثابت ہوگیا (وہ اپنی نیت کے مطابق اپنی کوشش کا اجر ضرور پائے گا) اور اللہ تو (ہر حال میں) بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے النسآء
101 اور اگر (جنگ کے لیے) تم سفر میں نکلو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر نماز (کی تعداد) میں سے کچھ کم کردو۔ بلاشبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (وہ جب موقع پائیں گے تم پر حملہ کردیں گے) النسآء
102 اور (اے پیغمبر) جب تم مسلمانوں میں موجود ہو (اور جنگ ہو رہی ہو) اور تم ان کے لیے نماز قائم کرو، تو چاہیے کہ (فوج کا) ایک حصہ (مقتدی ہو کر) تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے اور اپنے ہتھیار لیے رہے۔ پھر جب وہ سجدہ کرچکے، تو پیچھے (فوج کا) ایک حصہ (مقتدی ہو کر) تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے اور اپنے ہتھیار لیے رہے۔ پھر جب وہ سجدہ کرچکے تو پیچھے ہٹ جائے اور دوسرا حصہ جو نماز میں شریک نہ تھا، تمہارے ساتھ شریک ہوجائے اور چاہیے کہ پوری طرح ہشیاری رکھے اور اپنے ہتھیار لیے رہے۔ (یاد رکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، ان کی دلی تمنا ہے کہ تم اپنے ہتھیار اور سامانِ جنگ سے ذرا بھی غفلت کرو تو ایک بارگی تم پر ٹوٹ پڑیں۔ اور اگر تمہیں برسات کی وجہ سے کچھ تکلیف ہو، یا تم بیماری ہو، تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں اگر ہتھیار اتار کر رکھ دو۔ لیکن اپنے بچاو کی طرف سے غافل نہ ہوجانا چاہیے (یقین رکھو) اللہ نے منکرین حق کے لیے (نامرادی کا) رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے (وہ تم پر فتح مند نہیں ہوسکتے) النسآء
103 پھر جب تم نماز (خوف) پوری کرچکو، تو چاہیے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو (کہ اس کی یاد صرف نماز کی حالت ہی پر موقوف نہیں۔ ہر حالت میں تمہارے اندر بسی ہونی چاہیے) پھر جب ایسا ہو کہ تم (دشمن کی طرف سے) مطمئن ہوجاؤ۔ تو (معمول کے مطابق) نماز قائم رکھو۔ بلاشبہ نماز مسلمانوں پر وقت کی قید کے ساتھ فرض کردی گئی ہے النسآء
104 اور (دیکھو) دشمنوں کا پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو۔ اگر تمہیں (جنگ میں) دکھ پہنچتا ہے، تو جس طرح تم دکھی ہوتے ہو، وہ بھی (تمہارے ہاتھوں) دکھی ہوتے ہیں، اور (تمہیں ان پر یہ فوقیت ہے کہ) اللہ سے (کامیابی اور اجر کی) ایسی ایسی امیدیوں رکھتے ہو، جو انہیں میسر نہیں۔ (کیونکہ تم اللہ کی راہ میں حق و انصاف کے لیے لڑ رہے ہو۔ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے لیے ظلم و فساد کی راہ میں لڑ رہے ہیں) اور (یاد رکھو) الہ (تمام حال) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
105 (اے پیغمبر) ہم نے تم پر الکتاب سچائی کے ساتھ نازل کردی ہے تاکہ جیسا کہ کچھ خدا نے بتلا دیا ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ اور خیانت کرنے والوں کی طرف داری میں نہ جھگڑو (یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کی وکالت میں فریق ثانی سے جھگڑو) النسآء
106 اور اللہ سے مغفرت مانگو (کہ قضا کا معاملہ نہایت نازک ہے) بلاشبہ اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے النسآء
107 اور جو لوگ اپنے اندر خیانت رکھتے ہیں تم ان کی طرف سے نہ جھگڑو۔ خدا ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو خیانت اور معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں النسآء
108 (اس طرح کے لوگ) انسانوں سے (اپنی خیانت) چھپاتے ہیں، لیکن خدا سے نہیں چھپاتے، حالانکہ یہ وہ راتوں کو مجلس بٹھا کر ایسی ایسی باتوں کا مشورہ کرتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں تو اس وقت وہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کے احاطہ حکم سے باہر نہیں النسآء
109 دیکھو تم لوگ وہ ہو کہ تم نے دنیا کی زندگانی میں تو ان (مجرموں کی طرف سے جھگڑا کرلیا لیکن (بتلاؤ) قیامت کے دن ان کی طرف سے اللہ کے ساتھ کون جھگڑے گا؟ یا کون ہے جو (اس دن) ان کا وکیل بنے النسآء
110 اور جو شخص کوئی برائی کی بات کر بیٹھتا ہے یا اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرلیتا ہے، اور پھر (اس سے توبہ کرتا ہوا) اللہ سے بخشش طلب کرتا ہے (تو اس کے لیے بخشش کا دروازہ کھلا ہوا ہے) وہ اللہ کو بخشنے والا، رحمت رکھنے والا پائے گا النسآء
111 اور جو کوئی (بدعملی کرکے) برائی کماتا ہے، تو وہ اپنی جان ہی کے لیے کماتا ہے ( اس کا جو کچھ بھی وبال ہوگا اسی کو پیش آئے گا) اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا اور (اپنے احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
112 اور جس کسی سے (بے جانے بوجھے) کوئی خطا سرزد ہوجائے۔ یا (جان بوجھ کر) کسی گناہ کا مرتکب ہو اور پھر (اپنے بچاؤ کے لیے) اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دے تو (یاد رکھو) اس نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (بھی) اپنی گردن پر لاد لیا النسآء
113 اور (اے پیغمبر) اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت (کار فرما) نہ ہوتی تو واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے ایک جماعت نے تو پورا ارادہ کرلیا تھا، کہ (اصل مجرم کی حمایت میں جتھا بندی کر کے) تمہیں غلط راستہ پر ڈال دیں (اور تم بے گناہ آدمی کو مجرم سمجھ لو) یہ لوگ غلط راستہ پر نہیں ڈال رہے ہیں، مگر خود اپنی ہی جانوں کو (کہ حق کی حمایت کرنے کی جگہ جھوٹے کی حمایت کررہے ہیں) یہ (اپنی چالاکیوں سے) تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کردی ہے، اور جو باتیں معلوم نہ تھیں وہ تمہیں سکھلا دی ہیں، اور تم پر اس کا بہت ہی بڑا فضل ہے النسآء
114 ان لوگوں کے پوشیدہ مشوروں میں سے اکثر مشورے بھلائی کے لیے نہیں ہوتے۔ ہاں جو کوئی خیرات کے لیے یا کسی نیک کام کے لیے حکم دے، یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرادینا چاہے (اور اس میں پوشیدگی ملحوظ رکھے تو البتہ یہ نیکی کی بات ہے) اور جو کوئی خدا کی خوشنودی کی طلب میں اس طرح کے کام کرتا ہے، تو ہم اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے النسآء
115 اور جس شخص پر الہدی (یعنی ہدایت کی حقیقی راہ) کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول سے مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف کو لے جائیں گے جس (طرف) کو (جانا) اس نے پسند کرلیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے۔ اور (جس کے پہنچنے کی جگہ دوزخ ہوئی تو) یہ پہنچنے کی کیا ہی بری جگہ ہے النسآء
116 اللہ یہ بات بخشنے والا نہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جتنے گناہ ہیں وہ جسے چاہے بخش دے اور جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ بھٹک کر سیدھے راستے سے بہت دور جا پڑا۔ النسآء
117 (یہ مشرک خدا کے ساتھ کن کو شریک ٹھہراتے ہیں؟ اور کن کو پکارتے ہیں) یہ نہیں پکارتے، مگر۔۔۔۔ کو، اور یہ نہیں کارتے ہیں مگر شیطان مردود کو جس پر اللہ لعنت کرچکا ہے النسآء
118 اور شیطان نے کہا کہ میں تیرے بندوں سے (گمراہی کا) ایک مقررہ حصہ لے کر رہوں گا النسآء
119 اور ضرور انہیں بہکاؤں گا اور ضرور ایسا کروں گا کہ (حقیقت اور عمل کی جگہ جھوٹی) آرزوؤں میں انہیں مشغول رکھوں اور ضرور انہٰں (مشرکانہ خرافات کا) حکم دوں گا، پس وہ جانوروں کے کان ضرور ہی چیریں گے (اور انہیں بتوں کے نام پر چھوڑ دیں گے) اور میں البتہ انہیں حکم دوں گا۔ پس وہ (میری ہدایت کے مطابق) خدا کی خلقت میں ضرور رد و بدل کردیا کریں گے (سو یہ مشرک اسی شیطان کی وسوسہ اندازیوں پر چلتے ہیں) اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق و مددگار بناتا ہے تو یقینا وہ تباہی میں پڑگیا۔ ایسی تباہی میں جو کھلی تباہی ہے النسآء
120 شیطان ان سے وعدہ کرتا اور آرزوؤں میں ڈالتا ہے اور شیطان ان سے جو کچھ وعدے کرتا ہے، وہ فریب کے سوا کچھ نہیں ہے النسآء
121 یہی لوگ ہیں جن کا (بالآخر) ٹھکانا دوزخ ہوا، اور یہ اس سے نکل بھاگنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے النسآء
122 اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیے، تو ہم انہیں (راحت اور سرور ابدی کے ایسے) باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی (اور اس لیے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ حق ہے۔ اور اللہ سے بڑھ کر بات کہنے میں سچا اور کون ہوسکتا ہے النسآء
123 (مسلمانو ! نجات و سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر (موقوف) ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ (وہ تو ایمان و عمل پر موقوف ہے) جو کوئی برائی کرے گا (خواہ کوئی ہو) ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے، اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے نہ مددگار النسآء
124 اور جو کوئی اچھ کام کرے گا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ (خدا پر) ایمان بھی رکھتا ہوگا، تو ایسے ہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور رائی برابر بھی ان کے ساتھ (جزا و عمل میں) بے انصافی ہونے والی نہیں النسآء
125 اور پھر (بتلاؤ) اس آدمی سے بہتر دین رکھنے والا کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہے، اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی ہے جو (تمام انسانی گروہ بندیوں سے الگ ہو کر) صرف خدا ہی کے لیے ہورہا تھا اور (یہ واقعہ ہے کہ) اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست مخلص بنا لیا تھا النسآء
126 اور (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں میں ہے۔ اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (اس کے سوا کوئی نہیں) اور وہ (اپنے علم و قدرت سے) ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے النسآء
127 اور (اے پیغمبر) لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں (یعنی حکم دریافت کرتے ہیں) تم کہہ دو، اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے (جو اب بیان کیا جائے گا) نیز وہ تمہیں یتیم عورتوں کی نسبت بھی حکم دیتا ہے جو تمہیں قرآن میں سنایا جا رہا ہے ( اور پہلے نازل ہوچکا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی نہ کرو) وہ یتیم عورتیں (جو تمہاری سرپرستی میں ہوتی ہیں اور (جنہیں تم ان کا حق جو (وراثت میں) ان کے لیے ٹھہرایا جا چکا ہے نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ (ان کے مال پر قبضہ کرلینے کے لیے خود) ان سے نکاح کرلو۔ نیز جو کچھ بے بس (یتیم لڑکوں) کی نسبت قرآن میں سنایا جا رہا ہے (اور پہلے نازل ہوچکا ہے) تو اس بارے میں بھی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ (ان کے) حقوقت تلف نہ کرو۔ اور وہ حکم دیتا ہے کہ یتیموں کے معاملہ میں (خواہ لڑکیاں ہوں خواہ لڑکے ہوں، اور تمہاری سرپرستی میں ہوں یا نہ ہوں ہر حال میں) حق و انصاف کے ساتھ قائم رہو، اور (یاد رکھو) تم بھلائی کی باتوں میں سے جو کچھ کرتے ہو خدا اس کا علم رکھنے والا ہے النسآء
128 اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے سرکشی یا کنارہ کشی کا اندیشہ ہو تو شوہر اور بیوی پر کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر (مصالحت کی کوئی بات آپس میں ٹھہرا کر) صلح کرلیں۔ (نا اتفاق سے) صلح (ہر حال میں) بہتر ہے۔ اور (یاد رکھو انسان کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ) مال کا لالچ سبھی میں ہوتا ہے (عورت چاہتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ ملے۔ مرد چاہتا ہے کم سے کم خرچ کرے۔ پس ایسا نہ کرو کہ مال کی وجہ سے آپس میں مصالحت نہ ہو) اور اگر تم (ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور (سخت گیری سے بچو تو تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس کی خبر رکھنے والا ہے النسآء
129 اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو، لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کرسکو (کیونکہ دل کا قدرتی کھنچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ کسی طرف زیادہ کھنچے گا کسی طرف کم) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک پڑو، اور دوسری کو (اس طرح) چھور بیٹھو گویا "معلقہ" ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظام کرے۔ نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عورت کی طرح ہو۔ بیچ میں پڑی لٹک رہی ہے) اور (دیکھو) اگر تم (عورتوں کے معاملہ میں) درستی پر رہو، اور (بے انصافی سے) بچو، تو اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے۔ النسآء
130 اور اگر (میاں بی بی میں اصلاح کی کوئی صورت بن نہ پڑے اور ایک دوسرے سے) جدا ہوجائیں، تو اللہ اپنے (فضل کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجائے گا جو عجب نہیں، پہلے کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجاجائے گا جو عجب نہیں، پہلے سے بہتر ہو) اور اللہ بڑی وسعت والا اور اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
131 اور (مسلمانو ! یاد رکھو) آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) ہم نے یقینا ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی۔ اور (اسی طرح) خود تم کو بھی، یہ حکم دیا کہ اللہ (کی نافرمانی کے نتائج) سے ڈرو (اور احکام حق کی پیروی کرو) اور اگر (اس کا حکم) نہ مانو گے سو (اس سے اس کی خدائی کا تو کچھ نقصان ہونے والا نہیں۔ تم خود ہی نقصان اٹھاؤگے) آسمانوں میں اور زمین جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ بے نیاز ہے، ساری ستائشوں سے ستودہ۔ النسآء
132 اور (بے شک) اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور (جو کوئی اس کی فرماں برداری کرے تو) کارسازی کے لیے اس کا کارسازی کے لیے اس کا کارساز ہونا کفایت کرتا ہے النسآء
133 لوگو ! اگر وہ چاہے تو تمہیں (اقبال و سعادت کے میدان سے) ہٹا دے، اور (تمہاری جگہ) دوسروں کو لے آئے۔ وہ بلاشبہ ایسا کرنے پر قادر ہے۔ النسآء
134 جو کوئی دنیا کا ثواب چاہتا ہے تو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کے پاس دنیا اور آکرت، دونوں کا ثواب موجود ہے (اور وہ دونوں کی بخشش رکھتا ہے وہ (سب کچھ سنے والا اور دیکھنے والا ہے النسآء
135 مسلمانو ایسے ہوجاؤ کہ انصاف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے (سچی) گواہی دینے والے ہو۔ اگر تمہیں خود اپنے خلاف، یا اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے جب بھی نہ جھجکو۔ اگر کوئی مال دار ہے یا محتاج ہے، تو اللہ (تم سے) زیادہ ان پر مہربانی رکھنے والا ہے۔ (تمہیں ایسا نہ کرنا چاہیے کہ مال دار کی دولت کے لالچ میں یا محتاج کی محتاجی پر ترس کھا کر سچی بات کہنے سے جھجکو)۔ پس (دیکھو) ایسا نہ ہو کہ ہوائے نفس کی پیروی تمہیں انصاف سے باز رکھے۔ اور اگر تم (گواہی دیتے ہوئے) بات کو گھما پھرا کر کہو گے (یعنی صاف صاف کہنا نہ چاہو گے) یا گواہی دینے سے پہلو تہی کروگے تو (یاد رکھو) تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے النسآء
136 مسلمان ! اللہ پر ایمان لاؤ، اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ نیز کتابوں پر جو اس سے پہلے (دوسرے پیغمبروں پر) نازل کی تھیں۔ اور (دیکھو) جس کسی نے اللہ سے انکار کیا، اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھا، تو وہ بھٹک کر سیدھے راستے سے بہت دور جا پڑا النسآء
137 جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایمان لائے، پھر کفر میں پڑگئے، پھر ایمان لائے، پھر کفر میں پڑگئے، اور پھر برابر کفر میں بڑھتے ہی گئے (تو فی الحقیقت ان کا ایمان لانا ایمان لانا، نہ تھا) اللہ انہیں بخشنے والا نہیں اور ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ (کامیابی کی) انہیں کوئی راہ دکھائے۔ النسآء
138 (اے پیغمبر) تم منافقوں کو یہ خوش خبری سنادو کہ بلاشبہ ان کے لیے عذاب دردناک ہے النسآء
139 (وہ منافق) جو مسلمانوں کو چھوڑ کر منکرین حق کو اپنا رفیق اور مددگار بناتے ہیں (اور مسلمانوں کی دوستی پر مسلمانوں کے دشمنوں کی دوستی کو ترجیح دیتے ہیں) تو کیا وہ چاہتے ہیں ان کے پاس عزت ڈھونڈھیں؟ (اگر ایسا ہی ہے) تو (یاد رکھیں) عزت جتنی بھی ہے سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے (یعنی اسی کے اختیار میں ہے، جسے چاہے دے دے، دشمنان حق کے ہاتھ میں نہیں، اگرچہ وہ اس وقت عارضی طور پر دنیوی عزت اور شوکت رکھتے ہیں اور پیروان حق بے سروسامان اور کمزور ہیں) النسآء
140 اور (دیکھو) اللہ اپنی کتاب میں تمہارے لیے یہ حکم نازل کرچکا ہے کہ جب تم دیکھو اور سنو خدا کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے (یعنی انہیں سرکشی اور شرارت سے جھٹلایا جا رہا ہے) اور ان کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے تو (تم اس مجلس سے اٹھ جاؤ اور) جب تک (اس طرح کی باتیں چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں لوگ نہ لگ جائیں، ان کے پاس نہ بیٹھو۔ اگر بیٹھا کروگے تو تم بھی انہی جیسے ہوجاؤگے۔ (یاد رکھو) خدا منافقوں کو (جو ایسی باتوں میں شریک ہوتے ہیں) اور منکرین حق کو (جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں) سب کو جہنم میں اکٹھا کردینے والا ہے النسآء
141 ان (منافقوں) کا شیوہ یہ ہے کہ وہ تمہاری حالت دیکھتے رہتے اور (مآل کار کے) منتظر رہتے ہیں۔ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہے تو (اپنے کو تمہارا ساتھی ظاہر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں۔ کیا ہم بھی تمہارے ساتھ نہ تھے۔ اگر منکرین حق کے لیے فتح مندی ہوتی ہے تو (ان کی طرف دوڑے جاتے ہیں اور اپنا احسان جتانے کے لیے) کہتے ہیں کیا ہم نے ایسا نہیں کیا کہ (جنگ میں) بالکل غالب آگئے تھے پھر بھی تمہیں مسلمانوں سے بچا لیا۔ تو (یقین کرو) اللہ قیامت کے دن تم میں (کہ سچے مسلمان ہو) اور ان میں (کہ نفاق میں ڈوبے ہوئے ہیں) فیصلہ کردے گا، اور یقین کرو (یہ منافق کتنا ہی دشمنوں کا ساتھ دیں مگر خدا کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ کافر، ایمان رکھنے والوں کے خلاف کوئی راہ پالیں۔ النسآء
142 منافق (اپنی اس دورنگی چال سے) خدا کو دھوکا دے رہے ہیں (یعنی خدا کے رسول کو اور مسلمانوں کو دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں) اور (واقعہ یہ ہے کہ) خدا انہیں دھوکا دینے میں ہرا رہا ہے اور مغلوب کر رہا ہے (کہ مہلت پر مہلت دے رہا ہے اور اس عارضی ہلت کو وہ جہل و غرور سے اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں) اور جب یہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں (جیسے کوئی مارے باندھے کھڑا ہوجائے) محض لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے (یعنی تلاوت نہیں کرتے) مگر برائے نام۔ النسآء
143 کفر اور ایمان کے درمیان متردد کھڑے ہیں کہ ادھر رہیں یا ادھر۔ نہ تو ان کی طرف ہیں، نہ ان کی طرف (یعنی نہ تو مسلمانوں کی طرف ہیں، نہ مسلمانوں کے دشمنوں کی طرف) اور حقیقت یہ ہے کہ جس پر اللہ ہی راہ گم کردے (یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانون ہدایت و ضلالت کے بموجب راہ سعادت گم ہوجائے) تو پھر ممکن نہیں تم اس کے لیے کوئی راہ نکال سکو النسآء
144 مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ مسلمانوں کے سوا کافروں کو (جو تمہارے خلاف لڑ رہے ہیں اور تمہاری بربادی پر تلے ہوئے ہیں) اپنا رفیق و مددگار بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو خدا کا صریح الزام اپنے اوپر لے لو۔ النسآء
145 بلاشبہ منافقوں کے لیے یہی ہونا ہے کہ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ڈالے جائیں اور (اس دن) کسی کو بھی تم ان کا رفیق و مددگار نہ پاؤ (پھر کیا تم چاہتے ہو ان کی سی روش تم بھی اختیار کرو) النسآء
146 ہاں (ان میں سے) جن لوگوں نے توبہ کرلی، اپنی (عملی) حالت سنوار لی، اللہ کے حکم) پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے، اور اپنے دین میں صرف اسی کے لیے ہوگئے تو (بلاشبہ) ایسے لوگ (منافقوں میں سے نہیں سمجھے جائیں گے) مومنوں کی صف میں ہوں اور قریب ہے کہ اللہ مومنوں کو (ان کا) اجر عطا فرمائے۔ ایسا اجر، جو بہت ہی بڑا اجر ہوگا۔ النسآء
147 (لوگو !) اگر تم شکر کرو، (یعنی خدا کی نعمتوں کی قدر کرو اور انہیں ٹھیک ٹھیک کام میں لاؤ) اور خدا پر ایمان رکھو تو خدا کو تمہیں عزاب دے کر کیا کرنا ہے؟ (یعنی وہ کیوں تمہیں عزاب دے) خدا تو (انسانی اعمال کا) قدر شناس اور (ان کی حالت کا) علم رکھنے والا ہے۔ النسآء
148 خدا کو پسند نہیں کہ تم (کسی کی) برائی پکارتے پھرو۔ ہاں یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو (اور وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرے) اور (یاد رکھو) خدا سننے والا جاننے والا ہے (اس سے کسی کی کوئی بات پوشیدہ نہیں النسآء
149 تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو، یا چھپا کر کرو، یا کسی کی برائی سے درگزر کرو (ہر حال میں تمہارے لیے نیکی و احسان کا اجر ہے، اور دیکھو) اللہ بھی (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہوا (برائیوں سے) درگزر کرنے والا ہے النسآء
150 جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے برگشتہ ہیں اور چاہتے ہیں، اللہ میں اور اس کے رسولوں میں (تصدیق کے لحاظ سے) تفرقہ کریں اور کہتے ہیں ہم ان میں سے بعض کو مانتے ہیں، بعض کو نہیں مانتے اور اس طرح چاہتے ہیں ایمان اور کفر کے درمیان کوئی (تیسری) راہ اختیار کرلیں۔ النسآء
151 تو ایسے لوگ یقینا کافر ہیں (ان کا بعض رسالتوں پر ایمان رکھنے کا دعوی انہیں مومن نہیں بنا دے سکتا) اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے النسآء
152 اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کیا (یعنی کسی ایک سے بھی انکار نہیں کیا) تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں کہ (سچے مومن ہیں، اور) عنقریب ہم انہیں ان کے اجر عطا فرمائیں گے، اور اللہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے۔ النسآء
153 (اے پیغمبر) اہل کتاب (یعنی یہودی) تم سے درخواست کرتے ہیں کہ آسمان سے کوئی کتاب ان پر نازل کرا دو (تاکہ انہیں تصدیق ہوجائے) کہ تم خدا کے نبی ہو) تو (یہ فرمائش انہوں نے تم ہی سے نہیں کیا ہے) یہ اس سے بھی بڑی بات کا سوال موسیٰ سے کرچکے ہیں انہوں نے (یعنی ان کے بزرگوں اور ہم مشربوں نے سینا کے میدان میں) کہا تھا۔ ہمیں خدا آشکارا طور پر دکھلا دو۔ (یعنی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں خدا تم سے کلام کر رہا ہے) تو ان کی شرارت کی وجہ سے بجلی (کی ہولناکی) نے انہیں پکڑ لیا تھا (اور اس پر بھی وہ نافرمانی و شرارت سے باز نہیں آئے تھے) پھر باوجودیکہ (دین حق کی روشن دلیلیں ان پر واضح ہوچکی تھیں، وہ پوجا کے لیے) بچھڑے کو لے بیٹھے (اور بت پرستی میں مبتلا ہوگئے) ہم نے اس سے بھی درگزر کی تھی اور موسیٰ کو (قیام حق و شریعت میں) ظاہر و واضح اقتدار دے دیا تھا۔ النسآء
154 اور پھر (دیکھو احکام حق پر) عہد لینے کے لیے ہم نے ان کے سروں پر (کوہ) طور بلند کردیا تاھ۔ (اور انہوں نے اتباع حق کا قول و قرار کیا تھا) اس کے بعد ہم نے انہیں حکم دیا کہ شہر کے دروازے میں (خدا کے آگے) جھکے ہوئے داخل ہو (اور فتح و کامیابی کے بعد ظلم و شرارت نہ کرو) اور ہم نے حکم دیا کہ سب کے دن (کا احترام کرو) اور اس دن (حکم شریعت سے) تجاوز نہ کرجاؤ۔ ہم نے ان سے ان تمام باتوں پر پکا عہد و میثاق لے لیا تھا النسآء
155 پس ان کے عہد (اطاعت) توڑنے کی وجہ سے، اور اللہ کی آیتیں جھٹلانے کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ خدا کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے، نیز (اس شقاوت کی وجہ سے کہ) انہوں نے کہا "ہمارے دلوں پر (تہ در تہ) غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ (ان میں قبولیت حق کی استعداد باقی ہی نہیں رہی۔ ان کے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے، یہی وجہ ہے کہ معدودے چند آدمیون کے سوا سب کے سب ایمان سے محروم ہیں النسآء
156 اور (نیز) اس بات کی وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور مریم کے خلاف ایسی بات کہی جو بڑے ہی بہتان کی بات تھی النسآء
157 اور (نیز) ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو جو خدا کے رسول (ہونے کا دعوی کرتے) تھے (سولی پر چرھا کر) قتل کرڈالا، حالانکہ (واقعہ یہ ہے کہ) نہ تو انہوں نے قتل کیا، اور نہ سولی پر چرھا کر ہلاک کیا، بلکہ حقیقت حال ان پر مشتبہ ہوگئی (یعنی صورت حال ایسی ہوگئی کہ انہوں نے سمجھا ہم نے مسیح کو مصلوب کردیا حالانکہ نہیں کرسکے تھے) اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا (یعنی عیسائیوں نے جو کہتے ہیں مسیح مصلوب ہوئے لیکن اس کے بعد زندہ ہوگئے) تو بلاشبہ وہ بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ظن و گمان کے سوا کوئی علم ان کے ان کے پاس نہیں، اور یقیناً یہودیوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا النسآء
158 بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ سب پر غالب رہنے والا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
159 اور (دیکھو) اہل کتاب میں (یعنی یہودیوں میں سے جنہوں نے میسح سے انکار کیا) کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے (حقیقت حال پر مطلع نہ ہوجائے اور) اس پر (یعنی مسیح کی صداقت پر) یقین نہ لے آئے۔ ایسا ہونا ضروری ہے (کیونکہ مرنے کے وقت غفلت و شرارت کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور حقیقت نمودار ہوتی ہے) اور قیامت کے دن وہ (اللہ کے حضور) ان پر شہادت دینے والا ہوگا النسآء
160 الغرض یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے (کئی ایک) اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں جو (پہلے) حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بتہ روکنے لگے تھے (اور ہدایت کی راہ میں سرتا سر روک ہوگئے تھے النسآء
161 نیز ان کی یہ بات کہ سود لینے لگے، حالانکہ اس سے روک دیے گئے تھے اور یہ بات کہ ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھانے لگے (حالانکہ انہیں ہر انسان کے ساتھ دیانت دار ہونے کا حکم دیا گیا تھا) اور (یاد رکھو) ان میں جو لوگ (اس طرح احکام حق کے) منکر ہوگئے، ہم نے ان کے لیے (پاداش عمل میں) دردناک عذاب تیار رکھتا ہے النسآء
162 لیکن (اے پیغمبر) ان میں سے جو لوگ (کتاب اللہ کے) علم میں پکے ہیں، تو وہ اور مسلمان (ان گمراہیوں سے اپنی راہ الگ رکھتے ہیں۔ وہ) اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل ہوئی ہے اور ان تمام کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور وہ جو نماز قائم کرنے والا ہیں، زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، تو ایسے ہی لوگ ہیں جنہیں ہم عنقریب ان کا اجر عطا فرمائیں گے۔ ایسا اجر جو بہت ہی بڑا اجر ہوگا النسآء
163 (اے پیغمبر) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح پر اور ان نبیوں پر جو نوح کے بعد ہوئے، بھیجی تھی اور جس طرح ابراہیم، اسمعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد، یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان پر بھیجی، اور داود کو زبور عطا فرمائی النسآء
164 نیز خدا کے وہ رسول جن کا حال ہم (قرآن میں) پہلے سنا چکے ہیں اور وہ جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا، اور (اسی طرح) اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ واقعی طور پر کلام کرنا ہوتا ہے النسآء
165 یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کرنے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کسی نے نہیں دکھلائی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
166 (اے پیغمبر ! اگر یہ لوگ تمہاری سچائی سے انکار کرتے ہیں، تو انکار کریں) لیکن اللہ نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اور (خدا کے) فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں اور (جس بات پر اللہ گواہی دے تو) اللہ کی گواہی بس کرتی ہے النسآء
167 جو لوگ (سچائی سے) منکر ہوئے اور خدا کی راہ سے لوگوں کو روکا، تو بلاشبہ وہ (سیدھے راستے سے) بھٹک گئے اور ایسے بھٹکے کہ دور دراز راہوں میں گم ہوگئے النسآء
168 جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم (میں بھی بے باک ہوگئے اور مرتے دم تک اسی حالت میں سرشار رہے) تو خدا انہیں کبھی بخشنے والا نہیں، نہ انہیں (کامیابی کی) کوئی راہ دکھائے گا النسآء
169 بجز جہنم کی راہ کے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لیے ایسا کرنا بالکل سہل ہے (کوئی نہیں جو اس کے قوانین کے نفاز میں رکاوٹ ڈال سکے) النسآء
170 اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ الرسول (یعنی پیغمبر اسلام) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس سچائی کے ساتھ آگیا ہے (اور اس کی سچائی اب کسی کے جھٹلائے جھٹلائی نہیں جاسکتی) پس ایان لاؤ کہ تمہارے لیے (اسی میں بہتری ہے اور (دیکھو) اگر تم کفر کرو گے تو آسمان و زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (تمہاری شقاوت خود تمہارے ہی آگے آئے گی اور (یاد رکھو) اللہ (سب کچھ) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
171 اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو (یعنی حقیق و اعتدال سے گزر نہ جاؤ) اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا اور کچھ نہ کہو مریم کا بیٹا عیسیٰ مسیح اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کا رسول ہے اور اس کے کلمہ (بشارت) کا ظہور ہے جو مریم پر القا کیا گیا تھا، نیز ایک روح ہے جو اس کی جانب سے بھیجی گئی پس چاہیے کہ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور یہ بات نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔ دیکھو، ایسی بات کہنے سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہو، حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کے ہے ہے (وہ بھلا اپنے کاموں کے لیے اس بات کا کیوں محتاج ہونے لگا کہ کسی کو بیٹا بنا کر دنیا میں بھیجے؟ کارسازی کے لیے خدا کا کارساز ہونا بس ہے النسآء
172 مسیح کو ہرگز اس بات میں عار نہیں کہ وہ خدا کا بندہ سمجھا جائے اور نہ خدا کے مقرب فرشتوں کو اس سے ننگ و عار ہے۔ جو کوئی خدا کی بندگی میں ننگ و عار سمجھے اور گھمنڈ کرے تو ( وہ گھمنڈ کرکے جائے گا کہاں؟) وہ وقت دور نہیں کہ خدا سب کو ( قیامت کے دن) اپنے حضور جمع کرے گا النسآء
173 (اس دن) ایسا ہوگا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک کام کیے ہیں، تو ان کی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ انہیں دے دے گا، اور اپنے فضل سے اس میں زیادتی بھی فرمائے گا۔ لیکن جن لوگوں نے (خدا کی) بندگی کو ننگ و عار سمجھا اور گھمنڈ کیا تو انہیں (پاداش جرم میں) ایسا عذاب دے گا جو دردناک عذاب ہوگا اور اس دن انہیں خدا کے سوا نہ تو کوئی رفیق ملے گا نہ مددگار النسآء
174 لوگو تمہاے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان (یعنی دلیل و حجت) آگئی، اور ہم نے تمہاری طرف چمکتی ہوئی روشنی بھیج دی النسآء
175 پس جو لوگا للہ پر ایمان لائے اور اس کا سہارا مضبوط پکڑ لیا، تو وہ انہیں عنقریب اپنی رحمت کے سایے میں داخل کردے گا اور ان پر اپنا فضل کرے گا اور انہیں اپنے تک پہنچنے کی راہ دکھا دے گا۔ ایسی راہ جو بالکل سیدھی راہ ہے النسآء
176 (اے پیغمبر) لوگ تم سے کلالہ کے بارے میں (یعنی ایسے آدمی کی میراث کے بارے میں جس کے نہ تو باپ ہو نہ اواد) فتوی طلب کرتے ہیں۔ کہہ دو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں (حسب ذیل) حکم دیتا ہے۔ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ باپ دادا) اور اس کے بہن ہو تو جو کچھ مرنے والا چھور مرا ہے اس کا آدھا بہن کا حصہ ہوگا اور بہن مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اس (کے سارے مال) کا وارث وہ بھائی ہی ہوگا۔ پھر اگر دو بہنیں ہوں (یا دو سے زیادہ) تو انہیں ترکے میں سے دو تہائی ملے گا۔ اور اگر بھائی بہن (ملے جلے ہوں) کچھ مرد، عورتیں، تو پھر (اسی قاعدے سے حصے تقسیم ہوں گے کہ) مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ۔ اللہ تمہارے لیے اپنے احکام واضح کرتا ہے تاکہ گمراہ نہ ہو اور اللہ تمام باتوں کا علم رکھنے والا ہے النسآء
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المآئدہ
1 اے ایمان والو ! معاہدوں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے وہ چوپائے حلال کردیے گئے ہیں جو مویشیوں میں داخل ( یا ان کے مشابہ) ہوں۔ (١) سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنایا جائے گا (٢) بشرطیکہ جب تم احرام کی حالت میں ہو اس وقت شکار کو حلال نہ سمجھو۔ (٣) اللہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اس کا حکم دیتا ہے (٤) المآئدہ
2 اے ایمان والو ! نہ اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی کرو، نہ حرمت والے مہینے کی، نہ ان جانوروں کی جو قربانی کے لیے حرم لے جائے جائیں، نہ ان پٹوں کی جو ان کے گلے میں پڑے ہوں، اور نہ ان لوگوں کی جو اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر بیت حرام کا ارادہ لے کر جارہے ہوں۔ اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرسکتے ہو۔ اور کسی قوم کے ساتھ تمہاری یہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم (ان پر) زیادتی کرنے لگو (٥) اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ المآئدہ
3 تم پر مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور حرام کردیا گیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جسے چوٹ مار کر ہلاک کیا گیا ہو، اور جو اوپر سے گر کر مرا ہو۔ اور جسے کسی جانور نے سینگ مار کر ہلاک کیا ہو، اور جسے کسی درندے نے کھالیا ہو، الا یہ کہ تم (اس کے مرنے سے پہلے) اس کو ذبح کرچکے ہو، اور وہ (جانور بھی حرام ہے) جسے بتوں کی قربان گاہ پر ذبح کیا گیا ہو۔ اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے) کہ تم جوے کے تیروں سے (گوشت وغیرہ) تقسیم کرو۔ (٦) یہ ساری باتیں سخت گناہ کی ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے مغلوب ہونے) سے ناامید ہوگئے ہیں، لہذا ان سے مت ڈرو، اور میرا ڈر دل میں رکھو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا (٧) (لہذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو) ہاں جو شخص شدید بھوک کے عالم میں بالکل مجبور ہوجائے (اور اس مجبوری میں ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھا لے) بشرطیکہ گناہ کی رغبت کی بنا پر ایسا نہ کیا ہو، تو بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
4 لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ : تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھا لیا ہو، وہ جس جانور کو (شکار کر کے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھا سکتے ہو، اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، (٨) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے المآئدہ
5 آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن لوگوں کو (تم سے پہلے) کتاب دی گئی تھی، ان کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے (٩) نیز مومنوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (١٠) جبکہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیے ہوں، نہ تو (بغیر نکاح کے) صرف ہوس نکالنا مقصودہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا۔ اور جو شخص ایمان سے انکار کرے اس کا سارا کیا دھراغارت ہوجائے گا اور آخرت میں اس کا شمار خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا۔ المآئدہ
6 اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارے جسم کو (غسل کے ذریعے) خوب اچھی طرح پاک کرو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے جسمانی ملاپ کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو (١١) اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس (مٹی) سے مسح کرلو۔ اللہ تم پر کوئی تنگی مسلط کرنا نہیں چاہتا، لیکن یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے، اور یہ کہ تم پر اپنی نعمت تمام کردے، تاکہ تم شکر گزار بنو۔ المآئدہ
7 اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا ہے اسے اور اس عہد کو یاد رکھو جو اس نے تم سے لیا تھا۔ جب تم نے کہا تھا کہ : ہم نے ( اللہ کے احکام کو) اچھی طرح سن لیا ہے، اور اطاعت قبول کرلی ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقینا سینوں کے بھید سے پوری طرح باخبر ہے۔ المآئدہ
8 اے ایمان والو ! ایسے بن جاؤ کہ اللہ ( کے احکام کی پابندی) کے لیے ہر وقت تیار ہو (اور) انصاف کی گواہی دینے والے ہو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصافی کرو۔ انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔ المآئدہ
9 جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ (آخرت میں) ان کو مغفرت اور زبردست ثواب حاصل ہوگا۔ المآئدہ
10 اور جن لوگوں نے کفر اپنایا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا وہ دوزخ کے باسی ہیں۔ المآئدہ
11 اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دییے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ المآئدہ
12 اور یقینا اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ہم نے ان میں سے بارہ نگراں مقرر کیے تھے (١٣) اور اللہ نے کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، میرے پیغمبروں پر ایمان لائے، عزت سے ان کا ساتھ دیا اور اللہ کو اچھا قرض دیا (١٤) تو یقین جانو کہ میں تمہاری برائیوں کا کفارہ کردوں گا، اور تمہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، پھر اس کے بعد بھی تم میں سے جو شخص کفر اختیار کرے گا تو درحقیقت وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا المآئدہ
13 پھر یہ ان کی عہد شکنی ہی تو تھی جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا، اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا۔ وہ باتوں کو اپنے موقع محل سے ہٹا دیتے ہیں۔ اور جس بات کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ بھلا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر تمہیں آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ لہذا (فی الحال) انہیں معاف کردو اور درگزر سے کام لو (١٥) بیشک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے المآئدہ
14 اور جن لوگوں نے کہا تھا کہ ہم نصرانی ہیں، ان سے (بھی) ہم نے عہد لیا تھا، پھر جس چیز کی ان کو انصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ وہ (بھی) بھلا بیٹھے۔ چنانچہ ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لیے دشمنی اور بغض پیدا کردیا (١٦) اور اللہ انہیں عنقریب بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ المآئدہ
15 اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے (یہ) پیغبر آگئے ہیں جو کتاب (یعنی تورات اور انجیل) کی بہت سی ان باتوں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو تم چھپایا کرتے ہو، اور بہت سی باتوں سے درگزر کر جاتے ہیں (١٧) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی آئی ہے اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کردینے والی ہے۔ المآئدہ
16 جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں اور انہیں اپنے حکم سے اندھیریوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔ المآئدہ
17 جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ یقینا کافر ہوگئے ہیں۔ (اے نبی ! ان سے) کہہ دو کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور ان کی ماں کو اور زمین میں جتنے لوگ ہیں ان سب کو ہلاک کرنا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں کچھ کرنے کی ذرا بھی طاقت رکھتا ہو؟ تمام آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ وہ جو چیز چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
18 یہود و نصاری کہتے ہیں کہ : ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (ان سے) کہو کہ پھر اللہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ (١٨) نہیں ! بلکہ تم انہی انسانوں کی طرح انسان ہوجو اس نے پیدا کیے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔ المآئدہ
19 اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر ایسے وقت دین کی وضاحت کرنے آئے ہیں جب پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی (جنت کی) خوشخبری دینے والا آیا، نہ کوئی (جہنم سے) ڈرانے والا۔ لو اب تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ اور اللہ ہر بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
20 اور اس وقت کا دھیان کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : اے میری قوم ! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے کہ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تمہیں حکمران بنایا، اور تمہیں وہ کچھ عطا کیا جو تم سے پہلے دنیا جہان کے کسی فرد کو عطا نہیں کیا تھا۔ المآئدہ
21 اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے، (١٩) اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد جاؤ گے۔ المآئدہ
22 وہ بولے۔ اے موسیٰ ! اس (ملک) میں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں، اور جب تک وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، ہم ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو بیشک ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔ المآئدہ
23 جو لوگ (خدا کا) خوف رکھتے تھے، ان میں سے دو مرد جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تھا۔ (٢٠) بول اٹھے کہ : تم ان پر چڑھائی کر کے (شہر کے) دروازے میں گھس تو جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو۔ المآئدہ
24 وہ کہنے لگے : اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے (اگر ان سے لڑنا ہے تو) تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ، اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ المآئدہ
25 موسیٰ نے کہا : اے میرے پروردگار سوائے میری اپنی جان کے اور میرے بھائی کے کوئی میرے قابو میں نہیں ہے۔ اب آپ ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان الگ الگ فیصلہ کردیجیے۔ المآئدہ
26 اللہ نے کہا : اچھا تو وہ سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ (اس دوران) زمین میں بھٹکتے پھریں گے (٢١) تو (اے موسی) اب تم بھی ان نافرمان لوگوں پر ترس مت کھانا۔ المآئدہ
27 اور (اے پیغمبر) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ (٢٢) اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ : میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔ المآئدہ
28 اگر تم نے مجھے قتل کرنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا تب بھی میں تمہیں قتل کرنے کو اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ المآئدہ
29 میں تو یہ چاہتا ہوں کہ انجام کار تم اپنے اور میرے دونوں کے گناہ میں پکڑے جاؤ، (٢٣) اور دوزخیوں میں شامل ہو۔ اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ المآئدہ
30 آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا۔ المآئدہ
31 پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے (٢٤) (یہ دیکھ کر) وہ بولا۔ ہائے افسوس ! کیا میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ اس طرح بعد میں وہ بڑا شرمندہ ہوا۔ المآئدہ
32 اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا (٢٥) اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں ہی کرتے رہے ہیں۔ المآئدہ
33 جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سول پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، (٢٦) یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے (٢٧) یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔ المآئدہ
34 ہاں وہ لوگ اس سے مستثنی ہیں جو تمہارے ان کو قابو میں لانے سے پہلے ہی توبہ کرلیں (٢٨) ایسی صورت میں یہ جان رکھو کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
35 اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو (٢٩) اور اس کے راستے میں جہاد کرو (٣٠) امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔ المآئدہ
36 یقین رکھو کہ جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے اگر زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب ان کے پاس ہوں، اور اتنی ہی اور بھی ہوں، تاکہ وہ قیامت کے دن کے عذاب سے بچنے کے لیے وہ سب فدیہ میں پیش کردیں، تب بھی ان کی یہ پیشکش قبول نہیں کی جائے گی، اور ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ المآئدہ
37 وہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں، حالانکہ وہ اس سے نکلنے والے نہیں ہیں، اور ان کو ایسا عذاب ہوگا جو قائم رہے گا۔ المآئدہ
38 اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، تاکہ ان کو اپنے کیے کا بدلہ ملے، اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہو۔ اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی المآئدہ
39 پھر جو شخص اپنی ظالمانہ کارروائی سے توبہ کرلے، اور معاملات درست کرلے، تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا (٣١) بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
40 کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی حکمرانی صرف اللہ کے پاس موجود ہے؟ وہ جس کو چاہے عذاب دے، اور جس کو چاہے بخش دے، اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
41 اے پیغمبر ! جو لوگ کفر میں بڑی تیزی دکھا رہے ہیں وہ تمہیں غم میں مبتلا نہ کریں (٣٢) یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (کھلے بندوں) یہودیت کا دین اختیار کرلیا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں کان لگا لگا کر سننے والے ہیں (٣٣) (اور تمہاری باتیں) ان لوگوں کی خاطت سنتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں آئے (٣٤) جو (اللہ کی کتاب کے) الفاظ کا موقع محل طے ہوجانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو اس کو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیا جائے تو بچ کر رہنا۔ اور جس شخص کو اللہ فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلے تو اسے اللہ سے بچانے کے لیے تمہارا کوئی زور ہرگز نہیں چل سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ( ان کی نافرمانی کی وجہ سے) اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ (٣٥) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے۔ المآئدہ
42 یہ کان لگا لگا کر جھوٹی باتیں سننے والے، جی بھر بھر کر حرام کھانے والے ہیں۔ (٣٦) چنانچہ اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو چاہے ان کے د رمیان فیصلہ کردو، اور چاہے ان سے منہ موڑ لو (٣٧) اگر تم ان سے منہ موڑ لو گے تو یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، اور اگر فیصلہ کرنا ہو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ المآئدہ
43 اور یہ کیسے تم سے فیصلہ لینا چاہتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا فیصلہ درج ہے؟ پھر اس کے بعد (فیصلے سے) منہ بھی پھیر لیتے ہیں (٣٨) دراصل یہ ایمان والے نہیں ہیں۔ المآئدہ
44 بیشک ہم نے تورات نازل کی تھی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا۔ تمام نبی جو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے، اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور تمام اللہ والے اور علماء بھی (اسی پر عمل کرتے رہے) کیونکہ ان کو اللہ کی کتاب کا محافظ بنایا گیا تھا، اور وہ اس کے گواہ تھے۔ لہذا (اے یہودیو) تم لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو، اور تھوڑی سی قیمت لینے کی کا طر میری آیتوں کا سودا نہ کیا کرو۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔ المآئدہ
45 اور ہم نے اس (تورات میں) ان کے لیے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت۔ اور زخموں کا بھی (اسی طرح) بدلی لیا جائے۔ ہاں جو شخص اس (بدلے) کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ ظالم ہیں۔ (٣٩) المآئدہ
46 اور ہم نے ان (پیغمبروں) کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا، اور جو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والی اور متقیوں کے لیے سراپا ہدایت و نصیحت بن کر آئی تھی۔ المآئدہ
47 اور انجیل والوں کو چاہئے کہ اللہ نے اس میں جو کچھ نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں، اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں۔ المآئدہ
48 اور (اے رسول محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ (٤٠) اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لیے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ لہذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ المآئدہ
49 اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے (٤١) اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ (٤٢) اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں۔ المآئدہ
50 بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ المآئدہ
51 اے ایمان والو ! یہودیوں اور نصرانیوں کو یارومددگار نہ بناؤ (٤٣) یہ خود ہی ایک دوسرے کے یارومددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔ یقینا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ المآئدہ
52 چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے، تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں : ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑے گا (٤٤) لیکن) کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے (٤٥) اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی تھی۔ المآئدہ
53 اور (اس وقت) ایمان والے ( ایک دوسرے سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بڑے زور و شور سے اللہ کی قسمیں کھائی تھیں کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال غارت ہوگئے، اور وہ نامراد ہو کر رہے۔ المآئدہ
54 اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔ المآئدہ
55 (مسلمانو) تمہارے یارومددگار تو اللہ، اس کے رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو اس طرح نماز قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے ہیں کہ وہ (دل سے) اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ المآئدہ
56 اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اور ایمان والوں کو دوست بنائے تو (وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے اور) اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے۔ المآئدہ
57 اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں جو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یارومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔ المآئدہ
58 اور جب تم نماز کے لیے (لوگوں کو) پکارتے ہو تو وہ اس (پکار) کو مذاق اور کھیل کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سب (حرکتیں) اس وجہ سے ہیں کہ ان لوگوں کو عقل نہیں ہے۔ المآئدہ
59 تم (ان سے) کہو کہ : اے اہل کتاب ! تمہیں اس کے سوا ہماری کون سی بات بری لگتی ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کلام ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو پہلے اتارا گیا تھا اس پر ایمان لے آئے ہیں، جبکہ تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں؟ المآئدہ
60 (اے پیغمبر ان سے) کہو کہ : کیا میں تمہیں بتاؤں کہ (جس بات کو تم برا سمجھ رہے ہو) اس سے زیادہ برے انجام والے کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پھٹکار ڈالی، جن پر اپنا غضب نازل کیا، جن میں سے لوگوں کو بندر اور سور بنایا، اور جنہوں نے شیطان کی پرستش کی، وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا بھی بدترین ہے اور وہ سیدھے راستے سے بھی بہت بھٹکے ہوئے ہیں۔ المآئدہ
61 اور جب یہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، حالانکہ یہ کفر لے کر ہی آئے تھے، اور اسی کفر کو لے کر باہ نکلے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ کیا کچھ چھپاتے رہے ہیں۔ المآئدہ
62 اور ان میں سے بہت سوں کو تم دیکھو گے کہ وہ گناہ، ظلم اور حرام خوری میں لپک لپک کر آگے بڑھتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ جو حرکتیں یہ کرتے ہیں وہ نہایت بری ہیں۔ المآئدہ
63 ان کے مشائخ اور علماء ان کو گناہ کی باتیں کہنے اور حرام کھانے سے آخرت کیوں منع نہیں کرتے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ طرز عمل نہایت برا ہے المآئدہ
64 اور یہودی کہتے ہیں کہ : اللہ کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں (٤٦) ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں اور جو بات انہوں نے کہی ہے اس کی وجہ سے ان پر لعنت الگ پڑی ہے، ورنہ اللہ کے دونوں ہاتھ پوری طرح کشادہ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور (اے پیغمبر) جو وحی تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لیے عداوت اور بغض پیدا کردیا ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے (٤٧) اور یہ زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، جبکہ اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ المآئدہ
65 اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ضرور ان کی برائیاں معاف کردیتے، اور انہیں ضرور آرام و راحت کے باغات میں داخل کرتے۔ المآئدہ
66 اور اگر وہ تورات اور انجیل اور جو کتاب (اب) ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پابندی کرتے تو وہ اپنے اوپر اور اپنے پاؤں کے نیچے ہر طرف سے (اللہ کا رزق) کھاتے۔ (اگرچہ) ان میں ایک جماعت راہ راست پر چلنے والی بھی ہے، مگر ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہی ہیں کہ ان کے اعمال خراب ہیں۔ المآئدہ
67 اے رسول ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ( اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا۔ یقین رکھو کہ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ المآئدہ
68 کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل پر اور جو (کتاب) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس (اب) بھیجی گئی ہے اس کی پوری پابندی نہیں کرو گے، تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہوگی جس پر تم کھڑے ہوسکو۔ اور (اے رسول) جو وحی اپنے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، لہذا تم ان کافر لوگوں پر افسوس مت کرنا۔ المآئدہ
69 حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی یا نصرانی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔ (٤٨) المآئدہ
70 ہم نے بنو اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ان کے پاس رسول بھیجے تھے، جب کوئی رسول ان کے پاس کوئی ایسی بات لے کر آتا جس کو ان کا دل نہیں چاہتا تھا تو کچھ (رسولوں) کو انہوں نے جھٹلایا اور کچھ کو قتل کرتے رہے۔ المآئدہ
71 اور وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہیں ہوگی، اس لیے اندھے بہرے بن گئے، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی تو ان میں سے بہت سے پھر اندھے بہرے بن گئے، اور اللہ ان کے تمام اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔ المآئدہ
72 وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح نے تو یہ کہا تھا کہ : اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ یقین جا نو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور جو لوگ (یہ) ظلم کرتے ہیں ان کو کسی قسم کے یارومددگار میسر نہیں آئیں گے۔ المآئدہ
73 وہ لوگ (بھی) یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ : اللہ تین میں کا تیسرا ہے (٤٩) حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر یہ لوگ اپنی اس بات سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے ( ایسے) کفر کا ارتکاب کیا ہے، ان کو دردناک عذاب پکڑ کر رہے گا۔ المآئدہ
74 کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے، اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے؟ حالانکہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
75 مسیح ابن مریم تو ایک رسول تھے، اس سے زیاد کچھ نہیں، ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی ماں صدیقہ تھیں۔ یہ دونوں کھانا کھاتے تھے (٥٠) دیکھو ! ہم ان کے سامنے کس طرح کھول کھول کر نشانیاں واضح کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ ان کو اوندھے منہ کہاں لے جایا جارہا ہے۔ (٥١) المآئدہ
76 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : کیا تم اللہ کے سوا یسی مخلوق کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتی ہے اور نہ فائدہ پہنچانے کی (٥٢) جبکہ اللہ ہر بات کو سننے والا، ہر چیز کو جاننے والا ہے ؟ المآئدہ
77 (اور ان سے یہ بھی کہو کہ) اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو (٥٣) اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔ المآئدہ
78 بنو اسرائیل کے جو لوگ کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی تھی (٥٤) یہ سب اس لیے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی تھی، اور وہ حد سے گزر جایا کرتے تھے۔ المآئدہ
79 وہ جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔ المآئدہ
80 تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے (بت پرست) کافروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے (٥٥) یقینا جو کچھ انہوں نے اپنے حق میں اپنے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے، کیونکہ (ان کی وجہ سے) اللہ ان سے ناراض ہوگیا ہے، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ المآئدہ
81 اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبی پر اور جو کلام ان پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے تو ان (بت پرستوں) کو دوست نہ بناتے، لیکن (بات یہ ہے کہ) ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو نافرمان ہیں۔ المآئدہ
82 تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔ اور تم یہ بات بھی ضرور محسوس کرلو گے کہ (غیر مسلموں میں) مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نصرانی کہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں بہت سے علم دوست عالم اور بہت سے تارک الدنیا درویش ہیں (٥٦) نیز یہ وجہ بھی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔ المآئدہ
83 اور جب یہ لوگ وہ کلام سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو چونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہوتا ہے، اس لیے تم ان کی آنکھوں کو دیکھو گے کہ وہ آنسوؤں سے بہہ رہی ہیں۔ (٥٧) (اور) وہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں، لہذا گواہی دینے والوں کے ساتھ ہمارا نام بھی لکھ لیجیے۔ المآئدہ
84 اور ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس آگیا ہے اس پر آخر کیوں ایمان نہ لائیں، اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں میں شمار کرے گا؟ المآئدہ
85 چنانچہ ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ ان کو وہ باغات دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی نیکی کرنے والوں کا صلہ ہے المآئدہ
86 اور جن لوگوں نے کفر اپنایا ہے اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے وہ دوزخ والے لوگ ہیں۔ المآئدہ
87 اے ایمان والو ! اللہ نے تمہارے لیے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار دنہ دو، اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقین جانو کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (٥٨)۔ المآئدہ
88 اور اللہ نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے حلال پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور جس اللہ پر تم ایمان رکھتے ہو اس سے ڈرتے رہو۔ المآئدہ
89 اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری پکڑ نہیں کرے گا (٥٩) لیکن جو قسمیں تم نے پختگی کے ساتھ کھائی ہوں، (٦٠) ان پر تمہاری پکڑ کرے گا۔ چنانچہ اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا ان کو کپڑے دو، یا ایک غلام آزاد کرو۔ ہاں اگر کسی کے پاس (ان چیزوں میں سے) کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم نے کوئی قسم کھالی ہو (اور اسے توڑ دیا ہو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ (٦١) اسی طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے سامنے واضح کرتا ہے، تاکہ تم شکر ادا کرو۔ المآئدہ
90 اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے (٦٢) یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ المآئدہ
91 شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے؟ المآئدہ
92 اور اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور (نافرمانی سے) بچتے رہو۔ اور اگر تم (اس حکم سے) منہ موڑو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے (اللہ کے حکم کی) تبلیغ کردیں۔ المآئدہ
93 جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، اور نیکی پر کار بند رہے ہیں، انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا ہے، اس کی وجہ سے ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، (٦٣) بشرطیکہ وہ آئندہ ان گناہوں سے بچتے رہیں، اور ایمان رکھیں اور نیک عمل کرتے رہیں، پھر (جن چیزوں سے آئندہ روکا جائے ان سے) بچا کریں، اور ایمان پر قائم رہیں اور اس کے بعد بھی تقوی اور احسان کو اپنائیں۔ (٦٤) اللہ احسان پر عمل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ المآئدہ
94 اے ایمان والو ! اللہ تمہیں شکار کے کچھ جانوروں کے ذریعے ضرور آزمائے گا جو تمہارے ہاتھوں اور تمہارے نیزوں کی زد میں آجائیں گے، (٦٥) تاکہ وہ یہ جان لے کہ کون ہے جو اسے دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرتا ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے گا وہ دردناک سزا کا مستحق ہوگا۔ المآئدہ
95 اے ایمان والو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو کسی شکار کو قتل نہ کرو۔ اور اگر تم میں سے کوئی اسے جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ دینا واجب ہوگا (جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ) جو جانور اس نے قتل کیا ہے، اس جانور کے برابر چوپایوں میں سے کسی جانور کو جس کا فیصلہ تم میں سے دو دیانت دار تجربہ کار آدمی کریں گے، کعبہ پہنچا کر قربان کیا جائے، یا (اس کی قیمت کا) کفارہ مسکینوں کا کھانا کھلا کر ادا کیا جائے، یا اس کے برابر روزے رکھے جائیں، (٦٦) تاکہ وہ شخص اپنے کیے کا بدلہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ نے اسے معاف کردیا، اور جو شخص دوبارہ ایسا کرے گا تو اللہ اس سے بدلہ لے گا، اور اللہ اقتدار اور انتظام کا مالک ہے۔ المآئدہ
96 تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے، تاکہ وہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنے، لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب کو جمع کر کے لے جایا جائے گا۔ المآئدہ
97 اللہ نے کعبے کو جو بڑی حرمت والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام امن کا ذریعہ بنا دیا ہے، نیز حرمت والے مہینے، نذرانے کے جانوروں اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے پٹوں کو بھی (امن کا ذریعہ بنایا ہے) (٦٧)۔ یہ سب اس لیے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے، اور اللہ ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔ المآئدہ
98 یہ بات بھی جان رکھو کہ اللہ عذاب دینے میں سخت ہے، اور یہ بھی کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
99 رسول پر سوائے تبلیغ کرنے کے کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔ اور جو کچھ تم کھلے بندوں کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو، اللہ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔ المآئدہ
100 (اے رسول ! لوگوں سے) کہہ دو کہ ناپاک اور پاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں، چاہے تمہیں ناپاک چیزوں کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ (٦٨) لہذا اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ المآئدہ
101 اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (٦٩) (البتہ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔ المآئدہ
102 تم سے پہلے ایک قوم نے اس قسم کے سوالات کیے تھے، پھر ان (کے جو جوابات دیے گئے ان) سے منکر ہوگئے۔ (٧٠) المآئدہ
103 اللہ نے کسی جانور کو نہ بحیرہ بنانا طے کیا ہے، نہ سائبہ، نہ وصیلہ اور نہ حامی (٧١) لیکن جن لوگوں نے کفر اپنایا ہوا ہے وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگوں کو صحیح سمجھ نہیں ہے۔ المآئدہ
104 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کلام نازل کیا ہے، اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے جس (دین پر) اپنے باپ دادوں کو پایا ہے، ہمارے لیے وہی کافی ہے۔ بھلا اگر ان کے باپ دادے ایسے ہوں کہ نہ ان کے پاس کوئی علم ہو، اور نہ کوئی ہدایت تو کیا پھر بھی (یہ انہی کے پیچھے چلتے رہیں گے؟) المآئدہ
105 اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (٧٢) اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ المآئدہ
106 اے ایمان والو ! (٧٣) جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں۔ پھر اگر تمہیں کوئی شک پڑجائے تو ان دو گواہوں کو نماز کے بعد روک سکتے ہو، اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کو ہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے۔ المآئدہ
107 پھر بعد میں اگر یہ پتہ چلے کہ انہوں نے (جھوٹ بول کر) اپنے اوپر گناہ کا بوجھ اٹھا لیا ہے تو ان لوگوں میں سے دو آدمی ان کی جگہ (گواہی کے لیے) کھڑے ہوجائیں جن کے خلاف ان پہلے دو آدمیوں نے گناہ اپنے سر لیا تھا (٧٤) اور وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان پہلے دو آدمیوں کی گواہی کے مقابلے میں زیادہ سچی ہے، اور ہم نے (اس گواہی میں) کوئی زیادتی نہیں کی ہے، ورنہ ہم ظالموں میں شمار ہوں گے۔ المآئدہ
108 اس طریقے میں اس بات کی زیادہ امید ہے کہ لوگ (شروع ہی میں) ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا اس بات سے ڈریں کہ ( جھوٹی گواہی کی صورت میں) ان کی قسموں کے بعد لوٹا کر دوسری قسمیں لی جائیں گی (جو ہماری تردید کردیں گے) اور اللہ سے ڈرو، اور (جو کچھ اس کی طرف سے کہا گیا ہے اسے قبول کرنے کی نیت سے) سنو۔ اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ المآئدہ
109 وہ دن یاد کرو جب اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا، اور کہے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں، پوشیدہ باتوں کا تمام تر علم تو آپ ہی کے پاس ہے۔ (٧٥) المآئدہ
110 (یہ واقعہ اس دن ہوگا) جب اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ابن مریم میرا انعام یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا، جب میں نے روح القدس کے ذریعے تمہاری مدد کی تھی۔ (٧٦) تم لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتے تھے، اور بڑی عمر میں بھی۔ اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی تھی، اور جب تم میرے حکم سے گارا لے کر اس سے پرندے کی جیسی شکل بناتے تھے، پھر اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے (سچ مچ کا) پرندہ بن جاتا تھا، اور تم مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کردیتے تھے، اور جب تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ) نکال کھڑا کرتے تھے، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت تم سے دور رکھا جب تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔ المآئدہ
111 جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ : تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ، تو انہوں نے کہا : ہم ایمان لے آئے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔ المآئدہ
112 (اور ان کے اس واقعے کا بھی ذکر سنو) جب حواریوں نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا آپ کا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (کھانے کا) ایک خوان اتارے؟ عیسیٰ نے کہا : اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (٧٧) المآئدہ
113 انہوں نے کہا : ہم چاہتے ہیں کہ اس خوان سے کھانا کھائیں، اور اس کے ذریعے ہمارے دل پوری طرح مطمئن ہوجائیں، اور ہمیں (پہلے سے زیادہ یقین کے ساتھ) یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے ہم سے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے، اور ہم اس پر گواہی دینے والوں میں شامل ہوجائیں۔ المآئدہ
114 (چنانچہ) عیسیٰ ابن مریم نے درخواست کی کہ : یا اللہ ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار دیجیے جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ایک خوشی کا موقع بن جائے، اور آپ کی طرف سے ایک نشانی ہو۔ اور ہمیں یہ نعمت عطا فرما ہی دیجیے، اور آپ سب سے بہتر عطا فرمانے والے ہیں۔ المآئدہ
115 اللہ نے کہا کہ : میں بیشک تم پر وہ خوان اتار دوں گا، لیکن اس کے بعد تم میں سے جو شخص بھی کفر کرے گا اس کو میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا جہان کے کسی بھی شخص کو نہیں دوں گا۔ (٧٨) المآئدہ
116 اور (اس وقت کا بھی ذکر سنو) جب اللہ کہے گا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو معبود بناؤ؟ (٧٩) وہ کہیں گے : ہم تو آپ کی ذات کو (شرک سے) پاک سمجھتے ہیں۔ میری مجال نہیں تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کو یقینا معلوم ہوجاتا۔ آپ وہ باتیں جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیِ اور میں اور آپ کی پوشیدہ باتوں کو نہیں جانتا۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے۔ المآئدہ
117 میں نے ان لوگوں سے اس کے س وا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، اور وہ یہ کہ : اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ اور جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، میں ان کے حالات سے واقف رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگراں تھے، اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں۔ المآئدہ
118 اگر آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں ہی، اور اگر آپ انہیں معاف فرمادیں تو یقینا آپ کا اقتدار بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔ المآئدہ
119 اللہ کہے گا کہ : یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا۔ ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہے اور یہ اس سے خوش ہیں۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔ المآئدہ
120 تمام آسمانوں اور زمین میں اور ان میں جو کچھ ہے اس سب کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الانعام
1 تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور اندھیریاں اور روشنی بنائیَ پھر بھی جن لوگوں کفر اپنا لیا ہے وہ دوسروں کو (خدائی میں) اپنے پروردگار کے برابر قرار دے رہے ہیں۔ الانعام
2 وہی ذات ہے جس نے تم کو گیلی مٹی سے پیدا کیا، پھر (تمہاری زندگی کی) ایک میعاد مقرر کردی، اور (دوبارہ زندہ ہونے کی) ایک متعین میعاد اسی کے پاس ہے (١) پھر بھی تم شک میں پڑے ہوئے ہو۔ الانعام
3 اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے، اور زمین میں بھی۔ وہ تمہارے چھپے ہوئے بھید بھی جانتا ہے اور کھلے ہوئے حالات بھی، اور جو کچھ کمائی تم کر رہے ہو، اس سے بھی واقف ہے۔ الانعام
4 اور (ان کافروں کا حال یہ ہے کہ) ان کے پاس ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جب بھی کوئی نشانی آتی ہے، تو یہ لوگ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ الانعام
5 چنانچہ جب حق ان کے پاس آگیا تو ان لوگوں نے اسے جھٹلا دیا۔ نتیجہ یہ کہ جس بات کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں، جلد ہی ان کو اس کی خبریں پہنچ جائیں گی۔ (٢) الانعام
6 کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو تمہیں نہیں دیا۔ ہم نے ان پر آسمان سے خوب بارشیں بھیجیں، اور ہم نے دریاؤں کو مقرر کردیا کہ وہ ان کے نیچے بہتے رہیں۔ لیکن پھر ان کے گناہوں کی وجہ سے ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ اور ان کے بعد دوسری نسلیں پیدا کیں۔ الانعام
7 اور (ان کافروں کا حال یہ ہے کہ) اگر ہم تم پر کوئی ایسی کتاب نازل کردیتے جو کاغذ پر لکھی ہوئی ہوتی، پھر یہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ پھر بھی یہی کہتے کہ یہ کھلے ہوئے جادو کے سوا کچھ نہیں۔ الانعام
8 اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ : اس (پیغمبر) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ حالانکہ اگر ہم کوئی فرشتہ اتار دیتے تو سارا کام ہی تمام ہوجاتا (٣) پھر ان کو کوئی مہلت نہ دی جاتی الانعام
9 اور اگر ہم فرشتے ہی کو پیغمبر بناتے، تب بھی اسے کسی مرد ہی (کی شکل میں) بناتے، اور ان کو پھر ہم اسی شب ہے میں ڈال دیتے جس میں اب مبتلا ہیں۔ (٤) الانعام
10 اور (اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے جن لوگوں نے مذاق اڑایا تھا ان کو اسی چیز نے آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ الانعام
11 (ان کافروں سے) کہو کہ : ذرا زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ (پیغمبروں کو) جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ (٥) الانعام
12 (ان سے) پوچھو کہ : آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کی ملکیت ہے؟ (پھر اگر وہ جواب نہ دیں تو خود ہی) کہہ دو کہ : اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ اس نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے۔ (اس لیے توبہ کرلو تو پچھلے سارے گناہ معاف کردے گا، ورنہ) وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، (لیکن) جن لوگوں نے اپنی جانوں کے لیے گھاٹے کا سودا کر رکھا ہے وہ (اس حقیقت پر) ایمان نہیں لاتے۔ الانعام
13 اور رات اور دن میں جتنی مخلوقات آرام پاتی ہیں، سب اسی کے قبضے میں ہیں (٦) اور وہ ہر بات کو سنتا، ہر چیز کو جانتا ہے۔ الانعام
14 کہہ دو کہ : کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رکھوالا بناؤں؟ (اس اللہ کو چھوڑ کر) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جو سب کو کھلاتا ہے، کسی سے کھاتا نہیں؟ کہہ دو کہ : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ فرمانبرداری میں سب لوگوں سے پہل کرنے والا میں بنوں۔ اور تم مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔ الانعام
15 کہہ دو کہ : اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف ہے۔ الانعام
16 جس کسی شخص سے اس دن وہ عذاب ہٹا دیا گیا، اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا، اور یہی واضح کامیابی ہے۔ الانعام
17 اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو خود اس کے سوا اسے دور کرنے والا کوئی نہیں، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہی ہے۔ الانعام
18 اور وہ اپنے بندوں کے اوپر مکمل اقتدار رکھتا ہے، اور وہ حکیم بھی ہے، پوری طرح باخبر بھی الانعام
19 کہو : کون سی چیز ایسی ہے جو (کسی بات کی) گواہی دینے کے لیے سب سے اعلی درجے کی ہو ؟ کہو : اللہ (اور وہی) میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اور مجھ پر یہ قرآن وحی کے طور پر اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے میں تمہیں ڈراؤں، اور ان سب کو بھی جنہیں یہ قرآن پہنچے۔ کیا سچ مچ تم یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دو کہ : میں تو ایسی گواہی نہیں دوں گا۔ کہہ دو کہ : وہ تو صرف ایک خدا ہے اور جن جن چیزوں کو تم اس کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔ الانعام
20 جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان کو (یعنی خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) اس طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (پھر بھی) جن لوگوں نے اپنی جانوں کے لیے گھاٹے کا سودا کر رکھا ہے، وہ اہمان نہیں لاتے۔ الانعام
21 اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے، یا اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے؟ یقین رکھو کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاسکتے۔ الانعام
22 اس دن (کو یاد رکھو) جب ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، پھر جن لوگوں نے شرک کیا ہوگا ان سے پوچھیں گے کہ : کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کے بارے میں تم یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ خدائی میں اللہ کے شریک ہیں؟ الانعام
23 اس وقت ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہوگا، سوائے اس کے کہ وہ کہیں گے : اللہ کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم تو مشرک نہیں تھے۔ (٧) الانعام
24 دیکھو یہ اپنے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول جائیں گے، اور جو (معبود) انہوں نے جھوٹ موٹ تراش رکھے تھے، ان کا انہیں کوئی سراغ نہیں مل سکے گا۔ الانعام
25 اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں، مگر (چونکہ یہ سننا طلب حق کے بجائے ضد پر اڑے رہنے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے) ہم نے ان کے دلوں پر ایسے پردے ڈال دییے ہیں کہ وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں، اور ان کے کانوں میں بہرا پن پیدا کردیا ہے۔ اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کے لیے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پچھلے سلوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں۔ الانعام
26 اور یہ دوسروں کو بھی اس (قرآن) سے روکتے ہیں، اور خود بھیا س سے دور رہتے ہیں۔ اور (اس طرح) وہ اپنی جانوں کے سوا کسی اور کو ہلاکت میں نہیں ڈال رہے، لیکن ان کو احساس نہیں ہے۔ الانعام
27 اور (بڑا ہولناک نظارہ ہوگا) اگر تم وہ وقت دیکھو جب ان کو دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا، اور یہ کہیں گے : اے کاش ! ہمیں واپس (دنیا میں) بھیج دیا جائے، تاکہ اس بار ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ہمارا شمار مومنوں میں ہوجائے۔ الانعام
28 حالانکہ (ان کی یہ آرزو بھی سچی نہ ہوگی) بلکہ دراصل وہ چیز (یعنی آخرت) ان کے سامنے کھل کر ااچکی ہوگی جسے وہ پہلے چھپایا کرتے تھے (اس لیے مجبورا یہ دعوی کریں گے) ورنہ اگر ان کو واقعی واپس بھیجا جائے تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے، اور یقین جانو یہ پکے جھوٹے ہیں۔ الانعام
29 یہ تو یوں کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور ہم مر کر دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے۔ الانعام
30 اور اگر تم وہ وقت دیکھو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ وہ کہے گا : کیا یہ (دوسری زندگی) حق نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے : بیشک ہمارے رب کی قسم ! اللہ کہے گا : تو پھر چکھو عذاب کا مزہ، کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے۔ الانعام
31 حقیقت یہ ہے کہ بڑے خسارے میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے جا ملنے کو جھٹلایا ہے، یہاں تک کہ جب قیامت اچانک ان کے سامنے آکھڑی ہوگی تو وہ کہیں گے : ہائے افسوس ! کہ ہم نے اس (قیامت) کے بارے میں بڑی کوتاہی کی۔ اور وہ (اس وقت) اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ (لہذا) خبردار رہو کہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ لوگ اٹھا رہے ہیں۔ الانعام
32 اور دنیوی زندگی تو ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں (٨) اور یقن جانو کہ جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے آخرت والا گھر کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تو کیا اتنی سی بات تمہاری عقل میں نہیں آتی؟ الانعام
33 (اے رسول) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں (٩) الانعام
34 اور حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا ہے۔ پھر جس طرح انہیں جھٹلایا گیا اور تکلیفیں دی گئیں، اس سب پر انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو پہنچ گئی۔ اور کوئی نہیں ہے جو اللہ کی باتوں کو بدل سکے اور (پچھلے) رسولوں کے کچھ واقعات آپ تک پہنچ ہی چکے ہیں۔ الانعام
35 اور اگر ان لوگوں کا منہ موڑے رہنا تمہیں بہت بھاری معلوم ہورہا ہے تو اگر تم زمین کے اندر (جانے کے لیے) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے کے لیے) کوئی سیڑھی ڈھونڈ سکتے ہو تو ان کے پاس (ان کا منہ مانگا یہ) معجزہ لے آؤ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ لہذا تم نادانوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔ (١٠) الانعام
36 بات تو وہی لوگ مان سکتے ہیں جو (حق کے طالب بن کر) سنیں۔ جہاں تک ان مردوں کا تعلق ہے ان کو تو اللہ ہی قبروں سے اٹھائے گا، پھر یہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ الانعام
37 یہ لوگ کہتے ہیں کہ (اگر یہ نبی ہیں تو) ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ تم (ان سے) کہو کہ اللہ بیشک اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی نازل کردے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ ( اس کا انجام) نہیں جانتے۔ (١١) الانعام
38 اور زمین میں جتنے جانور چلتے ہیں، اور جتنے پرندے اپنے پروں سے اڑتے ہیں، وہ سب مخلوقات کی تم جیسی ہی اصناف ہیں۔ ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر ان سب کو جمع کر کے ان کے پروردگار کی طرف لے جایا جائے گا۔ (١٢) الانعام
39 اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے وہ اندھیروں میں بھٹکتے بھٹکتے بہرے اور گونگے ہوچکے ہیں۔ (١٣) اللہ جسے چاہتا ہے، (اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے) گمراہی میں ڈال دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ الانعام
40 (ان کافروں) سے کہو : اگر تم سچے ہو تو ذرا یہ بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے، یا تم پر قیامت ٹوٹ پڑے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ الانعام
41 بلکہ اسی کو پکارو گے، پھر جس پر یشانی کے لیے تم نے اسے پکارا ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے دور کردے گا، اور جن (دیوتاؤں) کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو (اس وقت) ان کو بھول جاؤ گے۔ (١٤) الانعام
42 اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کے پاس پیغمبر بھیجے، پھر ہم نے (ان کی نافرمانی کی بنا پر) انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں گرفتار کیا، تاکہ وہ عجز و نیاز کا شیوہ اپنائیں۔ الانعام
43 پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تھی، اس وقت وہ عاجزی کا رویہ اختیار کرتے؟ بلکہ ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، شیطان نے انہیں یہ سجھایا کہ وہی بڑے شاندار کام ہیں۔ الانعام
44 پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے (١٥) یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔ الانعام
45 اس طرح جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی، اور تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ الانعام
46 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے، تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لاکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔ الانعام
47 کہو : ذرا یہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تمہارے پاس اچانک آئے یا اعلان کرکے، دونوں صورتوں میں کیا ظالموں کے سوا کسی اور کو ہلاک کیا جائے گا؟ (١٦) الانعام
48 ہم پیغمبروں کو اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ (نیکیوں پر) خوشخبری سنائی (اور نافرمانی پر اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں۔ چنانچہ جو لوگ ایمان لے آئے اور اپنی اصلاح کرلی، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، اور نہ و غمگین ہوں گے۔ الانعام
49 اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچ کر رہے گا، کیونکہ وہ نافرمانی کے عادی تھے۔ الانعام
50 (اے پیغمبر !) ان سے کہو : میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا (پورا) علم رکھتا ہوں، اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں (١٧) میں تو صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔ کہو کہ : کیا ایک اندھا اور دوسرا بینائی رکھنے والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ پھر کیا تم غور نہیں کرتے؟ الانعام
51 اور (اے پیغمبر) تم اس وحی کے ذریعے ان لوگوں کو خبردار کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ ان کو ان کے پروردگار کے پاس ایسی حالت میں جمع کر کے لایا جائے گا کہ اس کے سوا نہ ان کا کوئی یارومددگار ہوگا، نہ کوئی سفارشی (١٨) تاکہ وہ لوگ تقوی اختیار کرلیں۔ الانعام
52 اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پکارتے رہتے ہیں۔ (١٩) ان کے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اور تمہارے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے جس کی وجہ سے تم انہیں نکال باہر کرو، اور ظالموں میں شامل ہوجاؤ۔ الانعام
53 اسی طرح ہم نے کچھ لوگوں کو کچھ دوسروں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے (٢٠) تاکہ وہ (ان کے بارے میں) یہ کہیں کہ : کیا یہ ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے ہم سب کو چھوڑ کر احسان کرنے کے لیے چنا ہے؟ (٢١) کیا (جو کافر یہ بات کہہ رہے ہیں ان کے خیال میں) اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو دوسروں سے زیادہ نہیں جانتا؟ الانعام
54 اور جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہو : سلامتی ہو تم پر ! تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت کا یہ معاملہ کرنا لازم کرلیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی سے کوئی برا کام کر بیٹھے، پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ الانعام
55 اور ہم اسی طرح نشانیاں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں (تاکہ سیدھا راستہ بھی واضح ہوجائے) اور تاکہ مجرموں کا راستہ بھی کھل کر سامنے آجائے الانعام
56 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : تم اللہ کے سوا جن (جھوٹے خداؤں) کو پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کہو کہ : میں تمہاری خواہشات کے پیچھے نہیں چل سکتا۔ اگر میں ایسا کروں تو گمراہ ہوں گا، اور میرا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوگا۔ الانعام
57 کہو کہ : مجھے اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل مل چکی ہے جس پر میں قائم ہوں، اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے، جس چیز کے جلدی آنے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے پاس موجود نہیں ہے۔ (٢٢) حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ وہ حق بات بیان کردیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ الانعام
58 کہو کہ : جس چیز کی تم جلدی مچا رہے ہو، اگر وہ میرے پاس ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ الانعام
59 اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جس کا اسے علم نہ ہو، اور زمین کی اندھیریوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں ہے جو ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔ الانعام
60 اور وہی ہے جو رات کے وقت (نیند میں) تمہاری روح (ایک حد تک) قبض کرلیتا ہے اور دن بھر میں تم نے جو کچھ کیا ہوتا ہے، اسے خوب جانتا ہے، پھر اس (نئے دن) میں تمہیں زندگی دیتا ہے، تاکہ (تمہاری عمر کی) مقررہ مدت پوری ہوجائے۔ پھر اسی کے پاس تم کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کیا کرتے تھے الانعام
61 وہی اپنے بندوں پر مکمل اقتدار رکھتا ہے اور تمہارے لیے نگہبان (فرشتے) بھیجتا ہے۔ (٢٣) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کو پورا پورا وصول کرلیتے ہیں، اور وہ ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے۔ الانعام
62 پھر ان سب کو اللہ کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جو ان کا مولائے برحق ہے۔ یاد رکھو ! حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ سب سے زیادہ جلدی حساب لینے والا ہے۔ الانعام
63 کہو : خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے اس وقت کون تمہیں نجات دیتا ہے جب تم اسے گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارتے ہو، (اور یہ کہتے ہو کہ) اگر اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیں گے ؟ الانعام
64 کہو : اللہ ہی تمہیں اس مصیبت سے بھی بچاتا ہے اور ہر دوسری تکلیف سے بھی، پھر بھی تم شرک کرتے ہو؟ الانعام
65 کہو کہ : وہ اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (نکال دے) یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھڑا دے، اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ! ہم کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں واضح کر رہے ہیں تاکہ یہ کچھ سمجھ سے کام لے لیں۔ الانعام
66 اور (اے پیغبر) تمہاری قوم نے اس (قرآن) کو جھٹلایا ہے، حالانکہ وہ بالکل حق ہے۔ تم کہہ دو کہ : مجھ کو تمہاری ذمہ داری نہیں سونپی گئی (٢٤) الانعام
67 ہر واقعے کا ایک وقت مقرر ہے، اور جلد ہی تمہیں سب معلوم ہوجائے گا۔ الانعام
68 اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کو برا بھلا کہنے میں لگے ہوئے ہیں، تو ان سے اس وقت تک کے لیے الگ ہوجاؤ جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو الانعام
69 ان کے کھاتے میں جو اعمال ہیں ان کی کوئی ذمہ داری پرہیزگاروں پر عائد نہیں ہوتی۔ البتہ نصیحت کردینا ان کا کام ہے، شاید وہ بھی (ایسی باتوں سے) پرہیز کرنے لگیں۔ الانعام
70 اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے (٢٥) اور جن کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، اور اس (قرآن) کے ذریعے (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے سبب اس طرح گرفتار ہوجائے کہ اللہ ( کے عذاب) سے بچانے کے لیے اللہ کو چھوڑ کر نہ کوئی اس کا یارومددگار بن سکے نہ سفارشی، اور اگر وہ (اپنی رہائی کے لیے) ہر طرح کا فدیہ بھی پیش کرنا چاہے تو اس سے وہ قبول نہ کیا جائے۔ (چنانچہ) یہی (دین کو کھیل تماشا بنانے والے) وہ لوگ ہیں جو اپنے کیے کی بدولت گرفتار ہوگئے ہیں۔ چونکہ انہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اس لیے ان کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور ایک دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔ الانعام
71 (اے پیغمبر) ان سے کہو : کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پکاریں جو ہمیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں، نہ نقصان اور جب اللہ ہمیں ہدایت دے چکا ہے تو کیا اس کے بعد بھی ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ (اور) اس شخص کی طرح (ہوجائیں) جسے شیطان بہکا کر صحرا میں لے گئے ہوں، اور وہ حیرانی کے عالم میں بھٹکتا پھرتا ہو، اس کے کچھ ساتھی ہوں جو اسے ٹھیک راستے کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آجاؤَ کہو کہ : اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی صحیح معنی میں ہدایت ہے، اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے آگے جھک جائیں۔ الانعام
72 اور یہ (حکم دیا گیا ہے) کہ : نماز قائم کرو، اور اس (کی نافرمانی) سے ڈرتے رہو، اور وہی ہے جس کی طرف تم سب کو اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا۔ الانعام
73 اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، (٢٦) اور جس دن وہ (روز قیامت سے) کہے گا کہ : تو ہوجا تو وہ ہوجائے گا۔ اس کا قول برحق ہے۔ اور جس دن صورت پھونکا جائے گا، اس دن بادشاہی اسی کی ہوگی (٢٧) وہ غائب و حاضر ہر چیز کو جاننے والا ہے، اور وہی بڑی حکمت والا، پوری طرح باخبر ہے الانعام
74 اور (اس وقت کا ذکر سنو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کہ : کیا آپ بتوں کو خدا بنائے بیٹھے ہیں؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اور آپ کی قوم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ الانعام
75 اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے و الوں میں شامل ہوں۔ الانعام
76 چنانچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارا دیکھا۔ کہنے لگے : یہ میرا رب ہے (٢٨) پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا : میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ الانعام
77 پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ : یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے : اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔ الانعام
78 پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔ الانعام
79 میں نے تو پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ الانعام
80 اور (پھر یہ ہوا کہ) ان کی قوم نے ان سے حجت شروع کردی۔ (٢٩) ابراہیم نے (ان سے) کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو جبکہ اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے ؟ اور جن چیزوں کو تم اللہ کے ساتھ شریک مانتے ہو، میں ان سے نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچا دیں گی) الا یہ کہ میرا پروردگار (مجھے) کچھ (نقصان پہنچانا) چاہے (تو وہ ہر حال میں پہنچے گا) میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر بھی کوئی نصیحت نہیں مانتے؟ الانعام
81 اور جن چیزوں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، میں ان سے کیسے ڈر سکتا ہوں جبکہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک ماننے سے نہیں ڈرتے جن کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے؟ اب اگر تمہارے پاس کوئی علم ہے تو بتاؤ کہ ہم دو فریقوں میں سے کون بے خوف رہنے کا زیادہ مستحق ہے ؟ الانعام
82 (حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا (٣٠) امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے، اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔ الانعام
83 یہ ہماری وہ کامیاب دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں عطا کی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ بیشک تمہارے رب کی حکمت بھی بڑی ہے، علم بھی کامل ہے۔ الانعام
84 اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو اہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ الانعام
85 اور زکریا، یحی، عیسیٰ اور الیاس کو (بھی ہدایت عطا فرمائی) یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔ الانعام
86 نیز اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط کو بھی۔ اور ان سب کو ہم نے دنیا جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی۔ الانعام
87 اور ان کے باپ دادوں، ان کی اولادوں اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بہت سے لوگوں کو۔ ہم نے ان سب کو منتخب کر کے راہ راست تک پہنچا دیا تھا۔ الانعام
88 یہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے۔ اور اگر وہ شرک کرنے لگتے تو ان کے سارے (نیک) اعمال اکارت ہوجاتے۔ الانعام
89 وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب، حکمت اور نبوت عطا کی تھی۔ (٣١) اب اگر یہ (عرب کے) لوگ اس (نبوت) کا انکار کریں تو (کچھ پروا نہ کرو، کیونکہ) اس کے ماننے کے لیے ہم نے ایسے لوگ مقرر کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں۔ (٣٢) الانعام
90 یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اللہ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔ (مخالفین سے) کہہ دو کہ میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو دنیا جہان کے سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے، اور بس۔ الانعام
91 اور ان (کافر) لوگوں نے جب یہ کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا تو انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی۔ (٣٣) (ان سے) کہو کہ : وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ لے کر آئے تھے، جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، اور جس کو تم نے متفرق کاغذوں کی شکل میں رکھا ہوا ہے۔ (٣٤) جن (میں سے کچھ) کو تم ظاہر کرتے ہو، اور بہت سے حصے چھپا لیتے ہو، اور (جس کے ذریعے) تم کو ان باتوں کی تعلیم دی گئی تھی جو نہ تم جانتے تھے، نہ تمہارے باپ دادا؟ (اے پیغمبر ! تم خود ہی اس سوال کے جواب میں) اتنا کہہ دو کہ : وہ کتاب اللہ نے نازل کی تھی۔ پھر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ یہ اپنی بے ہودہ گفتگو میں مشغول رہ کر دل لگی کرتے رہیں۔ الانعام
92 اور (اسی طرح) یہ بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے، پچھلی آسمانی ہدایات کی تصدیق کرنے والی ہے، تاکہ تم اس کے ذریعے بستیوں کے مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو خبردار کرو۔ اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اور وہ اپنی نماز کی پوری پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ الانعام
93 اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے، اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمے لگاتے تھے، اور اس لئے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرکا رویہ اختیار کرتے تھے۔ الانعام
94 (پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ) تم ہمارے پاس اسی طرح تن تنہا آگئے ہوجیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور جو کچھ ہم نے تمہیں بخشا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور ہمیں تو تمہارے وہ سفارشی کہیں نظر نہیں آرہے جن کے بارے میں تمہارا دعوی تھا کہ وہ تمہارے معاملات طے کرنے میں (ہمارے ساتھ) شریک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمہارے سارے تعلقات ٹوٹ چکے ہیں اور جن (دیوتاؤں) کے بارے میں تمہیں بڑا زعم تھا وہ سب تم سے گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ الانعام
95 بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ جاندار چیزوں کو بے جان چیزوں سے نکال لاتا ہے، اور وہی بے جان چیزوں کو جاندار چیزوں سے نکالنے والا ہے۔ (٣٥) لوگو ! وہ ہے اللہ پھر کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لئے جارہا ہے ؟ (٣٦) الانعام
96 وہی ہے جس کے حکم سے صبح کو پو پھٹتی ہے، اور اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے، اور سورج اور چاند کو ایک حساب کا پابند ! یہ سب کچھ اس ذات کی منصوبہ بندی ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، علم بھی کامل الانعام
97 اور اسی نے تمہارے لیے ستارے بنائے ہیں، تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستے معلوم کرسکو۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کر کے کھول دی ہیں (مگر) ان لوگوں کے لیے جو علم سے کام لیں الانعام
98 وہی ہے جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر ہر شخص کا ایک مستقر ہے، اور ایک امانت رکھنے کی جگہ (٣٧)۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کرکے کھول دی ہیں، (مگر) ان لوگوں کے لیے جو سمجھ سے کام لیں۔ الانعام
99 اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر قسم کی کونپلیں اگائیں۔ ان (کونپلوں) سے ہم نے سبزیاں پیدا کیں جن سے ہم تہہ بر تہہ دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے گابھوں سے پھلوں کے وہ گچھے نکلتے ہیں جو (پھل کے بوجھ سے) جھکے جاتے ہیں، اور ہم نے انگوروں کے باغ اگائے، اور زیتون اور انار۔ جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ (٣٨) جب یہ درخت پھل دیتے ہیں تو ان کے پھلوں اور ان کے پکنے کی کیفیت کو غور سے دیکھو۔ لوگو ! ان سب چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں (مگر) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔ الانعام
100 اور لوگوں نے جنات کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک قرر دے لیا، (٣٩) حالانکہ اللہ نے ہی ان کو پیدا کیا ہے۔ اور مجھ بوجھ کے بغیر اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں۔ (٤٠) حالانکہ اللہ کے بارے میں جو باتیں یہ بناتے ہیں وہ ان سب سے پاک اور بالاوبرتر ہے۔ الانعام
101 وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجود ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کہاں ہوسکتا ہے، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں؟ اسی نے ہر چیز پیدا کی ہے اور وہ ہر ہر چیز کا پورا پورا علم رکھتا ہے۔ الانعام
102 لوگو ! وہ ہے اللہ جو تمہارا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہذا اس کی عبادت کرو۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کرنے والا ہے۔ الانعام
103 نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں، اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس کی ذات اتنی ہی لطیف ہے، اور وہ اتنا ہی باخبر ہے۔ (٤١) الانعام
104 (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کے سامان پہنچ چکے ہیں۔ اب جو شخص آنکھیں کھول کر دیکھے گا، وہ اپنا ہی بھلا کرے گا، اور جو شخص اندھا بن جائے گا، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور مجھے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے۔ (٤٢) الانعام
105 اسی طرح ہم آیتیں مختلف طریقوں سے بار بار واضح کرتے ہیں (تاکہ تم انہیں لوگوں تک پہنچا دو) اور بالآخر یہ لوگ تو یوں کہیں کہ : تم نے کسی سے سیکھا ہے (٤٣) اور جو لوگ علم سے کام لیتے ہیں ان کے لیے ہم حق کو آشکار کردیں۔ الانعام
106 (اے پیغبر) تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے جو وحی بھیجی گئی ہے، تم اسی کی پیروی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور جو لوگ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ان سے بے پروا ہوجاؤ۔ الانعام
107 اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے (٤٤) ہم نے نہ تمہیں ان کی حفاظت پر مقرر کیا ہے اور نہ تم ان کاموں کے ذمہ دار ہو۔ (٤٥) الانعام
108 (مسلمانو) جن (جھوٹے معبودوں) کو یہ لوگ اللہ کے بجائے پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہو، جس کے نتیجے میں یہ لوگ جہالت کے عالم میں حد سے آگے بڑھ کر اللہ کو برا کہنے لگیں۔ (٤٦) (اس دنیا میں تو) ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے عمل کو اس کی نظر میں خوشنما بنا رکھا ہے۔ (٤٧) پھر ان سب کو اپنے پروردگار ہی کے پاس لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کیا کرتے تھے۔ الانعام
109 اور ان لوگوں نے بڑی زور دار قسمیں کھائی ہیں کہ اگر ان کے پاس واقعی کوئی نشانی (یعنی ان کا مطلوب معجزہ) آگئی تو یہ یقینا ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے (ان سے) کہو کہ : ساری نشانیاں اللہ کے قبضے میں ہیں۔ (٤٨) اور (مسلمانو) تمہیں کیا پتہ کہ اگر وہ (معجزے) آبھی گئے تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ الانعام
110 جس طرح یہ لوگ پہلی بار (قرآن جیسے معجزے پر) ایمان نہیں لائے، ہم بھی (ان کی ضد کی پاداش میں) ان کے دلوں اور نگاہوں کا رخ پھیر دیتے ہیں، اور ان کو اس حالت میں چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں۔ الانعام
111 اور اگر بالفرض ہم ان کے پاس فرشتے بھیج دیتے، اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے، اور (ان کی مانگی ہوئی) ہر چیز ہم کھلی آنکھوں ان کے سامنے لاکر کے رکھ دیتے (٤٩) تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے، الا یہ کہ اللہ ہی چاہتا (کہ انہیں زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو بات دوسری تھی، مگر ایسا ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر) لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (٥٠) الانعام
112 اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٥١) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔ الانعام
113 اور (وہ انبیاء کے دشمن چکنی چپڑی باتیں اس لیے بناتے تھے) تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے دل ان باتوں کی طرف خوب مائل ہوجائیں اور وہ ان میں مگن رہیں، اور ساری وہ حرکتیں کریں جو وہ کرنے والے تھے۔ الانعام
114 (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو فیصل بناؤں، حالانکہ اسی نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کرکے بھیجی ہے جس میں سارے (متنازعہ) معاملات کی تفصیل موجود ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ یقین سے جانتے ہیں کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر نازل ہوئی ہے۔ لہذا تم شک کرنے والوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔ الانعام
115 اور تمہارے رب کا کلام سچائی اور انصاف میں کامل ہے۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔ الانعام
116 اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر ڈالیں گے۔ وہ تو وہم و گمان کے سوا کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے، اور ان کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی اندازے لگاتے رہیں۔ الانعام
117 یقین رکھو کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اپنے راستے سے بھٹک رہا ہے، اور وہی ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو صحیح راستے پر ہیں۔ الانعام
118 چنانچہ ہر اس (حلال) جانور میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اگر تم واقعی اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۔ (٥٢) الانعام
119 اور تمہارے لیے کون سی رکاوٹ ہے جس کی بنا پر تم اس جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو؟ حالانکہ اس نے وہ چیزیں تمہیں تفصیل سے بتا دی ہیں جو اس نے تمہارے لیے (عام حالات میں) حرام قرار دی ہیں، البتہ جن کو کھانے پر تم بالکل مجبور ہی ہوجاؤ (تو ان حرام چیزوں کی بھی بقدر ضرورت اجازت ہوجاتی ہے) اور بہت سے لوگ کسی علم کی بنیاد پر نہیں (بلکہ صرف) اپنی خواہشات کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ بلا شبہ تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ الانعام
120 اور تم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہ چھوڑ دو۔ (٥٣) یہ یقینی بات ہے کہ جو لوگ گناہ کماتے ہیں، انہیں ان تمام جرائم کی جلد ہی سزا ملے گی جن کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔ الانعام
121 اور جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس میں سے مت کھاؤ، اور ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ (مسلمانو) شیاطین اپنے دوستوں کو ورغلاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں۔ اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم یقینا مشرک ہوجاؤ گے۔ الانعام
122 ذرا بتاؤ کہ جو شخص مردہ ہو، پھر ہم نے اسے زندگی دی ہو، اور اس کو ایک روشنی مہیا کردی ہو جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو (٥٤) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو جن سے کبھی نکل نہ پائے ؟ اسی طرح کافروں کو یہ سجھا دیا گیا ہے وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں، وہ بڑا خوشنما کام ہے۔ الانعام
123 اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے مجرموں کے سرغنوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اس (بستی) میں (مسلمانوں کے خلاف) سازشیں کیا کریں۔ (٥٥) اور وہ جو سازشیں کرتے ہیں، (درحقیقت) وہ کسی اور کے نہیں، بلکہ خود ان کے اپنے خلاف پڑتی ہیں، جبکہ ان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ الانعام
124 اور جب ان (اہل مکہ) کے پاس (قرآن کی) کوئی آیت آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس جیسی چیز خود ہمیں نہ دے دی جائے جیسی اللہ کے پیغمبروں کو دی گئی تھی۔ (٥٦) (حالانکہ) اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے۔ جن لوگوں نے (اس قسم کی) مجرمانہ باتیں کی ہیں ان کو اپنی مکاریوں کے بدلے میں اللہ کے پاس جاکر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔ الانعام
125 غرض جس شخص کو اللہ ہدایت تک پہنچانے کا ارادہ کرلے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جس کو (اس کی ضد کی وجہ سے) گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے، اس کے سینے کو تنگ اور اتنا زیادہ تنگ کردیتا ہے کہ (اسے ایمان لانا ایسا مشکل معلوم ہوتا ہے) جیسے اسے زبردستی آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہو۔ اسی طرح اللہ (کفر کی) گندگی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ الانعام
126 اور یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بتایا ہوا) سیدھا سیدھا راستہ ہے۔ جو لوگ نصیحت قبول کرتے ہیں، ان کے لیے ہم نے (اس راستے کی) نشانیاں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔ الانعام
127 ان کے پروردگار کے پاس سکھ چین کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے اور جو عمل وہ کرتے رہے ہیں ان کی وجہ سے وہ خود ان کا رکھوالا ہے۔ الانعام
128 اور (اس دن کا دھیان رکھو) جس دن اللہ ان سب کو گھیر کر اکٹھا کرے گا، اور (شیطانین جنات سے کہے گا کہ) اے جنات کے گروہ ! تم نے انسانوں کو بہت بڑھ چڑھ کر گمراہ کیا۔ اور انسانوں میں سے جو ان کے د وست ہوں گے، وہ کہیں گے : اے ہمارے پروردگار ! ہم ایک دوسرے سے خوب مزے لیتے رہے ہیں۔ (٥٧) اور اب اپنی اس میعاد کو پہنچ گئے ہیں جو آپ نے ہمارے لیے مقرر کی تھی۔ اللہ کہے گا ؛ (اب) آگ تم سب کا ٹھکانا ہے، جس میں تم ہمیشہ رہو گے، الا یہ کہ اللہ کچھ اور چاہے۔ (٥٨) یقین رکھو کہ تمہارے پروردگار کی حکمت بھی کامل ہے، علم بھی کامل۔ الانعام
129 اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ایک دوسرے پر مسلط کردیتے ہیں۔ (٥٩)۔ الانعام
130 اے جنات اور انسانوں کے گروہ ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ کر سناتے تھے (٦٠) اور تم کو اسی دن کا سامنا کرنے سے خبردار کرتے تھے جو آج تمہارے سامنے ہے ؟ وہ کہیں گے : (آج) ہم نے خود اپنے خلاف گواہی دے دی ہے (کہ واقعی ہمارے پاس پیغمبر آئے تھے، اور ہم نے انہیں جھٹلایا تھا) (٦١) اور (درحقیقت) ان کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا، اور (اب) انہوں نے خود اپنے خلاف گواہی دے دی کہ وہ کافر تھے۔ الانعام
131 یہ (پیغمبر بھیجنے کا) سارا سلسلہ اس لیے تھا کہ تمہارے پروردگار کو یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ بستیوں کو کسی زیادتی کی وجہسے (٦٢) اس حالت میں ہلاک کردے کہ اس کے لوگ بے خبر ہوں۔ الانعام
132 اور ہر قسم کے لوگوں کو مختلف درجات ان اعمال کے حساب سے ملتے ہیں جو انہوں نے کیے ہوتے ہیں۔ اور جو اعمال بھی وہ کرتے ہیں، تمہارا پروردگار ان سے غافل نہیں ہے۔ الانعام
133 اور تمہارا پروردگار ایسا بے نیاز ہے جو رحمت والا بھی ہے۔ (٦٣) اگر وہ چاہے تو تم سب کو (دنیا سے) اٹھا لے، اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہاری جگہ لے آئے، جیسے اس نے تم کو کچھ اور لوگوں کی نسل سے پیدا کیا تھا۔ (٦٤) الانعام
134 یقین رکھو کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے اس کو آنا ہی آنا ہے۔ (٦٥) اور تم (اللہ کو) عاجز نہیں کرسکتے۔ الانعام
135 (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے) کہو کہ : اے میری قوم ! تم اپنی جگہ (اپنے طریقے کے مطابق) عمل کرو، میں (اپنے طریقے کے مطابق) عمل کر رہا ہوں۔ پھر جلد ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس دنیا کا انجام کس کے حق میں نکلتا ہے۔ یہ حقیقت (اپنی جگہ) ہے کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ الانعام
136 اور اللہ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کیے ہیں ِ ان لوگوں نے ان میں سے اللہ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ (٦٦) چنانچہ بزعم خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے، اور یہ ہمارے ان معبودوں کا ہے جن کو ہم خدائی میں اللہ کا شریک مانتے ہیں۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسی بری بری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں۔ الانعام
137 اور اسی طرح بہت سے مشرکین کو ان کے شریکوں نے سجھا رکھا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل کرنا بڑا چھا کام ہے، تاکہ وہ ان (مشرکین) کو بالکل تباہ کر ڈالیں، اور ان کے لیے ان کے دین کے معاملے میں مغالطے پیدا کردیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٦٧) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔ الانعام
138 اور یوں کہتے ہیں کہ : ان چوپایوں اور کھیتیوں پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ ان کا زعم یہ ہے کہ : ان کو سوائے ان لوگوں کے کوئی نہیں کھا سکتا جنہیں ہم کھلانا چاہیں۔ (٦٨)۔ اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن کی پشت حرام قرار دی گئی ہے، (٦٩) اور کچھ چوپائے وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ پر یہ بہتان باندھتے ہیں کہ ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے۔ (٧٠) جو افترا پردازی یہ لوگ کر رہے ہیں، اللہ انہیں عنقریب اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ الانعام
139 نیز وہ کہتے ہیں کہ : ان خاص چوپایوں کے پیٹ میں جو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہیں، اور ہماری عورتوں کے لیے حرام ہیں۔ اور اگر وہ بچہ مردہ پیدا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانے میں سب (مرد و عورت) شریک ہوجاتے ہیں۔ (٧١) جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں، اللہ انہیں عنقریب ان کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یقینا وہ حکمت کا بھی مالک ہے، علم کا بھی مالک۔ الانعام
140 حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو کسی علمی وجہ کے بغیر محض حماقت سے قتل کیا ہے، اور اللہ نے جو رزق ان کو دیا تھا اسے اللہ پر بہتان باندھ کر حرام کرلیا ہے۔ وہ بری طرح گمراہ ہوگئے ہیں، اور کبھی ہدایت پر آئے ہی نہیں۔ الانعام
141 اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں، اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں، اور نخلستان اور کھیتیاں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ (٧٢) جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو، (٧٣) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ الانعام
142 اور چوپایوں میں سے اللہ نے وہ جانور بھی پیدا کیے ہیں جو بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ بھی جو زمین سے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ (٧٤) اللہ نے جو رزق تمہیں دیا ہے، اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو، وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔ الانعام
143 (مویشیوں کے) کل آٹھ جوڑے اللہ نے پیدا کیے ہیں، دو صنفیں (نر اور مادہ) بھیڑوں کی نسل سے اور دو بکریوں کی نسل سے۔ ذرا ان سے پوچھو کہ : کیا دونوں نروں کو اللہ نے حرام کیا ہے، یا دونوں مادہ کو؟ یا ہر اس بچے کو جو دونوں نسلوں کی مادہ کے پیٹ میں موجود ہو؟ اگر تم سچے ہو تو کسی علمی بنیاد پر مجھے جواب دو۔ (٧٥) الانعام
144 اور اسی طرح اونٹوں کی بھی دو صنفیں (نر اور مادہ اللہ نے) پیدا کی ہیں، اور گائے کی بھی دو صنفیں۔ ان سے کہو کہ : کیا دونوں نروں کو اللہ نے حرام کیا ہے، یا دونوں مادہ کو؟ یا ہر اس بچے کو جو دونوں نسلوں کی مادہ کے پیٹ میں موجود ہو؟ کیا تم اس وقت خود حاضر تھے جب اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا تھا؟ (اگر نہیں، اور یقینا نہیں) تو پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر اس لیے جھوٹ باندھے تاکہ کسی علمی بنیاد کے بغیر لوگوں کو گمراہ کرسکے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔ الانعام
145 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : جو وحی مجھ پر نازل کی گئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا کسی کھانے والے کے لیے حرام ہو (٧٦) الا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہتا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا جو ایسا گناہ کا جانور ہو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ ہاں جو شخص (ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر) انتہائی مجبور ہوجائے (٧٧) جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو، اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ الانعام
146 اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا، اور گائے اور بکری کے اجزاء میں سے ان کی چربیاں ہم نے حرام کی تھیں، البتہ جو چربی ان کی پشت پر یا آنتوں پر لگی ہو، یا جو کسی ہڈی سے ملی ہوئی ہو وہ مستثنی تھی۔ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی تھی۔ اور پورا یقین رکھو کہ ہم سچے ہیں۔ الانعام
147 پھر بھی اگر یہ (کافر) تمہیں جھٹلائیں تو کہہ دو کہ : تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے اور اس کے عذاب کو مجرموں سے ٹلایا نہیں جاسکتا۔ (٧٨) الانعام
148 جن لوگوں نے شرک اپنایا ہوا ہے وہ یہ کہیں گے کہ : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی بھی چیز کو حرام قرار دیتے، (٧٩) ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی اسی طرح (رسولوں کو) جھٹلایا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ تم ان سے کہو کہ : کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جو ہمارے سامنے نکال کر پیش کرسکو؟ تم تو جس چیز کے پیچھے چل رہے ہو وہ گمان کے سوا کچھ نہیں، اور تمہارا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہمی اندازے لگاتے رہو۔ الانعام
149 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : ایسی دلیل تو اللہ ہی کی ہے جو (دلوں تک) پہنچنے والی ہو۔ چنانچہ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (زبردستی) ہدایت پر لے آتا۔ (٨٠) الانعام
150 ان سے کہو کہ : اپنے وہ گواہ ذرا سامنے لاؤ جو یہ گواہی دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر اگر یہ خود گواہی دے بھی دیں تو تم ان کے ساتھ گواہی میں شریک نہ ہونا، اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے۔ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور جو دوسروں کو (خدائی میں) اپنے پروردگار کے برابر مانتے ہیں۔ الانعام
151 (ان سے) کہو کہ : آؤ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے (درحقیقت) تم پر کونسی باتیں حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی۔ اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی، (٨١) اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے اسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو ! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے۔ الانعام
152 اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے، اس وقت تک اس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اس کے حق میں) بہترین ہو، اور ناپ تول انصاف کے ساتھ وپرا پورا کیا کرو، (البتہ) اللہ کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا۔ (٨٢) اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو، چاہے معاملہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کا ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ (٨٣) لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ الانعام
153 اور (اے پیغمبر ! ان سے) یہ بھی کہو کہ : یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔ لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو۔ الانعام
154 پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ نیک لوگوں پر اللہ کی نعمت پوری ہو، اور ہر چیز کی تفصیل بیان کردی جائے، اور وہ (لوگوں کے لیے) رہنمائی اور رحمت کا سبب بنے، تاکہ وہ (آخرت میں) اپنے پروردگار سے جا ملنے پر ایمان لے آئیں۔ الانعام
155 اور (اسی طرح) یہ برکت والی کتاب ہے جو ہم نے نازل کی ہے۔ لہذا اس کی پیروی کرو، اور تقوی اختیار کرو، تاکہ تم پر رحمت ہو الانعام
156 (یہ کتاب ہم نے اس لیے نازل کی کہ) کبھی تم یہ کہنے لگو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں (یہود و نصاری) پر نازل کی گئی تھی، اور جو کچھ وہ پڑھتے پڑھاتے تھے، ہم تو اس سے بالکل بے خبر تھے۔ الانعام
157 یا یہ کہو کہ اگر ہم لوگوں پر کتاب نازل ہوجاتی تو ہم ان (یہودیوں اور عیسائیوں) سے یقینا زیادہ ہدایت پر ہوتے۔ لو ! پھر تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت و رحمت کا سامان آگیا ہے۔ اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑ لے ؟ جو لوگ ہماری آیتوں سے منہ موڑ رہے ہیں، ان کو ہم بہت برا عذاب دیں گے۔ کیونکہ وہ برابر منہ موڑے ہی رہے۔ الانعام
158 یہ (ایمان لانے کے لیے) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تمہارا پروردگار خود آئے، یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں؟ (حالانکہ) جس دن تمہارے پروردگار کی کوئی نشانی آگئی، اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لیے کار آمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو، یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو۔ (٨٤) (لہذا ان لوگوں سے) کہہ دو کہ : اچھا، انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔ الانعام
159 (اے پیغمبر) یقین جانو کہ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے، اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا معاملہ تو اللہ کے حوالے ہے۔ پھر وہ انہیں جتلائے گا کہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ الانعام
160 جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا ثوب ہے اور جو شخص کوئی بدی لے کر آئے گا، تو اس کو صرف اسی ایک بدی کی سزا دی جائے گی، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ الانعام
161 (اے پیغمبر) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے، ابراہیم کا دین۔ جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ الانعام
162 کہہ دو کہ : بیشک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ الانعام
163 اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والا ہوں۔ الانعام
164 کہہ دوکہ : کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور پروردگار تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے ؟ اور جو کوئی شخص کوئی کمائی کرتا ہے، اس کا نفع نقصان کسی اور پر نہیں، خود اسی پر پڑتا ہے۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (٨٥) پھر تمہارے پروردگار ہی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ ساری باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ الانعام
165 اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو دوسروں سے درجات میں بلندی عطا کی، تاکہ اس نے تمہیں جو نعمتیں دی ہیں ان میں تمہیں آزمائے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمہارا رب جلد سزا دینے والا ہے، اور یہ (بھی) حقیقت ہے کہ وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ الانعام
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الاعراف
1 الف لام میم صاد الاعراف
2 ( اے پیغمبر) یہ کتاب ہے (١) جو تم پر نازل کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو (انکار و بدعملی کی پاداش سے) خبردار ہوشیار کردو اور اس لیے کہ ایمان رکھنے والے کے لیے بیدار و نصیحت ہو۔ دیکھو ایسا نہ ہو کہ اس بارے میں کسی طرح کی تنگ دلی تمہارے اندر راہ پائے۔ الاعراف
3 (اے لوگو) جو کچھ تمہارے پروردگار کی جانب سے تم پر نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور خدا کو چھوڑ کر اپنے (ٹھہرائے ہوئے) مددگاروں کے پیچھے نہ چلو (افسوس تم پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو۔ الاعراف
4 اور (٢) (دیکھو کہ) کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے (پاداش عمل میں) ہلاک کردیا۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ لوگ راتوں کو بے خبر سو رہے تھے یا دوپہر کے وقت استراحت میں تھے کہ اچانک عذاب کی سختی نمودار ہوگئی۔ الاعراف
5 پھر جب عذاب کی سختی نمودار ہوئی تو (انکار و شرارت کا سارا دم خم جاتا رہا) اس وقت ان کی پکار اس کے سوا کچھ بھی نہ تھی کہ بلا شبہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔ الاعراف
6 تو دیکھو یقینا ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں گے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے (کہ انہوں نے پیغمبروں کی دعوت پر کان دھرا یا نہیں) اور یقینا پیغمبروں سے بھی باز پرس ہوگی (کہ انہوں نے فرض رسالت ادا کیا یا نہیں) الاعراف
7 اور پھر یقینا ایسا ہوگا کہ (ان کے اعمال کی سرگزشت) ہم اپنے علم سے سنا دیں گے اور ہم غائب نہ تھے (کہ بے خبر ہوں) الاعراف
8 اور اس دن (١) (اعمال کا) تولنا برحق ہے۔ پھر جس کسی (کی نیکیوں) کا پلہ بھاری نکلے گا تو کامیابی اسی کے لیے ہوگی۔ الاعراف
9 اور جس کا پلہ ہلکا ہوا تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا، کیونکہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔ الاعراف
10 اور (دیکھو) ہم نے تمہیں (یعنی نوع انسانی کو) زمین میں (قدرت و اختیار کے ساتھ) بسا دیا اور زندگی کے سرو سامان مہیا کردیئے مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم شگر گزار رہو۔ الاعراف
11 اور (٢) (دیکھو یہ ہماری ہی کار فرمائی ہے کہ) ہم نے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارا وجود پیدا کیا) پھر تمہاری (یعنی نوع انسانی کی) شکل و صورت بنا دی پھر (وہ وقت آیا کہ) فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے جھک جاؤ، اس پر سب جھک گئے مگر ابلیس کہ جھکنے والوں میں سے نہ تھا۔ الاعراف
12 خدا نے فرمایا کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا جب کہ میں نے حکم دیا تھا؟ کہا اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اسے مٹی سے۔ الاعراف
13 فرمایا جنت سے نکل جا، تیری یہ ہستی نہیں کہ یہاں رہ کر سرکشی کرے، یہاں سے نکل دور ہو، یقینا تو ان میں سے ہوا جو ذلیل و خوار ہیں۔ الاعراف
14 ابلیس نے کہا : مجھے اس وقت تک کے لیے مہلت دے جب لوگ (مرنے کے بعد) اٹھائے جائیں گے۔ الاعراف
15 فرمایا : تجھے مہلت ہے۔ الاعراف
16 اس پر ابلیس نے کہا، چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کردی تو اب میں بھی ایسا ضرور کروں گا کہ تیری سیدھی راہ سے بھٹکانے کے لیے بنی آدم کی تاڑ میں بیٹھوں۔ الاعراف
17 پھر سامنے سے، پیچھے سے، داہنے سے، بائیں سے (غرض کہ ہر طرف سے) ان پر آؤں اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ الاعراف
18 خدا نے فرمایا یہاں سے نکل جا، ذلیل اور ٹھکرایا ہوا، بنی آدم میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو (وہ تیرا ساتھی ہوگا اور) میں البتہ ایسا کروں گا کہ ( پاداش عمل میں) تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔ الاعراف
19 اے آدم ! تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو سہو اور جس جگہ سے جو چیز پسند آئے شوق سے کھاؤ، مگر دیکھو (وہ جو ایک درخت ہے تو) اس درخت کے قریب بھی نہ جانا، اگر گئے تو یاد رکھو تم زیادتی کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔ الاعراف
20 لیکن پھر ایسا ہوا کہ شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کے ستر جو ان سے چھپے تھے ان پر کھول دے۔ اس نے کہا تمہارے پروردگار نے اس درخت سے جو تمہیں روکا ہے تو صرف اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم فرشتے بن جاؤ یا دائمی زندگی تمہیں حاصل ہوجائے۔ الاعراف
21 اس نے قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ میں تم دونوں کو خیر خواہی سے نیک بات سمجھانے والا ہوں۔ الاعراف
22 غرض کہ شیطان (اس طرح کی باتیں سنا سنا کر بالآخر) انہیں فریب میں لے آیا، پھر جونہی ایسا ہوا کہ انہوں نے درخت کا پھل چکھا ان کے ستر ان پر کھل گئے اور (جب انہیں اپنی برہنگی دیکھ کر شرم محسوس ہوئی تو) باغ کے پتے اوپر تلے رکھ کر اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ اس وقت ان کے پروردگار نے پکارا، کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روک دیا تھا۔ اور کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شطیان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ الاعراف
23 انہوں نے عرض کیا پروردگار ! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا، اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ الاعراف
24 فرمایا یہاں سے نکل جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور یہ کہ ایک خاص وقت تک وہاں کے سامان زندگی سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ الاعراف
25 اور فرمایا تم اسی میں جیو گے، اسی میں مرو گے پھر اسی سے ( مرنے کے بعد) نکالے جاؤ گے۔ الاعراف
26 اے اولاد (١) آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کردیا جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی جو زیب و زینت کا ذریعہ ہیں، نیز تمہیں پرہیزگاری کی راہ دکھا دی کہ یہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے۔ یہ اللہ (کے فضل و رحمت) کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ نصیحت پذیر ہوں۔ الاعراف
27 (اور خدا نے فرمایا) اے اولاد آدم ! دیکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان کے لباس اتروا دیے تھے کہ ان کے ستر انہیں دکھا دیئے، وہ اور اس کا گروہ تمہیں اس طرح دیکھتا ہے کہ تم اسے نہیں دیکھتے۔ یاد رکھو ہم نے یہ بات ٹھہرا دی ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے رفیق و مددگار شیاطین ہوتے ہیں۔ الاعراف
28 اور یہ لوگ (یعنی مشرکین عرب) جب بے حیائی کی باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اور (چونکہ وہ کرتے رہے ہیں اس لیے) خدا نے ایسا ہی کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے۔ (اے پیغمبر) تم کہہ دو خدا کبھی بے حیائی کی باتوں کا حکم نہیں دے گا۔ کیا تم خدا کے نام پر ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی (دلیل) علم نہیں؟ الاعراف
29 تم کہو میرے پروردگار نے جو کچھ حکم دیا ہے وہ تو یہ ہے کہ (ہر بات میں) اعتدال کی راہ اختیار کرو، اپنی تمام عبادتوں میں خدا کی طرف توجہ درست رکھو اور دین کو اس کے لیے خالص کر کے اسے پکارو۔ اس نے جس طرح تمہاری ہستی شروع کی اسی طرح لوٹائے جاؤ گے۔ الاعراف
30 (تمہارے دو گروہ ہوگئے) ایک گروہ کو (اس کے ایمان و عمل کی وجہ سے کامیابی کی) راہ دکھلائی۔ دوسرے پر (اس کے انکار و بدعملی سے) گمراہی ثابت ہوگئی۔ ان لوگوں نے (یعنی دوسرے گروہ نے) خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا رفیق بنا لیا (یعنی مفسوں شریروں کی تقلید کی) بایں ہمہ سمجھے کہ راہ راست پر ہیں۔ الاعراف
31 (اور ہم نے حکم دیا تھا) اے اولاد آدم ! عبادت کے ہر موقع پر اپنے جسم کی زیب و زینت سے آراستہ رہا کرو۔ نیز کھاؤ پیو مگر حد سے نہ گزر جاؤ، خدا انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ الاعراف
32 ( اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو خدا کی زینتیں جو اس نے اپنے بندوں کے برتنے کے لیے پیدا کی ہیں اور کھانے پینے کی اچھی چیزیں کس نے حرام کی ہیں۔ تم کہو یہ (نعمتیں) تو اسی لیے ہیں کہ ایمان والوں کے کام آئیں، دنیا کی زندگی میں (زندگی کی مکروہات کے ساتھ اور) قیامت کے دن (ہر طرح کی مکروہات سے) خالص دیکھو، اس طرح ہم ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں جو جاننے والے ہیں۔ الاعراف
33 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو، میرے پروردگار نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ تو یہ ہے کہ : بے حیائی کی باتیں جو کھلے طور پر کی جائیں اور جو چھپا کر کی جائیں۔ گناہ کی باتیں، ناحق کی زیادتی، یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اور یہ کہ خدا کے نام سے ایسی بات کہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں۔ الاعراف
34 اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ایک ٹھہرایا ہوا وقت ہے سو جب کسی امت کا ٹھہرایا ہوا وقت آگیا تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتی ہے نہ ایک گھڑی آگے (جو کچھ اس کے لیے ہونا ہے ہو گزرتا ہے) (١٢) الاعراف
35 (اور فرمان الہی ہوا) اے اولاد آدم ! جب کبھی ایسا ہو کہ میرے پیغمبر تم میں پیدا ہوں اور میری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں تو جو کوئی (ان کی تعلیم سے متنبہ ہوکر) برائیوں سے بچے گا اور اپنے آپ کو سنوار لے گا اس کے لیے کسی طرح کا اندیشہ نہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔ الاعراف
36 لیکن جو لوگ میری آیتیں جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کریں گے تو وہ دوزخی ہوں گے، ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔ الاعراف
37 پھر بتلاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو جھوٹ بولتے ہوئے خدا پر بہتان لگائے؟ (یعنی خدا نے اسے مامور نہیں کیا ہے، مگر وہ کہے میں مامور ہوں) اور اس سے بڑھ کر جو خدا کی آیتیں جھٹلائے؟ (یعنی خدا کا کلام واقعی نازل ہوا ہو اور وہ ضد اور سرکشی سے کہے نازل نہیں ہوا؟) یہی لوگ ہیں کہ (علم الہی کے) نوشہ میں جو کچھ ان کے لیے ٹھہرا دیا گیا ہے اس کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے۔ لیکن بالآخر جب ہمارے فرستادہ پہنچیں گے کہ انہیں وفات دیں تو اس وقت وہ کہیں گے جن ہستیوں کو تم خدا کے سوا پکارا کرتے تھے اب وہ کہاں ہیں؟ وہ جواب دیں گے وہ ہم سے کھوئی گئیں (یعنی ان کی ہستی و طاقت کی کوئی نمود ہمیں دکھائی نہ دی) اور (اس طرح) اپنے اوپر خود گواہی دے دیں گے کہ وہ واقعی (سچائی سے) منکر تھے۔ الاعراف
38 اس پر حکم الہی ہوگا انسانوں اور جنوں کی ان امتوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں تم بھی آتش دوزخ میں داخل ہوجاؤ۔ جب کبھی ایسا (١) ہوگا کہ ایک امت دوزخ میں داخل ہو تو وہ اپنی طرح کی دوسرے امت پر لعنت بھیجے گی پھر جب سب اکٹھی ہوجائیں گی تو پچھلی امت پہلی امت کی نسبت کہے گی اے ہمارے پروردگار ! یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا (یعنی جن کی تقلید میں ہم گمراہ ہوئے) تو انہیں آتش عذاب کا دوگنا عذاب دیجیو۔ خدا فرمائے گا تم میں سے ہر ایک کے لیے دو گنا عذاب ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں۔ الاعراف
39 (یہ سن کر) پہلی امت پھچلی امت سے کہے گی دیکھو تمہیں (عذاب کی کمی میں) ہم پر کوئی بزرگی نہ ہوئی تو جیسی کچھ کمائی کرچکے ہو اس کے مطابق اب عذاب کا مزہ چکھ لو۔ الاعراف
40 جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی تو (یاد رکھو) ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی کھلنے والے نہیں۔ ان کا جنت میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اسی طرح ہم مجرموں کو ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں (یعنی ہم نے اسی طرح قانون جزا ٹھہرا دیا ہے۔ الاعراف
41 ان کے نیچے آگ کا بچھونا ہوگا اور اوپر آگ کی چادر، ہم ظلم کرنے والوں کو ان کے ظلم کا ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ الاعراف
42 اور جو لوگ (١) ایمان لائے اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے، اور (یاد رہے ہمارا قانون یہ ہے کہ) ہم کسی جان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تو بس ایسے ہی لوگ جنت والے ہیں۔ ہمیشہ جنت (کے راحت و سرور) میں رہنے والے۔ الاعراف
43 اور (دیکھو) ان لوگوں کے دلوں میں (ایک دوسرے کی طرف سے) جو کچھ کینہ و غبار تھا ہم نے نکال دیا، ان کے تلے (آگ کے شعلوں کی جگہ) نہریں رواں ہیں۔ انہوں نے (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے کی جگہ) کہا ساری ستائش اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اس (زندگی) کی راہ دکھائی۔ ہم کبھی اس کی راہ نہ پاتے اگر وہ ہماری رہنمائی نہ کرتا۔ بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر سچائی کا پیغام لے کر آئے تھے، اور (دیکھو) انہوں نے پکار سنی، یہ ہے جنت جو تمہارے ورثہ میں آئی ان (نیک) کاموں کی بدولت جو تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو۔ الاعراف
44 اور جنت والوں نے دوزخیوں کو پکارا ہمارے پروردگار نے جو کچھ ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے اسے سچا پایا ہے۔ پھر کیا تم نے بھی وہ تمام باتیں ٹھیک پائیں جن کا تمہارے پروردگار نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ دوزخی جواب میں بولے ہاں اس پر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا ظالموں پر خدا کی لعنت ہو۔ الاعراف
45 ان ظالموں پر جو خدا کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے اور چاہتے تھے وہ سیدھی نہ ہو، اس میں کجی ڈال دیں اور آخرت کی زندگی سے بھی منکر تھے۔ الاعراف
46 اور (دیکھو) ان (١) دونوں کے درمیان ایک اوٹ ہے اور اعراف پر (یعنی بلندی پر) کچھ لوگ ہیں جو (دونوں گروہوں میں سے) ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچان لیتے ہیں، ان لوگوں نے جنت والوں کو پکارا تم پر سلامتی ہو، وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے اس کے آرزو مند ہیں۔ الاعراف
47 اور جب ان لوگوں کی نگاہ دوزخیوں کی طرف پھری (اور ان کی ہولناک حالت نظر آئی) تو پکار اٹھے اے پروردگار ! ہمیں ظالم گروہ کے ساتھ شامل نہ کیجیو۔ الاعراف
48 اور اعراف والوں نے ان لوگوں کو پکارا جنہیں وہ ان کے قیافہ سے پہچان گئے تھے، نہ تو تمہارے جتھے تمہارے کام آئے نہ تمہاری بڑائیاں۔ الاعراف
49 (انہوں نے جنتیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا) دیکھو کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ خدا کی رحمت سے انہیں کچھ ملنے والا نہیں؟ (لیکن انہیں تو آج رحمت الہی پکار رہی ہے) جنت میں داخل ہوجاؤ، آج تمہارے لیے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہے نہ کسی طرح کی غمگینی۔ الاعراف
50 اور دوزخیوں نے جنت والوں کو پکارا تھوڑا سا پانی ہم پر بہا دو (کہ گرمی کی شدت سے پھٹکے جاتے ہیں) یا اس میں سے کچھ دے دو جو خدا نے تمہیں بخشا ہے، جنت والوں نے جواب دیا خدا نے یہ دونوں چیزیں (آج) منکروں پر روک دی ہیں۔ الاعراف
51 (کیونکہ وہ فرماتا ہے) جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا (یعنی عمل حق کی جگہ ایسے کاموں میں لگے رہے جو کھیل تماشے کی طرح حقیقت سے خالی تھے) اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالے رکھا تو جس طرح انہوں نے اس دن کا آنا بھلا دیا تھا آج وہ بھی بھلا دیئے جائیں گے نیز اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں سے جان بوجھ کر انکار کرتے تھے۔ الاعراف
52 اور (١) (دیکھو) ہم نے تو ان لوگوں کے لیے ایک ایسی کتاب بھی نازل کردی جس میں علم کے ساتھ (دین حق کی تمام باتیں) الگ الگ کر کے واضح کردی ہیں اور جو ایمان رکھنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ الاعراف
53 (پھر) کیا یہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ (فساد و بدعملی کے جس نتیجہ کی اس میں خبر دی گئی ہے) اس کا مطلب وقوع میں آجائے؟ (اگر اسی بات کا انتظار ہے تو جان رکھیں) جس دن اس کا مطلب وقوع میں آئے گا اس دن وہ لوگ کہ اسے پہلے سے بھولے بیٹھے تھے (نامرادی و حسرت کے ساتھ) بول اٹھیں گے، بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر ہمارے پاس سچائی کا پیام لے کر آئے تھے (مگر افسوس کہ ہم نے انہیں جھٹلایا) کاش شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہو جو آج ہماری شفاعت کرے ! یا کاش ایسا ہی ہو کہ ہم پھر دنیا میں لوٹا دیئے جائیں اور جیسے کچھ کام کرتے رہے ہیں اس کے برخلاف (نیک) کام انجام دیں، بلا شبہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی میں ڈالا اور دنیا میں جو کچھ افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب (آج) ان سے کھوئی گئیں۔ الاعراف
54 تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں (یعنی چھ دوروں میں یکے بعد دیگرے واقع ہوئے) پیدا کیا اور پھر (اپنی حکومت و جلال کے) تخت پر متمکن ہوگیا۔ (اس نے رات اور دن کی تبدیلی کا ایسا نظام ٹھہرایا ہے کہ) رات کی اندھیری دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے اور (ایسا معلوم ہوتا ہے گویا) دن کے پیچھے لپکی چلی آرہی ہو اور (دیکھو) سورج، چاند، ستارے سب اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو ! اسی کے لیے پیدا کرنا ہے اور اسی کے لیے حکم دینا (اس کے سوا کوئی نہیں جسے کارخانہ ہستی کے چلانے میں دخل ہو) سو کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا۔ الاعراف
55 (اے لوگو) اپنے پروردگار سے دعائیں مانگو، آہ و زاری کرتے ہوئے بھی اور پوشیدگی سے بھی، وہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ الاعراف
56 اور (دیکھو) ملک کی درستی کے بعد (یعنی دعوت حق کے ظہور کے بعد جو اس کی درستی کی دعوت ہے) اس میں خرابی نہ پھیلاؤ۔ (اپنی خطاؤں سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت سے) امیدیں رکھتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرو۔ یقینا اللہ کی رحمت ان سے نزدیک ہے جو نیک کردار ہیں۔ الاعراف
57 اور (دیکھو) یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ باران رحمت سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے کہ (مینہ برسنے کی) خوشخبری پہنچا دیں، پھر جب وہ بوجھل بادل لے اڑتی ہیں تو انہیں کسی مردہ زمین کی بستی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ پھر ان سے پانی برساتا ہے اور زمین سے ہر طرح کے پھل پیدا کردیتا ہے، اس طرح ہم مردوں کو زندہ کردیتے ہیں تاکہ تم (قدرت الہی کی کرشمہ سنجیوں میں) غور و فکر کرو۔ الاعراف
58 اور (دیکھو) اچھی زمین اپنے پروردگار کے حکم سے اچھی پیداوار ہی نکالتی ہے لیکن جو زمین نکمی ہے اس سے کچھ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ نکمی چیز پیدا ہو، اس طرح ہم (حکمت و عبرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لیے دہراتے ہیں جو شکر کرنے والے ہیں (یعنی خدا کی نعمتوں کے قدر شناس ہیں) الاعراف
59 یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف (تبلیغ حق کے لیے) بھیجا تھا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے ہی (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں پیش نہ آجائے۔ الاعراف
60 اس پر اس کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے جواب دیا : ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں پڑگئے ہو۔ الاعراف
61 نوح نے کہا، بھائیو ! یہ بات نہیں ہے کہ میں گمراہی میں پڑگیا ہوں، میں تو اس کی طرف سے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے فرستادہ ہوں۔ الاعراف
62 میں اپنے پروردگار کا پیغام تمہیں پہنچاتا ہوں اور پند و نصیحت کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے اس بات کا علم رکھتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں۔ الاعراف
63 (نیز نوح (١) نے کہا) کیا تمہیں اس بات پر اچنبھا ہورہا ہے کہ تمہارے پروردگار کی نصیحت ایک ایسے آدمی کے ذریعہ تمہیں پہنچی تو تم ہی میں سے ہے؟ اور اس لیے پہنچی تاکہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کردے۔ اور تم برائیوں سے بچو اور رحمت الہی کے سزاوار رہو۔ الاعراف
64 بایں ہمہ لوگوں نے نوح کو جھٹلایا، پس ہم نے اسے اور ان سب کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے (سیلاب سے) نجات دی اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں انہیں غرق کردیا، حقیقت یہ ہے کہ وہ (اپنی سمجھ بوجھ کھو کر) یک قلم اندھے ہوگئے تھے۔ الاعراف
65 اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم عاد کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے ہود کو بھیجا، اس نے کہا، اے قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا تم (انکار و بدعملی کے نتائج سے) نہیں ڈرتے؟ الاعراف
66 اس پر قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا تھا کہا، ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم حماقت میں پڑگئے ہو اور ہمارا خیال یہ ہے کہ تم جھوٹ بولنے والوں میں سے ہو۔ الاعراف
67 ہود نے کہا، بھائیو ! میں احمق نہیں ہوں۔ میں تو اس کی طرف سے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے فرستادہ ہوں۔ الاعراف
68 میں اس کا پیام تمہیں پہنچاتا ہوں، اور یقین کرو کہ تمہیں دیانتداری کے ساتھ نصیحت کرنے والا ہوں۔ الاعراف
69 کیا تمہیں اس بات پر اچنبھا ہورہا ہے کہ ایک ایسے آدمی کے ذریعہ تمہارے پروردگار کی نصیحت تم تک پہنچی جو خود تم ہی میں سے ہے؟ خدا کا یہ احسان یاد کرو کہ قوم نوح کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تمہاری نسل کو زیادہ وسعت و توانائی بخشی۔ پس چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کی یاد سے غافل نہ ہو، تاکہ ہر طرح کامیاب ہو۔ الاعراف
70 انہوں نے کہا، کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ ہم صرف ایک ہی خدا کے پجاری ہوجائیں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں؟ اگر تم سچے ہو تو وہ بات لا دکھاؤ جس کا ہمیں خوف دلارہے ہو؟ الاعراف
71 ہود نے کہا یقین کرو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب واقع ہوگیا ہے ( کہ عقلیں ماری گئی ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی کے حوالے کر رہے ہو) کیا ہے جس کی بنا پر تم مجھ سے جھگڑ رہے ہو؟ محض چند نام جو تم نے اور تمہارے برزگوں نے اپنے جی سے گھڑ لیے ہیں اور جن کے لیے خدا نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اچھا (آنے والے وقت کا) انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کروں گا۔ الاعراف
72 پھر ایسا ہوا کہ ہم نے ہود کو اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ان کی بیخ و بنیاد تک اکھاڑ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی ایمان لانے والے نہ تھے۔ الاعراف
73 اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں صالح کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے۔ یہ خدا کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے۔ پس اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں جہاں چاہے چرے، اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچاؤ کہ (اس کی پاداش میں) عذاب جانکاہ تمہیں آپکڑے۔ الاعراف
74 اور وہ وقت یاد کرو کہ خدا نے تمہیں قوم عاد کے بعد اس کا جانشین بنایا اور اس سرزمین میں اس طرح بسا دیا کہ میدانوں سے محل بنانے کا کام لیتے اور پہاڑوں کو بھی تراش کر اپنا گھر بنا لیتے ہو (یہ اس کا تم پر احسان ہے) پس اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور ملک میں سرکشی کرتے ہوئے خرابی نہ پھیلاؤ الاعراف
75 قوم کے جن سربرآورہ لوگوں کو (اپنی دولت و طاقت کا) گھمنڈ تھا انہوں نے مومنوں سے کہا، اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں (افلاس و بے چارگی کی وجہ سے) کمزور و حقیر سمجھتے تھے : کیا تم (١) نے سچ مچ کو معلوم کرلیا ہے کہ صالح خدا کا بھیجا ہوا ہے؟ (یعنی ہمیں تو ایسی کوئی بات اس میں دکھائی دیتی نہیں) انہوں نے کہا، ہاں بیشک جس پیام حق کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے ہم اس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ الاعراف
76 اس پر گھمنڈ کرنے والوں نے کہا، تمہیں جس بات کا یقین ہے ہمیں اس سے انکار ہے۔ الاعراف
77 غرض کہ انہوں نے اونٹنی کا کوٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی۔ انہوں نے کہا، اے صالح ! اگر تم واقعی پیغمبروں میں سے ہو تو اب وہ بات ہم پر لا دکھاؤ جس کا تم نے ہمیں خوف دلایا تھا۔ الاعراف
78 پس ایسا ہوا کہ لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا، اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ الاعراف
79 پھر صالح ان سے کنارہ کش ہوگیا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے پروردگار کا پیام تمہیں پہنچایا اور نصیحت کی مگر (افسوس تم پر) تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ الاعراف
80 اور لوط کا واقعہ (١) یاد کرو جب اس نے اپنی سے کہا تھا، کیا تم ایسی بے حیائی کا کام کرنا پسند کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی انسان نے نہیں کیا؟ الاعراف
81 تم عورتوں کو چھوڑ کر نفسانی خواہش سے مردوں پر مائل ہوتے ہو، یقینا تم ایک ایسی قوم ہوگئے ہو جو (اپنی نفس پرستیوں میں) بالکل چھوٹ ہے۔ الاعراف
82 لوط کی قوم کے پاس اگر اس کا کچھ جواب تھا تو یہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے : اس آدمی کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو بڑے پاک صاف بننا چاہتے ہیں۔ الاعراف
83 پس ایسا ہوا کہ لوط کو اور اس کے گھر والوں کو تو ہم نے بچا لیا مگر اس کی بیوی نہ بچی کہ وہ بھی پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ الاعراف
84 ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینہ برسا دیا تھا، سو دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟ الاعراف
85 اور (اسی طرح) مدین (١) کی بستی میں شعیب بھیجا گیا کہ انہی کے بھائی بندوں میں سے تھا، اس نے کہا : بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے، پس چاہیے کہ ماپ تول پورا پورا کیا کرو، لوگوں کو (خریدو فروخت میں) ان کی چیزیں کم نہ دو، ملک کی درستی کے بعد (کہ دعوت حق کے قیام سے ظہور میں آرہی ہے) اس میں خرابی نہ ڈالو، اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یقین کرو اسی میں تمہارے لیے بہتر ہے۔ الاعراف
86 اور دیکھو ایسا نہ کرو کہ (دعوت حق کی اشاعت روکنے کے لیے) ہر راستے جا بیٹھو اور جو آدمی بھی ایمان لائے اسے دھمکیاں دے کر خدا کی راہ سے روکو اور اس میں کجی ڈالنے کے درپے ہورہو۔ خدا کا احسان یاد کرو کہ تم بہت تھوڑے تھے اس نے (امن و عافیت دے کر) تمہاری تعداد زیادہ کردی، اور پھر غور کرو جن لوگوں نے فساد کا شیوہ اختیار کیا تھا انہیں کیسا کچھ انجام پیش آچکا ہے؟ الاعراف
87 اور اگر ایسا ہوا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر ایمان لے آیا ہے جس کی تبلیغ کے لیے میں بھیجا گیا ہوں اور دوسرا گروہ ہے جسے اس پر یقین نہیں تو (صرف اتنی ہی بات دیکھ کر فیصلہ نہ کرلو) صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ الاعراف
88 اس پر (١) قوم کے سرداروں نے جنہیں (اپنی دنیوی طاقتوں کا) گھمنڈ تھا کہا اے شعیب ! (دو باتوں میں سے ایک بات ہو کر رہے گی) یا تو تجھے اور ان سب کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ہم اپنے شہر سے ضرور نکال باہر کریں گے یا تمہیں مجبور کردیں گے کہ ہمارے دین میں لوٹ آؤ۔ شعیب نے کہا، اگر ہمارا دل تمہارے دین پر مطمئن نہ ہو تو کیا جبرا مان لیں؟ الاعراف
89 اگر ہم تمہارے دین میں لوٹ آئیں حالانکہ خدا نے (علم و یقین کی روشنی نمایاں کر کے) ہمیں اس سے نجات دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے جھوٹ بولتے ہوئے خدا پر بہتان باندھا، ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اب قدم پیچھے ہٹائیں، ہاں اللہ کا جو ہمارا پروردگار ہے ایسا ہی چاہنا ہو۔ (تو وہ جو چاہے گا ہو کر رہے گا) کوئی چیز نہیں جس پر وہ اپنے علم سے چھایا ہوا نہ ہو۔ ہمارا تمام تر بھروسہ اسی پر ہے، اے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سچائی کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ الاعراف
90 قوم کے سرداروں (١) نے جو شعیب کے منکر تھے (لوگوں سے) کہا اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بس سمجھ لو، تم برباد ہوئے۔ الاعراف
91 پس ایسا ہوا کہ لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا، اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ الاعراف
92 جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا (ان کا کیا حال ہوا؟) گویا ان بستیوں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہی برباد ہونے والے تھے۔ الاعراف
93 بہرحال شعیب ان سے کنارہ کش ہوگیا، اس نے کہا بھائیو ! میں نے پروردگار کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے تھے اور تمہاری بہتری چاہی تھی (مگر جب تم نے جان بوجھ کر ہلاکت کی راہ پسند کی) تو میں نہ مانے والوں (کی تباہی) پر اب کیسے افسوس کروں۔ الاعراف
94 اور ہم نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو ہمیشہ ایسا کیا کہ اس کے باشندوں کو سختیوں اور نقصانوں میں مبتلا کردیا کہ (سرکشی سے باز آئیں اور) عاجزی و نیاز مندی کریں۔ الاعراف
95 پھر جب ایسا ہوا کہ وہ (خوشحالیوں میں) خوب بڑھ گئے اور ( پاداش عمل سے بے پروا ہوکر) کہنے لگے ہمارے بزرگوں پر سختی کے دن بھی گزرے راحت کے بھی (یعنی دنیا میں اچھی بری حالتیں پیش آتی ہی رہتی ہیں، جزائے عمل کوئی چیز نہیں) تو اچانک ہمارے عذاب کی پکڑ میں آگئے اور وہ بالکل بے خبر تھے۔ الاعراف
96 اور اگر بستیوں کے رہنے والے (جن کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں) ایمان لاتے اور برائیوں سے بچتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے ضرور ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا پس اس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ) حاصل کی تھی ہم نے انہیں پکڑ لیا (اور وہ مبتلائے عذاب ہوئے)۔ الاعراف
97 کیا شہروں (١) کے بسنے والوں کو اس بات سے امان مل گئی ہے کہ ہمارا عذاب راتوں رات آ نازل ہو او وہ پڑے سوتے ہوں؟ الاعراف
98 یا انہیں اس بات سے امان مل گئ ہے کہ دن دہاڑے عذاب نازل ہوجائے اور وہ (بے خبر) کھیل کود میں مشغول ہوں؟ الاعراف
99 کیا انہیں خدا کی مخفی تدبیروں سے امان مل گئی ہے ؟ (اور وہ سمجھتے ہیں ان کے خلاف کچھ ہونے والا نہیں؟) تو یاد رکھو خدا کی مخفی تدبیروں سے بے خوف نہیں ہوسکتے مگر وہی جو تباہ ہونے والے ہیں۔ الاعراف
100 پھر جو لوگ (پہلی جماعتوں کے بعد) ملک کے وارث ہوتے ہیں کیا وہ یہ بات نہیں پاتے کہ اگر ہم چاہیں تو (پہلوں کی طرح) انہیں بھی گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا کردیں اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں تاکہ کوئی بات سنیں ہی نہیں؟ الاعراف
101 (اے پیغمبر) یہ ہیں (دنیا کی پرانی) آبادیاں جن کے حالات ہم تمہیں سناتے ہیں، ان سب میں ان کے پیغمبر (سچائی کی) روشن دلیلوں کے ساتھ آئے مگر ان کے بسنے والے ایسے نہ تھے کہ جو بات پہلے جھٹلا چکے تھے اسے (سچائی کی نشانیاں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو اس طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو (ہٹ دھرمی سے) انکار کرتے ہیں۔ الاعراف
102 اور ان میں سے اکثروں کو ہم نے ایسا پایا کہ اپنے عہد پر قائم نہ تھے (یعنی انہوں نے اپنا فطری شعور و وجدان کہ فطرت انسانی کا عہد ہے ضائع کردیا تھا) اور اکثروں کو ایسا ہی پایا کہ یک قلم نافرمان تھے۔ (١) الاعراف
103 پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے ہماری نشانیوں کے ساتھ نا انصافی کی تو دیکھو مفسدوں کا کیسا انجام ہوا؟ الاعراف
104 موسی نے کہا اے فرعون ! میں اس کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ الاعراف
105 میرا فرض منصبی ہے خدا کے نام سے کوئی بات نہ کہوں مگر یہ کہ سچ ہو، میں تیرے پروردگار کی طرف سے (سچائی کی) روشن دلیلیں لایا ہوں۔ سو بنی اسرائیل کو (آئندہ اپنی غلامی پر مجبور نہ کرو) اور میرے ساتھ رخصت کردے۔ الاعراف
106 فرعون نے کہا اگر تو واقعی کوئی نشانی لے کر آیا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو پیش کر۔ الاعراف
107 اس پر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈال دی تو اچانک ایسا ہوا کہ ایک نمایاں اژدھا ان کے سامنے تھا، الاعراف
108 اور اپنا ہاتھ (جیب سے باہر) نکالا تو اچانک ایسا ہوا کہ دیکھنے والوں کے لیے سفید چمکیلا تھا۔ الاعراف
109 فرعون کی قوم کے سردار (آپس میں) کہنے لگے بلا شبہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے۔ الاعراف
110 یہ چاہتا ہے (اپنی ان طاقتوں سے کام لے کر) تمہیں ملک سے نکال باہر کرے (اور خود مالک بن بیٹھے) اب بتلاؤ تمہاری صلاح اس بارے میں کیا ہے ؟ الاعراف
111 (چنانچہ) انہوں (١) نے (باہم مشورہ کے بعد فرعون سے کہا) موسیٰ اور اس کے بھائی کو ڈھیل دے کر روک لے اور (اس اثنا میں) نقیب روانہ کردے الاعراف
112 کہ (مملکت کے) تمام شہروں سے جادوگر اکٹھا کر کے تیرے حضور لے آئیں۔ الاعراف
113 چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آئے، انہوں نے کہا، اگر ہم موسیٰ پر غالب آئے تو ہمیں اس خدمت کے صلے میں انعام ملنا چاہیے۔ الاعراف
114 فرعون نے کہا، ضرور ملے گا اور تم سب میرے مقربوں کی صفت میں داخل ہوجاؤ گے۔ الاعراف
115 (پھر جب مقابلہ ہوا تو) جادوگروں نے کہا، اے موسیٰ ! یا تو تم پہلے (اپنی لاٹھی) پھینکو یا پھر ہم ہی کو پھینکنا ہے۔ الاعراف
116 موسی نے کہا تم ہی پہلے پھینکو، پھر جب جادوگروں نے (جادو کی بنائی ہوئی لاٹھیاں اور رسیاں) پھینکیں تو ایسا کیا کہ لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دیں اور ان میں (اپنے کرتبوں سے) دہشت پھیلا دی اور بہت بڑا جادو بنا لائے۔ الاعراف
117 اور (اس وقت) ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ تم بھی اپنی لاٹھی (میدان میں) ڈال دو، جونہی اس نے لاٹھی پھینکی تو اچانک کیا ہوا کہ جو کچھ جھوٹی نمائش جادوگروں کی تھی سب (آنا فانا) اس نے نگل کر نابود کردی۔ الاعراف
118 غرض کہ (١) سچائی ثابت ہوگئی اور جو کچھ جادوگروں نے کرتب کیے تھے سب ملیا میٹ ہوئے۔ الاعراف
119 نتیجہ یہ نکلا کہ فرعون اور اس کے درباریوں کو اس مقابلہ میں مغلوب ہونا پڑا اور (فتح مند ہونے کی جگہ) الٹے زلیل ہوئے۔ الاعراف
120 اور پھر ایسا ہوا کہ (موسی کی سچائی دیکھ کر) جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے۔ الاعراف
121 انہوں نے کہا، ہم اس پر ایمان لائے جو تمام جہان کا پروردگار ہے۔ الاعراف
122 جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۔ الاعراف
123 فرعون نے (غضبناک ہوکر) کہا مجھ سے اجازت لیے بغیر تم موسیٰ پر ایمان لے آئے؟ ضرور یہ ایک پوشیدہ تدبیر ہے جو تم نے (مل جل کر) شہر میں کی ہے تاکہ اس کے باشندوں کو اس سے نکال باہر کرو، اچھا تھوڑی دیر میں تمہیں (اس کا نتیجہ) معلوم ہوجائے گا۔ الاعراف
124 میں ضرور ایسا کروں گا کہ پہلے تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹواؤں، پھر تم سب کو سولی پر چڑھا دوں۔ الاعراف
125 انہوں نے جواب دیا، ہمیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے (پھر ہم جسم کے عذاب و موت سے کیوں ہراساں ہوں؟) الاعراف
126 ہمارا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے سامنے آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔ (ہماری دعا خدا سے یہ ہے کہ) پروردگار ! ہمیں صبر و شکیبائی سے معمور کردے (تاکہ زندگی کی کوئی اذیت ہمیں اس راہ میں ڈگمگا نہ سکے) اور ہمیں دنیا سے اس حالت میں اٹھا کہ تیرے فرمانبردار ہوں۔ الاعراف
127 اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے کہا، کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دے گا کہ ملک میں بدامنی پھیلائیں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو ترک کردیں؟ فرعون نے کہا ہم ان کے لڑکوں کو قتل کردیں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے (کہ ہماری باندیاں بن کر رہیں) اور (ہمیں ڈر کس بات کا ہے ؟) وہ ہماری طاقت سے دبے ہوئے بے بس ہیں۔ الاعراف
128 تب موسیٰ نے اپنی قوم کو (وعظ کرتے ہوئے) کہا، خدا سے مدد مانگو اور (اس راہ میں) جمے رہو، بلا شبہ زمین (کی پادشاہت صرف) خدا ہی کے لیے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام کار انہی کے لیے ہے جو متقی ہوں گے۔ الاعراف
129 انہوں نے کہا تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے گئے اور اب تمہارے آنے کے بعد بھی ستائے جارہے ہیں۔ موسیٰ نے کہا قریب ہے تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور تمہیں ملک میں اس کا جانشین بنائے۔ پھر دیکھے (اس جانشینی کے بعد) تمہارے کام کیسے ہوتے ہیں؟ الاعراف
130 اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے فرعون کی قوم کو خشک سالی کے برسوں اور پیداوار کے نقصان میں مبتلا کیا تھا تاکہ وہ متنبہ ہوں۔ الاعراف
131 تو جب کبھی ایسا ہوتا کہ خوشحالی آتی تو کہتے یہ ہمارے حصے کی بات ہے (یعنی ہماری وجہ سے ہے) اور اگر ایسا ہوتا کہ سختی پیش آجاتی تو کہتے یہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست ہے۔ (اے مخاطب) سن رکھ کہ ان کی نحوست (اور کسی کے پاس نہ تھی) اللہ کے یہاں تھی (جس نے انسان کی اچھی بری حالتوں کے لیے ایک قانون ٹھہرا دیا ہے اور اسی کے مطابق نتائج پیش آتے ہیں) لیکن بہتوں کو یہ بات معلوم نہیں۔ الاعراف
132 اور فرعون کی قوم نے کہا (اے موسی) تو ہم پر اپنا جادو چلانے کے لیے کتنی ہی نشانیاں لائے مگر ہم ماننے والے نہیں۔ الاعراف
133 پس ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیوں کے دل اور جوئیں (١) اور مینڈک اور لہو کہ یہ سب الگ الگ نشانیاں تھیں، اس پر بھی انہوں نے سرکشی کی اور ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا۔ الاعراف
134 اور جب ان پر عذاب کی سختی واقع ہوئی تو کہنے لگے، اے موسیٰ ! تیرے پروردگار نے تجھ سے (نبوت کا) جو عہد کیا ہے تو اس کی بنا پر ہمارے لیے دعا کر، اگر تیری دعا سے عذاب ٹل گیا تو ضرور ہم تیرے معتقد ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو چھوڑ دیں گے کہ تیرے ساتھ چلے جائیں۔ الاعراف
135 لیکن پھر جب ایسا ہوا کہ ہم نے ایک خاص وقت تک کے لیے کہ (اپنی سرکشیوں اور بدعملیوں سے) انہیں اس تک پہنچنا تھا عذاب ٹال دیا تو دیکھو اچانک وہ اپنی بات سے پھر گئے۔ الاعراف
136 بالآخر ہم نے (ان کی بدعملیوں پر) انہیں سزا دی یعنی اس جرم کی پاداش میں خہ ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کی طرف سے غافل رہے انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ الاعراف
137 اور جس قوم کو کمزور و حقیر خیال کرتے تھے اسی کو ملک کے تمام پورب (١) کا اور اس کے مغربی حصوں کا کہ ہماری بخشی ہوئی برکت سے مالا مال ہے وارث کردیا۔ اور اسی طرح (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کا فرمان پسندیدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا کہ (ہمت و ثبات کے ساتھ) جمے رہے تھے اور فرعون اور اس کا گروہ (اپنی طاقت و شوکت کے لیے) جو کچھ بناتا رہا تھا اور جو کچھ ( عمارتوں کی) بلندیاں اٹھائی تھیں وہ سب درہم برہم کردیں۔ الاعراف
138 اور ہمارے حکم سے ایسا ہوا کہ بنی اسرائیل سمندر پار اتر گئے، وہاں ان کا گزر ایک گروہ پر ہوا کہ اپنے بتوں پر مجاور بنا بیٹھا تھا، بنی اسرائیل نے کہا، اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دے جیسا ان لوگوں کے لیے ہے، موسیٰ نے کہا (افسوس تم پر) تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو۔ الاعراف
139 یہ لوگ جس طریقہ پر چل رہے ہیں وہ تو تباہ ہونے والا طریقہ ہے اور انہوں نے جو عمل اختیار کیا ہے یک قلم باطل ہے۔ الاعراف
140 (نیز) موسیٰ نے کہا، کیا تم چاہتے ہو خدا کے سوا کوئی معبود تمہارے لیے تلاش کروں؟ حالانکہ وہی ہے جس نے تمہیں دنیا کی قوموں پر فضیلت دی ہے۔ الاعراف
141 اور (خدا فرماتا ہے، اے بنی اسرائیل) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دلائی۔ وہ تمہیں سخت عذابوں میں مبتلا کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی چاکری کے لیے) زندہ چھوڑ دیتے، اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی ہی آزمائش تھی۔ الاعراف
142 اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں (کے اعتکاف) کا وعدہ کیا تھا، پھر دس راتیں بڑھا کر اسے پورا (چلہ) کردیا، اس طرح پروردگار کے حضور آنے کی مقررہ میعاد چالیس راتوں کی پوری میعاد ہوگئی۔ موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا (میں اعتکاف کے لیے پہاڑ پر جاتا ہوں) تم میرے بعد قوم میں میرے جانشین بن کر رہو، اور دیکھو سب کام درستی سے کرنا، خرابی ڈالنے والوں کی راہ نہ چلنا۔ الاعراف
143 اور جب موسیٰ آیا تاکہ ہمارے مقررہ وقت میں حاضری دے، اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو (جوش طلب میں بے اختیار ہوکر) پکار اٹھا، پروردگار ! مجھے اپنا جمال دکھا کہ تیری طرف نگاہ کرسکوں، حکم ہوا تو مجھے کبھی نہ دیکھ سکے گا۔ مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر یہ (تجلی حق کی تاب لے آیا اور) اپنی جگہ ٹکا رہا تو (سمجھ لیجیو تجھے بھی میرے نظارہ کی تاب ہے اور تو) مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے پروردگار (کی قدرت) نے نمود کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کے گر پڑا۔ جب موسیٰ ہوش میں آیا تو بولا خدایا ! تیرے لیے ہر طرح کی تقدیس ہو ! میں (اپنی جسارت سے) تیرے حضور توبہ کرتا ہوں، میں ان میں پہلا شخص ہوں گا جو (اس حقیقت پر) یقین رکھتے ہیں۔ الاعراف
144 خدا نے کہا اے موسیٰ ! میں نے تجھے اپنی پیغمبری اور ہم کلامی سے لوگوں پر برگزیدگی بخشی، پس جو چیز تجھے عطا فرمائی ہے (یعنی احکام شریعت) اسے لے اور شکر بجا لا۔ الاعراف
145 اور ہم نے موسیٰ کے لیے ان تختیوں میں ہر قسم کی باتیں لکھ دی تھیں، تاکہ (دین کے) ہر معاملہ کے لیے اس میں نصیحت ہو اور ہر بات الگ الگ واضح ہوجائے، پس (ہم نے کہا) اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے اور اپنی قوم کو بھی حکم دے کہ اس کے پسندیدہ حکموں پر کار بند ہوجائے۔ وہ وقت دور نہیں کہ ہم نافرمانوں کی جگہ تمہیں دکھا دیں گے۔ الاعراف
146 جو لوگ ناحق خدا کی زمین میں سرکشی کرتے ہیں ہم اپنی نشانیوں سے ان کی نگاہیں پھرا دیں گے، وہ دنیا بھر کی نشانیاں دیکھ لیں، پھر بھی ایمان نہ لائیں، اگر وہ دیکھیں ہدایت کی سیدھی راہ سامنے ہے تو کبھی اس پر نہ چلیں، اگر دیکھیں گمراہی کی ٹیڑھی راہ سامنے ہے تو فورا چل پڑیں، ان کی ایسی حالت اس لیے ہوجاتی ہے کہ ہماری نشانیاں جھٹلاتے ہیں اور ان کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ الاعراف
147 اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور آخرت کے پیش آنے سے منکر ہوئے تو (یاد رکھ) ان کے سارے کام اکارت گئے، وہ جو کچھ بدلہ پائیں گے وہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ انہی کے کرتوتوں کا پھل ہوگا جو دنیا میں کرتے رہے۔ الاعراف
148 اور پھر ایسا ہوا کہ موسیٰ کی قوم نے اس کے (پہاڑ پر) چلے جانے کے بعد اپنے زیور کی چیزوں سے (یعنی زیور کی چیزیں گلا کر) ایک بچھڑے کا دھڑ بنایا جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور اسے (پرستش کے لیے) اختیار کرلیا۔ (افسوس ان کی عقلوں پر) کیا انہوں نے اتنی (موٹی سی) بات بھی نہ سمجھی کہ نہ تو وہ ان سے بات کرتا ہے۔ نہ کسی طرح کی رہنمائی کرسکتا ہے؟ وہ اسے لے بیٹھے اور وہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے۔ الاعراف
149 پھر جب ایسا ہوا کہ (افسوس و ندامت سے) ہاتھ ملنے لگے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ راہ (حق) سے قطعا بھٹک گئے ہیں تو کہنے لگے اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہیں کیا اور نہ بخشا تو ہمارے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ الاعراف
150 اور جب موسیٰ خشم ناک اور افسوس کرتا ہوا اپنی قوم میں لوٹا تو اس نے کہا، افسوس تم پر کس برے طریقے پر تم نے میرے پیچھے میری جانشینی کی۔ تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں ذرا بھی صبر نہ کرسکے، اس نے (جوش میں آکر) تختیاں پھینک دیں اور ہاروں کو بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا۔ ہارون نے کہا، اے میرے ماں جائے بھائی ! (میں کیا کروں) لوگوں نے مجھے بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ قتل کر ڈالیں، پس میرے ساتھ ایسا نہ کر کہ دشمن ہنسیں اور نہ مجھے (ان) ظالموں کے ساتھ شمار کر۔ الاعراف
151 موسی نے کہا پروردگار ! میرا قصور بخش دے ( کہ جوش میں آگیا) اور میرے بھائی کا بھی (کہ گمراہوں کو سختی کے ساتھ نہ روک سکا) اور ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں داخل کر، تجھ سے بڑھ کر کون ہے جو رحم کرنے والا ہو۔ الاعراف
152 خدا نے فرمایا جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی ان کے حصے میں ان کے پروردگار کا غضب آئے گا اور دنیا کی زندگی میں بھی ذلت و رسوائی پائیں گے، ہم افترا پردازوں کو (ان کی بدعملی کا) اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ الاعراف
153 ہاں جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کے بعد (متنبہ ہوکر) توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو بلا شبہ تمہارا پروردگار توبہ کے بعد بخش دینے والا رحمت والا ہے۔ الاعراف
154 اور جب موسیٰ کی خشم ناکی فرو ہوئی تو اس نے تختیاں اٹھا لیں، ان کی کتابت میں (یعنی ان حکموں میں جو ان پر لکھتے ہوئے تھے) ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو اپنے پروردگار کا ڈر رکھتے ہیں۔ الاعراف
155 اور اس غرض سے کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت میں حاضر ہوں موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چنے، پھر جب لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا تو موسیٰ نے (ہماری جناب میں) عرض کیا پروردگار ! اگر تو چاہتا تو ان سب کو اب سے پہلے ہی ہلاک کر ڈالتا اور خود میری زندگی بھی ختم کردیتا (مگر تو نے اپنے فضل و رحمت سے ہمیں مہلت دی) پھر کیا ایک ایسی بات کے لیے جو ہم میں سے چند بے وقوف آدمی کر بیٹھے ہیں تو ہم سب کو ہلاک کردے گا؟ یہ اس کے سوا کیا ہے کہ تیری طرف سے ایک آزمائش ہے، تو جسے چاہے اس میں بھٹکا دے جسے چاہے راہ دکھا دے۔ خدایا ! تو ہمارا والی ہے، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تجھ سے بہتر بخشنے والا کوئی نہیں۔ الاعراف
156 اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر، ہم تیری طرف لوٹ آئے، خدا نے فرمایا میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، پس میں ان لوگوں کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کے لیے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے۔ الاعراف
157 جر رسول کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہوگا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں تورات اور انجیل میں لکھی پائیں گے، وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا، برائی سے روکے گا، پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے، تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کے مخالفوں کے لیے روک ہوئے (راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں۔ الاعراف
158 (اے پیغمبر ! تم لوگوں سے) کہو اے افراد نسل انسانی ! میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں، وہ خدا کہ آسمانوں کی اور زمین کی ساری پادشاہت اسی کے لیے ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر اسی کی ایک ذات، وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے، پس اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول نبی امی پر کہ اللہ اور اسکے کلمات (یعنی اس کی تمام کتابوں) پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی پیروی کرو (کامیابی کی) راہ پر تم کھل جائے۔ الاعراف
159 اور موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ (ضرور) ایسا ہے جو لوگوں کو سچائی کی راہ چلاتا ہے اور سچائی ہی کے ساتھ (ان کے معاملات میں) انصاف بھی کرتا ہے۔ الاعراف
160 اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ خاندانوں کے بارہ گروہوں میں منقسم کردیا اور جب لوگوں نے موسیٰ سے پینے کے لیے پانی مانگا تو ہم نے وحی کی کہ اپنی لاٹھی (ایک (١) خاص) چٹان پر مارو۔ چانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنی اپنی جگہ پانی کی معلوم کرلی اور ہم نے بنی اسرائیل پر ابر کا سایہ کردیا تھا، اور (ان کی غذا کے لیے) من اور سلوی اتارا تھا، ہم نے کہا تھا یہ پسندیدہ غذا کھاؤ جو ہم نے عطا کی ہے۔ (اور فتنہ و فساد میں نہ پڑو) انہوں نے (نافرمانی کر کے) ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا، خود اپنے ہاتھوں اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔ الاعراف
161 اور پھر (وہ واقعہ یاد کرو) جب بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا، اس (٢) شہر میں جاکر آباد ہوجاؤ، (جس کے فتح کرنے کی تمہیں توفیق ملی ہے) اور (یہ نہایت زرخیز علاقہ ہے) جس جگہ سے چاہو اپنی غذا حاصل کرو اور تمہاری زبانوں پر حطۃ (٣) کا کلمہ جاری ہو اور اس کے دروازے میں داخل ہو تو (اللہ کے حضور) جھکے ہوئے ہو۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں اور نیک کرداروں کو (اس سے بھی) زیادہ اجر دیں گے۔ الاعراف
162 لیکن پھر ایسا ہوا کہ جو لوگ ان میں ظلم و شرارت کی راہ چلنے والے تھے انہوں نے خدا کی بتلائی ہوئی بات بدل کر ایک دوسری ہی بات بنا ڈالی (یعنی جس بات کا حکم دیا گیا تھا اس سے بالکل الٹی چال چلی) پس ہم نے آسمان سے ان پر عذاب بھیجا اس ظلم کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔ الاعراف
163 اور (اے پیغمبر) بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ خدا کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہوجاتے تھے، سب کے دن ان کی (مطلوبہ) مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آجاتیں مگر جس دن سبت نہ مناتے نہ آتیں، اس طرح ہم انہیں آزمائش میں ڈالتے تھے، بہ سبب اس نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے۔ الاعراف
164 اور جب اس شہر کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے (ان لوگوں سے جو نافرمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے) کہا تم ایسے لوگوں کو (بیکار) نصیحت کیوں کرتے ہو جنہیں (ان کی شقاوت کی وجہ سے) یا تو خدا ہلاک کردے گا یا نہایت سخت عذاب (اخروی) میں مبتلا کرے گا؟ انہوں نے کہا اس لیے کرتے ہیں تاکہ تمہارے پروردگار کے حضور معذرت کرسکیں (کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا) اور اس لیے بھی کہ شاید لوگ باز آجائیں۔ الاعراف
165 پھر جب ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو انہیں کی گئی تھیں تو ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا، ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے مگر شرارت کرنے والوں کو ایسے عذاب میں ڈالا کہ محرومی و نامرادی میں مبتلا کرنے والا عذاب تھا۔ بہ سبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کیا کرتے تھے۔ الاعراف
166 پھر جب یہ (سزا بھی انہیں عبرت نہ دلا سکی اور) وہ اس بات میں حد سے زیادہ سرکش ہوگئے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا، بندر ہوجاؤ، ذلت و خواری سے ٹھکرائے ہوئے۔ الاعراف
167 اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے اس بات کا اعلان کردیا تھا (اگر بنی اسرائیل شرارت و بدعملی سے باز نہ آئے تو) وہ قیامت کے دن کے تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو انہیں ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار (بدعملی کی) سزا دینے میں دیر کرنے والا نہیں اور ساتھ ہی بخشنے والا رحمت والا بھی ہے۔ الاعراف
168 اور ہم نے انہیں الگ الگ گروہ کر کے زمین میں متفرق کردیا، کچھ ان میں نیک تھے کچھ اس کے خلاف اور ہم نے انہیں اچھی اور بری طرح کی حالتوں میں ڈال کر آزمایا تاکہ (بدعملیوں سے) باز آجائیں۔ الاعراف
169 پھر ان لوگوں کے بعد ناخلفوں نے ان کی جگہ پائی اور کتاب الہی کے وارث ہوئے۔ وہ (دین فروشی کر کے) اس دنیائے حقیر کی متاع (بے تامل) لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں اس کی تو ہمیں معافی مل ہی جائے گی، اور اگر کوئی متاع انہیں اسی طرح (فریق ثانی سے) ہاتھ آجائے تو اسے بھی بلا تامل لے لیں، کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا ہے کہ خدا کے نام سے کوئی بات نہ کہیں مگر وہی جو سچ ہو؟ اور کیا جو کچھ کتاب میں حکم دیا گیا ہے وہ پڑھ نہیں چکے ہیں؟ جو متقی ہیں ان کے لیے تو آخرت کا گھر (دنیا اور دنیا کی خواہشوں سے) کہیں بہتر ہے ( وہ دنیا کے لیے اپنی آخرت تاراج کرنے والے نہیں، اے علمائے یہود) کیا اتنی سی بات بھی تمہاری عقل میں نہیں آتی؟ الاعراف
170 اور (بنی اسرائیل میں سے) جو لوگ کتاب اللہ کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز میں سرگرم ہیں تو (ان کے لیے کوئی کھٹکا نہیں) ہم کبھی سنوارنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ الاعراف
171 اور جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو زلزلہ (١) میں ڈالا تھا گویا ایک سائبان ہے (جو ہل رہا ہے) اور وہ (دہشت کی شدت میں) سمجھے تھے کہ بس ان کے سروں پر آگرا اور انہیں حکم دیا تھا کہ یہ کتاب جو ہم نے دی ہے مضبوطی سے پکڑے رہو اور جو کچھ اس میں بتلایا گیا ہے اسے خوب طرح یاد رکھو۔ اور یہ اس لیے ہے کہ تم برائیوں سے بچو۔ الاعراف
172 اور (اے پیغمبر ! وہ وقت بھی لوگوں کو یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی اس ذریت سے جو ان کے ہیکل سے (نسلا بعد نسل) پیدا ہونے والی تھی عہد لیا تھا اور انہیں (یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کی فطرت میں) خود اس پر گواہ ٹھہرایا تھا۔ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا تھا : ہاں تو ہی ہمارا پروردگار ہے، ہم نے اس کی گواہی دی اور یہ اس لیے کیا تھا کہ ایسا نہ ہو تم قیامت کے دن عذر کر بیٹھو کہ ہم اس سے بے خبر رہے۔ الاعراف
173 یا کہو خدایا ! شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادوں نے کیا، ہم ان کی نسل میں بعد کو پیدا ہوئے (اور لاچار وہی چال چلے جس پر پہلو کو چلتے پایا) پھر کیا تو ہمیں اس بات کے لیے ہلاک کرے گا جو (ہم سے پہلے) جھوٹی راہ پر چلنے والوں نے کی تھی؟ الاعراف
174 اور (دیکھو) اس طرح ہم سچائی کی نشانیاں الگ الگ کر کے واضح کردیتے ہیں تاکہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آئیں۔ الاعراف
175 اور (اے پیغمبر) ان لوگوں کو اس آدمی کا حال (کلام الہی میں) پڑھ کر سناؤ جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھی (یعنی دلائل حق کی سمجھ عطا کی تھی) لیکن پھر ایسا ہوا کہ اس نے (دانش و فہم کا) وہ جامہ اتار دیا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگا، نتیجہ یہ نکلا کہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ الاعراف
176 اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کے ذریعہ اس کا مرتبہ بلند کرتے (یعنی دلائل حق کا جو علم ہم نے دیا تھا وہ ایسا تھا کہ اگر اس پر قائم رہتا اور ہماری مشیت ہوتی تو بڑا درجہ پاتا) مگر وہ پستی کی طرف جھکا اور ہوائے نفس کی پیروی کی، تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی۔ مشقت میں ڈالو جب بھی ہانپے اور زبان لٹکائی، چھوڑ دو جب بھی ایسا ہی کرے، ایسی ہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں تو (اے پیغمبر) یہ حکایتیں لوگوں کو سناؤ تاکہ ان میں غور و فکر کریں۔ الاعراف
177 کیا ہی بری مثال ان لوگوں کی ہوئی جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں، وہ اپنے ہاتھوں خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔ الاعراف
178 جس پر اللہ (کامیابی کی) راہ کھول دے تو وہی راہ پر ہے اور جس پر (کامیابی کی) راہ گم کردے تو ایسے ہی لوگ ہیں جو گھاٹے ٹوٹے میں پڑے۔ الاعراف
179 اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا (یعنی بالآخر ان کا ٹھکانا جہنم ہونے والا ہے) ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ وہ (عقل و حواس کا استعمال کھو کر) چارپایوں کی طرح ہوگئے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔ الاعراف
180 اور (دیکھو) اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں (یعنی صفتیں ہیں) سو تم انہی ناموں سے اسے پکارو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں (یعنی ایسی صفتیں گھڑے ہیں جو اس کے جمال و پاکی کے خلاف ہیں) تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو وہ وقت دور نہیں کہ اپنے کیے کا بدلہ پالیں گے۔ الاعراف
181 اور جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ان میں ضرور ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو لوگوں کو سچائی کی راہ دکھاتا اور سچائی ہی کے ساتھ ان میں انصاف بھی کرتا ہے۔ الاعراف
182 اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں ہم انہیں درجہ بدرجہ (آخری نتیجہ تک) لے جائیں گے، اس طرح کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی۔ الاعراف
183 ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں (یعنی ہمارا قانون جزا ایسا ہے کہ نتائج بتدریج ظہور میں آتے ہیں اور مہلتوں پر مہلتیں ملتی رہتی ہیں، اور ہماری مخفی تدبیر بڑی ہی مضبوط ہے۔ الاعراف
184 کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا؟ ان کے رفیق کو (یعنی پیغمبر اسلام کو جو انہی میں پیدا ہوا اور جس کی زندگی کی ہر بات ان کے سامنے ہے) کچھ دیوانگی تو ہیں لگ گئی ہے (کہ خواہ مخواہ ایک بات کے پیچھے پڑ کر سب کو اپنا دشمن بنا لے) وہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ (انکار و بدعملی کی پاداش سے) کھلے طور پر خبردار کردینے والا ہے۔ الاعراف
185 پھر کیا یہ نظر اٹھا کر آسمان و زمین کی پادشاہی اور جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے نہیں دیکھتے؟ نیز یہ بات کہ ہوسکتا ہے ان کا (مقررہ) وقت قریب آگیا ہو؟ (اگر سوچنے سمجھنے کی یہ ساری باتیں انہیں ہوشیار نہیں کرسکتیں تو) پھر اس کے بعد اور کون سی بات ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں گے؟ الاعراف
186 جس پر (کامیابی کی) راہ خدا گم کردے (جیسے خدا کے ٹھہرائے ہوئے قانون نتائج کے مطابق کھویا جائے) تو پھر اس کے لیے کوئی راہ دکھانے والا نہیں، خدا (کے قانون) نے انہیں چھوڑ دیا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ الاعراف
187 (اے پیغمبر) لوگ تم سے (قیامت کے) آنے والے وقت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب قرار پائے گا؟ تم کہہ دو اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہے، وہی ہے جو اس بات کو اس کے وقت پر نمایاں کرنے و الا ہے۔ وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں واقع ہوگا، وہ تم پر نہیں آئے گا مگر اچانک۔ (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا تم اس کی کاوش میں لگے ہوئے ہو، تم کہو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف خدا ہی یہ ابت جانتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے انجان ہیں۔ الاعراف
188 (اے پیغمبر) تم کہہ دو میرا حال تو یہ ہے کہ کود اپنی جان کا نفع نقصان بھی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا، وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے، اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے خبردار کردینے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔ الاعراف
189 وہی (تمہارا پروردگار) ہے جس نے اکیلی جان سے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارے قبیلوں اور گروہوں کا مورث اعلی ایک فرد واحد تھا) اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنا دیا (یعنی مرد ہی کی نسل سے عورت بھی پیدا ہوتی ہے) تاکہ وہ اس کی رفاقت میں چین پائے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ مرد عورت کی طرف ملتفت ہوا (١) تو عورت کو حمل رہ جاتا ہے۔ پہلے حمل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور وہ وقت گزار دیتی ہے، پھر جب بوجھل ہوجاتی ہے (اور وہ وضع حمل کا وقت قریب آلگتا ہے) تو مرد اور عورت دونوں اللہ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ ان کا پرورش کرنے والا ہے : خدایا ! ہم دونوں تیرے شکر گزار ہوں گے اگر ہمیں ایک تندرست بچہ عطا فرما دے۔ الاعراف
190 پھر جب خدا نے انہیں ایک تندرست فرزند دے دیا تو جو چیز خدا نے دی اس میں دوسری ہستیوں کو شریک ٹھہرانے لگے، سو (یاد رکھو) یہ لوگ جیسی کچھ شرک کی باتیں کرتے ہیں اس سے اللہ کی ذات بہت بلند ہے۔ الاعراف
191 یہ لوگ خدا کے ساتھ کن ہستیوں کو شریک ٹھہراے ہیں؟ ایسوں کو جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے اور خود کسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ الاعراف
192 ان میں نہ تو اس کی طاقت کہ ان کی مدد کریں، نہ اس کی کہ خود اپنی ذات ہی کو مدد پہنچائیں۔ الاعراف
193 اگر تم سیدھی راہ کی طرف بلاؤ تو تمہارے پیچھے قدم نہ اٹھا سکیں اور تم انہیں پکارو یا چپ رہو دونوں حالتوں کا نتیجہ تمہارے لیے یکساں ہو۔ الاعراف
194 (نادانو) تم خدا کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہو وہ تمہاری ہی طرح خدا کے بندے ہیں، اگر تم (اپنے اس وہم میں) سچے ہو (کہ ان میں ماورائے بشریت طاقتیں ہیں) تو اپنی احتیاجوں میں پکارو، وہ تمہاری پکار کا جواب دیں گے۔ الاعراف
195 کیا ان (پتھر کی مورتیوں) کے پاؤ ہیں جن سے چلتے ہوں؟ ہاتھ ہیں جن سے پکڑتے ہوں؟ آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے ہوں؟ کان ہیں جن سے سنتے ہوں؟ (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو (اگر تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو) انہیں (جس قدر پکار سکتے ہو) پکار لو پھر ( میرے خلاف اپنی ساری) مخفی تدبیریں کر ڈالو اور مجھے (اپنے جانتے) ذرا بھی مہلت نہ دو، (پھر دیکھو نتیجہ کیا نکلتا ہے)۔ الاعراف
196 میرا کارساز تو بس اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہی ہے جو نیک انسانوں کی کارسازی کرتا ہے۔ الاعراف
197 تم اللہ کے سوا جنہیں پکارتے ہو یاد رکھو وہ نہ تو تمہاری مدد کرنے کی قدرت رکھتے ہیں نہ خود اپنی ہی مدد پر قادر ہیں۔ الاعراف
198 (اے پیغمبر) اگر تم ان لوگوں کو سیدھے رستے بلاؤ تو کبھی تمہاری پکار نہ سنیں، تمہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تمہاری طرف تک رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دیکھتے نہیں۔ الاعراف
199 (بہرحال) نرمی و درگزر سے کام لو، نیکی کا حکم دو، جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو۔ الاعراف
200 اور اگر ایسا ہو کہ شیطان کی طرف سے وسوسہ کی کوئی خلش محسوس ہو تو اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے پناہ طلب کرو۔ بلاشبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (١) الاعراف
201 جو لوگ متقی ہیں اگر انہیں شیطان کی وسوسہ اندازی سے کوئی خیال چھو بھی جاتا ہے تو فورا چونک اٹھتے ہیں اور پھر (پردہ غفلت اس طرح ہٹ جاتا ہے گویا) اچانک ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ الاعراف
202 مگر جو لوگ شیطانوں کے بھائی بند ہیں تو انہیں وہ گمراہی میں کھینچے لیے جاتے ہیں اور پھر اس میں ذرا بھی کمی نہیں کرتے۔ الاعراف
203 اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوتا ہے کہ تم ان کے پاس کوئی نشانی لے کر نہ جاؤ (جیسی نشانیوں کی وہ فرمائشیں کیا کرتے ہیں) تو کہتے ہیں کیوں کوئی نشانی پسند کر کے نہ چن لی (یعنی کیوں اپنے جی سے نہ بنا لی) تم کہہ دو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو کچھ میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرتا ہوں (میرے ارادے اور پسند کو اس میں کیا دخل؟) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے سرمایہ دلائل ہے اور ان سب کے لیے جو یقین رکھنے والے ہیں ہدایت اور رحمت۔ الاعراف
204 اور (مسلمانو) جب قرآن پڑھا جائے تو جی لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ اللہ کی مہربانی کے مستحق ثابت ہو۔ الاعراف
205 اور (اے پیغمبر) اپنے پروردگار کو صبح و شام یاد کیا کر، دل ہی دل میں عجز و نیاز کے ساتھ ڈرتے ہوئے اور زبان سے بھی آہستہ آہستہ بغیر پکارے، اور ایسا نہ کرنا کہ غافلوں میں سے ہوجاؤ۔ الاعراف
206 جو اللہ کے حضور (مقرب) ہیں وہ کبھی بڑائی میں آکر اس کی بندگی سے نہیں جھجکتے، وہ اس کی پاکی و ثنا میں زمزمہ سنج رہتے رہیں اور اسی کے آگے سربسجود ہوتے ہیں۔ الاعراف
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الانفال
1 (اے پیغمبر) لوگ تم سے پوچھتے ہیں مال غنیمت کے بارے میں کیا ہونا چاہیے؟ (١) کہہ دو مال غنیمت دراصل اللہ اور اسکے رسو کا ہے، پس اگر تم مومن ہو تو چاہیے کہ (اس کی وجہ سے آپس میں جھگڑا نہ کرو) اللہ سے ڈرو اپنا باہمی معاملہ درست رکھو اور اسکی اور اس کے رسولوں کی اطاعت میں سرگرم ہوجاؤ۔ الانفال
2 مومنوں کی شان تو یہ ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دہل جاتے ہیں اور جب اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ ہر حال میں اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ الانفال
3 جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے (ایک حصہ ہماری راہ میں بھی) خرچ کرتے ہیں۔ الانفال
4 بلا شبہ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لیے ان کے پروردگار کے یہاں مرتبے ہیں اور بخشائش اور بڑی خوبی و عزت کی روزی۔ الانفال
5 (اس معاملہ کو بھی ویسا ہی سمجھ) جس طرح (جنگ بدر میں) یہ بات ہوئی تھی کہ تیرے پروردگار نے سچائی کے ساتھ تجھے تیرے گھر سے نکالا تھا اور یہ واقعہ ہے کہ مومنوں کا ایک گروہ اس بات سے ناخوش تھا۔ الانفال
6 وہ تجھ سے امر حق میں جھگڑنے لگے باوجودیکہ معاملہ واضح ہوچکا تھا۔ (وہ باہر نکل کر مقابل ہونے سے اس درجہ ناخوش تھے) گویا انہیں زبردستی موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے اور وہ (اپنی موت آنکھوں سے) دیکھ رہے ہیں۔ الانفال
7 اور (مسلمانو) جب ایسا ہوا تھا کہ اللہ نے تم سے وعدہ فرمایا (دشمنوں کی) دو جماعتوں میں سے کوئی ایک تمہارے ہاتھ ضرور آئے گی، اور تمہارا حال یہ تھا کہ چاہتے تھے جس جماعت میں لڑائی کی طاقت نہیں (یعنی قافلہ والی) وہ ہاتھ آجائے اور (خدا کا چاہنا دوسرا تھا) خدا چاہتا تھا اپنے وعدہ کے ذریعہ حق کو ثابت کردے اور دشمنان حق کی جڑ بنیادیں کاٹ کر رکھ دے۔ الانفال
8 (اور) یہ اس لیے تاکہ حق کو حق کر کے دکھلا دے اور باطل کو باطل کر کے۔ اگرچہ (ظلم و فساد کے) مجرم ایسا ہونا پسند نہ کریں۔ الانفال
9 جب ایسا ہوا تھا کہ (جنگ بدر کے موقع پر) تم نے اپنے پروردگار سے فریاد کی تھی کہ ہماری مدد کر اور اس نے تمہاری فریاد سن لی تھی، اس نے کہا تھا، میں ایک ہزار فرشتوں سے کہ یکے بعد دیگرے آئیں گے تمہاری مدد کروں گا۔ الانفال
10 اور اللہ نے یہ بات جو کی تو اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ (تمہارے لیے) خوشخبری ہو اور تمہارے (مضطرب دل) قرار پاجائیں، ورنہ مدد تو (ہر حال میں) اللہ کی طرف سے ہے۔ بلا شبہ وہ (سب پر) غالب آنے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ الانفال
11 جب ایسا ہوا تھا کہ اس نے چھا جانے والی غنودگی تم پر طاری کردی تھی کہ یہ اس کی طرف سے تمہارے لیے تسکین و بے خوفی کا سامان تھا اور آسمان سے تم پر پانی برسا دیا تھا کہ تمہیں پاک و صاف ہونے کا موقع دے دے اور تم سے شیطان (کے وسوسوں) کی ناپاکی دور کردے۔ نیز تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھ جائے اور (ریتلے میدانوں میں) قدم جما دے۔ الانفال
12 (اے پیغمبر) یہ وہ وقت تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں پر وحی کی تھی میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری مدد تمہارے ساتھ ہے) پس مومنوں کو استوار رکھو، عنقریب ایسا ہوگا کہ میں کافروں کے دلوں میں (مومنوں کی) دہشت ڈال دوں گا۔ سو (مسلمانو) ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ، ان کے ہاتھ پاؤں کی ایک ایک انگلی پر ضرب لگاؤ۔ الانفال
13 اور یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا تو یاد رکھو اللہ (پاداش عمل میں) سخت سزا دینے والا ہے۔ الانفال
14 (اے اعدائے حق) یہ ہے سزائے تمہارے لیے تو اس کا مزہ چکھ لو اور جان رکھو منکرین حق کو آتش دوزخ کا عذاب بھی پیش آنے والا ہے۔ الانفال
15 مسلمانو ! جب کافروں کے لشکر سے تمہاری مٹھ بھیڑ ہوجائے (یعنی وہ تم پر ہجوم کر کے چڑھ دوڑیں اور تم مقابل ہو) تو انہیں پیٹھ نہ دکھاؤ (سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرو) الانفال
16 اور جو کوئی ایسے موقع پر پیٹھ دکھلائے گا تو سمجھ لو وہ خدا کے غضب میں آگیا اور اس اس کا ٹھکانا دوزخ ہوا (اور جس کا ٹھکانا دوزخ ہوا تو) سا کے پہنچنے کی جگہ کیا ہی بری جگہ ہے۔ مگر (ہاں) جو کوئی لڑائی کی مصلحت سے ہٹ جائے یا (اپنے گروہوں میں سے) کسی گروہ کے پاس جگہ لینی چاہے (اور اس لیے ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ جائے، تو اس کا مضائقہ نہیں) الانفال
17 پھر کیا تم نے انہیں (جنگ میں) قتل کیا؟ نہیں خدا نے کیا (یعنی محض اس کی تائید سے ایسا ہو) اور (اے پیغمبر) جب تم نے (میدان جنگ میں مٹھی بھر کر خاک) پھینکی تو حقیقت یہ ہے کہ تم نے نہیں پھینکی تھی خدا نے پھینکی تھی، اور یہ اس لیے ہوا تھا تاکہ اس کے ذریعہ ایمان والوں کو ایک بہتر آزمائش میں ڈال کر آزمائے۔ بلا شبہ اللہ سننے والا، علم رکھنے والا ہے۔ الانفال
18 یہ سب تو ہوچکا، اب سن رکھو کہ اللہ کافروں کی مخفی تدبیروں کو (جو وہ دعوت حق کے مٹانے کے لیے کر رہے ہیں) کمزور کردینے والا ہے۔ الانفال
19 (اے روسائے مکہ) اگر تم فتح مندی کے ظہور کے طلبگار تھے تو دیکھ لو فتح مندی تمہارے سامنے آگئی (یعنی جنگ بدر کے نتیجہ نے ہار جیب کا فیصلہ آشکارا کردیا) اور اگر (آئندہ لڑائی سے) باز آجاؤ تو تمہارے لیے بہتری کی بات یہی ہے۔ اور اگر پھر یہی چال چلے تو ہم بھی چال چلیں گے۔ اور یاد رکھو تمہارا جتھا تمہارے کچھ کام نہ آئے گا اگرچہ بہت سے آدمی اکٹھے کرلو، یقین کرو اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔ الانفال
20 مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اس سے روگردانی نہ کرو اور تم (صدائے حق) سن رہے ہو۔ الانفال
21 اور دیکھو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے (زبان سے) کہا تھا ہم نے سنا، اور واقعہ یہ تھا کہ وہ سنتے نہ تھے۔ الانفال
22 یقینا اللہ کے نزدیک سب سے بدتر حیوان وہ (انسان) ہیں جو بہرے گونگے ہوگئے جو کچھ سمجھتے نہیں۔ الانفال
23 اور اگر اللہ دیکھتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے ( یعنی ان میں فہم و قبول حق کی کچھ بھی استعداد باقی ہے) تو ضرور انہیں سنوا دیتا، اور اگر وہ انہیں سنوائے (حالانکہ وہ جانتا ہے کہ قبولیت کی استعداد کھو چکے ہیں) تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ اس سے منہ پھیر لیں گے اور وہ اس سے پھرے ہوئے ہیں۔ الانفال
24 مسلمانو اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو، جب وہ پکارتا ہے تاکہ تمہیں (روحانی موت کی حالت سے نکال کر) زندہ کردے اور جان لو کہ (بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ) اللہ (اپنے ٹھہرائے ہوئے قوانین و اسباب کے ذریعہ) انسان اور اس کے کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے وار جان لو کہ (آخر کار) اسی کے حضور جمع کیے جاؤ گے۔ الانفال
25 اور اس فتنہ سے بچتے رہو جو اگر اٹھا تو اس کی زد صرف انہی پر نہیں پڑے گی جو تم میں ظلم کرنے والے ہیں بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور جان لو کہ اللہ (بدعملیوں کی) سزا دینے میں سخت ہے۔ الانفال
26 اور وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) تمہاری تعداد بہت تھوڑی تھی اور تم ملک میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تم اس وقت ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچانک نہ لے جائیں، پھر اللہ نے تمہیں (مدینہ میں) ٹھکانا دیا، اپنی مددگاری سے قوت بخشی اور اچھی چیزیں دے کر رزق کا سامان مہیا کردیا تاکہ تم شکر گزار ہوا۔ الانفال
27 مسلمانو ایسا نہ کرو کہ اللہ اور س کے رسول کے ساتھ خیانت کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو اور تم اس بات سے ناواقف نہیں ہو۔ الانفال
28 اور یاد رکھو تمہارا مال اور تمہاری اولاد (تمہارے لیے) ایک آزمائش ہے اور یہ بھی نہ بھولو کہ اللہ ہی ہے جس کے پاس (بخشنے کے لیے) بہت بڑا اجر ہے۔ الانفال
29 مسلمانو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو (اور اس کی نافرمانی سے بچو) تو وہ تمہارے لیے (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی ایک قوت پیدا کردے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور بخش دے گا، اللہ تو بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔ الانفال
30 اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تاکہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہا تھا، اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ الانفال
31 اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ہاں ہم نے سن لیا، اگر چاہیں تو ہم بھی اس طرح کی باتیں کہہ لیں، یہ اس کے سوا کیا ہے کہ جو پہلے گزر چکے ان کی لکھی ہوئی داستانیں ہیں۔ الانفال
32 اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ (کفار مکہ نے) کہا تھا خدایا ! اگر یہ بات (یعنی پیغمبر اسلام کی دعوت) تیری جانب سے امر حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے یا ہمیں (کسی دوسرے) عذاب دردناک میں مبتلا کر۔ الانفال
33 اور اللہ ایسا کرنے والا نہ تھا کہ تو ان کے درمیان موجود ہو اور پھر انہیں عذاب میں ڈالے حالانکہ وہ معافی مانگ رہے ہوں۔ الانفال
34 لیکن (اب کہ تجھے مکہ چھوڑ دینے پر انہوں نے مجبور کردیا) کون سی بات رہ گئی ہے کہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ وہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے متولی ہونے کے لائق نہیں، اس کے متولی اگر ہوسکتے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہوسکتے ہیں جو متقی ہوں (نہ کہ مفسد و ظالم) لیکن ان میں سے اکثر کو (یہ حقیقت) معلوم نہیں۔ الانفال
35 اور خانہ میں ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ سیٹیاں بجائیں اور تالیاں پیٹیں، تو دیکھو جیسے کچھ کفر کرتے رہے ہو، اب (اس کی پاداش میں) عذاب کا مزہ چکھ لو۔ الانفال
36 جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ اپنا مال اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو خدا کی راہ سے روکیں تو یہ لوگ آئندہ بھی (اسی طرح) خرچ کریں گے لیکن پھر (وقت آئے گا کہ یہ مال خرچ کرنا) ان کے لیے سراسر پچھتاوا ہوگا اور پھر (بالاخر) مغلوب کیے جائیں گے۔ اور (یاد رکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی (اور آخر تک اس پر جمے رہے تو) وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ الانفال
37 اور یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ ناپاک (روحوں) کو پاک (روحوں سے) جدا کردے اور جو ناپاک ہیں ان میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا دے پھر سب کو (اپنی تباہ حالیوں میں) اکٹھا کردے پھر (قیامت کے دن) اس (جمع شدہ گروہ) کو دوزخ کے حوالے کردے یہی لوگ ہیں یکسر تباہ ہوجانے والے۔ الانفال
38 (اے پیغمبر) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تم ان سے کہہ دو اگر وہ (اب بھی) باز آجائیں تو جو کچھ گزر چکا معاف کردیا جائے لیکن اگر وہ پھر (ظلم و جنگ کی طرف) لوٹے تو ( اس بارے میں) پچھلوں کا طور طریقہ اور اس کا نتیجہ گزر چکا ہے (اور ہی انہیں بھی پیش آکر رہے گا) الانفال
39 اور (مسلمانو ! اب تمہارے لیے صرف یہی چارہ کار رہ گیا ہے کہ) ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ ظلم و فساد باقی نہ رہے اور دین کا سارا معاملہ اللہ ہی کے لیے ہوجائے (یعنی دین کا معاملہ خدا اور انسان کا باہمی معاملہ ہوجائے، انسان کا طلم اس میں مداخلت نہ کرسکے) پھر اگر ایسا ہو کہ وہ (جنگ سے) باز آجائیں تو جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ الانفال
40 اور اگر (صلح و درگزر کی اس آخری دعوت سے بھی) روگردانی کریں تو یاد رکھو اللہ تمہارا رفیق و کارساز ہے (اور جس کا رفیق اللہ ہو تو) کیا ہی اچھا رفیق ہے اور کیا ہی اچھا مددگار۔ الانفال
41 اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت میں ملے اس کا پانچواح حصہ اللہ کے لیے، رسول اللہ کے لیے (رسول کے) قرابت داروں کے لیے، یتیموں کے لیے، مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے نکالنا چاہے (اور بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیئے جاسکتے ہیں) اگر تم اللہ پر اور اس (غیبی مدد) پر یقین رکھتے ہو جو ہم نے فیصلہ کردینے والے دن اپنے بندے پر نازل کی تھی جبکہ دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے تو چاہیے کہ اس تقسیم پر کاربند رہو۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔ الانفال
42 یہ وہ دن تھا کہ تم ادھر قریب کے ناکے پر تھے، ادھر دشمن دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نچلے حصے میں تھا (یعنی سمندر کے کنارے نکل گیا تھا) اور اگر تم نے آپس میں لڑائی کی بات ٹھہرائی ہوتی تو ضرور میعاد سے گزیز کرتے (کیونکہ تمہیں دشمنوں کی کثرت سے اندیشہ تھا اور تم میں سے بہتوں کی نظر قافلہ پر تھی) لیکن اللہ نے دونوں لشکروں کو بھڑا دیا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے، نیز اس لیے کہ جسے ہلاک ہونا ہے اتمام حجت کے بعد ہلاکت ہو اور جو زندہ رہنے والا ہے اتمام حجت کے بعد زندہ رہے اور بلا شبہ اللہ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ الانفال
43 (اور اے پیغمبر) یہ وہ دن تھا کہ اللہ نے تجھے خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی (یعنی یہ دکھلایا کہ اگرچہ بظاہر مسلمانوں سے زیادہ ہوں گے لیکن عزم و ثبات میں تھوڑے ثابت ہوں گے) اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو (مسلمانو) تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے، اللہ نے تمہیں اس صورت حال سے بچا لیا، یقین کرو جو کچھ انسان کے سینوں میں چھپا ہوتا ہے وہ اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔ الانفال
44 اور (پھر دیکھو) جب تم دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اور اللہ نے ایسا کیا تھا کہ دشمن تمہاری نظروں میں تھوڑے دکھائی دیئے، (کیونکہ تمہارے دلوں میں ایمان و استقامت کی روح پیدا ہوگئی تھی) اور ان کی نظروں میں تم تھوڑے دکھائی دئے (کیونکہ بظاہر تعداد میں وہی زیادہ تھے) اور یہ اس لیے کیا تھا تاکہ جو بات ہونے و الی تھی اسے کر دکھائے اور سارے کاموں کا دارومدار اللہ ہی کی ذات پر ہے۔ الانفال
45 مسلمانو ! جب (حملہ آوروں کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو لڑائی میں ثابت قدم رہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ الانفال
46 اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ایسا کرو گے تو تمہاری طاقت سست پڑجائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی اور (جیسی کچھ بھی مشکلیں مصیبتیں پیش آئیں تم) صبر کرو، اللہ ان کا ساتھی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ الانفال
47 اور (دیکھو) ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے ( لڑنے کے لیے) اتراتے ہوئے اور لوگوں کی نظروں میں نمائش کرتے ہوئے نکلے اور جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کی راہ سے (اس کے بندوں کو) روکتے ہیں۔ اور (یاد رکھو) جو کچھ بھی یہ لوگ کرتے ہیں اللہ (اپنے علم و قدرت سے) اس پر چھایا ہوا ہے۔ الانفال
48 اور (پھر) جب ایسا ہوا کہ شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما کر کے دکھا دیئے تھے اور کہا تھا آج ان لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں مگر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوا اور لگا کہنے : مجھے تم سے کچھ سرور کار نہیں، مجھے وہ بات دکھائی دے رہی ہے جو تم نہیں دیکھتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ (بدعملیوں کی پاداش میں) بہت سخت سزا دینے والا ہے۔ الانفال
49 اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (ایمان کی کمزوری کا) روگ تھا کہنے لگے تھے ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے مغرور کردیا ہے، (یعنی یہ محض دین کا نشہ ہے جو انہیں مقابلے پر لے جارہا ہے ورنہ ان کے پلے ہے کیا؟ وہ نہیں جانتے تھے کہ مسلمانوں کا بھروسہ اللہ پر ہے) اور جس کسی نے اللہ پر بھروسہ کیا تو اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ الانفال
50 اور (اے مخاطب) اگر تو (اپنی آنکھوں سے) وہ حالت دیکھے جب فرشتے (ان) کافروں کی روحیں قبض کرتے اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں اب عذاب آتش کا مزہ چکھو (تو تیرا کیا حال ہو؟) الانفال
51 (اے اعدائے حق) یہ اس (بدعملی) کا نتیجہ ہے جو خود تمہارے ہی ہاتھوں نے پہلے سے ذخیرہ کردیا اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے ظلم کرنے والا ہو۔ الانفال
52 جیسا کچھ دستور فرعون کے گروہ کا اور ان (سرکشوں) کا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں رہ چکا ہے وہی تمہارا ہوا۔ اللہ کی نشانیوں سے انکار کیا، تو اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا، بلاشبہ اللہ (پاداش عمل کی) سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ الانفال
53 (اور) یہ بات اس لیے ہوئی کہ اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ کود اسی گروہ کے افراد پر اپنی حالت نہ بدل لیں اور اس لیے بھی اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔ الانفال
54 جیسا کچھ دستور فرعون کے گروہ کا اور ان (سرکشوں) کا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں رہ چکا ہے وہی تمہارا ہوا۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں جھٹلائیں تو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کر ڈالا۔ فرعون کا گروہ (سمندر میں) غرق کیا گیا تھا اور وہ سب ظلم کرنے والے تھے۔ الانفال
55 بلا شبہ اللہ کے نزدیک بدترین چار پائے وہ (انسان) ہیں جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو یہ وہ لوگ ہیں کہ کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ الانفال
56 (اے پیغمبر) جن لوگوں سے تم نے صلح کا) عہد و پیمان کیا تھا پھر انہوں نے اسے توڑا اور ایسا ہوا کہ ہر مرتبہ عہد کر کے توڑتے ہی رہے اور (بدعہدی کے وبال سے) ڈرتے نہیں۔ الانفال
57 تو (اب چاہے جیسی حالت میں انہیں پاؤ اسی کے مطابق سلوک بھی کرو) اگر تم لڑائی میں انہیں موجود پاؤ تو ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہیں (یعنی مشرکین مکہ) انہیں بھاگتے دیکھ کر خود بھی بھاگ کھڑے ہوں (اور) ہوسکتا ہے کہ عبرت پکڑیں۔ الانفال
58 اور اگر ایک گروہ (ابھی میدان جنگ میں تو دشمنوں کے ساتھ نکلا ہے لیکن اس) سے تمہیں دغا کا اندیشہ ہے تو چاہیے ان کا عہد انہی پر الٹا دو۔ (یعنی عہد فسخ کردو) اس طرح کہ دونوں جانب یکساں حالت میں ہوجائیں (یعنی ایسا نہ کیا جائے کہ اچانک شکست عہد کی انہیں خبر دی جائے بلکہ پہلے سے جتا دینا چاہیے، تاکہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر تیاری کی مہلت مل جائے) یاد رکھو اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ الانفال
59 اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی وہ خیال نہ کریں کہ بازی لے گئے، وہ کبھی (پیروان حق کو) درماندہ نہیں کرسکتے۔ الانفال
60 اور (مسلمانو) جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کر کے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اپنا سازو سامان مہیا کیے رہو کہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ کے (کلمہ حق کے) اور اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے۔ نیز ان لوگوں کے سوا اوروں پر بھی جن کی تمہیں خبر نہیں۔ اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کی تیاری میں) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا مل جائے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ تمہاری حق تلفی ہو۔ الانفال
61 اور (دیکھو) اگر (دشمن) صلح کی طرف جھکیں تو چاہیے تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور (ہر حال میں) اللہ پر بھروسہ روکھو۔ بلاشبہ وہی ہے جو (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔ الانفال
62 اور (اے پیغمبر) اگر ان کا ارادہ یہ ہوگا کہ تجھے دھوکا دیں تو (کوئی اندیشہ کی بات نہیں) اللہ کی ذات تیرے لیے کافی ہے وہی ہے جس نے اپنی مددگاری سے اور مومنوں (کی جماعت) سے تیری تائید کی۔ الانفال
63 اور وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں باہم الفت پیدا کردی، اگر تو وہ سب کچھ خرچ کر ڈالتا جو روئے زمین میں ہے جب بھی ان کے دلوں کو باہمی الفت سے نہ جوڑ سکتا۔ لیکن یہ اللہ ہے جس نے ان میں باہمی الفت پیدا کردی، بلا شبہ وہ (اپنے کاموں میں) غالب اور حکمت والا ہے۔ الانفال
64 اے پیغمبر ! اللہ تیرے لیے کفایت پیدا کرتا ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں۔ (١) الانفال
65 اے پیغمبر ! مومنوں کو لڑائی کا شوق دلا۔ (مسلمانو) اگر تم میں بیس آدمی بھی مشکلوں کو جھیل جانے والے نکل آئے تو یقین کرو وہ دو سو دشمنوں پر غالب ہو کر رہیں گے اور اگر تم میں ایسے آدمی سو ہوگئے تو سمجھ لو ہزار کافروں کو مغلوب کر رکے رہیں گے۔ اور یہ اس لیے ہوگا کہ کافروں کا گروہ ایسا گروہ ہے جس میں سمجھ بوجھ نہیں۔ الانفال
66 (مسلمانو) اب خدا نے تم پر بوجھ ہلکا کردیا، اس نے جانا کہ تم میں کمزوری ہے، اچھا اب اگر تم میں جھیل جانے والے سو آدمی ہوں گے تو (انہیں صرف اپنے سے دوگنی تعداد کا مقابلہ کرنا ہوگا، یعنی) وہ دو سو دشمنوں پر غالب رہیں گے، اور اگر ہزار ہوں گے تو سمجھو دو ہزار دشمنوں کو مغلوب کر کے رہیں گے اور (یاد رکھو) اللہ جھیل جانے والوں کا ساتھی ہے۔ الانفال
67 نبی کے لیے سزاوار نہیں کہ اس کے قبضہ میں قیدی ہوں جب تک کہ ملک میں غلبہ حاصل نہ کرلے۔ (١) (مسلمانو) تم دنیا کی متاع چاہتے ہو اور اللہ چاہتا ہے (تمہیں) آخرت (کا اجر دے) اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ الانفال
68 اگر (اس بارے میں) پہلے سے اللہ کا حکم نہ ہوگیا ہوتا تو جو کچھ تم نے (جنگ بدر میں مال غنیمت لوٹا) اس کے لیے ضرور تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ الانفال
69 بہرحال جو کچھ تمہیں غنیمت میں ہاتھ لگا ہے اسے حلال و پاکیزہ سمجھ کر اپنے کام میں لاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ الانفال
70 اے پیغمبر لڑائی کے قیدیوں میں سے جو لوگ تمہارے قبضہ میں ہیں ان سے کہہ دو اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں کچھ نیکی پائی تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے کہیں بہتر چیز تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا، وہ بڑا بخشنے والا رحمت والا ہے۔ الانفال
71 اور اگر ان لوگوں نے چاہا تمہیں دغا دیں تو (کوئی وجہ نہیں کہ تم اس اندیشہ سے اپنا طرز عمل بدل ڈالو) یہ اس سے پہلے خود اللہ کے ساتھ خیانت کرچکے ہیں اور اسی کی پاداش ہے کہ تمہیں ان پر قدرت دے دی گئی ہے اور (یاد رکھو) اللہ سب کچھ جانتا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ الانفال
72 جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مکہ کے مہاجروں کو مدینہ میں) جگہ دی اور ان کی مدد کی تو یہی لوگ ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کا کارساز و رفیق ہے اور جن لوگوں کا حال ایسا ہوا کہ ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی تو تمہارے لیے ان کی اعانت و رفاقت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک وہ اپنے وطن سے ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو بلا شبہ تم پر ان کی مددگاری لازم ہے، الا یہ کہ کسی ایسے گروہ کے مقابلہ میں مدد چاہی جائے جس سے تمہارا (صلح و امن کا) عہد وپیمان ہے ( کہ اس صورت میں تم عہد و پیمان کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتے) اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔ الانفال
73 اور (دیکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ بھی (راہ کفر میں) ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی باہمی ولایت اور بھائی چارگی کا جو حکم دیا گیا ہے اور وفائے عہد اور اعانت مسلمین کی جو تلقین کی گئی ہے اس پر کاربند نہیں رہو گے) تو ملک میں فتنہ پیدا ہوجائے گا اور بڑی ہی خرابی پھیلے گی۔ الانفال
74 (غرض کہ) جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین مکہ کو) پناہ دی اور مدد کی تو فی الحقیقت یہی (سچے) مومن ہیں، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ الانفال
75 اور جو لوگ بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں۔ (انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھو) اور (باقی رہے) قرابت دار تو وہ اللہ کے حکم میں ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں (پس باہمی بھائی چارگی میں ان کے حقوق فراموش نہ کردیے جائیں) بلا شبہ اللہ ہر بات کا علم رکھتا ہے۔ الانفال
1 (مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔ التوبہ
2 کہ چار مہینے تک ملک میں چلو پھر (کوئی روک ٹوک نہیں، اس کے بعد جنگ کی حالت قائم ہوجائے گی) اور یاد رکھو تم کبھی اللہ کو عاجز نہ کرسکو گے اور اللہ منکروں کو (پیروان حق کے ہاتھو) زلیل کرنے والا ہے۔ التوبہ
3 اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے بڑے دن عام منادی کی جاتی ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی (یعنی اب کوئی معاہدہ اللہ کے نزدیک باقی نہیں رہا اور نہ اس کا رسول کسی معاہدہ کے لیے ذمہ دار ہے) پس اگر تم (اب بھی ظلم و شرارت سے) توبہ کرلو تو تمہارے لیے اس میں بہتری ہے اور اگر نہ مانو گے تو جان رکوھ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر کی راہ چل رہے ہیں انہیں عذاب دردناک کی خوشخبری سنا دو۔ التوبہ
4 ہاں، مشرکوں میں سے وہ لوگ کہ تم نے ان سے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے ( قول قرار نباہنے میں) کسی طرح کی کمی نہیں کی اور نہ ایسا کیا کہ تمہارے مقابلہ میں کسی کی مدد کی ہو، اس حکم سے مستثنی ہیں، پس چاہیے کہ ان کے ساتھ جتنی مدت کے لیے عہد ہوا ہے اتنی مدت تک اسے پورا کیا جائے۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (ہر بات میں) متقی ہوتے ہیں۔ التوبہ
5 پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو (جنگ کی حالت قائم ہوگئی) مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو اور جہاں کہیں ملیں گرفتار کرلو، نیز ان کا محاصرہ کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر ایسا ہو کہ وہ باز آجائیں نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان سے کسی طرح کا تعرض نہ کیا جائے۔ بلا شبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
6 اور (اے پیغمبر) اگر مشرکوں میں سے کوئی آدمی آئے اور تم سے امان مانگے تو اسے ضرور امان دو، یہاں تک کہ وہ (اچھی طرح) اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے (باامن) اس کے ٹھکانے پہنچا دو، یہ بات اس لیے ضروری ہوئی کہ یہ لوگ (دعوت حق کی حقیقت کا) علم نہیں رکھتے۔ التوبہ
7 یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ (ان) مشرکوں کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عبد ہو؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب (حدیبیہ میں) عہد و پیمان باندھا تھا (اور انہوں نے اسے نہیں توڑا) تو (ان کا عہد ضرور عہد ہے اور) جب تک وہ تمہارے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہو۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (اپنے تمام کاموں میں) متقی ہوتے ہیں۔ التوبہ
8 ان مشرکوں کا عہد کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر آج تم پر غلبہ پاجائیں تو نہ تو تمہارے لیے قرابت کا پاس کریں نہ کسی عہد و پیمان کا، وہ اپنی باتوں سے تمہیں راضی کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے دلوں کا فیصلہ اس کے خلاف ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔ (یعنی راست بازی کے تمام طریقوں اور پابندیوں سے باہر ہوچکے ہیں) التوبہ
9 ان لوگوں نے اللہ کی آیتیں ایک بہت ہی حقیر قیمت پر بیچ ڈالیں (یعنی ہوائے نفس کے تابع ہوگئے اور اللہ کی آیتوں پر یقین نہیں کیا) پس اس کی راہ سے لوگوں کو روکنے لگے (افسوس ان پر) کیا ہی برا ہے جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ التوبہ
10 کسی مومن کے لیے نہ تو قرابت کا پاس کرتے ہیں نہ عہد و قرار کا، یہی لوگ ہیں کہ ظلم میں حد سے گزر گئے ہیں۔ التوبہ
11 بہرحال اگر یہ باز آئیں نماز قائم کریں زکوۃ ادا کریں تو (پھر ان کے خلاف تمہارا ہاتھ نہیں اٹھنا چاہیئے) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں تم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں۔ التوبہ
12 اور اگر یہ اپنے عہد و پیمان جو خود کرچکے ہیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین کو برا بھلا کہیں تو پھر (اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان) کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی سوگند سو گند نہیں (اور تمہیں جنگ اس لیے کرنی چاہیے) تاکہ یہ (ظلم و بد عہدی سے) باز آجائیں۔ التوبہ
13 (مسلمانو) کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں، جنہوں نے اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبے کیے اور پھر تمہاری برخلاف لڑائی میں پہلی بھی انہی کی طرف سے ہوئی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ڈرتے ہو تو تم مومن نہیں کیونکہ) اگر مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ سزا وار ہے کہ اس کا ڈر تمہارے دلوں میں بسا ہوا۔ التوبہ
14 (مسلمانو) ان سے (بلا تامل) جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوائی میں ڈالے گا، ان پر تمہیں فتح مند کرے گا اور جماعت مومنین کے دلوں کے سارے دکھ دور کردے گا۔ التوبہ
15 ان کے دلوں کی جلن باقی نہیں رہے گی، اور پھر جس پر چاہے گا اپنی رحمت سے لوٹ آئے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنی ہر بات میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
16 (مسلمانو) کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ تم اتنے ہی چھوڑ دیئے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تو اللہ نے ان لوگوں کو پوری طرح آزمائش میں ڈالا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور اللہ کے رسول اور مومنوں کو چھوڑ کر کسی کو اپنا پوشیدہ دوست نہیں بنایا ہے، (یاد رکھو) جیسے کچھ بھی تمہارے اعمال ہیں خدا ان سب کی خبر رکھنے والا ہے۔ التوبہ
17 مشرکوں کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں ایسی حالت میں کہ وہ خود اپنے کفر کا اعتراف کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے سارے عمل اکارت گئے اور وہ عذاب آتش میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ التوبہ
18 فی الحقیقت مسجدوں کو آباد کرنے والا تو وہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا، نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی اور اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہ مانا۔ جو لوگ ایسے ہیں انہی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ (سعادت و کامیابی کی) راہ پانے والے ثابت ہوں گے۔ التوبہ
19 کیا تم لوگوں نے یوں ٹھہرا رکھا ہے کہ حاجیوں کے لیے سبیل لگا دینی اور مسجد حرام کو آباد رکھنا اسی درجہ کا کام ہے جیسا اس شخص کا کام جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں اور اللہ (کا قانون ہے کہ وہ) ظلم کرنے والوں پر (کامیابی کی) راہ نہیں کھولتا۔ التوبہ
20 جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو یقینا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ التوبہ
21 ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت اور کامل خوشنودی کی بشارت دیتا ہے۔ نیز ایسے باغوں کی جہاں ان کے لیے ہمیشگی کی نعمت ہوگی۔ التوبہ
22 اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، یقینا اللہ کے پاس (نیک کرداروں کے لیے) بہت بڑا اجر ہے۔ التوبہ
23 مسلمانو ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیز رکھیں تو انہیں اپنا رفیق و کارساز نہ بناؤ، اور جو کوئی بنائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے ہیں۔ التوبہ
24 (اے پیغمبر) مسلمانوں سے کہہ دے اگر ایسا ہے کہ تمہارے باپ تمہارے بیٹے تمہارے بھائی تمہاری بیویاں تمہاری برادری تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے تمہاری تجارت جس کے مندا پڑجانے سے ڈرتے ہو، تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں اس قدر پسند ہیں یہ ساری چیزیں تمہیں اللہ سے اس کے رسول سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارہ ہیں تو (کلمہ حق تمہارا محتاج نہیں) انتطار کرو، یہاں تک کہ جو کچھ خدا کو کرنا ہے وہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ (کا مقررہ قانون ہے کہ وہ) فاسقوں پر ( کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔ التوبہ
25 (مسلمانو) یہ واقعہ ہے کہ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کرچکا ہے (جبکہ تمہیں اپنی قلت و کمزوری سے کامیابی کی امید نہ تھی) اور جنگ حنین کے موقع پر بھی جبکہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے (اور سمجھے تھے کہ محض اپنی کثرت سے میدان مار لوگے) تو دیکھو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی ساری وسعت پر بھی تمہارے لیے تنگ ہوگئی، بالآخر ایسا ہوا کہ تم میدان کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے۔ التوبہ
26 پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر اپنی جانب سے دل کا سکون و قرار نازل فرمایا اور ایسی فوجیں اتار دیں جو تمہیں نظر نہیں آئی تھیں اور (اس طرح) ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور یہی جزا ہے ان لوگوں کی جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (یعنی ان کی بدعملی کا لازمی نتیجہ یہی ہے )۔ التوبہ
27 پھر اس کے بعد اللہ جس پر چاہے گا اپنی رحمت سے لوٹ آئے گا (یعنی توبہ قبول کرلے گا) اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
28 مسلمانو ! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مشرک نجس ہیں (یعنی شرک نے ان کے دلوں کی پاکی سلب کرلی ہے) پس چاہیے کہ اب اس برس کے بعد سے (٩ ہجری کے بعد سے) مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو (ان کی آمد و رفت کے بند ہوجانے سے) فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو (کہ وہ ہر طرح کی ضروری چیزیں ہیں باہر سے لاتے اور تجارت کرتے ہیں) تو گھبراؤ نہیں، اللہ چاہے گا تو عنقریب تمہیں اپنے فضل سے تونگر کردے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
29 اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔ التوبہ
30 اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبان سے نکالی ہوئی (ورنہ سمجھ بوجھ کر کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتا) ان لوگوں نے بھی انہی کی سی بات کہی جو ان سے پہلے کفر کی راہ اختیار کرچکے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ! یہ کدھر کو بھٹکے جارہے ہیں۔ التوبہ
31 ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علما اور مشائخ کو پروردگار بنا لیا، اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی، حالانکہ انہیں جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک خدا کی بندگی کرو، کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی، اس کی پاکی ہو اس ساجھی سے، جو یہ اس کی ذات میں لگا رہے ہیں۔ التوبہ
32 یہ لوگ چاہتے ہیں اللہ کی روشنی اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کیے بغیر رہنے والا نہیں اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے۔ التوبہ
33 (ہاں) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو حقیقی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام (ٹھہرائے ہوئے) دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو ایسا ہونا پسند نہ آئے۔ التوبہ
34 مسلمانو ! یاد رکھو (یہودیوں اور عیسائیوں کے) علما اور مشائخ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لوگوں کا مال ناحق و ناروا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے انہیں روکتے ہیں اور جو لوگ چاندی سونا اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے، تو ایسے لوگوں کو عذاب دردناک کی خوش خبری سنا دو۔ التوبہ
35 عذاب دردناک کا وہ دن جبکہ (ان کا جمع کیا ہوا) سونے چاندی کا ڈھیر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کے ماتھے، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور اس وقت کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کیا تھا، سو جو کچھ ذخیرہ کر کے جمع کرتے رہے اس کا مزہ آج چکھ لو۔ التوبہ
36 اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے کی ہے۔ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں کو اور زمین کو اس نے پیدا کیا (یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے) ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت کے مہینے ہوئے (یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم کہ امن کے مہینے سمجھے جاتے تھے اور لڑائی ممنوع تھی) دین کی سیدھی راہ یہ ہے۔ پس ان حرمت کے مہینوں میں (جنگ و خوں ریزی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور چاہیے کہ تمام مشرکوں سے بلا استثنا جنگ کرو جس طرح وہ تم سے بلا استثنا جنگ کرتے ہیں اور (ساتھ ہی) یاد رکھو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (ہرحال میں) تقوی والے ہیں۔ التوبہ
37 نسی (یعنی مہینے کو اس کی جگہ سے پیچھے ہٹا دینا جیسا کہ جاہلیت میں دستور ہوگیا تھا) اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کفر میں کچھ اور بڑھ جانا ہے۔ اس سے کافر گمراہی میں پڑتے ہیں۔ ایک ہی مہینے کو ایک برس حلال سمجھ لیتے ہیں (یعنی اس میں لڑائی جائز کردیتے ہیں) اور پھر اسی کو دوسرے برس حرام کردیتے ہیں (یعنی اس میں لڑائی ناجائز کردیتے ہیں) تاکہ اللہ نے حرمت کے مہینوں کی جو گنتی رکھی ہے اسے اپنی گنتی سے مطابق کر کے اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال کرلیں، ان کی نگاہوں میں ان کے برے کام خوشنما ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور اللہ (کا قانون ہے کہ وہ) منکرین حق پر (کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔ التوبہ
38 مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں قدم اٹھاؤ تو تمہارے پاؤں بوجھ ہو کر زمین پکڑ لیتے ہیں کیا آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کی زندگی ہی پر ریجھ گئے ہو؟ (اگر ایسا ہی ہے) تو (یاد رکھو) دنیا کی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے مگر بہت تھوڑی۔ التوبہ
39 اگر قدم نہ اٹھاؤ گے تو یاد رکھو وہ تمہیں ایک ایسے عذاب میں ڈالے گا جو دردناک ہوگا اور تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لاکھڑا کرے گا اور تم (دفاع سے غافل ہوکر) اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے (اپنا ہی نقصان کرو گے) اور اللہ تو ہر بات پر قادر ہے۔ التوبہ
40 اگر تم اللہ کے رسول کی مدد نہیں کرو گے تو (نہ کرو) اللہ نے اس کی مدد کی ہے اور اس وقت کی ہے جب کافروں نے اسے اس حال میں گھر سے نکالا تھا کہ (صرف دو آدمی تھے اور) دو میں دوسرا (اللہ کا رسول) تھا اور دونوں غار (ثور) میں چھپے بیٹھے تھے۔ اس وقت اللہ کے رسول نے اپنے ساتھی سے کہا تھا غمگین نہ ہو یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے (وہ دشمنوں کو ہم پر قابو پانے نہ دے گا) پس اللہ نے اپنا سکون و قرار اس پر نازل کیا اور پھر ایسی فوجوں سے مددگاری کی جنہیں تم نہیں دیکھتے اور بالآخر کافروں کی بات پست کی اور (تم دیکھ رہے ہو کہ) اللہ ہی کی بات ہے جس کے لیے بلندی ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ التوبہ
41 (مسلمانو ! سازو سامان کے بوجھ سے) ہلکے ہو یا بوجھل جس حال میں ہو نکل کھڑے ہو (کہ دفاع کے لیے تمہیں بلایا جارہا ہے) اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اگر تم (اپنا نفع نقصان) جانتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ التوبہ
42 (اے پیغبر) اگر تمہارا بلاوا کسی ایسی بات کے لیے ہوتا جس میں قریبی فائدہ نظر آتا اور ایسے سفر کے جو آسان ہوتا تو (یہ منافق) بلا تامل تمہارے پیچھے ہو لیتے۔ لیکن انہیں راہ دور کی دکھائی دی (اس لیے جی چرانے لگے) اور (تم دیکھو گے کہ یہ) قسمیں کھا کر (مسلمانوں سے) کہیں گے اگر ہم مقدور رکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ (افسوس ان پر) یہ (قسمیں کھا کر) اپنے کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ قطعا جھوٹے ہیں۔ التوبہ
43 (اے پیغمبر) اللہ تجھے بخشے ! تو نے ایسا کیوں کیا کہ (ان کی منافقانہ عذر دارویوں پر) انہیں (پیچھے رہ جانے کی) رخصت دے دی؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں؟ التوبہ
44 جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی تجھ سے اجازت کے طلبگار نہ ہوں گے کہ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے (اللہ کی راہ میں) جہاد کریں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ کون متقی ہیں۔ التوبہ
45 تجھ سے اجازت طلب کرنے والے تو وہی ہیں جو (فی الحقیقت) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑگئے ہیں تو اپنے شک کی حالت میں متردد ہو رہے ہیں۔ التوبہ
46 اور اگر واقعی ان لوگوں نے نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ سروسامان کی تیاری ضرور کرتے مگر (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا، پس انہیں بوجھل کردیا اور ان سے کہا گیا (یعنی ان کے بوجھ پنے نے کہا) دوسرے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ تم بھی بیٹھے رہو۔ التوبہ
47 اگر یہ تم مسلمانوں میں (گھل مل کے) نکلتے تو تمہارے اندر کچھ زیادہ نہ کرتے مگر (ہر طرح کی) خرابی اور ضرور تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کے گھوڑے دوڑاتے (کہ ادھر کی بات ادھر لگاتے، ادھر کی ادھر) اور تم جانتے ہو کہ تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی بات پر کان دھرنے والے ہیں (پس ظاہر ہے کہ ان کی موجودگی سے بجز فتنہ و فساد کے کچھ حاصل نہ ہوتا) اور اللہ جانتا ہے کون ظلم کرنے والے ہیں۔ التوبہ
48 (اے پیغمبر) یہ واقعہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوششیں کیں اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں الٹ پلٹ کر آزمائیں (چنانچہ جنگ احد میں انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی تھی) یہاں تک کہ سچائی نمایاں ہوگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور ایسا ہونا ان کے لیے خوشگوار نہ تھا۔ التوبہ
49 اور ان (منافقوں) میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : مجھے اجازت دیجیے (کہ گھر میں بیٹھا رہوں) اور فتنہ میں نہ ڈالیے تو سن رکھو یہ لوگ فتنہ ہی میں گر پڑے (کہ جھوٹے بہانے بنا کر خدا کی راہ سے منہ موڑا، اور فتنہ یہی فتنہ ہے، نہ کہ وہ وہمی فتنہ جو ان کے نفاق نے گھڑ لیا ہے) اور بلا شبہ دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ التوبہ
50 (اے پیغمبر) اگر تمہیں کوئی اچھی بات پیش آجائے تو وہ انہیں (یعنی منافقوں کو) بری لگے اور اگر کوئی مصیبت پیش آجائے تو کہنے لگیں : اسی خیال سے ہم نے پہلے ہی اپنے لیے مصلحت بینی کرلی تھی، اور پھر گردن موڑ کے خوش خوش چل دیں۔ التوبہ
51 کہہ دو ہمیں کچھ نہیں پیش آسکتا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے (اپنی کتاب میں) لکھ دیا ہے، وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر (ہر طرح کا) بھروسہ رکھیں (اس کے سوا بھروسے کا سہارا کوئی نہیں) التوبہ
52 (اے پیغمبر تم ان سے) کہو : تم ہمارے لیے جس بات کا انتظار کرتے ہو (یعنی جنگ میں قتل ہوجانے کا) وہ ہمارے لیے اس کے سوا کیا ہے کہ دو خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے (یعنی فتح اور شہادت میں سے شہادت) اور ہم تمہارے لیے جس بات کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ اپنے یہاں سے کوئی عذاب بھیج دے یا ہمارے ہی ہاتھوں عذاب دلائی۔ تو اب (نتیجہ کا) انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں۔ التوبہ
53 (اور) کہو : تم (بظاہر) خوشی سے (راہ حق میں) خرچ کرو یا ناخوش ہوکر، تمہارا خرچ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم ایک ایسے گروہ ہوگئے جو (احکام الہی سے) نافرمان ہے۔ التوبہ
54 اور خرچ کرنے کی قبولیت سے وہ محروم نہیں کیے گئے مگر اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے انکار کیا (اگرچہ وہ ایمان کے دعوے میں کسی سے پیچھے نہیں) وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر کاہلی کے ساتھ، اور (راہ حق میں) مال خرچ نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ خرچ کرنے کی ناگواری ان کے دلوں میں بسی ہوئی ہے۔ التوبہ
55 تو (دیکھو) یہ بات کہ ان لوگوں کے پاس مال و دولت ہے اور صاحب اولاد ہیں تمہیں متعجب نہ کرے، یہ تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ نے مال و اولاد ہی کی راہ سے انہیں دنیوی زندگی میں عذاب دینا چاہا ہے (کہ نفاق و بخل کی وجہ سے مال کا غم و بال جان ہورہا ہے اور اولاد کو اپنے سے برگشتہ اور اسلام میں ثابت قدم دیکھ کر شب و روز جل رہے ہیں) اور (باقی رہا آخرت کا معاملہ تو) ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں گی کہ ایمان سے محروم ہوں گے۔ التوبہ
56 اور (دیکھو) اللہ کی قسمیں کھا کر (تمہیں) یقین دلاتے ہیں کہ وہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ ایک گروہ ہے ڈرا سہما ہوا۔ التوبہ
57 (ان کے دلوں کے خوف و نفرت کا یہ حال ہے کہ) اگر انہیں پناہ کی کوئی جگہ مل جائے یا کوئی غار یا کوئ اور چھپ بیٹھنے کا سوراخ تو تم دیکھو کہ یہ فورا اس کا رخ کریں اور حالت یہ ہو کہ گویا رسی توڑ کر بھاگے جارہے ہیں۔ التوبہ
58 اور ان میں کچھ ایسے ہیں کہ مال زکوۃ بانٹنے میں تجھ پر عیب لگاتے ہیں (کہ تو لوگوں کی رعایت کرتا ہے) پھر حالت کی یہ ہے کہ اگر انہیں اس میں سے چیا جائے تو خوش ہوجائیں نہ دیا جائے تو بس اچانک بگڑ بیٹھیں۔ التوبہ
59 اور (کیا اچھا ہوتا) اگر ایسا ہوتا کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں دے دیا اس پر رضا مند ہوجاتے اور کہتے ہمارے لیے اللہ بس کرتا ہے۔ اللہ اپنے فضل سے ہمیں (بہت کچھ) عطا فرمائے گا اور اس کا رسول بھی (عطا و بخشش میں کمی کرنے والا نہیں) ہمارے لیے تو بس اللہ ہی غایت و مقصود ہے۔ التوبہ
60 صدقہ کا مال (یعنی مال زکوۃ) تو اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ صرف فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں، اور وہ کہ ان کے دلوں میں (کلمہ حق کی) الفت پیدا کرنی ہے۔ اور وہ کہ ان کی گردنیں (غلامی کی زنجیروں میں) جکڑی ہیں (اور انہیں آزاد کروانا ہے) نیز قرض داروں کے لیے (جو قرض کے بوجھ سے دب گئے ہوں، اور ادا کرنے کی طاقت نہ رکھیں) اور اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لیے اور ان تمام کاموں کے لیے جو مثل جہاد کے اعلائے کلمہ حق کے لیے ہوں) اور مسافروں کے لیے (جو اپنے گھر نہ پہنچ سکتے ہوں اور مفلسی کی حالت میں پڑگئے ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام حکموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
61 اور انہی (منافقوں) میں (وہ لوگ بھی) ہیں جو اللہ کے نبی کو (اپنی بدگوئی سے) اذیت پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص تو بہت سننے والا ہے (یعنی کان کا کچا ہے، جو بات کسی نے کہہ دی اس نے مان لی، اے پیغمبر) تم کہو ہاں وہ بہت سننے والا ہے مگر تمہاری بہتری کے لیے (کیونکہ وہ بجز حق کے کوئی بات قبول نہیں کرتا) وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے (اس لیے اللہ جو کچھ اسے سناتا ہے اس پر اسے یقین ہے) اور وہ (سچے) مومنوں کی بات پر بھی یقین رکھتا ہے (جن کی سچائی ہر طرح کے امتحانوں میں پڑ کر کھری ثابت ہوچکی ہے) اور وہ ان لوگوں کے سرتا سر رحمت ہے۔ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے ان کے لیے عذاب ہے عذاب دردناک۔ التوبہ
62 (مسلمانو) یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کرلیں، حالانکہ اگر یہ واقعی مومن ہوتے تو سمجھتے کہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اسے (اپنے ایمان و عمل سے) راضی رکھیں۔ التوبہ
63 کیا (ابھی تک) انہوں نے یہ بات (بھی) نہ جانی کی جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے، ہمیشہ اس میں جلے گا؟ اور یہ بہت ہی بڑی رسوائی ہے (جو کسی انسان کے حصے میں آسکتی ہے؟) التوبہ
64 منافق اس بات سے (بھی) ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کے بارے میں کوئی سورت نازل ہوجائے اور جو کچھ ان کے دلوں میں (چھپا) ہے وہ انہیں (علانیہ) جتا دے (تو اے پیغمبر) تم ان سے کہہ دو : تم (اپنی عادت کے مطابق) تمسخر کرتے رہو۔ یقینا اللہ اب وہ بات (پوشیدگی سے) نکال کر ظاہر کردینے والا ہے جس کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے۔ التوبہ
65 اور اگر تم ان لوگوں سے پوچھو (ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟) تو یہ ضرور جواب میں کہیں ہم نے تو یونہی جی بہلانے کو ایک بات چھیڑ دی تھی اور ہنسی مذاق کرتے تھے تم (ان سے) کہو کیا تم اللہ کے ساتھ اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہو؟ التوبہ
66 بہانے نہ بناؤ حقیقت یہ ہے کہ تم نے ایمان کا اقرار کر کے پھر کفر کیا، اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو (اس کے عدم اصرار اور توبہ و انابت کی وجہ سے) معاف بھی کردیں تاہم ایک گروہ کو ضرور عذاب دیں گے، اس لیے کہ (اصل میں) وہی مجرم تھے۔ التوبہ
67 منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم جنس، برائی کا حکم دیتے ہیں اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور (راہ حق میں خرچ کرنے سے) اپنی مٹھیاں بند رکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بھی اللہ کے حضور بھلا دیئے گئے (یعنی جو اس کی طرف سے غافل ہوجاتا ہے اس کے قوانین فضل و سعادت بھی اسے بھلا کر چھوڑ دیتے ہیں) بلا شبہ یہ منافق ہی ہیں جو (دائرہ حق سے) باہر ہوگئے ہیں۔ التوبہ
68 منافق مردوں اور منافق عورتوں کے لیے اور (کھلے) منکروں کے لیے اللہ کی طرف سے دوزخ کی آگ کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور وہی انہیں بس کرتی ہیں، نیز اللہ نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے عذاب ہے، ایسا عذاب کہ برقرار رہے گا۔ التوبہ
69 (منافقو ! تمہارا بھی وہی حال ہوا) جیسا ان لوگوں کا حال تھا کہ تم سے پہلے گزر چکے ہیں، وہ تم سے کہیں زیادہ قوت والے تھے اور مال و اولاد بھی تم سے زیادہ رکھتے تھے۔ پس ان کے حصے میں جو کچھ دنیا کے فوائد آئے وہ برت گئے، تم نے بھی اپنے حصہ کا فائدہ اسی طرح برت لیا جس طرح انہوں نے برتا تھا اور جس طرح (ہر طرح کی باطل پرستی کی) باتیں وہ کر گئے تم نے بھی کرلیں (پس یہ نہ بھولو کہ) یہی لوگ تھے جن کے سارے کام دنیا و آخرت میں اکارت ہوئے اور یہی ہیں گھاٹے ٹوٹے میں رہنے والے۔ التوبہ
70 کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں ملی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم اور مدین کے لو اور وہ کہ ان کی بستیاں الٹ دی گئی تھیں؟ ان سب کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے (مگر وہ اندھے پن سے باز نہ آئے) اور ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ التوبہ
71 اور جو مرد اور عورتیں مومن ہیں تو وہ سب ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں نماز قائم رکھتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور (ہرحال میں) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحمت فرمائے گا، یقینا اللہ سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
72 مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے اللہ کی طرف سے (نعیم ابدی کے) باغوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی (اور وہ اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، نیز ان کے لیے ہمیشگی کے باغوں میں پاک مسکن ہوں گے اور ان سب سے بڑح کر (نعمت یہ کہ) اللہ کی خوشنودیوں کا ان پر نزول ہوگا۔ التوبہ
73 اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں دونوں سے جہاد کر اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آ (کیونکہ کافروں کی عہد شکنیاں اور منافقوں کا عذر فریب اب آخری درجہ تک پہنچ چک ہے) بالآخر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (اور جس کا آخری ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری پہنچنے کی جگہ ہے۔ التوبہ
74 یہ (منافق) اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کہا اور واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ضرور کفر کی بات کہی، وہ اسلام قبول کر کے پھر کفر کی چال چلے اور اس بات کا منصوبہ باندھا جو نہ پاسکے، انہوں نے انتقام نہیں لیا مگر اس بات کا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے (مال غنیمت دے دے کر) توانگر کردیا ہے۔ بہرحال اگر یہ لوگ اب بھی باز آجائیں تو ان کے لیے بہتر ہے اور اگر گردن موڑیں تو پھر یاد رکھیں اللہ ضرور انہیں دنیا اور آخرت میں عذاب دردناک دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہونے والا ہے نہ مددگار۔ التوبہ
75 اور (دیکھو) ان میں (کچھ لوگ) ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں (مال و دولت) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ضرور نیکی کی زندگی بسر کریں گے۔ التوبہ
76 پھر جب ایسا ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے ( مال) عطا فرمایا تو اس میں کنجوسی کرنے لگے اور اپنے عہد سے پھر گئے اور حقیقت یہ ہے کہ (نیکی کی طرف سے) ان کے دل ہی پھرے ہوئے ہیں۔ التوبہ
77 پس اس بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دلوں میں نفاق (کا روگ) دائمی ہوگیا اس وقت تک کے لیے کہ یہ اللہ سے ملیں (یعنی قیامت تک دور ہونے والا نہیں ٌ) اور یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا اسے (جان بوجھ کر) پورا نہیں کیا اور نیز دروغ گوئی کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے ہیں۔ التوبہ
78 (افسوس ان پر) کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ ان کے بھیدوں اور سرگوشیوں سے واقف ہے اور یہ کہ غیب کی کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں؟ التوبہ
79 جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خوش دلی سے خیرات کرنے والے منومنوں پر (ریا کاری کا) عیب لگاتے ہیں اور جن مومنوں کو اپنی محنت مشقت کی کمائی کے سوا اور کچھ میسر نہیں (اور اسمیں سے بھی جتنا نکال سکتے ہیں راہ حق میں خرچ کردیتے ہیں) ان پر تمسخر کرنے لگتے ہیں تو (انہیں معلوم ہوجائے کہ) دراصل اللہ کی طرف سے خود ان پر تمسخر ہورہا ہے (کہ ذلت و نامرادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں) اور (آخرت میں) ان کے لیے عذاب دردناک ہے۔ التوبہ
80 (اے پیغمبر) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو (اب ان کی بخشش ہونے والی نہیں) تم اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو (یعنی سینکڑوں مرتبہ ہی دعا کیوں نہ کرو) جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا، یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ (کا مقررہ قانون یہ ہے کہ) وہ دائرہ ہدایت سے نکل جانے والوں پر (کامیابی و سعادت کی) راہ کبھی نہیں کھولتا۔ التوبہ
81 جو (منافق جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور) پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہ اس بات پر خوش ہوئے کہ اللہ کے رسول کی خواہش کے خلاف اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں یہ بات ناگوار ہوئی کہ اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا تھا اس گرمی میں (گھر کا آرام چھوڑ کر) کوچ نہ کرو۔ (اے پیغمبر) تم کہو دوزخ کی آگ کی گرمی تو (اس سے) کہیں زیادہ گرم ہوگی اگر انہوں نے سمجھا ہوتا (تو کبھی اپنی اس حالت پر خوش نہ ہوتے) التوبہ
82 اچھا یہ تھوڑا سا ہنس لیں، پھر انہیں اپنی ان بدعملیوں کی پاداش میں بہت کچھ رونا ہے جو یہ کماتے رہے ہیں۔ التوبہ
83 تو (دیکھو) اگر اللہ نے تمہیں ان کے کسی گروہ کی طرف (صحیح سلامت) لوٹا دیا اور پھر (کسی موقع پر) انہوں نے ( جہاد میں) نکلنے کی اجازت مانگی تو اس وقت تم کہہ دینا نہ تو تم میرے ساتھ کبھی نکلو اور نہ کبھی میرے ساتھ ہو کر دشمن سے لڑو، تم نے پہلی مرتبہ بیٹھ رہنا پسند کیا تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ (گھروں میں) بیٹھے رہو۔ التوبہ
84 اور (اے پیغبر) ان میں سے کوئی مرجائے تو تم کبھی اس کے جنازہ پر (اب) نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے رہنا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حالت میں مرے کہ (دائرہ) ہدایت سے باہر تھے۔ التوبہ
85 اور (دیکھو) ان کے مال اور ان کی اولاد پر تمہیں تعجب نہ ہو، اس یہ کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ چاہتا ہے مال و اولاد کے ذریعہ انہیں عذاب دے ( یعنی ایسے لوگوں کے لیے اس کا مقررہ قانون حیات ایسا ہی ہے) اور ان کی جان اس حالت میں نکلے کہ سچائی کے منکر ہوں۔ التوبہ
86 اور (اے پیغمبر) جب کوئی (قرآن کی) سورت اس بارے میں اترتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو کر جہاد کرو تو لوگ ان میں مقدور والے ہیں وہی تجھ سے رخصت مانگنے لگتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجیے، گھر میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہیں۔ التوبہ
87 انہوں نے پسند کیا کہ پیچھے رہ جانے والیوں کے ساتھ رہیں، (یعنی مرد ہو کر جنگ کے وقت عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہیں) اور ان کے دلوں پر مہر لگ گئی پس یہ کچھ سمجھتے نہیں۔ التوبہ
88 لیکن اللہ کے رسول نے اور انہوں نے جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے (راہ حق میں) جہاد کیا (اور ان کی منافقانہ چالیں کچھ بھی نہ کرسکیں) یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے نیکیاں ہیں اور یہی ہیں کہ کامیاب ہوئے۔ التوبہ
89 اللہ نے ان کے لیے (نعیم ابدی کے) ایسے باغ تیار کردیئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) یہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، اور یہ ہے بہت بڑی فیروز مندی (جو ان کے حصے میں آئی) التوبہ
90 اور (اے پیغمبر) اعرابیوں میں سے (یعنی عرب کے صحرائی بدوں میں سے) عذر کرنے والے تمہارے پاس آئے کہ انہیں بھی (رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور (ان میں سے) جن لوگوں نے اظہار اسلام کر کے) اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، سو معلوم ہوا کہ ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہیں عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا۔ التوبہ
91 ناتوانوں پر بیماروں پر اور ایسے لوگوں پر جنہیں خرچ کے لیے کچھ میسر نہیں کچھ گناہ نہیں ہے (اگر وہ دفاع میں شریک نہ ہوں) بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں کوشاں رہیں (کیونکہ ایسے لوگ نیک عملی کے دائرے سے الگ نہیں ہوئے اور) نیک عملوں پر الزام کی کوئی وجہ نہیں، اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
92 اور نہ ان لوگوں پر کچھ گناہ ہے جن کا حال یہ تھا کہ (خود سواری کی مقدرت نہیں رکھتے تھے اس لیے) تیرے پاس آئے کہ ان کے لیے سواری بہم پہنچا دے اور جب تو نے کہا میں تمہارے لیے کوئی سواری نہیں پاتا تو (بے بس ہوکر) لوٹ گئے لیکن ان کی آنکھیں اس غم میں اشکبار ہورہی تھیں کہ افسوس ہمیں میسر نہیں کہ اس راہ میں کچھ خرچ کریں۔ التوبہ
93 الزام تو دراصل ان پر ہے جو تجھ سے (بیٹھے رہنے کی) اجازت مانگتے ہیں حالانکہ مالدار ہیں، انہوں نے پسند کیا کہ (جب سب لوگ راہ حق میں کوچ کر رہے ہوں تو یہ) گھروں میں رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ رہیں (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، پس جانتے بوجھتے نہیں۔ التوبہ
94 جب تم (جہاد سے لوٹ کر) ان کے پاس واپس جاؤ گے تو وہ آئیں گے اور تمہارے سامنے (طرح طرح کی) معذرتیں کریں گے۔ (اے پیغمبر) تمہیں چاہیے (اس وقت) کہہ دو معذرت کی باتیں نہ بناؤ، اب ہم تمہارا اعتبار کرنے والے نہیں، اللہ نے ہمیں پوری طرح تمہارا حال بتلا دیا ہے، اب آئندہ اللہ اور اس کا رسول دیکھے گا تمہارا عمل کیسا رہتا ہے (نفاق پر مصر رہتے ہو یا باز آتے ہو) اور پھر (بالآخر) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ظاہر و پوشیدہ ہر طرح کی باتیں جاننے والا ہے، پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ ( دنیا میں) کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ التوبہ
95 جب تم لوٹ کر ان سے ملو گے تو ضرور یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ ان سے درگزر کرو، سو چاہیے کہ تم ان سے درگزر ہی کرلو (یعنی رخ پھیر لو) یہ ناپاک ہیں، ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اس کمائی کا نتیجہ جو یہ (اپنی بدعملیوں سے) کماتے رہے۔ التوبہ
96 یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ ان سے راضی ہوجاؤ، سو (یاد رکھو) اگر تم راضی بھی ہوگئے (حالانکہ تمہیں راضی نہیں ہونا چاہیے اور تم راضی نہ ہو گے) تو اللہ ان سے کبھی راضی ہونے والا نہیں جو (دائرہ ہدایت سے) باہر ہوگئے ہیں۔ التوبہ
97 اعرابی کفر اور نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی نسبت سمجھا جائے دین کے ان حکموں کی انہیں خبر نہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیے ہیں (کیونکہ آبادیوں میں نہ رہنے کی وجہ سے تعلیم و تربیت کا موقع انہیں حاصل نہی) اور اللہ (سب کا حال) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
98 اور اعرابیوں ہی میں ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے (اپنے اوپر) جرمانہ سمجھتے ہیں اور منتظر ہیں کہ تم پر کوئی گردش آجائے (تو الٹ پڑیں) حقیقت یہ ہے کہ بری گردش کے دن خود انہی پر آنے والے ہیں اور اللہ (سب کچھ) سننے والا (سب کچھ) جاننے والا ہے۔ التوبہ
99 اور (ہاں) اعرابیوں ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقریب اور رسول کی دعاؤں کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ تو سن رکھو کہ فی الحقیقت وہ ان کے لیے موجب تقریب ہی ہے، اللہ انہیں اپنی رحمت کے دائرہ میں داخل کرے گا، بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔ التوبہ
100 اور مہاجرین اور انصار میں جو لوگ سبقت کرنے والے سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی تو اللہ ان سے خوشنود ہو وہ اللہ سے خوشنود ہوئے، اور اللہ نے ان کے لیے (نعیم ابدی کے) باغ تیار کردیئے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور اس لیے وہ خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ اس (نعمت و سرور کی زندگی) میں رہیں گے اور یہ ہے بہت بڑی فیروز مندی۔ التوبہ
101 اور ان اعرابیوں میں جو تمہارے آس پاس بستے ہیں کچھ منافق ہیں اور خود مدینہ کے باشندوں میں بھی جو نفاق میں (رہتے رہتے) مشاق ہوگئے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں، ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر اس عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے تو بہت ہی بڑا عذاب ہے۔ التوبہ
102 اور دوسرے لوگ (وہ ہیں) جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، انہوں نے ملے جلے کام کیے، کچھ اچھے کچھ برے تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ ان پر (اپنی رحمت سے) لوٹ آئے، اللہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔ التوبہ
103 (اے پیغمبر) ان لوگوں کے مال سے صدقات قبول کرلو، تم قبول کر کے انہیں (بخل و طمع کی برائیوں سے) پاک اور (دل کی نیکیوں کی ترقی سے) تربیت یافتہ کردو، نیز ان کے لیے دعائے خیر کرو، بلا شبہ تمہاری دعا ان کے دلوں کے لیے راحت و سکون ہے، اور اللہ (دعائیں) سننے والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔ التوبہ
104 کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور جو کچھ بطور خیرات کے نکالیں اسے منظور کرلیتا ہے؟ اور یہ کہ اللہ ہی ہے زیادہ سے زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بڑی ہی رحمت والا؟ التوبہ
105 اور (اے پیغمبر) تم کہو عمل کیے جاؤ، اب اللہ دیکھے گا کہ تمہارے عمل کیسے ہوتے ہیں اور اللہ کا رسول بھی دیھکے گا اور مسلمان بھی دیکھیں گے اور (پھر) تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے جس کے علم سے نہ تو کوئی ظاہر بات پوشیدہ ہے نہ کوئی چھپی بات، پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ جو کچھ کرتے رہے ہو اس کی حقیقت کیا تھی۔ التوبہ
106 اور (پچھلے تائب گروہ کے علاوہ) کچھ اور لوگ ہیں، جن کا معاملہ اس انتظار میں کہ اللہ کا حکم کیا ہوتا ہے، ملتوی ہوگیا ہے۔ وہ انہیں عذاب دے یا (اپنی رحمت سے) ان پر لوٹ آئے (اسی کے ہاتھ ہے) اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
107 اور (منافقوں میں وہ وہ لوگ بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنا کر کھڑی کی کہ نقصان پہنچائیں، کفر کریں، مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور ان لوگوں کے لیے ایک کمیں گاہ پیدا کردیں جو اب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑ چکے ہیں، وہ ضرور قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہمارا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ بھلائی ہو، لیکن اللہ کی گواہی یہ ہے کہ وہ اپنی قسموں میں قطعا جھوٹے ہیں۔ التوبہ
108 (اے پیغمبر) تم کبھی اس مسجد میں کھڑے نہ ہونا، اس بات کی کہ تم اس میں کھڑے ہو (اور بندگان الہی تمہارے پیچھے نماز پڑھیں) وہی مسجد حقدار ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے (یعنی مسجد قبا اور مسجد نبوی) اس میں ایسے لوگ (آتے) ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ پاک و صاف رہیں اور اللہ (بھی) پاک و صاف رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ التوبہ
109 کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر رکھی (جو کبھی ہلنے والی نہیں) یا وہ جس نے ایک کھائی کے گرتے ہوئے کنارے پر اپنی عمارت کی بنیاد رکھی اور وہ مع اپنے مکین کے آتش دوزخ (کے گھڑے) میں جاگری؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انہیں (کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں دکھاتا جو ظلم کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ التوبہ
110 یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے (یعنی مسجد ضرار) ہمیشہ ان کے دلوں کو شک و شبہ سے مضطرب رکھے گی۔ (یہ کانٹا نکلنے والا نہیں) مگر یہ کہ ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں (کیونکہ یہ ان کے نفاق کی ایک بہت بڑی شرارت تھی جو چلی نہیں اس لیے ہمیشہ اس کی وجہ سے خوف و ہراس کی حالت میں رہیں گے) اور اللہ سب کا حال جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
111 بلاشبہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لیں اور ان کا مال بھی، اور اس قیمت پر خرید لیں کہ ان کے لیے بہشت (کی جاودانی زندگی) ہو، وہ (کسی دنیوی مقصد کی راہ میں نہیں بلکہ) اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں، یہ وعدہ اللہ کے ذمہ ہوچکا (یعنی اس نے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا) تورات انجیل اور قرآن (تینوں کتابوں) میں (یکساں طور پر) اس کا اعلان ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنا عہد پورا کرنے والا ہو؟ پس (مسلمانو) اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکایا خوشیاں مناؤ اور یہی ہے جو بڑی سی بڑی فیروز مندی ہے۔ التوبہ
112 (ان لوگوں کے اوصاف و اعمال کا یہ حال ہے کہ) (اپنی لغزشوں اور خطاؤں سے) توبہ کرنے والے، عبادت میں سرگرم رہنے والے، اللہ کی حمد و ثنا کرنے والے، سیر و سیاحت کرنے والے، رکوع و سجود میں جھکنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اے پیغبر ! یہی سچے مومن ہیں) اور مومنوں کو) کامیابی و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔ التوبہ
113 پیغمبر کو اور ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ایسا کرنا سزاوار نہیں کہ جب واضح ہوگیا یہ لوگ دوزخی ہیں تو پھر مشرکیوں کی بخشائش کے طلبگار ہوں اگرچہ وہ ان کے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔ التوبہ
114 اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشائش کی آرزو کی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ اپنا وعدہ پورا کردے جو وہ اس سے کرچکا تھا (یعنی اس نے کہا تھا میرے بس میں اور تو کچھ نہیں، دعا ہے تو اس سے بارز نہیں رہوں گا) لیکن جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ (کی سچائی) کا دشمن ہے (اور کبھی حق کی راہ اختیار کرنے والا نہیں) تو اس سے بیزار ہوگیا۔ بلاشبہ ابراہیم بڑا ہی دردمند بڑا ہی بردبار (انسان) تھا۔ التوبہ
115 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ ایک گروہ کو ہدایت دے کر پھر گمراہ قرار دے تاوقیتکہ ان پر وہ ساری باتیں واضح نہ کرے جن سے انہیں بچنا چاہیے، بلا شبہ اللہ کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔ التوبہ
116 بلاشبہ آسمان اور زمین کی (ساری) پادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے (سب کچھ اسی کے قبضہ میں ہے) اور (مسلمانو) اس کے سوا نہ تو تمہارا کوئی رفیق و کارساز ہے نہ مددگار۔ التوبہ
117 یقینا اللہ اپنی رحمت سے پیغمبر پر متوجہ ہوگیا، نیز مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے بڑی تنگی اور بے سروسامانی کی گھڑی میں اس کے پیچھے قدم اٹھایا اور اس وقت اٹھایا جبکہ حالت ایسی ہوچکی تھی کہ قریب تھا ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں، پھر وہ اپنی رحمت سے ان سب پر متوجہ ہوگیا۔ بلاشبہ وہ شفقت رکھنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔ التوبہ
118 اور (اسی طرح) ان تین شخصوں پر بھی (اس کی رحمت لوٹ آئی) جو (معلق حالت میں) چھوڑ دیئے گئے تھے (اور اس وقت لوٹ آئی) جبکہ زمین اپنی ساری وسعت پر بھی ان کے لیے تنگ ہوگئی تھی، اور وہ خود بھی اپنی جان سے تنگ آگئے تھے اور انہوں نے جان لیا تھا کہ اللہ سے بھاگ کر انہیں کوئی پناہ نہیں مل سکتی مگر خود اسی کے دامن میں، پس اللہ (اپنی رحمت سے) ان پر لوٹ آیا تاکہ وہ رجوع کریں بلا شبہ اللہ ہی ہے بڑا توبہ قبول کرنے والا، بڑا ہی رحمت والا۔ التوبہ
119 مسلمانو ! خدا کے خوف سے بے پروا نہ ہوجاؤ، اور چاہیے کہ سچوں کے ساتھی بنو (کہ یہ سچائی تھی جو ان لوگوں کی بخشش کا وسیلہ ہوئی) التوبہ
120 مدینہ کے باشندوں کو اور ان اعرابیوں کو جو اس کے اطراف میں بستے ہیں لائق نہ تھا کہ اللہ کے رسول کا (دفاع میں) ساتھ نہ دیں اور پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ بات لائق تھی کہ اس کی جان کی پروا نہ کر کے محض اپنی جانوں کی فکر میں پڑجائیں، اس لیے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو مصیبت بھی پیش آتی وہ ان کے لیے ایک نیک عمل شمار کی جاتی، ہر پیاس جو وہ جھیلتے ہر محنت جو وہ اٹھاتے ہر مخمصہ جس میں وہ پڑتے ہر وہ قدم جو وہاں چلتا جہاں چلنا کاروں کے لیے غیظ و غضب کا باعث ہوتا اور وہ ہر وہ چیز جو وہ (مال غنیمت میں) دشمنوں سے پاتے (یہ سب کچھ ان کے لیے عمل نیک ثابت ہوتا، کیونکہ) اللہ نیک کرداروں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ التوبہ
121 اور (اسی طرح) وہ (اللہ کی راہ میں) کوئی رقم نہیں نکالتے چھوٹی ہو یا بڑی، اور کوئی میدان طے نہیں کرتے مگر یہ کہ (اس کی نیکی) ان کے نام لکھی جاتی ہے تاکہ اللہ ان کے کاموں کا انہیں بہتر سے بہتر اجر عطا فرمائے۔ التوبہ
122 اور (دیکھو) یہ ممکن نہ تھا کہ سب کے سب مسلمان (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں (اور تعلیم دین کے مرکز میں آ کر علم و تربیت حاصل کریں) پس کیوں نہ ایسا کیا گیا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں دانش و فہم پیدا کرتی اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنے گھروں میں واپس جاتی تو لوگوں کو (جہل و غفلت کے نتائج سے) ہوشیار کرتی تاکہ (برائیوں سے) بچیں؟ التوبہ
123 مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس (پھیلے ہوئے) ہیں اور چاہیے کہ وہ (جنگ میں) تمہاری سختی محسوس کریں (کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نیہں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو (ہر حال میں) متقی ہوتے ہیں۔ التوبہ
124 اور جب ایسا ہوتا ہے کہ (اللہ کی طرف سے) قرآن کی کوئی سورت اترتی ہے تو ان (منافقوں) میں کچھ لوگ ہیں جو (انکار و شرارت کی راہ سے) کہتے ہیں تم لوگوں میں سے کس کا ایمان اس نے زیادہ کردیا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا ایمان تو ضرور زیادہ کردیا اور وہ اس پر خوشیاں منار رہے ہیں۔ التوبہ
125 لیکن (ہاں) جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے (اور ایمان کی جگہ انکار کی ناپاکی) تو بلاشبہ اس نے ان کی ناپاکی پر ایک اور ناپاکی بڑھا دی، اور (نتیجہ بھی دیکھ لو) وہ مرگئے، اور اس حالت میں مرے کہ ایمان سے قطعی محروم تھے۔ التوبہ
126 (افسوس ان پر) کیا یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی برس اس سے خالی نہیں جاتا کہ ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائش میں نہ ڈالے جاتے ہوں پھر بھی یہ ہیں کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ التوبہ
127 اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے ( جس میں منافقوں کا ذکر ہوتا ہے) تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تم پر کسی کی نگاہ تو نہیں؟ (یعنی اپنا ذکر سن کر جو تم چونک اٹھے ہو تو اس پر کسی کی نگاہ تو نہیں پڑ رہی؟) پھر منہ پھیر کر چل دیتے ہیں، تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دل ہی (راست بازی سے) پھیر دیئے، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے کورے ہوگئے۔ التوبہ
128 (مسلمانو) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے، تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے، وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
129 (اے پیغمبر) اگر اس پر بھی یہ لوگ سرتابی کریں تو ان سے کہہ دو میرے لیے اللہ کا سہارا بس کرتا ہے۔ کوئی معبود نہیں ہے، مگر صرف اسی کی ذات، میں نے اس پر بھروسہ کیا، وہ (تمام عالم ہستی کی جہانداری کے) عرش عظیم (١) کا خداوندی ہے۔ التوبہ
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے یونس
1 الر۔ یہ آیتیں ہیں کتاب حکیم کی (یعنی ایسی کتاب کی جس کی تمام باتیں حکمت کی باتیں ہیں) یونس
2 کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ انہی میں سے ایک آدمی پر ہم نے وحی بھیجی؟ اس بات کی وحی کہ لوگوں کو (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرے اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دے کہ پروردگار کے حضور ان کے لیے اچھا مقام ہے؟ کافروں نے کہا بلاشبہ یہ شخص جادوگر ہے، کھلا جادوگر۔ یونس
3 (اے لوگو) تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا (یعنی چھ معین زمانوں میں پیدا کیا) پھر اپنے تخت حکومت پر متکمن ہوگیا، وہی تمام کاموں کا بندوبست کرر ہا ہے ( یعنی کائنات ہستی پیدا بھی اسی نے کی اور فرماں روائی بھی صرف اسی کی ہوئی) اس کے حضور کوئی سفارشی نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ خود وہ اجازت دے دے، اور اجازت کے بعد کوئی اس کی جرات کرے، یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار پس اسی کی بندگی کرو، کیا تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟ یونس
4 تم سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، وہی ہے جو پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے (یعنی مرنے کے بعد دوبرہ زندہ کرے گا) تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں انصاف کے ساتھ بدلہ دے، باقی رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو انہیں پاداش کفر میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور عذاب دردناک یونس
5 وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو روشن اور پھر چاند کی منزلوں کا اندازہ ٹھہرا دیا تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ نے یہ سب کچھ نہیں بنایا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں وہ (اپنی قدرت و حکمت کی) دلیلیں کھول کھول کر بیان کردیتا ہے۔ یونس
6 بلاشبہ اس بات میں کہ رات کے پیچھے دن اور دن کے پیچھے رات آتی ہے اور بلا شبہ ان تمام چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں میں اور زمین میں پیدا کی ہیں ان لوگوں کے لیے ٠ قدرت و حکمت کی) نشانیاں ہیں جو متقی ہیں۔ (١) یونس
7 جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، صرف دنیا کی زدنگی ہی میں مگن ہیں اور اس حالت پر مطمئن ہوگئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ یونس
8 تو ایسے ہی لوگ ہیں جن کا (آخری) ٹھکانا دوزخ ہوگا، بسبب اس کمائی کے جو (خود اپنے ہی عملوں کے ذریعہ) کماتے رہتے ہیں۔ یونس
9 جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے تو ان کے ایمان کی وجہ سے (کامیابی و سعادت کی) راہ ان کا پروردگار ان پر کھول دے گا۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جبکہ وہ نعمت الہی کے باغوں میں ہوں گے۔ یونس
10 وہاں ان کی پکار یہ ہوگی کہ خدایا ساری پاکیاں تیرے ہی لیے ہیں ان کی دعا یہ ہوگی کہ سلامتی ہو اور دعاؤں کا خاتمہ یہ ہوگا کہ الحمد للہ رب العالمین۔ یونس
11 اور (دیکھو) انسان جس طرح فائدہ کے لیے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ اسے نقصان پہنچانے میں جلد باز ہوتا (یعنی اگر اس کا قانون جزا ایسا ہوتا کہ ہر بدعملی کا برا نتیجہ فورا کام کرجائے) تو اس کا وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا (لیکن قانون جزا نے یہاں ڈھیل دے رکھی ہے) پس جو لوگ (مرنے کے بعد) ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشیوں میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔ یونس
12 اور جب کبھی انسان کو کوئی رنج پہنچتا ہے تو خواہ کسی حال میں ہو، کروٹ پر لیٹا ہو، بیٹھا ہو، کھڑا ہو ہمیں پکارنے لگے گا، لیکن جب ہم اس کا رنج دور کردیتے ہیں تو پھر اس طرح (منہ موڑے ہوئے) چل دیتا ہے گویا رنج و مصیبت میں کبھی اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا، تو دیکھو ! جو حد سے گزر گئے ہیں ان کی نگاہوں میں اسی طرح ان کے کام خوش نما کردئے گئے ہیں۔ یونس
13 اور تم سے پہلے کتنی ہی امتیں گزر چکی ہیں جب انہوں نے ظلم کی راہ اختیار کی تو ہم نے انہیں (پاداش عمل میں) ہلاک کردیا، ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے مگر اس پر بھی وہ آمادہ نہ ہوئے کہ ایمان لائیں (تو دیکھو) مجرموں کو اسی طرح ہم ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں۔ یونس
14 پھر ان امتوں کے بعد ہم نے تمہیں ان کا جانشین بنایا تاکہ دیکھیں تمہارے کام کیسے ہوتے ہیں؟ یونس
15 اور (اے پیغمبر) جب تم ہماری واضح آیتیں انہیں پڑھ کر سناتے ہو تو جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں اس قرآن کے سوا کوئی دوسرا قرآن لاکر سناؤ، یا اسی (کے مطالب) میں رد و بدل کردو، تم کہو میرا یہ مقدور نہیں کہ اپنے جی سے اس میں ردو بدل کردوں، میں تو بس اسی حکم کا تابع ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے۔ میں ڈرتا ہوں اگر اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کروں تو عذاب کا ایک بہت بڑا دن آنے والا ہے۔ یونس
16 اور تم کہو اگر اللہ چاہتا تو میں قرآن تمہیں سناتا ہی نہیں اور تمہیں اس سے خبردار ہی نہ کرتا ( مگر اس کا چاہنا یہی ہوا کہ تم میں اس کا کلام نازل ہو اور تمہیں اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے) پھر دیکھو یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملہ سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں، کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں؟ یونس
17 پھر بتلاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اپنے جی سے جھوٹ بات بنا کر اللہ پر افترا کرے اور اس آدمی سے جو اللہ سچی آیتیں جھٹلائے؟ یقینا جرم کرنے والے کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ یونس
18 اور (یہ مشرک) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ تو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ فائدہ، اور کہتے ہیں (ہم اس لیے ان کی پرستش کرتے ہیں کہ) یہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں (اے پیغمبر تم) کہہ دو کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دینی چاہتے ہو جو خود اسے معلوم نہیں، نہ تو آسمانوں میں اور نہ زمینوں میں؟ پاک اور بلند ہے اس کی ذات اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ یونس
19 اور (ابتدا میں) انسانوں کی ایک ہی امت تھی، پھر الگ الگ ہوگئے، اور اگر تمہارے پروردگار کی جانب سے پہلے ایک بات نہ ٹھہرا دی گئی ہوتی (یعنی لوگ الگ الگ راہوں میں چلیں گے اور اسی اختلاف میں ان کے لیے آزمائش عمل ہوگی) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرر ہے ہیں ان کا فیصلہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔ یونس
20 اور یہ لوگ کہتے ہیں کیں ایسا نہ ہوا کہ اس پر (یعنی پیغبر اسلام پر) اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی اترتی؟ تو (اے پیغبر) تم کہہ دو غیب کا علم تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے، پس انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ یونس
21 اور جب ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو درد دکھ کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فورا ہماری (رحمت کی) نشانیوں میں باریک باریک حیلے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم کہہ دو اللہ ان باریکیوں میں سب سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری یہ ساری مکاریاں قلمبند کر رہے ہیں۔ یونس
22 وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی کشکی اور تری میں سیر و گردش کا سامان کردیا ہے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تم جہازوں میں سوار ہوتے ہو جہاز موافق ہوا پاکر تمہیں لے اڑتے ہیں، مسافر خوش ہوتے ہیں (کہ کیا اچھی ہوا چل رہی ہے) پھر اچانک ہوائے تند کے جھونکے نمودار ہوجاتے اور ہر طرف سے موجیں ہجوم کرنے لگتی ہیں اور مسافر خیال کرتے ہیں بس اب ان میں گھر گئے (اور بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی) تو اس وقت (انہیں خدا کے سوا اور کوئی ہستی یاس نہیں آتی وہ) دین کے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارنے لگتے ہیں، خدایا ! اگر اس حالت سے ہمیں نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔ یونس
23 پھر (دیکھو) جب اللہ انہیں نجات دے دیتا ہے تو اچانک (اپنا عہد و پیمان بھول جاتے ہیں) اور ناحق ملک میں سرکشی و فساد کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری سرکشی کا وبال تو خود تمہاری ہی جانوں پر پڑنے والا ہے۔ یہ دنیا کی (چند روزہ) زندگی کے فائدے ہیں، سو اٹھا لو، پھر تمہیں ہماری ہی طرف لوٹ کر اانا ہے، اس وقت ہم تمہیں بتائیں گے کہ جو کچھ دنیا میں کرتے رہے اس کی حقیقت کیا تھی۔ یونس
24 دنیا کی زندگی کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے یہ معاملہ کہ آسمان سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی نابات جو انسانوں اور چارپایوں کے لیے غذا کا کام دیتی ہیں اس سے شاداب ہو کر پھلی پھولیں اور باہمدگر مل گئیں، پھر جب وہ وقت آیا کہ زمین نے اپنے (سبزی اور لالی کے) سارے زیور پہن لیے اور (لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور گراں بار باغوں سے) خوشنما ہوگئی اور زمین کے مالک سمجھے اب فصل ہمارے قابو میں آگئی ہے تو اچانک ہمارا حکم دن کے وقت یا رات کے وقت نمودار ہوگیا اور ہم نے زمین کی ساری فصل اس طرح بیخ و بن سے کاٹ کے رکھ دی گویا ایک دن پہلے تک ان کا نام و نشان ہی نہ تھا، اس طرح ہم (حقیقت کی) دلیلیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔ یونس
25 اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے (کامیابی و نجات کی) سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ یونس
26 (اس کا قانون تو یہ ہے کہ) جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہی ہوگی اور (جتنی اور جیسی کچھ ان کی بھلائی تھی) اس سے بھی کچھ زیادہ، ان کے چہروں پر نہ تو (محرومی کی) کالک لگے گی نہ ذلت کا اثر نمایاں ہوگا، ایسے ہی لوگ جنتی ہیں ہمیشہ جنت میں رہنے والے۔ یونس
27 اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا نتیجہ ویسا ہی نکلے گا جیسی کچھ برائی ہوگی، اور ان پر خواری چھا جائے گی، اللہ (کے قانون) سے انہیں بچانے والا کوئی نہ ہوگ، ان کے چہروں پر اس طرح کالک چھا جائے گی جیسے اندھیری رات کا ایک ٹکڑا چہروں پر اڑھا دیا گیا ہو، سو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں، دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے۔ یونس
28 اور (دیکھو) جس دن ایسا ہوگا کہ ہم ان سب کو اپنے حضور اکٹھا کریں گے اور پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے تم اور وہ سب جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا اپنی جگہ سے نہ ہلو، (یعنی اپنے مقام میں رکے رہو، آگے نہ بڑھو) اور پھر ایسا ہوگا کہ ایک دوسرے سے انہیں الگ الگ کردیں گے (یعنی شرک کرنے والوں میں اور ان میں جنہیں شریک بنایا گیا امتیاز پیدا ہوجائے گا) تب وہ ہستیاں جنہیں خدا کے ساتھ شریک بنایا گیا ہے کہیں گی : یہ بات تو نہ تھی کہ تم ہماری ہی پرستش کرتے تھے۔ یونس
29 آج کے دن ہم میں اور تم میں اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۔ (وہ جانتا ہے کہ) تمہاری پرستاریوں سے ہم یک قلم بے خبر تھے۔ یونس
30 پس اس دن ہر آدمی جانچ لے گا کہ جو کچھ وہ پہلے کرچکا ہے اس کی حقیقت کیا تھی، سب اللہ کے حضور کہ ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور حقیقت کے خلاف جس قدر افترا پردازیاں کرتے رہے ہیں سب ان سے کھوئی جائیں گی۔ یونس
31 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے پوچھو وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین کی بخشائشوں کے ذریعہ روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضۃ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور پھر وہ کون ہے جو تمام کارخانہ ہستی کا انتظام کر رہا ہے؟ وہ (فورا) بول اٹھیں گے کہ اللہ، پس تم کہو، اگر ایسا ہی ہے تو پھر تم (انکار حق کے نتیجہ سے) ڈرتے نہیں؟ یونس
32 یہی اللہ فی الحقیقت تمہارا پروردگار ہے پھر بتلاؤ سچائی کے جان لینے کے بعد اسے نہ ماننا گمراہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ تم (حقیقت سے) منہ پھیرے کدھر کو جارہے ہو؟ یونس
33 (اے پیغمبر) اسی طرح تیرے پروردگار کا فرمودہ ان لوگوں پر صادق آگیا جو (دائرہ ہدایت سے) باہر ہوگئے ہیں کہ وہ ایمان لانے والے نہیں۔ یونس
34 (اے پیغمبر) ان سے پوچھو : کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو خلقت کی پیدائش شروع کرے اور پھر اسے دہرائے؟ تم کہو یہ تو اللہ ہے جو ابتدا میں پیدا کرتا ہے پھر اسے دہرائے گا، پس غور کرو تمہاری الٹی چال تمہیں کدھر کو لے جارہی ہے؟ یونس
35 ان سے پوچھو کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو حق کی راہ دکھاتا ہے؟ پھر جو حق کی راہ دکھائے وہ اس کا حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ خود ہی راہ نہیں پاتا جب تک اسے راہ نہ دکھائی جائے؟ (افسوس تم پر) تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟ یونس
36 اور ان لوگوں میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو صرف وہم و گمان کی باتوں پر چلتے ہیں اور سچائی کی معرفت میں گمان کچھ کام نہیں دے سکتا، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں۔ یونس
37 اور اس قرآن کا معاملہ ایسا نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اپنے جی سے گھڑ لائے، وہ تو ان تمام وحیوں کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور کتاب اللہ کی تفصیل ہے (یعنی اللہ کی کتابوں میں جو کچھ تعلیم دی گئی ہے وہ سب اس میں کھول کھول کر بیان کردی گئی ہے) اس میں کچھ شبہ نہیں، تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ یونس
38 کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے (یعنی پیغمبر اسلام نے) اللہ کے نام پر یہ افترا کیا ہے؟ تم کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو (اور ایک آدمی اپنے جی سے گھڑ کر ایسا کلام بنا سکتا ہے) تو قرآن کی مانند ایک سورت بنا کر پیش کردو اور خدا کے سوا جن جن ہستیوں کو اپنی مدد کے لیے بلاسکتے ہو (تمہیں پوری طرح اجازت ہے) بلا لو۔ یونس
39 نہیں یہ بات نہیں ہے، اصل حقیقت ی ہے کہ جس بات پر یہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اور جس بات کا نتیجہ ابھی پیش نہیں آیا اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہوگئے، ٹھیک اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، تو دیکھو ظلم کرنے والوں کا کیسا کچھ انچام ہوچکا ہے۔ یونس
40 اور (اے پیغبر) ان میں (یعنی تیری قوم میں) کچھ تو ایسے ہیں جو قرآن پر (آئندہ) ایمان لائیں گے، کچھ ایسے ہیں جو ایمان لانے والے نہیں، اور تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون لوگ مفسد ہیں۔ یونس
41 اور اگر یہ (اس قدر سمجھانے پر بھی) تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے، تمہارے لیے تمہارا، میں جو کچھ کرتا ہوں اس کی ذمہ داری تم پر نہیں، تم جو کچھ کرتے ہو، اس کے لیے میں ذمہ دار نہیں (ہر شخص کے لیے اس کا عمل ہے اور عمل کے مطابق نتیجہ، پس تم اپنی راہ چلو، مجھے اپنی راہ چلنے دو، اور دیکھو اللہ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے) یونس
42 اور (اے پیغمبر) ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تیری باتوں کی طرف کان لگاتے ہیں (اور تو خیال کرتا ہے یہ کلام حق سن کر اس کی سچائی پالیں گے حالانکہ فی الحقیقت وہ سنتے نہیں) پھر کیا تو بہروں کو بات سنائے گا اگرچہ وہ بات نہ پاسکتے ہوں؟ یونس
43 اور ان میں کچھ ایسے ہیں جو تیری طرف تکتے ہیں (اور تو خیال کرتا ہے یہ تجھے سمجھ کر دیکھتے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے نہیں) پھر کیا تو اندھے کو راہ دکھادے گا، اگرچہ اسے کچھ سوجھ بوجھ نہ پڑتا ہوں؟ یونس
44 یقینا اللہ انسانوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا (کہ انہیں جبرا اندھا بہرا بنا دے) مگر خود انسان ہی ہے جو اپنے اوپر ظلم کرتا ہے (کہ اس کی بخشی ہوئی قوتوں سے کام نہیں لیتا اور ہٹ اور ضد میں آکر سچائی سے انکار کردیتا ہے) یونس
45 اور جس دن ایسا ہوگا کہ اللہ ان سب کو اپنے حضور جمع کرے گا اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا گویا (دنیا میں) اس سے زیادہ نہیں ٹھہرے جیسے گھڑی بھر کو لوگ ٹھہر جائیں اور آپس میں صاحب سلامت کرلیں (تو) بلاشبہ وہ لوگ بڑے ہی گھاٹے میں رہے جنہوں نے اللہ کی ملاقات کا اعتقاد جھٹلایا اور وہ کبھی (کامیابی کی) راہ پانے والے نہ تھے۔ یونس
46 اور (اے پیغمبر) ہم نے ان لوگوں سے ( یعنی منکرین عرب سے) جن جن باتوں کا وعدہ کیا ہے (یعنی دعوت حق کے پیش آنے والے نتائج کی خبر دی ہے) ان میں سے بعض باتیں تجھے (تیری زندگی میں) دکھا دیں یا (ان کے ظہور سے پہلے) تیرا وقت پورا کردیں لیکن بہرحال انہیں ہماری ہی طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے۔ یونس
47 اور (یاد رکھو) ہر امت کے لیے ایک رسول ہے (جو ان میں پیدا ہوتا ہے اور انہیں دین حق کی طرف بلاتا ہے) پھر جب کسی امت میں اس کا رسول ظاہر ہوگیا تو (ہمارا قانون یہ ہے کہ) ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ ناانصافی ہو۔ یونس
48 اور یہ لوگ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ یہ بات (یعنی انکار حق کی پاداش) کب ظہور میں آئے گی؟ یونس
49 (اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ معاملہ کچھ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کب واقع ہوگا) میں تو خود اپنی جان کا بھی نفع نقصان اپنے قبضہ میں نہیں رکھتا۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ نے چاہا ہے، ہر امت کے لیے (پاداش عمل کا) ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ وقت آ پہنچتا ہے تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔ یونس
50 (اے پیغمبر) تم ان لوگوں سے کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ تم کیا کرو گے اگر اس کا عذاب راتوں رات نازل ہو یا دن دہاڑے تم پر مسلط ہوجائے؟ پھر کیا بات ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچار رہے ہیں؟ یونس
51 کیا جب وہ واقع ہوجائے گا اس وقت تم یقین کرو گے؟ (لیکن اس وقت یقین کرنا کچھ سود مند نہ ہو، اس وقت تو کہا جائے گا) ہاں اب تم نے یقین کیا اور تم ہی تھے کہ اس کی طلب میں جلدی مچایا کرتے تھے۔ یونس
52 پھر ظلم کرنے والوں سے کہا جائے گا اب ہمیشگی کا عذاب چکھو، تمہیں جو کچھ بدلہ مل رہا ہے یہ اس کے سو کیا ہے کہ خود تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے جو دنیا میں کماتے رہے ہو۔ یونس
53 اور تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ بات واقعی سچ ہے؟ تم (بلا تامل) کہو ہاں میرا پروردگار اس پر شاہد ہے کہ یہ سچائی کے سوا کچھ نہیں، اور تم کھی ایسا نہیں کرسکتے کہ اسے (اس کے کاموں میں) عاجز کردو۔ یونس
54 اور (آنے والا عذاب اس درجہ ہولناک ہے اور اس کا وقوع اس درجہ قطعی ہے کہ) اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے، اور دیکھو جب انہوں نے عذاب اپنے سامنے دیکھا تو (اپنی سرکشی و انکار یاد کر رکے) دل ہی دل میں پچھتانے لگے پھر ان کے درمیان (یعنی مومنوں اور سرکشوں کے درمیان) انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ان پر کسی طرح کی زیادتی واقع ہو۔ یونس
55 یاد رکھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے لیے (اس کے سوا کوئی نہیں جسے حکم و تصرف میں کچھ دخل ہو) اور یہ بات بھی نہ بھولو کہ اللہ کا وعدہ حق ہے، (وہ کبھی ٹل نہیں سکتا) مگر ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو یہ بات نہیں جانتے۔ یونس
56 وہی جلاتا ہے، وہی مارتا ہے، اور وہی ہے جس کی طرف تم سب کو (بالآخر) لوٹنا ہے۔ یونس
57 اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے ایک ایسی چیز آگئی جو موعظت ہے، دل کی تمام بیماریوں کے شفا ہے اور اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو (اس پر) یقین رکھتے ہیں۔ یونس
58 (اے پیغمبر) تم کہو یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کی رحمت ہے، پس چاہیے کہ اس پر خوشی منائیں اور یہ ان ساری چیزوں سے بہتر ہے جسے وہ (دنیا کی زندگی میں) جمع کرتے رہتے ہیں۔ یونس
59 (اے پیغمبر) تم ان سے کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ جو روزی اللہ نے تمہاری لیے پیدا کی ہے تم نے (محض اپنے اوہام و ظنوں کی بنا پر) اس میں سے بعض کو حرام ٹھہرا دیا بعض کو حلال سمجھ لیا ہے، تم پوچھو ( یہ جو تم نے حلال و حرام کا حکم لگایا تو) کیا اللہ نے اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ پر بہتان باندھتے ہو؟ یونس
60 اور جن لوگوں کی جراتوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے نام پر جھوٹ بول کر افترا پردازی کر رہے ہیں انہوں نے روز قیامت کو کیا سمجھ رکھا ہے (کیا وہ سمجھتے ہیں اللہ کی جانب سے کوئی پرسش ہونے والی نہیں؟) حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسانوں کے لیے بڑا ہی فضل رکھا ہے (کہ اس نے جزائے عمل کو آخرت پر اٹھا رکھ ہے اور دنیا میں سب کو مہلت عمل دے دی ہے) لیکن ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو اس کا شکر نہیں بجا لاتے۔ یونس
61 اور (اے پیغبر) تم کسی حال میں ہو اور قرآن کی کوئی سی آیت بھی پڑھ کر سناتے ہو اور (اے لوگو) تم کوئی سا کام بھی کرتے ہو مگر وہ بات کرتے ہوئے ہماری نگاہوں سے غائب نہیں ہوتے اور نہ تو زمین میں نہ آسمان میں کوئی چیز تمہارے پروردگار کے علم سے غائب ہے، ذرہ بھر کوئی چیز ہو یا اس سے چھوٹی یا بڑی سب کچھ ایک کتاب واضح مندرج ہے۔ یونس
62 یاد رکھو جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔ یونس
63 یہ وہ لوگ ہیں کہ ایمان لائے اور زندگی ایسی بسر کی کہ برائیوں سے بچتے رہے۔ یونس
64 ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی (کامرانی و سعادت کی) بشارت ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی اللہ کے فرمان اٹل ہیں، کبھی بدلنے والے نہیں، اور یہی سب سے بڑی فیروز مندی ہے جو انسان کے حصے میں آسکتی ہے۔ یونس
65 (اور اے پیغمبر) منکروں کی (معاندانہ) باتوں سے تم آزردہ نہ ہو، ساری عزتیں اللہ ہی کے لیے ہیں (وہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے) وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ یونس
66 یاد رکھو وہ تمام ہستیاں جو آسمانوں میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں اللہ ہی کے تابع فرمان ہیں، اور جو لوگ اللہ کے سوا اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پکارتے ہیں تم جانتے ہو وہ کس بات کی پیروی کرتے ہیں؟ (کیا یقین و بصیرت کی؟ نہیں) محض وہم و گمان کی، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ (ہر بات میں) اپنی اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ یونس
67 وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کا وقت بنا دیا کہ اس میں آرام پاؤ اور دن کا وقت کہ اس کی روشنی میں دیکھو بھالو، بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لیے (ربوبیت الہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں جو (کلام حق) سنتے (اور سمجھتے) ہیں۔ یونس
68 یہ کہتے ہیں اللہ نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے، اس کے لے تقدیس ہو، وہ تو (اس طرح کی تمام احتیاجوں سے) بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کے لیے ہے، تمہارے پاس ایسی بات کہنے کے لیے کون سی دلیل آگئی؟ کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں؟ یونس
69 (اے پیغمبر) تم کہو، جو لوگ اللہ پر بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔ یونس
70 ان کے لیے صرف دنیا ہی کی متاع ہے، پھر (آخرکار) ہماری طرف لوٹنا ہے، تب ہم انہیں عذاب سخت کا مزہ چکھائیں گے کہ جیسی کچھ کفر کی باتیں کرتے رہے ہیں اس کا نتیجہ پالیں۔ یونس
71 اور (اے پیغمبر) انہیں نوح کا حال سناؤ، جب ایسا ہوا تھا کہ اس نے اپنی قوم سے کہا تھا اے میری قوم اگر تم پر یہ بات شاق گزرتی ہے کہ میں تم میں (دعوت و ہدایت کے لیے) کھڑا ہوں اور اللہ کی نشانیوں کے ساتھ پند و نصیحت کرتا ہوں تو میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو اسے ٹھان لو اور اپنے شریکوں کو بھی ساتھ لے لو، پھر جو کچھ تمہارا منصوب ہو اسے اچھی طرح سمجھ بوجھ لو کہ کوئی پہلو نظر سے رہ نہ جائے پھر جو کچھ میرے خلاف کرنا ہے کر گزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو (اور دیکھو آخر کار کیا نتیجہ نکلتا ہے؟) یونس
72 پھر اگر (اس پر بھی تم باز نہ آئے اور) مجھ سے روگردانی کی تو (یاد رکھو اپنا ہی نقصان کرو گے) میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کے لیے تم سے کسی مزدوری کا طلبگار نہیں ہوا تھا، میری مزدوری تو اللہ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں، مجھے (اسی کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ اس کے فرمانبردار بندوں کے گروہ میں شامل رہوں۔ یونس
73 اس پر بھی لوگوں نے اسے جھٹلایا، پس ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں سوار تھے (طوفان سے) بچا لیا، اور (غرق شدہ قوم کا) جانشین بنایا اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ان سب کو غرق کردیا، تو دیکھو ان لوگوں کا حشر کیسا ہوا جو (انکار و سرکشی کے نتائج سے) خبردار کردئے گئے تھے؟ یونس
74 پھر نوح کے بعد ہم نے (کتنے ہی) رسولوں کو ان کی قوموں میں پیدا کیا، وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے اس پر بھی ان کی قومیں تیار نہ تھیں کہ جو بات پہلے جھٹلا چکی ہیں اسے (دلیلیں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو جو لوگ (سرکشی اور فساد میں) حد سے گزر جاتے ہیں ہم اسی طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ یونس
75 پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد موسیٰ اور ہارون کو بھیجا، فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف، وہ ہماری نشانیاں اپنے ساتھ رکھتے تھے، مگر فرعون اور اسکے درباریوں نے گھمنڈ کیا، ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا۔ یونس
76 پھر جب ہماری جانب سے سچائی ان پر نمودار ہوگئی تو کہنے لگے یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جادو ہے، صریح جادو۔ یونس
77 موسی نے کہا تم سچائی کے حق میں جب وہ نمودار ہوگئی ایسی بات کہتے ہو؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادوگر تو کبھی کامیابی نہیں پاسکتے۔ یونس
78 انہوں نے (جواب میں) کہا، کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس راہ پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے دیکھا ہے اس سے ہمیں ہٹا دو اور ملک میں تم دونوں بھائیوں کے لیے سرداری ہوجائے؟ ہم تو تمہیں ماننے والے نہیں۔ یونس
79 اور فرعون نے کہا میری مملکت میں جتنے ماہر جادوگر ہیں سب کو میرے حضور حاضر کرو۔ یونس
80 جب جادوگرو آموجود ہوئے (اور مقابلہ کا میدان گرم ہوا) تو موسیٰ نے کہا، تمہیں جو کچھ میدان میں ڈالنا ہے ڈال دو۔ یونس
81 جب انہوں نے (اپنی جادو کی رسیاں اور لاٹھیاں) ڈال دیں تو موسیٰ نے کہا تم جو کچھ بنا کر لائے ہو یہ جادو ہے اور یقینا اللہ اسے ملیا میٹ کرے گا، اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ مفسدوں کا کام نہیں سنوارتا۔ یونس
82 وہ حق کو اپنے احکام کے مطابق ضرور ثابت کر دکھائے گا اگرچہ ان لوگوں کو جو مجرم ہیں ایسا ہونا پسند نہ آئے۔ یونس
83 تو دیکھو اس پر بھی ایسا ہوا کہ موسیٰ پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس کی قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا، وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں، اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک (مصر) میں بڑا ہی سرکش (بادشاہ) تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ (ظلم و استبداد میں) بالکل چھوٹ تھا۔ یونس
84 اور موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا لوگو ! اگر تم فی الحقیقت اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کی فرمانبرداری کرنی چاہتے ہو تو چاہیے کہ صرف اسی پر بھروسہ کرو (اور فرعون کی طاقت سے نہ ڈرو) یونس
85 انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا (ہم دعا کرتے ہیں کہ) پروردگار ہمیں اس ظالم گروہ کے لیے آزمائشوں کا موجب نہ بنائیو (کہ اس کے ظلم و ستم کے مقابلہ میں کمزوری دکھائیں) یونس
86 اور اپنی رحمت سے ایسا کیجیو کہ اس کافر گروہ کے پنجہ سے نجات پاجائیں۔ یونس
87 اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون) پر وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں مکان بناؤ اور اپنے مکانوں کو قبلہ رخ تعمیر کرو۔ نیز (ان میں) نماز قائم کرو اور جو ایمان لائے ہیں انہیں (کامیابی کی) بشارت دو۔ یونس
88 اور موسیٰ نے دعا مانگی خدایا تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیا کی زندگی میں زیب و زینت کی چیزیں اور مال و دولت کی شوکتیں بخشی ہیں تو خدایا ! کیا یہ اس لیے ہے کہ تیری راہ سے یہ لوگوں کو بھٹکائیں، خدایا ! ان کی دولت زائل کردے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک عذاب دردناک اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ یونس
89 اللہ نے فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی، تو اب تم (اپنی راہ میں) جم کر کھڑے ہوجاؤ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو (میرا طریق کار) نہیں جانتے (اور اس لیے صبر نہیں کرسکتے) یونس
90 اور پھر ایسا ہوا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اتار دیا، یہ دیکھ کر فرعون اور اس کے لشکر نے پیچھا کیا، مقصود یہ تھا کہ ظلم و شرارت کریں، لیکن جب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ فرعون سمندر میں غرق ہونے لگا تو اس وقت پکار اٹھا میں یقین کرتا ہوں کہ اسی ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں بھی اسی کے فرمانبرداروں میں ہوں۔ یونس
91 (ہم نے کہا) ہاں اب تو ایمان لایا، حالانکہ پہلے برابر نافرمانی کرتا رہا اور تو دنیا کے مفسد انسانوں میں سے ایک (بڑا ہی) مفسد تھا۔ یونس
92 پس ااج ہم ایسا کریں گے کہ تیرے جسم کو (سمندر کی موجوں سے) بچا لیں گے، تاکہ ان لوگوں کے لیے جو تیرے بعد آنے والے ہیں (قدرت حق کی) ایک نشانی ہو اور اکثر انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں کی طرف سے یک قلم غافل رہتے ہیں۔ یونس
93 اور ہم نے بنی اسرائیل کو (اپنے عدہ کے مطابق فلسطین میں) بسنے کا بہت اچھا ٹھکانا دیا تھا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا سامان کردیا تھا، پھر جب کبھی انہوں نے (دین حق کے بارے میں) اختلاف کیا تو علم کی روشنی ضرور ان پر نمودار ہوئی (یعنی ان میں یکے بعد دیگرے نبی مبعوث ہوتے رہے لیکن پھر بھی وہ حقیقت پر متفق نہ ہوئے) قیامت کے دن تمہارا پروردگار ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (یعنی انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت حال کیا تھی) یونس
94 اور اگر تمہیں اس بات میں کسی طرح کا شک ہو جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تمہارے زمانے سے پہلے کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں (یعنی اہل کتاب) کہ یقینا یہ سچائی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتری ہے تو ہرگز ایسا نہ کرنا کہ شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ یونس
95 اور نہ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اللہ کی نشانیاں جھٹلائیں اور نیتجہ یہ نکلا کہ نامراد ہوئے۔ یونس
96 (اے پیغبر) جن لوگوں پر اللہ کا فرمان صادق آگیا ہے (یعنی اس کا یہ قانون کہ جو آنکھیں بند کرلے گا اسے کچھ نظر نہیں آئے گا) وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ یونس
97 اگر (دنیا جہان کی) ساری نشانیاں بھی ان کے سامنے آجائیں تب بھی نہ مانیں یہاں تک کہ عذاب دردناک اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یونس
98 پھر کیوں ایسا ہوا کہ قوم یونس کی بستی کے سوا اور کوئی بستی نہ نکلی کہ (نزول عذاب سے پہلے) یقین کرلیتی اور ایمان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتی؟ یونس کی قوم جب ایمان لے آئی تو ہم نے رسوائی کا وہ عذاب اس پر سے ٹال دیا جو دنیا کیز ندگی میں پیش آنے والا تھا اور ایک خاص مدت تک سروسامان زندگی سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دے دی۔ یونس
99 اور (اے پیغمبر) اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے آدمی روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے (اور دنیا میں اعتقاد کا اختلاف باقی ہی نہ رہتا لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس کی مشیت یہی ہوئی کہ طرح طرح کی طبیعتیں اور طرح طرح کی استعداد دیں ظہور میں آئیں، پھر اگر لوگ نہیں ماتے تو) کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک ایمان نہ لاؤ میں چھوڑنے والا نہیں؟ یونس
100 اور (یاد رکھو) کسی جان کے اختیار میں نہیں کہ (کسی بات پر) یقین لے آئے مگر یہ کہ اللہ کے حکم سے ( یعنی اللہ نے اس بارے میں جو قانون طبیعت بنا دیا ہے اس کے اندر رہ کر اس سے باہر کوئی نہیں جاسکتا) اور (اس کا قانون ہے کہ) وہ ان لوگوں کو (محرومی و شقاوت کی) گندگی میں چھوڑ دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ یونس
101 (اے پیغمبر) تم ان لوگوں سے کہو جو کچھ آسمان میں (تمہارے اوپر) اور جو کچھ زمین میں (تمہارے چاروں طرف) ہے اس سب پر نظر ڈالو (اور دیکھو وہ زبان حال سے کس حقیقت کی شہادت دے رہے ہیں؟) لیکن جو لوگ یقین نہیں رکھتے ان کے لیے نہ تو (قدرت کی) نشانیاں ہی کچھ سود مند ہیں نہ (ہوشیار کرنے والوں کی ( تنبیہیں۔ یونس
102 پھر اگر یہ لوگ منتظر ہیں تو ان کا انتظار اس بات کے سوا اور کس بات کے لیے ہوسکتا ہے کہ جیسے کچھ (عذاب کے) دن ان سے پہلے لوگوں پر گزر چکے ہیں ویسے ہی ان پر بھی آموجود ہوں، تو تم کہہ دو اچھا انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ یونس
103 پھر (جب عذاب کی گھڑی آجاتی ہے تو ہمارا قانون ہے کہ) اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو اس سے بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے اپنے اوپر ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ مومنوں کو بچا لیا کریں۔ یونس
104 (اے پیغمبر) تم کہہ دو اے لوگو ! اگر تم میرے دین کے بارے میں کسی طرح کے شبہ میں ہو تو میں بتلا دیتا ہوں کہ میرا طریقہ کیا ہے، تم اللہ کے سوا جن ہستیوں کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا، میں تو اللہ کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضۃ میں تمہاری زندگی ہے اور جس کے حکم سے تم پر موت طاری ہوتی ہے، اور مجھے اسی کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ مومنوں کے زمرے میں رہوں۔ یونس
105 اور نیز مجھے کہا گیا ہے کہ ہر طرف سے ہٹ کر اپنا رخ اللہ کے دین کی طرف کرلے اور ایسا ہرگز نہ کیجیو کہ شرک کرنے والوں میں سے ہوجائے۔ یونس
106 اور (مجھے حکم دیا ہے کہ) اللہ کے سو کسی کو نہ پکار۔ اس کے سوا جو کوئی ہے وہ نہ تو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اگر تو نے ایسا کیا تو پھر یقینا تو بھی ظلم کرنے والوں میں گنا جائے گا۔ یونس
107 اور اگر اللہ کے حکم سے تجھے کوئی دکھ پہنچے تو جان لے کہ اسے دور کرنے والا کوئی نہیں مگر اسی کی ذات، اگر وہ تجھے کسی طرح کی خوبی بخشنی چاہے تو جان لے کہ کوئی نہیں جو اس کا فضل روک سکے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا فضل کردے، وہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ یونس
108 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی تمہارے پاس آگئی ہے، پس جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا تو اس کی گمراہی اسی کے آگے آئے گی۔ میں تم پر نگہبان نہیں ہوں (کہ زبردستی کسی راہ میں کھینچ لے جاؤں اور پھر اس سے نکلنے نہ دوں) یونس
109 (اے پیغمبر) جو کچھ تم پر وحی کی جاتی ہے اس پر چلتے رہو اور اپنی راہ میں جمے رہو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ یونس
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے ھود
1 الر۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں (اپنے مطالب و دلائل میں) مضبوط کی گئیں پھر کھول کھول کر واضح کردی گئیں، یہ اس کی طرف سے ہے جو حکمت والا (اور ساتھ ہی) ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے۔ ھود
2 (اس کا اعلان کیا ہے؟) یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، یقین کرو میں اسی کی طرف سے تمہیں خبردار کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔ ھود
3 اور یہ کہ اپنے پروردگار سے معافی کے طلبگار ہو اور اس کی طرف لوٹ جاؤ، (ایسا کرو گے تو) وہ تمہیں ایک وقت مقرر تک زندگی کے فوائد سے بہت اچھی طرح بہرہ مند کرے گا، اور (اپنے قانو کے مطابق) ہر زیادہ (عمل) کرنے والے کو اس کی سعی مزید کا اجر بھی دے گا، لیکن اگر تم نے روگردانی کی تو میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایک بڑا دن نمودار نہ ہوجائے۔ ھود
4 تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اور اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔ ھود
5 (اے پیغمبر) تو سن رکھ کہ یہ لوگ اپنے سینو کو لپیٹے ہیں کہ اللہ سے چھپیں (یعنی اپنے دل کی باتیں چھپا کر رکھتے ہیں) مگر یاد رکھ (انسان کی کوئی بات بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں) یہ جب اپنے سارے کپڑے اوپر ڈال لیتے ہیں تو اس وقت بھی چھپ نہیں سکتے، جو کچھ یہ چھپا کر کریں اور جو کچھ کھلم کھلا کریں سب اللہ کو معلوم ہے، وہ تو سینوں کے اندر کا بھید جاننے والا ہے۔ ھود
6 اور زمین میں چلنے والا کوئی جانور نہیں ہے جس کی روزی کا انتظام اللہ پر نہ ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ اس کا ٹھکانا کہاں ہے اور وہ جگہ کہاں ہے جہاں بالآخر اس کا وجود سونپ دیا جائے گا؟ یہ سب کچھ (علم الہی کی) کتاب میں مندرج ہے۔ ھود
7 اور وہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور اس کے تخت (حکومت) کی فرماں روائی پانی پر تھی، اور اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائش میں ڈالے اور یہ بات ظاہر ہوجائے کہ کون عمل میں بہتر ہے، اور (اے پیغمبر) اگر تو ان لوگوں سے کہے تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو جو لوگ منکر ہیں وہ ضرور بول اٹھیں یہ تو صریح جادو کی سی باتیں ہیں۔ ھود
8 اور اگر ان پر عذاب کا نازل کرنا ایک مقررہ مدت تک ہم تاخیر میں ڈال دیں تو یہ ضرور کہنے لگیں : کون سی بات ہے جو اسے روک رہی ہے؟ سو سن رکھو جس دن عذاب ان پر آئے گا تو پھر کسی کے ٹالے ٹلنے والا نیہں، اور جس بات کی یہ ہنسی اڑایا کرتے تھے (تم دیکھو گے کہ) وہی انہیں آلگی۔ ھود
9 اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں (یعنی اسے ایک نعمت بخشیں) اور پھر اس سے وہ ہٹا لیں تو (وہ ذرا بھی صبر نہیں کرسکتا) یک قلم مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ ھود
10 اور اگر اسے دکھ پہنچا ہو اور اس کے بعد راحت کا مزہ چکھا دیں تو پھر (یک قلم غافل ہوجاتا ہے اور) کہتا ہے اب تو برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں (اب کیا غم ہے) حقیقت یہ ہے کہ انسان (ذرا سی بات میں) خوش ہوجانے والا اور ڈینگیں مارنے والا ہے۔ ھود
11 مگر ہاں ! جو صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کی راہ چلتے ہیں تو ان کا حال ایسا نہیں ہوتا، ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے بخشش ہے اور بہت بڑا اجر ہے ھود
12 پھر (اے پیغمبر) کیا تو ایسا کرے گا کہ جو کچھ تجھ پر وحی کیا جاتا ہے اس میں سے کچھ باتیں چھوڑ دے گا اور اس کی وجہ سے دل تنگ رہے گا؟ اور یہ اس لیے کہ لوگ کہہ اٹھیں گے اس آدمی پر کوئی خزانہ (آسمان سے) کیوں نہیں اتر آیا؟ یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ آکر کھڑا ہوجاتا؟ (نہیں تجھے تو دل تنگ نہیں ہونا چاہیے) تیرا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرنے والا ہے (تجھ پر اس کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ تیری باتیں مان بھی لیں) اور ہر چیز پر اللہ ہی نگہبان ہے۔ ھود
13 پھر کیا یہ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ اس آدمی نے قرآن اپنے جی سے گھڑ لیا ہے؟ (اے پیغمبر) تو کہہ دے اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو اس طرح کی دس سورتیں گھڑی ہوئی بنا کر پیش کردو، اور اللہ کے سوا کسی کو (اپنی مدد کے لیے) پکار سکتے ہو پکار لو۔ (١) ھود
14 پھر اگر (تمہارے ٹھہرائے ہوئے معبود) تمہاری پکار کا جواب نہ دیں (اور تم اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو) تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ ہی کے علم سے اترا ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اب بتلاؤ کیا تم یہ بات تسلیم کرتے ہو؟ ھود
15 جو کوئی (صرف) دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے تو (ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ) اس کی کوشش و عمل کے تنائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے۔ ھود
16 لیکن (یاد رکھو) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت (کی زندگی) میں (دوزخ کی) آگ کے سوا کچھ نہ ہوگا، جو کچھ انہوں نے یہاں بنایا ہے سب اکارت جائے گا اور جو کچھ کرتے رہے ہیں سب نابود ہونے والا ہے۔ ھود
17 پھر دیکھو جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل رکھتے ہوں (یعنی وجدان و عقل کا فیصلہ) اور اس کے ساتھ ہی ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آگیا ہو ( یعنی اللہ کی وحی) اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سر تا پارحمت آچکی ہو ( اور تصدیق کر رہی ہو تو کیا ایسے لوگ انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں) یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور (ملک کے مختلف) گروہوں میں سے جو کوئی اس سے منکر ہوا تو یقین کرو (دوزخ کی) آگ ہی وہ ٹھکانا ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ پس (اے پیغمبر) تو اس کی نسبت کسی طرح کے شک میں نہ پڑیو ( یعنی دعوت قرآن کی کامیابی کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کیجیو) وہ تیرے پروردگار کی جانب سے امر حق ہے۔ لیکن (ایسا ہی ہوتا ہے) کہ اکثر آدمی (سچائی پر) ایمان نہیں لاتے۔ ھود
18 اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان باندھے؟ جو ایسا کر رہے ہیں وہ اپنے پروردگار کے حضور پیش کیے جائیں گے اور اس وقت گواہ گواہی دیں گے کہ یہ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا۔ ھود
19 تو سن رکھو ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکارا جو اللہ کی راہ سے اس کے بندوں کو روکتے ہیں اور چاہتے ہیں اس میں کجی پیدا کردیں اور جو آخرت سے بھی منکر ہوئے۔ ھود
20 یہ لوگ نہ تو زمین میں ( اللہ کو) عاجز کردینے والے تھے نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز تھا، انہیں دوگنا عذاب ہوگا (کیونکہ ان کی سرکشی اور ہٹ دھرمی ایسی تھی کہ) نہ تو حق بات سن سکتے تھے نہ (حقیقت کی روشنی پر) نظر تھی۔ ھود
21 یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں تباہی میں ڈالیں اور زندگی میں جو کچھ (حق کے خلاف) افترا پردازیاں کرتے رہے وہ سب (آخرت میں) ان سے کھوئی گئیں۔ ھود
22 اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی لوگ ہیں کہ آخرت میں سب سے زیادہ تباہ حال ہوں گے۔ ھود
23 لیکن جو لوگ ایمان لائے، نیک کام کیے اور اپنے پروردگار کی طرف قرار پکڑ لیا تو وہ جنت والے ہیں، جنت کی (کامرانیوں) میں ہمیشہ رہنے والے۔ ھود
24 ان دو فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا اور ایک دکھنے سننے والا، پھر بتلاؤ کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟ ھود
25 اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا، اس نے کہا (لوگو) میں تمہیں (انکار و بدعملی کے نتائج سے) آشکارا خبردار کرنے والا ہوں۔ ھود
26 اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایک دردناک دن نہ آجائے۔ ھود
27 اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔ ھود
28 نوح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے حضور سے ایک رحمت بھی مجھے بخشی دی ہو (یعنی راہ حق دکھا دی ہو) مگر وہ تمہیں دکھائی نہ دے تو (میں اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں جو کر رہا ہوں؟) کیا ہم جبرا تمہیں راہ دکھا دیں حالانکہ تم اس سے بے زار ہو؟ ھود
29 لوگو یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں تو اس پر مال و دولت کا تم سے طالب نہیں، میری خدمت کی مزدوری جو کچھ ہے صرف اللہ پر ہے، اور یہ بھی سمجھ لو کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہوں میں کتنے ہی ذلیل ہوں گے مگر) میں ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنے پاس سے انہیں ہنکا دوں، انہیں بھی اپنے پروردگار سے) ایک دن) ملنا ہے (اور وہ ہم سب کے اعمال کا حساب لینے والا ہے) لیکن (میں تمہیں سمجھاؤں تو کس طرح سمجھاؤں) میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جماعت ہو (حقیقت سے) جاہل۔ ھود
30 اے میری قوم کے لوگو ! مجھے بتلاؤ اگر میں ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال باہر کروں (اور اللہ کی طرف سے مواخذہ ہو جس کے نزدیک معیار قبولیت ایمان و عمل ہے، نہ کہ تمہاری گھڑٰ ہوئی شرافت اور ذلت) تو اللہ کے مقابلہ میں کون ہے جو میری مدد کرے گا؟ (افسوس تم پر) کیا تم غور نہیں کرتے۔ ھود
31 اور دیکھو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں، نہ میرا یہ دعوی ہے کہ میں فرشتہ ہوں، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جن لوگوں کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اللہ انہیں کوئی بھلائی نہیں دے گا (جیسا کہ تمہارا اعتقاد ہے) اللہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں کے دلوں میں ہے، اگر میں (تمہاری خواہش کے مطابق) ایسا کہوں تو جونہی ایسی بات کہی میں ظالموں میں سے ہوگیا۔ ھود
32 اس پر ان لوگوں نے کہا اے نوح تو نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑ چکا (اب ان باتوں سے کچھ بننے والا نہیں) اگر تو سچا ہے تو جس بات کا وعدہ کیا ہے وہ ہمیں لا دکھا۔ ھود
33 نوح نے کہا اگر اللہ کو منظور ہوگا تو بلا شبہ تم پر وہ بات لے آئے گا اور تمہیں یہ قدرت نہیں کہ (اسے کسی بات سے) عاجز کردو۔ ھود
34 اور اگر اللہ کی مشیت یہی ہے کہ تمہیں ہلاک کرے تو میں کتنا ہی نصیحت کرنا چاہوں میری نصیحت کچھ سود مند نہ ہوگی وہی تمہارا پروردگار ہے، اسی کی طرف تمہیں لوٹنا ہے۔ ھود
35 (حکم اللہ ہوا، اے نوح) کیا یہ لوگ کہتے ہیں اس آدمی نے (یعنی نوح نے) اپنے جی سے یہ بات گھڑ لی ہے؟ تو کہہ دے اگر میں نے یہ بات گھڑ لی ہے تو میرا جرم مجھ پر اور تم جو جرم کر رہے ہو (اس کی پاداش تمہارے لیے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ ھود
36 اور نوح پر وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اب کوئی ایمان لانے والا نیہں، پس جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر (بے کار کو) غم نہ کھا۔ ھود
37 اور (کہا گیا کہ) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بنانا شروع کردے اور ان ظالموں کے بارے میں اب ہم سے کچھ عرص معروض نہ کر، یقینا یہ لوگ غرق ہوجانے والے ہیں۔ ھود
38 چنانچہ نوح کشتی بنانے لگا۔ اور جب کبھی ایسا ہوتا کہ اس کی قوم کا کوئی گروہ اس پر سے گزرتا تو (اسے کشتنی بنانے میں مشغول دیکھ کر) تمسخر کرنے لگا، نوح انہیں جواب دیتا کہ اگر ہماری ہنسی اڑاتے ہو تو (ڑالو) اسی طرح ہم بھی (تمہاری بے وقوفیوں پر ایک دن) ہنسیں گے۔ ھود
39 وہ وقت دور نہیں جب تمہیں معلوم ہوجائے گا کون ہے جس پر ایسا عذاب آتا ہے کہ اسے رسوا کرے اور پھر دائمی عذاب بھی اس پر نازل ہو۔ ھود
40 (یہ سب کچھ ہوتا رہا) یہاں تک کہ جب وہ وقت آگیا کہ ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات ظہور میں آئے اور (فطرت کے) تنور نے جوش مارا تو ہم نے (نوح کو) حکم دیا ہر قسم (کے جانوروں) کے دو دو جوڑے کشتی میں لے لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لو۔ مگر اہل و عیال میں وہ لوگ داخل نہیں جن کے لیے پہلے بات کہی جاچکی ہے (یعنی کہا جاچکا ہے کہ انہیں غرق ہونا ہے) نیز ان لوگوں کو بھی لے لو جو ایمان لا چکے ہیں، اور نوح کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے مگر بہت تھوڑے آدمی۔ ھود
41 اور (نوح نے ساتھیوں سے) کہا کشتی میں سوار ہوجاؤ اللہ کے نام سے اسے چلنا ہے ورا اللہ ہی کے نام سے ٹھہرنا، بلاشبہ میرا پروردگار بخشنے والا رحمت والا ہے۔ ھود
42 اور (دیکھو) ایسی موجوں میں کہ پہاڑ کی طرح اٹھتی ہیں کشتی انہیں لیے جارہی ہے، اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا، وہ کنارہ پر (کھڑا) تھا، اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔ ھود
43 اس نے کہا میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا، وہ مجھے پانی کی زد سے بچا لے گا، نوح نے کہا، (تو کس خیال خام میں پڑا ہے؟) آج اللہ کی (ٹھہرائی ہوئی) بات سے بچانے والا کوئی نہیں مگر ہاں وہی جس پر رحم کرے اور (دیکھو) دونوں کے درمیان ایک موج حائل ہوگئی۔ پس وہ انہی میں ہوا جو ڈوبنے والے تھے۔ ھود
44 اور (پھر اللہ کا) حکم ہوا اے زمین ! اپنا پانی پی لے، اور اے آسمان ! تھم جا، اور پانی کا چڑھاؤ اتر گیا اور حادثہ انجام پا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا نامرادی اس گروہ کے لیے ہے جو ظلم کرنے والا گروہ تھا۔ ھود
45 اور نوح نے اپنے پروردگار سے دعا کی، اس نے کہا خدایا ! میرا بیٹا تو میرے گھر کے لوگوں میں سے ہے، اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے، تجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔ ھود
46 (خدا نے) فرمایا اے نوح ! وہ تیرے گھر کے لوگوں میں سے نہیں، وہ تو (سرتاپا) عمل بد ہے (١) پس جس حقیقت کا تجھے علم نہیں اس بارے میں سوال نہ کر۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ناواقفوں میں سے نہ ہوجانا۔ ھود
47 (نوح نے) عرض کیا خدایا ! میں اس بات سے تیرے حضور پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی بات کا سوال کروں جس کی حقیقت کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور رحم نہ فرمایا تو میں ان لوگوں میں سے ہوجاؤں گا جو تباہ حال ہوئے۔ ھود
48 حکم ہوا اے نوح ! اب کشتی سے اتر، ہماری جانب سے تجھ پر سلامتی اور برکتیں ہوں، نیز ان جماعتوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور دوسری کتنی ہی جماعتیں ہیں (بعد کو آنے والی) جنہیں ہم (زندگی کے فائدوں سے) بہرہ مند کریں گے۔ لیکن پھر انہیں (پاداش عمل میں) ہماری طرف سے عذاب دردناک پہنچے گا۔ ھود
49 (اے پیغمبر) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے وحی کے ذریعہ سے تجھے بتلا رہے ہیں، اس سے پہلے نہ تو یہ باتیں تو جانتا تھا نہ تیری قوم، پس صبر کر (اور منکروں کے جہل و شرارت سے دلگیر نہ ہو) انجام کار متقیوں ہی کے لیے ہے۔ ھود
50 اور ہم نے (قوم) عاد کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے ہود کو بھیجا۔ ہود نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقین کرو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ (حقیقت کے خلاف) افترا پردازیاں کر رہے ہو۔ ھود
51 اے میری قوم کے لوگو ! میں اس بات کے لیے تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ تو اسی پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر کیا تم (اتنی صاف بات بھی) نہیں سمجھتے؟ ھود
52 اور اے میری قوم کے لوگو ! اپنے پروردگار سے (اپنے قصوروں کی) مغفرت مانگو، اور (آئندہ کے لیے) اس کی جناب میں توبہ کرو، وہ تم پر برستے ہوئے بادل بھیجتا ہے (جس سے تمہارے کھیت اور باغ شاداب ہوجاتے ہیں) اور تمہاری قوتوں پر نئی نئی قوتیں بڑھاتا ہے (کہ روز بروز گھٹنے کی جگہ اور زیادہ بڑھتے جاتے ہو) اور (دیکھو) جرم کرتے ہوئے اس سے منہ نہ موڑو۔ ھود
53 (ان لوگوں نے) کہا اے ہود ! تو ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر تو آیا نہیں (جسے ہم دلیل سمجھیں) اور ہم ایسا کرنے والے نہیں کہ تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں، ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں۔ ھود
54 ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی معبود کی تجھ پر مار پڑگئی ہے (اسای لیے اس طرح کی باتیں کرنے لگا ہے) ہود نے کہا میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جن ہستیوں کو تم نے اس کا شریک بنا رکھا ہے مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں۔ ھود
55 تم سب ملکر میرے خلاف جو کچھ تدبیریں کرسکتے ہو ضرور کرو اور مجھے (ذرا بھی) مہلت نہ دو (پھر دیکھ لو، نتیجہ کیا نکلتا ہے؟) ھود
56 میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی، کوئی حرکت کرنے والی ہستی نہیں کہ اس کے قبضہ سے باہر ہو۔ (١) میرا پروردگار (حق و عدل کی) سیدھی راہ پر ہے (یعنی اس کی راہ ظلم کی راہ نہیں ہوسکتی) ھود
57 پھر اگر (اس پر بھی تم) نے روگردانی کی تو جس بات کے لیے میں بھیجا گیا تھا وہ میں نے پہنچا دی (اس سے زیادہ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے) اور (مجھے تو نظر آرہا ہے کہ) میرا پروردگار کسی دوسرے گروہ کو تمہاری جگہ دے دے گا اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے، یقینا میرا پروردگار ہر چیز کا نگران حال ہے۔ ھود
58 اور (دیکھو) جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود کو بچا لیا اور ان لوگوں کو بھی بچا لیا جو اس کے ساتھ (سچائی پر) ایمان لائے تھے اور ایسے عذاب سے بچایا کہ بڑا ہی سخت عذاب تھا۔ ھود
59 یہ ہے سرگزشت عاد کی، انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں (ہٹ دھرمی اور سرکشی کرتے ہوئے) جھٹلائیں اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر متکبر و سرکش کے حکم کی پیروی کی۔ ھود
60 اور ایسا ہوا کہ دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت پڑی (یعنی رحمت الہی کی برکتوں سے محرومی ہوئی) اور قیامت کے دن بھی۔ تو سن رکھو کہ قوم عاد نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی، اور سن رکھو کہ عاد کے لیے محرومی کا اعلان ہوا جو ہود کی قوم تھی۔ ھود
61 اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر اسی میں تمہیں بسا دیا، پس چاہیے کہ اس سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رکوع ہو کر رہو۔ یقین کرو، میرا پروردگار (ہر ایک کے) پاس ہے، اور (ہر ایک کی) دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔ ھود
62 لوگوں نے کہا اے صالح پہلے تو تو ایک ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں پھر کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ ان معبودوں کی پوجا نہ کریں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں؟ (یہ کیسی بات ہے؟) ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو کہ ہمارے دل میں اترتی نہیں۔ ھود
63 صالح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنی رحمت مجھے عطا فرمائی ہو تو پھر کون ہے جو اللہ کے مقابلہ میں میری مدد کرے گا اگر میں اس کے حکم سے سرتابی کروں؟ تم (اپنی توقع کے مطابق دعوت کار دے کر) مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہو۔ ھود
64 اور اے میری قوم کے لوگو ! دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی (یعنی اس کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی) تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے، پس اسے چھوڑ دو، اللہ کی زمین میں چرتی رہے، اسے کسی طرح کی اذیت نہ پہنچانا، ورنہ فورا عذاب آ پکڑے گا۔ ھود
65 لیکن لوگوں نے (اور زیادہ ضد میں آکر) اسے ہلاک کر ڈالا، تب صالح نے کہا، (اب تمہیں صرف) تین دن (کی مہلت ہے) اپنے گھروں میں کھا پی لو، یہ وعدہ ہے، جھوٹا نہ نکلے گا۔ ھود
66 پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آپہنچا تو ہم نے صالح کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ اپنی رحمت سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے نجات دے دی (اے پیغمبر) بلاشبہ تیرا پروردگار ہے جو قوت والا اور سب پر غالب ہے۔ ھود
67 اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کا ٰحال یہ ہوا کہ ایک زور کی کڑک نے آلیا، جب صبح ہوئی تو سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے۔ ھود
68 (وہ اس طرح اچانک مرگئے) گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے تو سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور ہاں سن رکھو کہ ثمود کے لیے محرومی ہوئی۔ ھود
69 اور یہ واقعہ ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے تھے، انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو، ابراہیم نے کہا تم پر بھی سلامتی، پھر ابراہیم فورا ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا (اور ان کے سامنے رکھ دیا کہ یہ میرے مہمان ہیں) ھود
70 پھر جب اس نے دیکھا ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو ان سے بدگمان ہوا اور جی میں ڈرا (کہ یہ کیا بات ہے؟) انہوں نے کہا خوف نہ کر، ہم تو (اللہ کی طرف سے) قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ھود
71 اور اس کی بیوی (سارہ) بھی (خیمہ میں) کھڑی (سن رہی) تھی، وہ ہنس پڑی (یعنی اندیشہ کے دور ہوجانے سے خوش ہوگئی) پس ہم نے اسے (اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے) اسحاق (کے پیدا ہونے) کی خوشخبری دی اور اس کی کہ اسحاق کے بعد یعقوب کا ظہور ہوگا۔ ھود
72 وہ بولی افسوس مجھ پر کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میرے اولاد ہو حالانکہ میں بڑھیا ہوگئی ہوں اور یہ میرا شوہر بھی بوڑھا ہوچکا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔ ھود
73 انہوں نے کہا کیا تو اللہ کے کاموں پر تعجب کرتی ہے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی رحمت اور برکتیں تجھ پر ہوں اے اہل خانہ ابراہیم ! (اس کے فضل و کرم سے یہ بات کچھ بعید نہیں ہے) بلاشبہ اسی کی ذات ہے جس کی ستائشیں کی جاتی ہیں اور وہی ہے جس کے لیے ہر طرح کی بڑائیاں ہیں۔ ھود
74 پھر جب ابراہیم کے دل سے اندیشہ دور ہوگیا اور اسے خوشخبری ملی تو قوم لوط کے بارے میں ہم جھگڑنے لگا (یعنی ہمارے فرستادوں سے بار بار سوال و جواب کرنے لگا کہ آنے والی بلا ٹل جائے) ھود
75 حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑا ہی بردبار، بڑا ہی نرم دل اور (ہرحال میں) اللہ کی طرف رجوع ہو کر رہنے والا تھا۔ ھود
76 (ہمارے فرستادوں نے کہا) اے ابراہیم ! اب اس بات کا خیال چھوڑ دے، تیرے پروردگار کی (ٹھہرائی ہوئی) بات جو تھی وہ آ پہنچی اور ان لوگوں پر عذاب آرہا ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔ ھود
77 اور پھر جب ایسا ہوا کہ ہمارے فرستاد لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کے آنے سے خوش نہیں ہوا۔ ان کی موجودگی نے اسے پریشان کردیا، وہ بولا آج کا دن تو بڑی مصیبت کا دن ہے۔ ھود
78 اور اس کی قوم کے لوگ (اجنبیوں کے آنے کی خبر سن کر) دوڑتے ہوئے آئے، وہ پہلے سے برے کاموں کے عادی ہو رہے تھے، لوط نے ان سے کہا، لوگو یہ میری بیٹیاں ہیں (یعنی بستی کی عورتیں جنہیں وہ اپنی بیٹیوں کی جگہ سمجھتا تھا اور جنہیں لوگوں نے چھوڑ رکھا تھا) یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں، پس (ان کی طرف ملتفت ہو، دوسری بات کا قصد نہ کرو اور) اللہ سے ڈرو، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں؟ ھود
79 ان لوگوں نے کہا تجھے معلوم ہوچکا ہے کہ تیری ان بیٹیوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، اور تو اچھی طرح جانتا ہے ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ھود
80 لوط نے کہا کاش تمہارے مقابلہ کی مجھے طاقت ہوتی یا کوئی سہارا ہوتا جس کا آسرا پکڑ سکتا۔ ھود
81 (تب مہمانوں نے) کہا اے لوط ! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں (گھبرانے کی کوئی بات نہیں) یہ لوگ کبھی تجھ پر قابو نہ پاسکیں گے، تو یوں کر کہ جب رات کا ایک حصہ گزر جائے تو اپنے گھر کے آدمیوں کو ساتھ لے کر نکل چل اور تم میں سے کوئی ادھر ادھر نہ دیکھے (یعنی اور کسی بات کی فکر نہ کرے) مگر ہاں تیری بیوی (ساتھ دینے والی نہیں، وہ پیچھے رہ جائے گی) جو کچھ ان لوگوں پر گزرنا ہے وہ اس پر بھی گزرے گا، ان لوگوں کے لیے عذاب کا مقررہ وقت صبح کا ہے اور صبح کے آنے میں کچھ دیر نہیں۔ ھود
82 پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آپہنچا تو (اے پیغمبر) ہم نے اس (بستی) کی تمام بلندیاں پستی میں بدل دیں۔ (یعنی تمام بلند عمارتیں گرا کر زمین کے برابر کردیں) اور اس پر آگ میں پکے ہوئے پتھر لگاتار برسائے کہ تیرے پروردگار کے حضور (اس غرض سے) نشانی کیے ہوئے تھے۔ (١) ھود
83 یہ (بستی) ان ظالموں سے (یعنی اشرار مکہ سے) کچھ دور نہیں ہے (یہ اپنی سیرو سیاحت میں وہاں سے گزرتے رہتے ہیں اور اگر چاہیں تو اس سے عبرت پکڑ سکتے ہیں) ھود
84 اور ہم نے (قبیلہ) مدین کی طرف اس کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوشحال ہو، (یعنی خدا نے تمہیں بہت کچھ دے رکھا ہے، پس کفران نعمت سے بچو) میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب سے پر چھا جائے گا۔ ھود
85 اور اے میری قوم کے لوگو ! ماپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں (ان کے حق سے) کم نہ دو، ملک میں شر و فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ ھود
86 اگر تم میرا کہا مانو تو جو کچھ اللہ کا دیا (کاروبار میں) بچ رہے اسی میں تمہارے لیے بہتری ہے، اور دیکھو (میرا کام تو صرف نصیحت کردینا ہے) میں کچھ تم پر نگہبان نہیں (کہ جبرا اپنی راہ پر چلا دوں) ھود
87 لوگوں نے کہا اے شیعب ! کیا تیری یہ نمازیں (جو تو اپنے خدا کے لیے پڑھتا ہے) تجھے یہ حکم دیتی ہیں کہ ہمیں آکر کہے : ان معبودوں کو چھوڑ دو جنہیں تمہارے باپ دادا پوجتے رہے ہیں، یا یہ کہ تمہیں اختیار نہیں کہ اپنے مال میں جس طرح کا تصرف کرنا چاہو کرو،؟ بس تم ہی ایک نرم دل اور راست باز آدمی رہ گئے ہو۔ ھود
88 شعیب نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن رکھتا ہوں اور (اس کے فضل و کرم کا یہ حال ہو کہ) اچھی (سے اچھی) روزی عطا فرما رہا ہو (تو پھر بھی میں چپ رہوں اور تمہیں راہ حق کی طرف نہ بلاؤں) اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس بات سے تمہیں روکتا ہوں اس سے تمہیں تو روکوں اور خود اس کے خلاف چلوں۔ (میں تمہیں جو کچھ کہتا ہوں اسی پر عمل بھی کرتا ہوں ٩ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ جہاں تک میرے بس میں ہے اصلاح حال کی کوشش کروں، میرا کام بننا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بننا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوں۔ ھود
89 اور اے میری قوم کے لوگو ! میری ضد میں آکر کہیں ایسی بات نہ کر بیٹھنا کہ تمہیں بھی ویسا ہی معاملہ پیش آجائے جیسا قوم نوح کو یا قوم ہود کو یا قوم صالح کو پیش آچکا ہے اور قوم لوط (کا معاملہ) تم سے کچھ دور نہیں۔ (١) ھود
90 اور دیکھو اللہ سے (اپنے گناہوں کی) معافی مانگو اور اس کی طرف لوٹ جاؤ، میرا پروردگار بڑا ہی رحمت والا، بڑا ہی محبت والا ہے۔ ھود
91 لوگوں نے کہا اے شعیب ! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہم لوگوں میں ایک کمزور آدمی ہو، (اگر (تمہارے ساتھ) تمہاری برادری کے آدمی نہ ہوتے تو ہم ضرور تمہیں سنگ سار کردیتے، تمہاری ہمارے سامنے کوئی ہستی نہیں۔ ھود
92 شعیب نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا اللہ سے بڑھ کر میری برادری کا دباؤ ہوا؟ اور اللہ تمہارے لیے کچھ نہ ہوا کہ اسے پیچھے ڈال دیا؟ (اچھا) جو کچھ تم کرتے ہو میرے پروردگار کے احاطہ (علم) سے باہر نہیں۔ ھود
93 اے میری قوم کے لوگو ! تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، میں بھی (اپنی جگہ) سرگرم عمل ہوں، بہت جلد معلوم کرلو گے کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا اور کون فی الحقیقت جھوٹا ہے، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ ھود
94 اور پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آپہنچا تو ایسا ہوا کہ ہم نے شعیب کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا اور جو لوگ ظالم تھے انہیں ایک سخت آواز نے آپکڑا، پس جب صبح ہوئی تو اپنے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے۔ ھود
95 (وہ اس طرح اچانک ہلاک ہوگئے) گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہیں تھے۔ تو سن رکھو کہ قبیلہ مدین کے لیے بھی محرومی ہوئی جس طرح قوم ثمود کے لیے محرومی ہوئی تھی۔ ھود
96 اور (یہ بھی ہوچکا ہے کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور واضح سند کے ساتھ بھیجا تھا۔ ھود
97 فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، مگر وہ فرعون کی بات پر چلے اور فرعون کی بات راست بازی کی بات نہ تھی۔ ھود
98 قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا (جس طرح دنیا میں گمراہی کے لیے ہوا) اور انہیں دوزخ میں پہنچائے گا، تو دیکھو کیا ہی پہنچنے کی بری جگہ ہے جہاں وہ پہنچ کر رہے۔ ھود
99 اور اس دنیا میں لعنت ان کے پیچھے لگی (کہ ان کا ذکر پسندیدگی کے ساتھ نہیں کیا جاتا) اور قیامت میں بھی (کہ عذاب آخرت کے مستحق ہوئے) تو دیکھو کیا ہی برا صلہ ہے جو ان کے حصے میں آیا۔ ھود
100 (اے پیغمبر) یہ (پچھلی) آبادیوں کی خبروں میں سے چند کا بیان ہے جو ہم تجھے سنا رہے ہیں، ان میں سے کچھ تو اس وقت قائم ہیں، کچھ بالکل اجڑ گئیں۔ ھود
101 اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا، تو دیکھ جب تیرے پروردگار کی (ٹھہرائی ہوئی بات) آپہنچی تو ان کے وہ معبود کچھ بھی کام نہ آئے جنہیں اللہ کے سوا پکارار کرتے تھے، انہوں نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا بجز اس کے کہ ہلاکی کا باعث ہوئے۔ ھود
102 اور تیرے پروردگار کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ انسانی آبادیوں کو ظلم کرتے ہوئے پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بڑی ہی دردناک بڑی ہی سخت ہے۔ ھود
103 (اور) اس میں اس کے لیے بڑی ہی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب کا خوف رکھتا ہو، یہ (آخرت کا دن) وہ دن ہے جب تمام انسان اکٹھے کیے جائیں گے اور یہ وہ دن ہے جس کا نظارہ کیا جائے گا۔ ھود
104 اور ہم نے اس دن کو پیچھے نہیں ڈالا ہے مگر صرف اسلیے کہ ایک مقررہ وقت پر اس کا ظہور ہو۔ ھود
105 جب وہ دن آپہنچے گا تو کسی جان کی مجال نہ ہوگی کہ بغیر اللہ کی اجازت کے زبان کھولے، پھر (اس دن انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی) کچھ ایسے ہوں گے جن کے لے محرومی ہے اور کچھ ایسے جن کے لیے سعادت۔ ھود
106 تو جو لوگ محروم ہوئے وہ دوزخ میں ہوں گے، ان کے لیے وہاں چیخنا چلانا ہوگا۔ ھود
107 وہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ (اور اس کے خلاف کچھ نہ ہوگا) مگر ہاں اس صورت میں کہ تیرا پروردگار چاہے، (اور) بلاشبہ تیرا پروردگار اپنے کاموں میں مختار ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ھود
108 اور جن لوگوں نے سعادت پائی تو وہ بہشت میں ہوں گے اور اسی میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، (اس کے خلاف کچھ ہونے والا نہیں) مگر ہاں اس صورت میں کہ تیرا پروردگار چاہے یہ (سعیدوں کے لیے) بخشش ہے ہمیشہ جاری رہنے والی۔ ھود
109 پس (اے پیغبر) یہ لوگ جو (خدا کے سوا دوسری ہستیوں کی) پرستش کرتے ہیں تو اس بارے میں تجھے کوئی شبہ نہ ہو۔ (یعنی اس بارے میں کہ ان کا کیا حشر ہونے والا ہے؟) یہ اسی طرح پرستش کر رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے ان کے باپ دادا کرتے رہے ہیں، ایسا ضرور ہونے والا ہے کہ ہم ان (کے اعمال کے نتائج) کا حصہ انہیں پورا پورا دیں گے، بغیر کسی کمی کے۔ ھود
110 اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی، پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور تیرے پروردگار نے پہلے سے ایک بات نہ ٹھہرا دی ہوتی (یعنی یہ کہ دنیا میں ہر انسان کو اس کی مرضی کے مطابق مہلت عمل ملتی ہے) تو البتہ ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا، اور ان لوگوں کو اس کی نسبت شبہ ہے کہ حیرانی میں پڑے ہیں۔ ھود
111 اور (یقین کر) سب کے لیے یہی ہونا ہے کہ جب وقت آئے گا تو تیرا پروردگار ان کے عمل انہیں پورے پورے دے گا (یعنی جیسے ان کے عمل ہوں گے ویسے ہی ان کے نتائج بھی پورے پورے مل جائیں گے) جو کچھ لوگ کر رہے ہیں وہ اس کی پوری خبر رکھنے والا ہے۔ ھود
112 پس چاہیے کہ جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے تم اور وہ سب جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہو لیے ہیں (اپنی راہ میں) استوار ہوجاؤ اور حد سے نہ بڑھو، یقین کرو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ ھود
113 اور ایسا بھی نہ کرنا ظالموں کی طرف جھک پڑو اور (قریب ہونے کی وجہ سے) آگ تمہیں بھی چھو جائے، اللہ کے سوا تمہارا کوئی رفیق نہیں، پھر (اگر اس سے بچھڑے تو) کہیں مدد نہ پاؤ گے۔ ھود
114 اور نماز قائم کرو، اس وقت جب دن شروع ہونے کو ہو اور اس وقت جب ختم ہونے کو ہو، نیز اس وقت جب رات کا ابتدائی حصہ گزر رہا ہو۔ْ یاد رکھو نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں، یہ نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت پذیر ہیں۔ ھود
115 اور صبر کرو (یعنی راہ حق کی تمام مشکلیں جھیلتے رہو) کیونکہ اللہ نیک عملوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ھود
116 پھر (دیکھو) ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جو عہد تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں اہل خیر باقی رہے ہوتے اور لوگوں کو ملک میں شر و فساد کرنے سے روکتے؟ ایسا نہیں ہوا مگر بہت تھوڑے عہدوں میں جنہیں ہم نے نجات دی، طلم کرنے والے تو اسی راہ پر چلے جس میں انہوں نے (اپنی نفس پرستوں کی) آسودگی پائی تھی، اور (وہ سب احکام حق کے) مجرم تھے۔ ھود
117 اور (یاد رکھو) ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تمہارا پروردگار آبادیوں کو ناحق ہلاک کردے اور اس کے باشندے سنوارنے والے ہوں۔ ھود
118 اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک امت بنا دیتا (یعنی سب ایک ہی راہ چلتے لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ اس نے ایسا نہیں چاہا اور یہاں الگ الگ گروہ اور الگ الگ راہیں ہوئیں) اور لوگ ایسے ہی رہیں گے کہ مختلف ہوں۔ ھود
119 مگر ہاں جس پر تیرے پروردگار نے رحم فرمایا (تو وہ حقیقت پالے گا اور اس بارے میں اختلاف نہیں کرے گا) اور اسی لیے انہیں پیدا کیا ہے، اور (پھر دیکھو اسی اختلاف فکر و عمل کا نتیجہ ہے کہ) تمہارے پروردگار کی) ٹھہرائی ہوئی) بات پوری ہو کر رہی کہ البتہ ایسا ہوگا کہ میں جہنم کو کیا جن اور کیا انسان سب سے بھر پور کردوں۔ ھود
120 اور (اے پیغبر) رسولوں کی سرگزشتوں میں سے جو جو قصے ہم تجھے سناتے ہیں (یعنی جن جن اسلوبوں سے ہم سناتے ہیں) تو ان سب میں یہی بات ہے کہ تیرے دل کو تسکین دے دیں، اور پھر ان کے اندر تجے امر حق مل گیا (یعنی سچائی کی دلیلیں مل گئیں) اور موعظت (کہ نصیحت پکڑنے والے نصیحت پکڑیں گے) اور یاد دہانی ہوئی مومنوں کے لیے۔ ھود
121 اور (اے پیغبر) جو لوگ ایمان نہیں لاتے (اور دعوت حق کا مقابلہ کر رہے ہیں) ان سے کہہ دے۔ تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، ہم بھی (اپنی جگہ) سرگرم عمل ہیں۔ ھود
122 اور (نتیجہ کے) منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں۔ ھود
123 اور (یاد رکھو) اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی چھپی باتوں کا علم ہے اور سارے کام اسی کے آگے رجوع ہوتے ہیں، پس اس کی بندگی میں لگا رہ اور اس پر بھروسہ کر، تیرا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ لوگ کر رہے ہیں۔ ھود
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے یوسف
1 الر۔ یہ آیتیں ہیں روشن و واضح کتاب کی۔ یوسف
2 ہم نے اسے اس شکل میں اتارا کہ عربی زبان کا قرآن ہے، تاکہ تم سمجھو بوجھ۔ یوسف
3 (اے پیغمبر) اس قرآن کی وحی کر کے ہم تجھے بہتر طریقہ پر (پچھلی) سرگزشتیں سناتے ہیں اور یقینا قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تو انہی لوگوں میں سے تھا جو (ان سرگزشتوں سے) بے خبر تھے۔ یوسف
4 اور (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ یوسف نے اپنے باپ سے کہا تھا اے میرے باپ ! میں نے (خواب میں) دیکھا کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند اور دیکھا کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ یوسف
5 (باپ نے کہا) اے میری بیٹے ! اپنے اس خواب کا حال اپنے بھائیوں سے نہ کہہ دیجیو کہ وہ تیرے خلاف کسی منصوبہ کی تدبیریں کرنے لگیں۔ یاد رکھ، شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔ یوسف
6 اور (اے میرے بیٹے جس طرحح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج چاند تیرے آگے جھکے، تو) اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے اور یہ بات سکھلانے والا ہے کہ باتوں کا نتیجہ و مطلب کیونکر ٹھہرایا جائے، نیز جس طرحح وہ اب سے پہلے تیرے بزرگوں ابراہیم اور اسحاق پر اپنی نعمت پوری کرچکا ہے اسی طرح تجھ پر اور یعقوب کے گھرانے پر بھی پوری کرے گا، بلا شبہ تیرا پروردگار (سب کچھ) جاننے والا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔ یوسف
7 جو لوگ (حقیقت حال) پوچھنے والے ہیں (اگر وہ سمجھیں تو) ان کے لیے یوسف اور اس کے بھائیوں کے معاملہ میں (موعظت و عبرت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ یوسف
8 اور جب ایسا ہوا تھا کہ (یوسف کے سوتیلے بھائی آپس میں) کہنے لگے، ہمارے باپ کو یوسف اور اس کا بھائی (بنیامین) ہم سب سے بہت زیادہ پیارا ہے حالانکہ ہم ایک پوری جماعت ہیں (یعنی ہماری اتنی بڑی تعداد ہے) اور یقینا ہمارا باپ صریح غلطی پر ہے۔ یوسف
9 پس (بہتر یہ ہے کہ) یوسف کو مار ڈالیں، یا کسی جگہ پھینک آئیں، تاکہ ہمارے باپ کی توجہ ہماری ہی طرف رہے اور اس کے نکل جانے کے بعد ہمارے سارے کام سدھر جائیں۔ یوسف
10 ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا، نہیں یوسف کو قتل مت کرو، اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو کسی اندھے کنوے میں ڈالو۔ (گزرنے والے قافلوں میں سے) کوئی قافلہ (اس پر گزرے گا اور) اسے نکال لے گا۔ یوسف
11 (تب سب ملکر باپ کے پاس آئیے) اور انہوں نے کہا، اے ہمارے باپ ! کیوں آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے؟ (اور ہمارے ساتھ کہیں جانے نہیں دیتے؟) حالانکہ ہم تو اس کے دل سے خیر خواہ ہیں۔ یوسف
12 کل ہمارے ساتھ اسے (جنگل میں) جانے دیجیے کہ کھائے پیے، کھیلے کودے، ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ یوسف
13 (باپ نے کہا) یہ بات مجھے غم میں ڈالتی ہے کہ تم اسے اپنے ہمراہ لے جاؤ، اور میں ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو بھیڑیا کھا لے اور تم اس سے غافل ہو۔ یوسف
14 انہوں نے کہا بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بھیڑیا اسے کھالے اور ہمارا ایک پورا جتھا موجود ہو، اگر ایسا ہو تو پھر ہم نرے نکمے ہی نکلے۔ یوسف
15 پھر جب یہ لوگ (باپ سے رخصت لے کر) یوسف کو ساتھ لے گئے اور سب نے اس پر اتفاق کرلیا کہ اندھے کنویں میں ڈال دیں (اور ایسا ہی کر گزرے) تو ہم نے یوسف پر وحی بھیجی کہ (مایوس نہ ہو) ایک دن ضرور آنے والا ہے جب ان کا یہ معاملہ تو انہیں جتائے گا اور وہ نہیں جانتے (کہ کیا کچھ ہونے والا ہے) یوسف
16 اور وہ اپنے باپ کے پاس شام کو روتے پیٹتے آئے۔ یوسف
17 انہوں نے کہا اے ہمارے باپ ! ہم ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لیے دوڑ میں لگ گئے تھے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا، پس ایسا ہوا کہ بھیڑیا آ نکلا اور یوسف کو (مار کر) کھالیا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ آپ ہماری بات کا یقین کرنے والے نہیں، اگرچہ ہم کتنے ہی سچے ہوں۔ یوسف
18 اور وہ یوسف کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا خون لگا لائے تھے، باپ نے (اسے دیکھتے ہی) کہا نہیں (میں یہ نہیں مان سکتا) یہ تو ایک بات ہے جو تمہارے نفس نے گھڑ کر تمہیں خوشنما دکھا دی ہے (اور تم سمجھتے ہو چل جائے گی) خیر میرے لیے اب صبر کرنا ہے (اور) صبر (بھی ایسا کہ) پسندیدہ (ہو) اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگنی ہے۔ یوسف
19 اور (دیکھو) ایک قافلہ کا اس پر گزر ہوا (یعنی اس کنویں پر جس میں یوسف کو ڈالا تھا) اور قافلہ والوں نے پانی کے لیے اپنا سقہ بھیجا۔ پھر جونہی اس نے اپنا ڈول لٹکایا (اور یہ سمجھ کر کہ پانی سے بوجھل ہوچکا ہے اوپر کھینچا) تو (کیا دیکھتا ہے ایک جیتا جاگتا لڑکا اس میں بیٹھا ہے، وہ) پکار اٹھا کیا خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے۔ اور (پھر) قافلہ والوں نے اسے اپنا سرمایہ تجارت سمجھ کر چھپا رکھا (کہ کوئی دعویدات نہ نکل آئے) اور وہ جو کچھ کر رہے تھے اللہ کے علم سے پوشیدہ نہ تھا۔ یوسف
20 اور (پھر) انہوں نے یوسف کو بہت کم داموں پر کہ گنتی کے چند درہم تھے (بازار میں) فروخت کردیا اور وہ اس معاملہ میں (اچھی قیمت لینے کے) چنداں خواہشمند بھی نہ تھے (یعنی چونکہ لڑکا مفت مل گیا تھا یا بہت کم داموں خریدا تھا، اس لیے بڑی قیمت کے چنداں خواہش مند نہ تھے۔ یوسف
21 اور اہل مصر میں سے جس شخص نے یوسف کو قافلہ والوں سے مول لیا تھا وہ (اسے لے کر اپنے گھر آیا اور) اپنی بیوی سے بولا اسے عزت کے ساتھ رکھو، عجب نہیں یہ ہمیں فائدہ پہنچائے ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ اور (دیکھو) اس طرح ہم نے یوسف کا سرزمین مصر میں قدم جما دیا اور مقصود یہ تھا کہ اسے باتوں کا نتیجہ و مطلب نکالنا سکھا دیں، اور اللہ کو جو معاملہ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ یوسف
22 اور پھر جب ایسا ہوا کہ یوسف اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے کار فرمائی کی قوت اور علم کی فراوانی بخشی، ہم نیک عملوں کو ایسا ہی (ان کی نیک عملی کا) بدلہ عطا فرماتے ہیں۔ یوسف
23 اور (پھر ایسا ہوا کہ) جس عورت کے گھر میں یوسف رہتا تھا (یعنی عزیز کی بیوی) وہ اس پر (ریجھ گئی اور) ڈورے ڈالنے لگی کہ بے قابو ہو کر بات مان جائے۔ اس نے (ایک دن) دوروازے بند کردیے اور بولی لو آؤ، یوسف نے کہا معاذ اللہ ! (مجھ سے ایسی بات کبھی نہیں ہوسکتی) تیرا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھے عزت کے ساتھ (گھر میں) جگہ دی ہے ( میں اس کی امانت میں خیانت نہیں کروں گا) اور حد سے گزرنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ یوسف
24 اور حقیقت یہ ہے کہ عورت یوسف کے پیچھے پڑچکی تھی اور (حالت ایسی ہوگئی تھی کہ بے قابو ہوکر) یوسف بھی اس کی طرف متوجہ ہوجاتا اگر اس کے پروردگار کی دلیل اس کے سامنے نہ آگئی ہوتی۔ (تو دیکھو) اس طرح (ہم نے نفس انسانی کی اس سخت آزمائش میں بھی اسے دلیل حق کے ذریعہ سے ہوشیار رکھا) تاکہ برائی اور بے حیائی کی باتیں اس سے دور رکھیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھا جو برگزیدگی کے لیے چن لیے گئے۔ یوسف
25 اور (ایسا ہوا کہ دونوں دروازوں کی طرف دوڑے اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا تھا (یوسف اس لیے کہ عورت سے بھاگ نکلے، عورت اس لیے کہ اسے نکل بھاگنے سے روکے) اور عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے کھینچا اور دو ٹکڑے کردیا، اور (پھر اچانک) دونوں نے دیکھا کہ عورت کا خاوند دروازے کے پاس کھڑا ہے، تب عورت نے (اپنا جرم چھپانے کے لیے فورا بات بنا لی) اور کہا جو آدمی تیرے اہل خانہ کے ساتھ بری بات کا ارادہ کرے۔ اس کی سزا کیا ہونی چاہیے ؟ کیا یہی نہیں ہونی چاہیے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا (کوئی اور) دردناک سزا دی جائے؟ یوسف
26 (اس پر) یوسف نے کہا خود اسی نے مجھ پر ڈورے ڈالے اور مجبور کیا کہ پھسل پڑوں (میں نے ہرگز ایسا نہیں کیا) اور (پھر ایسا ہوا کہ) اس عورت کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی، اس نے کہا، یوسف کا کرتا (دیکھا جائے) اگر آگے سے دو ٹکڑے ہوا ہے تو عورت سچی ہے، یوسف جھوٹا ہے۔ یوسف
27 اگر پیچھے سے دو ٹکڑے ہوا ہے تو عورت نے جھوٹ بولا، یوسف سچا ہے۔ یوسف
28 پس جب عورت کے خاوند نے دیکھا کہ یوسف کا کرتا پیچھے سے دو ٹکڑے ہوا ہے تو (اصلیت پا گیا اور) عورت سے کہا، کچھ شک نہیں یہ تم عورتوں کی مکاریوں میں سے ایک مکاری ہے اور تم عورتوں کی مکاریاں بڑی ہی سخت مکاریاں ہیں۔ یوسف
29 (پھر اس نے کہا) اے یوسف ! اس (معاملہ) سے درگرز کر (یعنی جو کچھ ہوا اسے بھلا دے) اور (بیوی سے کہا) اپنے گناہ کی معافی مانگ، بلاشبہ تو ہی خطاوار ہے۔ یوسف
30 اور (پھر جب اس معاملہ کا چرچا پھیلا) تو شہر کی بعض عورتیں کہنے لگیں دیکھو عزیز کی بیوی اپنے غلام پر ڈورے ڈالنے لگی کہ اسے رجھا لے، وہ اس کی چاہت میں دل ہار گئی، ہمارے خیال میں تو وہ صریح بدچلنی میں پڑگئی ہے۔ یوسف
31 جب عزیز کی بیوی نے مکاری کی یہ باتیں سنیں تو انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں آراستہ کیں اور (دستور کے مطابق) ہر ایک کو ایک ایک چھری پیش کردی (کہ کھانے میں کام آئے) پھر (جب یہ سب کچھ ہوچکا تو) یوسف سے کہا ان سب کے سامنے نکل آؤ، جب یوسف (نکل آیا اور) ان عورتوں نے اسے دیکھا تو (ایسا پایا کہ) اس کی بڑائی کی قائل ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور (بے اختیار) پکار اٹھیں سبحان اللہ ! یہ تو انسان نہیں ہے، ضرور ایک فرشتہ ہے، بڑے مرتبے والا فرشتہ۔ یوسف
32 تب (عزیز کی بیوی) بولی تم نے دیکھا؟ یہ ہے وہ آدمی جس کے بارے میں تم نے مجھے طعنے دیے تھے، ہاں بیشک میں نے اس کا دل اپنے قابو میں لینا چاہا تھا مگر وہ بے قابو نہ ہوا، اور (اب اسے سنا کے کہے دیتی ہوں کہ) اگر اس نے میرا کہا نہ مانا (اور اپنی ضد پر اڑا رہا) تو ضرور ایسا ہوگا کہ قید کیا جائے اور بے عزتی میں پڑے۔ یوسف
33 یوسف نے (یہ سن کر) اللہ کے حضور دعا کی خدایا ! مجھے قید میں رہنا اس بات سے کہیں زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں بلا رہی ہیں، اگر تو نے (میری مدد نہ کی اور) ان کی مکاریوں کے دام سے نہ بچایا تو عجب نہیں میں ان کی طرف جھک پڑوں اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤں جو ناشناس ہیں۔ یوسف
34 تو (دیکھو) اس کے پروردگار نے اس کی دعا قبول کرلی اور اس سے عورتوں کی مکاریاں دفع کردیں، بلاشبہ وہی ہے (دعاؤں کا) سننے والا (سب کچھ) جاننے والا۔ یوسف
35 پھر (ایسا ہوا کہ) اگرچہ وہ لوگ (یعنی عزیز اور اس کے خاندان کے آدمی) نشانیاں دیکھ چکے تھے (یعنی یوسف کی پاک دامنی کی نشانیاں) پھر بھی انہیں یہی بات ٹھیک دکھائی دی کہ ایک خاص وقت تک کے لیے یوسف کو قید میں ڈال دیں۔ یوسف
36 اور (دیکھو) ایسا ہوا کہ یوسف کے ساتھ جو جوان آدمی اور بھی قید خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے (یوسف سے) کہا، مجھے (خواب میں) ایسا دکھائی دیا کہ میں شراب (بنانے) کے لیے (انگور کا عرق) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا، مجھے ایسا دکھائی دیا ہے کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندا اسے کھار رہے ہیں (اور دونوں نے درخواست کی کہ) ہمیں بتلا دو اس بات کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ تم بڑے نیک آدمی ہو۔ یوسف
37 یوسف نے کہا (گھبراؤ نہیں) قبل اس کے کہ تمہارا مقررہ کھانا تم تک پہنچے، میں تمہارے خوابوں کا مآل تمہیں بتلا دوں گا، اس بات کا علم بھی من جملہ ان باتوں کے ہے جو مجھے میرے پروردگار نے تعلیم فرمائی ہیں، میں نے ان لوگوں کی ملت ترک کی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔ یوسف
38 میں نے اپنے باپ دادوں یعنی ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کی ملت کی پیروی کی، ہم (اولاد ابراہیم) ایسا نہیں کرسکتے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک ٹھہرائیں، یہ (ملت) اللہ کا ایک فضل ہے جو اس نے ہم پر اور لوگوں پر کیا ہے، لیکن اکثر آدمی ہیں جو (اس نعمت کا) شکر نہیں بجا لاتے۔ یوسف
39 اے یاران مجلس ! (تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ) جدا جدا معبودوں کا ہونا بہتر ہے یا اللہ کا جو یگانہ اور سب پر غالب ہے؟ یوسف
40 تم اس کے سوا جن ہستیوں کی بندگی کرتے ہو ان کی حقیقت اس سے زیادہ کیا ہے کہ محض چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اتاری، حکومت تو اللہ ہی کے لیے ہے، اس کا فرمان یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی کرو، اور کسی کی نہ کرو، یہی سیدھا دین ہے مگر اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ یوسف
41 اے یاران مجلس ! (اب اپنے اپنے خوابوں کا مطلب سن لو) تم میں ایک آدمی (وہ ہے جس نے دیکھا کہ انگور نچوڑ رہا ہے) تو وہ ( قید سے چھوٹ جائے گا اور بدستور سابق) اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ اور دوسرا آدمی (وہ ہے جس نے دیکھا اس کے سر پر روٹی ہے اور پرند روٹی کھار ہے ہیں) تو وہ سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرند اس کا سر (نوچ نوچ کر) کھائیں گے، جس بات کے بارے میں تم سوال کرتے ہو وہ فیصل ہوچکی، اور فیصلہ یہی ہے۔ یوسف
42 اور یوسف نے جس آدمی کی نسبت سمجھا تھا کہ نجات پائے گا اس سے کہا، اپنے آقا کے پاس جب جاؤ تو مجھے یاد رکھنا (یعنی میرا حال اس سے ضرور کہہ دینا) لیکن (جب تعبیر کے مطابق اس نے نجات پائی تو) شیطان نے یہ بات بھلا دی کہ اپنے آقا کے حضور پہنچ کر اسے یاد کرتا۔ پس یوسف کئی برس تک قید خانہ میں رہا۔ یوسف
43 اور پھر ایسا ہوا کہ ( این دن) بادشاہ نے (اپنے تمام درباریوں کو جمع کر کے) کہا میں (خواب میں) کیا دیکھتا ہوں کہ سات گائیں ہیں موٹی تازی، انہیں سات دبلی گائیں نگل گہی ہیں، اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی، اے اہل دربار ! اگر تم خواب کا مطلب حل کرلیا کرتے ہو تو بتلاؤ میرے خواب کا حل کیا ہے؟ یوسف
44 درباریوں نے (غورو فکر کے بعد) کہا یہ پریشان خواب و خیالات ہیں (کوئی ایسی بات نہیں جس کا کوئی خاص مطلب ہو) ہم سچے خوابوں کا مطلب تو حل کرسکتے ہیں، لیکن) پریشان خوابوں کا حل نہیں جانتے۔ یوسف
45 اور جس آدمی نے (ان) دو قیدیوں میں سے نجات پائی تھی اور جسے ایک عرصہ کے بعد (یوسف کی) بات یاد آئی وہ (خواب کا معاملہ سن کر) بول اٹھا میں اس خواب کا نتیجہ تمہیں بتلا دوں گا تم مجھے (ایک جگہ) جانے دو۔ یوسف
46 (چنانچہ وہ قید خانے میں آیا اور کہا) اے یوسف ! اے کہ مجسم سچائی ہے ! اس (خواب) کا ہمیں حل بتا کہ سات موٹی تازی گایوں کو سات دبلی پتلی گائیں نگل رہی ہیں، اور سات بالیں ہری ہیں سات سوکھی، تاکہ (ان) لوگوں کے پاس واپس جاسکوں (جنہوں نے مجھے بھیجا ہے) کیا عجب ہے کہ وہ (تمہاری قدرو منزلت) معلوم کرلیں۔ یوسف
47 یوسف نے کہا (اس خواب کی تعبیر اور اس کی بنا پر تمہیں جو کچھ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ) سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے (ان برسوں میں خوب بڑھنی ہوگی) پس (جب فصل کاٹنے کا وقت آیا کرے تو) جو کچھ کاٹو اسے اس کی بالوں ہی میں رہنے دو، (تاکہ اناج سڑے گلے نہیں) اور صرف اتنی مقدار الگ کرلیا کرو جو تمہارے کھانے کے لیے (ضروری) ہو۔ یوسف
48 پھر اس کے بعد سات بڑے سخت مصیبت کے برس آئیں گے جو وہ سب ذخیرہ کھا جائیں گے جو تم نے (اس طرح) پہلے سے جمع کر رکھا ہوگا۔ مگر ہاں تھوڑا سا جو تم روک رکھو گے، بچ رہے گا۔ یوسف
49 پھر اس کے بعد ایک برس ایسا آئے گا کہ لوگوں پر خوب بارش بھیجی جائے گی، لوگ اس میں (پھلوں اور داغوں سے) عرق اور تیل خوب نکالیں گے۔ یوسف
50 (جب اس آدمی نے یہ بات بادشاہ تک پہنچائی تو) بادشاہ نے کہا یوسف کو (فورا) میرے پاس لاؤ لیکن جب (بادشاہ) کا پیام بریوسف کے پاس پہنچا تو اس نے کہا (میں یوں نہیں جاؤں گا) تم اپنے آقا کے پاس جاؤ اور (میری طرف سے) دریافت کرو، ان عورتوں کا معاملہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ (میں چاہتا ہوں پہلے اس کا فیصلہ ہوجائے) جیسی کچھ مکاریاں انہوں نے کی تھیں میرا پروردگار اسے خوب جانتا ہے۔ یوسف
51 (اس پر) بادشاہ نے (ان عورتوں کو بلایا اور) کہا صاف صاف بتلا دو تمہیں کیا معاملہ پیش آیا تھا جب تم نے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے کہ اسے اپنی طرف مائل کرلو؟ وہ بولیں حاشا للہ ! ہم نے اس میں برائی کی کوئی بات نہیں پائی (یہ سن کر) عزیز کی بیوی بھی (بے اختیار) بول اٹھی جو حقیقت تھی وہ اب ظاہر ہوگئی ہاں وہ میں ہی تھی جس نے یوسف پر ڈورے ڈالے کہ اپنا دل ہار بیٹھے، بلا شبہ وہ (اپنے بیان میں) بالکل سچا ہے۔ یوسف
52 یہ میں نے اس لیے کہا کہ اسے معلوم ہوجائے (یعنی یوسف کو معلوم ہوجائے) میں نے اس کے پیٹھ پیچھے اس کے معاملہ میں خیانت نہیں کی، نیز اس لیے (واضح ہوجائے) اللہ خیانت کرنے والوں کی تدبیروں پر کبھی (کامیابی کی) راہ نہیں کھولتا۔ یوسف
53 میں اپنے نفس کی پاکی کا دعوی نہیں کرتی، آدمی کا نفس تو برائی کے لئیے بڑا ہی ابھارنے والا ہے (اس کے غلبہ سے بچنا آسان نہیں) مگر ہاں اسی حال میں کہ میرا پروردگار رحم کرے، بلاشبہ میرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔ یوسف
54 اور (پھر) بادشاہ نے حکم دیا یوسف کو میرے پاس لاؤ کہ اسے خاص اپنے (کاموں کے) لیے مقرر کروں، پھر (وہ آیا تو بادشاہ نے) کہا آج کے دن تو ہماری نگاہوں میں بڑرا صاحب اقتدار اور امانت دار انسان ہے۔ یوسف
55 یوسف نے کہا مملکت کے خزانوں پر مجھے مختار کردیجیے، میں حفاظت کرسکتا ہوں، اور میں اس کام کا جاننے والا ہوں (چنانچہ بادشاہ نے اسے مملکت کا مختار کردیا) یوسف
56 اور (دیکھو) اس طرح ہم نے سرزمینن میں یوسف کے قدم جما دیے کہ جس جگہ سے چاہے حسب مرضی رہنے سہنے کا کام لے۔ ہم جسے چاہتے ہیں (اسی طرح) اپنی رحمت سے فیض یاب کردیتے ہیں، اور نیک عملوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتے۔ یوسف
57 اور جو لوگ (اللہ پر) ایمان لائے اور (بدعملیوں سے) بچتے رہے ان کے لیے تو آخرت کا اجر اس سے کہیں بہتر ہے۔ یوسف
58 اور (پھر قحط کے سالوں میں) ایسا ہوا کہ یوسف کے بھائی) کنعان سے غلہ خریدنے مصر) آئے، یوسف نے انہیں (دیکھتے ہی) پہچان لیا لیکن انہوں نے نہیں پہچانا۔ یوسف
59 اور جب یوسف نے ان کا سامان مہیا کردیا تو (جاتے وقت) کہا، اب کے آنا تو اپنے سوتیلے بھائی (بنیامین) کو بھی ساتھ لانا، تم نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے کہ میں تمہیں پوری تول (غلہ) دیتا ہوں اور (باہر سے آنے والوں کے لیے) بہتر مہمان نواز ہوں۔ یوسف
60 لیکن اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو پھر یاد رکھو نہ تو تمہارے لیے میرے پاس کچھ خریدوفروخت ہوگی نہ تم میرے نزدیک جگہ پاؤ گے۔ یوسف
61 انہوں نے کہا ہم اس کے باپ کو اس بات کی ترغیب دیں گے اور ہم ضرور ایسا کریں گے۔ یوسف
62 اور یوسف نے اپنے خدمتداروں کو حکم دیا ان لوگوں کی پونجی (جس کے بدلے میں انہوں نے غلہ مول لیا ہے) انہی کی بوریوں میں رکھ دو، جب یہ لوگ اپنے گھر کی طرف لوٹیں گے تو بہت ممکن ہے اپنی پونجی دیکھ کر پہچان لیں (کہ لوٹا دی گئی) اور پھر عجب نہیں کہ دوبارہ آئیں۔ یوسف
63 پھر جب یہ لوگ اپنے باپ کے پاس لوٹ کر گئے تو کہا اے ہمارے باپ ! آئندہ کو غلہ کی فروخت ہم پر بند کردی گئی ہے، پس ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دے کہ غلہ خرید لائیں اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔ یوسف
64 باپ نے (یہ سن کر) کہا کیا میں اس کے لیے اسی طرح تمہارا اعتبار کروں جس طرح پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کرچکا ہوں؟ سو خدا ہی سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور اس سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ یوسف
65 اور جب ان لوگوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی انہی کو لوٹا دی گئی ہے، تب انہوں نے (اپنے باپ سے کہا) اے ہمارے باپ ! اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے؟ دیکھ یہ ہماری پونجی ہے جو ہمیں لوٹا دی گئی (ہمیں غلہ بھی اس نے دے دیا اور قیمت بھی واپس کردی، پس ہمیں اجازت دے کہ بنیامین کو ساتھ لے کر پھر جائیں) اور پنے گھرانے کے لیے رسد لے آئیں، ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لے لیں گے۔ یہ غلہ ( جو اس مرتبہ لائے ہیں) بہت تھوڑا ہے۔ یوسف
66 باپ نے کہا میں کبھی اسے تمہارے ساتھ بھیجنے والا نہیں جب تک کہ اللہ کے نام پر مجھ سے عہد نہ کرو۔ (تم عہد کرو کہ) بجز اس صورت کے کہ ہم خود گھیر لیے جائیں (اور بے بس ہوجائیں) ہم ضرور اسے تیرے پاس واپس لے آئیں گے، جب انہوں نے باپ کو (اس کے کہنے کے مطابق) اپنا پکا قول دے دیا تو اس نے کہا ہم نے جو قول و قرار کیا اس پر اللہ نگہبان ہو۔ یوسف
67 اور باپ نے انہیں (چلتے وقت) کہا، اے میرے بیٹو ! دیکھو (جب مصر پہنچو تو شہر کے) ایک ہی دروزے سے داخل نہ ہونا، جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا، میں تمہیں کسی ایسی بات سے نہیں بچا سکتا جو اللہ کے حکم سے ہونے والی ہو (لیکن اپنی طرف سے حتی المقدور احتیاط کی ساری تدبیریں کرنی چاہیں) فرماں روائی کسی کے لیے نہیں ہے مگر اللہ کے لیے (دنیا کے سارے حکمرانوں کی طاقت اس کے آگے ہیچ ہے) میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی ہے جس پر تمام بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔ یوسف
68 (پھر) جب یہ لوگ (مصر مین) داخل ہوئے، اسی طرح جس طرح باپ نے حکم دیا تھا تو (دیکھو) یہ بات اللہ (کی مشیت) کے مقابلہ میں کچھ بھی کام آنے والی نہ تھی مگر ہاں یعقوب کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا تھا جسے اس نے پورا کردیا، بلاشبہ وہ صاحب علم تھا کہ ہم نے اس پر علم کی راہ کھول دی تھی، لیکن اکثر آدمی (اس بات کی حقیقت) نہیں جانتے۔ یوسف
69 اور جب ایسا ہوا کہ یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھائی (بنیامین) کو اپنے بٹھا لیا اور اسے (پوشیدگی میں) اشارہ کردیا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس جو (بدسلوکی یہ تیرے ساتھ) کرتے آئے ہیں اس پر غمگین نہ ہو (اور خوش ہوجا کہ اب زمانہ پلٹ گیا) یوسف
70 پھر جب یوسف نے ان لوگوں کا سامان ان کی روانگی کے لیے مہیا کیا تو اپنے بھائی (بنیامین کی بوری میں اپنا کٹورا رکھ دیا) (تاکہ بطور نشانی کے اس کے پاس رہے) پھر ایسا ہوا کہ (جب یہ لوگ روانہ ہوئے اور شاہی کارندوں نے پیالہ ڈھونڈا اور نہ پایا تو ان پر شبہ ہوا اور) ایک پکارنے والے نے (ان کے پیچھے) پکارا، اے قافلہ والو ! (ٹھہرو) ہو نہ ہو تم ہی چور ہو۔ یوسف
71 وہ پکارنے والے کی طرف پھرے اور پوچھا تمہاری کون سی چیز کھو گئی ہے؟ یوسف
72 (شاہی کارندوں نے) کہا ہمیں شاہی پیمانہ نہیں ملتا، جو شخص اسے لادے اس کے لیے ایک بار شتر (غلہ) انعام ہے اور (کارندوں کے سردار نے کہا) میں اس بات کا ضامن ہوں۔ یوسف
73 انہوں نے کہا اللہ جانتا ہے ہم اس لیے یہاں نہیں آئے کہ ملک میں شرارت کریں اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو (کہ پہلے بھی ایک مرتبہ آچکے ہیں) اور ہمارا کبھی یہ شیوہ نہیں رہا کہ چوری کریں۔ یوسف
74 (کارندوں نے کہا) اچھا اگر تم جھوٹے نکلے تو بتلاؤ چور کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ یوسف
75 انہوں نے کہا چور کی سزا یہ کہ جس کی بوری میں چوری کا مال نکلے وہ آپ اپنی سزا (یعنی اپنے جرم کی پاداش میں پکڑا جائے) ہم زیادتی کرنے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ یوسف
76 پس (کارندوں کے سردرار نے) ان کی بوریوں کی تلاشی کی، قبل اس کے کہ یوسف کے بھائی (بنیامین) کی پوری کی تلاشی لیتے، اور کچھ نہ پایا) پھر یوسف کے بھائی کی بوری (دیکھی اور اس میں) سے پیالہ نکال لیا، (تو دیکھو) اس طرح ہم نے یوسف کے لیے (بنیامین کو پاس رکھنے کی) تدبیر کردی، وہ بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے بھائی کو روک لے (اگرچہ ایسا کرنے کے لیے اس کا دل بے قرار تھا) مگر ہاں اسی صورت میں کہ اللہ کو (اس کی راہ نکال دینا) منظور ہوتا (سو اس نے غیبی سامان کر کے راہ نکال دی) ہم جسے چاہتے ہیں مرتبوں میں بلند کردیتے ہیں اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والی ہستی ہے (جس کا علم سب کو احاطہ کیے ہوئے ہے، یعنی اللہ کی ہستی) یوسف
77 (جب بنیامین کی بوری سے کٹورا نکل آیا تو) بھائیوں نے کہا اگر اس نے چوری کی تو یہ کوئی عجیب بات نہیں، اس سے پہلے اس کا (حقیقی) بھائی بھی چوری کرچکا ہے، تب یوسف نے (جس کے سامنے اب معاملہ پیش آیا تھا) یہ بات اپنے دل میں رکھ لی، ان پر ظاہر نہ کی (کہ میرے منہ پر مجھے چور بنا رہے ہو) اور (صرف اتنا) کہا کہ سب سے بری جگہ تمہاری ہوئی (کہ اپنے بھائی پر جھوٹا الزام لگا رہے ہو) اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اللہ اسے بہتر جاننے والا ہے۔ یوسف
78 انہوں نے کہا اے عزیز ! اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، (اور اس سے محبت رکھتا ہے) پس اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے (مگر اسے نہ روکیے) ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو احسان کرنے والے ہیں۔ یوسف
79 یوسف نے کہا اس بات سے اللہ کی پناہ کہ ہم اس آدمی کو چھوڑ کر جس کے پاس ہمارا سامان نکلا کسی دوسرے کو پکڑیں، اگر ایسا کریں تو ہم ظالم ٹھہریں۔ یوسف
80 پھر جب وہ یوسف سے مایوس ہوگئے (کہ یہ ماننے والا نہیں) تو مشورہ کے لیے (ایک جگہ) اکیلے میں بیٹھ گئے، جو ان میں بڑا تھا اس نے کہا تم جانتے ہو کہ باپ نے (بنیامین کے بارے میں) اللہ کو شاہد ٹھہرا کر تم سے عہد لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے معاملہ میں بڑی تقصیر ہوچکی ہے۔ پس میں تو اب اس ملک سے ٹلنے والا نہیں جب تک خود باپ مجھے حکم نہ دے یا پھر اللہ میرے لیے کوئی دوسرا فیصلہ کردے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ یوسف
81 تم لوگ باپ کی طرف لوٹ جاؤ اور اس سے جا کر کہو، اے ہمارے باپ ! (ہم کیا کریں) تیرے بیٹے نے (پرائے ملک میں) چوری کی، جو بات ہمارے جاننے میں آئی وہی ہم نے ٹھیک ٹھیک کہہ دی اور ہم غیب کی باتوں کی خبر رکھنے والے نہ تھے (کہ پہلے سے جان لیتے، بنیامین سے ایسی بات سرزد ہونے والی ہے) یوسف
82 اور (یہ بھی کہہ دینا کہ) آپ اس بستی سے دریافت کرلیں جہاں ہم ٹھہرے تھے اور اس قافلہ کے آدمیوں سے پوچھ لیں جس میں ہم آئے ہیں، ہم (اپنے بیان میں) بالکل سچے ہیں َ یوسف
83 (چنانچہ بھائیوں نے ایسا ہی کیا اور کنعان آکر یہ ساری باتیں باپ سے کہہ دیں) اس نے (سن کر) کہا، نہیں یہ تو ایک بات ہے جو تمہارے جی نے تمہیں سججھا دی ہے (یعنی بنیامین کا چوری کرنا) خیر ! میرے لیے صبر کے سوا چارہ نہیں، ایسا صبر کہ خوبی کا صبر ہو، اللہ (کے فضل) سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ (ایک دن) ان سب کو میرے پاس جمع کردے، وہی ہے جو (سب کچھ) جاننے والا (اور اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ یوسف
84 اور اس نے ان لوگوں کی طرف سے رخ پھیر لیا اور (چونکہ اس نئے زخم کی خلش نے پچھلا زخم تازہ کردیا تھا اس لیے) پکار اٹھا، آہ یوسف کا درد فراق ! اور شدت غم سے (روتے روتے) اس کی آنکھیں سفید پڑگئیں اور اس کا سینہ غم سے لبریز تھا۔ یوسف
85 (باپ کا یہ حال دیکھ کر بیٹے) کہنے لگے بخدا تم تو ہمیشہ ایسے ہی رہو گے کہ یوسف کی یاد میں لگے رہو، یہاں تک کہ (اسی غم میں) گھل جاؤ یا اپنے کو ہلاک کردو۔ یوسف
86 باپ نے کہا میں تو اپنی حاجت اور اپنا غإ اللہ کی جناب میں عرض کرتا ہوں (کچھ تمہارا شکوہ نہیں کرتا) میں اللہ کی جانب سے وہ بات جانتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں۔ یوسف
87 (پھر انہوں نے کہا) اے میرے بیٹو ! (ایک بار پھر مصر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو منکر ہیں۔ یوسف
88 پھر جب (باپ کے حکم کی تعمیل میں یہ لوگ مصر پہنچے اور) یوسف کے پاس گئے تو (اپنے پھر آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا اے عزیز ہم پر اور ہمارے گھر کے آدمیوں پر بڑی سختی کے دن گزر رہے ہیں، پس (مجبور ہو کر غلہ کی طلب میں ہمیں پھر نکلنا پڑا) ہم تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں، اسے قبول کرلیجیے، اور غلہ کی پوری تول عنایت کیجیے اور (اسے خریدوفروخت کا معاملہ نہ سمجھیے بلکہ) ہمیں (محتاج سمجھ کر) خیرات دے دیجیے، اللہ خیرات کرنے والوں کو ان کا اجر دیتا ہے۔ یوسف
89 (یہ حال سن کر) یوسف (کا دل بھر آیا، اس) نے کہا تمہیں یاد ہے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تمہیں سمجھ بوجھ نہ تھی؟ یوسف
90 (یہ سن کر بھائی چونک اٹھے اور اب جو عزیز کی صورت اور آواز پر غور کیا تو ایک نیا خیال ان کے اندر پیدا ہوگیا) انہوں نے کہا کیا فی الحقیقت تم ہی یوسف ہو؟ یوسف نے کہا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ (بنیامین) میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی (برائیوں سے) بچتا اور (مصیبتوں میں) ثابت قدم رہتا ہے تو اللہ (کا قانون یہ ہے کہ وہ) نیک عملوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ یوسف
91 (یہ سن کر بھائیوں کے سر شرم و ندامت سے جھک گئے) انہوں نے کہا بخدا اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ نے تجھے ہم پر برتری دی اور بلاشبہ ہم سرتا سر قصور وار تھے۔ یوسف
92 یوسف نے کہا آج کے دن (میری جانب سے) تم پر کوئی سرزنش نہیں، (جو ہونا تھا وہ ہوچکا) اللہ تمہارا قصور بخش دے، اور وہ تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ یوسف
93 اب تم یوں کرو کہ میرا یہ کرتا (بطور علامت کے) اپنے ساتھ لے جاؤ اور میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو کہ اس کی آنکھیں روشن ہوجائیں، اور (پھر) اپنے گھرانے کے تمام آدمیوں کو لے کر میرے پاس آجاؤ۔ یوسف
94 اور پھر جب (یہ لوگ یوسف کے حکم کے مطابق کرتا لے کر روانہ ہوئے اور) قافلہ نے مصر کی سرزمین چھوڑی تو (ادھر کنعان میں) ان کا باپ کہنے لگا، اگر تم لوگ یہ نہ کہنے لگو کہ بڑھاپے سے اس کی عقل ماری گئی تو میں کہوں گا مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے (اور مجھے اس کا یقین ہے) یوسف
95 سننے والوں نے کہا بخدا تم تو اب تک اپنے (اسی) پرانے خبط میں پڑے ہو (یعنی یوسف کا تو نام و نشان بھی نہ رہا اور تمہیں اس کی واپسی کے خواب آرہے ہیں) یوسف
96 لیکن پھر جب (قافلہ کنعان پہنچ گیا اور) خوشخبری سنانے والا (دوڑتا ہوا) آیا تو اس نے (آتے ہی) یوسف کا کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کی آنکھیں پھر سے روشن ہوگئیں، تب اس نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی جانب سے وہ بات جانتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں۔ یوسف
97 وہ (شرم و ندامت میں ڈوب کر) بولے اے ہمارے باپ ! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے (اللہ کے حضور) دعا کر، فی الحقیقت ہم سے سراسر قصور ہی ہوتے رہے۔ یوسف
98 باپ نے کہا وہ وقت دور نہیں کہ میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے دعائے مغفرت کروں وہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت والا ہے۔ یوسف
99 پھر جب (ایسا ہوا کہ یوسف کی خواہش کے مطابق) یہ لوگ (کنعان سے روانہ ہوگئے اور شہر کے باہر) یوسف سے ملے تو اس نے اپنے باپ اور ماں کو (عزت و احترام سے) اپنے پاس جگہ دی اور کہا اب شہر میں چلو، خدا نے چاہا تو تمہارے لیے ہر طرح کی سلامتی ہے۔ یوسف
100 اور (جب شہر میں داخل ہوئے تو) اس نے اپنے والدین کو تخت پر اونچا بٹھایا (باقی سب کے لیے نیچے نشستیں رکھیں) اور (دیکھو) اس وقت ایسا ہوا کہ سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑے (اور مصر کے دستور کے مطابق اس کے منصب حکومت کی تعظیم بجا لائے) اس وقت (اسے بچپنے کا خواب یاد آگیا اور بے اختیار) پکار اٹھا، اے باپ ! یہ ہے تعبیر اس خواب کی جو مدت ہوئی میں نے دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچا ثابت کردیا، یہ اسی کا احسان ہے کہ مجھے قید سے رہائی دے، تم سب کو صحرا سے نکال کر میرے پاس پہنچا دیا اور یہ سب کچھ اس واقعہ کے بعد ہوا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اختلاف ڈال دیا تھا، بلا شبہ میرا پروردگار ان باتوں کے لیے جو کرنی چاہیے بہتر تدبیر کرنے والا ہے، بلاشبہ وہی ہے کہ (سب کچھ) جاننے والا (اور اپنے سارے کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ یوسف
101 (پھر یوسف نے دعا کی) پروردگار ! تو نے مجھے حکومت عطا فرمائی اور باتوں کا مطلب اور نتیجہ نکالنا تعلیم فرمایا اے آسمان و زمین کے بنانے والے تو ہی میرا کارساز ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ دنیا سے جاؤں تو تیری فرماں برداری کی حالت میں جاؤں، اور ان لوگوں میں داخل ہوجاؤں جو تیرے نیک بندے ہیں۔ یوسف
102 (اے پیغمبر) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی تجھ پر وحی کر ہے ہیں ِ ورنہ (ظاہر ہے کہ) جس وقت یوسف کے بھائی سازش میں مصمم ہوگئے تھے اور پوشیدہ تدبیریں کر رہے تھے تو تم اس وقت کچھ ان کے پاس کھڑے نہ تھے (کہ سب کچھ دیکھ سن لیا ہو) یوسف
103 اور (اس پر بھی یاد رکھو) اکثر آدمیوں کا حال یہ ہے کہ تم کتنا ہی چاہو (اور کتنی ہی دلیلیں پیش کرو) کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ یوسف
104 حالانکہ تم ان سے اس بات کے لیے کوئی مزدوری نہیں مانگتے، یہ تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمام جہان کے لیے پند و وعظ ہے۔ یوسف
105 اور (دیکھو) آسمانوں میں اور زمین میں (اللہ کی قدرت و حکمت کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے لوگ گزر جاتے ہیں اور نظر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں۔ یوسف
106 اور ان میں سے اکثروں کا حال یہ ہے کہ اللہ پر یقین لاتے ہیں تو اس حال میں لاتے ہیں کہ اس کے ساتھ شریک بھی ٹھہرائے جاتے ہیں۔ یوسف
107 پھر کیا یہ لوگ اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ اللہ کے عذاب میں سے کوئی آفت ان پر آئے اور چھا جائے؟ یا اچانک قیامت آجائے اور وہ بے خبری میں پڑے ہوں؟ یوسف
108 (اے پیغمبر) تم کہہ دو میری راہ تو یہ ہے، میں اس روشنی کی بنا پر جو میرے سامنے ہے اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور (اس راہ میں) جن لوگوں نے میرے پیچھے قدم اٹھایا ہے وہ بھی (اسی طرح) بلاتے ہیں، اللہ کے لیے پاکی ہو، میں شرک کرنے والوں میں نہیں۔ یوسف
109 اور (اے پیغمبر ! ہم نے تم سے پہلے کسی رسول کو نہیں بھیجا ہے مگر اسی طرح کہ وہ باشندگان شہر ہی میں سے ایک آدمی تھا اور ہم نے اس پر وحی اتاری تھی) (ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آسمان سے فرشتے اترے ہوں) پھر کیا یہ لوگ (جو تمہارے اعلان رسالت پر متعجب ہو رہے ہیں) زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوچکا ہے جو پہلے گزر چکے ہیں؟ اور جو لوگ (برائیوں سے) بچتے ہیں تو یقینا آخرت کا گھر ان کے لیے کہیں بہتر ہے، پھر (اے گروہ مخاطب) کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں؟ یوسف
110 (اور ان گزری ہوئی قوموں پر فورا عذاب نہیں آگیا تھا انہیں مہلت ملتی رہی) یہاں تک کہ جب اللہ کے رسول (ان کے ایمان لانے سے) مایوس ہوگئے اور لوگوں نے خیال کیا ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو (پھر اچانک) ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی، پس ہم نے جسے بچانا چاہا بچا لیا اور (جو مجرم تھے تو) ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ مجرموں سے ہمارا عذاب ٹل جائے۔ یوسف
111 یقینا ان لوگوں کے قصہ میں دانشمندوں کے لیے بڑی ہی عبرت ہے۔ یہ کوئی جی سے گھڑی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ اس کتاب کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے آچکی ہے، نیز ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں (ہدایت کی) ساری باتوں کی تفصیل ہے (یعنی الگ الگ کر کے واضح کردینا ہے) اور رہنمائی ہے اور رحمت ہے۔ یوسف
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الرعد
1 الر۔ (اے پیغمبر) یہ الکتاب (یعنی قرآن) کی آیتیں ہیں اور جو کچھ تیرے پروردگار کی جانب سے تجھ پر نازل ہوا ہے وہ امر حق ہے (اس کے سوا کچھ نہیں) مگر اکثر آدمی ایسے ہیں کہ (اس پر) ایمان نہیں لاتے۔ الرعد
2 یہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کردیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں ہے۔ پھر وہ اپنے تخت (حکومت) پر نمودار ہوا (یعنی مخلوقات میں اس کے احکام جاری ہوگئے) اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا کہ ہر ایک اپنی ٹھہرائی ہوئی میعاد تک (اپنی اپنی راہ) چلا جارہا ہے، وہی (اس تمام کارخانہ خلقت کا) انتظام کر رہا ہے اور (اپنی قدرت و حکمت کی) نشانیاں الگ الگ کر کے بیان کردیتا ہے تاکہ تمہیں یقین ہوجائے کہ (ایک دن) اپنے پروردگار سے ملنا ہے۔ الرعد
3 اور (دیکھو) وہی ہے جس نے زمین کی سطح پھیلا دی اس میں پہاڑ دیے نہریں جاری کردیں اور ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے دو دو قسموں کے اگا دیے، اس نے رات اور دن (کے بتدریج ظاہر ہونے) کا ایسا قاعدہ بنا دیا کہ دن کی روشنی کو رات کی تاریکی ڈھانپ لیا کرتی ہے۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے کتنی ہی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔ الرعد
4 اور دیکھو زمین میں (طرح طرح کے) ٹکڑے ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان میں انگور کے باغ ہیں، (غلہ کی) کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں، باہم دگر ملتے جلتے ہوئے اور بعض ایسے کہ ملتے جلتے ہوئے نہیں ہیں، سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں مگر بعض پھلوں کو بعض پر مزہ میں برتری دے دیتے ہیں۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ الرعد
5 اور (اے مخاطب) اگر تو عجیب بات دیکھنی چاہتا ہے تو (سب سے زیادہ) عجیب بات ان منکروں کا یہ قول ہے کہ جب ہم (مرنے کے بعد گل سڑ کر) مٹی ہوگئے تو پھر کیا ہم پر ایک نئی پیدائش طاری ہوگی؟ (یہ بات تو سمجھ میں آتی نہیں) تو یقین کرو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور یہی ہیں کہ دوزخی ہوئے ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔ الرعد
6 اور (اے پیغبر) یہ تم سے برائی کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ قبل اس کے کہ بھلائی کے لیے خواستگار ہوں۔ حالانکہ ان سے پہلے ایسی سرگزشتیں گزر چکی ہیں جن کی (دنیا میں) کہاوتیں بن گئیں۔ (مگر یہ ہیں کہ عبرت نہیں پکڑتے) تو اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار لوگوں کے ظلم سے بڑا ہی درگزر کرنے والا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ تیرا پروردگار سزا دینے میں بڑا ہی سخت ہے۔ الرعد
7 اور جن لوگوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں اس آدمی پر اس کے پروردگار کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ حالانکہ تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کردینے والا ایک رہنما ہے اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہوا ہے۔ الرعد
8 (اللہ کے علم کا تو یہ حال ہے کہ وہ) جانتا ہے ہر مادہ کے پیٹ میں کیا ہے۔ (یعنی کیسا بچہ ہے) اور کیوں پیٹ گھٹتے ہیں اور کیوں بڑھتے ہیں (یعنی درجہ بدرجہ شکم مادر میں کیسی کیسی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں) اس کے یہاں ہر چیز کا ایک اندازہ ٹھہرایا ہوا ہے۔ الرعد
9 وہ غیب اور شہادت (یعنی محسوس اور غیر محسوس دونوں کا) جاننے والا ہے، سب سے بڑا بلند مرتبہ۔ الرعد
10 تم میں کوئی چپکے سے کوئی بات کہے یا پکار کے کہیے، رات کی تاریکی میں چھپا ہو یا دن کی روشنی میں راہ چل رہا ہو، ساری حالتیں اس کے لیے یکساں ہیں (اس کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں) الرعد
11 انسان کے آگے اور پیچھے ایک کے بعد ایک آنے والی (قوتیں) ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ اللہ کبھی اس حالت کو نہیں بدلتا کو کسی گروہ کو حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ خود ہی اپنی صلاحیت نہ بدل ڈالے۔ اور (پھر) جب اللہ چاہتا ہے کسی گروہ کو (اس کی تغیر صلاحیت کی پاداش میں مصیبت پہنچے تو مصیبت پہنچ ہی کر رہتی ہے، وہ) کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کا کارساز ہو۔ الرعد
12 وہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے، وہ دلوں میں ہراس بھی پیدا کردیتی ہے اور امید بھی۔ اور وہی ہے جو بادلوں کو (پانی سے) بوجھل کردیتا ہے۔ الرعد
13 اور بادلوں کی گرج اس کی ستائش کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کی دہشت سے سرگرم ستائش رہتے ہیں، وہ بجلیاں گراتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ان کی زد میں لے آتا ہے، لیکن یہ منکر ہیں کہ (اللہ کی قدرت و حکمت کی ان ساری نشانیوں سے آنکھیں بند کیوے ہوئے) اس (کی ہستی و یگانگت) کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ (اپنی قدرت میں) بڑا ہی سخت اور اٹل ہے۔ الرعد
14 اسی کو پکارنا سچا پکارنا ہے، جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ پکارنے والوں کی کچھ نہیں سنتے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی (پیاس کی شدت میں) دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ بس (اس طرح کرنے سے) پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے گا حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں۔ (١) اور (یقین کرو) منکرین حق کی پکار اس کے سوا کچھ نہیں کہ ٹیڑھے رستوں میں بھٹکتے پھرنا۔ الرعد
15 اور آسمانوں میں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے اللہ ہی کے آگے سجدہ میں گرا ہوا ہے (یعنی اللہ کے احکام و قوانین کے آگے جھکے بغیر اسے چارہ نہیں) خوشی سے ہو یا مجبوری سے، اور (دیکھو) ان کے سایے صبح و شام (کس طرح گھٹتے بڑھتے اور کبھی ادھر کبھی ادھر ہوجایا کرتے ہیں) الرعد
16 (اے پیغبر) ان لوگوں سے پوچھو آسمانوں کا اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ تم کہو اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں، پھر ان سے کہو جب وہی پروردگار ہے تو پھر یہ کیا ہے کہ تم نے اس کے سوا دوسروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے جو خود اپنی جانوں کا نفع نقصان بھی اپنے اختیار میں نہیں رکھتے؟ نیز ان سے کہو کیا اندھا اور دیکھنے والا دونوں برابر ہیں؟ یا ایسا ہوسکتا ہے کہ اندھیرا اور اجالا برابر ہوجائے؟ یا پھر یہ بات ہے کہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اسی طرح مخلوقات پیدا کی جس طرح اللہ نے پیدا کی ہے اور اس لیے پیدا کرنے کا معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا (کہ صرف اللہ ہی کے لیے نہیں ۃ ے، دوسروں کے لیے بھی ہوسکتا ہے؟) تم ان سے کہو اللہ ہی ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ (اپنی باتوں میں) یگانہ ہے، سب کو مغلوب رکھنے والا۔ الرعد
17 اس نے آسمان سے پانی برسایا تو اپنی سمائی کے مطابق وادیاں بہ نکلیں اور میل کچیل سے جھاگ بن بن کر پانی کی سطح پر اٹھا تو سیلاب کی روا سے بہا لے گئی، اور دیکھو اسی طرح کا جھاگ (میل کچیل سے) اس وقت بھی اٹھتا ہے جب لوگ زیور یا کوئی اور چیز بنانے کے لیے (دھاتوں کو) آگ میں تپاتے ہیں۔ حق اور باطل کے معاملہ کی مثال ایسی ہی سمجھو جو اللہ بیان کردیتا ہے۔ پس (میل کچیل کا) جھاگ (جو کسی کام کا نہ تھا) رائیگاں گیا اور جس چیز میں انسان کے لیے نفع تھا وہ زمین میں رہ گئی، اسی طرح اللہ (لوگوں کی سمجھ بوجھ کے لیے) مثالیں بیان کردیتا ہے۔ الرعد
18 جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا تو ان کے لیے سرتا سرخوبی ہے، جنہوں نے قبول نہیں کیا (ان کے تمام اعمال رائیگاں جائیں گے، وہ نامرادی و بدحالی سے کسی طرح بچ نہیں سکتے) اگر کرہ ارضی کی تمام دولت ان کے اختیار میں آجائے اور اسے دوگنا کردیا جائے تو یہ لوگ اپنے بدلہ میں ضرور اسے بطور فدیہ کے دے دیں (کہ کسی طرح عذاب نامرادی سے بچاؤ مل جائے مگر انہیں ملنے والا نہیں) یہی لوگ ہیں جن کے لیے حساب کی سختی ہے اور ٹھکانا جہنم، اور (جس کا ٹھکانا جہنم ہو تو) کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ الرعد
19 (اے پیغمبر) کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ دونوں آدمی برابر ہوجائیں؟ وہ جو یہ بات جان گیا ہے کہ جو بات تجھ پر تیرے پروردگار کی جانب سے اتری ہے، حق ہے اور وہ جو (اس حقیقت کے مشاہدہ سے) اندھا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ سمجھتے بوجھتے ہیں جو دانشمند ہیں۔ الرعد
20 یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ کے ساتھ اپنا عہد (عبودیت) پورا کرتے ہیں۔ اپنا قول و قرار توڑنے والے نہیں۔ الرعد
21 یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے جن رشتوں کے جوڑنے کا حکم دیا انہیں جوڑے رکھتے ہیں، اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، حساب کی سختی کے خیال سے اندیشہ ناک رہتے ہیں۔ الرعد
22 اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے محبت کرتے ہوئے (ہر طرح کی ناگواریوں اور سختیوں میں) صبر کیا، نماز قائم کی، جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرتے رہے، پوشیدگی میں بھی اور کھلے طور پر بھی۔ انہوں نے برائی کے مقابلہ میں برائی نہیں کی، جب پیش آئے اچھائی ہی سے پیش آئے، تو (بلاشبہ) یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے عابقت کا گھر ہے۔ الرعد
23 ہمیشگی کے باغ جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا و اجداد، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک کردار ہوں گے وہ بھی جگہ پائیں گے اور (وہاں کی زندگی ایسی ہوگی کہ) ہر دروازے سے فرشتے ان پر آئیں گے اور کہیں گے۔ الرعد
24 یہ جو تم نے (دنیا کی زندگی میں) صبر کیا تو اس کی وجہ سے (آج) تم پر سلامتی ہو، پھر کیا ہی اچھا عاقبت کا ٹھکانا ہے جو ان لوگوں کے حصہ میں آیا؟ الرعد
25 اور جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ اللہ کا عہد مضبوط کرنے کے بعد پھر اسے توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں قطع کر ڈالتے ہیں اور ملک میں شر و فساد بپا کرتے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا ٹھکانا۔ الرعد
26 اللہ جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے (جس کی چاہتا ہے) نپی تلی کردیتا ہے، لوگ دنیا کی (چند روزہ) زندگی (اور اس کے عارضی فوائد) پر شادمانیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ دنیا کی زندگی تو آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے، محض تھوڑا سا برت لینا ہے۔ الرعد
27 جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ کہتے ہیں ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس شخص پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی (عجیب و غریب) نشانی اترتی؟ (اے پیغمبر) تم کہہ دو اللہ جسے چاہتا ہے (کامیابی و سعادت کی) راہ میں گم کردیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع ہوتا ہے تو اسے اپنی طرف سے بڑھنے کی راہ دکھا دیتا ہے۔ الرعد
28 (جو اس کی طرف رجوع ہوئے تو یہ) وہ لوگ (ہیں) کہ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوگئے، اور یاد رکھو یہ اللہ کا ذکر ہی ہے جس سے دلوں کو چین اور قرار ملتا ہے (اور شک و شبہ اور خوف و غم کے سارے کانٹے نکل جاتے ہیں) الرعد
29 جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے تو ان کے لیے خوش حالیاں ہیں اور (بالآخر) بہت اچھا ٹھکانا۔ الرعد
30 اور (اے پیغبر) اسی طرح یہ بات ہوئی کہ ہم نے تجھے ایک امت کی طرف بھیجا جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں (اور ان سب میں سچائی کے پیغامبر اپنے اپنے وقتوں میں ظاہر ہوچکے ہیں) اور اس لیے بھیجا کہ جو بات تجھ پر اتاری ہے وہ ان لوگوں کو پڑھ کر سنا دے اور ان کا حال یہ ہے کہ سرے سے خدائے رحمن ہی کے قائل نہیں۔ تم (ان سے) کہہ دو وہی میرا پروردگار ہے کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع ہوتا ہے۔ الرعد
31 اور (دیکھو) اگر ایسا ہوسکتا کہ کسی قرآن سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین کی (بڑی بڑی) مسافتیں طے ہوجاتیں یا مردے بول اٹھتے (تو ضرور اس قرآن سے بھی ایسا ہی ہوتا) مگر نہیں، ساری باتوں کا اختیار اللہ ہی کو ہے (ار اس کی یہ سنت نہیں کہ ایسا کرے، وہ اپنا کلام ارشاد و ہدایت کے لیے نازل کرتا ہے۔ نہ کہ عجائب آفرینیوں کے لیے) پھر جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا وہ (اس بات سے) مایوس نہیں ہوگئے کہ (نہ ماننے والے کبھی ماننے والے نہیں؟ کیا انہوں نے یہ بات نہیں پالی کہ) اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو (ایک ہی) راہ دکھا دیتا ؟ (مگر اس نے ایسا نہیں چاہا، اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ یہاں استعداد و عمل کی آزمائشیں ہوں) اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ( وہ یوں ماننے والے نہیں) انہیں ان کے کرتوتوں کی پاداش میں کوئی نہ کوئی سخت عقوبت پہچنتی ہی رہے گی یا ایسا ہوگا کہ ان کے ٹھکانے کے قریب ہی آ نازل ہوگی، یہاں تک کہ وہ وقت آجائے جب اللہ کا وعدہ ظہور میں آنے والا ہے، بلاشبہ (اس کا وعدہ سچا ہے) وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ الرعد
32 اور (اے پیغمبر) تجھ سے پہلے بھی ایسا ہی ہوچکا ہے کہ پیغمبروں کی ہنسی اڑائی گئی اور ہم نے (اپنے مقررہ قانون کے مطابق) پہلے انہیں ڈھیل دی، پھر گرفتار کرلیا، تو دیکھو ہمارا ٹھہرایا ہوا بدلہ کیسا تھا اور کس طرح ظہور میں آیا۔ الرعد
33 پھر جس ہستی کے علم و احاطہ کا یہ حال ہے کہ ہر جان پر نگاہ رکھتی ہے کہ اس نے اپنے عملوں سے کیسی کمائی کی؟ (وہ کیا ان ہستیوں کی طرح سمجھ لی جاسکتی ہے جنہیں ان لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے؟) اور انہوں نے اللہ کے لیے شریک ٹھہرا رکھے ہیں، (اے پیغمبر) ان سے پوچھ وہ کون ہیں؟ ان کے اوصاف بیان کرو، یا پھر تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دینی چہاتے ہو جو خود اسے بھی معلوم نہیں کہ زمین میں کہاں ہے؟ یا پھر محض ایک دکھاوے کی بات ہے جس کی تہہ میں کوئی اصلیت نہیں؟ اصل یہ ہے کہ منکروں کی نگاہوں میں ان کی مکاریاں خوشنما بن گئیں اور راہ حق میں قدم اٹھانے سے رک گئے اور جس پر اللہ (کامیابی کی) راہ بند کردے تو کون ہے جو اسے راہ دکھانے والا ہوسکتا ہے؟ الرعد
34 ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت میں بھی، اور آخرت کا عذاب یقینا بہت زیادہ سخت ہوگا، اور کوئی نہیں جو انہیں اللہ (کے قوانین کی پکڑ) سے بچا سکے۔ الرعد
35 متقی انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ ہے اور اس کے تلے نہریں رواں ہیں (جن کی آبیاری اسے ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھتی ہے) اس کے پھل دائمی ہیں (کبھی ختم ہونے والے نہیں) اس کے درختوں کی چھاؤں بھی ہمیشگی کی (کببھی بدلنے والی نہیں) یہ ہے کہ ان لوگوں کا انجام جنہوں نے تقوی کی راہ اختیار کی اور کافروں کا انجام آگ ہے۔ الرعد
36 اور (اے پیغمبر) جن لوگوں کو ہم نے کتاب (ہدایت) دی ہے (یعنی یہود و نصاری) وہ اس بات سے خوش ہوتے ہیں جو تجھ پر اتاری گئی ہے اور ان جماعتوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اس کی بعض باتوں سے انکار ہے، تو تم کہہ دو مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی بندگی کروں اور کسی ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں، اسی کی طرف تمہیں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رخ ہے۔ الرعد
37 اور اسی طرح یہ بات ہوئی کہ ہم نے اسے (یعنی قرآن کو) ایک عربی فرمان کی شکل میں اتارا (یعنی عربی زبان میں اتارا) اگر حصول علم کے بعد تو نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی تو سمجھ لے کہ پھر اللہ کے مقابلہ میں نہ تو تیرا کوئی کارساز ہوگا نہ بچانے والا۔ الرعد
38 اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے بھی (بے شمار) پیغمبر قوموں میں پیدا کیے اور (وہ تیری ہی طرح انسان تھے) ہم نے انہیں بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی، اور کسی پیغمبر کے لیے یہ بات نہ ہوئی کہ وہ (خود) کوئی نشانی لا دکھاتا مگر اسی وقت کہ اللہ کا حکم ہوا ہو، ہر وقت کے لیے ایک کتاب ہے۔ الرعد
39 اللہ جو بات چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے نقش کردیتا ہے اور کتاب کی اصل و بنیاد اسی کے پاس ہے۔ الرعد
40 اور ہم نے ان لوگوں سے (یعنی کفار مکہ سے ظہور نتائج کے) جو وعدے کیے ہیں (کچھ ضرور نہیں کہ بیک دفعہ سب ظہور میں آجائیں) ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض باتیں ہم تجھے تیری زندگی ہی میں دکھا دیں، ہوسکتا ہے کہ ان سے پہلے تیرا وقت پورا کردیں۔ بہرحال جو کچھ تیرے ذمہ ہے وہ یہی ہے کہ پیام حق پہنچا دینا۔ ان سے (ان کے کاموں کا) حسابلینا ہمارا کام ہے۔ تیرا کام نہیں۔ الرعد
41 پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں؟ اسے اطراف سے گھٹاتے ہوئے (اور ظالموں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے؟) اور اللہ ہے جو فیصلہ کرتا ہے، کوئی نہیں جو اس کا فیصلہ ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ الرعد
42 اور جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے بھی (دعوت حق کے مقابلہ میں) مخفی تدبیریں کی تھیں، سو (یاد رکھو) ہر طرح کی تدبیریں اللہ ہی کے لیے ہیں، وہ جانتا ہے کہ ہر انسان کیا کمائی کر رہا ہے، اور وہ وقت دور نہیں کہ کافروں کو معلوم ہوجائے گا کس کا انجام بہ خیر ہونے والا ہے۔ الرعد
43 (اے پیغمبر) منکرین حق کہتے ہیں : تو خدا کا بھیجا ہوا نہیں، تو کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی بس کرتی ہے اور اس کی جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ الرعد
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے ابراھیم
1 الر۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تجھ پر اتاری ہے تاکہ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم کی تعمیل میں تاریکیوں سے نکالے اور روشنی میں لائے کہ غالب اور ستودہ خدا کی راہ ہے۔ ابراھیم
2 وہ اللہ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے (اور سب اسی کے احکام کے آگے جھکے ہوئے ہیں) اور عذاب سخت کی خرابی ہے ان منکرین کے لیے۔ ابراھیم
3 جنہوں نے آخرت چھوڑ کر دنیا کی زندگی پسند کرلی، جو اللہ کی راہ سے انسانوں کو روکتے ہیں اور چاہتے ہیں اس میں کجی ڈالیں، یہی لوگ ہیں کہ بڑی گہری گمراہی میں جا پڑے۔ ابراھیم
4 اور ہم نے کوئی پیغمبر دنیا میں نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ اپنی قوم ہی کی زبان میں پیام حق پہنچانے والا تھا تاکہ لوگوں پر مطلب واضح کردے۔ پس اللہ جس پر چاہتا ہے (کامیابی کی) راہ گم کردیتا ہے، جس پر چاہتا ہے کھول دیتا ہے، وہ غالب ہے حکمت والا۔ ابراھیم
5 اور دیکھو یہ واقعہ ہے کہ ہم نے اپنی نشانیوں کے ساتھ موسیٰ کو بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکالے اور روشنی میں لائے، نیز یہ کہ اللہ کے (فیصلہ کن) واقعات کا تذکرہ کر کے وعظ و نصیحت کرے۔ کیونکہ ہر انسان کے لیے جو صبر و شکر کرنے والا ہے اس تذکرہ میں (عبرت و موعظت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ ابراھیم
6 اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ موسیٰ نے اپنی قوم کو (وعظ و نصیحت کرتے ہوئے) کہا تھا : اللہ نے تم پر جو احسان کیے ہیں انہیں نہ بھولو۔ اس نے تمہیں خاندان فرعون (کی غلامی) سے نجات دی۔ (اور یہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے؟) وہ تمہیں کیسے جانکاہ عذابوں میں ڈالتے تھے؟ تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے (تاکہ تمہاری تعداد بڑحنے نہ پائے) تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتے (کہ ان کی باندیاں بن کر زندگی بسر کریں) دیکھو اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے کیسی سخت آزمائش تھی؟ ابراھیم
7 اور کیا وہ وقت بھول گئے جب تمہارے پروردگار نے (اپنے اس قانون کا) اعلان کیا تھا، اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں بخشوں گا اور اگر ناشکری کی تو پھر یاد رکھو میرا عذاب بھی بڑا سخت عذاب ہے۔ ابراھیم
8 اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور وہ سب جو زمین میں بستے ہیں کفران نعمت کریں تو (اللہ کو اس کی کیا پروا ہوسکتی ہے؟) اللہ کی ذات تو بے نیاز اور ستودہ ہے (لیکن محرومی و ہلاکت خود تمہارے لیے ہوگی) ابراھیم
9 پھر کیا تم تک ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں؟ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور وہ قومیں جو ان کے بعد ہوئیں اور جن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے؟ ان تمام قوموں کے پاس ان کے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے لیکن انہوں نے ان کی باتیں انہی پر لوٹا دیں اور کان دھرنے سے انکار کردیا، انہوں نے کہا جو بات لے کر تم آئے ہو ہمیں اس سے انکار ہے اور جس بات کی طرف تم بلاتے ہو ہمیں اس پر یقین نہیں، ہم شک و شبہ میں پڑگئے ہیں۔ ابراھیم
10 ان رسولوں نے کہا کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے؟ وہ اللہ کہ آسمان و زمین کا بنانے والا ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے کہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک مقررہ وقت تک (زندگی و کامرانی کی) مہلتیں دے، اس پر قوموں نے کہا تم اس کے سوا کیا ہو کہ ہماری ہی طرح کے ایک آدمی ہو، اور پھر چاہتے ہو جن معبودوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ان کی پوجا کرنے سے ہمیں روک دو۔ اچھا (اگر ایسا ہی ہے تو) کوئی واضح دلیل پیش کرو۔ ابراھیم
11 ان کے رسولوں نے جواب میں کہا ہاں ہم اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ تمہاری ہی طرح آدمی ہیں لیکن اللہ جس بندہ کو چاہتا ہے اپنے فضل و احسان کے لیے چن لیتا ہے۔ اور یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں کہ تمہیں کوئی سند لا دکھائیں مگر ہاں یہ کہ اللہ کے حکم سے ہو، اور اللہ ہی ہے جس پر ایمان رکھنے والوں کا بھروسہ ہے۔ ابراھیم
12 اور ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ پر بھروسہ نہ کریں؟ حالانکہ اسی نے ہماری (زندگی و معیشت کی) راہوں میں ہماری رہنمائی کی ہے، ہم ان ایذواؤں پر صبر کریں گے جو تم ہمیں دے رہے ہو، بس اللہ ہی ہے جس پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔ ابراھیم
13 اور منکروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں اپنے ملک سے ضرور نکال باہر کریں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ، (جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا) تو ہم نے رسولوں پر وحی بھیجی، اب ایسا ضرور ہوگا کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کر ڈالیں۔ ابراھیم
14 اور ان کے بعد تمہیں اس سرزمین میں جگہ دیں، یہ ہے نتیجہ اس کے لیے جو ہماری (حکومت و عدالت کی) جگہ سے ڈرا، نیز (پاداش عمل کی) تنبیہ سے۔ ابراھیم
15 غرض پیغمبروں علیہم السلام نے فتح مندی طلب کی اور ہر سرکش ضدی (جس نے حق کا مقابلہ کیا تھا) نامراد ہوا۔ ابراھیم
16 اس کے پیچھے دوزخ ہے (یعنی دنیا کی نامرادی کے بعد آخرت کی نامرادی پیش آنے والی ہے) وہاں خون اور پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ ابراھیم
17 وہ ایک ایک گھونٹ کر کے منہ میں لے گا اور گلے سے اتار نہ سکے گا، ہر طرف سے اس پر موت آئے گی مگر مرے گا نہیں، اس کے پیچھے ایک سخت عذاب لگا ہوا ہے۔ ابراھیم
18 جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا تو ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے راکھ کا ڈھیر کہ آندھی کے دن ہوا لے اڑے، جو کچھ انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ سے) کمایا ہے اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ آئے گا۔ یہی گمراہی کی حالت ہے جو بڑی ہی گہری گمراہی ہے۔ ابراھیم
19 کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو ایک فعل عبث کی طرح نہیں بنا دیا ہے، کسی مصلحت سے بنایا ہے، اگر وہ چاہے تو تم سب کو ہٹا دے اور ایک نئی پیدائش نمودار کردے۔ ابراھیم
20 ایسا کرنا اس پر کچھ دشوار نہیں۔ ابراھیم
21 اور (دیکھو قیامت کے دن) سب لوگ اللہ کے روبرو حاضر ہوگئے۔ پس ناتوانوں نے سرکشوں سے کہا، ہم (دنیا میں) تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، پھر کیا آج تم ایسا کرسکتے ہو کہ اللہ کے عذاب سے کچھ بچاؤ کردو؟ انہوں نے کہا اگر اللہ ہم پر بچاؤ کی کوئی راہ کھولتا تو ہم بھی تمہیں کوئی راہ دکھاتے۔ (ہم تو خود بھی عذاب میں پڑے ہوئے ہیں) خواہ جھیل لو، خواہ روئیں پٹیں، ہمارے لیے دونوں حالتیں برابر ہوگئیں، ہمارے لیے آج کسی طرح چھٹکارا نہیں۔ ابراھیم
22 اور (دیکھو) جب فیصلہ ہوچکا تو شیطان بولا، بلاشبہ اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا، سچا وعدہ (اور وہ پورا ہو کر رہا) اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر اسے پورا نہ کیا، مجھے تم پر کسی طرح کا تسلط نہ تھا (کہ تم میری پیروی پر مجبور ہوگئے ہو) جو کچھ پیش آیا وہ صرف یہ ہے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا بلاوا قبول کرلیا پس اب مجھے ملامت نہ کرو، خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔ آج کے دن نہ تو میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو، تم نے اب سے پہلے (دنیا میں) جو مجھے (اللہ کا) شریک ٹھہرا لیا تھا ( کہ اس کے احکام کی طرح میرے حکموں کی بھی اطاعت کرنے لگے تھے) تو میں اس سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ بلاشبہ ظلم کرنے والوں کے لیے بڑا ہی دردناک عذاب ہے۔ ابراھیم
23 اور (دیکھو) جو لوگ ایمان لائے تھے اور جنہوں نے نیک کام کیے تھے وہ (نعیم ابدی کے) باغوں میں داخل ہوگئے، ان کے تلے نہریں بہ رہی ہیں، اپنے پروردگار کے حکم سے ہمیشہ انہی میں رہیں گے (ان کی راحتوں کے لیے کبھی زوال نہیں) وہاں ان کے لیے (ہر طرف سے) دعاؤں کی پکار ریہی ہے کہ تم پر سلامتی ہو۔ ابراھیم
24 کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ نے کس طرح ایک مثال بیان کی؟ ایک اچھی بات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھا درخت، جڑ اس کی جمی ہوئی اور ٹہنیاں آسمان میں پھیلی ہوئیں۔ ابراھیم
25 اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل پیدا کرتا رہتا ہے ( اس کی ٹہنیاں کبھی بغیر پھل کے نہیں رہ سکتیں) اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ سوچیں سمجھیں۔ ابراھیم
26 اور نکمی بات کی مثال کیا ہے؟ جیسے ایک نکما درخت، زمین کی سطح پر اس کی جڑ کھوکھلی، جب چاہا اکھاڑ پھینکا، اس کے لیے جماؤ نہیں۔ ابراھیم
27 اللہ ایمان والوں کو جمنے اور مضبوط رہنے والی بات کے ذریعہ سے جماؤ اور مضبوطی دیتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی، اور نافرمانوں پر (جماؤ اور مضبوطی کی) راہ گم کردیتا ہے۔ اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (اس کی حکمت کا فیصلہ یہی فیصلہ ہوا کہ ایسا کرے) ابراھیم
28 (اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کی حالت پر نظر نہیں کی جنہیں اللہ نے نعمت عطا فرمائی تھی مگر انہوں نے کفران نعمت سے اسے بدل ڈالا اور اپنے گروہ کو ہلاکت کے گھر میں جا اتارا؟ ابراھیم
29 یعنی دوزخ میں جا اتارا جس میں وہ داخل ہوں گے؟ (پھر جس کا ٹھکانا دوزخ ہوا تو) کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ ابراھیم
30 اور انہوں نے اللہ کے لیے اس کو ہم درجہ بنائے کہ لوگوں کو اس کی راہ سے بھٹکائیں، (اے پیغبر) تم کہہ دو اچھا (زندگی کے چند روزہ) فائدے برت لو، پھر بالآخر تمہاری راہ آتش دوزخ ہی کی طرف ہے۔ ابراھیم
31 (اے پیغمبر) میرے بندوں کو جو ایمان لائے ہیں یہ پیام پہنچا دو، اس سے پہلے کہ وہ (ہولناک) دن آنمودار ہو جب کہ (نجات کے لیے) نہ تو کسی طرح کا لین دین کام دے گا نہ کسی طرح کی دوستی (اپنے لیے نجات کا سامان کرلیں یعنی) نماز قائم کریں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ظاہر و پوشیدہ خرچ کرتے رہیں۔ ابراھیم
32 یہ اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور (زمین پر) اوپر سے پانی برسایا جس کی آبیاری سے طرح طرح کے پھل پیدا ہوتے ہیں کہ تمہارے لیے غذا کا سامان ہیں اور جہاز تمہارے لیے مسخر کردیے کہ اس کے حکم سے (یعنی اس کے ٹھہرائے ہو قانون کے ماتحت) سمندر میں چلنے لگیں، نیز دریا بھی تمہارے لیے مسخر کردیئے۔ ابراھیم
33 اسی طرح سورج اور چاند بھی مسخر کردیے ہیں کہ ایک خاص دستور پر برابر چلے جارہے ہیں اور رات اور دن کا ظہور بھی مسخر ہے۔ ابراھیم
34 غرض کہ تمہیں (اپنی زندگی کی کاربراریوں اور کامرانیوں کے لیے) جو کچھ مطلب تھا اس نے عطا فرما دیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی ان کا احاطہ نہ کرسکو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ابراھیم
35 اور (یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے دعا مانگی تھی اے میرے پروردگار ! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دیجیو، اور مجھے اور میری نسل کو اس بات سے دور رکھیو کہ بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔ ابراھیم
36 پروردگار ! ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو راہ حق سے بھٹکا دیا ہے، تو جو میرے پیچھے چلا (اور بت پرستی کی گمراہی میں نہ پڑا) وہ میرا ہوا، جس نے میرے طریقہ سے نافرمانی کی (اس سے میرا کوئی رشتہ نہیں اور) تو بخشنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔ ابراھیم
37 اے ہم سب کے پروردگار ! (تو دیکھ رہا ہے کہ) ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لاکر بسائی ہے، اور خدایا ! اس لیے بسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں (تاکہ یہ محترم گھر عبادت گزاران توحید سے خالی نہ رہے) پس تو (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کردے تاکہ (بے آب و گیاہ ریگستان میں رہ کر بھی ضرورت معیشت سے محروم نہ رہیں اور) تیرے شکر گزار ہوں۔ ابراھیم
38 اے ہمارے پروردگا ! ہم جو کچھ چھپاتے ہیں وہ بھی تو جانتا ہے، جو کچھ ظاہر کرتے وہ بھی تیرے علم میں ہے، آسمان اور زمین کی کوئی چیز نہیں جو تجھ سے پوشیدہ ہو۔ ابراھیم
39 (اور ابراہیم نے کہا) ساری ستائش اللہ کے لیے جس نے باوجود بڑھاپے کے مجھے اسماعیل اور اسحاق (دو فرزند) عطا فرمائے، بلاشبہ میرا پروردگا (اپنے بندوں کی) دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ابراھیم
40 خدایا ! مجھے توفیق دے کہ میں نماز قائم کروں اور میری نسل کو بھی اس کی توفیق ملے، پروردگار ! میری یہ دعا تیرے حضور قبول ہو۔ ابراھیم
41 پروردگار ! جس دن اعمال کا حساب لیا جائے گا تو مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ان سب کو جو ایمان لائے (اپنے فضل و کرم سے) بخش دیجیو (اور حساب کی سختی میں نہ ڈالیو) ابراھیم
42 اور (اے پیغمبر) ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ ان ظالموں کے کاموں سے غافل ہے (یعنی روسائے مکہ کے کاموں سے) دراصل اللہ نے ان کا معاملہ اس دن تک کے لیے پیچھے ڈال دیا ہے جب (نتائج عمل کی ہلاکتیں ظہور میں آئیں گی، اس دن ان لوگوں کا یہ حال ہوگا، کہ شدت خوف وحیرت سے) آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ابراھیم
43 حیران، سراسیمہ، نظریں اٹھائے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے، نگاہیں ہیں کہ لوٹ کر آنے والی نہیں اور دل ہیں کہ (خوف و حیرانی کے سوا ہر خیال سے) خالی ہورہے ہیں۔ ابراھیم
44 اور (اے پیغمبر) لوگوں کو اس دن کی آمد سے خبردار کردو جبکہ ان پر عذاب نمودار ہوجائے گا، اس دن ظلم کرنے والے کہیں گے پروردگار ! تھوڑی سی مدت کے لیے ہمیں مہلت دے دے، ہم (اب ہرگز انکار و سرکشی نہیں کریں گے اور) تیری پکار کا جواب دیں گے اور پیغمبروں کی پیروی کریں گے (لیکن انہیں جواب ملے گا) کیا تم ہی نہیں ہو کہ اب سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے ہمیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا؟ ابراھیم
45 تم انہی لوگوں کی بستیوں میں بسے تھے جنہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کی تھی اور تم پر اچھی طرح واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، نیز تمہیں سمجھانے کے لیے طرح طرح کی مثالیں بھی ہم نے بیان کردیں (پھر بھی تم سرکشی سے باز نہ آئے) ابراھیم
46 ان لوگوں نے اپنی ساری تدبیریں کر ڈالی تھیں اور اگرچہ ان کی تدبیریں ایسی تھیں کہ پہاڑوں کو جگہ سے ہلا دیں مگر اللہ کے پاس ان کی ساری تدبیروں کا جواب تھا، (ان کی کوئی تدبیر بھی ظہور نتائج کو نہ روک سکی) ابراھیم
47 پس ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ اپنے رسولوں سے جو وعدہ کرچکا ہے اس کے خلاف کرے گا (ایسا ہونا ممکن نہیں) وہ (سب پر) غالب ہے اور (اعمال بد کی) سزا دینے والا ہے۔ ابراھیم
48 وہ دن کہ جب یہ زمین بدل کر ایک دوسری ہی زمین ہوجائے گی اور آسمان بدل جائیں گے اور سب لوگ خدائے یگانہ و غالب کے حضور حاضر ہوں گے۔ ابراھیم
49 تم اس دن مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ابراھیم
50 ان کے کرتے گندھک کے ہوں گے اور چہرے آگ کے شعلوں سے ڈھنپے ہوئے۔ ابراھیم
51 یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ دے دے، بلاشبہ وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ ابراھیم
52 یہ انسانوں کے لیے ایک پیام ہے اور اس لیے بھیجا گیا ہے کہ لوگوں کو خبردار کیا جائے اور وہ معلوم کرلیں کہ ان کا معبود ایک ہی معبود ہے، نیز اس لیے کہ سمجھ بوجھ والے اس سے نصیحت پکڑیں۔ ابراھیم
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الحجر
1 الر۔ یہ آیتیں ہیں الکتاب کی اور قرآن کی جو (اپنی ساری باتوں میں) واضح اور روشن ہے۔ الحجر
2 جن لوگوں نے (اس کتاب کی سچائی سے) انکار کیا ہے ایک وقت آنے والا ہے کہ آرزوئیں کریں گے، کاش ہم ماننے والوں میں ہوتے۔ الحجر
3 (اے پیغمبر) انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ کھائیں پئیں، عیش و آرام کریں (باطل) امیدوں پر بھولے رہیں۔ لیکن وہ وقت دور نہیں کہ انہیں معلوم ہوجائے گا ( وہ کیسے دھوکے میں پڑے ہوئے تھے) الحجر
4 ہم نے کبھی کسی بستی کے باشندوں کو ہلاک نہیں کیا مگر اسی طرح کہ اس کے لیے ایک ٹھہرائی ہوئی بات تھی (یعنی ایک مقررہ قانون تھا کہ جب کوئی حالت اس طرح کی ہوگی اور اس مقدار میں ہوگی تو ایسا نتیجہ ضرور نکلے گا) الحجر
5 کوئی امت نہ تو اپنے وقت سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔ الحجر
6 اور (اے پیغمبر) ان لوگوں نے تم سے کہا اے وہ آدمی کہ تجھ پر نصیحت اتری ہے تو (ہمارے خیال میں) یقینا دیوانہ ہے۔ الحجر
7 اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ایسا کیوں نہیں کرتا کہ فرشتے اتار کر ہمیں دکھا دے۔ الحجر
8 ہم فرشتے بے کار کو نہیں اتارا کرتے، جبھی اتارتے ہیں کہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اور (جب فرشتے اتریں گے) تو اس وقت انہیں مہلت عمل نہیں ملے گی (وہ تو فیصلہ عمل کا دن ہوگا) الحجر
9 بلاشبہ خود ہم نے الذکر (یعنی قرآن کہ سرتا پا نصیحت ہے) اتارا ہے اور بلا شبہ خود ہم ہی اسکے نگہبان ہیں۔ الحجر
10 اور (اے پیغبر) یہ وہ واقعہ ہے کہ ہم نے تم سے پہلے بھی پچھلے گروہوں میں پیغبر بھیجے۔ الحجر
11 لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی گروہ میں کوئی پیغمبر آیا ہو اور لوگوں نے اس کی ہنسی نہ اڑائی ہو (یہ پہلے سے ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہورہا ہے ) الحجر
12 تو دیکھو اس طرح ہم مجرموں کے دلوں میں کلام حق کی مخالفت بٹھا دیتے ہیں (یعنی ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون ایسا ہی ہے۔ الحجر
13 کہ جن دلوں میں جرم ہوتا ہے ان میں حق کی مخالفت بھی جم جاتی ہے) وہ اس پر ایمان لانے والے نہیں اور جو پہلے گزر چکے ہیں ان کا بھی ایسا ہی دستور رہ چکا ہے۔ الحجر
14 اگر ہم ان پر آسمان کا ایک دروازہ کھول دیں اور یہ دن دہاڑے اس پر چڑھنے لگیں۔ الحجر
15 جب بھی نہیں مانیں گے، یہ کہنے لگیں گے ضرور ہماری آنکھیح متوالی ہوگئی ہیں یا ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ الحجر
16 اور (دیکھو) یہ ہماری ہی کارفرمائی ہے کہ آسمان میں برج بنا دیے (یعنی روشن کواکب پیدا کردیے) اور اسے دیکھنے والوں کے لیے خوشنما کردیا۔ الحجر
17 نیز ہر پھٹکارے ہوئے شیطان سے اس کی حفاظت کردی۔ الحجر
18 الا یہ کہ کوئی گن سن لینا چاہے تو پھر ایک چمکتا ہوا شعلہ ہے جو اس کا تعاقب کرتا ہے۔ الحجر
19 اور (دیکھو) ہم نے زمین (کی سطح) پھیلا دی (یعنی ایسی بنا دی کہ تمہارے لیے بچھے ہوئے فرش کی طرح ہوگئی) اور اس میں پہاڑ گاڑ دیئے۔ نیز جتنی چیزیں اس میں اگائیں، سب وزن کی ہوئی اگائیں۔ الحجر
20 اور تمہارے لیے معیشت کا سارا سامان مہیا کردیا اور ان مخلوقات کے لیے بھی کردیا جن کے لیے تم روزی مہیا کرنے والے نہیں ہو۔ الحجر
21 اور (دیکھو) کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ اس کے ذخیرے ہمارے پاس نہ ہوں مگر ہم انہیں ایک ٹھہرائے ہوئے اندازہ کے مطابق ہی بھیجتے ہیں۔ الحجر
22 اور (دیکھو) ہم نے ہوائیں چلائیں کہ (پانی کے ذروں سے) بار دار تھیں، پھر آسمان سے پانی برسایا اور وہ تمہارے پینے کے کام آیا اور تم نے اسے ذخیرہ کر کے نہیں رکھا تھا۔ الحجر
23 اور یہ ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے ہیں اور موت طاری کرتے ہیں اور ہمارے ہی قبضہ میں سب کی کمائی آتی ہے۔ الحجر
24 اور بلاشبہ ہم نے ان لوگوں کو بھی جانا جو تم میں پہلے آنے والے تھے اور انہیں بھی جو پیچھے آنے والے ہیں۔ الحجر
25 اور (اے پیغبر) یہ تیرا پروردگار ہی ہے جو ان سب کو (قیامت کے دن اپنے سامنے) جمع کرے گا۔ وہ حکمت والا، علم والا ہے۔ الحجر
26 اور بلاشبہ یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے۔ الحجر
27 اور ہم جان کو اس سے پہلے جلتی ہوئی ہوا کی گرمی سے پیدا کرچکے تھے۔ الحجر
28 اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا میں خمیر اٹھے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں (یعنی نوع انسانی پیدا کرنے والا ہوں) الحجر
29 تو جب ایسا ہو کہ میں اسے درست کردوں (یعنی وہ وجود تکمیل کو پہنچ جائے) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو چاہے کہ تم سب اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔ الحجر
30 چنانچہ جتنے فرشتے تھے سب اس کے آگے سر بسجود ہوگئے۔ الحجر
31 مگر ایک ابلیس، اس پر یہ بات شاق گزری کہ سجدہ کرنے والوں میں سے ہو۔ الحجر
32 اللہ نے فرمایا : اے ابلیس ! تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟ الحجر
33 کہا مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا ہے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے۔ الحجر
34 حکم ہوا اگر ایسا ہے تو یہاں سے نکل جا کہ تو راندہ ہوا الحجر
35 اور جزا کے دن تک تجھ پر لعنت ہوئی۔ الحجر
36 اس نے کہا خدایا ! مجھے اس دن تک مہلت دے جب انسان (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔ الحجر
37 فرمایا تجھے مہلت دی گئی۔ الحجر
38 اس مقررہ وقت کے دن تک۔ الحجر
39 اس نے کہا خدایا ! چونکہ تو نے مجھ پر (نجات و سعادت کی) راہ بند کردی تو اب میں ضرور ایسا کروں گا کہ زمین میں ان کے لیے (جھوٹی) خوشنمائیاں بنا دوں اور (راہ حق سے) گمراہ کروں۔ الحجر
40 ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہوں گے (میں جانتا ہوں) میرے بہکانے میں آنے والے نہیں۔ الحجر
41 فرمایا : بس یہی سیدھی راہ ہے جو مجھ تک پہنچانے والی ہے۔ الحجر
42 جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں چلے گا۔ صرف انہی پر چلے گا جو (بندگی کی) راہ سے بھٹک گئے۔ الحجر
43 اور ان سب کے لیے جہنم کے عذاب کا وعدہ ہے الحجر
44 (جو کبھی ٹلنے والا نہیں) اس کے سات دروازے ہیں، ان کی ہر ٹولی کے حصہ میں ایک دروازہ آئے گا جس سے جہنم میں داخل ہوں گے۔ الحجر
45 بلاشبہ متقی انسان (اس دن) باغوں اور چشموں (کے عیش و راحت) میں ہوں گے۔ الحجر
46 (انہیں کہا جائے گا) سلامتی کے ساتھ باطمینان ان باغوں میں داخل ہوجاؤ۔ الحجر
47 ان کے دلوں میں جو کچھ (باہمی) رنجشیں تھیں سب ہم نے نکال دیں وہ بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ الحجر
48 وہاں کسی طرح کا صدمہ انہیں چھو نہیں سکے گا نہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔ الحجر
49 (اے پیغمبر) میرے بندوں کو آگاہ کردے کہ بلاشبہ میں ہی ہوں کہ بخشنے والا رحمت والا ہوں۔ الحجر
50 اور بلاشببہ میرا عذاب بڑا دردناک عذاب ہوتا ہے۔ الحجر
51 اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا معاملہ بھی سنا دو۔ الحجر
52 جب یہ مہمان اس کے پاس آئے تو کہا تم پر سلامتی ہو۔ ابراہیم نے کہا ہمیں تم سے اندیشہ ہے (کہ تم کون لوگ ہو؟) الحجر
53 انہوں نے کہا ڈرو مت، ہم تو تمہیں ایک علم والے فرزند کی پیدائش کی خوشخبری سناتے ہیں۔ الحجر
54 ابراہیم نے کہا تم مجھے اس بات کی خوشخبری دیتے ہو حالانکہ مجھ پر بڑھاپا طاری ہوگیا ہے کون سی امید اب رہ گئی ہے کہ یہ خوشخبری مجھے سناؤ الحجر
55 انہوں نے کہا ہم نے تمہیں سچائی کے ساتھ خوشخبری سنائی، پس تمہیں ناامید نہ ہونا چاہیے۔ الحجر
56 ابراہیم نے کہا نہیں میں اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوں، کیونکہ گمراہوں کے سوا کون ہے جو اپنے پروردگار کی رحمت سے مایوس ہوسکتا ہے؟ الحجر
57 پھر اس نے پوچھا تم لوگ جو بھیجے ہوئے آئے ہو تو تمہیں (اور) کون سی مہم درپیش ہے؟ الحجر
58 انہوں نے کہا ہم ایک مجرم گروہ کی طرف بھیجے گئے ہیں (کہ ہلاک ہونے والا ہے) الحجر
59 مگر (ہاں) ایک خاندان وہاں لوط کا ہے، اس کے تمام افراد کو ہم بچا لیں گے، البتہ اس کی بیوی نہیں بچے گی۔ الحجر
60 اس کے لیے ہمارا اندازہ ہوچکا، وہ پیچھے رہ جانے والوں کا ساتھ دے گی۔ الحجر
61 پھر جب ایسا ہوا کہ یہ بھیجے ہوئے (فرشتے) خاندان لوط کے پاس پہنچے۔ الحجر
62 تو اس نے کہا تم لوگ اجنبی آدمی معلوم ہوتے ہو۔ الحجر
63 انہوں نے کہا نہیں یہ بات نہیں ہے بلکہ ہم تمہارے پاس وہ بات لے کر آئے ہیں جس میں لوگ شک کیا کرتے تھے (یعنی ہلاکت کے ظہور کی خبر جس کا لوگوں کو یقین نہ تھا) الحجر
64 ہمارا آنا ایک امر حق کے لیے ہے اور اپنے بیان میں سچے ہیں۔ الحجر
65 پس چاہیے کہ کچھ رات رہے اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر نکل جاؤ اور ان کے پیچھے قدم اٹھاؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ کوئی پیچھے مڑ کے نہ دیکھے، جہاں جانے کا حکم دے دیا گیا ہے (اس طرف رخ کیے) چلے جائیں۔ الحجر
66 غرض کہ ہم نے لوط پر حقیقت حال واضح کردی کہ ہلاکت کا ظہور ہونے والا ہے اور باشندگان شہر کی بیخ و بنیاد صبح ہوتے ہوتے اکھڑ جانے والی ہے۔ الحجر
67 اور (اس اثناء میں ایسا ہوا کہ) شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے آپہنچے۔ الحجر
68 لوط نے کہا دیکھو یہ (نئے آدمی) میرے مہمان ہیں تو میری فضیحت نہ کرو۔ الحجر
69 اللہ سے ڈرو، تم میری رسوائی کے کیوں درپے ہوگئے ہو؟ الحجر
70 انہوں نے کہا کیا ہم نے تجھے اس بات سے نہیں روک دیا تھا کہ کسی قوم کا آدمی ہو لیکن اپنے یہاں نہ ٹھراؤ (اگر ٹھہراؤ گے تو پھر جو کچھ ہمارے جی میں آئے گا کر گزریں گے۔ الحجر
71 لوط نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو دیکھو یہ میری بیٹیاں (کھڑی) ہیں (یعنی باشندگان شہر کی بیویاں جن کی طرف وہ ملتفت نہیں ہوتے تھے) ان کی طرف ملتفت ہو۔ الحجر
72 (تب فرشتوں نے لوط سے کہا) تمہاری زندگی کی قسم یہ لوگ تو اپنی بدمستیوں میں کھوئے گئے ہیں۔ (تمہاری باتیں ماننے والے نہیں) الحجر
73 غرض کہ سورج نکلتے نکلتے ایک ہولناک آوز نے انہیں آلیا۔ الحجر
74 پس ہم نے وہ بستی زیر و زبر کر ڈالی اور پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی ان پر بارش کی۔ الحجر
75 بلاشبہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو (حقیقت کی) پہچان رکھنے والے ہیں۔ الحجر
76 اور (قوم لوط کی) یہ بستی (کسی غیر معروف گوشہ میں نہ تھی، وہ) ایسی راہ پر واقع ہے جہاں آمد و رفت کا (اب بھی) سلسلہ قائم ہے (اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو) الحجر
77 بلاشبہ اس (بستی کی حالت) میں ایمان رکھنے والوں کے لیے ایک بڑی نشانی ہے۔ الحجر
78 اور (اسی طرح) گھنے جنگل کے باشندے بڑے ظالم تھے (یعنی قبیلہ مدین کے لوگ) الحجر
79 انہیں بھی ہم نے ظلم و سرکشی کی) سزا دی اور یہ دونوں بستیاں (یعنی قوم لوط کی اور قبیلہ مدین کی) شارع عام پر سب کو دکھائی دیتی ہیں۔ الحجر
80 اور (دیکھو) حجر کے لوگوں نے بھی رسولوں کی بات جھٹلائی۔ الحجر
81 ہم نے اپنی نشانیاں انہیں دکھائیں مگر وہ روگردانی ہی کرتے رہے۔ الحجر
82 وہ پہاڑ تراش کے گھر بناتے تھے کہ محفوظ رہیں۔ لیکن (یہ حفاظتیں کچھ بھی کام نہ آئیں) الحجر
83 ایک دن صبح کو اٹھے تو ایک ہولناک آواز نے آپکڑا تھا۔ الحجر
84 اور جو کچھ انہوں نے اپنی سعی و عمل سے کمایا تھا وہ کچھ بھی ان کے کام نہ آیا۔ الحجر
85 ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کسی مصلحت ہی سے بنایا ہے (بے کار کو نہیں بنایا ہے) اور یقینا مقررہ وقت آنے والا ہے۔ پس (اے پیغبر) چاہیے کہ حسن و خوبی کے ساتھ (مخالفوں کی مخالفتوں سے) درگزر کرو۔ الحجر
86 تمہارا پروردگار ہی ہے جو (سب کا) پیدا کرنے والا اور (سب کی حالت) جاننے والا ہے۔ الحجر
87 اور بلاشبہ ہم نے تمہیں دہرائی جانے والی آیتوں میں سے سات آیتوں کی سورت عطا فرمائی ہے۔ (یعنی سورۃ فاتحہ) اور قرآن عظیم (اور اس کا دہرا دہرا کر نماز میں پڑھنا تمہارے لیے کفایت کرتا ہے) الحجر
88 (اور) یہ جو ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو (فوائد زندگی سے) بہرہ مند کردیا ہے تو تم (رشک کی نظر سے انہیں نہ دیکھو اور نہ ایسا ہو کہ ان کی حالت پر بے کار کو غم کھانے لگو۔ تم مومنوں کے لیے اپنے بازو پھیلا دو (یعنی انہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجاؤ) الحجر
89 اور اعلان کردو کہ میں (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرنے والا ہوں، آشکارا۔ الحجر
90 (اے پیغمبر ! ہم نے اسی طرح یہ کلام تم پر نازل کیا ہے) جس طرح ان لوگوں پر نازل کیا تھا جنہوں نے (دین حق کے) ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں۔ الحجر
91 اور (اپنے) قرآن کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ الحجر
92 تو دیکھو تمہارا پروردگار شاہد ہے کہ ان سب سے ضرور ان کے کاموں کی باز پرس ہوگی۔ الحجر
93 پس جو کچھ تمہیں حکم دیا گیا ہے الحجر
94 لوگوں پر آشکارا کرو اور مشرکوں کی کچھ پروا نہ کرو۔ الحجر
95 ان ہنسی اڑانے والوں کے لیے تمہاری طرف سے بس کرتے ہیں الحجر
96 (یہ ہنسی اڑانے والے) جو اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو بھی معبود بناتے ہیں عنقریب معلوم کرلیں گے کہ حقیقت حال کیا تھی؟ الحجر
97 ہم اس سے بے خبر نہیں کہ ان لوگوں کی باتوں سے تمہارا دل رکنے لگتا ہے۔ الحجر
98 سو چاہیے کہ اپنے پروردگار کی ستائش کو (شب و روز) ورد زبان کرلو، اس کے حضور سجدے میں گرے رہو۔ الحجر
99 اس کی بندگی میں لگے رہو، یہاں تک کہ یقین تمہارے سامنے آجائے۔ الحجر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النحل
1 اللہ کا حکم آ پہنچا، پس اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ (اور انتظار کرو) (اے مخاطب) اس کی ذات پاک اور بلند ہے جو یہ لوگ شرک کی باتیں کر رہے ہیں۔ النحل
2 وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس غرض سے چن لیتا ہے کہ اپنے حکم سے فرشتے الروح کے ساتھ اس پر بھیجے (یعنی وحی کے ساتھ بھیجے) اور اسے حکم دے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے خبردار کرو، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس مجھ سے ڈرو (اور انکار و بدعملی سے باز آجاؤ) النحل
3 اس نے آسمان و زمینن کا یہ تمام کارخانہ تدبیر و مصلحت سے پیدا کیا ہے ( بے کار کو نہیں بنایا) اس کی ذات اس بات سے (پاک و) بلند ہے جو لوگ شرک کی بات کر رہے ہیں۔ النحل
4 اس نے انسان کو نطفہ (کے ایک قطرہ) سے پیدا کیا، پھر دیکھو وہ ایک جھگڑنے والا اور ابھرنے والا وجود ہوگیا۔ النحل
5 اور دیکھو اس نے چار پائے پیدا کئے ان میں (یعنی ان کی کھال اور اون میں) تمہارے لیے گرم کرنے والی پوشش ہے۔ نیز طرح طرح کے فائدے، اور انہی میں ایسے جانور بھی ہیں جن کا تم گوشت کھاتے ہو۔ النحل
6 اور دیکھو (انہیں کس طرح پیدا کیا کہ) ان میں تمہاری نگاہوں کے لیے خوش نمائی پیدا ہوگئی ہے، جب تم شام کے وقت انہیں (میدانوں سے چراکر) واپس لاتے ہو اور جب صبح کو (میدانوں میں) چھوڑ دیتے ہو (تو اس وقت ان کا منظر کیسا خوشنما ہوتا ہے؟) النحل
7 اور (پھر دیکھو) یہی جانور ہیں جو تمہارا بوجھ اٹھا کر ایسے (دور دراز) شہروں تک لے جاتے ہیں کہ تم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے مگر بڑٰ ہی جانکا ہی کے ساتھ۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت رکھنے والا بڑا ہی رحمت رکھنے والا ہے۔ النحل
8 اور (دیکھو) گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کردیے ہیں کہ تم ان سے سوری کا کام لو اور ویسے ان میں خوشنمائی اور رونق بھی ہے، وہ اور بہت سی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کی تمہیں خبر نہیں۔ النحل
9 اور یہ اللہ کا کام ہے کہ راہ حق واضح کردے، اور راہوں میں ٹیڑھی راہیں بھی ہیں، وہ اگر چاہتا تو تم سب کو (ایک ہی) راہ دکھا دیتا (اور مختلف راہیں یہاں پیدا ہی نہ ہوتیں، لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ مختلف راہیں اور اس کی حکمت کا ایسا ہی فیصلہ ہوا) النحل
10 وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا۔ اس میں سے کچھ تو تمہارے پینے کے کام آتا ہے، کچھ زمین کو سیراب کرتا ہے، اس سے درختوں کے جنگل پیدا ہوجاتے ہیں اور تم اپنے مویشی ان میں چراتے ہو۔ النحل
11 اسی پانی سے وہ تمہارے لیے (ہر طرح کے غلوں کی) کھیتیاں بھی پیدا کردیتا ہے۔ نیز زیتون، کھجور، انگور اور ہر طرح پھل، یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے ایک بڑی نشانی ہے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔ النحل
12 اور (دیکھو) اس نے تمہارے لیے رات، دن، سورج اور چاند مسخر کردیئے (تمہاری کار براریوں کے لیے کام کر رہے ہیں) اور اسی طرح ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے لیے مسخر ہوگئے ہیں۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ النحل
13 اور زمین کی سطح پر طرحح طرح کے رنگوں کی پیداوار جو تمہارے لیے پیدا کردی ہیں (ان پر غور کرو) بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک نشانی ہے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ النحل
14 اور (دیکھو) وہی ہے جس نے سمندر تمہارے لیے مسخر کردیا کہ اس سے تروتازہ گوشت نکالو اور کھاؤ، اور زیور کی (قیمتی اور خوشنما) چیزیں نکالو جنہیں آرائش کے لیے پہنتے ہو، نیز تم دیکھتے ہو کہ جہاز پانی چیرتے ہوئے چلے جاتے ہیں اس کا فضل تلاش کرو (یعنی جہازوں کے ذریعہ سے تجارت کرو) اور (اس کی نعمتوں کی قدر بجا لاکر) شکر گزار ہو۔ النحل
15 اور (دیکھو) اسی نے زمین میں پہاڑ قائم کردیے، کہ وہ تمہیں لے کر (کسی طرف کو) جھک نہ پڑے، اور اس نے نہریں رواں کردیں اور راستے نکال دییے تاکہ تم (تری اور خشکی کی راہیں قطع کر کے) اپنی منزل مقصود تک پہنچو۔ النحل
16 اور دیکھو، اس نے (قطع مسافت کے لیے طرح طرح کی) علامتیں پیدا کردیں اور ستاروں سے لوگ رہنمائی پاتے ہیں۔ النحل
17 پھر بتلاؤ کیا دونوں ہستیاں برابر ہوگئیں؟ جو وہ پیدا کرتی ہے (یعنی جس نے ربوبیت و فیضان کا یہ تمام کارخانہ بنا دیا ہے) اور وہ جو کچھ پیدا نہیں کرتی (بلکہ خود اپنی ہستی کے لیے پروردگار عالم کی ربوبیت کی محتاج ہے؟) پھر کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں؟ النحل
18 اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی گن نہ سکو، بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخسنے والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔ النحل
19 اور اللہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو، کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں النحل
20 اور اللہ کے سوا جن ہستیوں کو یہ پکارتے ہیں ان کا تو حال یہ ہے کہ وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے، خود کسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ النحل
21 وہ مردے ہیں نہ کہ زندگی رکھنے والے، انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب (موت سے) اٹھائے جائیں گے۔ النحل
22 تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) پھر جو لوگ آخرت کی زندگی پر یقین رکھتے تو ضرور ان کے دل انکار میں ڈوبے ہوئے ہیں، وہ (سچائی کے مقابلہ میں) گھمنڈ کر رہے ہیں۔ النحل
23 یقینا (اللہ ان کے حال سے بے خبر نہیں) یہ جو کچھ (اپنے دل میں) چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ (زباں پر) ظاہر کرتے ہیں سب اس کے علم میں ہے۔ وہ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ النحل
24 اور جب ان لوگوں سے پوچھا جاتا ہے وہ کیا بات ہے جو تمہارے پروردگار نے اتاری ہے؟ تو کہتے ہیں کچھ نہیں، محض اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ النحل
25 (ان کے اس کہنے کا نتیجہ کیا ہے؟) یہ کہ قیامت کے دن پورا پورا (اپنے گناہوں کا) بوجھ اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھ کا بھی ایک حصہ جنہیں (اس طرح کی باتیں کہہ کہہ کر) یہ بغیر علم و روشنی کے گمراہ کر رہے ہیں۔ تو دیکھو، کیا ہی برا بوجھ ہے جو یہ اپنے اوپر لادے چلے جارہے ہیں۔ النحل
26 ان سے پہلے جو گزر چکے ہیں، انہوں نے بھی (دعوت حق کے خلاف) تدبیریں کی تھیں لیکن (کیا نتیجہ نکلا؟) انہوں نے اپنی تدبیروں کی جو عمارت بنائی تھی اللہ نے اس کی بنیاد کی اینٹیں تک ہلا دیں۔ پس ان کے اوپر (انہی کی بنائی ہوئی) چھت آگری اور ایسی راہ سے عذاب نمودار ہوا جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔ النحل
27 پھر (اس کے بعد) قیامت کا دن (پیش آنے والا) ہے جب وہ انہیں رسوائی میں ڈالے گا اور پوچھے گا، بتلاؤ آج وہ ہستیاں کہاں گئیں جنہیں تم نے میرا شریک بنایا تھا اور جن کے بارے میں تم (اہل حق سے) لڑا کرتے تھے؟ اس وقت وہ لوگ جنہیں (حقیقت کا) علم دیا گیا تھا پکار اٹھیں گے بیشک آج کے دن کی رسوائی اور خرابی سرتا سر کافروں کے لیے ہے ان کافروں کے لیے کہ فرشتوں نے جب ان کی روحیں قبض کی تھیں تو اپنی جانوں پر خود اپنے ہاتھوں ظلم کر رہے تھے۔ النحل
28 تب وہ اطاعت کا اظہار کریں گے اور کہیں گے ہم نے تو (اپنی دانست میں) کوئی برائی کی بات نہیں کی تھی۔ (لیکن اہل علم جواب دیں گے) ہاں تم نے ضرور کی اور تم جو کچھ کرتے رہے ہو اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ النحل
29 پس اب تمہارے لیے یہی ہے کہ جہنم کے دروزوں میں (گروہ گروہ ہوکر) داخل ہوجاؤ، تمہیں ہمیشہ کے لیے اسی میں رہنا ہے، تو دیکھو (حق کے مقابلہ میں) گھمنڈ کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہوا۔ النحل
30 اور (جب) متقیوں سے پوچھا گیا وہ کیا بات ہے جو تمہارے پروردگار نے نازل کی ہے؟ تو انہوں نے کہا، سرتاسر خیر و برکت کی بات سو (دیکھو) جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھائی کی ان کے لیے اچھائی ہی ہے اور یقینا (ان کے لیے) آخرت کا گھر بھی خیر و برکت ہی کا گھر ہے۔ پس متقیوں کا ٹھکانا کیا ہی اچھا ٹھکانا ہوا۔ النحل
31 دائمی (راحت و سرور کے) باغ جن میں وہ داخل ہوں گے ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) جو کچھ چاہیں گے وہاں ان کے لیے مہیا ہوجائے گا، اسی طرح اللہ متقیوں کو (ان کی نیک عملی کا) بدلہ دیتا ہے۔ النحل
32 وہ (متقی) جنہیں فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ (دل کے اطمینان اور ایمان کے یقین کی وجہ سے) خوشحال ہوتے ہیں۔ فرشتے انہیں کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو۔ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ یہ نتیجہ ہے ان کاموں کا جو تم کرتے رہے ہو۔ النحل
33 (اے پیغبر) یہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں تو اس بات کے سوا اور کون سی بات اب باقی رہ گئی ہے کہ فرشتے ان پر اتر آئیں یا تیرے پروردگار کا (مقررہ) حکم ظہور میں آجائے؟ ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں (کہ سرکشی و فساد سے باز نہ آئے یہاں تک کہ (حکم الہی ظہور میں آگیا) اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔ النحل
34 اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے کچھ ان کے کام تھے ویسے ہی برے نتیجے بھی ملے، اور جس بات کی ہنسی اڑایا کرتے تھے وہی انہیں آلگی۔ النحل
35 اور مشرکوں نے کہا اگر اللہ چاہتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا کہ ہم یا ہمارے باپ دادا اس کے سوا دوسری ہستیوں کی پوجا کرتے اور نہ ایسا ہوتا کہ بغیر اس کے حکم کے کسی چیز کو (اپنے جی سے) حرام ٹھہرا لیتے ایسی ہی روش ان لوگوں نے بھی اختیار کی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ پھر (بتلاؤ) پیغبروں کے زمے اس کے سوا اور کیا ہے کہ صاف صاف پیام حق پہنچا دیں؟ النحل
36 اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے (دنیا کی) ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور پیدا کیا (تاکہ اس پیام حق کا اعلان کردے) کہ اللہ کی بندگی کرو، اور سرکش قوتوں سے بچو، پھر ان امتوں میں سے بعض ایسی تھی جن پر اللہ نے (کامیابی کی) راہ کھول دی۔ بعض ایسی تھیں جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ پس ملکوں کی سیر کرو اور دیکھو جو قومیں (سچائی کو) جھٹلانے والی تھیں انہیں بالآخر کیسا انجام پیش آیا؟ النحل
37 (اے پیغمبر) تم ان لوگوں کے ہدایت پانے کے کتنے ہی خواہشمند ہو لیکن (یہ راہ پانے والے نہیں، کیونکہ) اللہ اس آدمی پر (کامیابی کی) راہ کبھی نہیں کھولتا جس پر (اس کے انکار و سرکشی کی وجہ سے) راہ گم کردیتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے مددگار بھی نہیں ہوتا (کہ انہیں نتائج عمل سے بچا لے) النحل
38 اور (دیکھو) ان لوگوں نے اللہ کی سخت سے سخت قسمیں کھائیں کہ جو مرجاتا ہے اسے اللہ کبھی دوبارہ نہیں اٹھائے گا، ہاں ضرور اٹھائے گا یہ اس کا وعدہ ہے اور اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہے۔ لیکن اکثر آدمی ہیں جو اس بات کا علم نہیں رکھتے۔ النحل
39 (اور پھر کیوں اٹھائے گا؟) اس لیے کہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ان کی حقیقت کھول دے اور اس لیے کہ منکر جان لیں وہ (اپنی روش میں) جھوٹے تھے۔ النحل
40 جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کوئی چیز پیدا کریں تو اس کے سوا ہمیں اور کچھ کہنا نہیں ہوتا کہ کہہ دیتے ہیں ہوجا اور بس وہ ہوجاتا ہے۔ النحل
41 اور (یاد رکھو) جن لوگوں پر (ان کے ایمان لانے کی وجہ سے) ظلم ہوا اور ظلم سہنے کے بعد انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا بدلہ تو کہیں بڑھ کر ہے، اگر یہ لوگ جان لیتے۔ النحل
42 یہ لوگ جو (ہر طرحح کی مصیبتوں میں) ثابت قدم رہے اور جو اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ النحل
43 اور (اے پیغمبر) تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسولوں کو بھیجا تو اسی طرح بھیجا کہ آدمی تھے، ان پر ہم وحی بھیجتے تھے (ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آسمان کے فرشتے اتر آئے ہوں) پس (اے منکرین حق) اگر خود تمہیں (یہ بات) معلوم نہیں تو ان لوگوں سے دریافت کرلو جو (آسمانی کتابوں کی) سمجھ بوجھ رکھتے ہیں (یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے) النحل
44 ہم نے ان رسولوں کو روشن دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ بھیجا تھا اور (اسی طرح) تجھ پر بھی الذکر (یعنی قرآن) نازل کیا تاکہ جو تعلیم لوگوں کی طرف بھیجی گئی ہے وہ ان پر واضھ کردے نیز اس لیے کہ وہ غوروفکر کریں (اور ہدایت کی راہ پالیں) النحل
45 پھر جن لوگوں نے (اپنے) برے مقصدوں کے لیے تدبیریں کی ہیں کیا وہ اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ یا ایک ایسی راہ سے عذاب آنا نازل ہو جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو؟ النحل
46 یا ایسا ہو کہ عین اس وقت جب وہ (اپنی کوششوں میں) تگ و دو کر رہے ہوں عذاب الہی انہیں آپکڑے ؟ کہ وہ اللہ کو (اپنی تدبیروں سے) عاجز نہیں کردے سکتے۔ النحل
47 یا ایسا ہو کہ انہیں (پہلے) ڈرا دے پھر پکڑے کیونکہ بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔ النحل
48 کیا ان لوگوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے کسی چیز پر بھی غور نہیں کیا؟ (انہوں نے دیکھا نہیں) کہ ہر چیز کا سایہ داہنی طرف سے بائیں طرف سے ڈھلتا رہتا ہے اور اللہ کے آگے سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتا رہتا ہے اور یہ کہ سب اس کے آگے عاجز و درماندہ ہیں؟ النحل
49 اور آسمانوں میں جتنی چیزیں ہیں اور زمین میں جتنے جانور ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں ِ نیز فرشتے، اور وہ سرکشی نہیں کرتے۔ النحل
50 وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان کے اوپر موجود ہے، اور جو کچھ حکم انہیں دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ النحل
51 اور اللہ نے فرمایا دو دو معبود اپنے لیے نہ بناؤ، حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہی ایک معبود ہے۔ تو دیکھو صرف میں ہی ہوں، پس صرف مجھی سے ڈرو۔ النحل
52 اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور اسی کے لیے دین ہے دائمی، پھر کیا تم اللہ کے سوا دوسری ہستیوں سے ڈرتے ہو؟ النحل
53 اور نعمتوں میں سے جو کچھ تمہارے پاس ہے سب اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب تمہیں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو اسی کے آگے زار نالی کرتے ہو۔ النحل
54 پھر جب ایسا ہوا ہے کہ وہ تم سے دکھ دور کردیتا ہے تو دیکھو تم میں سے ایک گروہ معا اپنے پروردگار کے ساتھ دوسری ہستیوں کو شریک بنانے لگتا ہے۔ تاکہ جو نعمت ہم نے اسے دی تھی اس کی (پوری طرح) ناشکری کرے۔ النحل
55 اچھا (زندگی کے چند روزہ) فائدے اٹھا لو۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ (اپنی ان ناشکریوں کا نتیجہ) معلوم کرلو گے۔ النحل
56 اور پھر (دیکھو) ہم نے جو کچھ رزق انہیں عطا کیا ہے اس میں یہ ان ہستیوں کا بھی حصہ ٹھہراتے ہیں جن کی حقیقت کی انہیں خبر نہیں، بخدا تم سے ضرور اس بارے میں باز پرس ہوگی کہ (حقیقت کے خلاف) کیسی کیسی افترا پردازیاں کرتے رہتے ہو۔ النحل
57 اور یہ اللہ کے لیے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں، اس کے لیے پاکی ہو، (بھلا اللہ کے لیے بیٹیاں) اور خود ان کے لیے کیا؟ وہ جس کے یہ بڑے خواہشمند ہیں۔ (یعنی بیٹے) النحل
58 جب ان لوگوں میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو (مارے رنج کے) اس کا چہرہ کالا ہوجاتا ہے اور وہ غم میں ڈوب جاتا ہے۔ النحل
59 جس بات کی اسے خوش خبری دی گئی ہے وہ ایسی برائی کی بات ہوئی کہ (شرم کے مارے) لوگوں سے چھپتا پھرے (اور سوچ میں پڑجائے کہ) ذلت قبول کر کے بیٹی کو لیے رہے یا مٹی کے تلے گاڑ دے۔ افسوس ان پر ! کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں۔ النحل
60 حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے لیے یہی ہے کہ (اللہ کی صفتوں کا) برا تصور کریں حالانکہ اللہ کے لیے تو (ہر اعتبار سے) بلند ترین تصور ہے وہ سب پر غالب ہے حکمت والا ہے۔ النحل
61 اور اگر ایسا ہوتا کہ اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر (فورا) پکڑتا تو ممکن نہ تھا کہ زمین کی سطح پر ایک حرکت کرنے والی ہستی بھی باقی رہتی لیکن وہ انہیں ایک خاص ٹھہرائے ہوئے وقت تک ڈھیل دے دیتا ہے۔ پھر جب وہ مقررہ وقت آ پنچا تو نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔ النحل
62 اور (دیکھو) یہ اللہ کے لیے ایسی باتیں ٹھہراے ہیں جنہیں خود (اپنے لیے) پسند نہیں کرتے ان کی زبانیں جھوٹے دعووں میں بے باک ہیں۔ ( یہ کہتے ہیں) کہ ان کے لیے (ہر حال میں) اچھائی ہی اچھائی ہے۔ ہاں البتہ ان کے لیے (دوزخ کی) آگ ہے۔ البتہ یہ سب سے پہلے اس میں پہنچنے والے ہیں۔ النحل
63 (اے پیغمبر) اس بات کی سچائی پر ہم شاہد ہیں کہ ہم نے تجھ سے پہلے کتنی ہی امتوں کی طرف رسول بھیجے، پھر ایسا ہوا کہ شیطان نے لوگوں کو ان کی بدعملیاں اچھی کردکھائیں (اور وہ سچائی کی دعوت پر کار بند نہ ہوئے) سو وہی حال آج بھی ہورہا ہے۔ وہی شیطان ان منکروں کا رفیق ہے اور (بالآخر) ان کے لیے عذاب دردناک ہے۔ النحل
64 اور ہم نے تجھ پر الکتاب نہیں اتاری ہے مگر اس لیے کہ جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کی حقیقت ان پر واضح کردے اور ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت ہے اور رحمت ہے۔ النحل
65 اور (دیکھو) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کی آب پاشی سے زمین کو جو مردہ ہوچکی تھی (ازسرنو) زندہ کردیا۔ بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے ایک نشانی ہے جو (صدائے حق کو جی لگا کر) سنتے ہیں۔ النحل
66 اور بلاشبہ تمہارے لیے چوپایوں میں سوچنے سمجھنے کی بڑی عبرت ہے، ہم ان کے جسم سے خون اور کثافت کے درمیان دودھ پیدا کردیتے ہیں۔ یہ پینے والوں کے لیے ایسی لذیذ چیز ہوتی ہے کہ بے غل و غش اٹھا کر پی لیتے ہیں۔ النحل
67 اسی طرح کھجور اور انگور کے درختوں کے پھل ہیں کہ ان سے نشہ آور عرق اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں تم حاصل کرتے ہو، بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لیے (فہم و بصیرت کی) ایک نشانی ہے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ النحل
68 اور (دیکھو) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان ٹٹیوں میں جو غرض سے بلندی میں بنا دی جاتی ہیں اپنا چھتہ بنائے۔ النحل
69 پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوستی پھرے پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقہ پر پوری فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہوجائے۔ (تو دیکھو) اس کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا رس نکلتا ہے، اس میں انسان کے لیے شفا ہے، بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے ایک نشانی ہے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔ النحل
70 اور (دیکھو) اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی ہے جو تمہاری زندگی پوری کردیتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو (بڑھاپے کی) بدترین عمر تک پہنچ جاتا ہے کہ (ذہن و عقل کی) سمجھ بوجھ رکھنے کے بعد پھر نادان ہوجائے۔ بیشک اللہ (سب کچھ) جاننے والا، ہر بات کی قدرت رکھنے والا ہے۔ النحل
71 اور (دیکھو) اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بہ اعتبار روزی کے برتری دی ہے (کہ کوئی زیادہ کماتا ہے، کوئی کم کماتا ہے) پھر ایسا نہیں ہوتا کہ جس کسی کو زیادہ روزی دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے زیر دستوں کو لوٹا دے حالانکہ سب اس میں برابر کے حقدار ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں سے صریح منکر ہورہے ہیں؟ النحل
72 اور (دیکھو) اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کردیے (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) اور تمہارے جوڑوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کردیے (کہ ان سے تمہاری زندگی ایک وسیع خاندان کی نوعیت اختیار کرلیتی ہے) نیز تمہاری روزی کے لیے اچھی اچھی چیزیں مہیا کردیں۔ پھر یہ لوگ جھوٹی باتیں تو مان لیتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی حقیقت سے انکار کرتے ہیں؟ النحل
73 یہ اللہ کے سوا ان ہستیوں کی پوجا کرتے ہیں جو آسمان و زمین سے رزق دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ انہیں کسی بات کا مقدور ہے۔ النحل
74 پس (دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کر کے) اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو۔ اللہ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے۔ النحل
75 اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے (اس پر غور کرو) ایک غلام ہے کسی دوسرے آدمی کی ملکیت میں، وہ خود کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا، اور ایک دوسرا آدمی ہے (خود مختار) ہم نے اپنے فضل سے اسے اچھی روزی دے رکھی ہے اور وہ ظاہر و پوشیدہ (جس طرح چاہتا ہے) اسے خرچ کرتا ہے۔ اب بتلاؤ کیا یہ دونوں آدمی برابر ہوسکتے ہیں؟ ساری ستائش اللہ کے لیے ہے (اس کے برابر کوئی نہیں) مگر اکثر آدمی ہیں جو نہیں جانتے۔ النحل
76 اور (دیکھو) اللہ نے ایک (اور) مثال بیان فرمائی : دو آدمی ہیں، ایک گونگا ہے، کسی بات کے کرنے کی قدرت نہیں اپنے آقا پر ایک بوجھ جہاں کہیں بھیجے کوئی خوبی کی بات اس سے بن نہ آئے۔ دوسرا ایسا ہے کہ (گونگے ہونے کی جگہ) لوگوں کو عدل و انصاف کی باتوں کا حکم دیتا ہے اور خود بھی (عدل و راستی کے) سیدھے راستے پر ہے۔ کیا پہلا آدمی اور یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ النحل
77 اور آسمانوں اور زمین کی جتنی مخفی باتیں ہیں سب کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور (آنے والے) مقررہ وقت کا معاملہ بس ایسا سمجھو، جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی جلد تر، بیشک اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔ النحل
78 اور (دیکھو) اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکم سے نکالا اور اس حال میں نکالا کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے (یعنی علم و ادراک سے محروم تھے) پھر تمہارے لیے شنوائی، بینائی اور عقل کی قوتیں پیدا کردیں تاکہ تم شکر گزار رہو۔ النحل
79 کیا پرندوں کو نہیں دیکھتے جو آسمان کی فضا میں مطیع و منقاد (اڑ رہے) ہیں؟ اللہ کے سوا کون ہے جو انہیں تھامے ہوئے ہے؟ بلاشبہ ایمان والوں کے لیے اس بات میں (قدرت حق کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ النحل
80 اور (دیکھو) اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکونت کی جگہ بنا دیا۔ نیز تمہارے لیے چارپایوں کی کھالوں سے گھر بنا دیے (یعنی خیمے، جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے ساتھ لیے پھرتے ہو) کوچ کرو یا اقامت کی حالت میں ہو، دونوں حالتوں میں نہایت سبک۔ اور پھر چارپایوں کی اون سے اوروں سے اور بالوں سے کتنے ہی سامان اور مفید چیزیں بنا دیں کہ ایک خاص وقت تک کام دیتی ہیں۔ النحل
81 اور اللہ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے تمہارے لیے سایے پیدا کردیے (کہ جنہیں خیمے میسر نہیں ہوتے وہ درختوں، مکانوں اور پہاڑوں کے سایے میں پناہ لیتے ہیں) اور پہاڑوں میں پناہ لینے کی جگہیں بنا دیں اور لباس پیدا کردیا کہ (لو کی) گرمی سے بچاتا ہے۔ نیز آہنی لباس جو (ہتھیاروں کی) زد سے بچاتا ہے (سو دیکھو) اس طرح اللہ اپنی نعمتیں پوری طرح بخش رہا ہے تاکہ اس کے آگے (اطاعت میں) جھک جاؤ۔ النحل
82 پھر (اے پیغبر) اگر اس پر بھی لوگ اعراض کریں (اور سمجھنے بوجھنے کے لیے تیار نہ ہوں) تو (ان کی فکر چھوڑ دو) تمہارے زمے جو کچھ ہے وہ صرف یہی ہے کہ صاف صاف پیغام حق پہنچا دینا۔ النحل
83 یہ اللہ کی نعمتیں پہچانتے ہیں، پھر بھی اس سے انکار کرتے ہیں اور اکثر ایسے ہیں جنہیں سچائی سے (قطعا) انکار ہے۔ النحل
84 اور جس دن ایسا ہوگا کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا (یعنی پیغمبر) اٹھا کھڑا کریں گے پھر کافروں کو اجازت نہ دی جائے گی (کہ زبان کھولیں) نہ ہی ان سے کہا جائے گا کہ توبہ کریں۔ النحل
85 جن لوگوں نے ظلم کیا ہے جب وہ عذاب اپنے سامنے دیکھیں گے تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ ان پر عذاب ہلکا کردیا جائے، نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ النحل
86 اور جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے ہیں جب (قیامت کے دن) اپنے بنائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو پکار اٹھیں گے اے پروردگار ! یہ ہیں ہمارے (بنائے ہوئے) شریک جنہیں ہم تیرے سوا پکارا کرتے تھے، اس پر وہ بنائے ہوئے شریک ان کی طرف اپنا جواب بھیجیں گے نہیں تم سراسر جھوٹے ہو۔ النحل
87 اور اس دن سب اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیں گے، وہ ساری افترا پردازیاں ان سے کھوئی جائیں گی جو (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔ النحل
88 جن لوگوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا تو ان کی شرارتوں کی پاداش میں ہم نے ان کے عذاب پر ایک اور عذاب بڑھا دیا (کہ ایک عذاب کفر کا ہوا، دوسرا راہ حق سے روکنے کا) النحل
89 اور وہ (آنے والا) دن جب ہم ہر ایک امت میں ایک گواہ (یعنی پیغمبر) اٹھا کھڑا کریں گے جو انہی میں سے ہوگا (اور جو بتلائے گا کہ کس طرحح اس نے پیام حق پہنچایا اور کس طرح لوگوں نے اس کا جواب دی) اور (اے پیغمبر) تجھے ان لوگوں کے لیے (جو آج تجھے جھٹلا رہے ہیں) گواہ بنائیں گے (یہی بات ہے کہ) ہم نے تجھ پر الکتاب نازل کی (دین کی) تمام باتیں بیان کرنے کے لیے اور اس لیے کہ مسلمانوں کے لیے رہنمائی ہو اور رحمت اور خوشخبری۔ النحل
90 (مسلمانو) اللہ حکم دیتا ہے کہ (ہر معاملہ میں) انصاف کرو، (سب کے ساتھ) بھلائی کرو اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرو، اور تمہیں روکتا ہے (کن باتوں سے؟) بے حیائی کی باتوں سے، ہر طرح کی برائیوں سے اور ظلم و زیادتی کے کاموں سے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ (سمجھو اور) نصیحت پکڑو۔ النحل
91 اور جب تم آپس میں قول قرار کرو تو (سمجھ لو کہ یہ اللہ کے نزدیک ایک عہد ہوگیا تو) چاہیے کہ اللہ کا عہد پورا کرو اور ایسا نہ کور کہ قسمیں پکی کر کے انہیں توڑ دو حالانکہ تم اللہ کو اپنے اوپر نگہبان ٹھہرا چکے ہو (یعنی اس کے نام کی قسم کھا کر اسے شاہد قرار دے چکے ہو) یقین کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اللہ سے پوشیدہ نہیں، اس کا علم ہر بات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ النحل
92 اور دیکھو تمہاری مثال اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے بڑی محنت سے سوت کا تا، پھر توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ تم آپس کے معاملہ میں اپنی قسموں کو مکرو و فساد کا ذریعہ بناتے ہو، اس لیے کہ ایک گروہ (کسی) دوسرے گروہ سے (طاقت میں) بڑھ چڑھ گیا ہے (یاد رکھو) اللہ اس معاملہ میں تمہاری (راست بازی و استقامت کی) آزمائش کرتا ہے (کہ تم طاقتور گروہ کا پاس کرنے لگتے ہو یا اپنے قول و قرار کا) جن جن باتوں میں تمہارے اختلاف ہیں ضرور ایسا ہوگا کہ وہ قیامت کے دن (حقیقت حال) تم پر آشکارا کردے۔ النحل
93 اور (دیکھو) اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا (یعنی مختلف گروہوں اور مختلف طریقوں کا اختلاف ظہور ہی میں نہ آتا) لیکن (تم دیکھ رہے ہو کہ اس نے ایسا نہیں چاہا) وہ جس کسی پر چاہتا ہے (کامیابی کی) راہ گم کردیتا ہے۔ جس کسی پر چاہتا ہے کھول دیتا ہے اور (پھر) ضرور ایسا ہونا ہے کہ تم سے ان کاموں کی باز پرس ہو جو (دنیا میں) کرتے رہتے ہو۔ النحل
94 اور (دیکھو) آپس کے معاملات میں اپنی قسموں کو مکرو فریب کا ذریعہ نہ بناؤ کہ لوگوں کے پاؤں جمنے کے بعد اکھڑ جائیں اور اس بات کی پاداش میں کہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکا، برے نتیجوں کا تمہیں مزہ چکھنا پڑے اور (بالآخر) ایک بڑے عذاب کے سزاوار ہو۔ النحل
95 اور اللہ کے نام پر کیے ہوئے عہد (دنیا کے) بہت تھوڑے فائدے کے بدلے نہ بیچو۔ (راست بازی کا) جو اجر اللہ کے پاس ہے وہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ بشرطیکہ تم سمجھتے بوجھتے ہو۔ النحل
96 جو کچھ تمہارے پاس ہے (ایک نہ ایک دن) ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ختم ہونے والا نہیں، جن لوگوں نے صبر کیا (اور زندگی کی عارضی مشکلیں جھیل گئے) ہم ضرور انہیں ان کا اجر عطا فرمائیں گے انہوں نے جیسے جیسے اچھے کام کیے ہیں اسی کے مطابق ہمارا اجر بھی ہوگا۔ النحل
97 جس کسی نے اچھا کام کیا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو (یاد رکھو) ہم ضرور اسے (دنیا میں) اچھی زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں بھی ضرور اسے اجر دیں گے، انہوں نے جیسے جیسے اچھے کام کیے ہیں اسی کے مطابق ہمارا اجر بھی ہوگا۔ النحل
98 پس جب تم قرآن پڑھنے لگو تو چاہیے کہ شیطان مردود (کے وسوسوں سے) اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ النحل
99 جو لوگ ایمان والے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ان پر اس کا زور چلے۔ النحل
100 اس کا زور تو انہی پر چلتا ہے جو اپنا رفیق بناتے ہیں، اور جو اس کی وجہ سے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ النحل
101 اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے کہ وہ کیا نازل کر رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں تم تو بس اپنے جی سے گھڑ لیا کرتے ہو، حالانکہ ان میں سے اکثروں کو معلوم نہیں کہ حقیقت حال کیا ہے۔ النحل
102 (اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ میرے جی کی بناوٹ نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے) یہ تو فی الحقیقت تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس نے اتاری ہے اور اس لیے اتاری ہے کہ ایمان والوں کے دل جما دے، فرمانبردار بندوں کے لیے رہنمائی اور (نجات و سعادت کی) خوشخبری۔ النحل
103 اور بلاشبہ ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ (قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ) کہتے ہیں اس شخص کو تو ایک آدمی (یہ باتیں) سکھا دیتا ہے، حالانکہ اس آدمی کی زبان جس کی طرف اسے منسوب کرتے ہیں عجمی ہے اور یہ صاف اور آشکارا عربی زبان ہے۔ النحل
104 اصل یہ ہے کہ جو لوگ (دیدہ و دانشتہ) اللہ کی آیتوں پر یقین نہیں کرتے، اللہ انہیں (کامیابی کی) راہ کبھی نہیں دکھاتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہونا ہے۔ النحل
105 اپنے جی سے جھوٹ گھڑنا تو انہی کا کام ہے جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے (اللہ پر ایمان رکھنے والا تو کبھی افترا پردازی نہیں کرسکتا) یہی ہیں کہ سرتا سر جھوٹے ہیں۔ النحل
106 جو کوئی ایمان لانے کے بعد پھر اللہ سے منکر ہو اور اس کا دل اس انکار پر رضا مند ہوگیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے، مگر ہاں کو کوئی کفر پر مجبور کیا جائے (اور بے بس ہو کر بخوف جان کوئی ایسی بات کہہ دے) اور اس کا دل اندر سے ایمان پر مطمئن ہو (تو ایسے لوگوں سے مواخذہ نہیں) النحل
107 یہ اس وجہ ہے کہ انہوں نے آخرت چھوڑ کر دنیا کی زندگی سے محبت کی۔ نیز اس وجہ سے کہ اللہ (کا قانون ہے وہ) منکروں پر (فلاح و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔ النحل
108 یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر، کانوں پر اور آنکھوں پر مہر کردی (کیونکہ اس کا مقررہ قانون ہے کہ جو عقل و حواس سے کام نہیں لیتے وہ اس کی روشنی سے محروم ہوجاتے ہیں) اور یہی ہیں کہ غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔ النحل
109 لامحالہ یہی لوگ ہیں کہ آخرت میں تباہ حال ہوں گے۔ النحل
110 اور پھر جن لوگوں کا یہ حال ہوا کہ ( کفر و ایمان کی) آزمائشوں میں پڑنے کے بعد ہجرت کی اور پھر (راہ حق میں) جہاد بھی کیا اور (ہر طرح کی مصیبتوں میں) صابر رہے تو بلاشبہ تمہارا پروردگار ان اعمال کے بعد ضرور بخشنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔ النحل
111 وہ (قیامت کا) آنے والا دن جب ہر جان صرف اپنے ہی لیے سوال جواب کرتی ہوئی آئے گی (یعنی کسی کو کسی کی فکر نہ ہوگی) اور جس دن ہر جان کو اس کے عمل کا پورا پورا نتیجہ مل جائے گا، کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہوگی النحل
112 اور (دیکھو) اللہ نے ایک مثال بیان کی، ایک بستی تھی جہاں ہر طرح کا امن چین تھا، ہر جگہ سے سامان رزق آتا رہتا اور ہر شخص فراغت سے کھاتا پیتا تھا، لیکن پھر ایسا ہوا کہ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تو اللہ نے بھی ان کے کاموں کی پاداش میں انہیں نعمتوں سے محروم کردیا۔ (تنعم کی جگہ) فاقہ اور (اطمینان کی جگہ) خوف ان پر چھا گیا۔ النحل
113 اور پھر خود انہی میں سے ایک رسول بھی ان کے سامنے آیا (اور کامیابی و سعادت کی راہ کی دعوت دی) مگر انہوں نے اسے جھٹلایا۔ پس عذاب میں گرفتار گئے اور وہ (خود اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے۔ النحل
114 پس چہایے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے اسے شوق سے کھاؤ، حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں اور (ساتھ ہی) چاہیے کہ اللہ کی نعمت کا شکر بھی ببجا لاؤ، اگر فی الحقیقت تم صرف اسی کے پجاری ہو۔ النحل
115 جو کچھ تم پر حرام کیا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ مردار جانور، لہو سور کا گوشت اور وہ جانور جسے خدا کے سوا کسی دوسری ہستی کے لیے پکارا جائے، پھر جو کوئی (حلال غذا نہ ملنے کی وجہ سے) ناچار ہوجائے اور نہ تو (حکم الہی سے) سرتابی کرنے والا ہو، نہ (حد ضرورت سے) گزر جانے والا (اور وہ جان بچانے کے لیے کچھ کھا لے) تو اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ النحل
116 اور (دیکھو) ایسا نہ کرو کہ تمہاری زبانوں پر جھوٹی بات آجائے بے دھڑک نکال دیا کرو اور (اپنے جی سے ٹھہرا کر) حکم لگا دو، یہ چیز حلال ہے، یہ حرام ہے، اس طرح حکم لگانا اللہ پر افترا پردازی کرنا ہے۔ (اور یاد رکھو) جو لوگ اللہ پر افترا پردازیاں کرتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔ النحل
117 (یہ دنیا کے) بہت تھوڑے فائدے ہیں جو اٹھا لیں (آخر کار) انہیں عذاب دردناک پیش آنے والا ہے۔ النحل
118 اور (اے پیغمبر) یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کی سرگزشت تجھے پہلے سنا چکے ہیں، اور (یہ پابندیاں جو ان پرلگائی گئیں تو خود انہی کی گمراہیوں کا نتیجہ تھیں) ہم نے ان پرزیادتی نہیں کی (کیونکہ یہ ہمارا شیوہ نہیں) وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔ النحل
119 ہاں جو لوگ نادانی سے برائیوں میں پڑگئے لیکن اس کے بعد تائب ہوگئے وار توبہ کے بعد اپنی حالت بھی سنوار لی تو تمہارا پروردگار ہاں بلاشبہ تمہارا پروردگار اس صورت حال کے بعد ضرور بخشنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔ النحل
120 بلاشبہ ابراہیم (اپنی شخصیت میں) ایک پوری امت تھا، اللہ کے آگے جھکا ہوا، تمام (بناوٹی) راہوں سے ہٹا ہوا، اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ النحل
121 وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لانے والا تھا، اللہ نے اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا اور (سچائی کے) سیدھے راستے پر لگا دیا۔ النحل
122 اسے دنیا میں بھی بہتری دی اور بلاشبہ آخرت میں بھی اس کی جگہ صالح انسانوں میں ہوگی۔ النحل
123 اور پھر (اے پیغمبر) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ (اسی) ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرو ہر طرف سے ہٹا ہوا (صرف دین حق ہی پر کاربند رہنے والا) اور جو مشرکوں میں سے نہ تھا۔ النحل
124 سبت منانے کا حکم تو صرف انہی لوگوں کو دیا گیا تھا جو اس بارے میں اختلاف کرنے لگے تھے، اور بلاشبہ تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کردے گا کہ جن جن باتوں میں اختلاف کرتے رہے ان کی اصل حقیقت کیا تھی۔ النحل
125 (اے پیغمبر) اپنے پروردگار کی راہ کی طرف لوگوں کو بلاؤ، اس طرح کہ حکمت کی باتیں کرو اور اچھے طریقہ پر پند و نصیحت کرو اور مخالفوں سے بحث و نزاع کرو تو (وہ بھی) ایسے طریقہ پر کہ حسن و خوبی کا طریقہ ہو، تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون راہ راست پر ہے۔ النحل
126 اور مخالفوں کی سختی کے جواب میں سختی کرو تو چاہیے کہ ویسی ہی اور اتنی ہی کرو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی ہے، اور اگر تم نے صبر کیا (یعنی جھیل گئے اور سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا) تو بلاشبہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر ہی بہتر ہے۔ النحل
127 (اے پیغمبر) صبر کر اور تیرا صبر کرنا نہیں ہے مگر اللہ کی مدد سے اور ان لوگوں کے حال پر غم نہ کھا، نہ ان کی مخالفانہ تدبیروں سے دل تنگ ہو۔ النحل
128 یقینا اللہ انہی کا ساتھی ہے جو متقی ہیں اور نیک عملی میں سرگرم رہتے ہیں۔ النحل
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الإسراء
1 پاکی ہے اس ذات کے لیے جس نے اپنے بندے کو (یعنی پیغمبر اسلام کو) راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کہ اس کے اطراف کو ہم نے بڑی ہی برکت دی ہے سیر کرائی، اور اس لیے سیر کرائی کہ اپنی نشانیاں اسے دکھا دیں، بلاشبہ وہی ذات ہے جو سننے والی دیکھنے والی ہے۔ الإسراء
2 اور (اسی طرح) ہم نے موسیٰ کو کتاب (شریعت) دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ ٹھہرایا (اور حکم دیا) کہ (دیکھو) میرے سوا اور کسی کو کارساز نہ ٹھہراؤ۔ الإسراء
3 تم ان لوگوں کی نسل ہو جنہیں ہم نے (طوفان کی ہلاکت سے نجات دی تھی اور) نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کرایا تھا، اور وہ ایک شکر گازر بندہ تھا۔ الإسراء
4 اور (دیکھو) ہم نے کتاب میں (یعنی تورات میں) بنی اسرائیل کو اس فیصلہ کی خبر دی تھی کہ تم ضرور ملک میں دو مرتبہ خرابی پھیلاؤ گے اور بڑی ہی سخت درجہ کی سرکشی کرو گے۔ الإسراء
5 پھر جب ان دو وقتوں میں سے پہلا وقت آگیا تو (اے بنی اسرائیل) ہم نے تم پر اپنے ایسے بندے ببھیج دیے جو بڑے ہی خوفناک تھے، پس وہ تمہاری آبادیوں کے اندر پھیل گئے اور اللہ کا وعدہ تو اسی لیے تھا کہ پورا ہو کر رہے۔ الإسراء
6 پھر (دیکھو) ہم نے زمانہ کی گردش تمہارے دشمنوں کے خلاف اور تمہارے موافق کردی اور مال و دولت اور اولاد کی کثرت سے تمہاری مدد کی، اور تمہیں (پھر) ایسا بنا دیا کہ بڑے جتھے والے ہوگئے۔ الإسراء
7 اگر تم نے بھلائی کے کام کیے، تو اپنے ہی لیے کیے اور اگر برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لیے کیں۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے اپنے دوسرے بندوں کو بھیج دیا) تاکہ تمہارے چہروں پر رسوائی پھیر دیں اور اسی طرح (ہیکل کی) مسجد میں داخل ہوجائیں جس طرح پہلی مرتبہ حملہ آور گھسے تھے اور جو کچھ پائیں توڑ پھوڑ کر برباد کر ڈالیں۔ الإسراء
8 کچھ عجب نہیں کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم فرمائے (اگر اب بھی باز آجاؤ) لیکن اگر تم پھر سرکشی و فساد کی طرف لوٹے تو (اللہ فرماتا ہے) ہماری طرف سے بھی پاداش عمل لوٹ آئے گی، اور (یاد رکھو) ہم نے منکرین حق کے لیے جہنم کا قید خانہ تیار کر رکھا ہے۔ الإسراء
9 بلاشبہ یہ قرآن اس راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جو سب سے زیادہ سیدھی راہ ہے اور ایمان والوں کو جو نیک عملی میں سرگرم رہتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ انہیں بہت بڑا اجر ملنے والا ہے۔ الإسراء
10 اور (نیز اس بات کا بھی اعلان کرتا ہے کہ) جو لوگ آخرت کا یقین نہیں رکھتے ان کے لیے ہم نے عذاب دردناک تیار کر رکھا ہے۔ الإسراء
11 اور (دیکھو) جس طرح انسان اپنے لیے بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے، اسی طرح (بسا اوقات) برائی بھی مانگنے لگتا ہے (اگرچہ نہیں جانتا کہ یہ اس کے لیے برائی ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔ الإسراء
12 اور (دیکھو) ہم نے رات اور دن کو ایسا بنایا کہ (ہماری قدرت و حکمت کی) دو نشانیاں ہوگئیں۔ سورات کی نشان دھیمی کردی (کہ راحت و سکون کا وقت بن جائے) اور دن کی نشانی روشن کردی کہ ( اس کے اجالے میں) اپنے پروردگار کا فضل ڈھونڈو (یعنی معیشت کا سروسامان مہیا کرو) نیز (رات دن کے اختلاف سے) برسوں کی گنتی اور (برسوں کی گنتی سے ہر طرح کا) حساب بھی معلوم کرلو۔ ہم نے (قرآن میں) ہر چیز کا بیان کھول کھول کر الگ الگ واضح کردیا ہے۔ الإسراء
13 اور ہم نے ہر انسان کی شامت خود اس کی گردن سے باندھ دی ہے (کہیں باہر سے اس پر آکر نہیں گرتی) قیامت کے دن ہم اس کے لیے (نامہ اعمال کی) ایک کتاب نکال کر پیش کردیں گے، وہ اسے اپنے سامنے کھلا دیکھ لے گا۔ الإسراء
14 (ہم کہیں گے) اپنا نامہ پڑھ لے، آج کے دن خود تیرا وجود ہی تیرے احتساب کے لیے بس کرتا ہے۔ الإسراء
15 جو سیدھے رستے چلا تو اپنے ہی لیے چلا اور جو بھٹک گیا تو بھٹکنے کا خمیازہ بھی وہی اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا (ہر جان کو خود اپنے ہی اعمال کا بوجھ اٹھانا ہے) اور ہم کبھی ایسا نہیں کرتے کہ (کسی قوم کو) عذاب دیں مگر اسی وقت جب کہ اس میں ایک رسول پیدا کردیتے ہیں (اور پھر ببھی لوگ سرکشی و فساد سے باز نہیں آتے) الإسراء
16 اور جب ہمیں منظور ہوتا ہے کہ کسی بستی کو ہلاک کردیں تو ایسا ہوتا ہے کہ اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں (یعنی وحی کے ذریعہ سے احکام حق پہنچا دیتے ہیں) پھر وہ بجائے اس کے کہ اس کی تعمیل کریں، نافرمانی میں سرگرم ہوجاتے ہیں، پس ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے اور (پاداش عمل میں) انہیں برباد و ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ الإسراء
17 اور (دیکھو) نوح کے بعد قوموں کے کتنے ہی دور گزر چکے ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا اور (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کی خبر واری اور نگرانی اس کے بندوں کے (گناہوں کے) لیے بس کرتی ہے۔ الإسراء
18 جو کوئی فوری فائدہ (اسی دنیا میں) چاہتا ہے تو جس کسی کو ہم دینا چاہیں، اور جتنا دینا چاہیں اسی دنیا میں دے دیتے ہیں، پھر آخرکار اس کے لیے جہنم بنا دی ہے، اس میں داخل ہوگا بدحال، ٹھکرایا ہوا۔ الإسراء
19 لیکن جو کوئی آخرت کا طالب ہوا اور اس کے لیے جیسی کچھ کوشش کرنی چاہیے وہی کوشش کی نیز ایمان بھی رکھتا ہے تو (اس کے لیے دائمی کامیابیاں ہیں اور) ایسے ہی لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہوگی۔ الإسراء
20 ہم ہر فریق کو اپنی پروردگاری کی بخشائشوں سے (دنیا میں) مدد دیتے ہیں، ان کو بھی (کہ صرف دنیا ہی کے پیچھے پڑگئے) اور ان کو بھی (کہ آخرت کے طالب ہوئے اور راہ حق پر چلے) اور (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کی بخشش عام کسی پر بند نہیں۔ الإسراء
21 دیکھ ! ہم نے کس طرح (یہاں) بعض لوگوں کو بعض لوگوں پر برتری دے دی ہے (کہ کوئی کسی حال میں نظر آتا ہے کوئی کسی میں) اور حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے درجے سب سے بڑھ کر ہیں اور سب سے برتر۔ الإسراء
22 اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ ورنہ ایسے ہو رہو گے کہ ہر طرف سے نفرت کے مستحق اور ہر طرف سے درماندگی میں پڑے ہوئے۔ الإسراء
23 اور تمہارے پروردگار نے یہ بات ٹھہرا دی کہ اس کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہاری زندگی میں بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائیں (اور ان کی خدمت کا بوجھ تم پر آپڑے) تو ان کی کسی بات پر اف نہ کرو (یعنی کوئی بات کتنی ہی ناگوار گزرے مگر حرف شکایت زبان پر نہ لاؤ اور نہ (تیزی میں آکر) جھڑکنے لگو، ان سے بات چیت ادب و عزت کے ساتھ کرو۔ الإسراء
24 ان کے آگے محبت اور مہربانی کے ساتھ عاجزی کا سر جھکائے رکھو۔ ان کے حق میں (ہمیشہ) دعا کرو کہ پروردگار ! جس طرح انہوں نے مجھے صغر سنی میں پالا پوسا اور بڑا کیا تو اسی طرح تو ببھی ان پر رحم کیجیو۔ الإسراء
25 تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے جی میں ہوتا ہے، اگر تم نیک کردار ہوئے (اور بغیر قصد کے تم سے کوئی فروگزاشت ہوگئی) تو (اس کی وجہ سے تمہیں مضطرب نہیں ہونا چاہیے) وہ بلاشبہ توبہ کرنے والوں کے لیے بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ الإسراء
26 اور (دیکھو) جو لوگ تمہارے قرابت دار ہیں، جو مسکین ہیں، جو (بے یارومددگار) مسافر ہیں، ان سب کا تم پر حق ہے ان کا حق ادا کرتے رہو اور مال و دولت کو بے محل خرچ نہ کرو جیسا کہ بے محل خرچ کرنا ہوتا ہے۔ الإسراء
27 بے محل خرچ کرنے والے شیطان کے بھھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا ہے۔ الإسراء
28 اور اگر ایسا ہو کہ تم اپنے پروردگار کی مہربانی کی راہ دیکھ رہے ہو (یعنی تنگ دستی کی حالت میں ہو اور رزق کی جستجو کر رہے ہو) اور اس لیے تمہیں (ان حقداروں سے) منہ پھیرنا پڑے، تو چاہیے کہ نرمی سے انہیں سمجھا دو (سختی سے پیش نہ آؤ) الإسراء
29 اور (دیکھو) نہ تو اپنا ہاتھ اتنا سکیڑ دو کہ گردن میں بندھ جائے اور نہ بالکل ہی پھیلا دو۔ دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر طرف سے ملامت پڑے اور درماندہ ہو کر رہ جاؤ۔ الإسراء
30 تمہارا پروردگار جس کسی کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے نپی تلی، وہ اپنے بندوں (کی حالت) کی خبر رکھنے والا اور (سب کچھ) دیکھنے والا ہے۔ الإسراء
31 اور (دیکھو) افلاس کے ڈر سے اپنی اولاد کو ہلاک نہ کرو، ہم ہی ہیں کہ انہیں بھی اور تمہیں بھی روزی دیتے ہیں، انہیں ہلاک کرنا بڑے ہی گناہ کی بات ہے۔ الإسراء
32 اور زنا کاری کے قریب بھی نہ جاؤ، یقین کرو وہ بڑی ہی بے حیائی کی بات اور بڑی برائی کا چلن ہے۔ الإسراء
33 اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرا دیا ہے، جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کے مطالبہ کا) اختیار دے دے یا، پس چاہیے کہ خونریزی میں زیادتی نہ کرے (یعنی حق سے زیادہ بدلہ لینے کا قصد نہ کرے) وہ (حد کے اندر رہنے میں) فتح مند ہے۔ الإسراء
34 اور یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ (یعنی اسے خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرنا) مگر ہاں ایسے طریقہ پر جو بہتر ہو۔ یہاں تک کہ یتیم جوان ہوجائیں (اور تم ان کی امانت ان کے حوالہ کردو) اور (دیکھو) اپنا عہد پورا کیا کرو، عہد کے بارے میں تم سے باز پرس کی جائے گی۔ الإسراء
35 اور جب کوئی چیز ماپو تو پیمانہ بھرپور رکھا کرو (اس میں کمی نہ کرو) اور جب تولو تو درست ترازو سے تولو (یعنی نہ تو ترازو غلط ہو نہ تولنے میں ڈنڈی دبائی جائے) یہ (معاملہ کا) بہتر طریقہ ہے اور اچھا انجام لانے والا ہے۔ الإسراء
36 اور دیکھو جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو (اپنی حد کے اندر رہو) یاد رکھو کان، آنکھ، عقل ان سب کے بارے میں باز پرس ہونے والی ہے۔ الإسراء
37 اور زمین پر اکڑ کے نہ چلو، یقینا تم زمین میں شگاف نہیں ڈال سکتے اور نہ پہاڑوں کی لمبان تک پہنچ جاسکتے ہو۔ الإسراء
38 ان ساری باتوں کا یہ حال ہے کہ ان کی برائی تمہارے پروردگار کے نزدیک بڑی ہی ناپسندیدہ ہے۔ الإسراء
39 (اے پیغمبر) یہ ان دانائی کی باتوں میں سے ہیں جو تیرے پروردگار کی جانب سے تجھ پر وحی کی گئی ہیں اور (تمام باتوں کی جڑ یہ ہے کہ) اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ کہ بالآخر دوزخ میں ڈالے جاؤ، ملامت کے مستوجب اور ٹھکرائے ہوئے۔ الإسراء
40 کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں تو اس برگزیدگی کے لیے چن لیا ہو کہ بیٹے والے ہو اور خود اپنے لیے یہ پسند کیا ہو کہ فرشتوں کو بیٹیاں بنائے؟ (افسوس تم پر) کیسی سخت بات ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ الإسراء
41 اور (دیکھو) ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کے طریقوں سے (مطالب حق) بیان کیے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، ہوا تو یہ ہوا کہ (سچائی سے) اور زیادہ نفرت بڑھ گئی۔ الإسراء
42 (اے پیغمبر) تم کہہ دو، اگر اللہ کے ساتھ اور بہت سے معبود ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس صورت میں ضروری تھا کہ وہ فورا صاحب تخت ہستی تک (مقابلہ کی) راہ نکال لیتے (اور کارخانہ ہستی میں فساد پڑجاتا۔ الإسراء
43 ان ساری باتوں سے جو یہ کہتے ہیں اس کی ذات پاک اور بلند ہے بے حد بلند ہے۔ الإسراء
44 ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے سب اس کی پاکی و کبریائی کا زمزمہ بلند کر رہے ہیں۔ یہاں کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج نہ ہو، مگر تم ان کی زمزمہ سنجیاں سمجھتے نہیں، بلاشبہ وہ بڑا ہی بردبار ہے بڑا ہی بخشنے والا۔ الإسراء
45 (اے پیغمبر) جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تجھ میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ حائل کردیتے ہیں (یعنی ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں اور صدائے حق میں ایک پردہ سا حائل ہوجاتا ہے) الإسراء
46 اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف ڈال دیے کہ سمجھ کام نہیں دیتی اور کانوں میں گرانی کہ کچھ سنائی نہیں دیتا، جب تو قرآن میں تن تنہا صرف اپنے پروردگار کا ذکر کرتا ہے (اور یہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کا ذکر نہیں پاتے) تو پیٹھ پھیر کے بھاگنے لگتے ہیں، نفرت میں بھرے ہوئے۔ الإسراء
47 جب یہ لوگ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جو کچھ ان کا سننا ہوتا ہے اسے ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور جب یہ ظالم باہم سرگوشیاں کرتے ہیں اور سرگوشیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں تم جس آدمی کے پیچھے پڑے ہو وہ اسکے سوا کیا ہے کہ جادو سے مارا ہوا ہے تو اس سے بھی ہم بے خبر نہیں ہیں۔ الإسراء
48 (اے پیغمبر) غور کر ! ان لوگوں نے تیری نسبت کیسی کیسی باتیں بنائی ہیں جس کی وجہ سے گمراہی میں پڑگئے، پس اب راہ نہیں پاسکتے۔ الإسراء
49 اور (دیکھ) انہوں نے کہا جب ہم (مرنے کے بعد) محض چند ہڈیوں کی شکل میں رہ گئے اور گل سڑ گئے تو پھر کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ازسر نو اٹھا کھڑے کیے جائیں؟ الإسراء
50 تم کہہ دو ہاں تم (مرنے کے بعد) کچھ ہی کیوں نہ ہوجاؤ۔ پتھر ہوجاؤ، لوہا ہوجاؤ، یا کوئی اور چیز جو تمہارے خیال میں (دوبارہ زندہ ہونے کے لیے) بہت ہی سخت ہو، (لیکن قدرت الہی تمہیں دوبارہ زندہ کر کے رہیے گی) الإسراء
51 یہ سن کر وہ کہیں گے لیکن کون ہے جو اس طرح ہمیں دوبارہ زندہ کردے گا؟ تم کہو وہی جس نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا؟ اس پر یہ لوگ تیرے آگے سر مٹکانے لگیں گے اور کہیں گے ایسا کب ہوگا؟ تم کہو عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہو۔ الإسراء
52 وہ دن کہ اللہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کا جواب دو گے اور ایسا خیال کرو گے کہ (دونوں زندگیوں کے درمیان) تم نے جو وقت گزارا، وہ کوئی بڑی مدت نہ تھی، تھوڑا سا وقت تھا۔ الإسراء
53 اور (اے پیغمبر) میرے بندوں سے کہہ دو (یعنی ان سے جو دعوت حق پر ایمان لائے ہیں، مخالفوں سے گفتگو کرتے ہوئے) جو بات کہو ایسی کہو کہ خوبی کی بات ہو، شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے، یقینا شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔ الإسراء
54 تمہارا پروردگار تمہارے حال سے خوب واقف ہے وہ چاہے تو تم پر رحم کرے، چاہے تو عذاب میں ڈالے، اور (اے پیغبر) ہم نے تجھے ان لوگوں پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے (کہ تو ان کے ہدایت پانے نہ پانے کے لیے جواب دہ ہو) الإسراء
55 آسمان و زمین میں جو کوئی ہے تیرا پروردگار سب کا حال بہتر جاننے والا ہے، ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر برتری دی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ الإسراء
56 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو تم نے اپنے خیال میں اللہ کے سوا جن ہستیوں کو معبود سمجھ رکھا ہے، انہیں (اپنی حاجتوں اور مشکلوں میں) پکار دیکھو، نہ تو وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ تمہارا کوئی دکھ دور کردیں اور نہ تمہاری حالت بدل سکتے ہیں۔ الإسراء
57 یہ لوگ جن ہستیوں کو پکارتے ہیں، (اور اللہ کے حضور انہیں وسیلہ تقریب سمجھتے ہیں) وہ تو خود اپنے پروردگار کے حضور (بندگی و اطاعت کے ذڑیعہ سے) وسیلہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کون اس راہ میں زیادہ قریب ہوتا ہے۔ نیز اس کی رحمت کے متوقع رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ترساں، فی الحقیقت تمہارے پروردگار کا عذاب بڑے ہی ڈرنے کی چیز ہے۔ الإسراء
58 اور روز قیامت سے پہلے ضرور ایسا ہونے والا ہے کہ (نافرمانوں کی) جتنی بستیاں ہیں ہم انہیں ہلاک کردیں یا عذاب سخت میں مبتلا کردیں۔ یہ بات (قانون الہی کے) نوشتہ میں لکھی جاچکی ہے۔ الإسراء
59 اور (جو نشانیاں منکر طلب کرتے ہیں، ان) نشانیوں کے بھیجنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے؟ مگر یہ کہ ہم جانتے ہیں پھچلے عہد کے لوگ ایسی ہی نشانیاں جھٹلا چکے ہیں، ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی دی کہ ایک آشکار انسانی تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا (اور نشانی سے عبرت نہ پکڑی) اور ہم نشانیاں تو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ لوگ (انکار و سرکشی کے نتائج سے) ڈریں۔ الإسراء
60 اور (اے پیغبر ! وہ وقت یاد کرو) جب تیرے پروردگار نے تجھ سے کہا تھا یقین کر، تیرے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے (یعنی اب وہ دعوت حق کے دائرے سے باہر نکل سکتے) اور رویا جو ہم نے تجھے دکھائی تو اسی لیے دکھائی کہ لوگوں کے لیے ایک آزمائش ہو، اسی طرح اس درخت کا ذکر جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم انہیں (طرح طرح سے) ڈراتے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، پڑتا ہے تو صرف یہی کہ اپنی سرکشیوں میں اور زیادہ بڑھتے جاتے ہیں۔ الإسراء
61 اور (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے جھک جاؤ، اس پر سب جھک گئے مگر ایک ابلیس نہ جھکا، اس نے کہا کیا میں ایسی ہستی کے آگے جھکوں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے ؟ الإسراء
62 نیز اس نے کہا کیا تیرا یہی فیصلہ ہوا کہ تو نے اس (حقیر) ہستی کو مجھ پر بڑائی دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں ضرور اس کی نسل کی بیخ بنیاد اکھاڑ کے رہوں، تھوڑے آدمی اس ہلاکت سے بچیں اور کوئی نہ بچے۔ الإسراء
63 اللہ نے فرمایا، جا اپنی راہ لے، جو کوئی بھی ان میں سے تیرے پیچھے چلے گا تو اسکے لیے اور تیرے لیے جہنم کی سزا ہوئی، پوری پوری سزا۔ الإسراء
64 ان میں سے جس کسی کو تو اپنی صدائیں سنا کر بہکا سکتا ہے بہکانے کی کوشش کرلے، اپنے لشکر کے سواروں اور پیادوں سے حملہ کر، ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا، ان سے (طرح طرح کی باتوں کے) وعدے کر، اور شیطان کے وعدے تو اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ سرتاسر دھوکا۔ الإسراء
65 جو میرے (سچے) بندے ہیں ان پر تو قابو پانے والا نہیں تیرا پروردگار کارسازی کے لیے بس کرتا ہے۔ الإسراء
66 (اے لوگو) تمہارا پروردگار تو وہ ہے جو تمہاری کار براریوں کے لیے سمندر میں جہاز چلاتا ہے تاکہ تم (سیرو سیاحت کے ذریعہ سے) اس کا فضل تلاش کرو، بلاشبہ تہ تم پر بڑی رحمت رکھنے والا ہے۔ الإسراء
67 اور جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم سمندر میں ہوتے ہو اور مصیب آلگتی ہے تو اس وقت وہ تمام ہستیاں تم سے کھوئی جاتی ہیں جنہیں تم پکارا کرتے ہو، صرف ایک اللہ ہی کی یاد باقی رہ جاتی ہے، پھر جب وہ تمہیں مصیبت سے نجات دے دیتا اور خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے گردن موڑ لیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ الإسراء
68 پھر کیا تمہیں اس سے امن مل گیا ہے کہ وہ تمہیں خشکی کے کسی گوشے میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھیاں بھیج دے اور تم اس حال میں کسی کو اپنا مددگار نہ پاؤ؟ الإسراء
69 یا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ اللہ تمہیں دوبارہ ویسی ہی مصیبت میں ڈال دے اور ہوا کا ایک سخت طوفان بھیج دے اور تمہاری ناشکری کی پاداش میں تمہیں غرق کردے، اور پھر کسی کو نہ پاؤ جو اس کے لیے ہم پر دعوی کرنے والا ہو؟ الإسراء
70 اور البتہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور خشی اور تری دونوں کی قوتیں اس کے تابع کردیں کہ اسے اٹھائے پھرتی ہیں اور اچھی چیزیں اس کی روزی کے لیے مہیا کردیں نیز جو مخلوقات ہم نے پیدا کی ہیں ان میں سے اکثر پر اسے برتری دے دی، پوری برتری جیسی کہ ہونی چاہیے۔ الإسراء
71 وہ (آنے والا) دن جبکہ ہم تمام انسانوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے (اور اپنے حضور جمع کریں گے) پھر جو کوئی اپنا نوشتہ (اعمال) اپنے داہنے ہاتھ میں پائے گا، تو وہ ان لوگوں میں ہوگا جو اپنا نوشتہ پڑھ لیں گے اور ان پر رائی برابر بھی زیادتی نہیں ہوگی۔ الإسراء
72 اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا رہا (اور اس نے اللہ کے دیے ہوئے ہوش و حواس سے کام نہیں لیا) تو یقین کرو، آخرت میں بھی وہ اندھا ہی رہے گا اور راستہ سے یک قلم بھٹکا ہوا الإسراء
73 اور (اے پیغمبر) ان لوگوں نے تو اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی کہ تجھے فریب دے کر اس کلام (کی تبلیغ) سے باز رکھیں جو ہم نے بذریعہ وحی نازل کیا ہے، اور مقصود ان کا یہ تھا کہ اس کلام کی جگہ دوسری باتیں کہہ کر تو ہم پر افترا پردازی کرے، اور پھر اس سے خوش ہو کر یہ تجھے اپنا دوست بنا لیں۔ الإسراء
74 اور اگر (راہ حق میں) ہم نے تجھے جما نہ دیا ہوتا تو تو ضرور ان کی طرف کچھ نہ کچھ میلان کر ہی بیٹھتا۔ الإسراء
75 اور اس صورت میں ضرور ایسا ہوتا کہ ہم تجھے زندگی کا بھی دوہرا عذاب چکھاتے اور موت کا بھی اور پھر تجھے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ ملتا۔ الإسراء
76 اور انہوں نے اس میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی کہ تجھے اس سرمزین سے عاجز کر کے نکال دیں، اور اگر ایسا کر بھیٹھتے تو (یاد رکھ) تیرے (نکالے جانے کے) پیچھے مہلت نہ پاتے مگر بہت تھوڑی، الإسراء
77 ہم تجھ سے پہلے جو پیغمبر بھیج چکے ہیں ان سب کے معاملہ میں ہمارا ایسا ہی قاعدہ رہا ہے، اور ہمارے ٹھہرائے ہوئے قاعدوں کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائے گا۔ الإسراء
78 (اے پیغمبر) نماز قائم کر، سورج کے ڈھلنے کے وقت سے لیکر رات کے اندھیرے تک (یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشا کے وقتوں میں) نیز صبح کی تلاوت قرآن (یعنی صبح کی نماز) بلاشبہ صبح کی تلاوت قرآن ایک ایسی تلاوت ہے جو (خصوصیت کے ساتھ) دیکھی جاتی ہے۔ الإسراء
79 اور (اے پیغمبر) رات کا کچھ حصہ (یعنی پچھلا پہر) شب بیدار میں بسر کر، یہ تیرے لیے ایک مزید عمل ہے، قریب ہے کہ اللہ تجھے ایک ایسے مقام میں پہنچا دے جو نہایت پسندیدہ مقام ہو۔ الإسراء
80 اور تیری دعا یہ ہونی چاہیے کہ اے پروردگار ! مجھے (جہاں کہیں پہنچا تو) سچائی کے ساتھ پہنچا اور (جہاں کہیں سے نکال تو) سچائی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے حضور سے قوت عطا فرما، ایسی قوت کہ ( ہر حال میں) مددگاری کرنے والی ہو۔ الإسراء
81 اور تیرا اعلان یہ ہو کہ دیکھو حق ظاہر ہوگیا اور باطل نابود ہوا، اور باطل اسی لیے تھا کہ نابود ہو کر رہے۔ الإسراء
82 اور ہم نے جو کچھ قرآن میں سے نازل کیا ہے تو وہ یقین کرنے والوں کے لیے (روح کی ساری بیماریوں کی) شفا اور رحمت ہے، اور جو نافرمان ہیں تو انہیں کچھ فائدہ ہونے والا نہیں، بجز اس کے کہ (انکار و شقاوت کی وجہ سے) اور زیادہ تباہ ہوں۔ الإسراء
83 اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو ہم سے منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے دکھ پہنچ جائے تو دیکھو، بالکل مایوس ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ الإسراء
84 (اے پیغمبر) تم کہہ دو ہر انسان اپنے طور طریقہ کے مطابق عمل کرتا ہے، پس تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کون سب سے زیادہ ٹھیک راہ پر ہے۔ الإسراء
85 اور (اے پیغمبر) یہ لوگ تجھ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو کہہ دے روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے، اور تمہیں (اسرار کائنات کا) علم جو کچھ دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے (اس سے زیادہ تم نہیں پاسکتے) الإسراء
86 اور (اے پیغمبر) جو کچھ ہم نے تجھ پر وحی کی ہے اگر ہم چاہیں تو اسے بھی سلب کرلیں، پھر تجھے کوئی نہ ملے جو اس کے لیے ہم پر اپنی وکالت چلائے۔ الإسراء
87 مگر یہ محض تیرے پروردگار کی رحمت ہے (کہ وہ ایسا نہیں کرتا) اس میں شک نہیں کہ اس کا تجھ پر بڑا ہی فضل ہے۔ الإسراء
88 (اے پیغبر) اس بات کا اعلان کردے کہ اگر تمام انسان اور جن اکٹھے ہو کر چاہیں کہ اس قرآن کے مانند کوئی کلام پیش کردیں تو کبھی پیش نہیں کرسکیں گے۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو۔ الإسراء
89 اور ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں بار بار لوٹا کر بیاں کیں (کہ لوگ سمجھیں بوجھیں) لیکن (ان میں سے) اکثروں نے کوئی بات قبول نہیں کی اور قبول کی تو صرف ناسپاسی۔ الإسراء
90 اور انہوں نے کہا ہم تو اس وقت تک تجھے ماننے والے نہیں جب تک کہ تو اس طرح کی باتیں کر کے نہ دکھا دے۔ (مثلا) ایسا ہو کہ تو حکم کرے اور زمین سے ایک چشمہ پھوٹ نکلے۔ الإسراء
91 یا تیرے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس کے درمیانن بہت سی نہریں رواں کر کے دکھا دے۔ الإسراء
92 یا جیسا کہ تو نے خیال کیا ہے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہم پر آگرے، یا اللہ اور اس کے فرشتے ہمارے سامنے آکھڑے ہوں۔ الإسراء
93 یا ہم دیکھیں کہ سونے کا ایک محل تیرے لیے مہیا ہوگیا ہے یا ایسا ہو کہ تو بلند ہو کر آسمان پر چلا جائے، اور اگر تو آسمان پر چلا بھی گیا تو بھی ہم یہ بات ماننے والے نہیں جب تک کہ تو ایک (لکھی ہوئی) کتاب ہم پر نہ اتار لائے اور ہم خود اسے پڑھ کر جانچ نہ لیں (اے پیغبر) ان لوگوں سے کہہ دے سبحان اللہ ! (میں نے کچھ خدائی کا دعوی تو کیا نہیں) میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ایک آدمی ہوں پیغام حق پہنچانے والا۔ الإسراء
94 اور حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کی ہدایت (دنیا میں) ظاہر ہوئی تو صرف اسی بات نے لوگوں کو ایمان لانے سے روکا کہ (متعجب ہوکر) کہنے لگے کیا اللہ نے (ہماری طرح کا) ایک آدمی پیغمبر بنا کر بھیج دیا ہے؟ الإسراء
95 (اے پیغبر) کہہ دے اگر ایسا ہوا ہوتا کہ زمین میں (انسانوں کی جگہ) فرشتے بسے ہوتے اور اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور آسمان سے ایک فرشتہ پیغمبر بنا کر اتار دیتے۔ الإسراء
96 (نیز) کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان (اب) اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۔ یقینا وہ اپنے بندوں کے حلا سے واقف اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ الإسراء
97 جس کسی کو اللہ (سعادت و کامیابی کی) راہ پر لگا دے فی الحقیقت وہی راہ پر ہے اور جس کسی پر اس نے (کامیابی کی) راہ گمر کردی تو تم اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں پاؤں گے، قیامت کے دن ہم ایسے لوگوں کو ان کے منہ کے بل اٹھائیں گے، اندھے، گونگے، بہرے، ان کا آخری ٹھکانا دوزخ ہوگا۔ جب کبھی اس کی آگ بجھنے کو ہوگی اسے اور زیادہ بھڑکا دیں گے؟ الإسراء
98 یہ ان کی سزا ہوئی، اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا تھا اور کہا تھا بھلا جب (مرنے کے بعد گل سڑ کر) محض ہڈیاں ہی ہڈیاں ہوگئے اور ریزہ ریزہ تو ایسا ہوسکتا ہے کہ ازسرنو پیدا کر کے اٹھائے جائیں؟ الإسراء
99 کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمان و زمینن کی یہ تمام کائنات پیدا کردی ہے ضرور اس پر قادر ہے کہ ان کی موجودہ زندگی کی طرح ایک دوسری زندگی پیدا کردے؟ نیز یہ بات کہ ضڑور اس نے ان کے لیے (آخری فیصلہ کی) ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے جس میں کسی طرح کا شک نہیں کیا جاسکتا؟ اس پر بھی دیکھو، ان ظالموں نے کوئی چال چلنی نہ چاہی مگر انکار حقیقت کی۔ الإسراء
100 (اے پیغمبر) کہہ دے اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے اختیار میں ہوتے تو تم ضرور خرچ ہوجانے کے ڈر سے انہیں روکے رکھتے (لیکن وہ اپنی رحمت کا فیضان روکنے والا نہیں، اس کی بخششیں اتنی نبی تلی نہیں ہیں کہ صرف دنیا کی چند روزہ زندگی ہی میں خرچ ہوجائیں) حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی تنگ دل ہے (وہ رحمت الہی کی وسعت کا اندازہ نہیں کرسکتا) الإسراء
101 اور (اے پیغمبر) ہم نے موسیٰ کو نو آشکارا نشانیاں دی تھیں جب وہ بنی اسرائیل میں ظاہر ہوا تھا، تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلے (کہ کیا ماجرا گزر چکا ہے) فرعون نے اس سے کہا تھا اے موسیٰ ! میں خیال کرتا ہوں ضرور تجھ پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ الإسراء
102 موسی نے اس پر کہا تھا تو یقینا جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مجھ پر کسی اور نے نہیں اتاری ہیں مگر اسی نے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے اور (ان میں عبرت و تذکیر کے لیے) سمجھنے بوجھنے کی روشنی ہے، اور اے فرعون ! میں تو سمجھتا ہوں تو نے اپنے کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ الإسراء
103 تو (دیکھو) فرعون نے چاہا تھا کہ بنی اسرائیل پر ملک میں رہنا دشوار کردے لیکن ہم نے اسے اور ان سب کو جو اس کے ساتھ تھے (سمندر) میں غرق کردیا۔ الإسراء
104 اور ہم نے اس واقعہ کے بعد بنی اسرائیل سے کہا تھا اب اس سرزمین میں (فارغ البال ہوکر) بسو (تمہارے لیے کوئی کھٹکا نہیں رہا) پھر جب آخرت کا وعدہ وقوع میں آجائے گا تو ہم تم سب کو اپنے حضور اکٹھا کرلیں گے۔ الإسراء
105 اور ہم نے قرآن کو سچائی کے ساتھ اتارا اور وہ سچائی ہی کے ساتھ اترا بھی، اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر صرف اسی حیثیت سے کہ (ایمان و عمل کے نتائج کی) بشارت دینے والا اور (انکار و بد عملی کے نتائج سے) خبردار کردینے والا ہے۔ الإسراء
106 اور ہم نے قرآن کو الگ الگ ٹکڑوں میں منقسم کردیا تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو سناتے رہو، اور (یہی وجہ ہے کہ) اسے بیک دفعہ نہیں اتار دیا، بتدریج اتارا۔ الإسراء
107 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دے تم قرآن کو (کلام الہی) مانو یا نہ مانو، لیکن جن لوگوں کو پھچلی کتابوں کا علم دیا گیا ہے (یعنی اہل کتاب) انہیں جب یہ کلام سنایا جاتا ہے تو وہ بے اختیار سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ الإسراء
108 اور پکار اٹھتے ہیں کہ ہمارے پروردگار کے لیے پاکی ہو، بلاشبہ ہمارے پروردگار کا وعدہ اسی لیے تھا کہ پورا ہو کر رہے۔ الإسراء
109 وہ ٹھوڑیوں کے بل (اس کے آگے) گر پڑتے ہیں، ان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، کلام حق کی سماعت ان کی عاجزی اور زیادہ کردیتی ہے۔ الإسراء
110 (اے پیغمبر) کہہ دے تم اللہ کہہ کر (اسے) پکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے پکارو، اس کے سارے نام حسن و خوبی کے نام ہیں، اور (اے پیغبر) تو جب نماز میں مشغول ہو تو نہ تو چلا کر پڑھ نہ بالکل چپکے چپکے، چاہیے کہ درمیان کی راہ اختیار کی جائے۔ الإسراء
111 اور کہہ ساری ستائشیں اللہ کے لیے ہیں جو نہ تو اولاد رکھتا ہے نہ اس کی فرمانروائی میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ کوئی ایسا ہے کہ اس کی درماندگی کی وجہ سے اس کا مددگار ہو (وہ ان ساری باتوں سے بے نیاز ہے) اس کی بڑائی کی پکار بلند کر، جیسی پکار بلند کرنی چاہیے۔ الإسراء
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الكهف
1 ساری ستائشیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بند پر الکتاب اتاری (یعنی قرآن اتارا) اور اس میں کسی طرح کی بھی کجی نہ رکھی۔ الكهف
2 بالکل سیدھی بات (ہر طرح کے پیچ و خم سے پاک) اور اس لیے اتاری کہ لوگوں کو خبردار کردے، اللہ کی جانب سے ایک سخت ہولناکی (ان پر) آسکتی ہے، اور مومنوں کو جو اچھے اچھے کام کرتے ہیں، خوشخبری دے دے کہ یقینا ان کے لیے بڑی ہی خوبی کا اجر ہے۔ الكهف
3 ہمیشہ اس میں خوشحال رہیں گے۔ الكهف
4 نیز ان لوگوں کو متنبہ کردے جنہوں نے (ایسی سخت بات منہ سے نکالی کہ) کہا، اللہ بھی اولاد رکھتا ہے۔ الكهف
5 اس بارے میں انہیں کوئی علم نہیں، نہ ان کے باپ دادوں کے پاس کوئی علم تھا، کیسی سخت بات ہے جو ان کی زبانوں سے نکلتی ہے، یہ کچھ نہیں کہتے مگر سرتا سر جھوٹ۔ الكهف
6 (اے پیغمبر) تیری حالت تو ایسی ہورہی ہے کہ جب لوگ یہ (واضح) بات بھی نہ مانیں تو عجب نہیں ان (کی ہدایت) کے پیچھے مارے افسوس کے اپنی جان ہلاکت میں ڈال دے (حالانکہ یہ ماننے والے نہیں) الكهف
7 روئے زمین میں جو کچھ بھی ہے اسے ہم نے زمین کی خوشمائی کا موجب بنایا ہے اور اس لیے بنایا ہے کہ لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں کون ایسا ہے جس کے کام سب سے زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ الكهف
8 اور پھر ہم ہی ہیں کہ جو کچھ زمین پر ہے اسے (نابود کر کے) چٹیل میدان بنا دیتے ہیں۔ الكهف
9 (اے پیغبر) کیا تو خیال کرتا ہے کہ غار اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب نشانی تھے؟ الكهف
10 جب ایسا ہوا تھا کہ چند جوان غار میں بیٹھے تھے اور انہوں نے دعا کی تھی، پروردگار ! تیرے حضور سے ہم پر رحمت ہو، اور تو ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان مہیا کردے۔ الكهف
11 پس غار میں کئی برسوں تک ہم نے ان کے کان (دنیا کی طرف سے) بند کر رکھے۔ الكهف
12 پھر انہیں اٹھا کھڑا کیا تاکہ واضح ہوجائے، دونوں جماعتوں میں سے کون ہے جو گزری ہوئی مدت کا زیادہ بہتر طریقہ پر احاطہ کرسکتا ہے۔ الكهف
13 (اے پیغمبر) ہم ان لوگوں کی خبر ٹھیک ٹھیک تیرے آگے بیان کردیتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے، ہم نے انہیں ہدایت میں زیادہ مضبوط کردیا۔ الكهف
14 اور ان کے دلوں کی (صبر و استقامت میں) بندش کردی، وہ جب (راہ حق میں) کھڑے ہوئے تو انہوں نے (صاف صاف) کہہ دیا ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکارنے والے نہیں، اگر ہم ایسا کریں تو یہ بڑی ہی بے جا بات ہوگی۔ الكهف
15 یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جو اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کو پکڑے بیٹھے ہیں، وہ اگر معبود ہیں تو کیوں اس کے لیے کوئی روشن دلیل پیش نہیں کرتے؟ (ان کے پاس تو کوئی دلیل نہیں) پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ کہہ کر بہتان باندھے؟ الكهف
16 (پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ) جب ہم نے ان لوگوں سے اور ان سے جنہیں یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کنارہ کشی کرلی تو چاہیے کہ غار میں چل کر پناہ لیں، ہمارا پروردگار اپنی رحمت کا سایہ ہم پر پھیلائے گا اور ہمارے سا معاملہ کے لیے (سارے) سرورسامان مہیا کردے گا۔ الكهف
17 اور وہ جس غار میں جاکر بیھے وہ اس طرح واقع ہوئی کہ جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ ان کے داہنے جانب سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبے تو بائیں طرف کترا کر نکل جاتا ہے (یعنی کسی حال میں بھی اس کی شعاعیں اندر نہیں پہنچتیں) اور وہ اس کے اندر ایک کشادہ جگہ میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے (کہ انہوں نے حق کی خاطر دنیا اور دنیا کے سارے علاقے چھوڑ دیئے) جس کسی پر وہ (کامیابی کی) راہ کھول دے تو وہی راہ پر ہے اور جس پر گم کردے تو تم کسی کو اس کا کارساز اس کا راہ دکھانے والا نہ پاؤ گے۔ الكهف
18 اور تم انہیں دیکھو تو خیال کرو یہ جاگ رہے ہیں (یعنی زندہ ہی) حالانکہ وہ سو رہے ہیں (یعنی مردہ ہیں) ہم انہیں داہنے بائیں پلٹتے رہتے ہیں (یعنی ان کی کروٹ بدلتی رہتی ہے) اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ تم پر (ان کے منظر سے) دہشت چھا جائے۔ الكهف
19 اور (دیکھو) اسی طرح یہ بات ہوئی کہ ہم نے انہیں پھر اٹھا کھڑا کیا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں، ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا، ہم یہاں کتنی دیر تک رہے ہوں گے؟ سب نے کہا ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ، پھر (جب ٹھیک ٹھیک مدت معلوم نہ کرسکے تو) بولے ہمارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کتنی دیر تک یہاں پڑے رہے ہیں۔ اچھا ایک آدمی کو یہ سکہ (١) دے کر شہر میں بھیجو، جا کر دیکھے کس کے یہاں اچھا کھانا ملتا ہے اور جہاں کہیں سے ملے تھوڑٰ بہت غذا لے آئے۔ الكهف
20 اور وہاں چپکے سے لائے، کسی کو ہماری خبر نہ ہونے پائے، اگر لوگوں نے خبر پالی تو وہ چھوڑنے والے نہیں، یا تو سنگسار کریں گے یا مجبور کریں گے کہ پھر ان کے دین میں واپس چلے جائیں اگر ایسا ہوا تو پھر کبھی تم فلاح نہ پاسکو گے۔ الكهف
21 اور (پھر دیکھو) اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے واقف کردیا۔ (انن کی بات پوشیدہ نہ رہ سکی) اور اس لیے واقف کردیا کہ لوگ جان لیں اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، اسی وقت کی بات ہے کہ لوگ آپس میں بحث کرنے لگے ان لوگوں کے معاملہ میں کیا کیا جائے لوگوں نے کہا، اس غار پر ایک عمارت بنا کو (کہ یادگار رہے اس سے زیادہ اس معاملہ کے پیچھے نہ پڑو) ان پر جو کچھ گزری ان کا پروردگار ہی اسے بہتر جانتا ہے، تب ان لوگوں نے کہ معاملات پر غالب آگئے تھے کہا ٹھیک ہے، ہم ضرور ان کے مرقد پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔ الكهف
22 کچھ لوگ کہیں گے غار والے تین آدمی تھے، چوتھا ان کا کتا تھا۔ کچھ لوگ ایسا بھی کہتے ہیں نہیں پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا، یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں، بعض کہتے ہیں سات تھے، آٹھواں ان کا کتا، (اے پیغمبر) کہہ دے ان کی اصل گنتی تو میرا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ان کا حال بہت کم لوگوں کے علم میں آیا ہے۔ (اور جب صورت حال یہ ہے) تو لوگوں سے اس بارے میں بھث و نزاع نہ کر، مگر صرف اس حد تک کہ صاف صاف بات میں ہو۔ (یعنی باریکیوں میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کتنے آدمی تھے کتنے دنوں تک رہے تھے) اور نہ ان لوگوں میں سے کسی سے اس بارے میں کچھ دریافت کر۔ الكهف
23 اور کوئی بات ہو مگر کبھی ایسا نہ کہو میں کل اسے ضرور کر رکے رہوں گا، الا یہ کہ سمجھ لو ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا۔ الكهف
24 اور جب کبھی بھول جاؤ تو اپنے پروردگار کی یاد تازہ کرلو، تم کہو امید ہے میرا پروردگار اس سے بھی زیادہ کامیابی کی راہ مجھ پر کھول دے گا۔ الكهف
25 اور (کہتے ہیں) وہ غار میں تین سو برس تک رہے، ان لوگوں نے نو برس اور بڑھا دیئے ہیں۔ الكهف
26 (اے پیغمبر) تو کہہ دے اللہ ہی بہتر جانتا ہے وہ کتنی مدت تک رہے وہ آسمان و زمین کی ساری پوشیدہ باتیں جاننے والا ہے، بڑا ہی دیکھنے والا، بڑا ہی سننے والا، اس کے سوا لوگوں کا کوئی کارساز نہیں، اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔ الكهف
27 اور (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کی کتاب جو تجھ پر وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت میں لگا رہ، اللہ کی باتیں کوئی بدل نہیں سکتا اور تجھے اس کے سوا کوئی پناہ کا سہارا ملنے والا نہیں۔ الكهف
28 اور جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اس کی محبت میں سرشار ہیں تو انہی کی صحبت پر اپنے جی کو قانو کرلو، ان کی طرف سے کبھی تمہاری نگاہ نہ پھرے کہ دنیوی زندگی کی رونقیں ڈھونڈنے لگو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا (یعنی ہمارے ٹھہرائے ہوئے قانون نتائج کے مطابق جس کا دل غافل ہوگیا) اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑگیا تو ایسے آدمی کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۔ الكهف
29 اور کہہ دو یہ سچائی تمہارے پروردگار کی جانب سے ہے، جو چاہے مانے جو چاہے نہ مانے ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی چادریں چاروں طرف سے انہیں گھیر لیں گے، وہ (پانی کے لیے) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد کے جواب میں ایسا پانی ملے گا جیسے پگھلا ہوا سیسہ ہو، وہ ان کے منہ (گرمی سے) پکا دے گا، تو دیکھو پینے کی کیا ہی بری چیز انہیں ملی اور بیٹھنے کی کیا ہی بری جگہ۔ الكهف
30 مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو (ان کے لیے کوئی اندیشہ نہیں) جس نے اچھے کام کیے ہوں ہم کبھی اس کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ الكهف
31 یہ لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشگی کے باغ ہوں گے، اور باغوں کے تلے نہریں بہ رہی ہوں گی، یہ (بادشاہوں کی طرح) سونے کے کنگن پہنچے ہوئے، سبز ریشم کے باریک اور دبیز کپڑوں سے آراستہ مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے تو کیا ہی اچھا ان کا ثواب ہوا وار کیا ہی اچھی انہوں نے جگہ پائی۔ الكهف
32 اور (اے پیغمبر) ان لوگوں کی ایک مثال سنا دو، دو آدمی تھے، ان میں سے ایک کے لیے ہم نے انگور کے دو باغ مہیا کردیئے، گردا گرد کھجور کے درختوں کا احاطہ تھا، بیچ کی زمین میں کھیتھی تھی۔ الكهف
33 پس ایسا ہوا کہ دونوں باغ پھلوں سے لد گئے، پیداوار میں کسی طرح کی بھی کمی نہ ہوئی ہم نے ان کے درمیان (آب پاشی کے لیے) ایک نہری جاری کردی تھی، نتیجہ یہ نکلا کہ آدمی دولت مند ہوگیا۔ الكهف
34 تب ایک دن (گھمنڈ میں آکر) اپنے دوست سے (جسے یہ خوشحالیاں میسر نہ تھیں) باتیں کرتے کرتے بول اٹھا دیکھو میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور میرا جتھا بھی بڑا طاقتور جتھا ہے۔ الكهف
35 پھر وہ (یہ باتیں کرتے ہوئے) اپنے باغ میں گیا اور وہ اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہا تھا، اس نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ ایسا شاداب باغ کبھی ویران ہسکتا ہے۔ الكهف
36 مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی برپا ہو، اور اگر ایسا ہوا بھی کہ میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا گیا تو (میرے لیے کیا کھٹکا ہے؟) مجھے ضرور (وہاں بھی) اس سے بہتر ٹھکانا ملے گا۔ الكهف
37 یہ سن کر اس کے دوست نے کہا اور باہم گفتگو کا سلسلہ جاری تھا، کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو جس نے تمہیں پہلے مٹی سے اور پھر نطفہ سے پیدا کیا اور پھر آدمی بنا کر نمودار کردیا؟ الكهف
38 لیکن میں تو یقین رکھتا ہوں کہ وہی اللہ میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا،۔ الكهف
39 اور پھر جب تم اپنے باغ میں آئے (اور اس کی شادابیاں دیکھیں) تو کیوں تم نے یہ نہ کہا کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے، اس کی مدد کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا؟ اور یہ جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے کہ میں تم سے مال اور اولاد کمتر رکھتا ہوں۔ الكهف
40 تو (اس پر مغرور نہ ہو) کیا عجب ہے میرا پروردگار تمہارے اس باغ سے بھی بہتر (باغ) مجھے دے دے اور تمہارے باغ پر آسمان سے کوئی ایسی اندازہ کی ہوئی بات اتار دے کہ چٹیل میدان ہو کر رہ جائے۔ الكهف
41 یا پھر (بربادی کی کوئی اور ناگہانی صورت نکل آئے۔ مثلا) اس کی نہر کا پانی بالکل نیچے اترجائے اور تم کسی طرح بھی اس تک نہ پہنچ سکو۔ الكهف
42 اور پھر (دیکھو) ایسا ہی ہوا کہ اس کی دولت (بربادی کے) گھیرے میں آگئی، وہ ہاتھ مل مل کر افسوس کرنے لگا کہ ان باغوں کی درستی پر میں نے کیا کچھ خرچ کیا تھا ( وہ سب برباد گیا) اور باغوں کا یہ حال ہوا کہ ٹٹیاں گر کے زمین کے برابر ہوگئیں، اب وہ کہتا ہے کہ اے کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ الكهف
43 اور دیکھو کوئی جتھا نہ ہوا کہ اللہ کے سوا اس کی مدد کرتا اور نہ خود اس نے یہ طاقت پائی کہ بربادی سے جیت سکتا۔ الكهف
44 یہاں سے معلوم ہوگیا کہ فی الحقیقت سارا اختیار اللہ ہی کے لیے ہے، وہی ہے جو بہتر ثواب دینے والا ہے اور اسی کے ہاتھ بہتر انجام ہے۔ الكهف
45 اور (اے پیغمبر) انہیں دنیا کی مثال سنا دو، اس کی مثال ایسی ہے جیسے (زمین کی روئیدگی کا معاملہ) آسمان سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی روئیدگی اس سے مل جر کر ابھر آئی (اور خوب پھلی پھولی) پھر (کیا ہوا؟ یہ کہ) سب کچھ سوکھ کر چورا چورا ہوگیا، ہوا کے جھونکے اسے اڑرا کے منتشر کر رہے ہیں، اور کون سی بات ہے جس کے کرنے پر اللہ قادر نہیں؟ الكهف
46 مال و دولت اور آل اولاد اور دنیوی زندگی کی دلفریبیاں ہیں ( مگر چند روزہ، ناپائیدار) اور جو نیکیاں باقی رہنے والی ہیں تو وہی تمہارے پروردگار کے نزدیک بہ اعتبار ثواب کے بہتر ہیں اور وہی ہیں جن کے نتائج سے بہتر امید رکھی جاسکتی ہے۔ الكهف
47 اور (دیکھو وہ آنے والا) دن جب ہم پہاڑوں کو چلا دیں گے اور زمین کو تم دیکھو گے کہ اپنی اصلی حالت میں ابھر آئی ہے اور (اس وقت) ہم تمام انسانوں کو (اپنے حضور) اکٹھا کردیں گے۔ کوئی نہ ہوگا جسے چھوڑ دیا ہو۔ الكهف
48 اور ان کی صفیں (ایک کے بعد ایک) تمہارے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گی (تب ان سے کہا جائے گا) جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح تمہیں آج ہمارے سامنے حاضر ہونا پڑا۔ مگر تم نے خیال کیا تھا ہم نے تمہارے لیے اس کا کوئی وقت نہیں ٹھہرایا ہے۔ الكهف
49 اور (اس وقت) نوشتے لائے جائیں گے تو تم دیکھو گے جو کچھ ان میں لکھا ہے اس سے مجرم ہراساں ہورہے ہیں۔ وہ بول اٹھیں گے افسوس ہم پر، یہ کیسا نوشتہ ہے کہ کوئی بات چھوٹی ہوئی نہیں، بڑی ہو یا چھوٹی، سب کو اس نے ضبط کرلیا ہے۔ غرض کہ جو کچھ انہوں نے (دنیا میں) کیا تھا سب اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی پر زیادتی نہیں کرتا (جو جس نے کیا ہے، ٹھیک ٹھیک وہی اس کے آگے آئے گا۔ الكهف
50 اور جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا آدم کے آگے جھک جاؤ، اور سب جھک گئے تھے مگر ابلیس نہیں جھکا تھا، وہ جنوں میں سے تھا پس اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا۔ پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر (کہ تمہارا پروردگار ہوں) اسے اور اس کی نسل کو اپنا کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ (دیکھو) ظلم کرنے والوں کے لیے کیا ہی بری تبدیلی ہوئی۔ الكهف
51 میں نے انہیں اپنے ساتھ شریک نہیں کیا تھا جب آسمان و زمین کو پیدا کیا اور نہ اس وقت وہ شریک ہوئے جب خود انہیں پیدا کیا (اور جب وہ خود مخلوق ہیں تو اپنی خلقت کے وقت کیسے موجود ہوسکتے تھے؟) میں ایسا نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بناتا۔ الكهف
52 اور (دیکھو) اس دن جب اللہ فرمائے گا جن ہستیوں کو تم سمجھتے تھے، میرے ساتھ شریک ہیں اب انہیں بلاؤ، وہ پکاریں گے مگر کچھ جواب نہیں پائیں گے، ہم نے ان دونوں کے درمیان آڑ کردی ہے۔ (ایک دوسرے کی سننے والے نہیں) الكهف
53 اور مجرم دیکھیں گے آگ بھڑک رہی ہے اور سمجھ جائیں گے اس میں انہیں گرنا ہے، وہ کوئی گریز کی راہ نہ پائیں گے۔ الكهف
54 اور (دیکھو) ہم نے اس قرآن میں لوگوں کی ہدایت کے لیے ہر طرح کی مثالیں لوٹا لوٹا کر بیان کردیں مگر انسان بڑا ہی جھگڑا لو واقع ہوا ہے؟ الكهف
55 اور جب لوگوں کے سامنے ہدایت آگئی تو ایمان لانے اور طلب گار مغفرت ہونے سے انہیں کونسی بات روک سکتی ہے؟ مگر یہی کہ اگلی قوموں کا سا معاملہ انہیں بھی پیش آجائے یا ہمارا عذاب سامنے آکھڑا ہوا۔ الكهف
56 اور ہم تو پیغمبروں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں خہ (ایمان و عمل کی کامرانوں کی) بشارت دیں اور (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کردیں مگر جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ جھوٹی باتوں کی آڑ پکڑ کے جھگڑنے لگتے ہیں کہ اس طرح سچائی کو متزلزل کردیں، انہوں نے ہماری نشانیوں کو اور اس بات کو جس سے انہیں خبردار کیا گیا ہے تمسخر کی بات بنا رکھا ہے۔ الكهف
57 اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جسے اس کے پروردگار کی آیتیں یاد دلائی جائیں اور وہ ان سے گردن موڑ لے اور اپنی بدعملیاں بھول جائے جو پہلے کرچکا ہے ؟ بلاشبہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ کوئی بات پا نہیں سکتے اور کانوں میں گرانی (کہ صدائے حق سن نہیں سکتے (١) تم انہیں کتنا ہی سیدھی راہ کی طرف بلاؤ مگر وہ کبھی راہ پانے والے نہیں۔ الكهف
58 مگر (اے پیغمبر) تیرا پروردگار بڑار ہی بخشنے والا، بڑا ہی رحمت والا ہے، اگر وہ ان لوگوں کو ان کے عمل کی کمائی پر پکڑنا چاہتا تو فورا عذاب نازل کردیتا لیکن ان کے لیے ایک میعاد ٹھہرا دی گئی ہے۔ اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے (یعنی سب کو بالآخر اس مقررہ میعاد کی جگہ پہنچنا ہے) الكهف
59 اور دیکھو یہ (پرانی) بستیاں ہیں جب ان کے باشندوں نے ظلم کو شیوہ اختیار کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا، ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے ایک میعاد ٹھہرا دی تھی۔ الكهف
60 اور (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ موسیٰ نے اپنے ساتھی خادم سے کہا تھا میں اپنی کوشش سے باز آنے والا نہیں جب تک اس جگہ نہ پہنچ جاؤں جہاں دونوں سمندر آملے ہیں، میں تو (اپنی راہ) چلتا ہی رہوں گا۔ الكهف
61 پھر جب وہ دونوں سمندروں کے ملنے کی جگہ پہنچ گئے تو اس مچھلی کا انہیں خیال نہ رہا جو اپنے ساتھ رکھ لی تھی، اس نے سمندر میں جانے کے لیے سرنگ کی طرح ایک راہ نکال لی۔ الكهف
62 جب وہ آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے آدمی سے کہا، آج کے سفر نے ہمیں بہت تھکا دیا، لاؤ صبح کا کھانا کھالیں۔ الكهف
63 اس نے کہا کیا آپ نے نہیں دیکھا؟ جب ہم (سمندر کے کنارے) چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو مجھے مچھلی کا کچھ خیال نہیں رہا تھا اس نے عجیب طریقہ پر سمندر میں جانے کی راہ نکال لی۔ اور یہ شیطان ہی کا کام ہے کہ میں اس کا ذکر کرنا بالکل بھول گیا۔ الكهف
64 موسی نے کہا جو بات ہم چاہتے تھے وہ یہی ہے پس وہ اپنے پاؤں کا نشان دیکھتے ہوئے لوٹ گئے۔ الكهف
65 پھر (جب چٹان کے پاس پہنچے) تو انہیں ہمارے (خاص) بندوں میں سے ایک بندہ مل گیا، اس شخص پر ہم نے خصوصیت کے ساتھ مہربانی کی تھی، اسے اپنے پاس سے (براہ راست) ایک علم عطا فرمایا تھا۔ الكهف
66 موسی نے اس سے کہا آپ اجازت دیں تو آپ کے ساتھ رہوں، بشرطیکہ جو علم آپ کو اس خوبی کے ساتھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں۔ الكهف
67 اس نے جواب دیا ہاں، مگر تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے۔ الكهف
68 جو بات تمہاری سمجھ کے دائرہ سے باہر ہے تم دیکھو اور صبر کرو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ الكهف
69 موسی نے کہا اگر خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے، میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ الكهف
70 اس نے کہا اچھا اگر تمہیں میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو اس بات کا خیال رکھو کہ جب تک میں خود تم سے کچھ نہ کہوں تم کسی بات کی نسبت سوال نہ کرنا۔ الكهف
71 پھر ایسا ہوا کہ دونوں سفر میں نکلے یہاں تک کہ سمندر کے کنارے پہنچے اور کشتی میں سوار ہوئے، اب موسیٰ کے ساتھی نے یہ کیا کہ کشتی میں ایک جگہ ڈرار نکال دی، یہ دیکھتے ہی موسیٰ بول اٹھا آپ نے کشتی میں ڈرار نکال دی کہ مسافر غرق ہوجائیں؟ آپ نے کیسی خطرناک بات کی۔ الكهف
72 اس نے کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے؟ الكهف
73 موسی نے کہا بھول ہوگئی، اس پر نہ پکڑیئے، اگر ایک بات بھول چوک میں ہوجائے تو آپ سخت گیری کیوں کریں؟ الكهف
74 پھر وہ دونوں آگے چلے، یہاں تک کہ (ایک بستی کے قریب پہنچے اور) انہیں ایک لڑکا ملا، موسیٰ کے ساتھ اسے قتل کر ڈالا، اس پر موسیٰ بولا اٹھا : آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی تھی، آپ نے کیسی برائی کی بات کی؟ الكهف
75 اس نے کہا کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے؟ الكهف
76 موسی نے کہا اگر پھر میں نے کچھ پوچھا تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا۔ اس صورت میں آپ پوری طرح معذور سمجھے جائیں گے۔ الكهف
77 وہ دونوں اور آگے بڑھے، یہاں تک کہ ایک گاؤں کے پاس پہنچے، گاؤں والے سے کہا ہمارے کھانے کا انتظام کرو، انہوں نے مہمان نوازی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پھر ان دونوں نے دیکھا گاؤں میں ایک (پرانی) دیوار ہے اور گرا چاہتی ہے، یہ دیکھ کر موسیٰ کے ساتھی نے (اس کی مرمت شروع کردی اور) اسے ازسرنو مضبوط کردیا۔ اس پر موسیٰ (سے نہ رہا گیا) بول اٹھا اگر آپ چاہتے تو اس محنت کا کچھ معاوضہ ان لوگوں سے وصول کرتے (بغیر معاوضہ کے بے کار کی محنت کیوں کی؟) الكهف
78 تب موسیٰ کے ساتھی نے کہا بس اب مجھ میں اور تم میں جدائی کا وقت آگیا۔ ہاں جن باتوں پر تم سے صبر نہ ہوسکا ان کی حقیقت تمہیں بتلا دیتا ہوں۔ الكهف
79 سب سے پہلے کشتی کا معاملہ لو، وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ وہ جس طرف بڑھ رہے تھے وہاں ایک بادشاہ ہے (ظالم) جس کسی کی (اچھی) کشتی پاتا ہے زبردستی لے لیتا ہے، میں نے چاہا اس کی کشتی میں ایک عیب نکال دوں (تاکہ عیبی کشتی دیکھ کر بادشاہ کے آدمی چھوڑ دیں) الكهف
80 باقی رہا لڑکے کا معاملہ تو اس کے ماں باپ مومن ہیں۔ میں یہ دیکھ کر ڈرا کہ انہیں سرکشی اور کفر کر کے اذیت پہنچائے گا۔ الكهف
81 پس میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس لڑکے سے بہتر انہیں لڑکا دے۔ دینداری میں بھی اور محبت کرنے میں بھی۔ الكهف
82 اور وہ جو دیوار درست کردی گئی تو (اس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، وہ) شہر کے دو یتیم لڑکوں کی ہے، جس کے نیچے ان کا خزانہ گڑا ہوا ہے۔ ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا پس تمہارے پر پروردگار نے چاہا دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ محفوظ پاکر نکال لیں۔ (اگر وہ دیوار گرجاتی تو ان کا خزانہ محفوظ نہ رہتا اس لیے ضروری ہوا کہ اسے مضبوط کردیا جائے) یہ ان لڑکوں کے حال پر پروردگار کی ایک مہربانی تھی جو اس طرح ظہور میں آئی۔ اور یاد رکھو میں نے جو کچھ کیا اپنے اختیار سے نہیں کیا (اللہ کے حکم سے کیا) یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کرسکے۔ الكهف
83 (اے پیغمبر) تم سے ذوالقرنین کا حال دریافت کرتے ہیں۔ تم کہہ دو میں اس کا کچھ حال تمہیں (کلام الہی میں) پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔ الكهف
84 ہم نے اسے زمین میں حکمرانی دی تھی، نیز اس کے لیے ہر طرح کا سازوسامان مہیا کردیا تھا۔ الكهف
85 تو (دیکھو) اس نے (پہلے) ایک (مہم کے لیے) سازوسامان کیا۔ الكهف
86 (اور پچھم کی طرف نکل کھڑا ہوا) یہاں تک کہ (چلتے چلتے) سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا، وہاں اسے سورج ایسا دکھائی دیا جیسے ایک سیاہ دلدل کی جھیل میں ڈوب جاتا ہے اس کے قریب ایک گروہ کو بھی آباد پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین (اب یہ لوگ تیرے اختیار میں ہیں) تو چاہے انہیں عذاب میں ڈالے چاہے اچھا سلوک کرکے اپنا بنا لے۔ الكهف
87 ذوالقرنین نے کہا ہم نا انصافی کرنے والے نہیں، جو سرکشی کرے گا اسے ضرور سزا دیں گے، پھر اسے اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے، وہ (بداعمالوں کو) سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ الكهف
88 اور جو ایمان لائے گا اور اچھے کام کرے گا تو اس کے بدلے اسے بھلائی ملے گی اور ہم اسے ایسی ہی باتوں کا حکم دیں گے جس میں اس کے لیے آسانی و راحت ہو۔ الكهف
89 اس کے بعد پھر اس نے تیاری کی۔ الكهف
90 اور (پورب کی طرف) نکلا، یہاں تک کہ سورج نکلنے کی آخری حد تک پہنچ گیا، اس نے دیکھا سورج ایک گروہ پر نکلتا ہے جس سے ہم نے کوئی آڑ نہیں رکھی۔ الكهف
91 ان کی حالت ایسی ہی تھی اور جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا اس کی ہمیں پوری پوری خبر ہے۔ الكهف
92 اس نے پھر سازوسامان تیار کیا (اور تیسری مہم میں نکلا) الكهف
93 یہاں تک کہ دو (پہاڑوں کی) دیواروں کے درمیان پہنچ گیا، وہاں اس نے دیکھا پہاڑوں کے اس طرف ایک قوم آباد ہے جس سے بات کہی جائے تو بالکل نہیں سمجھتی۔ الكهف
94 اس قوم نے (اپنی زبان میں) کہا اے ذوالقرنین یاجوج ماجوج اس ملک میں آکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک روک بنا دیں اور اس غرض سے ہم آپ کے لیے کچھ خراج مقرر کردیں؟ الكهف
95 ذوالقرنین نے کہا میرے پروردگار نے جو کچھ میرے قبضہ میں دے رکھا ہے وہی میرے لیے بہتر ہے (تمہارے خراج کا محتاج نہیں) مگر تم اپنی قوت سے (اس کام میں) میری مدد کرو، میں تمہارے اور یاجوج ماجوج کے درمیانن ایک مضبوط دیوار کھڑی کردوں گا۔ الكهف
96 (اس کے بعد اس نے حکم دیا) لوہے کی سلیں میرے لیے مہیا کردو پھر جب (تمام سامان مہیا ہوگیا اور) دونوں پہاڑوں کے درمیان اٹھا کر ان کے برابر کردی تو حکم دیا (بھٹیاں سلگاؤ اور) اسے دھونکو پھر جب (اس قدر دھونکا گیا کہ) بالکل آگ (کی طرح لال) ہوگئی تو کہا تانبا لاؤ، اس پر انڈیل دیں۔ الكهف
97 چنانچہ (اس طرح) ایک ایسی سد بن گئی کہ (یاجوج اور ماجوج) نہ تو اس پر چڑھ سکتے تھے نہ اس میں سرنگ لگا سکتے تھے۔ الكهف
98 ذوالقرنین نے (تکمیل کار کے بعد) کہا یہ (جو کچھ ہوا تو فی الحقیقت) میرے پروردگار کی مہربانی ہے جب میرے پروردگار کی فرمائی ہوئی بات ظہور میں آئے گی تو وہ اسے ڈھا کر ریزہ ریزہ کردے گا (مگر اس سے پہلے کوئی اسے ڈھا نہیں سکتا) اور میرے پروردگار کی فرمائی ہوئی بات سچے ہے، ٹلنے والی نہیں۔ الكهف
99 اور جس دن وہ بات ظہور گی تو اس دن ہم ایسا کریں گے کہ (سمندر کی لہروں کی طرح ان قوموں میں سے) ایک (قوم) دوسری (قوم) کے درمیان بہنے لگے گی، اور نر سنگھا پھونکا جائے گا اور ساری قوموں کی بھیڑ اکٹھی ہوجائے گی۔ الكهف
100 اس دن ہم منکروں کے سامنے دوزخ اس طرح نمودار کردیں گے جیسے ایک چیز بالکل سامنے دکھائی دے۔ الكهف
101 وہ منکر جن کی نگاہوں پر ہمارے ذکر سے پردہ پڑگیا تھا اور (کانوں میں ایسی گرانی کہ) کوئی بات سن نہیں سکتے تھے۔ الكهف
102 جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے کیا انہوں نے خیال کیا ہے ہمیں چھوڑ کر ہمارے بندوں کو اپنا کارساز بنا لیں؟ (انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ) ہم نے کافروں کی مہمانی کے لیے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔ الكهف
103 (اے پیغمبر) تو کہہ دے ہم تمہیں خبر دے دیں کون لوگ اپنے کاموں میں سب سے زیادہ نامراد ہوئے؟ الكهف
104 وہ جن کی ساری کوششیں دنیا کی زندگی میں کوئی گئیں اور وہ اس دھوکے میں پڑے ہیں کہ بڑا اچھا کارخانہ بنا رہے ہیں۔ الكهف
105 یہی لوگ ہیں کہ اپنے پروردگار کی آیتوں سے اور اس کے حضور حاضر ہونے سے منکر ہوئے، پس ان کے سارے کام اکارت گئے اور اس لیے قیامت کے دن ہم ان (کے اعمال) کا کوئی وزن تسلیم نہیں کریں گے۔ الكهف
106 انہوں نے جیسی کچھ کفر کی راہ اختیار کی تھی اور ہماری آیتوں اور رسولوں کی ہنسی ارائی تھی تو عذاب دوزخ اس (لازمی) نتیجہ ہے۔ الكهف
107 لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے۔ الكهف
108 وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، کبھی نہیں چاہیں گے کہ اپنی جگہ بدلیں۔ الكهف
109 (اے پیغمبر) اعلان کردے اگر میرے پروردگار کی باتیں لکھنے کے لیے دنیا کے تمام سمندر سیاہی بن جائیں تو سمندر کا پانی ختم ہوجائے گا، مگر میرے پروردگار کی باتیں ختم نہ ہوں گی، اگر ان سمندروں کا ساتھ دینے کے لیے ویسے ہی سمندر اور بھی پیدا کردیں جب بھی وہ کفایت نہ کریں۔ الكهف
110 (نیز) کہہ دے میں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ البتہ اللہ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تمہارا معبود ہی ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں، پس جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے چاہیے کہ اچھے کام انجام دے اور اپنے پروردگار کی بندگی میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرے (بس، اس کے سوا میری کوئی پکار نہیں) الكهف
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے مريم
1 کۗہٰیٰعۗصۗ مريم
2 (اے پیغمبر) تیرے پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر جو مہربانی کی تھی یہ اس کا بیان ہے۔ مريم
3 جب ایسا ہوا تھا کہ زکریا نے چپکے چپکے اپنے پروردگار کو پکارا، اس نے عرض کیا پروردگار ! میرا جسم کمزور پڑگیا ہے۔ مريم
4 میرے سر کے بال بڑھاپے سے بالکل سفید ہوگئے۔ خدایا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے تیری جناب میں دعا کی ہو اور محروم رہا ہوں۔ مريم
5 مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے (کہ نہیں معلوم وہ کیا کریں) اور میری بیوی بانجھ ہے (اس لیے بظاہر حالات اولاد کی امید نہیں) پس تو اپنے خاص فضل سے مجھے ایک وارث بخش دے مريم
6 ایسا وارث جو میرا بھی وارث ہو اور خاندان یعقوب (کی برکتوں) کا بھی، اور پروردگار اسے ایسا کردیجیو کہ (تیرے اور تیرے بندوں کی نظر میں) پسندیدہ ہو۔ مريم
7 (اس پر حکم ہوا) اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی (پیدائش کی) خوشخبری دیتے ہیں۔ اس کا نام یحی رکھا جائے، اس سے پہلے ہم نے کسی کے لیے یہ نام نہیں ٹھہرایا ہے۔ مريم
8 زکریا نے (متعجب ہوکر) کہا پروردگار ! میرے یہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے، میری بیوی بانجھ ہوچکی ہے اور میرا بڑھایا دور تک پہنچ چکا۔ مريم
9 ارشاد ہوا ایسا ہی ہوگا، تیرا پروردگار فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے کچھ مشکل نہیں، میں نے اس سے پہلے خود ببھی تجھے پیدا کیا حالانکہ تیری ہستی کا نام و نشان نہ تھا۔ مريم
10 اس پر زکریا نے عرض کیا خدایا میرے لیے (اس بارے میں) ایک نشانی ٹھہرا دے، فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ تین رات لگاتار لوگوں سے بات نہ کر۔ مريم
11 پھر وہ قربان گاہ سے نکلا اور اپنے لوگوں میں آیا (جو حسب معمول اس کا انتظار کر رہے تھے) اس نے (زبان نہ کھولی) اشارہ سے کہا صبح شام خدا کی پاکی و جلال کی صدائیں بلند کرتے رہو۔ مريم
12 اے ٰیحی (خدا کا حکم ہوا، کیونکہ وہ خوشخبری کے مطابق پیدا ہوا اور بڑھا) کتاب الہی کے پیچھے مضبوطی کے ساتھ لگ جا۔ مريم
13 چنانچہ وہ ابھی لڑکا ہی تھا کہ ہم نے اسے علم و فضیلت بخش دی، نیز اپنے فضل خاص سے دل کی نرمی اور نفس کی پاکی عطا فرمائی۔ مريم
14 وہ پرہیزگار اور ماں باپ کا خدمت گزار تھا، سخت گیر اور نافرمان نہ تھا۔ مريم
15 اس پر سلام ہو (یعنی سلامتی ہو) جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرا اور جس دن پھر زندہ اٹھایا جائے گا۔ مريم
16 اور (اے پیغمبر) کتاب میں مریم کا معاملہ بیان کر، اس وقت کا معاملہ جب وہ ایک مکان میں کہ پورب کی طرف تھا اپنے گھر کے آدمیوں سے الگ ہوگئی۔ مريم
17 پھر اس نے ان لوگوں کی طرف سے پردہ کرلیا، پس ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا، اور وہ ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہوگیا۔ مريم
18 مریم اسے دیکھ کر (گھبرائی گئی، وہ) بولی اگر تو نیک آدمی ہے تو میں خدائے رحمن کے نام پر تجھ سے پناہ مانگتی ہوں۔ مريم
19 فرشتہ نے کہا میں تو تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں، اور اس لیے نمودار ہوا ہوں کہ تجھے ایک پاک فرزند دے دوں۔ مريم
20 مریم بولی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرے لڑکا ہو، حالانکہ کسی مرد نے مجھے چھوا نہیں اور نہ میں بدچلن ہوں؟ مريم
21 فرشتے نے کہا ہوگا ایسا ہی، تیرے پروردگار نے فرما دیا کہ یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں، وہ کہتا ہے یہ اس لیے ہوگا کہ اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دوں، اور میری رحمت کا اس میں ظہور ہو، اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہونا طے پاچکا۔ مريم
22 پھر اس ہونے والے فرزند کا حمل ٹھہر گیا، وہ (اپنی حالت چھپانے کے لیے) لوگوں سے الگ ہو کر دور چلی گئی۔ مريم
23 پھر اسے دردزہ (کا اضطراب) کھجور کے ایک درخت کے نیچے لے گیا (اس کے تنا کے سہارے بیٹھ گئی) اس نے کہا کاش میں اس سے پہلی مرچکی ہوگی، میری ہستی لوگ یک قلم بھول گئے ہوتے۔ مريم
24 اس وقت (ایک پکارنے والے فرشتہ) نے اسے نیچے سے پکارا (یعنی نخلستان کے نشیب سے پکارا) غمگین نہ ہو، تیرے پروردگار نے تیرے تلے ایک بڑی ہستی پیدا کردی ہے۔ مريم
25 تو کھجور کے درخت کا تنا پکڑ کے اپنی طرف ہلا، تازہ اور پکے ہوئے پھلوں کے خوشے تجھ پر گرنے لگیں گے۔ مريم
26 کھا پی (اپنے بچے کے نظارہ سے) آنکھیں ٹھنڈی کر (اور سارا غم و ہراس بھول جا) پھر اگر کوئی آدمی نظر آجائے (اور پوچھ گچھ کرنے لگے) تو (اشارہ سے) کہہ دے میں نے خدائے رحمان کے حضور روزہ کی منت مان رکھی ہے، میں آج کسی آدمی سے بات چیت نہیں کرسکتی۔ مريم
27 پھر ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کو ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس آئی، لڑکا اس کی گود میں تھا، لوگ (دیکھتے ہی) بول اٹھے مریم ! تو نے بڑی ہی عجیب بات کر دکھائی۔ مريم
28 اے ہارون کی بہن ! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا، نہ تیری ماں بدچلن تھی (یہ تو کیا کر بیٹھی) مريم
29 اس پر مریم نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا (کہ یہ تمہیں بتلا دے گا حقیقت کیا ہے) لوگوں نے کہا بھلا اس سے ہم کیا بات کریں جو ابھی گود میں بیٹھنے والا بچہ ہے۔ مريم
30 (مگر) لڑکا بول اٹھا میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا۔ مريم
31 اس نے مجھے بابرکت کیا، خواہ میں کسی جگہ ہوں، اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا کہ جب تک زندہ رہوں یہی میرا شعار ہو۔ مريم
32 اس نے مجھے اپنی ماں کا خدمت گزار بنایا۔ ایسا نہیں کیا کہ خود سر اور نافرمان ہوتا۔ مريم
33 مجھ پر اس کی طرف سے سلامتی کا پیام ہے جس دن پیدا ہوا، جس دن مروں گا اور جس دن (پھر) زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ مريم
34 یہ ہے مریم کے بیٹے عیسیٰ کی سرگزشت سچائی کی بات جس میں لوگ اختلاف کرنے لگے ہیں۔ مريم
35 اللہ کے لیے کبھی یہ بات نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ اس کے لیے پاکی ہو، (وہ کیوں مجبور ہونے لگا کہ کسی فانی ہستی کو اپنا بیٹا بنائے؟) اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو بس حکم کرتا ہے کہ ہوجا، اور اس کا حکم کرنا ہی ہوجاتا ہے۔ مريم
36 اور (مسیح کی تو ساری پکار یہ تھی) بلاشبہ اللہ ہی میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ بس اسی کی بندگی کرو، یہی (سچائی کا) سیدھا راستہ ہے۔ مريم
37 مگر پھر اس کے بعد مختلف فرقے آپس میں اکتلاف کرنے لگے، تو جن لوگوں نے حقیقت حال سے انکار کیا، ان کی حالت پر افسوس ! اس دن کے منظر پر افسوس جو (آنے والا ہے، اور جو) بڑا ہی سخت دن ہوگا۔ مريم
38 جس دن یہ ہمارے حضور حاضر ہوں گے، اس دن ان کے کان کیسے سننے والے اور ان کی آنکھیں کیسی دیکھنے والی ہوں گی، لیکن آج کے دن ان ظالموں کا کیا حال ہے؟ آشکارا گمراہی میں کھوئے ہوئے۔ مريم
39 اور (اے پیغمبر) انہیں اس (آنے الے) دن سے بھی خبردار کردے جو بڑا ہی پچھتانے کا دن ہوگا، اور جب ساری باتوں کا فیصلہ ہوجائے گا، اس وقت تو یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور (اس بات پر) یقین لانے والے نہیں۔ مريم
40 ہم ہی زمین کے (بالآخر) وارث ہوں گے، اور ان تمام لوگوں کے بھی جو زمین پر بسے ہوئے ہیں، اور ہماری ہی طرف سب کو لوٹ کر آنا ہے۔ مريم
41 اور (اے پیغمبر) الکتاب میں ابراہیم کا ذکر کر۔ یقینا وہ مجسم سچائی تھا اور اللہ کا نبی تھا۔ مريم
42 اس وقت کا ذکر جب اس نے اپنے باپ سے کہا، اے میرے باپ ! تو کیوں ایک ایسی چیز کی پوجا کرتا ہے جو نہ تو سنتی ہے، نہ دیکھتی ہے، نہ تیرے کسی کام آسکتی ہے۔ مريم
43 اے میرے باپ ! میں سچ کہتا ہوں، علم کی ایک روشنی مجھے مل گئی ہے، جو تجھے نہیں ملی، پس میرے پیچھے چل، میں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں گا۔ مريم
44 اے میرے باپ ! شیطان کی بندگی نہ کر، شیطان تو خدائے رحمان سے نافرمان ہوچکا۔ مريم
45 اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو خدائے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب تجھے آلگے اور تو شیطان کا ساتھی ہوجائے۔ مريم
46 باپ نے (یہ باتیں سن کر) کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ یاد رکھ اگر تو ایسی باتوں سے باز نہ اایا تو تجھے سنگ سار کر رکے چھوڑ دوں گا، اپنی خیر چاہتا ہے تو جان سلامت لے کر مجھ سے الگ ہوجا۔ مريم
47 ابراہیم نے کہا اچھا میرا سلام قبول ہو، (میں الگ ہوجاتا ہوں) اب میں اپنے پروردگار سے تیری بخشش کی دعا کروں، وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ مريم
48 میں نے تم سب کو چھوڑا اور انہیں بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارا کرتے ہو، میں اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں، امید ہے اپنے پروردگار کو پکار کے میں محروم ثابت نہیں ہوگا۔ مريم
49 پھر جب ابراہیم ان لوگوں سے اور ان سب جن کی اللہ کے سوا پوجا کرتے تھے الگ ہوگیا تو ہم نے (اس کی نسل میں برکت دی اور) اسے اسحاق اور (اسحاق کا بیٹا) یعقوب عطا فرمایا، ان میں سے ہر ایک کو ہم نے نبوت دی تھی مريم
50 اور اپنی رحمت کی بخشش سے سرفراز کیا تھا، نیز ان سب کے لیے سچائی کی صدائیں بلند کردیں (جو کبھی خاموش ہونے والی نہیں) مريم
51 اور (اے پیغمبر) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کر، بلاشبہ وہ ایک بندہ خاص اور فرستادہ نبی تھا۔ مريم
52 ہم نے اسے کوہ طور کی داہنی جانب سے پکارا اور (وحی کی) سرگوشیوں کے لیے اپنے سے قریب کیا۔ مريم
53 نیز اپنی رحمت سے (رفاقت و مددگار کے لیے) ہارون عطا فرمایا کہ اس کا بھائی تھا اور نبی تھا۔ مريم
54 اور (اے پیغمبر) الکتاب میں (یعنی قرآن میں) اسماعیل کا ذکر کر، بلاشبہ وہ اپنے قول کا سچا تھا اور (اللہ کا) فرستادہ نبی تھا۔ مريم
55 وہ اپنے گھر کے لوگوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا اور وہ (اپنی ساری باتوں میں) اپنے پروردگار کے حضور پسندیدہ تھا۔ مريم
56 اور (اے پیغمبر) کتاب میں ادریس کا بھی زکر کر، بلاشبہ وہ سچائی مجسم اور نبی تھا۔ مريم
57 اور ہم نے اسے بڑے ہی اونچے مقام تک پہنچا دیا تھا۔ مريم
58 یہ ہیں وہ لوگ جو ان نبیوں میں سے ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا، آدم کی نسل میں سے اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا، نیز ابراہیم اور اسرائیل (یعنی یعقوب) کی نسل سے اور ان گروہوں میں سے جنہیں ہم نے راہ راست دکھائی اور (کامرانیوں کے لیے) منتخب کرلیا، یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدائے رحمان کی آیتیں انہیں سنائی جاتی تھیں تو بے اختیار سجدے میں گرجاتے تھے اور ان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی تھیں۔ مريم
59 لیکن پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز (کی حقیقت) کھودی اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، سو قریب ہے کہ ان کی سرکشی ان کے آگے آئے۔ مريم
60 ہاں جو کوئی باز آگیا، ایمان لایا اور نیک عملی میں لگ گیا تو بلاشبہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی کھٹکا نہیں، وہ جنت میں داخل ہوں گے، ان کے حقوق میں ذرا بھی نا انصافی نہ ہوگی۔ مريم
61 ہمیشگی کی جنت، جس کا اپنے بندوں سے خدائے رحمان نے وعدہ کر رکھا ہے، اور وعدہ ایک غیبی بات کا ہے (جسے وہ اس زندگی میں محسوس نہیں کرسکتے، مگر) یقینا اس کا وعدہ ایسا ہے جیسے ایک بات وقوع میں آگئی۔ مريم
62 اس زندگی میں کوئی ناشائستہ بات ان کے کانوں میں نہیں پڑے گی، جو کچھ سنیں گے وہ سلماتی ہی کی صدا ہوگی، وہاں صبح و شام ان کا رزق ان کے لیے برابر مہیا رہے گا۔ مريم
63 سو (دیکھو) یہ جنت ہے جس کا ہم اسے وارث کردیتے ہیں جو ہمارے بندوں میں سے متقی ہوتا ہے۔ مريم
64 اور (فرشتے جنتی سے کہیں گے) ہم (تمہارے پاس) نہیں آتے مگر تمہارے پروردگار کے حکم سے، جو کچھ ہمارے سامنے ہے جو ہمارے پیچھے گزر چکا ہے اور جو کچھ ان دونوں وقتوں کے درمیان ہوا، سب اسی کے حکم سے ہے، اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ بھول جانے والا ہو۔ مريم
65 آسمان اور زمین کا پروردگار اور ان سب کا پروردگار جو آسمان و زمین میں ہیں۔ سو (اے پیغمبر) اسی کی بدنگی کر اور اس کی بندگی کی راہ میں جو کچھ پیش آئے جھیلتا رہ، کیا تیرے جانتے کوئی دوسرا بھی اس کا ہم نام ہے؟ (یعنی اس جیسا ہے؟) مريم
66 اور (حقیقت سے غافل) انسان کہتا ہے جب میں مرگیا تو پھر کیا ایسسا ہونے والا ہے کہ زندہ اٹھایا جاؤں؟ مريم
67 (افسوس اس پر) کیا انسان کو یہ بات یاد نہ رہی کہ ہم اسے پہلے پیدا کرچکے ہیں حالانکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟ مريم
68 سو (اے پیغمبر) تیرا پروردگار شاہد ہے کہ ہم ان سب کو اور ان کے ساتھ سارے شیطانوں کو ضرور اکٹھا کریں گے، پھر ان سب کو دوزخ کے گرد حاضر ہونے کا حکم دیں گے، زانواؤں پر کرے ہوئےْ مريم
69 پھر ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو (چن چن کر) الگ کرلیں گے جو (اپنی زندگی میں) خدائے رحمان سے بہت ہی سرکش تھے۔ مريم
70 اور پھر یہ بات بھی ہم ہی جاننے والے ہیں کہ کون دوزخ میں جانے کا زیادہ سزاوار ہے۔ مريم
71 اور (یاد رکھو) تم میں کوئی نہیں جو اس منزل سے گزرنے والا نہ ہو، ایسا کرنا تمہارے پروردگار نے ضروری ٹھہرا لیا، یہ ایک طے شدہ فیصلہ ہے۔ مريم
72 پھر ہم ایسا کریں گے کہ جو متقی ہیں انہیں نجات دے دیں، جو ظالم ہیں انہیں دوزخ میں چھوڑ دیں، گھٹنوں کے بل گرے ہوئے۔ْ مريم
73 اور (دیکھو) جب ہماری روشن آیتیں لوگوں کو سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ کفر میں پڑے ہیں وہ ایمان والوں سے کہتے ہیں یہ تو بتلاؤ ہم دونوں فریقوں میں کون ہے جو بہتر جگہ رکھتا ہے اور بہتر جمگھٹا ؟ مريم
74 حالانکہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے جو ان سے کہیں بہتر سازوسامان رکھتی تھیں اور ان سے کہیں بہتر ان کی نمود تھی۔ مريم
75 (اے پیغمبر) تو کہہ دے جو کوئی گمراہی میں پڑا تو خدائے رحمان کا قانون یہہی ہے کہ اسے برابر ڈھیل دیتا جاتا ہے، وہ اسی حال میں رہے گا، یہاں تک کہ اپنی آنکھوں سے وہ بات دیکھ لے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھاْ یعنی عذاب یا قیامت کی گھڑی تو اس وقت اسے پتہ چلے گا کون تھا جس کی جگہ سب سے زیادہ بدتر ہوئی اور جس کا جتھا سب سے زیادہ بودا نکلا۔ مريم
76 اور جن لوگوں نے راہ پالی تو وہ ان پر اور زیادہ راہ کھول دیتا ہے (یعنی ان کی فلاح و سعادت بڑھتی ہی جاتی ہے) اور تمہارے پروردگار کے حضور تو باقی رہنے والی نیکیاں ہی بہتر ہیں۔ ثواب کے اعتبار سے بھی اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی۔ مريم
77 (اے پیغمبر) تو نے دیکھا اس آدمی کا کیا حال ہے جس نے ہماری آیتوں سے انکار کیا اور کہا خدا کی قسم ! میں ضرور مال و دولت پاؤں گا میں ضرور صاحب اولاد ہوں گا۔ مريم
78 وہ جو ایسا کہتا ہے تو کیا اس نے غیب کو جھانک کے دیکھ لیا ہے؟ یا خدا سے کوئی عہد لے لیا ہے کہ اسے ایسا کرنا ہی پڑے گا؟ مريم
79 ہرگز نہیں (ایسا کبھی نہیں ہوسکتا) اچھا وہ جو کچھ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے (یعنی اس کی یہ بات بھلائی نہیں جائے گی۔ اس کے آگے آئے گی) اور اس کے عذاب کی رسی لمبی کرتے جائیں گے۔ مريم
80 یہ جس مال و اولاد کا دعوی کرتا ہے (اگر اسے میسر بھی آجائے تو بالآخر) ہمارے ہی قبضہ میں آئے گا اور اسے تو ہمارے سامنے تن تنہا حاضر ہونا ہے۔ مريم
81 اور ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنا لیا ہے کہ ان کے مددگار ہوں۔ مريم
82 لیکن ہرگز ایسا ہونے والا نہیں وہ (قیامت کے دن) ان کی بندگی سے صاف انکار کرجائیں گے وہ الٹے ان کے مخالف ہوں گے۔ مريم
83 (اے پیغمبر) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے، وہ انہیں برابر اکساتے رہتے ہیں؟ مريم
84 پس تو ان کے بارے میں جلدی نہ کر، (فیصلہ امر میں جو دیر ہو رہی ہے تو) یہ صرف اس لیے ہے کہ ہم ان کے دن گن رہے ہیں، (قریب ہے کہ مقررہ وقت ظہور میں آجائے) مريم
85 وہ دن کہ متقی انسانوں کو اپنے حضور مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔ مريم
86 اور مجرموں کو دوزخ کی طرف پیاسے جانوروں کی طرح ہنکائیں گے۔ مريم
87 اس دن شفاعت کرنا کرانا کسی کے اختیار میں نہ ہوگا، ہاں جس کسی نے خدا کے حضور سے وعدہ پا لیا (تو وہ وعدہ ضرور اس کے کام آئے گا) مريم
88 اور ان لوگوں نے (یعنی عیسائیوں نے) کہا خدائے رحمان نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ مريم
89 بڑی ہی سخت بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو۔ مريم
90 قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین کا سینہ چاک ہوجائے، پہاڑ جنبش میں آکر گر پڑیں۔ مريم
91 کہ لوگ اللہ کے لیے بیٹا ہونے کا دعوی کررہے ہیں۔ مريم
92 اللہ کی یہ شان کب ہوسکتی ہے کہ اپنے لیے ایک بیٹا بنائے۔ مريم
93 آسمان اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ اسی لیے ہے کہ اس کے آگے بندگی کا سر جھکائے حاضر ہو۔ مريم
94 اس نے (اپنی قدرت سے) انہیں گھیر رکھا ہے اور (اپنے علم سے) ایک ایک کی ہستی گن رکھی ہے۔ مريم
95 قیامت کے دن سب اس کے حضور تن تنہا آکر کھڑے ہوں گے (کوئی ان کا ساتھی اور مددگار نہ ہوگا ) مريم
96 (اے پیغمبر) جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک عملوں میں لگ گئے ہیں یہ یقینی ہے کہ خدائے رحمان ان کے لیے (دلوں میں) محبت پیدا کردے (یعنی لوگ ان کی طرف کھینچیں گے اور انہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھیں گے) مريم
97 اسی غرض سے ہم نے قرآن تیری زبان (عربی) میں اتار کر آسان کردیا کہ متقی انسانوں کو (کامیابی کی) خوشخبری دے دے اور جو گروہ سچائی کے مقابلہ میں ہٹ کرنے والا اور اڑ جانے والا ہے اسے (انکار و سرکشی کے نتیجہ سے) خبردار کردے۔ مريم
98 ان (سرکشوں) سے پہلے قوموں کے کتنے ہی دور گزر چکے ہیں جنہیں ہم نے (پاداش بدعملی میں) ہلاک کردیا، کیا ان میں سے کسی کی ہستی بھی اب تم محسوس کرتے ہو؟ کیا ان کی بھنک ببھی سنائی دیتی ہے؟ مريم
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے طه
1 طٰہٰ (یعنی اے شخص مخاطب) طه
2 ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ رنج و محنت میں پڑ طه
3 وہ تو اس لیے نازل ہوا ہے کہ جو دل (انکار و بدعملی کے نتائج سے) ڈرنے والا ہے، اس کے لیے نصیحت ہو (جو ڈرنے والے نہیں وہ کبھی اس کی صداؤں پر کان نہیں دھریں گے) طه
4 یہ اس ہستی کا اتارا ہوا ہے جس نے زمین پیدا کی اور بلندی کے آسمان۔ طه
5 الرحمان کہ (جہانداری کے) تخت پر متمکن ہے۔ طه
6 جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور جو کچھ مٹی کے نیچے ہے (یعنی زمین کے نیچے ہے) سب اسی کا ہے اور اسی کے لیے ہے۔ طه
7 اور اگر تم پکار کے بات کہو (تو اس کی سماعت اس کی محتاج نہیں) کیونکہ وہ بھیدوں کا جاننے والا ہے، زیادہ سے زیادہ چھپے بھیدوں کو بھی۔ طه
8 وہی اللہ ہے کوئی معبود نہیں مگر صرف وہی اس کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں۔ طه
9 اور (اے پیغمبر) کیا موسیٰ کی حکایت تو نے سنی؟ طه
10 جب اس نے (دور سے) آگ دیکھی تو اپنے گھر کے لوگوں سے کہا، ٹھہرو، مجھے آگا دکھائی دی ہے، میں جاتا ہوں ممکن ہے تمہارے لیے ایک انگارا لے آؤں یا (کم از کم) الاؤ پر کوئی راہ دکھانے والا ہی مل جائے۔ طه
11 پھر جب وہ وہاں پہنچا تو اس وقت پکارا گیا (ایک آواز اٹھی کہ) اے موسی۔ طه
12 میں ہوں تیرا پروردگار ! پس اپنی جوتی اتار دے تو طوی کی مقدس وادی میں کھڑا ہے، اور دیکھ۔ طه
13 میں نے تجھے (اپنی رسالت کے لیے) چن لیا ہے، پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اسے کان لگا کر سن۔ طه
14 میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی بندگی کر اور میری ہی یاد کے لیے نماز قائم کر۔ طه
15 بلاشبہ (مقررہ) وقت آنے والا ہے، میں اسے پوشیدہ رکھنے کو ہوں، تاکہ (لوگوں کے یقین و عمل کی آزمائش ہوجائے اور) جس شخص کی جیسی کچھ کوشش ہو اسی کے مطابق بدلہ پائے۔ طه
16 پس دیکھ ایسا نہ ہو کہ جو لوگ اس وقت کے ظہور پر یقین نہ رکھتے ہوں اور اپنی خواہش کے بندے ہوں وہ تجھے بھی (قدم بڑھانے سے) روک دیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ تو تباہ ہوجائے۔ طه
17 اور (صدائے غیبی نے پوچھا) اے موسیٰ ! تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے ؟ طه
18 عرض کیا میری لاٹھی ہے، چلنے میں اس کا سہارا لیتا ہوں، اسی سے اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑ لیتا ہوں میرے لیے اس میں اور بھی طرح طرح کے فائدے ہیں۔ طه
19 حکم ہوا اے موسیٰ ! اسے ڈال دے۔ طه
20 موسی نے ڈال دیا اور کیا دیکھتا ہے ایک سانپ ہے جو دوڑ رہا ہے، طه
21 حکم ہوا اسے اب پکڑ لے، خوف نہ کھا، ہم اسے پھر اس کی اصلی حالت پر کیے دیتے ہیں۔ طه
22 اور (نیز حکم ہوا) اپنا ہاتھ اپنے پہلو میں رکھ اور پھر نکال، بغیر اس کے کہ کسی طرح کا عیب ہو، چمکتا ہوا نکلے گا۔ یہ (تیرے لیے) دوسری نشانی ہوئی۔ طه
23 (اور یہ دنوں نشانیاں) اس لیے (دی گئی ہیں) کہ آئندہ تجھے اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ طه
24 (نیز حکم ہوا) اے موسیٰ ! تو فرعون (یعنی بادشاہ مصر) کی طرف جا، وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے۔ طه
25 موسی نے عرض کیا اے پروردگار ! میرا سینہ کھول دے (کہ بڑے سے بڑا بوجھ اٹھانے کے لیے مستعد ہوجاؤں) طه
26 میرا کام میرے لیے آسان کردے (کہ راہ کی کوئی دشواری بھی غالب نہ آسکے) طه
27 میری زبان کی گرہ کھول دے کہ (خطاب و کلام میں پوری طرح رواں ہوجائے۔ طه
28 اور میری بات لوگوں کے دلوں میں اتر جائے۔ طه
29 نیز میرے گھر والوں میں سے میرا وزیر بنا دے۔ طه
30 میرے بھائی ہارون کو۔ طه
31 اس کی وجہ سے میری قوت مضبوط ہوجائے۔ طه
32 وہ میرے کام میں میرا شریک ہو طه
33 ہم (دونوں یک دل ہوکر) تیری پاکی اور بڑائی کا بکثرت اعلان کریں۔ طه
34 تیری یاد میں زیادہ سے زیادہ لگے رہیں۔ طه
35 اور بلاشبہ تو ہمارا حال دیکھ رہا ہے (ہم سے کسی حال میں غافل نہیں) طه
36 ارشاد ہوا اے موسیٰ ! تیری درخواست منظور ہوئی۔ طه
37 اور (تجھے معلوم ہے) ہم تجھے پر پہلے بھی ایک مرتبہ کیسا احسان کرچکے ہیں؟ طه
38 ہم تجھے بتاتے ہیں اس وقت کیا ہوا تھا جب ہم نے تیری ماں کے دل میں بات ڈال دی تھی۔ طه
39 ہم نے اسے سجھا دیا تھا کہ بچے کو ایک صندوق میں ڈال دے، اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے، دریا اسے کنارے پر دھکیل دے گا، پھر اسے وہ اٹھا لے گا جو میرا (یعنی میری قوم کا) دشمن ہے، نیز اس بچہ کا بھی دشمن اور (اے موسی) ہم نے اپنے فضل خاص سے تجھ پر محبت کا سایہ ڈال دیا تھا (کہ اجنبی بھی تجھ سے محبت کرنے لگے) اور یہ اس لیے تھا کہ ہم چاہتے تھے تو ہماری نگرانی میں پرورش پائے۔ طه
40 تیری بہن جب وہاں سے گزری تو (یہ ہماری ہی کا فرمائی تھی کہ) اس نے (فرعون کی لڑکی سے) کہا : میں تمہیں ایسی عورت بتلا دوں جو اسے پالے پوسے؟ اور اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کی گود میں لوٹا دیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور (بچے کی جدائی سے) غمگین نہ ہو، پھر دیکھ ایسا ہوا کہ تو نے (مصر میں) ایک آدمی مار ڈالا، ہم نے تجھے اس معاملہ کے غم سے نجات دی اور تجھے ہر طرح کی حالتوں میں ڈال کر آزمایا پھر تو کئی برس تک مدین کے لوگوں میں رہا۔ بالآخر (وہ وقت آگیا کہ اے موسیٰ تو (مقررہ) اندازہ پر پورا اتر آیا۔ طه
41 اور (دیکھ اس طرح) میں نے تجھے اپنے لیے (یعنی اپنے خاص کام کے لیے) بنایا اور تیار کیا ہے۔ طه
42 اب تو اور تیرا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جائیں اور میری یاد میں کوتاہی نہ کریں۔ طه
43 ہاں تم دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون) کیونکہ اب دونوں اکٹھے ہوگئے تھے اور مصر کے قریب وحی الہی نے انہیں دوبارہ مخاطب کیا تھا) فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکشی میں بہت بڑھ چلا ہے۔ طه
44 پھر جب اس کے پاس پہنچو تو (سختی کے ساتھ پیش نہ آنا) نرمی سے بات کرنا (تمہیں کیا معلوم؟) ہوسکتا ہے نصیحت پکڑ لے یا (عواقب سے) ڈر جائے۔ طه
45 دونوں نے عرض کیا پروردگار ہمیں اندیشہ ہے فرعون ہماری مخالفت میں جلدی نہ کرے یا سرکشی سے پیش آئے۔ طه
46 ارشاد ہوا کچھ اندیشہ نہ کرو، میں تمہارے ساتھ ہوں، میں سب کچھ سنتا ہوں، سب کچھ دیکھتا ہوں۔ طه
47 تم اس کے پاس (بے دھڑک) جاؤ اور کہو : ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ رخصت کردے اور ان پر سختی نہ کر، ہم تیرے پروردگار کی نشانی لے کر تیرے سامنے آگئے، اس پر سلامتی ہو جو سیدھی راہ اختیار کرے۔ طه
48 جو کوئی جھٹلائے اور سرتابی کرے تو ہم پر وحی اتر چکی اس کے لیے عذاب کا پیام ہے۔ طه
49 (چنانچہ وہ گئے اور) فرعون نے پوچھا اگر ایسا ہی ہے تو بتلاؤ تمہارا پروردگار کون ہے اے موسی؟ طه
50 موسی نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی، پھر اس پر (زندگی و عمل کی) راہ کھول دی۔ طه
51 فرعون نے کہا پھر ان کا کیا حال ہونا ہے۔ جو پچھلے زمانوں میں گزر چکے ہیں؟ (یعنی انہین تو تمہارے اس پروردگار کی خبر بھی نہ تھی) طه
52 موسی نے کہا اس بات کا علم میرے پروردگار کے پاس نوشتہ میں ہے، میرا پروردگار ایسا نہیں کہ کھویا جائے یا بھول میں پڑجائے۔ طه
53 وہ پروردگار جس نے تمہارے لیے زمین بچھونے کی طرح بچھا دی نقل و حرکت کے لیے اس میں راہیں نکال دیں آسمان سے پانی برسایا، اس کی آب پاشی سے ہر طرح کی نباتات کے جوڑے پیدا کردیے۔ طه
54 خود بھ کھاؤ اور اپنے مویشی بھی چراؤ اس بات میں عقل والوں کے لیے کیسی کھلی نشانیاں ہیں؟ طه
55 اس نے اسی زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹاتا ہے اور پھر اسی سے دوسری مرتبہ اٹھائے جاؤ گے۔ طه
56 اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے فرعون کو اپنی ساری نشانیاں دکھائیں مگر اس پر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔ طه
57 اس نے کہا اے موسیٰ ! کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال باہر کردے؟ طه
58 اچھا ہم بھی اسی طرح کے جادو کا کرتب تجھے لا دکھائیں گے۔ ہمارے اور اپنے درمیان ایک دن (مقابلہ کا) مقرر کردے، نہ تو ہم اس سے پھریں نہ تو دونوں کی جگہ برابر ہوئی۔ طه
59 موسی نے کہا جشن کا دن تمہارے لیے مقرر ہوا، دن چڑھے لوگ اکٹھے ہوجائیں۔ طه
60 پھر فرعون نے ان سے رخ پھیرا، اپنے تمام داؤ جمع کیے پھر (وقت مقررہ پر مقابلہ کے لیے) نمودار ہوا۔ طه
61 موی نے (میدان کی بھیڑ کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا : افسوس تم پر (تم کیا کر رہے ہو) دیکھو اللہ پر جھوٹی تہمت نہ لگاؤ، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی عذاب بھیج کر تمہاری جڑ کھاڑ دے، جس کسی نے جھوٹ بات بنائی وہ ضرور نامراد ہوا۔ طه
62 (یہ سن کر) لوگ آپس میں ردوکد کرنے لگے اور پوشیدہ سرگوشیاں شروع ہوگئیں۔ طه
63 پھر (درباری) بولے یہ دونوں بھائی ضرور جادوگر ہیں، یہ چاہتے ہیں اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور پھر تمہاری شرف و عظمت کے مالک ہوجائیں۔ طه
64 پس اپنے سارے داؤ جمع کرو، اور پرا باندھ کر ڈٹ جاؤ، جو آج بازی لے گیا، وہی کامیاب ہوگا۔ طه
65 جادوگروں نے کہا اے موسیٰ ! یا تو تم پہلے اپنی لاٹھی پھینکو یا پھر ہماری ہی طرف سے پہل ہو۔ طه
66 موسی نے کہا نہیں تم ہی پہلے پھینکو، چنانچہ (انہوں نے اپنا کرتب دکھایا اور) اچانک موسیٰ کو ان کے جادو کی وجہ سے ایسا دکھائی دیا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں (سانپ کی طرح) دوڑ رہی ہیں۔ طه
67 موسی نے اپنے اندر ہراس محسوس کیا (کہ اس منظر سے لوگ متاثر نہ ہوجائیں) طه
68 ہم نے کہا اندیشہ نہ کر، تو ہی غالب رہے گا۔ طه
69 تیرے داہنے ہاتھ میں جو لاٹھی ہے فورا پھینک دے، وہ جادوگروں کی تمام بناوٹیں نگل جائے گی۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے محض جادوگروں کا فریب ہے، اور جادوگر کسی راہ سے آئے کبھی کامیابی نہیں پاسکتا۔ طه
70 چنانچہ (ایسا ہی نتیجہ نکلا) تمام جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور پکارے، ہم ہارون اور موسیٰ کے خدا پر ایمان لائے۔ طه
71 فرعون نے کہا تم بغیر میرے حکم کے موسیٰ پر ایمان لے آئے؟ ضرور یہ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، اچھا دیکھو میں کیا کرتا ہوں، میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹواؤں گا اور کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا، پھر تمہیں پتہ چلے گا ہم دونوں میں کون سخت عذاب دینے والا ہے اور کس کا عذاب دیرپا ہے۔ طه
72 انہوں نے کہا ہم یہ کبھی نہیں کرسکتے کہ (سچائی کی) جو روشن دلیلیں ہمارے سامنے آگئی ہیں اور جس خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے اس سے منہ موڑ کر تیرا حکم مان لیں، تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کر گزر، تو زیادہ سے زیادہ جو کرسکتا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کی اس زندگی کا فیصلہ کردے (اس سے زیادہ تیرے اختیار میں کچھ نہیں) طه
73 ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لاچکے کہ ہماری خطائیں بخش دے، خصوصا جادوگری کی خطا جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا۔ (ہمارے لیے) اللہ ہی بہتر ہے، اور وہی باقی رہنے و الا ہے۔ طه
74 کچھ شک نہیں جو شخص اپنے پروردگار کے حضور مجرم ہو کر حاضر ہوگا تو یقینا اس کے لیے دوزخ ہوگی نہ تو اس میں مرے گا، نہ زندہ رہے گا (دونوں حالتوں کے درمیان سسکتا رہے گا) طه
75 اور جو کوئی اس کے حضور مومن ہو کر حاضر ہوگا اور اس کے کام بھی اچھے رہے ہوں گے تو یقینا ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑے بڑے درجے ہوں گے۔ طه
76 ہمیشگی کے گلزار جن کے تلے نہریں رواں ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے، یہ ہے اس کا بدلہ جو (زندگی میں) ہر طرحح کی آلودگیوں سے) پاک رہا۔ طه
77 اور (پھر دیکھو) ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی تھی کہ (اب) میرے بندوں کو راتوں رات (مصر سے) نکال لے جا، پھر سمندر میں ان کے گزرنے کے لیے خشکی کی راہ نکال لے، نہ تو تعاقب کرنے والوں سے اندیشہ ہوگا نہ اور کسی طرح کا خطرہ۔ طه
78 پھر (جب موسیٰ اپنی قوم کو لے کر نکل گیا تو) فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کیا، پس پانی کا ریلا جیسا کچھ ان پر چھانے والا تھا چھا گیا (یعنی جو کچھ ان پر گزرنی تھی گزر گئی) طه
79 اور فرعونن نے اپنی قوم پر راہ (نجات) گم کردی، انہیں سیدھی راہ نہیں دکھائی۔ طه
80 اے بنی اسرائیل ! میں نے تمہارے دشمن سے تمہیں نجات بخشی، تم سے (برکتوں اور کامرانیوں) کا وعدہ کیا جو کوہ طور کے داہنی جانب ظہور میں آیا تھا، تمہارے لیے (صحرائے سینا میں ) من اور سلوی مہیا کردیا۔ طه
81 تمہیں کہا گیا یہ پاک غذا مہیا کردی گئی ہے، شوق سے کھاؤ مگر اس بارے میں سرکشی نہ کرو، کرو گے تو میرا غضب نازل ہوجائے گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا تو بس وہ (ہلاکت میں) گرا۔ طه
82 اور (میں نے کہا) جو کوئی توبہ کرے، ایمان لائے، نیک عمل ہو، تو میں یقینا اس کے لیے بڑا ہی بخشنے والا ہوں۔ طه
83 اور (جب موسیٰ طور پر حاضر ہوا تو ہم نے پوچھا) اے موسیٰ کس بات نے تجھے جلدی پر ابھارا اور تو قوم کو پیچھے چھوڑ کر چلا آیا؟ طه
84 موسی نے عرض کیا وہ مجھ سے دور نہیں، میرے نقش قدم پر ہیں، اور اے پروردگار ! میں نے تیرے حضور آنے میں جلدی کی کہ تو خوش ہو۔ طه
85 فرمایا مگر ہم نے تیرے پیچھھے تیری قوم کی (استقامت کی) آزمائش کی اور سامری نے اسے گمراہ کردیا ہے۔ طه
86 پس موسیٰ خشم ناک اور افسوس کرتا ہوا قوم کی طرف لوٹا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! (یہ تم نے کیا کیا) کیا تم سے تمہارے پروردگار نے ایک بڑی بھلائی کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ پھر کیا ایسا ہوا کہ تم پر بڑی مدت گزر گئی (اور تم اسے یاد نہ رکھ سکے؟) یا یہ بات ہے کہ تم نے چاہا تمہارے پروردگار کا غضب تم پر نازل ہو اور اس لیے تم نے مجھ سے ٹھہرائی ہوئی بات توڑ ڈالی؟ طه
87 انہوں نے کہا ہم نے خود اپنی خواہش سے عہد شکنی نہیں کی بلکہ (ایک دوسرا ہی معاملہ پیش آیا، مصری) قوم کی زیب و زینت کی چیزوں کا ہم پو بوجھ پڑا تھا (یعنی بھاری بھاری زیوروں کا جو مصر میں پہنے جاتے تھے، ہم اس بوجھ کے رکھنے کے خواہشمند نہ تھے) وہ ہم نے پھینک دیا (بس ہمارا اتنا ہی قصور ہے) چنانچہ اس طرح (جب سونا فراہم ہوگیا تو) سامری نے اسے (آگ میں) ڈالا۔ طه
88 اور ان کے لیے ایک (سنہرا) بچھڑا (بنا کر) نکال لایا، محض ایک بے جان دھڑ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی لوگ یہ دیکھ کر بول اٹھے : یہ ہے ہمارا معبود اور موسیٰ کا بھی مگر وہ بھول میں پڑگیا۔ طه
89 (افسوس ان کی سمجھ پر) کیا انہیں یہ (موٹی سی) بات بھی دکھائی نہ دی کہ بچھڑا (آواز تو نکالتا ہے مگر) ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ انہیں فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان؟ طه
90 اور ہارون نے اس سے پہلے انہیں (صاف صاف) جتا دیا تھا، بھائیو ! یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمہاری (استقامت کی) آزمائش ہورہی ہے، تمہارا پروردگار تو خدائے رحمان ہے، دیکھو ! میری پیروی کرو اور میرے کہے سے باہر نہ ہو۔ طه
91 مگر انہوں نے جواب دیا تھھا جب تک موسیٰ ہمارے پاس واپس نہ آجائے ہم اس کی پرستش پر جمے ہی رہیں گے۔ طه
92 (بہرحال) موسیٰ نے (اب ہارون سے) کہا اے ہارون ! جب تو نے دیکھا یہ لوگ گمراہ ہوگئے ہیں تو کیا بات ہوئی کہ انہیں روکا نہیں؟ طه
93 کیا تو نے پسند کیا کہ میرے حکم سے باہر ہوجائے؟ طه
94 ہارون بولا اے میرے عزیز بھائی ! میری ڈاڑھی اور سر کے بال نہ نوچ ( میں نے اگر سکتی میں کمی کی تو صرف اس خیال سے کہ) میں ڈرا کہیں تم یہ نہ کہو تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کی راہ نہ دیکھی۔ طه
95 تب موسیٰ نے (سامری سے) کہا سامری ! یہ تیرا کیا حال ہوا؟ طه
96 کہا میں نے وہ بات دیکھ لی تھی جو اوروں نے نہیں دیکھی، اس لیے (اللہ کے) رسول کی پیروی میں میں نے بھی کچھ حصہ لیا تھا، پھر چھوڑ دیا (کیا کہوں) میرے جی نے ایسی ہی بات مجھے سجھائی۔ طه
97 موسی نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر جا، زندگی میں تیری لیے یہ ہونا ہے کہ کہے، میں اچھوت ہوں اور (آخرت میں عذاب کا) ایک وعدہ ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں، اور دیکھ تیرے (گھڑے ہوئے) معبود کا اب کیا حال ہوتا ہے جس کی پوجا پر جم کر بیٹھ رہا تھا۔ ہم اسے جلا کر راکھ کردیں گے اور راکھ سمندر میں اڑا کر بہادیں گے۔ طه
98 معبود تو تمہارا بس اللہ ہی ہے، اس کے سواو کوئی نہیں، وہی ہے جو ہر چیز پر اپنے علم سے چھایا ہوا ہے۔ طه
99 (اے پیغمبر) اس طرح ہم گزری ہوئی سرگزشتوں میں سے (خاص خاص واقعات کی) خبریں تجھے سناتے ہیں۔ اور بلاشبہ ہم نے اپنے پاس سے تجھے ایک سرمایہ نصیحت عطا فرما دیا ہے (یعنی قرآن) طه
100 تو جس کسی نے اس سے رخ پھیرا، یقینا وہ قیامت کے دن ایک (بہت بڑے جرم کا) بوجھ اٹھائے ہوگا۔ طه
101 اور ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا، کیا ہی برا بوجھ ہے جو یہ قیامت کے دن اپنے اوپر لاد رہے ہوں گے۔ طه
102 وہ دن کہ نر سنگھا پھونکا جائے گا ہم مجرموں کو جمع کریں گے اور ان کی آنکھیں مارے دہشت کے بے نور ہوں گی۔ طه
103 وہ آپس میں چپکے چپکے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے ہم (اس حالت میں یعنی پہلی اور دوسری زندگی کی درمیانی حالت میں) ہفتہ عشرہ سے زیادہ کیا رہے ہوں گے؟ طه
104 یہ (اس دن) جیسی جیسی باتیں کریں گے ہم اس سے بے خبر نہیں، ان میں جو سب سے بہتر سراغ پر ہوگا وہ بول اٹھے گا، نہیں ہم بہت رہے ہوں گے تو بس ایک دن (اس سے زیادہ یہ مدت نہیں ہوسکتی) طه
105 اور یہ پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ ان کا حال کیا ہوگا) تو کہہ دے میرا پروردگار (ریزہ ریزہ کر کے) بالکل اڑا دے گا۔ طه
106 پھر انہیں ایسا کردے گا جیسے صاف ہموار میدان ہوجائے۔ طه
107 کہیں تم کجی نہ پاؤ اور نہ اونچ نیچ طه
108 اس دن سب پکارنے والے کے پیچھے ہولیں گے اس سے منحرف نہ ہوسکیں گے، اور خدائے رحمان کے جلال کے آگے سب کی آوازیں خاموش ہوجائیں گی، اس سناٹے میں کوئی آواز سنائی نہیں دے گی مگر صرف قدموں کی آہٹ۔ طه
109 اس دن سفارشیں کچھ کام نہ دیں گی، مگر ہاں جس کو خدائے رحمان اجازت دے اور اس کا زبان کھولنا پسند فرمائے۔ طه
110 جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے گزر چکا سب کا وہ علم رکھتا ہے، مگر انسان اپنے علم سے اس پر چھا نہیں سکتا۔ طه
111 اس حی و قیوم کے آگے سب کے سر جھک گئے، جس نے ظلم کا بوجھ لاد لیا تھا، دیکھو وہ نامراد ہوا۔ طه
112 اور (ہاں) جس کے عمل اچھے ہوئے اور وہ مومن بھی ہے تو اس کے لیے کوئی اندیشہ نہ ہوگا، نہ تو ناانصافی ہوگی نہ حق تلفی۔ طه
113 اور (دیکھو) اسی طرح یہ بات ہوئی کہ ہم نے اس (سرمایہ نصیحت) کو قرآن عربی کی شکل میں اتارا اور مختلف طریقوں سے اس میں (انکار و بدعلمی کی) پاداش کی خبر دے دی تاکہ لوگ (گمراہی سے) بچیں، یا پھر ایسا ہو کہ نصیحت پذیری کی روشنی ان میں نمودار ہوجائے۔ طه
114 پس ہر طرح کی بلندی اللہ ہی کے لیے ہے وہی جہاندار حقیقی ہے اور (اے پیغمبر) جب تک قرآن کی وحی تجھ پر پوری نہ ہوجائے تو اس میں جلدی نہ کر، تیری پکار یہ ہو کہ پروردگار میرا علم اور زیادہ کر۔ طه
115 اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے آدم کو پہلے سے جتا کر عہد لے لیا تھا، پھر وہ بھول گیا اور ہم نے (نافرمانی کا) قصد اس میں نہیں پایا تھا۔ طه
116 اور (پھر) وہ معاملہ یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا آدم کے آگے جھک جاؤ، سب جھک گئے تھے مگر ابلیس نہیں جھکا اس نے انکار کیا۔ طه
117 اس پر ہم نے کہا اے آدم ! (دیکھ لے) یہ (ابلیس) تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے ایسا نہ ہو یہ تمہیں جنت سے نکال کے رہے اور تم محنت میں پڑجاؤ۔ طه
118 تمہارے لیے اب ایسی زندگی ہے کہ نہ تو اس میں بھوکے رہتے ہو نہ برہنہ۔ طه
119 نہ تمہارے لیے پیاس کی جلن ہے نہ سورج کی تپش (اگر اس سے نکلے تو سرتاسر محنت میں مبتلا ہوجاؤ گے) طه
120 لیکن پھر شیطان نے آدم کو وسوسہ میں ڈالا، اس نے کہا اے آدم ! میں تجھے ہمیشگی کے درخت کا نشان دے دوں؟ اور ایسی پادشاہی کا جو کبھی زائل نہ ہو؟ طه
121 چنانچہ دونوں نے (یعنی آدمی اور اس کی بیوی نے) اس درخت کا پھل کھالیا اور دونوں کے ستر ان پر کھل گئے، تب ان کی حالت ایسی ہوگئی کہ باغ کے پتے توڑنے لگے اور ان سے اپنا جسم ڈھانکنے لگے، غرض کہ آدم اپنے پروردگار کے کہنے پر نہ چلا، پس وہ (جنت کی زندگی سے) بے راہ ہوگیا۔ طه
122 (لیکن) پھر اس کے پروردگار نے اسے برگزیدہ کیا، اس پر (اپنی رحمتوں سے) لوٹ آیا، اس پر (زندگی و عمل کی) راہ کھول دی۔ طه
123 (چنانچہ) اللہ نے حکم دیا تھا تم دونوں اکٹھے یہاں سے نکل چلو، تم میں سے ایک دوسرے کا دشمن ہوا (اب تم پر ایک دوسری زندگی کی راہ کھلے گی) پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس (یعنی تمہاری نسل کے پاس) کوئی پیام ہدایت آیا تو (اس بارے میں میرا قانون یاد رکھو) جو کوئی میری ہدایت پر چلے گا وہ نہ تو راہ سے بے راہ ہوگا، نہ دکھ میں پڑے گا۔ طه
124 اور جو کوئی میری یاد سے روگرداں ہوگا تو اس کی زندگی ضیق میں گزرے گی اور قیامت کے دن بھی میں اسے اندھا اٹھاؤں گا۔ طه
125 وہ کہے گا پروردگار ! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ میں تو اچھا خاصا دیکھنے والا تھا۔ طه
126 ارشاد ہوگا ہاں اسی طرح ہونا تھا، ہماری نشانیاں تیرے سامنے آئیں مگر تو نے انہیں بھلا دیا سو اسی طرح آج تو بھی بھلا دیا گیا ہے۔ طه
127 اور (دیکھو) جو کوئی (سرکشی میں) بڑھ نکلتا ہے اور اپنے پروردگار کی نشانیوں پر یقین نہیں کرتا تو اس طرح ہم اسے (اس کی حالت کا) بدلہ دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو بہت زیادہ سخت ہے، بہت دیر تک رہنے والا ہے۔ طه
128 کیا ان لوگوں کو اس بات سے بھی ہدایت نہ ملی کہ ان سے پہلے قوموں کے کتنے ہی دور گزر چکے ہیں جنہیں ہم (پاداش جرائم میں) ہلاک کرچکے؟ یہ ان کی بستیوں میں چلتے پھرتے ہیں (ان کے آثار ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں) جو لوگ دانشمند ہیں ان کے لیے اسی ایک بات میں (تذکیر و عبرت کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں۔ طه
129 اور (اے پیغمبر) اگر ایسا نہ ہوتا کہ پہلے سے تیرے پروردگار نے (اس بارے میں) ایک بات ٹھہرا دی ہوتی (یعنی ایک قانون ٹھہرا دیا ہوتا) تو اسی گھڑی ان پر (جرم کا) الزام لگ جاتا اور مقررہ وقت نمودار ہوجاتا۔ طه
130 پس چاہیے کہ ان کی ساری باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کی پکار میں لگا رہ، صبح کو سورج نکلنے سے پہلے، شام کو ڈوبنے سے پہلے، رات کی گھڑیوں میں بھی، اور دوپہر کے لگ بھگ بھی، بہت ممکن ہے کہ تو بہت جلد (ظہور نتائج سے) خوشنود ہوجائے۔ طه
131 اور یہ جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیوی زندگی کی آرائشیں دے رکھی ہیں اور ان سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں تو تیری نگاہیں اس پر نہ جمیں (یعنی یہ بات تیری نگاہ میں نہ جچے) یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالا ہے اور جو کچھ تیرے پروردگار کی بخشی ہوئی روزی ہے وہی (تیرے لیے) بہتر ہے اور (باعتبار نتیجہ کے) باقی رہنے والی۔ طه
132 اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کا حکم دے اور اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جا، ہم تجھ سے روزی کا سوال نہیں رکھتے، تو ہم سے سائل ہے، ہم بخشنے والے ہیں، اور انجام کار تقوی ہی کے ہاتھ ہے۔ طه
133 اور ان لوگوں نے کہا کیوں یہ اپنے پروردگار کی کوئی نشانی اپنے ساتھ نہیں لایا؟ لیکن کیا ان تک وہ روشن دلیلیں نہیں پہنچ چکیں جو اگلی کتابوں میں موجود ہیں؟ طه
134 اور اگر ہما نہیں اس سے پہلے (یعنی نزول قرآن سے پہلے) عذاب نازل کر کے ہلاک کر ڈالتے تو یہ ضرور کہتے خدایا ! اس سے پہلے کہ ہم ظہور عذاب سے ذلیل و رسوا ہوں تو نے ایک پیغمبر کیوں نہ بھیج دیا کہ ہم تیری آیتوں پر چلتے اور ہلاک نہ ہوتے؟ طه
135 (اے پیغمبر) تو کہہ دے یہاں ہر ایک کے لیے (مستقبل کا) انتظار کرنا ہے پس تم بھی انتظار کرو، بہت جلد تمہیں معلوم ہوجائے گا کون سیدھے راستہ پر ہے اور کون منزل مقصود پر پہنچتا ہے؟ طه
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الأنبياء
1 وقت قریب آلگا ہے کہ لوگوں سے (ان کے اعمال کا) حساب لیا جائے، اس پر بھی ان کا یہ حال ہے کہ رخ پھیرے غفلت میں متوالے چلے جارہے ہیں۔ الأنبياء
2 ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نصیحت کی باتیں پیہم آتی رہیں مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ انہوں نے جی لگا کر سنا ہو۔ وہ سنتے ہیں مگر اس طرح کہ کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں۔ الأنبياء
3 اور دل ہیں کہ یک قلم غافل، اور (دیکھو) ظلم کرنے والوں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں یہ آدمی اس کے سا کیا ہے کہ ہماری ہی طرح کا ایک آدمی ہے؟ پھر کیا تم جان بوجھ کر ایسی جگہ آتے ہو جہاں جادو کے سوا اور کچھ نہیں؟ الأنبياء
4 (پیغمبر نے) کہا آسمان و زمین میں جو بات بھی کہی جاتی ہے۔ (خواہ پوشیدہ کہی جائے، خواہ اعلانیہ) میرے پروردگار کو سب معلوم ہے وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ الأنبياء
5 (اتنا ہی نہیں) بلکہ انہوں نے کہا یہ محض خواب و خیال کی باتیں ہیں، بلکہ من گھڑت دعوی ہے نہیں بلکہ یہ شاعر ہے اگر ایسا نہیں ہے تو کوئی (نزول ہلاکت کی) نشانی ہمیں لا دکھائے جس طرح اگلے وقتوں کے لوگ نشانیوں کے ساتھ بھیجے جاچکے ہیں۔ الأنبياء
6 لیکن ان سے پہلے جن جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا ان میں سے تو کوئی بھی (نزول ہلاکت کی نشانیاں دیکھ کر) ایمان نہیں لے آیا تھا، پھر کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟ الأنبياء
7 اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اسی طرح کہ آدمی تھے ان پر ہماری وحی اترتی تھی، پھر (اے گروہ منکرین) اگر تمہیں یہ بات معلوم نہیں تو ان لوگوں سے پوچھ کر معلوم کرلو جو اہل کتاب ہیں۔ الأنبياء
8 اور ہم نے ان پیغمبروں کو کبھی ایسے جسم کا نہیں بنایا کہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے تھے۔ الأنبياء
9 (ہم نے تمہاری ہی طرح کے آدمیوں کو پیغبر بنا کر بھیجا اور) پھر جس بات کا وعدہ کیا تھا وہ انہیں سچا کر دکھایا، ہم نے انہیں اور (ان کے ساتھ) جس کسی کو چاہا نجات دے دی اور حد سے نکل چکنے والوں کو ہلاک کر ڈالا۔ الأنبياء
10 ہم نے تمہارے لیے ایک کتاب نازل کردی ہے اس میں تمہارے لیے موعظت ہے (پھر اس سے زیادہ تمہیں اور کیا چاہیے) کیا تم سمجھے نہیں؟ الأنبياء
11 اور کتنی ہی بستیاں جو ظلم و شرارت میں غرق تھیں ہم نے پامال کر ڈالیں اور ان کے بعد دوسرے گروہوں کو اٹھا کھڑا کیا۔ الأنبياء
12 جب ہمارا عذاب انہوں نے محسوس کیا تو دیکھو اچانک بستیوں سے بھاگے جارہے ہیں۔ الأنبياء
13 اب بھاگتے کہاں ہو؟ اپنے اسی عیش و عشرت میں لوٹو (جس نے تمہیں اس قدر سرشار کر رکھا تھا) اور انہی مکانوں میں (جن کی مضبوطی کا تمہیں غرہ تھا) شاید (وہاں تدبیر و مشورہ میں تمہاری ضرورت ہو اور) تم سے کچھ دریافت کیا جائے۔ الأنبياء
14 بستیوں کے باشندوں نے پکارا افسوس ہم پر بلاشبہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔ الأنبياء
15 تو (دیکھو) وہ برابر یہی پکارا کیے، یہاں تک کہ ہم نے (ان نہیں ہلاک) کردیا، کٹے ہوئے کھیت کی طرحح، بجھے ہوئے انگاروں کی طرح۔ الأنبياء
16 اور (دیکھو) ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھھ ان کے د رمیا ہے کچھ کھیل تماشا کرتے ہوئے نہیں بنایا ہے ( بلکہ کسی مصلحت و مقصد سے بنایا ہے) الأنبياء
17 اگر ہمیں کھیل تماشا بنانا منظور ہوتا تو (ہمیں اس سے کون سکتا تھا؟) ہم خود اپنی جانب سے ایسا ہی کارخانہ بناتے، مگر ہم ایسا کرنے والے نہ تھے۔ الأنبياء
18 بلکہ (یہاں حقیقت حال ہی دوسری ہے) ہم حق سے باطل پر چوٹ لگاتے ہیں تو وہ باطل کا سر کچل ڈالتا ہے اور اچانک اسے فنا کردیتا ہے، افسوس تم پر تم کیسی کیسی باتیں بیان کرتے ہو۔ الأنبياء
19 آسمانوں میں جو کوئی ہے اور زمین میں جو کوئی ہے سب اسی کے لیے ہیں۔ جو (فرشتے) اس کے حضور ہیں وہ کبھی گھمنڈ میں آکر اس کی بندگی سے سرتابی نہیں کرتے نہ کبھی (بندگی سے) تھکتے ہیں۔ الأنبياء
20 وہ رات دن اس کی پاکی کے ترانوں میں زمزمہ سنج رہتے ہیں، وہ کبھی تھمتے نہیں۔ الأنبياء
21 کیا ان لوگوں نے زمین (کی مخلوقات میں) سے ایسے معبود بنا لیے ہیں جو مردوں کو زندہ کردیتے ہیں۔ الأنبياء
22 اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہوتا تو (ممکن نہ تھا کہ ان کا کارخانہ اس نظم وہم آہنگی کے ساتھ چلتا) وہ یقینا بگڑ کے برباد ہوجاتے۔ پس اللہ کے لیے کہ (جہانبانی عالم کے) تخت کا مالک ہے، پاکی ہو، ان ساری باتوں سے پاکی ہو جو اس کی نسبت بیان کرتے ہیں۔ الأنبياء
23 وہ جو کچھ کرے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں، اور سب (اس کے آگے جوابدہ ہیں، ان) سے باز پرس ہونی ہے۔ الأنبياء
24 پھر کیا ان لوگوں نے اس کے سوا دوسرے معبود پکڑ رکھے ہیں؟ (اے پیغمبر) تو ان سے کہہ دے اگر ایسا ہی ہے تو بتلاؤ تمہاری دلیل کیا ہے؟ یہ ہے وہ کلام جو میرے ساتھیوں کے ہاتھ میں ہے (یعنی قرآن) اور جو مجھ سے پہلوں کے لیے اتر چکا ہے (یعنی پچھلی کتابیں، تم ان میں کوئی بات بھی میری دعوت کے خلاف نکال سکتے ہو؟) اصل یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثروں کو حقیقت کا پتہ ہی نہیں، یہی وجہ ہے (سچائی سے) رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ الأنبياء
25 اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس پر اس بات کی وحی ہم نے نہ بھیجی ہو کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف میری ذات پس چاہیے کہ میری ہی بندگی کرو۔ الأنبياء
26 اور (دیکھو) انہوں نے کہا، خدائے رحمان نے اپنے لیے اولاد بنائی ہے پاکی ہو اس کے لیے (یہ جنہیں اس کی اولاد بناتے ہیں وہ اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں کرسکتے) بلکہ وہ تو اس کے معزز بندے ہیں۔ الأنبياء
27 وہ اس کے آگے بڑھ کے بات نہیں کرسکتے۔ وہ اس کے حکم پر سرتا سر کار بند رہتے ہیں۔ الأنبياء
28 جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑ آئے (یعنی ان کا ماضی بھی اور مستقبل بھی) سب اللہ جانتا ہے، ان کی مجال نہیں کہ کسی کو اپنی سفارش سے بخشوا لیں مگر ہاں جس کسی کی بخشش اللہ پسند فرمائے اور وہ تو اس کی ہیبت سے خود ہی ڈرتے رہتے ہیں۔ الأنبياء
29 اور ان میں سے اگر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے کہ کہے اللہ کے سوا میں معبود ہوں تو اس کی پاداش میں ہم اسے جہنم کی سزا دیں، ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو ان کے ظلم کا بدلہ دیتے ہیں۔ الأنبياء
30 جو لوگ منکر ہیں کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں (اپنی ابتدائی خلقت میں) ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کردیں؟ پھر کیا یہ (اس بات پر) یقین نہیں رکھتے؟ الأنبياء
31 اور ہم نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ بنا دیئے کہ ایک طرف کو ان کے ساتھ جھک نہ پڑے اور ہم نے ان میں (یعنی پہاڑوں میں) ایسے درے بنا دیے کہ راستوں کا کام دیتے ہیں، تاکہ لوگ اپنی منزل مقصود پالیں۔ الأنبياء
32 اور ہم نے آسمان کو ایک چھت کی طرح بنا دیا (ہر طرح کے نقص اور خرابی سے) محفوظ مگر یہ لوگ اس کی نشانیوں سے رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ الأنبياء
33 اور (دیکھو) وہی ہے جس نے رات اور دن کا اختلاف پیدا کیا اور سورج اور چاند بنائے، یہ تمام (ستارے) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ الأنبياء
34 اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشگی نہیں دی (اور نہ تیرے لیے ہمیشہ زندہ رہنا ہے) پھر اگر تجھے مرنا ہے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ الأنبياء
35 ہر جان کے لیے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں (زندگی کی) اچھی بری حالتوں کی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں تاکہ تمہارے لیے (یعنی تمہاری سعی و طلب کے لیے) آزمائشیں ہوں، اور پھر (بالآخر) تم سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے۔ الأنبياء
36 اور (اے پیغمبر) جب تجھے وہ لوگ دیکھتے ہیں جنہوں نے انکار حق کی راہ اختیار کی ہے تو انہیں اور تو کچھ سوجھتا نہیں، بس تجھے اپنی ہنسی ٹھٹھے کی بات بنا لیتے ہیں، کیا یہی وہ آدمی ہے جو ہمارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟ اور ان کا حال یہ ہے کہ خدائے رحمان کے ذکر سے یک قلم نکر ہیں۔ الأنبياء
37 آدمی کی سرشت ہی میں جلد بازی ہے (وہ مستقبل کا انتظار کرنا نہیں چاہتا) اچھا عنقریب تمہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھا دیں گے، اتنی جلدی نہ کرو۔ الأنبياء
38 اور یہ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ یہ وعدہ کب ظہور میں آئے گا؟ الأنبياء
39 اگر یہ منکر اس گھڑی کا حال معلوم کرلیں جب آتش (عذاب بھڑکے گی اور اس) کے شعلے نہ تو اپنے آگے سے ہٹا سکیں گے نہ پیچھے سے اور نہ کہیں سے مدد پائیں گے (تو کبھی اس شوخی و شرارت سے ظہور نتائج کا مطالبہ نہ کریں) الأنبياء
40 بلکہ وہ گھڑی تو ان پر اچانک آموجود ہوگی اور انہیں مبہوت کردے گی۔ پھر نہ تو اس وقت کو پھیردے سکیں گے اور نہ ہی مہلت ہی پائیں گے۔ الأنبياء
41 اور (اے پیغبر) یہ واقعہ ہے کہ تجھ سے پہلے بھی پیغمبروں کی ہنسی اڑائی جاچکی ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہی نکلا ہے کہ جس بات کی ہنسی اڑاتے تھے (یعنی ظہور نتائج کی) وہی بات ان پر چھا گئی۔ الأنبياء
42 (اے پیغمبر) ان سے پوچھ رات کا وقت ہو یا دن کا مگر کون ہے جو خدائے رحمان سے تمہاری نگہبانی کرسکتا ہے۔ (اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے؟) مگر (ان سے کیا پوچھو گے) یہ تو اپنے پروردگار کی یاد سے بالکل رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ الأنبياء
43 پھر کیا ان کے لیے معبود ہیں جو ہم سے انہیں بچا سکتے ہیں؟ (بھلا وہ کیا بچائیں گے) وہ خود اپنی مدد تو کر نہیں سکتے اور نہ ہماری ہی طرف سے حفاظت پاسکتے ہیں۔ الأنبياء
44 اصل یہ ہے کہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو (فوائد زندگی سے) بہرہ ور ہونے کے موقع دیے یہاں تک کہ (خوشحالیوں کی سرشاری میں) ان کی بڑی بڑی عمریں گزر گئیں (اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے) مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں؟ پھر کیا وہ (اس مقابلہ میں) غالب ہورہے ہیں؟ الأنبياء
45 (اے پیغمبر) تو کہہ دے میری پکار اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کی وحی سے علم پاکر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں اور (یاد رکھ) جو بہرے ہیں انہیں کتنا ہی خبردار کیا جائے کبھی سننے والے نہیں۔ الأنبياء
46 اور اگر ان پر تیرے پروردگار کے عذاب کی ایک چھنیٹ بھی پڑجائے تو (ساری سرکشی و شرارت بھول جائیں اور) بے اختیار پکار اٹھیں ہائے افسوس ! بلاشبہ ہم ہی ظلم کرنے والے تھے۔ الأنبياء
47 اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو کھڑے کردیں گے، پس کسی جان کے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہ ہوگی، اگر رائی برابر بھی کسی کا عمل ہوگا تو ہم اسے زمین میں لے آئیں گے، جب ہم (خود) حساب لینے والے ہوں تو پھر اسکے بعد کیا باقی رہا؟ الأنبياء
48 اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان (یعنی حق کو باطل سے الگ کردینے والی قوت) اور (وحی الہی کی) روشنی اور متقیوں کے لیے نصیحت دی تھی۔ الأنبياء
49 ان متقیوں کے لیے جو اپنے پروردگار کی ہستی سے بغیر اسے دیکھے ہوئے ڈرتے رہتے ہیں اور آنے والی گھڑی کے تصور سے بھی لرزاں رہتے ہیں۔ الأنبياء
50 اور یہ (قرآن) بھی نصیحت ہے، برکت والی، ہم نے اسے نازل کیا پھر کیا تمہیں اس سے نکار ہے؟ الأنبياء
51 اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کے درجہ کے مطابق سمجھ بوجھ عطا فرمائی تھی اور ہم اس کی حالت سے بے خبر نہ تھے۔ الأنبياء
52 جب اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا یہ کیا مورتیاں ہیں جن کی پوجا پر تم جم کر بھیٹھ گئے ہو؟ الأنبياء
53 تو انہوں نے جواب دیا تھا ہم نے اپنے باپ دادوں کو دیکھا انہی کو پوجا کرتے تھے۔ الأنبياء
54 ابراہیم نے کہا یقین کرو، تم خود بھی اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے۔ الأنبياء
55 اس پر انہوں نے کہا تو ہم سے سچ مچ کہہ رہا ہے یا مزاح کر رہا ہے؟ الأنبياء
56 ابراہیم نے کہا نہیں میں کہتا ہوں، آسمان اور زمین کا پروردگار جس نے ان سب کو پیدا کیا، وہی تمہارا بھی پروردگار ہے، میں اس حقیقت پر تمہارے آگے گواہ ہوں۔ الأنبياء
57 اور (ابراہیم نے کہا) بخدا میں ضرور تمہارے ان بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا جب تم سب پیٹھ پھیر کے چل دو گے۔ الأنبياء
58 چنانچہ (اس نے ایسا ہی کیا) اس نے بتوں کو توڑ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا، صرف ایک بت جو ان میں بڑا سمجھا جاتا تھا چھوڑ دیا کہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ الأنبياء
59 انہوں نے کہا (یعنی جب لوگ معبد میں واپس آئے تو یہ حال دیکھ کر کہنے لگے) ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی؟ جس کسی نے کی ہو وہ بڑا ہی ظالم آدمی ہے۔ الأنبياء
60 چند آدمیوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو ان کے بارے میں کچھ کہتے سنا تھا، اسے ابراہیم کہہ کے پکارتے ہیں۔ الأنبياء
61 لوگوں نے کہا اسے یہاں تمام آدمیوں کے سامنے بلا لاؤ، تاکہ سب گواہ رہیں۔ الأنبياء
62 ان لوگوں نے ابراہیم سے کہا (کیونکہ اب اسے بلا لائے تھے) ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی؟ الأنبياء
63 ابراہیم نے کہا بلکہ (یوں سمجھو) اس بت نے کی جو ان میں سب سے بڑا ہے، اگر بت بول سکتے ہیں تو خود اسی سے دریافت کرلو۔ الأنبياء
64 تب وہ آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے، انہوں نے کہا اس میں شک نہیں ناانصافی کی بات تو ہم ہی سے ہوگئی۔ الأنبياء
65 پھر وہ اس حال میں پڑگئے کہ (شرم و خجالت سے) سر جھکے ہوئے تھے، انہوں نے کہا تو اچھی طرح جانتا ہے، یہ بت بات نہیں کیا کرتے۔ الأنبياء
66 ابراہیم نے کہا پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جو تمہیں نہ تو کسی طرح کا نفع پہنچائیں نہ نقصان؟ الأنبياء
67 تمہاری حالت کتنی ناقابل برداشت ہے اور ان کی بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، کیا تم عقل سے بالکل کورے ہوگئے؟ الأنبياء
68 انہوں نے (آپس میں) کہا اگر ہم میں کچھ بھی ہمت ہے تو آؤ، اس آدمی کو آگ میں ڈال کر جلا دیں اور اپنے معبودوں کا بول بالا کریں۔ الأنبياء
69 (مگر) ہمارا حکم ہوا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کے لیے سلامتی۔ الأنبياء
70 اور (دیکھو) انہوں نے چاہا تھا ابراہیم کے ساتھ ایک چال چلیں لیکن ہم نے انہیں نامراد کردیا۔ الأنبياء
71 ہم نے اسے اور (اس کے بھتیجے) لوط کو (دشمنوں سے) نجات دلا کر ایک ایسے ملک میں پہنچا دیا جسے قوموں کے لیے (بڑا ہی) بابرکت ملک بنایا ہے (یعنی سرزمین کنعان) الأنبياء
72 اور (پھر) ہم نے اسے (ایک فرزند) اسحاق عطا فرمایا اور مزید برآں (پوتا) یعقوب، ان سب کو ہم نے نیک کردار بنایا تھا۔ الأنبياء
73 ہم نے انہیں (انسانوں کی) پیشوائی دی تھی، ہمارے حکم کے مطابق وہ راہ دکھاتے تھے، ہم نے ان پر وحی بھیجی کہ ہر طرح کی بھلائی کے کام انجام دیں، نیز نماز قائم رکھیں اور زکوۃ ادا کریں، وہ ہماری بندگی میں لگے رہتے تھے۔ الأنبياء
74 اور (اسی طرح) لوط کو بھی ہم نے (احکام حق دینے کا) علم عطا فرمایا، ہم نے اس بستی سے اسے نجات دے دی جس کے باشندے بڑے ہی گندے کام کیا کرتے تھے، اور کچھ شک نہیں بڑے ہی بد راہ، حد سے گزرے ہوئے لوگ تھے۔ الأنبياء
75 (ہم نے ان سے لوط کو نجات دی) اور اپنی رحمت کی پناہ میں لے لیا۔ یقینا وہ نیک کردار انسانوں میں سے ایک انسان تھا۔ الأنبياء
76 اور (اسی طرح) نوح کا معاملہ (بھی یاد کرو) جو ان (نبیوں) سے پیشتر کا ہے، جب اس نے ہمیں پکارا تھا تو (دیکھو) ہم نے اس کی پکار سن لی، اور اسے اور اس کے گھرانے کو ایک بڑی ہی سختی سے نجات دے دی۔ الأنبياء
77 نیز ان لوگوں کے مقابلہ میں جو ہماری نشانیاں جھٹلاتے تھے اس کی مدد کی، وہ بڑے ہی بدراہ لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔ الأنبياء
78 اور داؤد اور سلیمان (کا معاملہ بھی یاد کرو) جب وہ (ملک کے) کھیت میں کہ لوگوں کی بکریاں اس میں منتشر ہوگئی تھیں حکم چلاتے تھے اور ہم ان کی حکم فرمائی دیکھ رہے تھے۔ الأنبياء
79 پس ہم نے سلیمان کو اس بات کی پوری سمجھ دے دی اور ہم نے حکم دینے کا منصب اور (نبوت کا) علم ان میں سے ہر ایک کو عطا فرمایا تھا، نیز ہم نے پہاڑوں کو داؤد کے لیے مسخر کردیا تھا، وہ اللہ کی پاکی کی صدائیں بلند کرتے تھے اور اسی طرح پرندوں کو بھی، اور ہم (ایسا ہی) کرنے والے تھے۔ الأنبياء
80 اور (دیکھو) ہم نے داؤد کو تمہارے لیے زرہ بکتر بنانا سکھا دیا کہ تمہیں ایک دوسرے کی زد سے بچائے پھر کیا تم (ہماری بخششوں کے) شکر گزار ہوں؟ الأنبياء
81 اور (دیکھو) ہم نے (سمندر کی) تند ہواؤں کو بھی سلیمان کے لیے کیسا مسخر کردیا تھا کہ اس کے حکم پر چلتی تھیں اور اس سرزمین کے رخ پر جس میں ہم نے بڑی ہی برکت رکھ دی ہے (یعنی فلسطین اور شام کے رخ پر جہاں بحر احمر اور بحر متوسط سے دور دور کے جہاز آتے تھے) اور ہم ساری باتوں کی آگاہی رکھتے ہیں۔ الأنبياء
82 اور شیطانوں میں سے ایسے شیطان جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے علاوہ اور بھی طرح طرح کے کام کرتے اور ہم انہیں اپنی پاسبانی میں لیے ہوئے تھے۔ الأنبياء
83 اور ایوب (کا بھی معاملہ یاد کرو) جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا، میں دکھ میں پڑگیا ہوں اور خدایا ! تجھ سے بڑھ کر رحم کرنے و الا کوئی نہیں۔ الأنبياء
84 پس ہم نے اس کی پکار سن لی اور جس دکھ میں پڑگیا تھا وہ دور کردیا، ہم نے اس کا گھرانا (پھر سے) بسا دیا اور اس کے ساتھ ویسے ہی (عزیز و اقارب) اور بھی دیے، یہ ہماری طرف سے اس کے لیے رحمت تھی اور یہ نصیحت ہے ان کے لیے جو اللہ کی بندگی کرنے والے ہیں۔ الأنبياء
85 اور (اسی طرح) اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل سب (راہ حق میں) صبر کرنے والے تھے۔ الأنبياء
86 اور اسی طرح ہم نے انہیں اپنی رحمت میں لے لیا، یقینا وہ نیک بندوں میں سے تھے۔ الأنبياء
87 اور (اسی طرح) ذوالنون (کا معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ وہ (راہ حق میں) خشم ناک ہو کر چلا گیا، پھر اس نے خیال کیا ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے، لیکن پھر (جب اس پر حالت تنگ ہوئی تو مایوسی کی) تاریکیوں میں اس نے پکارا، خدایا تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تیرے لیے (ہر طرح کی) پاکی ہو، حقیقت یہ ہے کہ میں نے (اپنے اوپر بڑا ہی) ظلم کیا۔ الأنبياء
88 تب ہم نے اس کی پکار سن لی اور غمگینی سے اسے نجات دی (دیکھو) ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ الأنبياء
89 اور (اسی طرح) زکریا (کا معاملہ یاد کرو) جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا، خدایا مجھے (اس دنیا میں) اکیلا انہ چھوڑ (یعنی بغیر وارث کے نہ چھوڑ) اور (ویسے تو) تو ہی (ہم سب کا) بہتر وارث ہے۔ الأنبياء
90 تو (دیکھو) ہم نے اس کی پکار سن لی، اسے (ایک فرزند) یحی عطا فرمایا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے تندرست کردیا، یہ تمام لوگ نیکی کی راہوں میں سرگرم تھے (ہمارے فضل سے) امید لگائے ہوئے اور (ہمارے جلال سے) ڈرتے ہوئے دعائیں مانگتے تھے اور ہمارے آگے عجز و نیاز سے جھکے ہوئے تھے۔ الأنبياء
91 اور (اسی طرح) اس عورت کا معاملہ جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی (یعنی مریم کا معاملہ) پس ہم نے اپنی روح میں سے (یعنی ملائکہ کے جوہر ملکوتیت میں سے ایک جوہر) اس میں پھونک دیا اور اسے اس کے بیٹے کو تمام دنیا کے لیے (سچائی کی) ایک نشانی بنا دیا۔ الأنبياء
92 (ان تمام رسولوں کے ذریعہ سے ہم نے جو تعلیم دی تھی وہ یہی تھی کہ) یہ تم سب کی امت فی الحقیقت ایک ہی امت ہے (الگ الگ دین اور الگ الگ گروہ بندیاں نہیں ہیں) اور میں ہی تم سب کا (تن تنہا) پروردگار ہوں، پس چاہیے کہ میری ہی بندگی کرو، (اور اس راہ میں الگ الگ نہ ہو) الأنبياء
93 مگر لوگوں نے آپس میں اختلاف کر کے اپنے (ایک ہی) دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے، (بالآخر) سب کو ہماری ہی طرف لوٹنا ہے۔ الأنبياء
94 پس (یاد رکھو، اسل اس باب میں یہ ہے کہ) جس کسی نے نیک کام کیے اور وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کی کوشش اکارت جانے والی نہیں، ہم اس کی نیکیاں لکھ لینے والے (موجود) ہیں۔ الأنبياء
95 اور (دیکھو) جس آبادی کے لیے ہم نے ہلاکت ٹھہرا دی تو اس کے لیے (کامیابی و سسعادت) ممکن نہیں، وہ کبھی (اپنی سرکشی و غفلت سے) لوٹنے والے نہیں۔ الأنبياء
96 جب وہ وقت آجائے گا کہ یاجوج اور ماجوج کی راہ کھل جائے گی (زمین کی) تمام بلندیوں سے وہ دوڑتے ہوئے اتر آئیں گے۔ الأنبياء
97 اور (خدا کے ٹھہرائے ہوئے) سچے وعدہ کی گھڑی قریب آجائے گی، تو اس وقت اچانک ایسا ہوگا کہ لوگوں کی آنکھیں (شدت دہشت و حیرت سے) کھلی کی کھلی رہ جائیں گی، ان لوگوں کی آنکھیں جنہوں نے (سچائی سے) انکار کیا تھا (وہ پکار اٹھیں گے) افسوس ہم پر ہم اس (ہولناک گھڑی) سے غفلت میں رہے، بلکہ ہم ظلم و شرارت میں سرشار تھے۔ الأنبياء
98 تم اور وہ تمام چیزیں جن کی اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہیں، تم سب وہاں پہنچے والے ہو۔ الأنبياء
99 اگر یہ چیزیں سچ مچ کو معبود ہوتیں تو کبھی دوزخ نہ پہنچتیں حالانکہ سب اس میں ہمیشہ کے لیے رہنے والے ہیں۔ الأنبياء
100 ان کے لیے دوزخ میں (صرد دکھ اور جلن کی) چیخیں ہوں گی اور وہ (اور کچھ) نہیں سنیں گے۔ الأنبياء
101 (مگر) جن لوگوں کے لیے ہم نے پہلے سے بھلائی کا حکم دے دیا تو وہ یقینا دوزخ سے دور کردیے گئے۔ الأنبياء
102 وہ (اس سے اتنے دور ہوں گے کہ) وہاں کی اذیتوں کی) بھنک بھی ان کے کانوں میں نہیں پڑے گی۔ وہ اپنی پسند اور خواہش کی تمام نعمتوں میں ہمیشہ کے لیے مگن رہیں گے۔ الأنبياء
103 انہیں (روز قیامت کی) بڑی سے بڑی ہولناکی بھی ہراساں نہ کرے گی، فرشتے انہیں بڑھ کرلیں گے (ّاور کہیں گے) یہ ہے وہ تمہارا دن جس کا (کلام حق میں) وعدہ کیا گیا تھا۔ الأنبياء
104 وہ دن جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے بہی کھاتوں کے طور پر لپیٹ لیے جاتے ہیں ہم نے جس طرح پہلی پیدائش شروع کی تھی اسی طرح اسے دہرائیں گے بھی، اس وعدہ کا پورا کرنا ہم پر ہے اور ہم پورا کر کے رہیں گے۔ الأنبياء
105 اور (دیکھو) ہم نے زبور میں تذکیر و نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کی وراثت انہی بندوں کے حصے میں آئے گی جو نیک ہوں گے۔ الأنبياء
106 اس بات میں ان لوگوں کے لیے جو عبادت گزار ہیں ایک بڑا ہی پیام ہے۔ الأنبياء
107 اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ تمام دنیا کے لیے رحمت کا ظہور ہوا۔ الأنبياء
108 تو کہہ دے مجھ پر جو کچھ وحی کیا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی تنہا معبود ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) پس بتلاؤ تم اس کے آگے سر جھکاتے ہو یا نہیں؟ الأنبياء
109 پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دے میں نے تمہیں (انکار و سرکشی کے نتائج سے یکساں طور پر) خبردار کردیا ہے، میں نہیں جانتا جس بات کا وعدہ کیا گیا ہے اس کا وقت قریب آلگا ہے یا ابھی دور ہے (تاہم وہ ٹلنے والا نہیں) الأنبياء
110 اللہ کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں، جو کچھ پکار کے (علانیہ) کہا جاتا ہے وہ بھی اور جو کچھ تم (دلوں میں) چھپائے ہوئے ہو وہ بھی۔ الأنبياء
111 اور مجھے کیا معلوم؟ ہوسکتا ہے کہ اس (تاخیر) میں تمہارے لیے آزمائش رکھ دی گئی ہو اور یہ بات ہو کہ ایک مقررہ وقت تک زندگی کا لطف اٹھاؤ۔ الأنبياء
112 اس نے کہا (یعنی پیغمبر نے دعا کرتے ہوئے عرض کیا) خدایا ! اب (دیر نہ کر) سچائی کے ساتھ فیسلہ کردے اور ہمارا پروردگار تو (وہی) الرحمن ہے اسی سے مدد مانگی گئی ہے، جیسی کچھ باتیں تم بنا رہے ہو ان کے خلاف اسی کی مددگاری فیصلہ کردے گی۔ الأنبياء
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الحج
1 لوگو ! اپنے پروردگار (کے عذاب سے) ڈرو، یقین کرو آنے والی گھڑی کا بھونچال بڑا ہی سخت ہوگا۔ الحج
2 جس دن وہ تمہارے سامنے آموجود ہوگی اس دن (کسی کو کسی کا ہوش نہیں رہے گا) دودھ پلانے والی مائیں اپنا دودھ پیتا بچہ بھول جائیں گی، حاملہ عورتیں (وقت سے پہلے) اپنا حمل گرا دیں گے، لوگوں کو تم اس حال میں دیکھو گے کہ بالکل متوالے ہوگئے، حالانکہ وہ متوالے نہیں ہوئے مگر اللہ کے عذاب کی ہولناکی بڑی ہی ہولناک ہے (جس نے انہیں متوالوں کی طرح بے ہوش کردیا) الحج
3 اور (دیکھو) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور ان کے پاس کوئی علم نہیں، وہ ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ الحج
4 شیطان کے لیے یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ جو کوئی اس کا رفیق ہوا، ہو ضرور اسے گمراہی میں ڈالے گا اور عذاب جہنم تک پہنچا کر رہے گا۔ الحج
5 لوگو ! اگر تمہیں اس بارے میں شک ہے کہ آدمی (دوبارہ) جی اٹھے گا تو (اس بات پر غور کرو) ہم نے تمہیں (کس چیز سے) پیدا کیا (؟) مٹی سے، پھر (تمہاری پیدائش کا سلسلہ کس طرح جاری ہوا؟) اس طرح کہ پہلے نطفہ ہوتا ہے، پھر عقلہ بنتا ہے (یعنی جونک کی طرح کی ایک چیز) پھر متشکل اور غیر متشکل گوشت کا ایک ٹکڑا، اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ تم پر (اپنی قدرت کی کارفرمائیاں) واضح کردیں، پھر دیکھو جس نطفہ کو ہم چاہتے ہیں (تکمیل تک پہنچائیں) اسے عورت کے رحم میں ایک مقررہ وقت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ پھر (جب نطفہ کے تمام اندرونی مراتب طے کرلیتا ہے تو) طفولیت کی حالت میں تمہیں باہر نکلاتے ہیں، پھر تم پر (یکے بعد دیگرے) ایسی حالتیں طاری کرتے ہیں کہ (بالآخر) اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جاتے ہو، پھر تم میں کوئی تو ایسا ہوتا ہے جو (بڑھاپے سے پہلے ہی) مرجاتا ہے۔ کوئی ایسا ہوتا ہے جو (بڑھاپے تک پہنچتا اور اس طرح) عمر کی نکمی حالت کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے کہ سمجھ بوجھ کا درجہ پاکر پھرنا سمجھی کی حالت میں پڑجائے۔ اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو اچانک لہلہانے اور ابھرنے لگتی ہے، ہر قسم کی روئیدگیوں میں سے حسن و خوبی کا منظر اگ آتا ہے۔ الحج
6 یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی ہستی ایک حقیقت ہے اور وہ بلاشبہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ الحج
7 نیز اس بات کی کہ مقررہ گھڑی آنے والی ہے، اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں اور اس کی کہ اللہ ضرور انہیں اٹھا کھڑا کرے گا جو قبروں میں پڑگئے (یعنی مر گئے) الحج
8 اور دیکھو کچھ لوگ ایسے ہیں کہ نہ تو ان کے پاس علم کی کوئی روشنی ہے نہ کسی طرح کی رہنمائی، نہ کوئی کتاب روشن۔ الحج
9 مگر گھمنڈ کرتے ہوئے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کی راہ سے بھٹکا دیں، ایسے آدمی کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی ہے اور قیامت کے دن بھی ہم اسے عذاب آتش کا مزہ چکھائیں گے۔ الحج
10 یہ اس کا نتیجہ ہے جو خود تیرے ہاتھوں نے پہلے سے مہیا کر رکھا تھا اور اللہ تو اپنے بندوں کے لیے کبھی ظالم نہیں ہوسکتا۔ الحج
11 اور (دیکھو) کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی تو کرتے ہیں مگر دل کے جماؤ سے نہیں، اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچ گیا تو مطمئن ہوئے، اگر کوئی آزمائش آلگی تو الٹے پاؤں اپنی (کفر کی) حالت پر لوٹ پڑے، وہ دنیا میں بھی نامراد ہوئے اور آخرت میں بھی، اور یہی جو آشکارا نامرادی ہے۔ الحج
12 وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو (اپنی حاجت روائی کے لیے) پکارتے ہیں جو نہ تو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ نفع، یہی گمراہی ہے جسے سب سے زیادہ گہری گمراہی سمجھنا چاہیے۔ الحج
13 وہ ایسی ہستی کو پکارتے ہیں جس کے نفع سے زیادہ اس کا نقصان قریب تر ہے (یعنی واضح و آشکارا ہے) سو کیا ہی برا کارساز ہوا اور کیا ہی برا ساتھی۔ الحج
14 جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کیے تو ضرور اللہ انہیں ایسے باغوں میں پہنچا دے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہوں گی (اور اس لیے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں) اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، (وہ مالک و مختار ہے) الحج
15 جو آدمی (مایوس ہوکر) ایسا خیال کر بیٹھتا ہے کہ اللہ دنیا اور آکرت میں اس کی مدد کرنے والا نہیں تو (اس کے لیے زندگی کی کوئی راہ باقی نہ رہی) اسے چاہیے ایک رسی چھت تک لے جاکر باندھ دے، اور (اس میں گردن لٹکا کر زمین سے) رشتہ کاٹ لے، پھر دیکھے اس تدبیر نے اس کا غم و غصہ دور کردیا یا نہیں؟ الحج
16 اور دیکھو اس طرح ہم نے یہ کلام روشن دلیلوں میں اتارا، اور اس لیے اتارا کہ اللہ جسے چاہتا ہے (کامیابی کی) راہ پر لگا دیتا ہے۔ الحج
17 جو لوگ ایمان لائے (یعنی مسلمان) جو یہودی ہوئے، جو صابی ہیں، جو نصاری ہیں جو مجوسی ہیں جو مشرک ہیں، قیامت کے دن ان سب کے درمیان اللہ فیصلہ کردے گا (اور ان کے اعمال کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی) اللہ سے کوئی بات چھپی نہیں، وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ الحج
18 کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کوئی بھی آسمانوں میں ہے اور کوئی بھی زمین ہے۔ نیز سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چارپائے، سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں؟ اور کتنے ہی انسان بھی؟ ہاں بہت سے انسان ایسے بھی ہیں کہ ان پر عذاب کی بات ثابت ہوگئ، اور جس کسی کو اللہ ذلت میں ڈالے تو پھر کوئی نہیں جو اسے عزت دینے والا ہو، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ الحج
19 (دیکھو) یہ دو مخالف (فریق) ہیں جو اپنے پروردگار کے بارے میں ایک دوسرے سے مخالف باتیں کہتے ہیں، ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان کے لیے آگ کا پہنا واقع کردیا گیا، ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔ الحج
20 اس (کی گرمی کی شدت) سے جو کچھ ان کے شکم میں ہے جل کر گل اٹھے گا، ان کے جسم کے چمڑے کا بھی یہی حال ہوگا۔ الحج
21 نیز ان کی روک تھام کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے۔ الحج
22 جب کبھی (عذاب کے) دکھ سے بیقرار ہو کر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دیے جائیں گے کہ (اب نکلتے کیوں ہو؟) عذاب سوزاں کا مزہ چکھو۔ الحج
23 جو فریق ایمان لایا اور نیک عمل ہوا، تو یقینا اللہ اسے (نعیم ابدی کے) باغوں میں داخل کرے گا، ان کے تلے نہریں بہ رہی ہیں۔ (اس لیے ان کی بہار کبھی ختم ہونے والی نہیں) انہیں وہاں (آگ کے پہناوے کی جگہ) سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار پہنائے جائیں گے اور لباس ان کا ریشمی ہوگا۔ الحج
24 انہیں باتوں میں سے ایسی بات کی رہنمائی ملی جو نہایت پاکیزہ ہے، انہیں راہوں میں سے ایسی راہ پر چلایا گیا جس کی ستائش کی گئی۔ الحج
25 جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور جو اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں نیز مسجد حرام سے جسے ہم نے بلا امتیاز تمام انسانوں کے لیے (عبادت گاہ) ٹھہرایا ہے، خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے (تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم انہیں) اور ہر اس آدمی کو جو اس میں ازراہ ظلم حق سے منحرف ہونا چاہے گا عذاب دردناک کا مزہ چکھائیں گے۔ الحج
26 اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ مقرر کردی (اور حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کر اور میرا یہ گھر ان لوگوں کے لیے پاک رکھ جو طواف کرنے والے ہوں، عبادت میں سرگرم رہنے والے ہوں، رکوع وسجود میں جھکنے والے ہوں۔ الحج
27 اور (حکم دیا تھا کہ) لوگوں میں حج کا اعلان پکار دے، لوگ تیرے پاس دنیا کی تمام درور دراز راہوں سے آیا کریں گے یا پیادہ اور ہر طرحح کی سواریوں پر جو (مشقت سفر سے) تھکی ہوئی ہوں گی۔ الحج
28 وہ اس لیے آئیں گے کہ اپنے فائدہ پانے کی جگہ میں حاضر ہوجائیں اور ہم نے جو پالتو چارپائے ان کے لیے مہیا کردیے ہیں ان کی قربانی کرتے ہوئے مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں، پس قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ۔ الحج
29 پھر قربانی کے بعد وہ اپنے جسم و لباس کا میل کچیل دور کردیں (یعنی احرام اتار دیں) نیز اپنی نذریں پوری کریں اور اس خانہ قدیم (یعنی خانہ کعبہ) کے گرد پھیرے پھر لیں۔ الحج
30 تو دیکھو (حج کی) بات یوں ہوئی، اور جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی عظمت مانے تو اس کے لیے اس کے پروردگار کے حضور بڑی ہی بہتری ہے اور (یہ بات بھی یاد رکھو کہ) ان جانوروں کو چھوڑ کر جن کا حکم قرآن میں سنا دیا گیا ہے، تمام چارپائے تمہارے لئیے حلال کیے گئے ہیں، پس چاہیے کہ بتوں کی ناپاکی سے بچتے رہو، نیز جھوٹ بولنے سے۔ الحج
31 صرف اللہ ہی کے لیے ہو کر رہو، اس کے ساتھ کسی ہستی کو شریک نہ کرو، جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اس کا حال ایسا سمجھو جیسے بلندی سے اچانک نیچے گر پڑا، جو چیز اس طرح گرے گی اسے یا تو کوئی اچک لے گا یا ہوا کا جھونکا کسی دور دراز گوشت میں لے جاکر پھینک دے گا۔ الحج
32 (حقیقت حال) یہ ہے پس (یاد رکھو) جس کسی نے اللہ کی نشانیوں کی عظمت مانی تو اس نے ایسی بات مانی جو فی الحقیقت دلوں کی پرہیزگاری کی باتوں میں سے ہے۔ الحج
33 ان (چار پایوں) میں ایک مقررہ وقت تک تمہارے لیے (طرح طرح کے) فائدے ہیں، پھر (اس) خانہ قدیم تک پہنچا کر ان کی قربانی کرنی ہے۔ الحج
34 اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ ٹھہرا دیا کہ ہمارے دیے ہوئے پالتو چار پائے ذبح کرے تو اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرلے۔ پس (یاد رکھو) تمہارا معبود وہی ایک معبود یگانہ ہے (اور جب اسکے سوا کوئی نہیں تو چاہیے کہ) اسی کے آگے فرماں برداری کا سر جھکا دو۔ اور (اے پیغمبر) عاجزی اور نیاز مندی کرنے والوں کو (کامرانی و سعادت کی) خوشخبری دے دو۔ الحج
35 ان (نیاز مندان حق) کو جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں، جو ہر طرح کی مصیبتوں میں صبر کرنے والے ہیں، جو نماز کے پڑھنے اور درستی میں کوشاں رہتے ہیں جو اس رزق میں سے کہ اللہ تعالیٰ نے دے رکھا ہے (نیک کاموں کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں۔ الحج
36 اور (دیکھو قربانی کے یہ) اونٹ (جنہیں دور دور سے حج کے موقع پر لایا جاتا ہے) تو ہم نے اسے ان چیزوں میں سے ٹھہرا دیا ہے جو تمہارے لیے اللہ کی (عبادت کی) نشانیوں میں سے ہیں، اس میں تمہارے لیے بہتری کی بات ہے، پس چاہیے کہ انہیں قطار در قطار ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام یاد کرو، پھر جب وہ کسی پہلو پر گر پڑیں، (یعنی ذبح ہوجائیں) تو ان کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور فقیروں اور زائروں کو بھی کھلاؤ، اس طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ (احسان الہی کے) شکر گزار ہو۔ الحج
37 یاد رکھو ! اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون، اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تو صرف تمہارا تقوی ہے (یعنی تمہارے دل کی نیکی ہے) ان جانوروں کو اس طرح تمہارے لیے مسخر کردیا کہ اللہ کی رہنمائی پر اس کے شکر گزار رہو اور اس کے نام کی بڑائی کا آواز بلند کرو، اور نیک کرداروں کے لیے (قبولیت حق کی) خوشخبری ہے۔ الحج
38 جو لوگ ایمان لائے ہیں یقینا اللہ (ظالموں کے تشدد سے ے) ان کی مدافعت کرتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ امانت میں خیانت کرنے والوں کو کہ کفران نعمت کر رہے ہیں کبھی پسند نہیں کرسکتا۔ الحج
39 جن (مومنوں) کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے، اب انہیں بھی (اس کے جواب میں) جنگ کی رخصت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہورہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔ الحج
40 یہ وہ مظلوم ہیں جو بغیر کسی حق کے اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، ان کا کوئی جرم نہ تھا، اگر تھا تو صرف یہ کہ وہ کہتے تھے ہمارا پروردگار اللہ ہے، اور دیکھو اگر اللہ بعض آدمیوں کے ہاتھوں بعض آدمیوں کی مدافعت نہ کراتا رہتا (اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے بے روک چھوڑ دیتا) تو کسی قوم کی عبادت گاہ زمین پر محفوظ نہ رہتی۔ خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں، مسجدیں، جن میں اس کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے سب کبھی کے ڈھائے جاچکے ہوتے۔ (یاد رکھو) جو کوئی اللہ (کی سچائی) کی حمایت کرے گا ضروری ہے کہ اللہ بھی اسکی مدد فرمائے۔ کچھ شبہ نہیں وہ یقینا قوت رکھنے والا اور سب پر غالب ہے۔ الحج
41 یہ (مظلوم مسلمان) وہ ہیں کہ اگر ہم نے زمین میں انہیں صاحب اقتدار کردیا (یعنی ان کا حکم چلنے لگا) تو وہ نماز (کا نظم) قائم کریں گے، زکوۃ کی ادائیگی میں سرگرم ہوں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے، برائیاں روکیں گے، اور تمام باتوں کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔ الحج
42 اور (اے پیغمبر) اگر یہ (منکر) تجھے جھٹلائیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) ان سے پہلے کتنی ہی قومیں اپنے اپنے وقتوں کے رسولوں کو جھٹلا چکی ہیں۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود۔ الحج
43 قوم ابراہیم، قوم لوط۔ الحج
44 اصحاب مدین اور موسیٰ بھی جھٹلایا گیا (اگرچہ خوچ اس کی قوم نے نہیں جھٹلایا) اور ہم نے (ہمیشہ ایسا ہی کیا کہ) پہلے منکروں کو (کچھ عرصہ کے لیے) ڈھیل دے گی پھر (مواخذہ میں) پکڑ لیا تو دیکھ، ہماری ناپسندیدگی ان کے لیے کیسی سخت ہوئی؟ الحج
45 پھر دیکھو، کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور وہ ظلم کرنے والی تھیں، وہ ایسی اجڑیں کہ اپنی چھتوں پر گر کے رہ گئیں، کنویں ناکارہ ہوگئے، سربہ فلک محل کھنڈر بن گئے۔ الحج
46 کیا یہ لوگ ملکوں میں چلے پھرے نہیں کہ عبرت حاصل کرتے؟ ان کے پاس دل ہوتے اور سمجھتے بوجھتے، کان ہوتے اور سنتے اور پاتے، حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں پڑتا ہے تو آنکھیں اندھی ہوجایا کرتیں (جو سروں میں ہیں) دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔ الحج
47 اور (اے پیغمبر) یہ لوگ تجھ سے عذاب کے مطالبہ میں جلدی مچا رہے ہیں (یعنی کہتے ہیں اگر سچ مچ کو عذاب آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟) اور اللہ کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے، مگر تیرے پروردگار کے یہاں ایک دن کی مقدار ایسی ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ایک ہزار برس۔ الحج
48 اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے (ابتدا میں) ڈھیل دی اور وہ ظالم تھیں۔ پھر ہم نے مواخذہ میں پکڑ لیا اور بالآخر سب کو ہماری ہی طرف لوٹنا ہے۔ الحج
49 (اے پیغمبر) کہہ دے اے لوگو ! میں اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ (انکارو شرارت کے نتئاج سے) تمہیں علانیہ خبردار کردینا چاہتا ہوں۔ الحج
50 پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ الحج
51 جن لوگوں نے اللہ کی نشانیوں کے خلاف لڑ کر کامیاب ہونا چاہا وہ دوزخی ہیں (ان کے لیے ہر طرح کی کامیابیوں اور سعادتوں سے محرومی ہے) الحج
52 اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول اور جتنے نبی بھیجے سب کے ساتھ یہ معاملہ ضرور پیش آیا کہ جونہی انہوں نے (اصلاح و سعادت کی) آرزو کی، شیطان نے ان کی آرزو میں کوئی نہ کوئی فتنہ کی بات ڈال دی اور پھر اللہ نے اس کی وسوسہ اندازیوں کا اثر مٹایا اور اپنی نشانیوں کو اور زیادہ مضبوط کردیا، وہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے سارے کاموں میں) حکمت والا ہے۔ الحج
53 اس میں (ایک بڑی) مصلحت یہ رہی ہے کہ شیطان کی وسوسہ اندازی ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہوجائے جن کے دل روگی ہیں اور (سچائی کی طرف سے) سخت پڑگئے ہیں اور بلاشبہ یہ ظلم کرنے والے بڑی ہی گہری مخالفت میں پڑے ہیں۔ الحج
54 نیز ( اس میں) یہ مصلحت بھی تھی کہ (ے پیغمبر) جن لوگوں نے علم پایا ہے وہ جان لیں کہ یہ معاملہ فی الحقیقت تیرے پروردگار ہی کی طرف سے ہے، اس طرح اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دلوں میں عجز و نیاز پیدا ہوجائے، یقینا اللہ ایمان والوں کو (سعادت و کامرانی کی) سیدھی راہ چلانے والا ہے۔ الحج
55 (یاد رکھ) جو لوگ منکر ہیں وہ اس بارے میں برابر شک ہی کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ (فیصلہ کن) گھڑی اچانک ان کے سروں پر آجائے یا کسی منحوس دن کا عذاب آ نمودار ہو۔ الحج
56 اس دن بادشاہی صرف اللہ ہی کی ہوگی، وہ ان سب کے درمیان فیصلہ کرے گا، پھر ان لوگوں کے لیے نعیم و سرور کے باغ ہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔ الحج
57 اور ان لوگوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے جنہوں نے انکار کیا اور ہماری نشانیاں جھٹلائیں۔ الحج
58 اور (دیکھو) جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر لڑائی میں قتل ہوئے یا اپنی موت مرگئے تو (دونوں صورتوں میں) ضروری ہے کہ اللہ انہیں (آخرت میں) بہتر سے بہتر روزے دے، اور یقینا اللہ ہی ہے جو سب سے بہتر روزی بخشنے والا ہے۔ الحج
59 وہ ضرور انہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوشنود ہوں گے، یقینا وہ (سب کچھ کچھ) جاننے والا (اور اپنے کاموں میں) بڑا بردبار ہے۔ الحج
60 (بہرحال) حقیقت حال یہ ہے، پس جس کسی نے خود زیادتی نہیں کی، بلکہ جتنی سختی اس کے ساتھ کی گئی تھی ٹھیک اتنی ہی بدلے میں کرنی چاہیے اور پھر دشمن مزید زیادتی پر اتر آیا تو ضروری ہے کہ اللہ مظلوم کی مدد کرے، اللہ یقینا معاف کردینے والا بخش دینے والا ہے۔ الحج
61 اور یہ (صورت حال) اس لیے ہوئی کہ اللہ رات کو دن کے اندر نمایاں کرتا ہے اور دن کو رات کے اندر (یعنی یہاں ہر گوشہ میں حالات متضاد تبدیلیل کا قانون جاری ہے) نیز اس لیے کہ اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ الحج
62 نیز اس لیے بھی کہ حق اللہ ہی کی ہستی ہے اور جن ہستیوں کو اس کے سوا پکارتے ہیں باطل ہیں، اور پھر اس لیے بھی کہ اللہ ہی کی ہستی بلند مرتبہ ہے بڑائی والی۔ الحج
63 کیا تم نے (یہ منظر) نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور (سوکھی) زمین سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی ہے؟ یقین کرو، اللہ بڑا ہی لطف کرنے والا ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔ الحج
64 آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے، وہی ہے جو بے نیاز ہے ہر طرح کی ستائشوں کا سزاوار۔ الحج
65 کیا تم نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کردی ہیں؟ جہاز کو دیکھو، کس طرح وہ اس کے حکم سے سمندر میں تیرتا چلا جاتا ہے؟ پھر کس طرح اس نے آسمان کو (یعنی فضائے سماوی کے اجرام کو) تھامے رکھا کہ زمین پر گریں نہیں اور گریں تو اس کے حکم سے؟ بلاشبہ اللہ انسان کے لیے بڑی ہی شفقت رکھنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔ الحج
66 اور (دیکھو) وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہ موت طاری کرتا ہے، پھر (دوبارہ) زندہ کرے گا، دراصل انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ الحج
67 (اے پیغمبر) ہم نے ہر امت کے لیے (عبادت کا) ایک طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے جس پر وہ چل رہی ہے، پس لوگوں کو اس معاملہ میں (یعنی اسلام کے طور طریقہ میں) تجھ سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں، تو اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو دعوت دے (کہ اصل دین یہی ہے) یقینا تو ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہے۔ الحج
68 اگر (اس پر بھی) لوگ تجھ سے جھگڑا کریں تو کہہ دے اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔ الحج
69 تم جن باتوں میں باہمدگر اختلاف کر رہے ہو قیامت کے دن وہ تمہارے درمیان فیصلہ کر کے حقیقت حال آشکارا کردے گا۔ الحج
70 (اے پیغمبر) کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ پر سب کچھ روشن ہے، جو کچھ آسمان میں ہے، جو کچھ زمینن میں ہے؟ یہ ساری باتیں نوشتہ میں ضبط ہیں، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ الحج
71 اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی بندگی کرتے ہیں جن کے لیے نہ تو اس نے کوئی سند اتاری اور نہ ان کے پاس علم کی کوئی روشنی ہے، اور بے انصافوں کو مدد کا کوئی سہارا نہیں مل سکتا۔ الحج
72 اور جب انہیں ہماری روشن آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کفر ہے ان کے چہروں پر ناپسندیدگی ابھرتی ہوئی دیکھ کر تم پہچان لیتے ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مارے ناپسندیدگی کے یہ پڑھنے والوں پر حملہ کر بیٹھیں گے (اے پیغمبر) تو کہہ دے کیا میں تمہیں اس سے بھی ایک بد تر صورت حال کی خبر دوں؟ آگ کے شعلے ! جس کا اللہ نے منکروں کے لیے وعدہ کرلیا اور جس کا ٹھکانا یہ ہوا تو کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ الحج
73 اے لوگو ! ایک مثال سنائی جاتی ہے، غور سے سنو ! اللہ کے سوا جن (خود ساختہ) معبودوں کو تم پکارتے ہو انہوں نے ایک مکھی تک پیدا نہیں کی اگر تمہارے یہ سارے معبود اکٹھے ہو کر زور لگائیں جب بھی پیدا نہ کرسکیں اور (پھر اتنا ہی نہیں بلکہ) اگر ایک مکھی ان سے کچھ چھین لے جائے تو ان میں قدرت نہیں کہ اس سے چھڑا لیں، تو دیکھو طلبگار بھی یہاں درماندہ ہوا اور مطلوب بھی درماندہ (یعنی پرستار بھی عاجز ہیں اور ان کے معبود بھی عاجز) الحج
74 اللہ کے مقام کی جو عزت کرنی تھی یہ نہ کرسکے، وہ تو سرتاسر قوت ہے، سب پر غالب۔ الحج
75 اللہ نے فرشتوں میں سے بعض کو پیام رسانی کے لیے برگزیدہ کرلیا، اسی طرح بعض انسانوں کو بھی (لیکن اس برگزیدگی سے انہیں معبود ہونے کا درجہ نہیں مل گیا جیسا ان گمراہوں نے سمجھ رکھا ہے) بلاشبہ اللہ ہی ہے سننے والا، دیکھنے والا۔ الحج
76 وہ جانتا ہے جو کچھ انہیں پیش آنے والا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے گزر چکا، اور ساری باتوں کا آخری سر رشتہ اسی کے ہاتھ ہے۔ الحج
77 مسلمانوں رکوع میں جھکو، سجدے میں گرو، اپنے پروردگار کی بندگی کرو، جو کچھ کرو، نیکی کی بات کرو، عجب نہیں کہ اس طرح بامراد ہو۔ الحج
78 اور اللہ کی راہ میں جان لڑا دو، اس کی راہ میں جان لڑا دینے کا جو حق ہے پوری طرح ادا کرو، اس نے تمہیں برگزیدگی کے لیے چن لیا، تمہارے لیے دین میں کسی طرحح کی تنگی نہیں رکھی، وہی طریقہ تمہارا ہوا جو تمہارے باپ ابراہیم کا تھا، اس نے تمہارا نام مسلم رکھا، پھچلے وقتوں میں بھی اور اس (قرآن) میں بھی، اور یہ اس لیے کیا تاکہ رسول تمہارے لیے (حق کا) گواہ ہو (یعنی معلم ہو) اور تم تمام انسانوں کے لیے۔ پس نماز کا نظام قائم کرو، زکوۃ کی ادائیگی کا سامان کرو، اللہ کا سہارا مضبوط پکڑ لو، وہی تمہارا کارساز ہے اور جس کا کارساز اللہ ہوا تو کیا ہی اچھا کار ساز ہے اور کیا ہی اچھا مددگار۔ الحج
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المؤمنون
1 بلاشبہ ایمان لانے والے کامیاب ہوئے۔ المؤمنون
2 (کون ایمان لانے والے؟) جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع رکھتے ہیں۔ المؤمنون
3 جو نکی باتوں سے رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ المؤمنون
4 جو زکوۃ ادا کرنے میں سرگرم ہیں۔ المؤمنون
5 جو اپنے ستر کی نگہداشت سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ المؤمنون
6 ہاں اپنی بیبیوں سے زنا شوی کا علاقہ رکھتے ہیں یا ان سے جو ان کی ملکیت میں آگئیں۔ (یعنی غلامی کی حالت میں پڑی ہوئی عورتیں، جو ان کے نکاح میں آگئی) تو ان سے علاقہ رکھنے پر ان کے لیے کوئی ملامت نہیں۔ المؤمنون
7 اور جو کوئی (اس معاملہ میں) اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت نکالے، تو ایسی صورتیں نکلانے والے ہی ہیں جو حد سے باہر ہوگئے۔ المؤمنون
8 نیز جن کا حال یہ ہے کہ اپنی امانتوں اور عہدوں کا پاس رکھتے ہیں۔ المؤمنون
9 اور اپنی نمازوں کی حفاظت میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ المؤمنون
10 تو یقینا ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنا ورثہ پانے والے ہیں۔ المؤمنون
11 یہ فردوس کی زندگی میراث میں پائیں گے ہمیشہ کے لیے اس میں بسنے والے المؤمنون
12 اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا (یعنی زندگی کی ابتدا مٹی کے خلاصہ سے ہوئی) المؤمنون
13 پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا، ایک ٹھہر جانے اور جماؤ پانے کی جگہ میں۔ المؤمنون
14 پھر نطفہ کو ہم نے علقہ بنایا، پھر عقلہ کو ایک گوشت کا ٹکڑا سا کردیا، پھر اس میں ہڈیوں کا ڈھانچہ پیدا کیا۔ پھر ڈھانچے پر گوشت کی تہہ چڑھا دی، پھر دیکھو کس طرح اسے بالکل ایک دوسری ہی طرح کی مخلوق بنا کر نمودار کردیا؟ تو کیا ہی برکتوں والی ہستی ہے اللہ کی، پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر پیدا کرنے والا۔ المؤمنون
15 پھر (دیکھو اس پیدائش کے بعد) تم سب کو ضرور مرنا ہے۔ المؤمنون
16 اور پھر (مرنے کے بعد) ایسا ہونا ہے کہ قیامت کے دن اٹھائے جاؤ المؤمنون
17 اور (دیکھو) یہ ہماری ہی کارفرمائی ہے کہ تمہارے اوپر (گردش) کے سات راستے بنا دیے اور ہم مخلوق کی طرف سے غافل نہ تھے۔ المؤمنون
18 اور ہم نے ایک خاص اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا اور اسے زمین میں (حسب ضرورت) ٹھہرائے رکھا، اور ہم یقینا قادر ہیں کہ اسے (جس طرح نمودار کیا اسی طرح اڑا) لے جائیں۔ المؤمنون
19 پھر اسی پانی کی آبیاری سے تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغوں کو نشوونما دے دی، ان باغوں میں تمہارے لیے بہت سے پھل پیدا ہوتے ہیں، بعض تمہارے کھانے میں کام آتے ہیں۔ المؤمنون
20 اور وہ درخت جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے (یعنی زیتون کا درخت) جو چکنائی اگاتا ہے، اور کھانے والوں کے لیے (نہایت اچھا) سالن المؤمنون
21 اور (دیکھو) تمہارے لیے چارپایوں کی خلقت میں بھی بڑی ہی عبرت ہے، جو کچھ ان کے شکم میں بھرا ہے (یعنی ناگوار آلائشیں) اسی میں سے تمہارے لیے پینے کی (خوشگوار) چیز پیدا کردیتے ہیں (یعنی دودھ) اور تمہارے لیے ان کے وجود میں اور بھی طرح طرح کے فائدے ہیں، انہی میں سے بعض تمہارے لیے غذا کا بھی کام دیتے ہیں۔ المؤمنون
22 تم (خشکی میں) ان پر اور جہازوں پر (سمندر میں) سوار بھی ہوتے ہیں۔ المؤمنون
23 اور (پھر دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف (ہدایت کے لیے) بھیجا تھا، اس نے کہا تھا بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (بدعملی کے نتائج سے) ڈرتے نہیں؟ المؤمنون
24 اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ یہ سن کر (لوگوں سے) کہنے لگے یہ آدمی کے سوا کیا ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے؟ مگر چاہتا ہے تم پر اپنی بڑائی جتائے، اگر اللہ کو کوئی ایسی ہی بات منظور ہوتی تو کیا وہ فرشتے نہ اتار دیتا؟ (وہ ہماری ہی طرح کے ایک آدمی کو اپنا پیام بر کیوں بنانے لگا؟) ہم نے اپنے اگلے بزرگوں سے تو کوئی ایسی بات کبھی نہیں سنی۔ المؤمنون
25 کچھ نہیں یہ پاگل ہوگیا ہے، پس (اس کی باتوں پر کان نہ دھرو) کچھ دنوں تک انتظار کر کے دیکھ لو، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ المؤمنون
26 اس پر نوح نے دعا مانگی خدایا انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو تو میری مدد کر۔ المؤمنون
27 پس ہم نے نوح کی طرف وحی بھیجی کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا، پھر جب ایسا ہوا ہو کہ ہمارے حکم کا وقت آجائے اور تنور کے شعلے بھڑک اٹھیں (یعنی ظہور نتائج کا معاملہ پختہ ہوجائے) تو کشتی میں ہر جانور کے دو دو جوڑے ساتھ لے لے اور اپنے گھر والوں کو بھی، مگر گھر کے ایسے آدمی کو نہیں جس کے لیے پہلے فیصلہ ہوچکا۔ اور دیکھ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارے میں ہم سے کچھ عرض معروض نہ کیجیو، وہ ڈور کر رہیں گے۔ المؤمنون
28 اور جب تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوجائے تو اس وقت تیری زبان سے یہ صدا اٹھھے : ساری ستائش اللہ کے لیے جس نے ہمیں ظالم قوم (کی معیت) سے نجات دی۔ المؤمنون
29 نیز یہ دعا بھی مانگیو کہ خدایا ! مجھے اب زمین پر اس طرح اتار کہ برکت کا اترنا ہوا اور تو سب سے بہتر جگہ دینے والا ہے۔ المؤمنون
30 بلاشبہ اس واقعہ میں (سجھنے والوں کے لیے) بڑی ہی نشانیاں ہیں، نیز یہ کہ یہاں ضرور ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں۔ المؤمنون
31 پھر ہم نے قوم نوح کے بعد قموں کا ایک دوسرا دور پیدا کردیا۔ المؤمنون
32 ان میں بھی اپنا رسول بھیجا جو خود انہی میں سے تھا۔ (اس کی پکار بھی یہی تھی) کہ اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (انکار و فساد کے نتائج بد سے ے) ڈرتے نہیں؟ المؤمنون
33 اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور آخرت کے پیش آنے سے منکر تھے اور جنہیں دنیا کی زندگی میں ہم نے آسودگی دے رکھی تھی (لوگوں سے) کہنے لگے اس سے زیادہ اس کی کیا حیثیت ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے جو کچھ تم کھاتے ہو یہ بھی کھاتا ہے، جو کچھ تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے۔ المؤمنون
34 اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی اطاعت کرلی تو بس سمجھ لو تم تباہ ہوئے۔ المؤمنون
35 تم سنتے ہو، یہ کیا کہتا ہے؟ یہ تمہیں امید دلاتا ہے کہ جب مرنے کے بعد محض مٹی اور ہڈیوں کا چورا ہوجاؤ گے تو پھر تمہیں موت سے نکالا جائے گا۔ المؤمنون
36 کیسی انہونی بات ہے، کیسی انہونی بات ہے جس کی تمہیں توقع دلاتا ہے۔ المؤمنون
37 (بھلا دوبارہ زندہ ہونا کیسا؟) زندگی تو بس یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں، یہیں مرتے ہیں، یہی جینا ہے، ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مر کر پھر جی اٹھیں۔ المؤمنون
38 کچھ نہیں یہ ایک مفتری آدمی ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ موٹ بات بنا دی ہے، ہم کبھی اس پر یقین لانے والے نہیں۔ المؤمنون
39 اس پر اس رسول نے دعا مانگی خدایا انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے، پس تو میری مدد کر۔ المؤمنون
40 حکم ہوا عنقریب ایسا ہونے والا ہے کہ یہ اپنے کیے پر شرمسار ہوں گے۔ المؤمنون
41 چنانچہ فی الحقیقت ایک ہولناک آواز نے انہیں آپکڑا اور ہم نے خس و خاشاک کی طرح انہیں پامال کردیا، تو محرومی ہو اس گروہ کے لیے کہ ظلم کرنے والا ہے۔ المؤمنون
42 پھر ہم نے ان کے بعد قوموں کے اور بہت سے دور پیدا کیے۔ المؤمنون
43 کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے (سب کو قانون الہی کے مطابق اپنا دور پورا کرنا ہے) المؤمنون
44 پھر ہم نے لگاتار یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے، لیکن جب کبھی کسی قوم میں اس کا رسول ظاہر ہوا معا وہ جھٹلانے پر آمادہ ہوگئی۔ پس ہم بھی ایک کے بعد ایک کر کے انہیں ہلاک کرتے گئے اور ان کی ہستیاں (روایت کا) افسانہ بن گئیں، تو ان کے لیے محرومی و نامرادی ہو جو آیات حق پر یقین نہیں کرتے۔ المؤمنون
45 پھر (دیکھو) ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیاں اور آشکارا دلیلیں دیں۔ المؤمنون
46 اور فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا لیکن انہوں نے گھمنڈ کیا، وہ سرکشوں کا گروہ تھا۔ المؤمنون
47 وہ (آپس میں) کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی طرح کے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں؟ حالانکہ ان کی قوم ہمارے آگے جھکی ہوئی اور ہماری پرستار ہے؟ المؤمنون
48 پس انہوں نے موسیٰ اور ہارون کو جھٹلایا، نتیجہ یہ نکلا کہ ہلاک ہوجانے والوں میں سے ہوئے۔ المؤمنون
49 اور یہ بھی واقعہ ہے کہ ہم نے (اس واقعہ کے بعد) موسیٰ کو الکتاب (یعنی تورات) دی تھی تاکہ لوگ ہدایت پائیں۔ المؤمنون
50 اور (اسی طرح) ابن مریم (یعنی مسیح) اور اس کی ماں کو (اپنی سچائی کی) ایک بڑی نشانی بنایا اور انہیں ایک مرتفع مقام میں پناہ دی جو بسنے کے قاببل اور شاداب تھی۔ المؤمنون
51 اے گروہ پیغمبراں ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، جیسے کچھ تمہارے اعمال ہوتے ہیں مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ المؤمنون
52 اور دیکھو یہ تمہاری امت دراصل ایک ہی امت ہے اور تم سب کا پروردگار میں ہی ہوں، پس (انکار و بدعملی کے نتائج سے) ڈرو (ان تمام پیغمبروں کے ذریعہ سے جو تعلیم دی گئی وہ یہی تعلیم تھی ) المؤمنون
53 لیکن لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کٹ کر الگ ہوگئے اور اپنا دین الگ الگ کرلیا۔ اب جو جس کے پلے پڑگیا اسی میں مگن ہے۔ المؤمنون
54 پس (اے پیغمبر) ان منکروں کو ان کی غفلت و سرشاری میں پڑا رہنے دے، ایک مقررہ وقت تک (یہ اسی حالت میں رہیں گے پھر حقیقت حال کا فیصلہ ہوجائے گا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے ) المؤمنون
55 کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں ہم مال اور اولاد (کی فراوانی) سے اس لیے ان کی امداد کر رہے ہیں۔ المؤمنون
56 کہ بھلائی پہنچانے میں سرگرم دکھائیں؟ نہیں (حقیقت حال دوسری ہی ہے مگر) وہ شعور نہیں رکھتے۔ المؤمنون
57 جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔ المؤمنون
58 جو اپنے پروردگار کی نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ المؤمنون
59 جو اپنے پروردگار کے ساتھ کسی ہستی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ المؤمنون
60 جو (اس کی راہ میں) جتنا کچھ دے سکتے ہیں بلاتامل دیتے ہیں اور (پھر بھی) ان کے دل ترساں رہتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے حضور لوٹنا ہے، المؤمنون
61 تو بلاشبہ یہ لوگ ہیں جو بھلائیوں کے لیے تیزگام ہیں اور یہی ہیں جو اس راہ میں سب سے آگے نکل جانے والے ہیں۔ المؤمنون
62 اور ہم کسی جان پر ذمہ داری نہیں ڈالتے مگر اتنی ہی جتنی کی اس میں طاقت ہے (یعنی استعداد ہے) ہمارے پاس (ان سب کی حالت و استعداد کے لیے) نوشتہ ہے جو ٹھیک ٹحیک (حقیقت حال کے مطابق) حکم لگا دیتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی جان کے ساتھ نا انصافی ہو۔ المؤمنون
63 لیکن (اصل یہ ہے کہ) ان لوگوں کے دل اس حقیقت کی طرف سے غفلت و سرشاری میں پڑگئے، ان کے اور بھی اعمال (بد) ہیں جو ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ المؤمنون
64 یہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ (ظہور نتائج کی گھڑی سامنے آجائے) جب ہم ان کے خوش حال آدمیوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو پھر اچانک دیکھو گے کہ (سرکشی کی جگہ) آہ و زاری کر رہے ہیں۔ المؤمنون
65 اب آج آہ و زاری نہ کرو (اس سے کیا فائدہ؟) تم ہماری طرف سے مدد پانے والے نہیں۔ المؤمنون
66 ایک وقت تھا کہ ہماری آیتیں تمہارے آگے پڑھی جاتی تھیں اور تم الٹے پاؤں بھاگنے لگتے تھے۔ المؤمنون
67 تمہارے اندر ان (کی سماعت) سے گھمنڈ پیدا ہوجاتا تھا۔ تم اپنی مجلسوں کی داستاں سرائیوں میں انہیں مشغلہ بناتے، تم ان کے حق میں ہذیان بکتے تھے۔ المؤمنون
68 پھر (انہیں کیا ہوگا ہے؟) کیا انہوں نے اس بات پر (یعنی قرآن پر) غور نہیں کیا؟ یا ان کے سامنے کوئی ایسی عجیب بات آگئی ہے جو ان کے اگلے بزرگوں کے سامنے نہیں آئی تھی؟ المؤمنون
69 یا یہ اپنے رسول کو پہچان نہ سکے اس لیے منکر ہوگئے؟ المؤمنون
70 یا یہ کہتے ہیں اسے جنون ہوگیا؟ نہیں (ان میں سے کوئی بات نہیں ہوسکتی) اللہ کا رسول ان کے پاس سچائی کے ساتھ آیا مگر ان میں سے اکثروں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ سچائی کا ماننا انہیں گوارا نہیں ہے۔ المؤمنون
71 اور اگر ایسا ہوتا کہ سچائی ان کی خواہشوں کی پیروی کرتی تو یقینا آسمان و زمین اور وہ سب جو ان میں ہے یک قلم درہم برہم ہوجاتا، ہم نے ان کے لیے ان کی نصیحت کی بات مہیا کردی تو یہ اپنی نصیحت کی بات سے گردن پھیرے ہوئے ہیں۔ المؤمنون
72 (اے پیغمبر) کیا وہ سمجھتے ہیں تو ان سے مال و دولت کا طالب ہے؟ تیرے لیے تو تیرے پروردگار کا دیا مال ہی بہتر ہے (تو ان سے کیوں طالب زر ہونے لگا؟) وہی سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ المؤمنون
73 بلاشبہ یقینا تو انہیں (کامیابی و سعادت کی) سیدھی راہ کی طرف بلا رہا ہے۔ المؤمنون
74 اور جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ یقینا راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ المؤمنون
75 اور اگر ہم ان پر (مزید) رحم کریں اور جو کچھ انہیں دکھ پہنچتے رہتے ہیں دو ر کردیں تو (کیا یہ شکر گزار ہوں گے؟ نہیں) یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے وار زیادہ بڑھ چلیں گے۔ المؤمنون
76 اور (دیکھو) ہم نے انہیں عذاب میں مبتلا بھی کیا، اس پر بھی وہ اپنے پروردگار کے آگے نہ جھکے، اور نہ عاجزی کی۔ المؤمنون
77 پھر جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا کہ ہم ان پر ایک بڑے ہی سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں تو اس وقت اچانک متحیر ہو کر رہ جائیں گے۔ المؤمنون
78 اور (دیکھو) وہی ہے جس نے تمہارے (سننے کے) لیے کان، (دیکھنے کے لے) آنکھ (سوچنے کے لیے) دل پیدا کردیے، مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم شکر بجا لاؤ المؤمنون
79 اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین کی سطح پر ہر طرف پھیلا دیا ہے (اور گزران و معیشت کے مختلف سامان پیدا کردیے ہیں) اور پھر وہی ہے جس کے حضور اکٹھا کر کے لائے جاؤ گے۔ المؤمنون
80 اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے، اسی کی کارفرمائی ہے کہ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہتے ہیں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ المؤمنون
81 نہیں، انہوں نے تو ویسی ہی بات کہی جیسی ان سے پچھلے کہ چکے ہیں۔ المؤمنون
82 انہوں نے کہا جب ہم مرگئے اور ہڈیوں کا چورا ہوگئے تو پھر کیا ہم (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے؟ المؤمنون
83 ہم سے اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادوں سے ایسی ہی بات کا وعدہ ہوتا آیا ہے کچھ نہیں پچھلے عہدوں کے افسانے ہیں۔ المؤمنون
84 (اے پیغمبر) ان منکروں سے کہہ دے اچھا اگر تم جاتنے ہو تو بتلاؤ زمین اور وہ تمام مخلوقات جو اس میں ہیں کس کے لیے ہیں؟ المؤمنون
85 وہ فورا کہیں گے اللہ کے لیے، تو کہہ پھر کیا ہے تم غور نہیں کرتے؟ المؤمنون
86 تو ان سے پوچھ وہ کون ہے جو ساتوں آسمانوں کا پروردگار ہے؟ اور (جہانداری کے) عرش عظیم کا مالک ہے ؟ المؤمنون
87 وہ فورا کہیں گے یہ سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے تو کہ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ (شرک و انکار کے نتیجہ سے) ڈرتے نہیں؟ المؤمنون
88 تو ان سے پوچھ اگر تم جانتے ہو تو بتلا وہ کون ہے جس کے قبضہ میں تمام چیزوں کی بادشاہی ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور کوئی نہیں جو اس سے اوپر پناہ دینے والا ہو؟ المؤمنون
89 وہ فورا کہیں گے یہ صفتیں تو اللہ ہی کے لیے ہیں تو کہہ پھر یہ کیا ہے کہ تمہاری عقل ماری گئی؟ المؤمنون
90 حقیقت یہ ہے کہ ہم نے سچائی انہیں جتلا دی اور یہ اپنے (انکار و ادعا میں) قطعا جھوٹے ہیں۔ المؤمنون
91 نہ تو اللہ نے کسی ہستی کو اپنا بیٹا بنایا، نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہوسکتا ہے اگر ہوتا تو ہر معبود اپنی ہی مخلوق کی فکر میں رہتا اور ایک معبود دوسرے معبود پر چڑھ دوڑتا، اللہ کی ذات ان باتوں سے پاک ہے جو یہ اس کی نسبت بیان کرتے ہیں۔ المؤمنون
92 وہ غیب اور شہادت دونوں کا جاننے والا ہے (یعنی محسوسات اور غیر محسوسات سب کا جاننے والا ہے، اس کے لیے کوئی چیز غیر محسوس نہیں) انہوں نے جو کچھ شرک کی باتیں بنا رکھی ہیں وہ ان سب سے بالاتر ہے۔ المؤمنون
93 (اے پیغمبر) تو کہہ خدایا جن باتوں کا تو نے وعدہ کیا ہے اگر ان کا ظہور میرے سامنے ہونے والا ہے۔ المؤمنون
94 تو خدایا مجھے اس گروہ میں نہ رکھیو جو ظالم گروہ ہے۔ المؤمنون
95 اور ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ جن جن باتوں کا ان سے وعدہ کیا ہے انہیں (تیری زندگی ہی میں ظاہر کرکے) تجھے دکھا دیں۔ المؤمنون
96 (اے پیغمبر) برائی کو برائی سے نہیں بلکہ ایسے طرز عمل کے ذریعہ سے دور کر جو بہتر طرز عمل ہو (یعنی عفو و درگزر کر کے) ہم ان باتوں سے بے خبر نہیں جو یہ تیری نسبت کہتے رہتے ہیں۔ المؤمنون
97 تیری دعا (ہمارے حضور یہ) ہو کہ خدایا ! میں شیطانی وسوسوں سے تیرے دامنے میں پناہ لیتا ہوں۔ المؤمنون
98 میں اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ المؤمنون
99 ان منکروں کا حال ایسا ہی رہے گا، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سرہانے موت آکھڑی ہوگی تو اس وقت کہنے لگے گا۔ خدایا مجھے پھر (دنیوی زندگی میں) لوٹا دے۔ المؤمنون
100 کہ زندگی کے جو موقعے میں نے کھو دیے شاید (اس دفعہ) ان میں نیک کام کرسکوں۔ حکم ہوگا ہرگز نہیں، یہ محض ایک کہنے کی بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اب ایسا ہونے ولا انہیں ان لوگوں کے (مرے) پیچھے ایک آڑ ہے جو اس دن تک رہے گی کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں۔ المؤمنون
101 پھر جب وہ گھڑی آجائے گی کہ نر سنگا پھونکا جائے (یعنی تمام انسانی ہستیوں کو دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے اور اکٹھا ہوجنے کا حکم ہو) تو اس دن نہ تو ان لوگوں کی باہمی رشتہ داریاں باقی رہیں گے نہ کوئی ایک دوسرے کی بات ہی پوچھے گا۔ المؤمنون
102 اس دن جن لوگوں (کے نیک عملوں) پلہ بھاری نکلا بس وہی ہیں جو کامیابہوں گے۔ المؤمنون
103 اور جن کا پلہ ہلکا ہوا تو وہی ہیں جنہوں نے اپنے کو بربادی میں ڈال دیا، ہمیشہ جہنم میں رہنے والے۔ المؤمنون
104 آگ کے شعلوں کی لپٹ ان کے چہروں کو جھلستی ہوگی، وہ ان میں منہ بگاڑے پڑے ہوں گے۔ المؤمنون
105 کیا ایسا نہیں ہوچکا ہے کہ میری آیتیں تمہارے آگے پڑھی جاتی تھیں اور تم انہیں جھٹلاتے رہتے تھے؟ (ان سے یہ بات کہی جائے گی) المؤمنون
106 وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! دراصل ہماری بدبختی ہم پر چھا گئی تھی۔ ہمارا گروہ گمراہوں کا گروہ تھا۔ المؤمنون
107 اب ہمیں اس حالت سے نکال دے، اگر ہم پھر ایسی گمراہی میں پڑیں تو بلاشبہ نافرمان ہوئے۔ المؤمنون
108 اللہ فرمائے گا جہنم میں جاؤ اور زبان نہ کھولو۔ المؤمنون
109 ہمارے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہتا تھا خدایا ہم ایمان لے آئے۔ پس ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تجھ سے بہتر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ المؤمنون
110 لیکن تم نے انہیں اپنے تمسخر کا مشغلہ بنا لیا تھا یہاں تک کہ اس مشغلہ نے ہماری یاد بھی بھلا دی تھی، تم ان لوگوں کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے۔ المؤمنون
111 آج دیکھو ہم نے انہیں ان کے صبر کا بدلہ دے دیا، وہی ہیں جو فیروز مند ہوئے۔ المؤمنون
112 ان سے کہا جائے گا تمہیں خیال ہے زمین میں کتنے برس تک رہے۔ المؤمنون
113 وہ کہیں گے بس ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ حصہ (ہمیں ٹھیک وقت کا اندازہ نہی) ان سے پوچھو جو گنتے رہے ہیں۔ المؤمنون
114 ان سے کہا جائے گا ہاں تمہارا زمین میں رہنا اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک بہت ہی تھوڑے زمانہ کا رہنا۔ کاش تم نے یہ بات جانی ہوتی۔ المؤمنون
115 کیا تم خیال کرتے ہوہم نے تمہیں بیکار کو پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹنے والے نہیں؟ المؤمنون
116 اللہ کہ پادشاہ حقیقی ہے ایسی بات کرنے سے پاک و بلند ہے، وہ کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر اسی کی ایک ذات، جہانداری کے تخت عزت کا مالک۔ المؤمنون
117 اور جو کوئی اللہ کے سوا کسی دوسرے (من گھڑت) معبود کو پکارتا ہے تو اس کے پاس اس کے لیے کوئی دلیل نہیں، اس کے پروردگار کے حضور اس کا حساب ہوتا ہے۔ یقینا کفر کرنے والے کبھی کامیابی نہیں پائیں گے۔ المؤمنون
118 اور (اے پیغمبر) تو کہہ خدایا مجھے بخش دے رحم فرما تجھ سے بڑھ کر کوئی رحم کرنے والا نہیں۔ المؤمنون
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النور
1 یہ ایک سورت ہے (١) جو ہم نے اتاری اور اس کے احکام لازمی ٹھہرا دیے تو اس میں (احکام حق) واضح نشانیاں اتاریں تاکہ تم لوگ نصیحت پکڑو (٢)۔ النور
2 اگر عورت اور مرد زناکریں تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو تازیانوں کی سزا دو۔ اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہو کہ (قانون الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے) ان (مجرموں) کے لیے نرمی اور مہربانی کا جذبہ تمہارا ہاتھ پکڑے۔ نیز چاہیے کہ سزا دیتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موقع پر موجود رہے (یعنی علانیہ سزا دی جائے) (٣)۔ النور
3 زنا کرنے والا مرد زنا کرنے والی عورت، یا مشرک عورت ہی سے رشتہ جوڑے گا اسی طرح زنا کرنے والی عورت زنا کرنے والے مرد یا مشرک مرد ہی سے رشتہ جوڑے گی۔ (مگر یاد رکھو) مومنوں پر ایسے علاقے حرام کردیے گئے ہیں (٤)۔ النور
4 اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر (ثبوت میں) چار گواہ نہ لاسکیں تو انہیں اسی تازیانوں کی سزا دو اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ایسے ہی لوگ ہیں جو پکے فاسق ہوئے (٥) النور
5 ہاں جن لوگوں نے اس (بدعملی) کے بعد توبہ کرلی اور اپنی زندگی سنوار لی تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ النور
6 جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کا عیب لگائیں اور خود ان کے سوا ان کا کوئی گواہ نہ ہو، تو ایسے مدعیوں میں سے ہر ایک کی گواہی یہ ہوگی کہ پہلے چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھیرا کرقسم کھائے کہ وہ ضرور اپنے بیان میں سچا ہے۔ النور
7 پھر پانچویں مرتبہ کہے اگر میں جھوٹاہوں تو مجھ پر اللہ کی پھٹکار۔ النور
8 اور اگر (شوہر کے قسم کھانے کے بعد) عورت بھی چار مرتبہ اللہ کو گواہ ٹھہرا کر قسم کھائے کہ یہ آدمی اپنے بیان میں سرتاسر جھوٹا ہے۔ النور
9 اور پانچویں مرتبہ کہہ دے اگر یہ اپنے بیان میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب پڑے (اس صورت میں) عورت کے سر سے سزا ٹل جائے گی۔ النور
10 اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارا ساتھ نہ دیتی اور ایسا نہ ہوتا کہ وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے (تو غور کرو تمہارا کیا حال ہوتا؟) (٦) النور
11 (مسلمانو) جن لوگوں نے اصلیت الٹ پلٹ کر (٧) ایک جھوٹی بات تراش لی وہ تم ہی میں سے ایک جتھا ہے (٨) یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے حق میں برا ہوا، نہیں اس میں تمہارے لیے بہتری ہی ہوئی (٩) ان جھوتی بات تراشنے والوں میں سے ہر ایک کو وہ نتیجہ ضرور پانا ہے جو اس نے اپنے گناہ کی کمائی سے سمیٹ لیا۔ ان میں سے جس کسی نے اس جھوٹ ہنگامے میں نمایاں حصہ لیا ہے اور اس کا اہتمام کیا ہے اس کے لیے بڑا ہی سخت عذاب ہے (١٠)۔ النور
12 جب تم نے ایسی (نالائق) بات سنی تھی تو کیوں یہ بات بھول گئے کہ مومن مردوں اور عوروتوں کو ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ نیک گمان رکھنا چاہیے؟ کیوں تم نہ بول اٹھے کہ یہ تو صریح گھڑی ہوئی جھوٹی بات ہے (١)۔ النور
13 (اگر اس بات کی کچھ بھی اصلیت تھی تو) کیوں اس پر چار گواہ نہیں لائے؟ جب گواہ نہ لاسکے تو ثابت ہوگیا یہی لوگ ہیں جو اللہ کے نزدیک قطعا جھوٹے ہیں۔ النور
14 (مسلمانو) اگر ایسا نہ ہوتا کہ تم کو دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل مہلتوں پر مہلتیں دیتا ہے اور آخرت میں اس کی رحمت بخشنے والی ہے، تو جس بات کے پیچھے تم پڑگئے تھے، اس کی وجہ سے ضرور تمہیں کوئی سخت عذاب آلگتا ہے۔ النور
15 تم یہ بات (بے سوچے سمجھے) ایک دوسرے سے نقل کرنے لگے۔ تم اپنے منہ سے ایسی بات نکالنے لگے جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہ تھا۔ تم نے اسے ایک ہلکی سی بات سمجھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی ہی سخت بات تھی۔ النور
16 جب تم نے ایسی نالائق بات سنی تھی تو کیوں نہ بول اٹھے، ہمیں زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے نکالیں، خدایا۔ تیرے لیے پاکی ہو یہ تو بڑا ہی سخت بہتان ہے۔ النور
17 اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے اگر تم مومن ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا (١١)۔ النور
18 وہ (حق کی) نشانیاں تم پر واضح کردیتا ہے وہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔ النور
19 جولوگ پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں شرمناک برائیوں کا چرچا پھیلے ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہوگا اور آخرت میں بھی۔ یادرکھو اللہ سب کچھ جانتا ہے، تم کچھ نہیں جانتے (١٢) النور
20 اور (پھر دیکھو کیا ہوا) اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا، اگر اس کی رحمت چارہ سازی نہ فرماتی، اگر ایسا نہ ہوتا کہ وہ بڑاہی شفقت رکھنے والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔ النور
21 مسلمانو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، جو کوئی اس کے قدم بقدم چلا تو (وہ جان رکھے) شیطان اسے شرمناک برائیوں اور ناپسندیدہ کاموں ہی کی راہ چلائے گا، اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہیں اپنے سایہ میں نہ لے لیتی تو تم میں ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلتا جو کسی حال میں بھی پاک وصاف ہوسکتا۔ مگر ہاں اللہ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے۔ وہ (سب کچھ) سننے والا (سب کچھ) جاننے والا ہے۔ النور
22 اور (دیکھو) تم میں جو لوگ بزرگی رکھنے والے اور صاحب مقدرت ہیں وہ ایسا نہ کریں کہ رشتے داروں، مسکینوں اور راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں۔ انہیں چاہیے کہ ان کے قصور بخش دیں (اور ان کی کوتاہیوں سے) در گرزکریں۔ کیا تم نہیں چاہتے اللہ تمہارے قصور بخش دے؟ اللہ تو بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے (١٣) النور
23 جو لوگ پاک دامن عورتوں پر، کہ ایسی باتوں سے محض بے خبر ہیں اور اللہ پر ایمان رکھتی ہیں، تہمت لگاتے ہیں تو (یاد رکھو) ایسے لوگوں پر دنیا اور آخرت دونوں میں پھٹکار پڑی ور انہیں ایک بڑے ہی سخت عذاب سے دوچار ہونا ہے۔ النور
24 اس دن (ان کا کیا حال ہوگا) جب کہ ان کے خلاف خود ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ ان کرتوت کیسے کچھ رہ چکے ہیں۔ النور
25 اس دن اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کاپورا پورا بدلہ انہیں دے گا، ایسا بدلہ جو ٹھیک ٹھیک انہیں ملنا چاہیے۔ پھر اس دن وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی کی ہستی سچائی ہے بے پردہ آشکارا سچائی۔ النور
26 گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہوئیں، گندے مرد گندی عورتوں کے لیے پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے (ایسا نہیں ہوسکتا کہ گندگی اور پاکی ایک دوسرے سے میل کھائیں) ایسے پاک افراد ان باتوں سے مبرا ہیں جو لوگوں نے ان کے بارے میں کہی ہیں، ان کے لیے (آخڑت میں) بخشش ہے اور (دنیا می) عزت کی معیشت (١٤)۔ النور
27 مسلمانو اپنے گھر کے سوا کسی دوسرے کے گھر میں اس وقت تک قدم نہ رکھو، جب تک حال معلوم نہ کرلو (یعنی اجازت نہ لے لو) اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو۔ اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اور یہ اس لیے کہ تم غفلت میں نہ پڑو (١٥)۔ النور
28 پھراگر (ایسا ہو کہ) گھر میں کسی کو نہ پاؤ (یعنی کوئی جواب نہ ملے یا تمہیں معلوم ہو کہ گھر خالی ہے) تو جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے اس میں قدم نہ رکھو، اور اگر تمہیں جواب ملے، لوٹ جاؤ (یہ ملنے کا موقع نہیں) تو بلاتامل لوٹ جاؤ اس طرح لوٹ آنا تمہارے لیے زیادہ پاک نفسی کی بات ہوگی۔ اور (یاد رکھو) تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں۔ النور
29 اگر ایک مکان غیر آباد ہے اور اس سے تمہیں کچھ فائدہ اٹھانا ہے تو کوئی گناہ کی بات نہیں اگر ایسے مکان میں (بغیر قاعدہ اجازت کے) چلے جاؤ یادرکھو تم جو کچھ کھلم کھلا کرتے ہو اور جو کچھ چھپا کر کرتے ہو سب کچھ اللہ جان رہا ہے (١٦) النور
30 اے پیغمبر مسلمان مردوں سے کہہ دے (عورتوں کے سامنے آئیں تو) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی نگہداشت سے غافل نہ ہوں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاک نفسی کا طریقہ ہوگا۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے علم سے پوشیدہ نہیں (١٧)۔ النور
31 اور اسی طرح مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دے (مردوں کے سامنے آئیں تو) نگاہیں نیچی رکھیں، اپنے ستر کی نگہداشت سے غال نہ ہوں اور اپنا بناؤ چناؤ لوگوں کو نہ دکھائیں مگر ہاں اسی قدر جو (لازمی طور پر) دیکھنے میں آتا ہے۔ اپنے سینوں پر اوڑھنی کاپلا ڈالے رہیں اپنا بناؤ چناؤ صرف اپنے شوہروں ہی کے سامنے کھلا رکھیں یا پھر باپ ہو، خسر ہو، بیٹا ہو، شوہر کالڑکا ہو، بھائی ہو، بھتیجا ہو، بھانجا ہو، خاندان کی عورتیں ہوں۔ یا لونڈی غلام ہوں، گھر کے ایسے خادم ہوں جنہیں (عورتوں کی) کوئی طلب نہیں (یعنی بوڑھے خدمت گار) کم سن لڑکے ہوں جوابھی عورتوں کے پردے کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے نیز (راہ میں چلتے ہوئے) اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ زینت کی چیزیں اندر پہنے ہوئے ہیں ان سے لوگ باخبر ہوجائیں (یعنی پازیب کی جھنکار نہ اٹھے) اور مسلمانوں (اصل کام تو یہ ہے) کہ تم سب (خواہ مرد ہو خواہ عورت) اللہ کے حضور اپنی لغزشوں اور غفلتوں سے) توبہ کرو تاکہ (دین ودنیا میں) کامیاب ہو (١٨) النور
32 اور تم میں جو عورتیں بغیر شوہر کے ہوں (١٩) انہیں بٹھائے نہ رکھو) ان کا نکاح کردو۔ اور تمہارے زیردستوں میں (یعنی لونڈی غلاموں میں) جونیک چلن ہوں ان کا بھی نکاح کردو اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں تونگر کردے گا اللہ تو بڑی وسعت رکھنے والا (سب کچھ) جاننے والا ہے (٢٠)۔ النور
33 اور جو لوگ نکاح کا مقدور نہیں رکھتے انہیں چاہیے، ضبط کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں صاحب مقدور کردے۔ اور تمہارے زیر دستوں (یعنی غلاموں) میں سے جو لوگ آزادی کانوشتہ چاہیں اور تم دیکھو ان میں اس کی صلاحیت بھی ہے تو ان سے نوشتے کا معاملہ ضرور کرلو۔ اور چاہیے کہ اللہ کے مال میں سے جو اس نے دے رکھاے ان کی مدد بھی کرو۔ اور اپنی لونڈیوں کو جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں محض دنیا کے فائدے کے لیے مایوس نہ ہوں اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے (٢١) النور
34 (مسلمانو) ہم نے تمہارے لیے کھلے کھلے احکام نازل کردیے اور تم سے پہلے جو لوگ گزر چکے ہیں ان کی مثالیں بیان کردیں نیز ایسی باتیں بھی جن میں پرہیزگاروں کے لیے سرتاسر نصیحت ہے (٢٢)۔ النور
35 اللہ کی ہستی آسمان اور زمین کی روشنی ہے اس کی روشنی کی مثال ایسی سمجھو جیسے ایک قندیل ہے (٢٣) قندیل میں چراغ، چراغ شیشے کا کنول اس درجہ صاف وشفاف جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ، زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے اسے روشن کیا گیا (اس روشنی) نہ تو یورپ کے رخ (ہوئی) نہ پچھم کی طرف، تیل کی صفائی کایہ حال کہ اگر آگ نہ چھوئے، جب بھی معلوم ہو، آپ ہی آپ روشن ہوجائے گا، گویا ایک روشنی پر دوسری روشنی ہوئی، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ پر لگا دیتا ہے (٢٤) اور وہ لوگوں کے سمجھنے بوجھنے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ١؎۔ النور
36 ان گھروں میں جن کے لیے اللہ نے حکم دیا کہ بلند کیے جائیں اور ان میں اس کا نام لیاجائے لوگ صبح وشام اس کی تسبیح میں زمزمہ سنج رہتے ہیں (٢٥۔؎ ٢)۔ النور
37 ایسے لوگ جنہیں کوئی دھند اس کی یاد سے اور نماز کے اہتمام اور زکوۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرسکتا نہ تو سوداگری کا کاروبار، نہ جنس ومال کی بکری، وہ اس (آنے والے دن سے ڈرتے ہیں جس کی ہولناکی سے دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پھری کی پھری رہ جائیں گی۔ النور
38 (وہ یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟) اس لیے کہ اللہ انہیں ان کے کاموں کا بہتر سے بہتر بدلہ دے (اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے فض (رح) سے ان کا اجر اور زیادہ کردے وہ جسے دینا چاہتا ہے بے حساب دے دیتا ہے۔ النور
39 مگر جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو (ان کا حال دوسرا ہے) ان کے کاموں کی مثال ایسی ہے جیسے ریگستان میں نظر کا دھوکا (٢٦) کہ پیاسا اسے پانی سمجھ کر دوڑے، مگر جب پاس پہنچے تو کچھ بھی نہ پائے ہاں اللہ کو اپنے پاس موجود پائے جو اس (کی سعی لاحاصل) کاپورا پورا حساب چکا دیتا ہے اور وہ حساب چکانے میں بڑا ہی تیز ہے (٢٧۔؎ ١)۔ النور
40 یا پھر ان کی مثال ایسی سمجھو جیسے گہرے سمندر کی اندھیری اور سمندر کو لہروں (کی چادر) نے ڈھانک رکھا ہو، ایک لہر کے اوپر دوسری لہر۔ اور لہروں کے اوپر بادل چھایا ہوا، گویاتاریکیاں ہی تاریکیاں ہوئیں، ایک تاریکی پر دوسری تاریکی، آدمی اگر خود اپنا ہاتھ نکالے تو امید نہیں کہ سجھائی دے۔ اور جس کسی کے اللہ ہی نے اجالانہیں کیا تو پھر اس کے لیے روشنی میں کیا حصہ ہوسکتا ہے (٢٨)۔ النور
41 کیا تم نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ آسمان وزمین میں جتنی مخلوقات ہیں سب اللہ کی تسبیح میں سرگرم ہیں، پرندے بھی جو اپنے پر کھولے ہوئے (فضا میں اڑتے رہتے ہیں) سب نے اپنی اپنی عبادت وتسبیح کا طریقہ جان لیا ہے (اور سب اس پر کاربند ہیں) اور وہ جو کچھ کرتے رہتے ہیں اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں (٢٩)۔ النور
42 اور آسمان وزمین کی ساری بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ النور
43 کیا تم نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ یہ اللہ ہے جو ابر کی چادروں کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے (٣٠) پھر انہیں آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ پھر انہیں اس طرح کردیتا ہے کہ ایک تہ دوسری تہ پر چڑھ جاتی ہے اور سب مل جل کر ایک ہوجاتے ہیں (٣١) پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر سے پانی کے قطرے نکل رہے ہیں ( اور مینہ کا سماں بندھ گیا ہے) اس طرح آسمان سے ٹھنڈک کے (٣٢) پہاڑ اتارتا ہے (یعنی برف گرتی ہے اور پہاڑوں کی طرح اس کے تودے جم جاتے ہیں) پھر جس کو چاہتا ہے اس کا اثر پہنچا دیتا ہے جس کسی سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے اور اس عالم میں بجلی کی چمک کایہ حال ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بس اب آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں (٣٣) النور
44 (مگر) وہ رات اور دن کا الٹ پھیر کرتا رہتا ہے (اس لیے کوئی حالت بھی یہاں یکساں نہیں رہتی) بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے بڑی ہی عبرت ہے جو صاحب بصیرت ہیں (٣٤)۔ النور
45 اور (پھردیکھو) یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمام جانداروں کو پانی سے پیدا کیا اور ان میں کچھ ایسے ہوئے ہیں جو پیٹکے بل چلتے ہیں کچھ ایسے ہوئے ہیں دو پاؤں پر چلتے ہیں کچھ ایسے جو چار پاؤں سے چلے۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں (٣٥) النور
46 بلاشبہ ہم نے ایسی آیتیں نازل کردی ہیں جو (حقیقت حال) روشن کردینے والی ہیں اور اللہ جسے چاہتا ہے (کامیابی کی سیدھی راہ دکھا دیتا ہے (٣٦)۔ النور
47 اور (دیکھو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس کی اطاعت کی۔ پھر یہ سب کچھ کہہ دینے کے بعد انہی میں ایک فریق ہے جو (اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے) رخ پھیر لیتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ سرے سے مومن ہی نہیں ہوئے (٣٧)۔ النور
48 اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے کہ ان کے درمیان فیصلہ کردیا جائے تو (دیکھو) اچانک ان میں ایک فریق نکلتا ہے جو یک قلم رخ پھیرے ہوئے ہے۔ النور
49 اور اگر کوئی معاملہ ایسا ہوتا ہے جس میں حق ان کے ساتھ ہوتا ہے تو پھر (کبھی رخ نہیں پھیرتے اور) اللہ کے رسول کے پاس سرجھکائے دوڑے چلے آتے ہیں۔ النور
50 کیا ان لوگوں کو روگ لگ گیا ہے؟ کیا وہ شک میں پڑگئے ہیں؟ کیا انہیں اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کارسول ان کے بارے میں زیادتی کربیٹھے؟ نہیں، اصل یہ ہے کہ خود یہی جو انصاف کا خون کرنے والے ہیں۔ النور
51 مومنوں کی شان تو یہ ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف فیصلے کے لیے بلائے جائیں، تو ان کا جواب اس کے سوا کچھ نہ ہو کہ ہم نے حکم مانا، یقینا ایسے ہ لوگ ہیں جو (دنیا وآخرت میں) کامیاب ہوئے (٣٨)۔ النور
52 اور (یاد رکھو) جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کی، اللہ سے ڈرا اور پرہیزگاری کی راہ چلاتوبس ایسے لوگ ہیں جو اپنی مراد کو پہنچے۔ النور
53 اور اے پیغمبر ان لوگوں نے (یعنی منافقوں نے) بڑی سخت قسمیں کھاکھا کر کہا (ہم تو آپ کے فرمانبردار ہیں) اگر حکم دیجئے تو ابھی (گھر بار چھوڑ کر) نکل کھڑے ہوں، ان لوگوں سے کہیے قسمیں نہ کھاؤ (اس سے کچھ نہیں بنتا) اصلی بات جو مطلوب ہے وہ تو اطاعت ہے سمجھی بوجھی ہوئی اطاعت (٣٩) نہ کہ زبان کی قسمیں، تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے (٤٠)۔ النور
54 نیز کہہ دے، اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو (ایمان کی راہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی)۔ اور اگر تم روگردانی کی تو (اس کا نتیجہ خود تم ہی کو بھگتنا ہے) جوذمہ داری رسول کے سر ڈالی گئی ہے اس کی جواب دہی اس کے سر ہے جو ذمے داری تم پر عائد ہوگئی ہے اس کے لیے جواب دہ تم ہو۔ اگر اس کی اطاعت کرو گے (٤١) راہ پاؤ گے اور اللہ کے رسول کے ذمے تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ (پیام حق) صاف صاف پہنچا دے۔ النور
55 جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں اور ان کے عمل بھی اچھے ہیں ان سے اللہ کا وعدہ ہوا کہ زمین کی خلافت انہیں عطا فرمائے گا (٤٢) اسی طرح جس طرح ان لوگوں کو دے چکا ہے جوان سے پہلے گزر چکے ہیں نیزا یسا بھی ضرور ہونے والا ہے کہ ان کے دین کو کہ ان کے لیے پسند کرلیا گیا ہے ان کے لے جمادے اور خوف وخطر کی زندگی کو امن وامان کی زندگی سے بدل دے وہ (بے خوف وخطر) میری بندگی میں لگے رہیں گے اور میرے ساتھ کسی ہستی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے پھر جو کوئی اس کے بعد ناشکری کرے تو ایسے ہی لوگ ہیں جو نافرمان ہوئے۔ النور
56 اور چاہیے کہ نماز کا اہتمام کرو، زکوۃ ادا کرنے میں سرگرم رہو اور اللہ کے رسول کا کہا مانو، کچھ بعید نہیں کہ رحمت الٰہی کے سزاوار ہو۔ النور
57 اے پیغمبر) ایسا خیال نہ کرنا کہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ ایسے ہیں خہ اس سرزمین میں سب کو عاجز کردیں، نہیں انہیں خود ایک دن سچائی کے آگے عاجز ہو کر گرنا ہے) بالاآخر) ان کاٹھکانہ دوزخ ہے، ٹھکانا پانے کی کیا ہی بری جگہ۔ النور
58 مسلمانو ! جو آدمی تمہارے زیر دست ہیں (یعنی لونڈی غلام) اور جو تم میں ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے انہیں چاہیے کہ ان تین وقتوں میں تمہارے پاس آئیں تو اجازت لے کرآئیں، صبح کی نماز سے پہلے، دوپہر کے وقت جب (آرام کرنے کی لیے) کپڑے اتار دیا کرتے ہو، نماز عشاء کے بعد۔ یہ تین وقت تمہارے پردے کے وقت ہوئے۔ ان وقتوں کے سواباقی وقتوں میں کوئی گناہ کی بات نہیں نہ تو تمہارے لیے نہ ان کے لیے، ان کا تمہارے پاس برابر آنا جانارہتا ہے تم میں سے ایک کو دوسرے کے پاس آنے کی ضرورت لگی رہتی ہے۔ تو (دیکھو) اس طرح اللہ کھول کھول کراحکام بیان کردیتا ہے (٤٣) وہ سب کچھ جاننے والا اور اپنے کاموں میں حکمت والا ہے۔ النور
59 اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ جس طرح ان سے بڑے اجازت لے کر داخل ہوا کرتے ہیں، اسی طرح وہ بھی اجازت لے کرداخل ہوں۔ اس طرح اللہ کھول کھول کراحکام بیان کردیتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا،(اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے (٤٤)۔ النور
60 اور بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی اب امید نہیں رہی، اگر اپنے (اوپر کے) کپڑے (یعنی ادروغیرہ) اتاردیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں، بشرطیکہ اپنے بناؤ، چناؤ کا دکھاوامنظور نہ ہو۔ اور اگر اس سے بھی احتیاط رکھیں تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر بات ہوگی اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ النور
61 اگر ایک آدمی اندھاہو، یالنگڑ ہوا یابیمار ہو تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں، اور خود تمہارے لیے بھی کوئی حرج نہیں کہ اپنے گھر سے کھانا کھاؤ یا اسیے گھروں سے کھاؤ جو تمہارے باپ ماں، بھائی، بہن چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ کے گھر ہوں، یا ان لوگوں کے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہوئیں یا دوستوں کے گھر ہوں اور اس میں بھی کوئی گناہ کی بات نہیں کہ تم سب مل کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ (٤٥)۔ پھر جب ایسا ہو کہ تم کسی گھر میں داخل ہوتوچاہیے کہ اپنے لوگوں پر سلام بھیجو ایک دعا جو اللہ کی طرف سے ٹھہرا دی گئی، مبارک اور پاکیزہ۔ اس طرح اللہ اپنے احکام کھول کھول کر بیان کردیتا ہے تاکہ تم سمجھو بوجھو۔ النور
62 سچے مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور اگر کسی ایسے کام میں جو لوگوں کے اکٹھے ہونے کا کام ہے، اللہ کے رسول کے ساتھ ہوت ہیں تو کبھی اٹھ کر نہیں جاتے جب تک اس سے اجازت نہیں لے لیتے۔ (اے پیغمبر) جو لوگ ایسے موقعوں پر تجھ سے اجازت لینی چاہتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول کے سچے مومن ہوئے پس جب ایسے لوگ اپنے کسی ضروری کام کے لیے اجازت مانگیں تو جسے اجازت دینی مناسب سمجھے، دے دیا کر، اور اللہ کے حضور اس کے لیے بخشش کی دعا کر، بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔ النور
63 مسلمانو۔ جب پیغمبر اسلام تم میں سے کسی کو بلائیں تو ان کے بلانے کو آپس میں ایسی (معمولی) بات نہ سمجھو، جیسے تم میں سے ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلایا کرتا ہے، اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو (مجمع سے) چھپ کرکھسک جاتے ہیں۔ حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو، ان پر کوئی آفت آپڑے یادردناک عذاب سے دوچار ہوں (٤٦)۔ النور
64 سن رکھو ! آسمان وزمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے تم جیسی کچھ چال چل رہے ہو، جس دن یہ لوگ اللہ کے حضور لوٹا کر لائے جائیں گے، اس دن وہ انہیں بتا دے گا کہ ان کے کام کیسے کچھ رہ چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم سے تو کوئی چیز بھی باہر نہیں۔ النور
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الفرقان
1 کیا ہی پاک اور برکتوں کاسرچشمہ ہے ذات اس کی، جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل کی تاکہ وہ دنیا جہان کے لیے ڈرانے والا ہوا الفرقان
2 وہی خدا جو آسمانوں اور زمین کا بادشا جہاندار ہے اور جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور جس کی جہانداری میں کوئی شریک نہیں اور اس نے تمام چیزیں پیدا کیں پھر ہر چیز کے لیے اس کی ضرورت اور حالت کے مطابق ایک اندازہ ٹھہرا لیا (١)۔ الفرقان
3 اور لوگوں نے اللہ کے سوا ایسے معبود ٹھہرا لیے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور جو اپنے لیے کسی قسم کے نفع وضرر کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ کسی کی موت اور نہ زندگی اور نہ مرنے کے بعددوبارہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتے ہیں الفرقان
4 کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن اختراع ہے خدا کی طرف سے نہیں، محمد نے خود گھڑا ہے اور کچھ دورے لوگوں نے اسے مدددی ہے (اور یہ کافر بڑے ہی ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں الفرقان
5 اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو پہلو کی کہانی ہے جسے محمد نے لکھ لیا ہے اور صبح وشام اسے پڑھ کرسنایا جاتا ہے (٢)۔ الفرقان
6 آپ کہہ دیجیے، اس قرآن کو تو اس اللہ نے نازل فرمایا ہے جو آسمانوں اور زمین میں تمام پوشیدہ (باتوں کو) جانتا ہے بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے (٣)۔ الفرقان
7 کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا ہے ؟ اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو اس کے پاس رہ کر لوگوں کو ڈراتا؟ الفرقان
8 یا اس کی طرف کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتا یاس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے وہ کھایا کرتا، اور ظالم کہتے ہیں تم ایک سحرزدہ آدمی کے پیچھے لگے ہو الفرقان
9 اے پیغمبر ذرا دیکھیے تو یہ لوگ آپ کے سامنے کیسی باتیں بیان کرتے ہیں سویہ لوگ گمراہ ہوگئے اور اب یہ کوئی راستہ نہیں پاسکتے (٤)۔ الفرقان
10 وہ ذات بڑی بابرکت ہے کہ وہ اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی آپ کو بہتر چیزیں عطا کردے اور آپ کو باغات عطا کردے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں اور آپ کو بڑے بڑے محل دے دے (٥)۔ الفرقان
11 اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کے منکر ہیں، اور جو بھی قیامت کا منکر ہیں ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کررکھی ہے الفرقان
12 ) جب وہ آگ ان کو دور سے دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آواز سنیں گے الفرقان
13 اور جب یہ کافر ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے دوزخ کی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے الفرقان
14 کہاجائے گا) تم آج ایک موت کونہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو الفرقان
15 آپ ان سے کہیے کیا یہ دوزخ عذاب اچھا ہے یا وہ دائمی جنت اچھی ہے جس کا متقی اور پرہیزگار لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے؟ الفرقان
16 جس میں جس چیز کی وہ خواہش کریں گے ان کے لیے موجود ہوگی، وہ اس حالت میں ہمیشہ رہیں گے یہ آپ کے رب کے ذمے ایک واجب الایفا وعدہ ہے الفرقان
17 اور یہ وہی دن ہوگا جب کہ اللہ انکو اور ان کے معبدوں کو جن کی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں یکجا جمع کرلے گا پھر ان معبودوں سے پوچھے گا، کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے؟ الفرقان
18 وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے ہماری یہ مجال نہ تھی کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو مددگار بناتے، مگر تو نے ان کو اور ان کے آباء اجداد کو ہر قسم کی آسودگی سے بہرہ مند کیا حتی کہ یہ تیری یاد کو بھول گئے اور یہ خود ہی ہلاک ہونے والے لوگ تھے الفرقان
19 اس طرح وہ معبود تمہاری باتوں کو جھٹلادیں گے پھر تم نہ تو عذاب کو اپنے سے ٹال سکو گے اور نہ کسی سے مدد پاسکو گے اور جو بھی تم میں سے ظلم (شرک) کا مرتکب ہوگا ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے الفرقان
20 اے نبی ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں وہ سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے، اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ہے کیا تم صبر کرتے ہو؟ اور آپ کارب سب کچھ دیکھ رہا ہے الفرقان
21 اور جو لوگ ہمارے روبرو پیش ہونے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے؟ یا پھر ہم اپنے رب کوہی دیکھیں، بلاشبہ انہوں نے یہ کہہ کر اپنے اندر گھمنڈ پیدا کیا اور بڑی سخت درجے کی سرکشی کی ہے الفرقان
22 جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس روز گناہ گاروں کے لیے کوئی خوشی نہ ہوگی اور یہ کہیں گے ہمارے اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ ہوجائے (٦)۔ الفرقان
23 اور ہم ان کے اعمال کی جانب متوجہ ہوں گے پھر ان کو اڑتا ہوا غبار بنادیں گے الفرقان
24 اہل جنت اس روز قیام گاہ کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں گے اور آرام گاہ کے اعتبار سے بھی الفرقان
25 اور جس دن آسمان بادل کے ٹکڑے پر پھٹ جائے گا اور فرشتے جوق درجوق اتارے جائیں گے الفرقان
26 اس دن کسی کی بادشاہت باقی نہ رہے گی صرف خدائے رحمن کی حکومت ہوگی اور یادرکھو کہ وہ دن کافروں کے لیے بہت ہی سخت ہوگا الفرقان
27 اس روز ظالم اپنے ہاتھ چبائے گا کہے گا کاش میں نے رسول کے ساتھ صحیح راہ اختیار کی ہوتی الفرقان
28 ہائے افسوس کیا اچھا ہوتا میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا الفرقان
29 اس نے مجھے نصیحت کے قبول کرنے سے بہکا دیا، اس کے بعد کہ وہ میرے پاس پہنچ چکی تھی اور شیطان تو وقت پڑنے پر انسان کو تنہا چھوڑ کرالگ ہوجاتا ہے الفرقان
30 اور (قیامت کے دن) رسول عرض کریں گے پروردگار (افسوس ہے) کہ میری امت نے قرآن (کی ہدایتوں اور تعلیموں پر عمل نہ کیا اور اس قرآن) سے رشتہ کاٹ لیا (اسی کا نتیجہ جو آج بھگت رہے ہیں الفرقان
31 ) اے نبی جس طرح یہ کافر آپ کے دشمن ہیں) اس طرح ہم نے مجرموں کوہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور آپ کا پروردگار ہی ہدایت اور مدد کو کافی ہے الفرقان
32 اور یہ کافر کہتے ہیں، اس نبی پر سارا قرآن ایک ہی مرتبہ کیوں نہ نازل کیا گیا، ہاں ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس ذریعے سے ہم آپ کے دل کو مضبوط کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس قرآن کو خاص ترتیب سے نازل کیا (٧)۔ الفرقان
33 اور یہ لوگ جب بھی تمہارے سامنے کوئی انوکھا سوال پیش کرتے ہیں ہم اس کاٹھیک اور نہایت شرح کے ساتھ جواب دے دیتے ہیں الفرقان
34 یہ وہ لوگ ہیں جواوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے، یہ لوگ باعتبار مرتبہ بہت برے اور باعتبار راہ کے بہت بھٹکے ہوئے ہیں الفرقان
35 بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے بھائی ہارون کو ان کے ساتھ وزیر مقرر کیا الفرقان
36 پھر ان سے کہا جائے گا کہ تم دونوں اس قوم کے پاس جاؤ جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے، بالاآخر ہم نے ان کو تباہ کردیا الفرقان
37 اور قوم نوح کو بھی جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلای، ہم نے ان کو غرق کردیا اور لوگوں کے لیے انکو نشان عبرت بنادیا، اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے الفرقان
38 اور اسی طرح عاد اور ثمود اور اصحاب الرس کو اور ان کے درمیانی مدت میں بہت سی قوموں کو ہلاک کیا ہے الفرقان
39 اور ہم نے ان سب کے سامنے سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کیں اور (آخرکار ان کے انکار پر) سب کو ہلاک کرڈالا الفرقان
40 اور یہ لوگ یقینا اس بستی پر ہوگزرے ہیں جن پر بری طرح کی بارش برسائی گئی تھی تو پھر کیا انہوں نے اس کا حال نہیں دیکھا ہوگا مگر یہ بات ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے (٨)۔ الفرقان
41 اور یہ کافرجب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں (کہتے ہیں) کیا یہ وہی شخص ہے جسے اللہ نے رسول بناکربھیجا ہے (٩)۔ الفرقان
42 اگر ہم اپنے معبودوں کی عبادت پر مضبوطی سے جمے نہ رہتے تو اس نے ہمارے معبودوں کو گمراہ کرکے چھوڑ دیا ہوتا مگر عنقریب جب یہ لوگ عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون گمراہی میں پڑا ہوا تھا الفرقان
43 اے نبی کیا آپ نے اس شخص کی حالت پر غور کیا ہے جس نے اپنے نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنارکھا ہے؟ کیا آپ ایسے شخص کوراہ راست پر لانے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں؟ الفرقان
44 یا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں الفرقان
45 کیا (اے مخطاب) تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب کس طرح سائے کو پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک ہی حالت پر ٹھہرائے رکھتا، پھر ہم نے اس سائے پر سورج کو علامت بنادیا ہے الفرقان
46 پھر ہم اس کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیتے ہیں الفرقان
47 اور اللہ وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لیے بمنزلہ لباس اور نیند کو راحت اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا الفرقان
48 اور وہی ہے جو اپنی رحمت (بارش) کے آگے آگے بشارت دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم ہی آسمان سے پاک پانی اتارتے ہیں الفرقان
49 تاکہ اس کے ذریعہ سے ایک علاقے کو زندگی بخشیں اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو اس سے سیراب کریں الفرقان
50 اور ہم اس بارش کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہیں تاکہ وہ اس سے نصیحت حاصل کریں پھر بھی اکثر لوگ کفر اور ناسپاسی کے سوادوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار ہی کرتے ہیں (١٠)۔ الفرقان
51 اگر ہم چاہتے تو ہر ایک بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے الفرقان
52 سوائے نبی آپ ان کافروں کا کہنا نہ مانیے اور اس قرآن کے ذریعہ سے ان کا سخت مقابلہ کیجئے (١١)۔ الفرقان
53 اور وہی قادر مطلق ہے جس نے دور دریاؤں کو آپس میں ملایا اور ایک کا پانی شیریں وخوش ذائقہ اور ایک کا کھارا کڑوا، پھر دونوں کے درمیان ایک ایسی حد فاصل اور روک رکھ دی کہ دونوں باوجود ملنے کے الگ رہتے ہیں الفرقان
54 اور وہی (حکیم وقدیر) جس نے پانی (نطفے) سے انسان کو پیدا کیا پھر (اس رشتہ پیدائش کے ذریعے سے) اسے نسب اور صہر رشتہ رکھنے والا بنایا، اور تیرا رب قدرت والا ہے (١٢)۔ الفرقان
55 مگر لوگ اللہ کوچھوڑ کر ان کی عبادت کررہے ہیں جونہ ان کو نفع پہنچاسکے اور نہ نقصان اور کافرتواپنے رب کے مقابلے میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے الفرقان
56 اے نبی ہم نے آپ کو تو بس خوش خبری سنانے اور ڈرانے والابناکربھیجا ہے الفرقان
57 آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں اس پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، لیکن ہاں جو چاہے اپنے رب کاراستہ اختیار کرے۔ الفرقان
58 اور آپ اس زندہ خدا پربھروسہ رکھیے جوکبھی مرنے والا نہیں اور اسکی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے رہیے اور وہ خود اپنے بندوں کو گناہوں کی خبر رکھنے کو کافی ہے الفرقان
59 وہ ہے جس نے چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کو اور جوان کے مابین ہے پیدا کیا ہے، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا، وہ نہایت ہی مہربان ہے، بس اس کی شان کسی باخبر سے دریافت کیجئے (١٣)۔ الفرقان
60 اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اس رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا ہوتا ہے کیا بس جسے تو کہہ دے ہم اس کو سجدہ کرنے لگیں اور اس بات سے الٹاان کی نفرت میں اضافہ ہوتا ہے (١٤)۔ الفرقان
61 کیا مبارک ہے ذات قدوس اس کی جس نے آسمان میں (گردش سیارات کے) دائرے بنائے اور اس میں آفتاب کی مشعل روشن کردی، نیز روشن ومنور چاند بنایا الفرقان
62 اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا اس شخص کے لیے جونصیحت حاصل کرنا چاہتا ہو یا شکر بجالانا چاہتا ہو (١٥)۔ الفرقان
63 اور رحم کرنے والے خدا کے رحم طینت بندے وہ ہیں جو زمین پر نہایت فروتنی سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو سلام کہہ کرالگ ہوجاتے ہیں (١٦)۔ الفرقان
64 اور جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں رات گزارتے ہیں الفرقان
65 اور وہ جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم سے جہنم کے عذاب کو دور کردے، اس کا عذاب تو ہمیشہ کی تباہی ہے الفرقان
66 بے شک وہ جہنم بہت برا مقام اور ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے الفرقان
67 اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ وہ خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے الفرقان
68 اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ برے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کے وبال سے دوچار ہوگا الفرقان
69 قیامت کے دن اسے دوچند عذاب دیا جائے گا اور اس میں ذلیل ہو کر ہمیشہ رہے گا الفرقان
70 مگرجس شخص نے توبہ کی، ایمان لایا اور عمل صالح کیا، تو خدا اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے (١٧)۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے الفرقان
71 اور جو شخص توبہ کرکے نیک عمل کرنے لگتا ہے تو وہی حقیقت میں اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے الفرقان
72 اور رحمن کے نیک بندے وہ ہیں جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کبھی بے ہودہ (مجالس) کے پاس گزرتے ہیں تو کریمانہ انداز میں گزرجاتے ہیں الفرقان
73 اور جب ان کو ان کے رب کی آیات سنا کرنصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر اوندھے اور بہرے ہو کر نہیں رہ جاتے الفرقان
74 اور جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنادے الفرقان
75 یہی وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر (واستقامت) کے ہر صلے میں بالاخانے دیے جائیں گے اور وہاں دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا الفرقان
76 وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، ہاں وہ رہنے اور ٹھہرنے کے لیے بہترین جگہ ہے الفرقان
77 اے نبی آپ کہہ دیجئے اگر تم میرے رب کو نہ پکارو تو وہ تمہاری کچھ پروا نہیں کرے گا اب تم نے تکذیب کی ہے، سو عنقریب اس کاوبال تمہارے سر پر پڑ کر رہے گا۔ الفرقان
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الشعراء
1 طاسین میم الشعراء
2 یہ (١) وضاحت سے بیان کرنے والی کتاب کی آیتیں ہیں (٢) الشعراء
3 اے نبی آپ شاید (اس غم میں) اپنی جان کھوبیٹھیں کہ ہی لوگ ایمان نہیں لاتے الشعراء
4 اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ایک بڑی نشانی نازل کردیں کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں جھک کررہ جائیں (٣)۔ الشعراء
5 اور ان کے پاس رحمن کی جانب سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر یہ اس سے روگردانی کرتے ہیں الشعراء
6 بہرحال یہ تکذیب کرچکے ہیں عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کایہ مذاق اڑاتے رہے ہیں الشعراء
7 کیا انہوں نے زمین کو نہیں دیکھا کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگائی ہیں الشعراء
8 بے شک اس میں بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں الشعراء
9 بے شک آپ کارب زبردست اور رحمن کرنے والا ہے الشعراء
10 اور (انہیں یہ قصہ سناؤ) جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا کہ تم ایک ظالم قوم کے پاس جاؤ الشعراء
11 قوم فرعون کے پاس جاؤ کیا وہ ڈرتے نہیں ؟ (٤)۔ الشعراء
12 موسی نے کہا اے میرے رب مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ مجھ کو جھٹلا دیں الشعراء
13 اور سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی لہذا آپ ہارون پر بھی وحی بھیج دیجئے الشعراء
14 اور مجھ پر ان کا ایک جرم بھی ہے اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے قتل کرڈالیں الشعراء
15 اللہ نے فرمایا ایساہرگز نہیں ہوگا اب تم دونوں ہماری نشانیاں لے کرجاؤ ہم تمہارے ساتھ سننے والے موجود ہیں الشعراء
16 پس فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم کورب العالمین نے بھیجا ہے الشعراء
17 کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے الشعراء
18 فرعون نے کہا کیا ہم نے بچہ ہونے کی حالت میں اپنے ہاں تیری تربیت نہیں کی اور تو نے اپنی زندگی کے کتنے ہی سال ہمارے ہاں گزارے الشعراء
19 اور تو نے وہ کرتوت کی جو کی اور تو بڑا ہی ناسپاس ہے الشعراء
20 موسی نے کہا ہاں اس وقت میں نے وہ کام کیا تھا اور میں غلطی کرنے والا تھا الشعراء
21 سوجب مجھ کو تم سے خطرہ محسوس ہوا تو میں تمہارے ہاں سے بھاگ گیا تھا اس کے بعد میرے رب نے مجھے حکم عطا فرمایا اور مجھے رسولوں میں شامل کرلیا الشعراء
22 اور وہ احسان جوتو مجھ پر رکھ رہا ہے وہ اس لیے ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنارکھا ہے الشعراء
23 فرعون نے کہا یہ رب العالمین کیا ہے؟ الشعراء
24 موسی نے جواب دیا وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کارب ہے اگر تم یقین لانے والے ہو الشعراء
25 فرعون نے اپنے گردوپیش کے لوگوں سے کہا تم سن رہے ہو؟ الشعراء
26 موسی نے کہا وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے ان آباء واجداد کا بھی جو پہلے گزر چکے ہیں الشعراء
27 فرعون نے کہا یہ تمہارا رسول ہے جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے بلاشبہ دیوانہ ہے الشعراء
28 موسی نے کہا وہ مشرق اور مغرب کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے ان سب کارب ہے اگر تم عقل رکھتے ہو۔ الشعراء
29 اس نے کہا اگر میرے سوا کسی دوسری ذات کو تو نے اپنا معبود بنالیا تو میں تجھے قید کردوں گا الشعراء
30 اس پر موسیٰ نے کہا اگرچہ میں تیرے سامنے کوئی صریح چیز (معجزہ) لے آؤں الشعراء
31 فرعون نے کہا اچھا اگر تو سچا ہے تو وہ چیز پیش کر الشعراء
32 اس پر موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو یکایک وہ ایک نمایاں اژدہا بن گیا الشعراء
33 اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ باہرنکالا تو وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا الشعراء
34 فرعون نے اپنے گردوپیش کے سرداروں سے کہا بلاشبہ یہ تو کوئی بڑا ماہر جادوگر ہے الشعراء
35 جوچاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں ملک سے نکال باہر کرے اور خود مالک بن بیٹھے۔ اب بتلاؤ تمہاری صلاح اس بارے میں کیا ہے؟ الشعراء
36 چنانچہ انہوں نے (باہم مشورہ کے بعد فرعون سے) کہا موسیٰ اور اس کے بھائی کو ڈھیل دے کرروک لے اور (اس اثناء میں) نقیب روانہ کردے کہ (مملکت کے) تمام شہروں سے الشعراء
37 مشہور اور ماہر جادوگر اکٹھے کرکے تیرے حضور لے آئیں الشعراء
38 چنانچہ جادوگر ایک معین دن کے خاص وقت پر جمع کیے گئے الشعراء
39 اور لوگوں سے کہا گیا تم سب جمع ہوتے ہو الشعراء
40 تاکہ اگر جادوگر غالب رہیں تو ہم سب انہی کی پیروی بن جائیں الشعراء
41 پھر جب جادوگر آگئے تو انہوں نے فرعون سے کہا گر ہم غالب رہے تو کیا ہمیں کوئی بڑا نعام ملے گا؟ الشعراء
42 فرعون نے کہا ہاں، اور تم اس وقت مقربین میں شامل کرلیے جاؤ گے الشعراء
43 ان جادوگروں سے موسیٰ نے کہا، تمہیں جو کچھ ڈالنا ہے وہ ڈالو الشعراء
44 اس پر انہوں نے اپنی رسیاں اور عصا ڈال دیے اور بولے، فرعون کے اقبال کی قسم بلاشبہ ہم ہی غالب رہیں گے الشعراء
45 پھر موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو اس نے یکایک جو سانگ وہ بنارہے تھے اس کو نگلنا شروع کردیا الشعراء
46 اس پر تمام جادوگر سجدے میں گرپڑے الشعراء
47 وہ بول اٹھے مان لیا ہم نے رب العالمین کو الشعراء
48 موسی اور ہارون کے رب کو الشعراء
49 فرعون نے کہا تم موسیٰ کے مطیع ہوگئے ہو اس سے پیشتر میں تمہیں اجازت دوں ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے عنقریب ہی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے میں تمہارے ہاتھ پاؤ مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھادوں گا الشعراء
50 انہوں نے جواب دیا کچھ نقصان کی بات نہیں ہم اپنے رب کے حضور ہی لوٹنے والے ہیں الشعراء
51 ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں کو معاف کردے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں الشعراء
52 اور ہم نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ کیونکہ تمہارا تعاقب کیا جائے گا الشعراء
53 اس پر فرعون نے شہروں میں (فوجیں جمع کرنے کے لیے) نقیب بھیج دیے الشعراء
54 کہ یہ (بنی اسرائیل) ایک تھوڑی سی جماعت ہے الشعراء
55 اور انہوں نے ہمیں سخت غصہ دلایا ہے الشعراء
56 اور ہم ہوشیار اور چوکنا رہینے والی جماعت ہیں الشعراء
57 اور اس طرح ہم انہیں باغات اور چشموں الشعراء
58 اور خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے الشعراء
59 اسی طرح ہوا اور ہم نے انہی چیزوں کا مالک بنی اسرائیل کو بنادیا الشعراء
60 چنانچہ صبح ہوتے ہی وہ لوگ ان کے تعاقب میں چل پڑے۔ الشعراء
61 پھر جب دونوں جماعتوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے الشعراء
62 موسی نے کہا ہرگز نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضروری میری رہنمائی فرمائے گا الشعراء
63 تب ہمنے موسیٰ کو وحی کے ذریعے سے حکم دیا کہ اپنا عصا سمندر پر مار، چنانچہ عصا مارتے ہی سمندر پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا الشعراء
64 اور اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے الشعراء
65 اور ہم نے موسیٰ کو اور اس کے ساتھیوں کو بھی نجات دی الشعراء
66 پھر دوسرے فریق کو اس میں غرق کردیا الشعراء
67 بلاشبہ اس واقعہ میں عبرت کی بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں الشعراء
68 بے شک آپ کارب زبردست اور رحم کرنے والا ہے۔ الشعراء
69 اور اے نبی آپ انہیں ابراہیم کا قصہ پڑھ کر سنائیے (٥) الشعراء
70 جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ الشعراء
71 انہوں نے کہا ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور ہم انہی کے گرد جمے بیٹھے رہتے ہیں الشعراء
72 ابراہیم نے پوچھا جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ پکار کو سنتے ہیں؟ الشعراء
73 یا تمہیں نفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں الشعراء
74 انہوں نے جواب دیا نہیں بلکہ ہم نے اپنے بڑوں کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا ہے الشعراء
75 ابراہیم نے کہا بھلا تم نے کبھی غور کیا کہ جن کو تم پوجتے ہو الشعراء
76 اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی پوجتے رہے ہیں الشعراء
77 یہ سب میرے دشمن ہیں بجز ایک رب العالمین کے الشعراء
78 وہ جس نے مجھے پیدا کیا پھر ہدایت کی راہیں کھول دیں الشعراء
79 وہ کہ میں بھوکا ہوتا ہوں تو کھلاتا ہے اور پیاسا ہوتا ہوں تو پلاتا ہے الشعراء
80 اور وہ کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اپنی رحمت سے شفا دیتا ہے الشعراء
81 اور وہ جو موت کے بعد حیاب بخشے گا الشعراء
82 اور جس کی رحمت سے امیدا رکھتا ہوں کاموں کا بدلہ ملنے کے دن میری خطائیں بخش دے گا الشعراء
83 خدایا، مجھے نبوت دے اور صلحاء میں داخل کر الشعراء
84 اور آنے والی نسلوں میں میرا دائمی ذکر قائم رکھ الشعراء
85 اور مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں سے کردے الشعراء
86 اور میرے باپ کو بخش دے کہ وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے الشعراء
87 اور مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جس دن کہ سب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے الشعراء
88 وہ آخری روز عدالت جبکہ نہ تو مال ودولت کام دیں گے نہ اہل وعیال کام آئیں گے (کوئی مادی شے مفید نہ ہوگی) الشعراء
89 مگر وہ ضرور کامیاب ہوگا جس کے پہلو میں قلب سلیم ہے۔ الشعراء
90 اور جنت متقیوں کے قریب لائے جائے گی الشعراء
91 ) اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کردی جائے گی الشعراء
92 اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے؟ الشعراء
93 کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں الشعراء
94 پھر وہ معبود اور گمراہ لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے الشعراء
95 اور شیطان کے لشکر سب کے سب الشعراء
96 وہاں یہ سب آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے اپنے معبودوں سے کہیں گے الشعراء
97 اللہ کی قسم بے شک ہم صریح گمراہی میں تھے الشعراء
98 جبکہ ہم تم کو رب العالمین کے مساوی درجہ دیا کرتے تھے الشعراء
99 اور ہم کو بس ان (بڑے) مجرموں نے ہی گمراہ کرڈالا الشعراء
100 سو اب نہ تو ہمارا کوئی سفارشی ہے الشعراء
101 اور نہ کوئی جگری دوست الشعراء
102 کاش ہمیں ایک دفعہ دنیا میں جانے کا موقع مل جاتا تو ہم بھی ایمان والوں میں سے ہوجاتے الشعراء
103 بے شک اس انقلاب حالت میں عبرت وموعظت کی بہت سی نشانیاں ہیں مگر ان میں اکثر لوگ ایمان وایقان کی دولت سے محروم تھے الشعراء
104 اور بلاشبہ آپ کارب زبردست اور نہایت مہربان ہے الشعراء
105 اور قوم نوح نے رسولوں کی تکذیب کی (٦)۔ الشعراء
106 جبکہ ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا گیا کیا تم لوگ ڈرتے نہیں؟ الشعراء
107 میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں الشعراء
108 تو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو الشعراء
109 اور میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا میرا اجرتو بس رب العالمین ہی کے ذمہ ہے الشعراء
110 سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت بجالاؤ الشعراء
111 انہوں نے کہا کیا ہم تجھ کو مان لیں حالانکہ رذیل ترین لوگوں نے تیری پیروی اختیار کی ہے الشعراء
112 نوح نے کہا مجھے کیا معلوم ہے کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ الشعراء
113 ان کا حساب تو صرف میرے رب کے ذمہ ہے کاش تم لوگ اس کا شعور رکھتے الشعراء
114 اور میں مومنوں کو اپنے پاس سے دھتکارنے والا نہیں ہوں الشعراء
115 میں تو بس صاف طور پر ایک ڈرانے والا ہوں الشعراء
116 اس پر منکرین نے کہا اے نوح اگر تو باز نہ آیا تو سنگسار کردیا جائے گا۔ الشعراء
117 آخرکار حضرت نوح نے دعا کی، اے میرے پروردگار میری قوم نے مجھے جھٹلایا ہے الشعراء
118 سو اب میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے الشعراء
119 چنانچہ ہم نے نوح اور اس کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں بچالیا الشعراء
120 پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کردیا الشعراء
121 بے شک اس میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں الشعراء
122 اور تیرا رب وہی بڑا زبردست اور نہایت مہربان ہے الشعراء
123 قوم عاد نے رسولوں کی تکذیب کی (٧) الشعراء
124 (جبکہ ان کے بھائی بندوں میں سے ہود نے ان سے کہا تھا کیا) کیا (تم انکار وبدعملی کے نتائج سے) نہیں ڈرتے الشعراء
125 میں تمہاری طرف ایک امانت دار رسول بناکربھیجا گیا ہوں الشعراء
126 لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت بجالاؤ الشعراء
127 اس بات کے لیے میں تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ تو اسی پر ہے جو تمام جہانوں کاپروردگار ہے الشعراء
128 یہ کیا بات ہے کہ تم ہر بلندی پر عبث یادگاریں تعمیر کررہے ہو الشعراء
129 اور قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے الشعراء
130 اور جب کبھی کسی پر گرفت کرتے ہو تو جبارا نہ گرفت کرتے ہو الشعراء
131 پس اللہ سے ڈر جاؤ اور میری اطاعت میں آجاؤ الشعراء
132 اور اللہ سے ڈرو جس نے سب کچھ تم کودیا ہے اور جو تمہارے عل میں ہے الشعراء
133 اس نے چوپایوں اور اولاد تمہیں مدد دی ہے الشعراء
134 اور باغات اور چشمے دیے الشعراء
135 مجھے تمہارے حق ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے الشعراء
136 انہوں نے جواب دیا تو نصیحت کریانہ کر، ہمارے لیے سب یکساں ہے الشعراء
137 یہ باتیں تو بس اگلے سے چلی آرہی ہیں الشعراء
138 اور ہم کسی حالت میں معذب نہیں ہوں گے الشعراء
139 آخرکار انہوں نے اسے جھٹلایا پس ہم نے ان کو ہلاک کرڈالا بے شک اس میں ایک بہت بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں الشعراء
140 اور بے شک تمہارا رب وہی غالب اور مہربان ہے الشعراء
141 ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا (٨)۔ الشعراء
142 جبکہ ان لوگوں سے ان کے بھائی صالح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ الشعراء
143 میں تمہاری طرف سے امانت دار رسول ہوں الشعراء
144 سو ڈرو تم اللہ سے اور میری اطاعت کرو الشعراء
145 اور میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے الشعراء
146 کیا تم ان نعمتوں میں امن وسکون سے رہنے دیے جاؤ گے الشعراء
147 ان باغوں اور چشموں میں؟ الشعراء
148 اور کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے لدے ہوئے ہیں؟ الشعراء
149 کیا تم پہاڑوں کو تراش تراش کرفخریہ گھر بناتے رہو گے؟ الشعراء
150 سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت بجالاؤ الشعراء
151 اور اس حد سے بڑھ جانے والے لوگوں کی اطاعت نہ کرو الشعراء
152 جوزمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے الشعراء
153 انہوں نے کہا تو محض سحرزدہ لوگوں میں سے ہے الشعراء
154 توصرف ہم جیسا ایک انسان ہے سواگر تو سچا ہے تو کوئی نشانی لا دکھا الشعراء
155 صالح نے) کہا یہ ایک اونٹنی ہے اس کے پانی کی ایک باری ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا ہے الشعراء
156 اس کو گزند نہ پہنچانا ورنہ تم کو ایک بڑے دن کا عذاب آپکڑے گا الشعراء
157 آخرکار ان لوگوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر اس پر پیشمان ہوئے الشعراء
158 انجام کار ان کو عذاب نے آلیا یقینا اس میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں الشعراء
159 اور بلاشبہ ترا رب البتہ وہی زبردست نہایت مہربان ہے الشعراء
160 قوم لوط نے رسولوں کو جھٹلایا (٩)۔ الشعراء
161 جبکہ ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کیا تم لوگ ڈرتے نہیں؟ الشعراء
162 میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں الشعراء
163 لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کرو الشعراء
164 میں اس تبلیغ پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے الشعراء
165 کیا تم ساری خدائی میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو الشعراء
166 اور تمہارے رب نے جو بیویاں تمہارے لیے پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ رکھتے ہو بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو الشعراء
167 انہوں نے کہا اے لوط۔ اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو تمہیں بستی سے نکال دیا جائے گا الشعراء
168 لوط نے کہا) میں بھی تمہارے اس (خلاف فطرت) فعل کو برا سمجھنے والوں میں سے ہوں الشعراء
169 لوط نے دعا کی) اے میرے رب مجھ کو اور میرے متعلقین کو ان کی بدکرداریوں سے نجات دے الشعراء
170 آخرکار ہم نے اسے اور اس کے سب متعلقین کو نجات دی الشعراء
171 بجز ایک بڑھیا کے جوپیچھے رہ جانے والوں سے تھی الشعراء
172 پھر دوسروں کو ہم نے تباہ کردیا الشعراء
173 اور ان پر پتھروں کامینہ برسایا، سو کیا ہی برا تھا وہ مینہ جوان ڈرائے گئے لوگوں پر برسایا الشعراء
174 یقینا اس میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں الشعراء
175 اور فی الواقع تیرا رب وہ زبردست اور نہایت مہربان ہے۔ الشعراء
176 اصحاب الایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا (١٠) الشعراء
177 جبکہ شعیب نے ان سے کہا کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ الشعراء
178 میں تمہاری طرف سے ایک امانت دار رسول ہوں الشعراء
179 لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت بجالاؤ الشعراء
180 میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے الشعراء
181 تم پیمانے پورے بھر کردو اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والے مت بنو الشعراء
182 صحیح ترازو سے تولو الشعراء
183 اور لوگوں کو ان کی اشیاء کم نہ دو اور ملک میں فساد برپا کرتے نہ پھرا کرو الشعراء
184 اور اس ذات سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی (گزشتہ) نسلوں کو پیدا کیا الشعراء
185 انہوں نے جواب دیا بجز اس کے نہیں کہ تو ایک سحرزدہ آدمی ہے الشعراء
186 توصرف ہم جیسا ہی ایک انسان ہے اور بلاشبہ ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں الشعراء
187 پس اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادے الشعراء
188 شعیب نے کہا جو کچھ تم کررہے ہو میرا رب اسے خوب جانتا ہے الشعراء
189 الغرض یہ لوگ شعیب کی تکذیب کرتے رہے آخرکار انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے آپکڑا بلاشبہ وہ ایک بڑے خوفناک دن کا عذاب تھا۔ الشعراء
190 یقینا اس واقعہ میں ایک بہت بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں الشعراء
191 اور بے شک آپ کارب بڑا زبردست نہایت مہربان ہے الشعراء
192 بے شک وہ پروردگار عالم کا اتارا ہوا کلام ہے (١١) الشعراء
193 ) روح الامین نے نازل کیا الشعراء
194 تیرے قلب پر تاکہ تو ضلالت وفساد کے نتائج سے دنیا کو ڈرانے والوں میں سے ہو اور سعادت وفلاح کی طرف دعوت دے الشعراء
195 یہ کلام نہایت کھلی ہوئی اور واضح عربی زبان میں نازل ہوا الشعراء
196 اور پچھلی کتابوں میں اس کی خبر دی جاچکی تھی الشعراء
197 کیا اہل مکہ کے لیے یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ اسے علمائے بنی اسرائیل جانتے ہیں الشعراء
198 ) اگر ہم اس قرآن کو کسی عجمی پر نازل کردیتے الشعراء
199 اور وہ ان کے روبراس کو پڑھتا تب بھی یہ لوگ اس کو نہ مانتے الشعراء
200 اس طرح ہم نے اس کو مجرموں کے دلوں میں داخل کردیا ہے الشعراء
201 یہ لوگ اس وقت تک اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک یہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں الشعراء
202 پھر جب ان پر بے خبری میں آ پہنچے گا الشعراء
203 تواس وقت یہ لوگ کہیں گے کیا ہم کچھ مہلت دیے جاسکتے ہیں ؟ الشعراء
204 تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں؟ الشعراء
205 بھلا تم غور کرو کہ اگر انہیں کئی سال عیش کرنے کا موقع دے دیں الشعراء
206 پھر ان پر وہی عذاب آجائے جس سے انہیں ڈرایا جارہا ہے الشعراء
207 تو جس سامان عیش سے یہ بہرہ مند کیے گئے ہیں ان کو کچھ فائدہ نہیں دے گا الشعراء
208 ہم نے کسی ایسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ڈرانے والے نہ آئے ہون الشعراء
209 جس میں نصیحت کی غرض سے اور ہم ظالم نہ تھے الشعراء
210 اور اس کو شیاطین لے کر نہیں آئے الشعراء
211 اور نہ وہ اس کے اہل ہیں اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں الشعراء
212 بلاشبہ وہ شیاطین آسمان کی خبر سننے سے روک دیے گئے ہیں الشعراء
213 سوآپ اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کریں ورنہ آپ بھی سزاپانے والے لوگوں میں شامل ہوجائیں گے الشعراء
214 اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایے الشعراء
215 اور مومنوں میں سے جو لوگ بھی آپ کے پیرو ہیں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیے الشعراء
216 لیکن اگر وہ آپ کی نافرمانی تو ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہارے اعمال سے بری الذمہ ہوں الشعراء
217 اور آپ اس زبردست مہربان پر توکل کیجئے الشعراء
218 جوآپ کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوتا ہے جب آپ کھڑے ہوتے ہیں الشعراء
219 اور سجدہ گزارلوگوں میں آپ کی نقل وحرکت کو بھی الشعراء
220 بے شک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ الشعراء
221 لوگو ! کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں الشعراء
222 وہ ہر جھوٹے بدکار پر اترا کرتے ہیں الشعراء
223 جوشیاطین کی باتوں پر کان لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں الشعراء
224 اور شعراء کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں الشعراء
225 کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ (شعراء) ہر وادی میں سرگرداں پھر رہے ہیں الشعراء
226 ان (مفسدوں) کایہ حال ہے کہ جو کچھ زبان سے کہتے اس کے خلاف عمل کرتے ہیں الشعراء
227 البتہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح کیے اللہ کے ذکر میں زیادہ سے زیادہ لگے رہے اور ظلم کا بدلہ لینے میں فتح مندی حاصل کی، بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا تھا اور وہ مظلوم تھے (سو انکا حال ایسا نہیں) اور معلوم کرلیں گے ظلم کرنے والے کس کروٹ الٹتے ہیں۔ الشعراء
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النمل
1 طس۔ یہ سورۃ قرآن اور اس کتاب کی آیتیں ہیں جو (حق وباطل اور احکام وہدایات کو) صاف صاف بیان کرنے والی ہے (١) النمل
2 مومنوں کے لیے سراسر ہدایت اور موجب بشارت ہے۔ النمل
3 جو نماز قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور وہی لوگ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں النمل
4 بلاشبہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوش نما بنادیا ہے سو وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں النمل
5 یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے (دنیا میں بھی) بدترین عذاب ہے اور آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہوں گے النمل
6 اور (اے نبی !) آپ کو یقینا یہ قرآن بڑی حکمت اور بڑے علم والی ذات کی طرف سے القا کیا جارہا ہے النمل
7 ان کے سامنے یہ واقعہ بیان کیجئے) جب موسیٰ نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے میں وہاں سے یا تو (راستے کی) کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا شعلہ لاتا ہوں تاکہ تم اس آگ سے گرمی حاصل کرو (٢) النمل
8 سو جب وہاں پہنچا تو ندا آئی کہ، مبارک ہے جو اس آگ کے اندر ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے، اور اللہ رب العالمین سب عیوب سے پاک ہے۔ النمل
9 اے موسیٰ یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور دانا النمل
10 اور اپنا عصا ڈال دے پھر جب موسیٰ نے اس عصا کو دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح بل کھارہا ہے تو موسیٰ پیٹھ پھیر کربھاگا اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا (ارشاد ہوا) اے موسیٰ ڈرو نہیں، میرے حضور پہنچ کر پیغمبر ڈرا نہیں کرتے النمل
11 الا یہ کہ کسی سے کوتاہی ہوجائے پھر وہ برائی کے بعد بھلائی سے اس کی تلافی کردے تو میں بخشنے والا مہربان ہوں النمل
12 اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالیے تو وہ کسی عیب کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا (یہ دونوں معجزے) نو نشانیوں میں سے ہیں (انہیں لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ کیونکہ وہ بڑی بدکردار قوم ہے النمل
13 غرض جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں اس کے پاس آئیں تو کہنے لگے کہ یہ تو کھلاجادو ہے النمل
14 اور انہوں نے از راہ ظلم وتکبر ان کا انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل ان (صداقت کا) یقین کرچکے تھے، سو دیکھیے کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا النمل
15 اور بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا فرمایا اور انہوں نے کہا سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی (٣)۔ النمل
16 اور سلیمان، داؤد کا جانشین ہوا اور اس نے کہا لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر قسم کی ضروری چیزیں دی گئی ہیں واقعی یہ (اللہ کا) کھلا ہوا فضل ہے۔ النمل
17 اور ایک مرتبہ سلیمان کے لیے جن وانس اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور وہ نظم وضبط سے رکھے جاتے النمل
18 یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی ایک وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو۔ اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو النمل
19 توسلیمان اس کی بات پر مسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور کہنے لگا اے میرے رب مجھے اس بات پر قائم کر کہ میں تیرے اس احسان کاشکرادا کرتا رہوں ہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ کیے ہیں اور یہ کہ میں ایسے نیک کام کرتا رہوں جو تجھے پسند ہوں اور مجھ کو اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرمالے النمل
20 اور سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا، کہ میں (فلاں) ہدہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے (٤)۔ النمل
21 یقینا میں اسے سخت سزا دوں گا، یا ذبح کرڈالوں گا یا وہ میرے سامنے کوئی معقول دلیل پیش کرے النمل
22 پھر ہدہد نے تھوڑی دیر کے بعد آکرکہا کہ میں وہ بات معلوم کرکے آیا ہوں جو آپ کے علم میں نہیں ہے اور میں سبا سے ایک یقینی خبر لے کرآیا ہوں (٥)۔ النمل
23 میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جو اس قوم پر حکومت چلارہی ہے اور اسے ہر طرح کا سازوسامان بخشا گیا ہے اور اس کے پاس ایک عظیم الشان تخت ہے النمل
24 میں نے اس عورت اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ کوچھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنادیے ہیں اور ان کو صحیح راہ سے روک دیا ہے لہذا وہ صحیح راہ نہیں پاتے النمل
25 کہ وہ اس اللہ کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو وہ اس سب کو جانتا ہے النمل
26 اللہ ہی وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور جو عرش عظیم کا مالک ہے النمل
27 سلیمان نے کہا، اچھا ابھی ہم دیکھ لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں سے ہے النمل
28 جا میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کے پاس ڈال دے پھر ان سے الگ ہوجا اور دیکھتا رہ کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں النمل
29 اس عورت نے کہا، اے اہل دربار مجھے ایک مکتوب گرامی موصول ہوا ہے النمل
30 وہ خط سلیمان کی جانب سے ہے اور (اس میں لکھا ہے) شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النمل
31 یہ کہ مجھ سے سرکشی نہ کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ النمل
32 اس ملکہ نے کہا، اے اہل دربار میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو، میں کسی کا قطعی فیصلہ تمہاری موجودگی کے بغیر نہیں کیا کرتی النمل
33 اہل دربار نے کہا، ہم طاقت ورجنگجوقوم ہیں، آپ صاحب اختیار ہیں پس آپ خود دیکھ لیں کہ ہمیں کیا کیا حکم دینا ہے النمل
34 ملکہ نے کہا، بلاشبہ بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے برباد کردیتے ہیں اور وہاں کے معززباشندوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور ایسا ہی کیا کرتے ہیں النمل
35 اور میں ان کے پاس ایک ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ میرے فرستادے کیا جواب لے کرآتے ہیں النمل
36 جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا، کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تم کو دیا ہے لہذا تم خود ہی اپنے اس ہدیہ پر خوش ہوتے رہو۔ النمل
37 اے سفیر) تو ان کے پاس واپس چلا جا، ہم ان پر ایسے لشکر لے کرآئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہیں کرسکیں گے اور ہم انہیں ذلیل بنا کر (وہاں سے) نکالیں گے اور وہ خوار ہوں گے النمل
38 سلیمان نے کہا، اے اہل دربار تم میں کون ہے جو اس کا عرش میرے پاس لے آئے قبل اس سے کہ وہ لوگ مطیع ہوکرمیرے پاس حاضر ہوں النمل
39 جنوں میں سے ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا، قبل اسکے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اور میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں النمل
40 ایک شخص، جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا، میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا، یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں یا ناشکری کرتاہوں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تومیرا رب بے نیاز اور برزگ ہے النمل
41 سلیمان نے کہا، اس کے لیے اس کے عرش میں تبدیلی کردو تاکہ ہم دیکھیں کہ وہ صحیح بات تک ہدایت پاتی ہے یا یہ ان لوگوں میں سے ہے جو راہ نہیں پاتے النمل
42 پھر جب ملکہ حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟ وہ کہنے لگی گویا یہ وہی ہے، ہم تو اس سے پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم حکم بردار ہوچکے تھے النمل
43 اور اس کو ایمان لانے سے اس چیز نے روک رکھا تھا جس کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتی تھی کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی النمل
44 اس سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہوجا، پھر جب اس نے دیکھا تو خیال کیا کہ یہ گہرا پانی ہے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا، تو سلیمان نے کہا یہ شیشے کا چکنا محل ہے، بلقیس نے کہا، میرے پروردگار میں نے (بدگمانی کرکے) اپنی جان پر ظلم کیا، اب میں سلیمان کے ساتھ ہو کر رب العالمین کے لیے مسلمان ہوئی النمل
45 اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کروتویکایک وہ فریق بن کرجھگڑنے لگے (٦)۔ النمل
46 صالح نے کہا، میرے قوم کے لوگو ! تم لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے کیوں جلدی کرتے ہو؟ تم لوگ کیوں اللہ سے بخشش نہیں مانگتے ؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے النمل
47 وہ کہنے لگے ہم نے تو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے، صالح نے کہا، تمہاری نحوست کاسبب تو اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہو النمل
48 اس شہر میں نوآدمی تھے جو ملک میں فساد بپا کرتے پھرتے تھے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے النمل
49 انہوں نے کہا تم سب باہم اللہ کی قسمیں اٹھاؤ کہ ہم صالح اور اس کے خاندان پر شبخون ماریں گے پھر ہم اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم تو اس خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے اور ہم بالکل سچ کہتے ہیں النمل
50 اور انہوں نے ایک خفیہ سازش کی اور ہم نے بھی ایک تدبیر کی جس کی انہیں خبر نہ تھی النمل
51 سو دیکھ لو کہ ان کی سازش کا انجام کیا ہوا؟ ہم نے ان (نوآدمیوں) کو اور ان کی پوری قوم کو تباہ کرڈالا۔ النمل
52 اس بے موقع اور بے وضع عمل کا نتیجہ دیکھو کہ ان کے گھر کیسے اجاڑ ہوگئے ہیں؟ حقیقت میں جنہیں علم ہے ان کے لیے اس ماجرے میں عبرت کی ایک بڑی نشانی ہے النمل
53 اور ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو ایمان لائے تھے اور وہ تقوی کی راہ اختیار کرچکے تھے النمل
54 اور ہم نے لوط کو بھیجا جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم دانستہ بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو (٧) النمل
55 کیا تم شہوت رانی کے لیے عورتوں کوچھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو؟ درحقیقت تم لوگ سخت جہالت کا کام کرتے ہو النمل
56 مگر اس کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ آل لوط کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں النمل
57 آخرکار ہم نے لوط اور اس کے اہل خانہ کو نجات دی، بجز اس کی بیوی کے جس کا پیچھے رہ جانا ہم نے مقدر کررکھا تھا النمل
58 اور ہم نے ان پر ایک عجیب قسم کی بارش کی، سوجن لوگوں کو ڈرایا گیا تھا ان کے حق میں بہت بری بارش تھی النمل
59 اے نبی آپ کہیے، سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے ان بندوں پر سلام ہوجن کو اس نے برگزیدہ کیا (ان سے پوچھو) بھلا اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو تم اس کا شریک ٹھہرارہے ہو (٨) النمل
60 وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا، پھر اس آبپاشی سے خوش نما باغ اگا دیے، حالانکہ تمہارے بس کی یہ بات نہ تھی کہ ان باغوں کے درخت لگاتے، کیا (ان کاموں کا کرنے والا) اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر، حقیقت حال خواہ کتنی ہی ظاہر ہو) مگر (یہ) وہ لوگ ہیں جن کاشیوہ ہی کج روی ہے۔ النمل
61 اچھا بتاؤ وہ کون ہے جس نے زمین کو (زندگی ومعیشت کا) ٹھکانا بنادیا؟ اس کے درمیان نہریں جاری کردیں اس کی درستی کے لیے پہاڑ بلند کردیے؟ دو دریاؤں میں ٠ دریا اور سمندر میں) ایسی دیوار حائل کردی ہے (کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محدود رہتے ہیں) کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرامعبود بھی ہے (افسوس کتنی واضح بات ہے) مگر ان لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے النمل
62 اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کا پکار سنتا ہے (جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوکر) اسے پکارنے لگتے ہیں اور وہ ان کے درد دکھ ٹال دیتا ہے ؟ وہ کہ اس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ افسوس تمہاری غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو النمل
63 اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلا دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے (ہرگز نہیں) اللہ کی ذآت اس ساجھے سے پاک ومنزہ ہے جو یہ لوگ اس کی معبودیت میں ٹھہرارہے ہیں النمل
64 اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور وہ کون ہے جو آسمان وزمین کے کارخانہ ہائے رزق سے تمہیں روزی دے رہا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (اے پیغمبر) ان سے کہو اگر تم (اپنے رویے میں) سچے ہو اور انسانی عقل وبصیرت کی اس عالمگیر شہادت کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل ہے) تو اپنی دلیل پیش کرو النمل
65 آپ ان سے کہہ دیجئے جو بھی آسمانوں اور زمین میں سے کسی کو غیب کا علم نہیں ہے اور نہ ان کو یہ خبر ہے کہ وہ کب اٹھائیں جائیں گے (١٠) النمل
66 حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گڈمڈ ہوگیا ہے بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں النمل
67 ) کافر کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے اسلاف مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر قبر سے نکالے جائیں گے النمل
68 ہم اور ہم سے پہلوں سے یہی وعدے کیے گئے تھے کچھ نہیں یہ تو صرفاگلوں کی کہانی ہے النمل
69 آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ذرا زمین پر چل پھر کردیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوچکا ہے (١١) النمل
70 آپ ان پر غم نہ کھائیں اور جوخفیہ سازشیں یہ کرتے ہیں ان سے آپ تنگ دل نہ ہوا کریں (١٢) النمل
71 اور (اے پیغمبر، یہ حقیقت فراموش) کہتے ہیں، اگر تم (نتائج ظلم وطغیان سے ڈرانے میں) سچے ہو النمل
72 تو وہ بات کب ہونے والی ہے جس بات کے لیے تم جلدی مچارہے ہو عجب نہیں اس کا ایک حصہ بالکل قریب آگیا ہو النمل
73 اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار انسان کے لیے بڑاہی فضل رکھنے والا ہے (کہ ہر حال میں اصلاح وتلافی کی مہلت دیتا ہے) لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر) بیشتر ایسے ہیں کہ اس کے فضل و رحمت سے فائدہ اٹھانے کی جگہ اس کی ناشکری کرتے ہیں (١٣) النمل
74 اور بلاشبہ آپ کارب خوب جانتا ہے کہ جو کچھ ان کے سینے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں النمل
75 اور آسمان وزمین میں کوئی ایسی پوشیدہ چیز نہیں ہے جو کتاب مبین (لوح محفوظ) میں موجود نہ ہو النمل
76 اور بلاشبہ یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر وہ بیان کرتا ہے جن میں وہ اکثر اختلاف رکھتے ہیں النمل
77 اور یہ یقینا قرآن ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے النمل
78 بالیقین آپ کارب ان لوگوں کے مابین اپنے حکم سے فیصلہ کردے گا اور وہی زبردست اور سب کچھ جاننے والا ہے النمل
79 سو آپ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیے بلاشبہ آپ صریح حق پر ہیں النمل
80 آپ مردوں کو نہیں سناسکتے اور نہ ان بہروں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر پھر جائیں النمل
81 اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کرصحیح راہ پر لگاسکتے ہیں آپ صرف انہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں سو وہی فرماں بردار ہیں النمل
82 اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان پر آپہنچے گا یعنی قیامت قریب ہوگی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جوان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں کا یقین نہ کرتے تھے (١٤) النمل
83 اور اس دن (کاتصور کرو) جب ہم ہر ایک امت میں سے اایک ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری آیات جھٹلاتے تھے پھر ان کو جمع کرنے کی غرض سے روکا جائے گا النمل
84 یہاں تک کہ جب سب آجائیں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ تم نے میری آیات کو جھٹلایا حالانکہ تم نے ان آیات کاپوری طرح سے علمی احاطہ نہ کیا تھا ورنہ بتاؤ اور کیا کرتے تھے النمل
85 اور ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر عذاب پورا ہوجائے گا تب وہ کوئی بات نہ کہہ سکیں گے النمل
86 کیا حکمت وربوبیت کی اس نشانی کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے تورات کو تو تاریکی قرار دیا تاکہ انسان سوئے (١٥) اور راحت وسکون پائے اور دن کو روشن کیا تاکہ وہ سکون کی جگہ حرکت میں بسر ہوبلاشبہ ارباب ایمان ویقین کے لیے اس میں (اس اختلاف لیل ونہار اور اس کے اثرات میں حکمت ربانی کی) بڑی نشانیاں ہیں النمل
87 اور جس دن صور میں پھونکا جائے گا تو جو کوئی بھی آسمان میں اور زمین میں ہے سب گھبرا جائیں گے مگر ہاں جس کو خدا چاہے اور سب اللہ کے حضور عاجز بن کرآئیں گے النمل
88 اور تم پہاڑوں کو دیکھ کرسمجھتے ہو کہ خوب جمے ہوئے ہیں مگر اس دن بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے یہ سب اللہ ہی کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز خوبی اور درستی کے ساتھ بنائی بلاشبہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے النمل
89 جوشخص نیکی لے کرحاضر ہوگا تو اس کو اس نیکی سے بہتر بدلہ ملے گا اور یہ لوگ اس دن کی گھبراہٹ سے امن میں رہیں گے النمل
90 اور جو شخص بدی لے کرحاضر ہوگا اور وہ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے (ان سے کہا جائے گا) تم کو انہی اعمال کا بدلہ دیا جارہا ہے جو تم کیا کرتے تھے النمل
91 اے پیغمبر) ان سے کہہ دیجئے مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اس کو محترم بنایا ہے اور ہر ایک چیز اسی کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبردار میں رہوں (١٦) النمل
92 نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ پڑھ کرسناتا رہوں اب جو شخص راہ ہدایت اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہوتوان سے کہہ دیجئے کہ میں تو بس ایک ڈرانے والا ہوں النمل
93 اور آپ ان سے کہہ دیجئے تعریف اللہ ہی کے ہے عنقریب وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا سو اسوقت تم ان کو پہچان لو گے اور آپ کارب ان کاموں سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔ النمل
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے القصص
1 ط۔ س۔ م القصص
2 یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں (١) القصص
3 ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کے کچھ صحٰح واقعات ان لوگوں کے لیے پڑھ کرسنتاے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں القصص
4 یہ واقعہ ہے کہ فرعون نے خدا کی زمین میں بہت سراٹھایا اور اس کے رہنے والوں میں پھوٹ ڈال کر گروہ درگروہ کردیا، ان میں سے ایک جماعت کو اس قدر کمزور رکھتا اور ابھرنے نہ دیتا کہ ان کے فرزندوں کو قتل کرنا اور ان کے اعراض وناموس کو برباد کرتا، اس میں شک نہیں کہ وہ زمین کے مفسدوں میں سے بڑا ہی مفسد تھا (٢) القصص
5 بایں ہمہ ہمارا فیصلہ یہ تھا کہ جو قوم ملک میں سب سے زیادہ کمزور سمجھی گئی تھی اس پر احسان کریں، اسی قوم کے لوگوں کو سرداری وریاست بخشیں، سلطنت کا وارث بنائیں القصص
6 اور انہی کی حکومت ملک میں قائم کرادیں، فرعون وہامان اور حکمران قوم کو جس ضعیف قوم کی طرف سے (بغاوت وخروج) کا کٹھکا لگارہتا تھا (اور جس کے لیے وہ انہیں کمزور رکھتے تھے) وہی انکے سامنے لائیں القصص
7 اور ہم نے موسیٰ کی ماں کے دل میں یہ بات ڈالی دی کہ اسے دودھ پلائے اور اگر (فرعون کے ظلم کی وجہ سے) اس کی جان کا خوف ہو تو دریا میں ڈال دے اور کسی قسم کا خوف یاغم نہ کرہم تیرے لخت جگر کو تیری گود میں واپس کردیں گے اور اسے پیغمبر بنائیں گے القصص
8 پھر آل فرعون نے اسے دریا سے نکال لیاتاکہ آگے چل کر ان کا دشمن اور سرمایہ رنج وغم بنے بے شک فرعون ہامان اور ان کالشکر غلطی پر تھا (جب کہ دشمن کو اپنے گھر کے اندر پال رہا تھا) القصص
9 فرعون کی بیوی نے اس سے کہا یہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈ ہے اسے قتل نہ کرو، عجب نہیں کہ یہ ہم کو فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹاہی بنالیں اور وہ (انجام سے) بے خبر تھے۔ القصص
10 اور (ادھر) موسیٰ کی ماں کا دل بے قرار ہوگیا، اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کردیتے تو وہ اس کاراز فاش کرنے کو ہی تھی ( اور یہ اس لیے کیا) تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو القصص
11 اس نے موسیٰ کی بہن سے کہا، اس کے پیچھے پیچھے چلی جا چنانچہ وہ (بچ کر) کنارے سے موسیٰ کو اس طرح دیکھتی رہی کہ وہ (فرعون والے) اس کا احساس نہ کرسکے القصص
12 اور ہم نے پہلے ہی دودھ پلانے والیوں کے دودھ موسیٰ پر حرام کررکھے تھے اس پر موسیٰ کی بہن نے کہا کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لیے اس بچہ کی پرورش کردیں اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہوں القصص
13 اس طرح ہم نے موسیٰ کو اس کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ آزردہ خاطر نہ ہو اور تاکہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ برحق تھا مگر اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے القصص
14 اور جب موسیٰ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور شباب کامل ہوگیا تو ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا اور ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں القصص
15 جب کہ تمام لوگ غافل تھے موسیٰ شہر میں آئے اور اس میں دو آدمیوں کو دیکھا کہ لڑ رہے تھے ان میں سے ایک آدمی ان کی قوم کا تھا اور دوسراان کے دشمن کے گروہ کا، موسیٰ کو دیکھ کر ان کی قوم کے آدمی نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی موسیٰ نے اسے ایک گھونسا مارا کہ وہ مرگیا، موسیٰ نے دل میں کہا کہ ہی تو شیطانی کام ہوگیا بے شک شیطان انسان کو گمراہ دشمن ہے (٣) القصص
16 موسی نے عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے چنانچہ اللہ نے اسے معاف کردیا بلاشبہ وہی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے القصص
17 موسی نے عرض کی اے میرے رب چونکہ تو نے مجھ پر فضل فرمایا ہے لہذا آئندہ میں کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا القصص
18 اب موسیٰ شہر میں خوف زدہ ہو کر چھپنے لگے، اتفاق سے پھر وہی پہلاسا موقع پیش آگیا اور جس شخص نے کل ان سے مدد طلب کی تھی اس نے آج پھر فریاد کی، موسیٰ نے کہا تو تو بڑا گمراہ آدمی ہے القصص
19 پھر جب موسیٰ نے اس قبطی پر حملہ کرنا چاہا جوان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا کیوں موسیٰ جس طرح تم نے کل ایک آدمی کو مارڈالا تھا کیا آج اس طرح مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے،؟ تم زمین میں ظالم بن کررہنا چاہتے ہو امن دوست بننا تمہیں پسند نہیں؟ القصص
20 اور شہر کے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہا کہ اے موسیٰ ارکان سلطنت تمہارے قتل کے بارے میں مشورہ کررہے ہیں اب تم یہاں سے نکل جاؤ میں تمہیں خیرخواہانہ مشورہ دیتا ہوں القصص
21 موسی شہر سے خوفزدہ ہو کر خفیہ طور پر نکلے اور خدا کی جناب میں دعا مانگی کہ خداوند مجھے ظالموں کے پنجے سے نجات دے (٤)۔ القصص
22 جب موسیٰ مصر سے نکل کر مدین کی طرف روانہ ہوئے تو کہا کہ خدا مجھے ضرور سیدھا راستہ دکھائے گا القصص
23 اور جب مدین کے کنویں پر پہنچے تو اس کنویں پر لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھاکہ (اپنے جانوروں کو) پانی پلارہے ہیں اور ان سے ایک طرف دوعورتیں دیکھیں جو اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں موسیٰ نے ان عورتوں سے کہا، تمہارا کیا معاملہ ہے انہوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاسکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور پانی پلاکر نہ لے جائیں اور ہمارا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے القصص
24 یہ سن کرموسی نے ان کے جانوروں کو پانی پلادیا پھر وہاں سے ہٹ کر ایک سایہ میں جابیٹھا اور دعا کی اے میرے پروردگار، جوخیر بھی تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں القصص
25 اتنے میں موسیٰ کے پاس دونوں عورتوں میں سے ایک عورت شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی کہنے لگی کہ میرا باپ تجھے بلاتا ہے تاکہ تجھے اس پانی کا اجر دے جوتونے ہمارے جانوروں کو پلایا ہے جب موسیٰ اس کے پاس آئے اور ان سے اپنے واقعات بیان کیے تو انہوں نے کہا مت ڈرو تم نے ظالم قوم کے پنجے سے نجات حاصل کرلی (٥)۔ القصص
26 ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا اباجان اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے بہتر آدمی جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں وہ شخص ہے جو توانا اور مانت دار ہو القصص
27 اس کے باپ نے موسیٰ سے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا تیرے ساتھ اس شرط پر نکاح کردوں کہ تو آٹھسال تک میری ملازمت کرے اور اگر تو دس سال پورے کردے تو یہ تیری مرضی ہے اور میں تجھ پر کوئی مشقت نہیں ڈالنا چاہتا تم انشاء اللہ مجھے بھلے لوگوں میں سے پاؤ گے القصص
28 موسی نے جواب دیا میرے اور تمہارے درمیان یہ طے ہوگیا کہ ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کروں اس کے بعد مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہوگی اور جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔ القصص
29 جب موسیٰ نے (شیعب کی خدمت میں) اپنے (درس وفکر کے) دن پورے کرلیے اور اہل وعیال کولے کروہاں سے چلے تو طور کے دامن میں آگ نظر آئی انہوں نے بیوی سے کہا تم لوگ ٹھہرو میں آگ کا پتا لگاؤں یا انگارہ ساتھ لے آؤں تاکہ تمہارے کام آئے (٦)۔ القصص
30 لیکن جب وہ اس آگ کے پاس پہنچے تو وادی ایمن کے کنارے برکت والی جگہ میں ایک درخت سے ایک ربانی صدا اٹھی اے موسی، یہ آگ نہیں جس کے لیے تم دوڑے ہوبلکہ میں ہوں اللہ تمام دنیا کو پالنے والا القصص
31 اور اے موسیٰ اپنی لاٹھی پھینک دو جب موسیٰ نے لاٹھی کو دیکھاتو وہ سانپ کی طرح حرکت کررہی تھی (٧) وہ ڈرے اور پیٹھ پھیر کر بھاگے (اللہ نے کہا) اے موسیٰ آگے بڑھو (کیونکہ تمہیں آگے بڑھانے کے لیے ہی یہ سب کچھ کیا گیا ہے) اور خوف نہ کرو تم ہمیشہ امن میں رہو گے القصص
32 اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالو وہ اس کے اندر سے چمکتا ہوا نکلے گا اور اسے تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا، اپنے بازو کو سمیٹ لو، تمہارے خدا کی طرف سے فرعون اور اس کی قوم کے لیے دونشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عدالت الٰہی کا قانون توڑ دیا اور اللہ کی اطاعت سے باہر ہوگئے القصص
33 موسی نے کہا الٰہی میں نے ان کی قوم کے ایک آدمی کو مارڈالا تھا ایسانہ ہو کہ اس کے عوض وہ مجھے قتل کردیں القصص
34 میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح مقرر ہے اسے میرا حامی بنا کر میرے ساتھ کردے کہ وہ میری تصڈیق کرے ایسانہ ہو کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں القصص
35 خدا نے کہا) ہم تیرے بھائی کے ذریعے سے تیرے دست بازو کو قوی کردیں گے اور تم دونوں کو معجزات قاہرہ کی برکت سے ایساغلبہ عطا کریں گے کہ وہ لوگ تمہارے پاس پھٹک بھی نہ سکیں گے صرف تمہیں اور تمہارے ساتھیوں ہی کو غلبہ حاصل ہوگا القصص
36 پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لے کرگئے تو انہوں نے کہا یہ کچھ نہیں محض ایک جادو ہے جو خدا کی طرف غلط منسوب کردیا گیا ہے اور یہ بات تو ہم نے اپنے آباواجداد کے زمانہ میں ہوتے نہیں سنی القصص
37 اور موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون شخص اس کی طرف سے سچائی لے کرآیا اور آخر کس کے ہاتھ نتیجے کی کامیابی آنے والی ہے یقین کرو کہ اللہ کبھی ان لوگوں کو فلاح نہیں دیتا جو برسرناحق ہیں القصص
38 اور فرعون نے اپنے ارکان سلطنت سے کہا میں اپنے سوا نہیں جانتا کہ تمہارا اور بھی کوئی خدا ہے سوائے ہامان تو میرے لیے اینٹیں پکوا کر ایک محل تیار کروا شاید کہ میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں القصص
39 فرعون اور اس کے لشکروں نے زمین میں ناحق اپنے آپ کو بڑا خیال کیا اور سمجھ بیٹھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے (٨)۔ القصص
40 آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا سود یکھیے کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا القصص
41 اور ہم نے انہیں دوزخ کی طرف دعوت دینے والوں کا قائد بنادیا اور قیامت کے دن کہیں سے بھی کوئی مدد نہ پاسکیں گے القصص
42 اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگادی اور قیامت کے دن وہ بدحال لوگوں میں سے ہوں گے القصص
43 اور بلاشبہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب دی تھی جس میں بصیرت افروز دلائل اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ لوگ نصیحت حاصل کریں (٩) القصص
44 اور اے پیغمبر آپ (طورکی) غربی جانب میں اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کو فرمان شرعیت عطا کیا اور نہ آپ وہاں حاضر ہونے والوں میں شامل تھے القصص
45 بلکہ اس کے بعد ہم بہت سی نسلیں اٹھاچکے ہیں اور ان پر بہت زمانہ گزرچکا ہے اور نہ آپ اہل مدین میں مقیم تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کرسناتے بلکہ ہم ہی (آپ کو) رسول بنانے والے ہیں (١٠)۔ القصص
46 اور نہ آپ طور کی جانب موجود تھے جب ہم نے موسیٰ کو ندا دی کہ مگر یہ تیرے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والانہیں آیا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں (١١) القصص
47 اگر ہم رسول نہ بھیجتے تو جب کبھی انہیں ان کے اعمال کے سبب سے مصیبت پہنچتی تو یہ کہنے لگتے اے ہمارے رب کیوں نہ تو نے ہمارے پاس رسول بھیجا کہ ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوجاتے القصص
48 پھر اب جب کہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچا تو کہنے لگے کہ جیسی کتاب موسیٰ کودی گئی تھی ایسی کتاب اس پیغمبر کو کیوں نہیں دی گئی ؟ کیا جو کتاب موسیٰ کودی گئی تھی یہ لوگ اس سے پہلے اس کا انکار نہیں کرچکے؟ انہوں نے کہا کہ دونوں جادوگر ہیں جوایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور (نیز) کہا کہ ہم کسی کو نہیں مانتے القصص
49 اے نبی ان سے کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جوہدایت کرنے میں ان دونوں سے بہتر ہو تو میں اس کی پیروی اختیار کرلوں گا (١٢) القصص
50 پھر اگر وہ تمہارا چلینج قبول نہ کریں تو سمجھ لو کہ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کے پیرو ہیں اور اس شخصے بڑھ کرکون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی جانب سے کسی رہنمائی کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے بلاشبہ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں بخشتا القصص
51 اور ہم نصیحت کی باتیں پہیم انکے پاس پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں القصص
52 جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں (١٣) القصص
53 اور جب قرآن انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے یہ واقعی ہمارے رب کی طرف سے حق ہے ہم تو اس سے پہلے ہی ماننے والے تھے (١٤) القصص
54 یہی وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر واستقامت کے باعث دوہرا اجر دیا جائے گا اور وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں القصص
55 اور جب کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرلیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں ہمارے عمل ہمارے لیے اور تمہارے عمل تمہارے لیے تم کو سلام ہوہم بے سمجھ لوگوں کو منہ لگانا نہیں چاہتے القصص
56 اے نبی تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے القصص
57 اور کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہوکرہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لیے جائیں کیا ہم نے انہیں حرم سرائے امن میں جگہ نہیں دی جہاں ہر چیز کا ثمرہ کھنچاچلاآتا ہے؟ ہمارے ہاں سے انہیں رزق پہنچتا ہے لیکن اکثروں کو یہ بھی علم نہیں (١٥) القصص
58 اور کتنی ہی آبادیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا حالانکہ اسباب معیشت سے وہ مالامال تھیں یہ بربادی کے خرابے اور تباہی کے کھنڈر انہیں (رح) وگوں کے گھر ہیں جو پھر آباد نہ ہوسکے اور آخرکار ان کے مال ومتاع کے ہم ہی وارث ہوئے القصص
59 اور یادرکھو تمہارے پروردگار کا قانون یہ ہے کہ وہ کبھی انسانوں کی بستیوں کو (پاداش عمل میں) ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان میں ایک پیغمبر مبعوث نہ کردے اور وہ خدا کی آیتیں پڑھ کر نہ سناوے اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر صرف اس حالت میں کہ ان کے باشندوں نے ظلم کاشیوہ اختیار کرلیاہو (١٦) القصص
60 اور جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ محض دنیاوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر اور بقی رہنے والا ہے کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ القصص
61 کیا بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کررکھا ہے پھر وہ اسکو پانے والا ہوکبھی اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیوی زندگی کاسروسامان دے رکھا ہو پھر وہ قیامت کے دن ان لوگوں میں سے ہو جو مجرمانہ حیثیت سے پیش کیے جائیں گے القصص
62 اور جس دن اللہ ان کافروں کو پکار فرمائے گا، کہاں ہیں وہ لوگ جن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ میرے شریک ہیں؟ القصص
63 جن پر اللہ کے عذاب کا فرمان ثابت ہوچکا، وہ کہیں گے اے ہمارے رب ایسے لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے انہیں اسی طرح گمراہ کیا تھا جس خود ہم گمراہ ہوئے ہم آپ کے روبرو براءت کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ ہماری پوجانہیں کرتے تھے (١٧)۔ القصص
64 اور کہا جائے گا تم لوگ اپنے شرکاء کو مدد کے لیے پکارو چنانچہ وہ پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے کاش یہ ہدایت پانے والے ہوتے القصص
65 اور اس روز اللہ ان کافروں سے پکار کر پوچھے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟ القصص
66 سو اس دن ان سے سب باتیں گم ہوجائیں گی لہذا وہ ایک دوسرے سے کچھ دریافت بھی نہ کرسکیں گے القصص
67 اور البتہ جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتا رہا توامید ہے ایسا شخص فلاح پانے والوں میں سے ہوگا القصص
68 اور آپ کارب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے یہ انتخاب ان لوگوں کا کام نہیں ہے اللہ ان کے شرک اور شرکاء سے پاک اور بلند ہے جو یہ لوگ کرتے اور بناتے ہیں (١٨)۔ القصص
69 اور تیرا رب خوب جانتا ہے کہ جو کچھ یہ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں القصص
70 وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اسی کے لیے حمد وثنا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اسی کی فرماں روائی ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے القصص
71 آپ ان سے پوچھیے بھلایہ تو بتاؤ اگر تم پر اللہ ہمیشہ قیامت کے دن تک رات ہی رہنے دے تو اللہ کے سوا کون سامعبود ہے جو تمہارے لیے روشنی لے آئے؟ کیا تم سنتے نہیں ہو القصص
72 آپ ان سے پوچھیے بھلایہ تو بتاؤاگر تم پر اللہ قیامت کے دن تک دن ہی رکھے تو اللہ کے سوا وہ کون ہے جو تمہارے لیے رات لے آئے کہ تم اس میں سکون حاصل کرو؟ کیا تم دیکھتے نہیں؟ القصص
73 اور (دیکھو) یہ اس کی رحمت کی کارسازی ہے کہ تمہارے لیے رات اور دن الگ الگ ٹھہرا دیے تاکہ رات کے وقت راحت پاؤ اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو (کاروبار معیشت میں سرگرم رہو) اور تاکہ تم شکرگزار ہو القصص
74 اور یاد رکھو کہ جس دن کہ اللہ کافروں کو پکار کر کہے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم میرا شریک سمجھتے تھے القصص
75 اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر ان (مشرکوں) سے کہیں گے کہ (شرک کے حواز پر) اپنی دلیل پیش کرو تب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حق اللہ ہی کی طرف سے تھا اور جو افتراء پردازیاں وہ کرتے تھے سب گم ہوجائیں گی القصص
76 بلاشبہ قارون موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان پر ظلم وزیادتی کرنے لگا اور ہم نے اس کواتنے خزانے دیے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی ایک دفعہ قارون کی قوم نے اس سے کہا تو اترا مت بے شک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا القصص
77 اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی جستجو کر اور دنیا میں اپنے حصہ کوفراموش نہ کر اور انسانوں پر احسان کرجیسا کہ اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہیی اور زمین میں فساد نہ پھیلا اللہ فساد پھیلانے والوں کو دوست نہیں رکھتا (١٩)۔ القصص
78 قارون نے جواب دیا مجھ کو یہ سب کچھ اس علم کی وجہ سے ملا ہے جو مجھ کو حاصل ہے کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے گزشتہ قوموں میں سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے جوقوت میں اس سے زیادہ اور مال جمع کرنے میں اس سے بڑھ کر تھے اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے متعلق پوچھا نہیں جاتا القصص
79 چنانچہ ایک روز) وہ اپنی قوم کے سامنے پورے ٹھاٹھ میں نکلا تو ان لوگوں نے جودنیوی زندگی کے طالب تھے حسرت کھائی کہ کاش ہمارے پاس بھی وہ ہوتا جوقارون کودیا گیا ہے وہ کیسا بڑا نصیب والا ہے القصص
80 مگر جو لوگ صاحب علم سعادت تھے انہوں نے کہا کہ صدافسوس تم پر، اصل نعمت تو اللہ تعالیٰ کا وہ بدلہ ہے جو صالحین کو ان کے اعمال کاملتا ہے (اور خدا کے مومن وصالح بندوں کے لیے وہی سب سے بڑی چیز ہے) القصص
81 آخر کار ہم نے اس کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا پھر نہ تو کوئی ایسا گروہ تھا جو اس کی مدد کرکے اللہ سے بچالیتا اور نہ وہ خود اپنے آپ کو بچا سکا القصص
82 اب وہی لوگ جوکل اس کے ہم مرتبہ ہونے کی تمنا کررہے تھے کہنے لگے اے افسوس اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کارزق فراخ کردیا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کردیتا ہے اگر ہم پر اللہ احسان نہ کرتا توہ میں بھی دھنسا دیتا افسوس، واقعی بات یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پایاکرتے القصص
83 یہ آخرت کا گھر صرف ان ہی لوگوں کے لیے بنائیں گے جونہ تو خدا کی زمین میں بڑائی اور سرکشی کرنا چاہتے ہوں اور نہ زمین ہی کا فساد انہیں پسند ہو اور انجام کار انہی لوگوں کے لی ہے جو متقی ہیں (٢٠) القصص
84 جوشخص نیکی لے کرحاضر ہوگا تو اس کو اس کی نیکی سے بہتر بدلہ ملے گا اور جو بدی لے کر حاضر ہوگا تو ایسے بداعمالوں کو وہی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے القصص
85 بلاشبہ جس نے یہ قرآن آپ پر فرض کیا ہے وہ آپ کو ضرور بہتر انجام تک پہنچانے والا ہے اور ان سے کہہ دیجئے میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت لے کرآیا ہے اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے (٢١)۔ القصص
86 آپ کو یہ توقع بھی نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب نازل کی جائے گی مگر یہ تو محض آپ کے رب کی مہربانی سے (نازل کی گئی) لہذا آپ ہرگز ان کافروں کے مددگار نہ بنیں القصص
87 اور کبھی ایسانہ ہونے پائے کہ جب اللہ کی آیات آپ پرنازل ہوں تو یہ لوگ ان پر عمل سے آپ کو روک دیں اور آپ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں اور کبھی مشرکوں میں شامل نہ ہوں القصص
88 اور نہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات کے سواہرچیز فنا ہونے والی ہے اس کی فرمانروائی ہے اور اسی کی طرف تم سب کی بازگشت ہے۔ القصص
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے العنكبوت
1 الم (١) العنكبوت
2 کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان سے ایمانداری اور راست بازی کا دعوی کریں گے اور بغیر آزمائے چھوڑدئیے جائیں گے؟ العنكبوت
3 حالانکہ جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں خدا نے انہیں بھی آزمائش میں ڈالا تھا ( اور یہ ناگزیر ہے) پس عنقریب خدا ان لوگوں کو معلوم کرکے رہے گا جو اپنے دعوی صداقت میں سچے ہیں، اور انہیں بھی جو اپنے اندر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں رکھتے العنكبوت
4 جن لوگوں کی قوتیں اعمال بد میں صرف ہورہی ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں گے؟ اگر ایسا سمجھتے ہیں تو کیا ہی بری سمجھ اور کیا ہی برافیصلہ ہے؟ العنكبوت
5 جوشخص اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے (تو اسے چاہیے کہ اس کی تیاری کرتا رہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وقت آنے ہی والا ہے اور وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ العنكبوت
6 اور یادرکھو کہ جو سچائی اور راست بازی کی راہ میں تکلیف اٹھاتا ہے تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ایسا ہی کرتا ہے خدا دنیا کے تمام لوگوں اور ان کے اعمال سے بے نیاز ہے؟ العنكبوت
7 جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ہم ضرور ان کے گناہ دور کردیں گے اور ان کے کاموں کا جو وہ کیا کرتے تھے بہترین بدلہ عطا فرمائیں گے العنكبوت
8 اور ہم نے انسان کو بتاکید حکم دیا کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوککرے لیکن وہ اگر تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے شریک ہونے کا تجھے کچھ بھی علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کر تم سب کو میری طرف لوٹ کرآنا ہے پھر میں تمہیں ان کاموں کی حقیقت سے آگاہ کروں گا جو تم کیا کرتے تھے (٢)۔ العنكبوت
9 جولوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے تو ان کو ہم نیک لوگوں میں داخل کریں گے العنكبوت
10 اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، مگر جب اللہ کی راہ میں انہیں کوئی اذیت پہنچتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذارسانی کو اللہ کا عذاب سمجھ لیتا ہے اور اگر آپ کے رب کی جانب سے کوئی مدد پہنچتی ہے تو یہی لوگ کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ رہے ہیں (کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں) کیا اللہ تعالیٰ ان چھپے ہوئے بھیدوں سے واقف نہیں جودنیا کے سینوں میں مدفون ہیں؟۔ العنكبوت
11 اور اللہ ضرور ان لوگوں کو دیکھے گا جو ایمان لائے ہیں اور ان کو بھی دیکھے گا جو منافق ہیں (٣)۔ العنكبوت
12 اور کافر اہل ایمان سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریق پر چلو اور تمہارے گناہ ہم اٹھائیں گے حالانکہ ہی کافر ان کے گناہوں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں اور یہ بالکل جھوٹ بول رہیے ہیں العنكبوت
13 ہاں یہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جو افترا پردازیاں یہ لوگ کرتے ہیں قیامت کے دن ان سب کی باز پرس کی جائے گی (٤)۔ العنكبوت
14 اور بلاشبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بناکربھیجا ہے (٥) سو وہ ان میں پچاس کم ایک ہزار برس ٹھہرے (٦) آخر کار ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا اور وہ بڑے ہی نافرمان تھے العنكبوت
15 پھرہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچالیا اور اسے دنیائے جہان والوں کے لیے ایک نشاب عبرت بنادیا (٧)۔ العنكبوت
16 اور ابراہیم کو بھیجا جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو (٨)۔ العنكبوت
17 تم اللہ کوچھوڑ کر محض بتوں کی پرستش کررہے ہو اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو اور یہ واقعہ ہے کہ خدا کوچھوڑ کر تم جن کی پرستش کررہے ہو وہ تمہیں روزی دینے کاذرا بھی اختیار نہیں رکھتے سو تم اللہ ہی سے رزق طلب کرو، اسی کی بندگی کرو اور اسی کاشکرادا کرو (تم سب کواسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے) العنكبوت
18 اگر تم لوگ تکذیب کرو گے تو تم سے پہلے بھی مختلف قومیں (اپنے پیغمبروں کی) تکذیب کرچکی ہیں اور رسول پر تو صاف صاف پہنچادینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے العنكبوت
19 کیا انہوں نے دیکھا نہیں ہے کہ اللہ کس طرح مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا؟ یقینا یہ (اعادہ تو) اللہ کے لیے نہایت آسان ہے العنكبوت
20 ان سے کہیے کہ زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح پہلی بار پیدا کیا پھر اللہ ہی آخری نشاۃ بخشے گا، یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے العنكبوت
21 وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے اور تم سب کواسی کی طرف پلٹ کرجاؤ گے العنكبوت
22 اور تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں، اور اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تمہارا کوئی حمایتی ہے اور نہ کوئی مددگار ہے العنكبوت
23 اور جو لوگ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے العنكبوت
24 پھر اس کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا یا تو اسے قتل کردو یاجلاڈالو، آخرکار اللہ نے اسے آگ سے بچالیا بے شک اس واقعہ میں بھی ان لوگوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں العنكبوت
25 اور ابراہیم نے کہا تم نے دنیوی زندگی میں تو اللہ کوچھوڑ کر بتوں کو باہمی محبت کا ذریعہ بنارکھا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے پر لعنت کرو گے تمہارا ٹھکانا آگ ہی ہوگی اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا العنكبوت
26 اس پر لوط نے ابراہیم کی تصڈیق کی اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتاہوں بے شک وہ زبردست اور کامل حکمت والا ہے العنكبوت
27 اور ہم نے ابراہیم کواسحاق اور یعقوب عطا کردیے اور ان کی نسل میں نبوت اور کتاب کاسلسلہ جاری رکھا اور ہم نے دنیا میں بھی ان کو اس کا صلہ عطا کیا اور بلاشبہ وہ آخرت میں نیک لوگوں میں سے ہوگا (٩)۔ العنكبوت
28 اور ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کربھیجا جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا، یقینا تم وہ فحش کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیائے جہان میں سے کسی نے بھی اس کا ارتکاب نہیں کیا العنكبوت
29 کیا تم لوگ خلاف وضع فطری کے مرتکب ہوتے ہو، دن دہاڑے ڈاکے مارتے ہو اور مجلسوں میں علانیہ برائیوں کے مرتکب ہوتے ہو؟ پس اس کی قوم کا اس کے سوا کچھ جواب نہ تھا کہ اگر تو سچا ہے تو اللہ کا عذاب لا دکھا (١٠) العنكبوت
30 لوط نے دعا کی، اے میرے رب ان مفسدلوگوں کے مقابلہ میں میری مدد فرما العنكبوت
31 اور جب ہمارے فرستادے ابراہیم کے پاس بشارت لے کرآئے تو انہوں نے ابراہیم سے کہا، ہم اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ اس کے باشندے بڑے ہی ظالم ہیں العنكبوت
32 ابراہیم نے کہا اس بستی میں تو لوط بھی ہے تو انہوں نے کہا ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے ہم اسے اور اس کے گھروالوں کو بچالیں گے مگر اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے العنكبوت
33 اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور تنگ دل ہوئے انہوں نے کہا نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ ہم تمہیں اور تمہارے گھروالوں کو بچالیں گے سوائے تمہاری بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے (١١)۔ العنكبوت
34 ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس فسق کی بدولت جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں العنكبوت
35 اور ہم نے اس بستی سے ان لوگوں کے لیے کھلی نشانی (آثار) چھوڑ دی ہے جو عقل سے کام لیتے ہیں العنكبوت
36 اور مدین والوں کے پاس ہم نے ان کے بھائی شعیب کو پیغمبر بنا کربھیجا سو شعیب نے کہا، میری قوم کے لوگو، اللہ کی عبادت کرو اور یوم آخرت کو ملحوظ رکھو اور زمین میں فساد برپا نہ کرتے پھرو العنكبوت
37 مگر انہوں نے شعیب کی تکذیب کی، آخر کار ایک زلزلہ نے انہیں آپکڑا پھر وہ اپنے گھروں میں منہ کے بل پڑے کرپڑے رہ گئے العنكبوت
38 اور ہم نے عاد اور ثمود کو بھی ہلاک کیا اور ان کی سکونت گاہوں سے تم پر (ان کی تباہی) ظاہر ہوچکی ہے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو خوش منظر بنادیا تھا چنانچہ انہیں سیدھی راہ سے روک دیا تھا حالانکہ وہ گوش گوش ہوش رکھتے تھے (١٢)۔ العنكبوت
39 اور ہم نے قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہلاک کیا، بلاشبہ موسیٰ ان کے پاس صاف دلائل لے کرآیا مگر انہوں نے ملک میں سرکشی کی حالانکہ وہ (ہم سے بچ کر) سبقت لے جانے والے نہ تھے العنكبوت
40 الغرض ہم نے ان سب کو ان کے گناہوں کی پاداش میں پکڑ لیا، پھر بعضو پر تو ہم نے پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیجی اور بعض کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا، اور بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو غرق کردیا، اور اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر یہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کررہے تھے (١٣)۔ العنكبوت
41 ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا اور لوگوں سے دوستی کرتے ہیں مکڑی کی ہے مکڑی گھر بنانے کو تو بناتی ہے مگر گھروں میں کمزورترین گھر مکڑی کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے (١٤)۔ العنكبوت
42 اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں کی حقیقت سے واقف ہے جن کو یہ لوگ خدا کے سوا پوجتے ہیں اور وہی زبردست، کامل حکمت والا ہے العنكبوت
43 اور یہ مثالیں ہم لوگوں (کوسمجھانے) کے لیے بیان کرتے ہیں مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں العنكبوت
44 اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور بلاشبہ اس باب میں ارباب الایمان کے لیے معرفت حق کی بڑی نشانیاں ہیں (١٥)۔ العنكبوت
45 کتاب میں تم پر وحی اتری ہے اور اسے پڑھو اور نماز کو درست طریق پر ادا کرو حقیقت میں نماز بداخلاقیوں اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد سب سے برتر ہے اور اللہ تمہاری کاری گری کو خوب جانتا ہے (١٦) العنكبوت
46 اہل کتاب سے بحت نہ کرو مگر بطریق پسندیدہ، سوائے ان لوگوں کے جوان میں ظالم ہیں (ان سے رعایت نہ کیجئے) اور ان سے کہو کہ ہم اس کتاب پر ایمان لائے جوہماری طرف بھیجی گئی ہے اور ان پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں (١٧)۔ العنكبوت
47 اور اے نبی ہم نے اسی طرح آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے (جس طرح ہم نے پہلے نبیوں پر کتابیں نازل کیں) سو جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کتاب (قرآن) پر ایمان رکھتے ہیں اور ان مشرکین میں سے بعض وہ ہیں جو اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور اور ہماری آیات کو ماننے سے صرف کافر ہی انکار کرتے ہیں العنكبوت
48 اے نبی) آپ اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اس (کتاب) کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ایسا ہوتا تو یہ باطل پرست لوگ ضرور کسی نہ کسی شبہ میں پڑتے (١٨)۔ العنكبوت
49 بلکہ یہ قرآن تو صاف اور واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جن کو علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کو ماننے سے انکار صرف وہی کرتے ہیں جو ظالم ہیں العنكبوت
50 اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اس پر ہمارے رب کی جانب سے نشانیاں نازل کی گئیں ؟ آپ کہہ دیجئے بس نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں تو بس کھلے طور پر ڈرانے والا ہوں العنكبوت
51 کیا ان لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جوانہیں برابر سنائی جارہی ہے جو لوگ یقین رکھنے والے بلاشبہ ان کے لیے اس نشانی میں سرتاسر رحمت اور فہم وبصیرت ہے (١٩)۔ العنكبوت
52 ان لوگوں سے کہہ دو (اب کسی ردو کد کی ضرورت نہیں) میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی بس کرتی ہے آسمان وزمین میں جو کچھ ہے سب اس کے علم میں ہے پس جو لوگ حق کی جگہ باطل پر ایمان لائے ہیں اور اللہ کی صداقت کے منکر ہیں وہی ہیں جوتباہ ہونے والے ہیں العنكبوت
53 اور یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی کرتے ہیں کہ واقعی عذاب آنے والا ہے توکیوں نہیں آتا، اور واقعہ یہ ہے کہ اگر ایک وقت خاص نہ ٹھہرایا گیا ہوتوکب کا عذاب آچکا ہوتا اور یقین رکھو وہ یکایک ان پر آگرے گا اورا نہیں اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا العنكبوت
54 یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور بلاشبہ جہنم ان کافروں کوہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے العنكبوت
55 جس دن کہ عذاب انہیں اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ڈھانک لے گا اور اللہ فرمائے گا اب ان کرتوتوں کا مزہ چکھو جو تم کرتے تھے العنكبوت
56 اے میرے بندوں کہ مجھ پر ایمان رکھتے ہو، یقین کرو (٢٠) کہ میری زمین بہت وسعی ہے اور کسی ایک ٹکڑے میں تقسیم نہیں ہے پس میرے ہی آگے جھکو اور میری ہی بندگی کرو العنكبوت
57 ہر متنفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے العنكبوت
58 جولوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ہمان کو یقینا جنت کی بلندوبالا عمارتوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے کیا خوب صلہ ہے عمل کرنے والوں کے لیے العنكبوت
59 وہ جنہوں نے صبر سے کام لیا اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں العنكبوت
60 کتنے ہی زمین پر چلنے والے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ تعالیٰ ہی ان کو رزق پہنچاتا ہے اور تم کو بھی وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے العنكبوت
61 اور اگر ان مشرکین سے تم پوچھو کہ وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین پیدا کیے؟ اور سورج اور چاند کو اس ترتیب اور نظام عجیب پر مسخر کردیا؟ تو بے اختیار بول اٹھیں گے کہ اللہ تو پھر یہ گمراہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں (٢١)۔ العنكبوت
62 اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے روزی کو تنگ کردیتا ہے اور وہ ہر چیز کے حال سے باخبر ہے العنكبوت
63 اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ کس نے آسمان سے تدریجا پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے وہ اللہ ہی ہے آپ کہیے سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔ العنكبوت
64 اور یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا اور کیا ہے فانی خواہشات کے بہلانے کا ایک کھیل ہے اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے کاش وہ جانتے العنكبوت
65 پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اس سے دعائیں مانگتے ہیں پھر جب اللہ ان کو نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے تو اسی آن شرک کرنے لگ جاتے ہیں العنكبوت
66 تاکہ جو احسان ہم نے ان پر کیا ہے اس کی ناشکری کریں اور (چند دن کے لیے) مزے لوٹیں اچھا عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا العنكبوت
67 کیا ہماری قدرت کی اس نشانی کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن وحفاظت کا گھر بنادیا اور اس کے اردگرد لوگ لٹ جاتے ہیں کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کو جھٹلاتے ہیں (٢٢)۔ العنكبوت
68 اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یاحق جب اس کے پاس آجائے تو اس کی تکذیب کرے کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا دوزخ ہی نہیں ہے؟ العنكبوت
69 اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جانفشانی کی، ضروری ہے کہ ہم بھی ان پر راہیں کھول دیں (٢٣) اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جونیک کردار ہیں۔ العنكبوت
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الروم
1 الم الروم
2 ) رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے الروم
3 اور وہ اپنے اس مغلوب ہونے کے عنقریب بعد غالب ہوجائیں گے الروم
4 چند سال کے اندر اللہ کے اختیار میں ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی (١) اور وہ دن ہوگا کہ اللہ کی مدد ونصرت کے ظہور سے ایمان والوں کے لیے خوشی اور راحت ہوگی الروم
5 وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزیز ورحیم ہے الروم
6 یقین رکھو کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدہ کے خلاف کبھی نہیں کرتا لیکن بہت سے لوگ ہیں جو اس حقیقت کو نہیں جانتے الروم
7 یہ وہ لوگ ہیں جن کا علم بس دنیا کی ظاہری زندگی تک محدود ہے اور آخرت کی زندگی سے وہ بالکل غافل ہوگئے ہیں الروم
8 کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض بیکار اور عبث نہیں بنایا؟ ضروری ہے کہ حکمت اور مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک وقت مقرر ٹھہرادیا ہواصل بات یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔ الروم
9 کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ؟ (یعنی اگر پھرتے) تو دیکھتے کہ وہ قومین جو ان سے پہلے گزری ہیں ان کا انجام کیا ہوا وہ قومیں تھیں جو ان سے تمدن وترقیات اور قوائے جسمانی سے بڑھ کر قوی تھیں انہوں نے زمین پر اپنے کاموں کے آثار چھوڑے اور جس قدر تم نے اسے متمدن بنایا ہے اس سے کہیں زیادہ انہوں نے تمدن پھیلایا ہے لیکن جب ہمارے رسول ان میں بھیجے گئے اور ہماری نشانیاں انہیں دکھائی گئیں تو انہوں نے سرکشی اور بغاوت سے انہیں جھٹلادیا اور برباد فنا ہوگئے خدا ظلم کرنے والا نہیں تھا لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا (٢) الروم
10 آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام برا ہی ہوا، اس لیے کہ انہوں نے آیات الٰہی کی تکذیب کی اور وہ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے الروم
11 اللہ ہی مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (٣)۔ الروم
12 اور جس دن وہ ساعت بپا ہوگی تو مجرم لوگ مایوس ہر کر رہ جائیں گے الروم
13 اور ان کے خود ساختہ شریکوں میں کوئی بھی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ خود بھی اپنے خود ساختہ شریکوں کے منکر ہوجائیں گے (٤)۔ الروم
14 اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن سب لوگ جدا جدا ہوجائیں گے الروم
15 پھر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو وہ بہشت کے باغ میں مسرور ہوں گے الروم
16 اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو یہ لوگ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے الروم
17 ) پس پاکی ہے اللہ کے لیے اور آسمان اور زمین میں اس کے لیے ستائش ہے جب تم پر شام آتی ہے اور جب تم پر صبح ہوتی ہے الروم
18 اور اس کے لیے ہے پاکی آسمان اور زمین میں اور جب دن کا آخری وقت ہوتا ہے اور جب تم پر دوپہر ہوتی ہے (٥)۔ الروم
19 وہ جاندار کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے اسی طرح تم لوگ بھی (حالت موت سے) نکال لیے جاؤ گے الروم
20 اور دیکھو) اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں) پھیلتے جارہے ہو (٦)۔ الروم
21 اور اس کی (رحمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کردیے (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کردیا، بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جوغوروفکر کرنے والے ہیں، اس میں (حکمت الٰہی کی) بڑی نشانیاں ہیں الروم
22 اور حکمت الٰہی کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی آسمانوں اور زمین کی خلقت ہے اور طرح طرح کے رنگوں اور بولیوں کاپیدا ہونا ہے فی الحقیقت اس میں بڑی نشانیاں ہیں ارباب علم وحکمت کے لیے۔ الروم
23 اور خدا کی آیات میں تمہارا رات کو سونا اور دن میں خدا کے احسان کو تلاش کرنا ہے بلاشبہ اس میں سننے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں الروم
24 دیکھو، قدرت وحکمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ بجلی کی کڑک اور چمک نمودار کرتا ہے اور اس سے تم پر خوف اور امید دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور پانی کی تاثیر سے زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے جو عقل وبینش رکھتے ہیں،(حکمت الٰہی کی) بڑی نشانیاں ہیں الروم
25 اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جونہی کہ وہ تم کو زمین سے پکار کربلائے گا تو تم سب (پکارتے ہی) اچانک نکل پڑو گے الروم
26 اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اسی کے حکم کے تابع ہیں اور منقاد ہیں الروم
27 وہی ہے جو ابتداء مخلوق کو پیدا کرتا ہے وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی صفت سب سے بالاتر ہے اور وہ زبردست اور کامل حکمت والا ہے۔ الروم
28 وہ تمہارے لیے خود تمہاری ذات سے ہی ایک مثال بیان کرتا ہے کیا اس مال ومتاع میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے تمہارے غلام تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہیں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟ ہم اس طرح توحید کے دلائل ان لوگوں کے سامنے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں (٧)۔ الروم
29 مگرہ ظالم بغیر کسی دلیل کے اپنی خواہشات کے پیچھے چل رہے ہیں سو جس کو اللہ نے گمراہ کردیا ہو اسے کون راستہ دکھلاسکتا ہے؟ اور ایسے گمراہوں کا کوئی مددگار نہ ہوگا الروم
30 تم ہر طرف سے منہ پھیر کر، الدین، کی طرف رخ کرو، یہی خدا کی بناوٹ (فطرت) ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے (٨) اللہ کی بناوٹ میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہی دین قیم ہے لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے۔ الروم
31 ) اسی ایک خدا کی طرف متوجہ رہو، اس کی نافرمانی سے بچو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ، الروم
32 جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور گروہ بندیوں میں بٹ گئے ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اس میں مگن ہے الروم
33 اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع ہو کر اسی کو پکارنے لگتے ہیں پھ رجب اللہ ان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو یکایک ان میں سے ایک فریق اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے الروم
34 تاکہ جو احسان ہم نے ان پر کیا ہے اس کی ناشکری کریں، سو (چند دن اور) فائدہ اٹھالو، عنقریب تم کو سب حال معلوم ہوجائے گا الروم
35 کیا ہم نے ان پر کوئی سند نازل کی ہے کہ خدا کے ساتھ جو شرک یہ کررہے ہیں اس (کی صداقت) پر شہادت دیتی ہے؟۔ الروم
36 اور جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا مزرہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر نازاں ہوجاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کی وجہ سے ان پر کوئی مسیبت آجاتی ہے تو ناگہاں وہ ناامید ہوجاتے ہیں الروم
37 کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں الروم
38 سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور مسکین اور مسافر کو بھی، یہ بھی ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو رضائے الٰہی کے طلبگار ہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں (٩)۔ الروم
39 اور جو سود تم دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں مل کر زیادہ ہوجائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا، اور جو صدقہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے دوگے تو وہی لوگ مال بڑھانے والے ہیں الروم
40 اللہ وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکون میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام کرتا ہو؟ پاک ہے وہ ذات اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ کررہے ہیں۔ الروم
41 خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ اللہ لوگوں کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں (١٠)۔ الروم
42 آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں چل پھر کردیکھو کہ جو لوگ پہلے گزرچکے ہیں ان کا انجام کیا ہوا؟ ان میں سے اکثر لوگ مشرک ہی تھے الروم
43 سوآپ خود کودین قیم پر قائم رکھیے اس سے پہلے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ دن آجائے جوٹل نہیں سکتا اس دن لوگ جدا جدا ہوجائیں گے الروم
44 جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کاوبال اسی پر ہے اور جن لوگوں نے نیک عمل کیے ہیں تو وہ لوگ اپنے ہی لیے (فلاح کاراستہ) ہموار کررہے ہیں الروم
45 تاکہ اللہ ان لوگوں کو اپنے فضل سے جزادے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے یہ واقعہ ہے کہ اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا الروم
46 اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ خوش خبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت سے لذت اندوز کرے اور تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں جاری ہوں اور تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کاشکر بجالاؤ۔ الروم
47 بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبروں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا سو وہ ان کے پاس روشن دلائل لے کرآئے پھر ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جوجرائم کے مرتکب ہوئے اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ لازم تھا (١١)۔ الروم
48 یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہی پھر ہوائیں بادل کو حرکت میں لاتی ہیں پھر وہ (اللہ) جس طرح چاہتا ہے انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ برکت ملنی تھی وہ خوش ہوجاتے ہیں الروم
49 گویا وہ لوگ اس بارش سے پہلے مایوس ہورہے تھے الروم
50 پس رحمت الٰہی کی نشانیوں کو دیکھو کہ وہ زمین کو موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشتا ہے (١٢) بے شک وہ موت کو زندگی سے بدل دینے والا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ الروم
51 اگر ہم کوئی اور ہوا بھیج دیں اور وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو یہ اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں الروم
52 (اے نبی) یقینا آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ آپ بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ پھیرے چلے جارہے ہوں الروم
53 اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچاکرراست پرلاسکتے ہیں آپ صرف انہی لوگوں کوسناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں پھر وہ فرمانبردار رہتے ہیں الروم
54 یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمہیں اس طرح پیدا کیا کہ پہلے ناتوانی کی حالت ہوتی ہے پھر ناتوانی کے بعد قوت آتی ہے پھر قوت کے بعد ناتوانی اور بڑھاپا ہوتا ہے وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ علم اور قدرت رکھنے والا ہے (١٣)۔ الروم
55 اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو مجرم قسمین کھاکھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے، اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں حق سے پھرے ہوئے تھے (١٤)۔ الروم
56 اور جن لوگوں کو علم اور ایمان عطا کیا گیا وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم قیامت تک پڑے رہے ہو سو یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہ تھے الروم
57 پس اس روز نہ تو ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ دے گی اور نہ ان سے اللہ کو راضی کرنے کی خواہش کی جائے گی الروم
58 اور بے شک ہم نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کی ہے خواہ آپ ان کے پاس کوئی نشانی لے آئیں تب بھی کافر لوگ یہی کہیں گے کہ تم باطل پر ہی ہو الروم
59 اس طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہرلگا دیتا ہے جوعلم نہیں رکھتے الروم
60 سو (اے پیغمبر) آپ صبر کیجئے بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے، اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو ہلکی باتوں پر آمادہ نہ کردیں (١٥)۔ الروم
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے لقمان
1 الم۔ لقمان
2 ) یہ کتاب حکیم کی آیتیں ہیں (١) لقمان
3 نیکوکار لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہیں لقمان
4 جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں لقمان
5 یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں لقمان
6 اور انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو غافل کرنے والا کلام خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو بغیر علم کے اللہ کے راستہ سے بھٹکا دے اور اس (راہ حق) کا مذاق اڑائے ایسے لوگوں کے لیے ذلیل کن عذاب ہے لقمان
7 اور جب ان میں سے کسی منکر کو قرآن کی آیتیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں توہیجان وغرور سے اکڑتا ہواگردن پھیر کر چل دیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا اس کے کانوں میں ثقل ہے سوآپ اس کو المناک عذاب کی بشارت سنادیجئے لقمان
8 البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے نعمت کے باغ ہیں لقمان
9 جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ زبردست اور کامل حکمت والا ہے لقمان
10 اس (اللہ تعالی) نے آسمانوں (اجرام سماویہ) کو پیدا کردیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں اور زمین میں مظبوط پہاڑ ڈال دیے (٢) تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلکے نہیں اور اس میں ہر قسم کے حیوانات پھیلادیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس میں ہر قسم کی چیزیں عمدہ اگائیں لقمان
11 یہ سب چیزیں تو اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں اب مجھے یہ تو دکھاؤ کہ اس کے سوا اوروں نے کیا پیدا کیا؟ دراصل یہ ظالم صریح گمراہی میں مبتلا ہیں لقمان
12 بلاشبہ ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ اللہ کاشکر ادا کرتا رہ اور جو شکرگزار ہوگا تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے شکر کرتا ہے اور جس نے ناسپاسی کی تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے (٣)۔ لقمان
13 اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹھے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیو بلاشبہ شرک بڑاہی ظلم ہے لقمان
14 اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکید کی ہے اس کی ماں نے ضعف پر ضعف برادشت کرتے ہوئے اس کو پیٹ میں رکھا اور دوسال اس کو دودھ چھوٹنے میں لگے۔ اس لیے ہم نے اسے تاکید کی ہے کہ (اے انسان) تو میرا اور اپنے والدین کاشکر گزار بن کررہ میرے ہی پاس لوٹ کرآنا ہے لقمان
15 اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ توایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرا جس کے معبود ہونے کا تجھ کو علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ مان ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا رہ، اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو میری طرف رجوع ہو، پھر تم سب کو لوٹ کر میری طرف آنا ہے اس وقت میں تمہی آگاہ کردوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے تھے لقمان
16 اے میرے بیٹے کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ کسی پتھر کی اندر ہویا آسمانوں میں ہویاوہ زمین میں ہو تو اللہ اس کو بھی لاحاضر کرے گا، بے شک اللہ نہایت باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے لقمان
17 اے میرے بیٹے، صلوۃ الٰہی کو قائم رکھ، نیکی کا حکم کر، برائی سے روک، اور اس فرض احتساب کے ادا کرنے میں جو تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں، ان پر صبر کر، یہ بڑے ہی پختہ ارادے اور اعلی درجے کا کام ہے لقمان
18 اور لوگوں سے بے رخی کابرتاؤنہ کر اور نہ زمین پر متکبرانہ انداز سے چلا کر بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ لقمان
19 اور اپنی چال میں اعتدال سے کام لو اور آواز کو پست رکھ، بلاشبہ سب آوازوں سے بری گدھے کی آواز ہے لقمان
20 کیا تم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب تمہارے لیے خدا نے مسخر کردیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی پوری کردی ہیں اور انسانوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہویاہدایت یا کوئی روشن کتاب لقمان
21 اور جب اس قسم کے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان کو بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہی دعوت کیوں نہ دے رہا ہو؟ (٤)۔ لقمان
22 اور جس کسی نے اپنا منہ اللہ کی طرف جھکادیا (اپنی گردن اللہ کے حوالے کردی) اور اعمال حسنہ انجام دیے تو بس دین الٰہی کی مضبوط رسی اس کے ہاتھ آگئی اور انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ لقمان
23 اور جوکفر کرتا ہے تو اس کا کفر آپ کو غم میں مبتلا نہ کرے ان سب کو ہمارے پاس لوٹ کرآنا ہے پھر ہم انہیں ان کے اعمال کی حقیقت سے آگاہ کردیں گے جو وہ کرتے رہے ہیں بے شک الہ سینوں کی تمام باتوں سے خوب واقف ہے لقمان
24 ہم تھوڑی مدت انہیں سود مند رکھیں گے پھر انہیں ناچار کرکے سخت عذاب کی طرف لے جائیں گے لقمان
25 اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ہے ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے آپ کہیے سب تعریف اللہ کے لیے ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں (٥)۔ لقمان
26 آسمانوں اور زمین میں جو کچھ موجود ہے وہ اللہ ہی کا ہے بے شک اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے لقمان
27 یہ زمین پر (لاکھوں کروڑوں) درخت (جو تم دیکھ رہے ہو) اگر ان سب (کی شاخوں) کو قلم بنادیا جائے اور (تمام بے کنار اور بے کراں) سمندروں سے سیاہی کا کام لیاجائے اور وہ بھی اس طرح کہ جب سمندر ختم ہوجائیں اور ویسے ہی سات نئے عظیم الشان سمندر ان کی جگہ آموجود ہوں اور اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کے کلمات آیات کولکھاجائے پھر بھی یقین کرو کہ وہ کبھی تمام نہ ہوں گے کیونکہ وہ عزیزوحکیم ہے لقمان
28 تم سب کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا بس ایسا ہی ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور دوبارہ جلا اٹھانا) یقینا اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے لقمان
29 کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کررکھا ہے کہ ان میں سے ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ ان تمام کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو لقمان
30 یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اللہ کے سوا جن چیزوں کی یہ عبادت کررہے ہیں وہ سراسر باطل ہیں اور اللہ ہی سب سے برتر اور بڑا ہے لقمان
31 کیا تم دیکھتے نہیں خہ کشی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہراس شخص کے لیے جوصبر اور شکر بجالانے والا ہو لقمان
32 اور جب ان پر سمندر کی موج سائبانوں کی طرح چھاجاتی ہے تو یہ لوگ دین کو خالص اللہ کے لیے کرتے ہوئے پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں کچھ ہی راہ راست پر قائم رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں کابس وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو عہد شکن اور ناسپاس ہوں (٦)۔ لقمان
33 اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈرو جب کہ باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام نہ آسکے گا اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آسکے گا بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے سو تم کو دنیوی زندگی دھوکے میں مبتلا نہ کردے اور نہ دھوکہ باز (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے (٧)۔ لقمان
34 بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ کہ حاملہ عورتوں کے رحموں میں ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی بے شک اللہ ہی سب باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے (٨)۔ لقمان
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے السجدة
1 الم السجدة
2 اس کتاب کا نازل کیا جانا بلاشبہ رب العالمین کی جانب سے ہے (١)۔ السجدة
3 کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو پیغمبر نے خود گھڑلیا ہے نہیں بلکہ یہ حق ہے کہ آپ کے رب کی جانب سے تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو آگاہ کریں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی آگاہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ لوگ ہدایت پر آجائیں (٢)۔ السجدة
4 اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان تمام چیزوں کو جوان دونوں کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر مستوی ہوا بجزاس کے نہ تمہارا کوئی سازگار ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہے پھر کیا تم سوچتے نہیں ہو؟ (٣) السجدة
5 وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر ہر کام ایک دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار (کے حساب) سے ایک ہزار سال ہے اس کے حضور پہنچ جاتا ہے۔ السجدة
6 یہ اللہ تعالیٰ ہے محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا، طاقت والا، رحمت والا، السجدة
7 جس نے جو چیز بنائی حسن وخوبی سے بنائی چنانچہ یہ اسی کی قدرت وحکمت ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی السجدة
8 پھر اس کے توالد وتناسل کاسلسلہ (خون کے) خلاصے سے جوپانی کا ایک حقیر سا قطرہ ہوتا ہے قائم کردیا السجدة
9 پھر اس کی تمام قوتوں کی درستی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھونک دی اور اس طرح اس کے لیے سننے، دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کردیں (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کاشکرگزار ہو السجدة
10 اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی میں مل کر فنا ہوگئے تو کیا ہم ازسرنو پیدا کیے جائیں گے اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں (٤)۔ السجدة
11 آپ فرمادیجئے کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی جانب لوٹائے جاؤ گے السجدة
12 اے پیغمبر اگر آپ گناہ گاروں کو اس وقت دیکھیں گے جب وہ اپنے رب کے حضور سرجھکائے کھڑے ہوں گے (اس وقت کہہ رہے ہوں گے) اے ہمارے رب اب ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، سوآپ ہم کو واپس بھیج دیجئے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں پورا یقین ہوگیا ہے السجدة
13 اگرہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن وہ میری بات سچ ہوکررہی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا السجدة
14 سو اب تم اس دن کی ملاقات کو بھول جانے کا مزہ چکھو، ہم نے بھی تمہیں بھلادیا اور اپنے ان عملوں کے بدلہ میں جو تم کیا کرتے تھے دائمی عذاب کا مزہ چکھو السجدة
15 ) ہماری آیتوں پر تو بس وہ لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کو آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے ہیں اور وہ کسی طرح کا تکبر اور بڑائی نہیں کرتے السجدة
16 رات کو جب سوتے ہیں تو ان کے پہلوبستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور امید وبیم کے عالم میں کروٹیں لے کراپنے پروردگار سے دعامانگتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں السجدة
17 پھر جو کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپاکررکھا گیا ہے اس کو کسی نفس کو بھی خبر ہے؟ السجدة
18 کیا ایک مومن بندے کے اعمال ونتائج ایسے ہوسکتے ہیں جیسے ایک نافرمان اور فاسق کے؟ کیا دونوں برابر ہیں؟ (٥) ہرگز نہیں۔ السجدة
19 جولوگ اللہ کے احکام پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ اختیار کیے ان کے لیے کامیابیوں اور فتح مندیوں کے شاداب باغ وچمن ہوں گے جن میں وہ شاد وخرم رہیں گے اور یہ باغ ہائے فتح ومراد ان کے نیک کاموں کا بدلہ ہیں السجدة
20 مگر جن لوگوں نے احکام الٰہی کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی تو ان کاٹھکانہ تو بس نامرادیوں، ناکامیوں اور اسراوغلامی کی آگ ہوگی، وہ اپنے کاموں اور تلاش نجات میں ایسے گمراہ ہوجائیں گے کہ جب کبھی اس آگ سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ پاداش عمل کے جس عذاب کو تم جھٹلاتے تھے اب اس کے مزے چکھو۔ السجدة
21 اور یہ بھی جان لو کہ آنے والے بڑے عذاب سے پہلے ہم ان منکرین کو ایک چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ شاید غفلت وسرکشی سے باز آجائیں اور ہماری جانب رجوع کریں السجدة
22 اور اس شخص سے بڑھ کرکون ظالم ہوسکتا ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے پھر وہ ان سے منہ موڑے یقینا ہم ایسے مجرموں سے بدلہ لے کر رہیں گے السجدة
23 اور یقینا ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی لہذا آپ اس کتاب کے ملنے میں کسی قسم کاشک نہ کیجئے اور ہم نے اس تورات کو بنی اسرائیل کے لیے رہنما بنایا تھا (٦)۔ السجدة
24 اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پریقین کیے رہے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے السجدة
25 یہ لوگ جن باتوں میں اختلاف کرتے رہتے ہیں یقینا آپ کارب قیامت کے دن ان کے مابین فیصلہ کرے گا السجدة
26 کیا ان کو اس بات سے ہدایت نہیں ملی کہ ہم ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کرچکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں بلاشبہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں کیا یہ سنتے نہیں ہیں؟ (٧)۔ السجدة
27 کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم ایک بے آب وگیاہ زمین کی طرف پانی بہالاتے ہیں پھر اسپانی کے ذریعے سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے مویشی بھی چرتے ہیں اور وہ خود بھی کھاتے ہیں کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں؟ السجدة
28 اور یہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ آخری فیصلہ کب ہوگا؟ السجدة
29 آپ فرمادیجئے آخری فیصلے کے دن کافروں کو، ان کا ایمان لانا کچھ نفع نہیں دے گا اور نہ ہی ان کو مہلت دی جائے گی السجدة
30 سو ان سے اعراض برتیے اور انتظار کرتے رہیے یہ لوگ بھی منتظر ہیں۔ السجدة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الأحزاب
1 اے نبی اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کیجئے درحقیقت اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور کامل حکمت والا ہے (١)۔ الأحزاب
2 اور آپ کے رب کی جانب سے جو وحی بھیجی جارہی ہے اس کا اتباع کیجئے بے شک اللہ ان تمام کاموں سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو الأحزاب
3 اور اللہ پر توکل کرو بے شک اللہ ہی وکیل ہونے کے اعتبار سے کافی ہے الأحزاب
4 اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے اور نہ اس نے تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو تمہاری مائیں بنادیا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ صرف تمہارے اپنے منہ کی کہی ہوئی بات ہے اور اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے الأحزاب
5 منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارویہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں اور نادانستہ جو بات کہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس بات پر مواخذہ ہوگا جودل کے ارادہ سے کرو، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے (٢)۔ الأحزاب
6 نبی تو مومنوں کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں مگر کتاب اللہ کی رو سے دوسرے مومنین اور مہاجرین بہ نسبت رشتہ داروں کے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں الا یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی بھلائی (کرنا چاہوتو) کرسکتے ہو یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے (٣)۔ الأحزاب
7 اور (اے نبی) یاد کرو جب ہم نے تمامنبیوں سے عہدوپیمان لیا اور آپ سے بھی اور نوح، ابراہیم، موسی، اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا الأحزاب
8 تاکہ سچے لوگوں سے (ان کارب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے اور اللہ نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے (٤)۔ الأحزاب
9 اے ایمان والو اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر کیا ہے جب کہ بہت سے لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پرایک آندھی بھیجی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جن کو تم نہیں دیکھ رہے تھے اور جو تم کررہے تھے اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا الأحزاب
10 جب وہ لشکر تمہارے اوپر کی جانب سے اور تمہارے نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے تھے اور جب آنکھیں پتھرا رہی تھیں اور دل حلق میں چلے آرہے تھے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کررہے تھے الأحزاب
11 اس وقت مومن خوب آزمائے گئے اور نہایت سختی سے ہلائے گئے (٥)۔ الأحزاب
12 اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا وہ محض فریب تھا الأحزاب
13 جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا، اے اہل مدنیہ اب تمہارے ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے لہذا لوٹ چلو اور ان میں سے ایک فرقی نبی سے یہ کہہ کر رخصت طلب کرررہا تھا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ انکے گھر کھلے پڑے نہ تھے وہ محض (جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے الأحزاب
14 اور اگر مدینہ کے اطراف سے ان پر کوئی لشکر شہر میں گھس آئے پھر ان کو فتنہ وفساد کے لیے کہا جائے تو فورا فتنہ میں شریک ہوجائیں اور ان گھروں میں بہت ہی کم ٹھہریں الأحزاب
15 حالانکہ یہ لوگ اس سے پہلے اللہ سے عہد کرچکے تھے کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پرس ہونی چاہیے الأحزاب
16 اے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجئے، اگر تم موت یاقتل سے بھاگتے ہو تو یہ بھاگنا تمہیں ہرگز نفع نہ دے گا، اور اس کے بعد صرف تھوڑے ہی دن تمہیں زندگی سے متمع ہونے کا موقع مل سکے گا الأحزاب
17 اے نبی، آپ فرمادیجئے کہ تمہیں اللہ سے کون بچاسکتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یاتم پر مہربانی کرنا چاہے تو اس کی رحمت کو کون روک سکتا ہیی؟ اور یہ لوگ اللہ کے سوا کوئی حامی اور مددگار نہیں پائیں گے۔ الأحزاب
18 اللہ تم میں ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو لوگوں کو (جہاد سے) روکتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ، آؤ ہماری طرف، اور یہ لوگ لڑائی میں حصہ نہیں لیتے مگر نام گنانے کو الأحزاب
19 تمہارے حق میں بخل کا جذبہ لیے ہوئے جب کوئی خطرے کا وقت آجائے تو اس طرح آنکھیں گھما کر آپ کی طرف دیکھتے ہیں جیسے کہ مرنے والے پر غشی طاری ہورہی ہو، پھر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہ لوگ مال کے حریص بن کر تیز کلامی کے ساتھ آپ کو طعنے دینے لگتے ہیں یہ لوگ درحقیقت ایمان ہی نہیں لائے لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال برباد کردیے اور ایسا کرنااللہ کے لیے نہایت آسان ہے الأحزاب
20 ان کا اب تک یہ خیال ہے کہ دشمن کی فوجیں واپس نہیں گئیں اور اگر وہ فوجیں پھر آجائیں تو ان کی تمنا ہوگی کہ کہیں صحرا میں بدوؤں کے پاس چلے جائیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تولڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے الأحزاب
21 بے شک رسول اللہ کی زندگی میں ان کے لیے (پیروی اور اتباع کا) ایک بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت سے ڈرنے (یا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے) اور اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے ہوں (٥)۔ الأحزاب
22 اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا اور اس واقعہ نے ان کے ایمان اور شیوہ اطاعت کو اور بڑھادیا الأحزاب
23 مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کوسچ کردکھایا ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکے اور کوئی وقت آنے کے منتظر ہیں اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی الأحزاب
24 یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچے مسلمانوں کو ان کے سچ کا صلہ دے اور منافقوں کو چاہے تو عذاب کرے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول فرمالے بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے الأحزاب
25 اور اللہ نے کافروں کو ان کے دل کی جلن کے ساتھ واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ مومنوں کے لیے جنگ میں خود ہی کافی ہوگیا اور اللہ بڑی قوت والا نہایت زبردست ہے الأحزاب
26 اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے مشرکین کی مدد کی تھی اللہ ان کو ان کے قلعوں سے نیچے اتارلایا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب بٹھادیا کہ ایک گروہ کو تم قتل کررہے ہو اور دوسرے کو قید کررہے ہو الأحزاب
27 اور تم کو ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مالوں کا وارث بنادیا اور اس علاقہ کا بھی جس پر تم نے قدم بھی نہ رکھے تھے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ الأحزاب
28 اے پیغمبر اپنی بیبیوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو صاف صاف کہہ دو میں تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کردوں الأحزاب
29 اور اگر تم اللہ اس کے رسول اور آخرت کی طالب ہو تو (پھراسی کی ہو رہو) اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والی عورتوں کے لیے بہت بڑا درجہ تیار کررکھا ہے (٦)۔ الأحزاب
30 اے نبی کی بیویوں جو تم میں سے صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی تو اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا اور یہ اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے الأحزاب
31 اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار ہوگی اور نیک عمل کرے گی اور اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے اور اسی کے لیے ہم نے رزق کریم مہیا کررکھا ہے الأحزاب
32 اے نبی کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والی ہو توغیرمردوں سے) دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہیں ایسا نہ ہو جس کے دل میں خرابی ہے (کسی غلط) لالچ میں نہ پڑجائے اور صاف سیدھی بات کرو الأحزاب
33 اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور پہلے دور جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو اور نماز قائم اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اے اہل بیت نبی، اللہ تو چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلودگی کو دور کرے اور تمہیں خوب پاک صاف رکھے (٧)۔ الأحزاب
34 اور اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں جو تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور ان کو یاد رکھو بے شک اللہ تعالیٰ نہایت باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے الأحزاب
35 بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرمانبردار اور فرماں بردار عورتیں، راست باز مرد راست باز عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو یاد کرنے والی عورتیں ان سب کے لیے اللہ (تعالی) نے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے الأحزاب
36 کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کارسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر ان کو اپنے معاملہ میں اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو یقینا وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا الأحزاب
37 اے نبی وہ واقعہ یاد کیجئے جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑ، اور اللہ سے ڈر اور اپنے جی میں وہ بات چھپارہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا اور آپ لوگوں سے ڈررہے تھے حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس سے ڈریں پھر جب زید نے اس (بیوی) سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس (مطلقہ) کو اآپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹے کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کایہ حکم تو ہوکرہی رہنے والا تھا (٨)۔ الأحزاب
38 نبی پر کسی ایسے کام کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہو اللہ کی یہی سنت ان سب انبیاء میں چلی آئی ہے جو پہلے ہوکرگزرے ہیں اور اللہ کا حکم تو پہلے سے طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے الأحزاب
39 وہ پہلے پیغمبر) جو اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے وہ اسی (اللہ) سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے الأحزاب
40 محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے الأحزاب
41 اے ایمان والو اللہ کو کثرت سے یاد کرو الأحزاب
42 اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو الأحزاب
43 وہ اللہ ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ اللہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور اللہ ایمان ولوں پر نہایت مہربان ہے الأحزاب
44 جس دن مومن خدا سے ملیں گے تو ان کا استقبال سلام سے ہوگا اور ان کے لیے اللہ نے بڑا باعزت صلہ تیار رکھا ہے الأحزاب
45 اے پیغمبر بے شک ہم نے تمہیں شہادت دینے والا، بشارت سنانے والا اور (ظلم وعصیان کے نتائج سے) ڈرانے والا، الأحزاب
46 (انسانوں کی غلامی سے بغاوت) اور اللہ کی (وفاداری) کی طرف دعوت دینے والا ایک روشن ومنور چراغ بنا کر دنیا دنیا میں مبعوث فرمایا (٩)۔ الأحزاب
47 اور مومنوں کو بشارت دے دو کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے الأحزاب
48 اور کفار اور منافقین کا کہنا نہ مانیے اور نہ ان کی اذیت رسانی کا خیال کیجئے اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھیے اور اللہ کارساز ہونے کے لحاظ سے کافی ہے الأحزاب
49 اے ایمان والو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جس کے پورا ہونے کا مطالبہ کرسکو، لہذا انہیں کچھ مال دو اور خوش اسلوبی سے انہیں رخصت کردو الأحزاب
50 اے نبی ! آپ کی تمام بیویاں جن کے مہر آپ ادا کرچکے ہیں ہم نے آپ کے لیے حلال کی ہیں اور وہ عورتیں جو مال غنیمت سے آپ کی ملکیت میں آئی ہیں اور تمہارے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی مومن عورت اگر اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کردے اور نبی اسے اپنے نکاح میں لینا چاہے (یہ آخری رعایت) خالصتا آپ کے لیے ہے دوسرے مومنوں کے لیے نہیں بے شک ہم نے عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو احکام فرض کیے ہیں وہ ہم کو معلوم ہیں (اے نبی ! بعض احکام آپ کے ساتھ اس لیے خاص کیے ہیں) تاکہ آپ کے اوپر کسی قسم کی تنگی نہ رہے اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے الأحزاب
51 آپ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ) آپ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں موخر کردیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جن کو الگ کیا ہے ان میں سے کسی کو طلب کریں تو بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے اس رعایت میں زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی آپ ان کو دے دیں گے اس پر سب خوش رہیں گی، اللہ تمہارے دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حلم والا ہے الأحزاب
52 اس کے بعد آپ کے لیے اور عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی بھلامعلوم ہو۔ مگر ہاں لونڈیوں کی اجازت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ الأحزاب
53 اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کہ تمہیں کھانے کے واسطے آنے کی اجازت دی جائے نہ کھانے کی تیاری کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب تمہیں بلایاجائے تو آجاؤ پھر جب کھانا کھاچکو تو منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں جی لگاکر نہ بیٹھے رہا کرو کیونکہ تمہاری یہ بات نبی کو تکلیف دیتی ہے مگر وہ تم سے شرم کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے سے شرماتا نہیں، اور نبی کی بیویوں سے اگر تم نے ضرورت کی کوئی چیز مانگتی ہو تو وہ پردے کے باہر سے مانگا کرو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا بہتر طریقہ ہے اور تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو تکلیف دو۔ اور نہ تم کو یہ جائز ہے کہ نبی کی بیویوں سے ان کے بعد کبھی نکاح کرویہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے الأحزاب
54 تم کسی چیز کو ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے الأحزاب
55 اور ازواج نبی پر کچھ گناہ نہیں ہے کہ ان کے بیٹے ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان سے میل جول رکھنے والی عورتیں اور ان کی لونڈیاں ان کے گھروں میں آئیں، اے نبی کی بیویو خدا سے ڈرتی رہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے الأحزاب
56 بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو (١٠)۔ الأحزاب
57 بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اللہ نے دنیا اور آخرت دونوں میں ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت بخش عذاب تیار کردیا گیا (١١)۔ الأحزاب
58 جولوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بغیر اس کے کہ انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہوتکلیف دیتے ہیں توبلاشبہ وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کابوجھ اٹھاتے ہیں الأحزاب
59 اے نبی ! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادریں اوڑھ کر اسکا کچھ حصہ نیچے لٹکا لیا کریں، یہ طریقہ ان کی پہچان کے لیے زیادہ مناسب ہے اور وہ ستائی نہ جائیں گی اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے (١٢)۔ الأحزاب
60 اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے اور مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر مسلط کردیں گے پھر وہ آپ کے ساتھ اس شہر میں چند روز کے سوا نہیں رہ سکیں گے الأحزاب
61 ان پر ہر طرف سے لعنت ہوگی جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور خوب قتل کیے جائیں الأحزاب
62 جولوگ تم سے پہلے گزرچکے ہیں ان کے لیے اللہ کی سنت یہی رہی ہے (اللہ کے قوانین واحکام کا دستور یہی رہا ہے) اور اللہ کی سنت میں تم کبھی ردوبدل نہیں پاؤ گے (١٣)۔ الأحزاب
63 اے نبی ! یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ قیامت کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے اور تمہیں معلوم کیا کہ شاید وہ گھڑی قریب ہی آلگی ہو؟ الأحزاب
64 بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کررکھی ہے الأحزاب
65 جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہ اپنا کوئی حامی اور مددگار نہیں پائیں گے الأحزاب
66 جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے وہ اس وقت کہیں گے کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی الأحزاب
67 اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی سوانہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے گمراہ کردیا الأحزاب
68 اے ہمارے پروردگار ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر الأحزاب
69 اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس تہمت سے بری کردیا جوانہوں نے ان پرلگائی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے ہی ذی مرتبہ تھے (١٤)۔ الأحزاب
70 مسلمانوں، خدا سے ڈرو اور سچی بات کہو الأحزاب
71 تاکہ خدا تمہارے اعمال کو صالح کردے اور تمہارے گناہ بخش دے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی الأحزاب
72 ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس بارگراں کے متحمل نہ ہوسکے لیکن انسان (آگے بڑھا اور اس) نے اسے (بلاتامل) اٹھالیا کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے اوپر سخت ظلم کرنے والا اور سرگشتہ نادانی ہے (١٥)۔ الأحزاب
73 اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے گا اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے گا اور للہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ الأحزاب
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے سبأ
1 سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی وہی تعریف کا مستحق اور وہی کمال حکمت کا مالک اور ہر چیز سے باخبر ہے (١)۔ سبأ
2 اللہ ہراس چیز کو جانتا ہے جوزمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہی نہایت مہربانی کرنے والا، بخشنے والا ہے۔ سبأ
3 اور کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں، قسم ہے میری رب عالم الغیب کی وہ ضرور تم پر آئے گی (٢)۔ اس اللہ سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں اور نہ ذرہ کی مقدار سے کوئی چیز چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر وہ کتاب مبین میں موجود ہے سبأ
4 اس قیامت کا وقوع اس لیے ضروی ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کا صلہ عطا فرمائے، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے مغفرت اور عزت کارزق ہے سبأ
5 اور جو لوگ ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے پھرے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو سخت قسم کا دردناک عذاب ہونے والا ہے سبأ
6 اور وہ لوگ جن کو صحیح علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ تیرے رب کی جانب سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدا کاراستہ دکھاتا ہے اور جو بڑا زبردست اور ستودہ صفات ہے سبأ
7 اور کافر کہتے ہیں بھلا، ہم تمہیں ایسا آدمی بتاتے ہیں جو تم کو خبر دیتا ہے کہ جب تم مر کرریزہ ریزہ ہوگئے تو تم نئے سرے سے پیدا کیے جاؤ گے سبأ
8 اس شخص نے اللہ پر بہتان باندھا ہے یاس کو کوئی جنون ہے (ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے) بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور پرلے درجے کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں سبأ
9 کیا انہوں نے آسمان اور زمین پر نظر ڈالی جوان کے آگے اور پیچھے موجود ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرادیں، بلاشبہ اس میں ہراس بندے کے لیے نشانی ہے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہے سبأ
10 اور ہم نے داؤد کو اپنی جانب سے برتری عطا کی ( اور ہم نے پہاڑوں کو حکم دیا) کہ اے پہاڑو۔ تم داؤد کے ساتھ تسبیح میں موافقت کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا) اور ہم نے ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا (٣)۔ سبأ
11 اور ہدایت کی کہ اے) داؤد زرہیں بنا اور حلقے ٹھیک انداز سے رکھ، اور (اے آل داؤد) نیک کام کرو بے شک جو کچھ تم کرتے ہو میں وہ سب دیکھ رہا ہوں سبأ
12 اور سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا، اس ہوا کا صبح کو چلنا ایک مہینے کی مسافت اور شام کو چلنا بھی ایک مہینے کی مسافت تک تھا، اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہادیا اور جنات میں سے بعض وہ تھے جو سلیمان کے رب کے حکم سے اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جوہمارے حکم سے سرتابی کرتا تو ہم اسے دہکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے سبأ
13 وہ سلیمان کے لیے وہ چیزیں بنایا کرتے جو وہ چاہتے (مثلا) بلند وبالا عمارتیں، تصویریں، بڑے بڑے لگن جیسے حوض اور بڑی بڑی دیگیں جوایک ہی جگہ جمی رہیں، اے آل داؤد (ان نعمتوں کے) شکر کے طور پر نیک عمل کرو اور میرے بندوں میں کم شکرگزار ہیں (٤)۔ سبأ
14 پھر جب سلیمان پر ہم نے موت کا فیصلہ صادر کردیا توجنوں کو ان کی موت پر، ایک گھن کے کیڑے کے سوا کسی نے آگاہ نہ کیا جو اس کے عصا کو کھارہا تھا پھر جب سلیمان گر پڑے تب جنوں پر حقیقت کھلی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت آمیز عذاب میں مبتلا نہ رہتے (٥)۔ سبأ
15 بلاشبہ اہل سبا کے لیے ان کے وطن (مآرب) میں بڑی نشانی موجود تھی، دائیں اور بائیں دو باغ، اپنے رب کا دیا ہوارزق کھاؤ اور اس کاشکر بجالاؤ عمدہ اور پاکیزہ شہر ہے اور رب معاف کرنے والا سبأ
16 مگر انہوں نے اعراض کیا، آخر کار ہم نے ان پر بند توڑ کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دوباغوں کے بدلے میں دوباغ اور دے دیے جن میں بدمزہ پھل اور جھاڑ اور قدرے بیری کے درخت تھے سبأ
17 یہ ہم نے ان کو ان کی ناشکری کی سزا دی اور ہم ناشکروں کے سوا کسی کو ایسا بدلہ نہیں دیتے (٦)۔ سبأ
18 اور ہم نے اہل سبا اور ان بستیوں کے درمیان جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، بڑی نمایاں بستیاں بسادی تھیں اور ان میں سفر کے لیے خاص فاصلہ مقرر کررکھا تھا کہ تم لوگ ان میں کئی کئی رات اور دن امن سے سفر کرو سبأ
19 مگر انہوں نے (زبان حال سے) کہا اے ہمارے رب ہمارے سفروں کی مسافتیں لمبی کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا آخرکار ہم نے ان کو قصہ پارینہ بناکررکھ دیا اور ان کو بالکل تتربتر کردیا، بے شک اس واقعہ میں ہر صبور وشکور شخص کے لیے (بڑی عبرت آموز) نشانیاں ہیں (٧)۔ سبأ
20 بلاشبہ ان کے معاملے میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایا بجز اہل ایمان کے تھوڑے سے گروہ کے سب اس کے پیچھے ہولیے سبأ
21 اور لوگوں پر سوائے اس کے شیطان کا کوئی تسلط نہ تھا ہم دیکھتا چاہتے تھے کہ کون آخرت کو ماننے والا ہے اور کون اس کے متعلق شک میں پڑا ہوا ہے اور آپ کارب ہر چیز پر نگران ہے سبأ
22 آپ ان سے کہہ دیجئے جن کو تم اللہ کے سواپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو، ان کو پکارو وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں اور نہ زمین میں اور نہ آسمان وزمین میں ان کی کوئی شرکت ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے (٨)۔ سبأ
23 اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہوسکتی بجز اس کے جس کے لی اللہ نے شفاعت کی اجازت دی ہوحتی کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوگی، تو وہ پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیں گے، حق بات کا حکم فرمایا اور وہی بلند اور بڑا ہے سبأ
24 آپ ان سے پوچھیے کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے کون روزی دینا ہے ؟ آپ فرمادیجئے کہ وہ اللہ ہے اور بلاشبہ ہم یاتم راہ راست پر ہیں یاصریح گمراہی میں مبتلا ہیں سبأ
25 اے پیغمبر فرمادیجئے کہ جواعمال ہم نے کیے ہیں ان کی پرسش تم سے نہیں کی جائے گی اور جواعمال تم نے کیے ہیں اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں ہوگی سبأ
26 آپ کہہ دیجئے کہ ہمارا رب ہم سب کو جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور وہی فیصلہ کرنے والا اور سب کی حالت کو جاننے والا ہے سبأ
27 آپ ان سے کہہ دیجئے بھلا مجھے وہ شریک دکھاؤ توسہی جن کو تم نے خدا کے ساتھ ملارکھا ہے ہرگز نہیں بلکہ وہ اللہ ہی ہے جوزبردست اور دانا ہے سبأ
28 اے نبی ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر ونذیر بناکربھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں سبأ
29 اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ قیامت کا وعدہ کب پورا ہوگا؟ سبأ
30 آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے لیے ایک دن کا وعدہ مقرر ہے کہ اس سے نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو سبأ
31 کفار کہتے ہیں (٩) کہ ہم ہرگز اس قرآن کو نہیں مانیں گے اور نہ اس سے پہلے کی کتابوں کو تسلیم کریں گے کاش آپ اس وقت ان کا حال دیکھیں جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے کیے جائیں گے ان میں سے ایک دوسرے پر بات کوٹالتا ہوگا جو لوگ دنیا میں کمزور بنادیے گئے اور وہ بڑے بننے والے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم یقینا مومن ہوتے۔ سبأ
32 یہ بڑے بننے والے کمزور لوگوں کو جواب دیں گے کیا ہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آچکی تھی ؟ نہیں بلکہ تم خود ہی مجرم تھے سبأ
33 کمزور لوگ بڑے بننے والوں سے کہیں گے نہیں بلکہ تمہاری شب وروز کی فریب کاری نے ہمیں روکا تھا جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرائیں، اور جب یہ لوگ عذاب کو دیکھیں گے تو اپنی پیشمانی کوچھپائیں گے اور ہم ان لوگوں کی گردنوں میں جوکفر کرتے رہے طوق ڈال دیں گے اور ان کو بس وہی سزا دی جائے گی جو وہ عمل کرتے رہے ہیں سبأ
34 اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر اس بستی کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ جوپیغام تم لے کرآئے ہو ہم اس کے منکر ہیں سبأ
35 اورانہوں نے ہمیشہ یہی کہا، ہم مال واولاد میں تم سے زیادہ ہیں اور ہم کبھی عذاب دیے جانے والے نہیں سبأ
36 آپ ان سے کہہ دیجئے، میرا رب جسے چاہتا ہے کشادرہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے سبأ
37 تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایسے نہیں ہیں کہ تمہیں ہمارا مقرب بنادیں مگر ہاں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کی دوہری جزا ملے گی اور وہی بلند وبالا عمارتوں میں امن وچین سے رہیں گے (١٠)۔ سبأ
38 جولوگہ ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں یہ لوگ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے سبأ
39 آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب اپنے بندوں میں جس کو چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نپاتلا دیتا ہے اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے وہ اس کی جگہ تمہیں اور عطا فرمادے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے سبأ
40 جس روز اللہ سب انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے (١١)۔ سبأ
41 فرشتے عرض کریں گے، تیری ذات پاک ہے ہمارا کارساز تو ہے نہ کہ یہ لوگ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ جنوں کی پرستش کیا کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہی پر ایمان رکھتی تھی سبأ
42 پس آج تم میں سے کوئی نہ کسی کو فائدہ پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ نقصان، اور ہم ظالموں سے کہہ دیں گے اس آگ کے عذاب کا مزہ چکھو جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے سبأ
43 اور جب ان پر ہماری صاف صاف آیات پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ کچھ نہیں محض ایک آدمی ہے جو تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا اور ان کافروں کے پاس جب حق پہنچا تو انہوں نے کہا یہ صریح جادو ہے (١٢)۔ سبأ
44 اور کفار کو نہ تو ہم نے کوئی آسمانی کتابیں دی ہیں جن کو یہ پڑھتے پڑھاتے ہوں اور نہ آپ سے پہلے ان کے پاس کوئی ڈرانے والا بھیجا تھا سبأ
45 جولوگ ان سے پہلے ہوگزرے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا ان کے عشر عشیر کو بھی یہ لوگ نہیں پہنچے مگر جب انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا تو دیکھ لو میرے انکار کا نتیجہ ان کے حق میں کیسا ہوا؟ سبأ
46 اے پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجئے میں تم کو صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں وہ یہ کہ تم دو دو اور اکیلے اکیلے اللہ کے واسطے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو کہ تمہارے پیغمبر کو کچھ جنون ہے؟ وہ تو صرفایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تمہیں ڈرانے والے ہیں سبأ
47 آپ ان سے کہہ دیجئے اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تمہارے لیے ہے میرا اجر تو بس اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے سبأ
48 آپ کہہ دیجئے میرا رب مجھ پر حق کا القاء کرتا ہے وہ غیب کی سب باتوں کا جاننے والا ہے۔ سبأ
49 آپ فرمادیں دین حق آپہنچا ہے اور باطل نہ توپیدا کرسکتا ہے اور نہ پھیر کرلاسکتا ہے سبأ
50 آپ کہہ دیجئے اگر میں گمراہ ہوگیا ہوں تومیری گمراہی کاوبال مجھ پر ہے اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس وحی کی بنا پر جو میرا رب مجھ پر نازل کرتا ہے بے شک وہ بڑا سننے والا اور قریب ہی ہے سبأ
51 کاش آپ ان کو اس وقت دیکھیں گے جب یہ گھبرارہے ہوں گے اور کہیں بچ کر نہ جاسکیں گے اور قریب ہی سے پکڑ لیے جائیں گے سبأ
52 اس وقت یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لائے اور اب وہ دور جگہ سے ایمان کو کیسے پکڑا جاسکتا ہے؟ سبأ
53 حالانکہ وہ لوگ اس سے پہلے اس حق کے منکر تھے اور دوردراز جگہ سے اندھیرے میں تیر پھینکا کرتے تھے سبأ
54 اس وقت ان کے اور ان کی خواہش کے درمیان روک کردی جائے گی جس طرح اس سے پہلے ان کے پیش روؤں کے ساتھ کیا گیا ہے بے شک یہ لوگ سخت شکوک وشبہات میں پڑے ہوئے تھے (١٣)۔ سبأ
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے فاطر
1 سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کابنانے والا ہے اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں وہ اپنی مخلوق کی بناوٹ میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے (١)۔ فاطر
2 اللہ اپنی رحمت کا دروازہ بندوں پر کھول دے تو کوئی نہیں جو اسے بند کرسکے اور اگر اس کا دروازہ رحمت بند ہوجائے تو کوئی نہیں کھول سکتا اور وہ عزیز وحکیم ہے فاطر
3 اے افراد انسانی، اللہ تعالیٰ نے اپنی جن نعمتوں سے تمہیں فیضیاب کیا ہے ان پر غور کرو کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرابھی خالق ہے جو تمہیں آسمان وزمین کی بخشائشوں سے رزق دے رہا ہے ؟ نہیں کوئی معبود مگر اس کی ذات، تم کدھر بھٹکے جارہے ہو؟ (٢)۔ فاطر
4 اب اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں (تویہ کوئی نئی بات نہیں) کیونکہ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاچکے ہیں اور تمام امور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے (٣)۔ فاطر
5 اے لوگو ! بلاشبہ اللہ کا وعدہ برحق ہے لہذادنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ اللہ کے بارے میں تمہیں بڑا دھوکے باز، دھوکے میں ڈال دے۔ فاطر
6 بلاشبہ شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اس لیے بلاتا ہے کہ وہ اہل دوزخ میں شامل ہوجائیں فاطر
7 جن لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے فاطر
8 بھلا وہ شخص جس کے لیے اس کابراعمل خوشنما بنادیا گیا اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے پس (اے نبی) ان کافروں پر حسرتیں کھاکر کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے جو کچھ یہ کررہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے (٤)۔ فاطر
9 وہ اللہ ہی تو ہے جوہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم اس بادل کو کسی خشک علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے مری پڑی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں اسی طرح لوگو کا جی اٹھنا ہوگا فاطر
10 جولوگ عزت کے بھوکے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تمام عزت بخشیاں اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں تمہارے اعمال صالحہ اس کی درگاہ تک پہنچتے ہیں اور وہی نیک عمل کرنے والوں کے درجے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کے لیے مکروسازش کررہے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی نابود ہوجائے گا فاطر
11 اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنایا کوئی مادہ حاملہ نہیں ہوتی اور نہ وہ وضع حمل کرتی ہے مگر وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر ملتی ہے اور نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے مگر یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے بلاشبہ یہ سب کام اللہ پر (نہایت) آسان ہیں۔ فاطر
12 اور دونوں دریا (کیفیت میں) مساوی نہیں ہیں ایک میٹھا، پیاس بجھانے والا، پینے میں خوشگوار ہے اور ایک کھاری کڑوا ہے اور ہر ایک میں سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زینت کا وہ سامان نکالتے ہو جس کو تم پہنتے ہو اور (اے مخاطب) تم پانی میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ اس کاسینہ چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو فاطر
13 وہ رات کودن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کررکھا ہے کہ ان میں ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے گا یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور اس کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے فاطر
14 اگر تم ان کو پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن بھی لیں تو اس کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور وہ قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کردیں گے اور حقیقت حال کی صحیح خبر تمہیں خدائے خبیر کے سوا کوئی نہیں دے سکتا (٥)۔ فاطر
15 اے لوگو ! تم اللہ کے دروازے کے فقیر اور سائل ہو اللہ تو تمہاری مدد سے بے نیاز ہے فاطر
16 اگروہ چاہے تو تم سے اپنا رشتہ کاٹ لے اور ایک دوسری مخلوق پیدا کردے فاطر
17 اور اس کے لیے یہ مشکل نہیں (٦)۔ فاطر
18 اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی گراں بارکسی دوسرے کابوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بوجھ سے کچھ نہ ہٹایاجائے گا خواہ وہ پکارنے والا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اے نبی آپ صرف انہی لوگوں کو متنبہ کرسکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کرجانا ہے (٧)۔ فاطر
19 اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے فاطر
20 اور نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں فاطر
21 اور نہ سایہ اور روشنی کی تپش دونوں برابر ہیں فاطر
22 اور نہ زندے اور مردے دونوں مساوی ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے مگر اے نبی آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں فاطر
23 آپ صرف ڈرانے والے ہیں فاطر
24 یقینا ہم ہی نے آپ کو حق دے کر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم دنیا کی ایسی نہیں جس میں (بدعملیوں کے نتائج سے) متنبہ کرنے والا کوئی رسول نہ گزرا ہوا فاطر
25 اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو جو لوگ ان سے پہلے ہوگزرے ہیں وہ بھی جھٹلا چکے ہیں ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل اور صحیفے اور روشن کتاب لے کرآئے۔ فاطر
26 پھر ہم نے ان لوگوں کو جوکفر کے مرتکب ہوئے تھے پکڑ لیا سودیکھ لو کہ میرے انکار کا نتیجہ کیسا نکلا؟ فاطر
27 کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے ہم گوناگوں رنگ کے پھل نکالتے ہیں اور اسی طرح پہاڑوں میں ہمنے مختلف رنگوں کے طبقات پیدا کیے کوئی سفید، کوئی لال، بعض کالے سیاہ ہیں فاطر
28 اور اسی طرح آدمیوں، جانوروں اور چارپایوں کی رنگتیں بھی کئی طرح کی ہیں جن میں اللہ نے بڑی حکمتیں رکھی ہیں اللہ کا خوف اس کے بندوں میں سے علماء ہی کو ہوسکتا ہے (یعنی انہی دلوں میں پیدا ہوسکتا ہے جنہوں نے کائنات کے ان حقائق واسرار کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے علم وحکمت سے بہرہ اندوز ہیں) یقینا اللہ عزیز وغفور ہے (٨)۔ فاطر
29 جولوگ کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے رات دن خرچ کرتے ہیں وہ ایک ایسی تجارت کی امید لگائے ہوئے ہیں جس کو کبھی خسارہ نہیں ہوگا فاطر
30 تاکہ اللہ ان کے اجر پورے کے پورے ان کو دے اور اپنے فضل سے ان کو مزید عطا فرمائے بے شک وہ بڑا بخشنے والا قدردان ہے فاطر
31 اور جو کتاب ہم نے آپ کی طرف بذریعہ وحی بھیجی ہے وہ سراسر حق ہے وہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال سے باخبردار اور دیکھنے والا ہے فاطر
32 (پھر پچھلی قوموں کے بعد) ہم نے اپنے بندوں میں سے ان لوگوں کو کتاب الٰہی (قرآن) کا وارث ٹھہرایا جنہیں ہم نے اپنی خدمت کے لیے اختیار کرلیا (یعنی مسلمانوں کو) پس ان میں سے ایک گروہ تو ان کا ہے جو اپنے نفوس پر (ترک اعمال حسنہ وارتکاب معاصی سے) ظلم کررہے ہیں دوسراان کاجنہوں نے معاصی کو ترک اور اعمال حسنہ کو اختیار کیا ہے خدا پرستی اور ترک نفسانیت میں ان کا درجہ درمیانہ اور) متوسطین کا ہے تیسرے وہ جواذن الٰہی سے تمام اعمال حسنہ وصالحہ میں اوروں سے آگے بڑھتے ہوئے ہیں اور یہ خدا کابڑا فضل ہے۔ فاطر
33 ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کالباس ریشم کا ہوگا (٩)۔ فاطر
34 اور کہیں گے تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا یقینا ہمارا رب بخشنے وال اور بڑا قدردان ہے فاطر
35 کہ جس نے اپنے فض (رح) سے ہم کو دائمی قیام گاہ میں اتارا اب یہاں ہمیں نہ کوئی کلفت پیش آتی ہے اور نہ کسی قسم کی تکان لاحق ہوتی ہے فاطر
36 اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے نہ ان کا کام تمام کیا جائے گا کہ مرجائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی (کسی وقت) ان سے ہلکا کیا جائے گا ہم ہر ناسپاس کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں فاطر
37 اور منکرین آخرت دوزخ میں چلاتے رہیں گے، خدایا ہم کو جہنم سے نکال کہ صالح اعمال بجالائیں وہ نہیں جنہیں پہلے (صالح کام سمجھ کر) کرتے تھے (بلکہ وہ جو فی الحقیقت صالح ہیں) (جواب ملے گا) کیا ہم نے تمہیں دنیا میں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اگر کسی کو سوچنا منظور ہوتا تو وہ اس میں سوچ لیتا اور علاوہ ازیں تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے سواب تمہاری سزا یہی ہے کہ اپنے کیے کا بدلہ چکھتے رہو اب ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا (١٠)۔ فاطر
38 بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے وہ تو سینوں کے چھپے ہوئے رازتک سے خوب واقف ہے فاطر
39 وہی تو ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا اب جوکفر کی روش اختیار کرے گا تو اس کے کفر کاوبال اسی پر ہوگا اور کافروں کا کفر ان کے رب کے ہاں اس کا غضب بڑھانے کا ہی موجب ہوتا ہے۔ فاطر
40 آپ ان سے کہیے، بھلا دیکھو توجن خودساختہ شریکوں کو تم اللہ کے سواپکارتے ہو مجھے بھی بتاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟ یا آسمانوں کے بنانے میں ان کی کس قدر شرکت ہے؟ یا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے جس کی بنا پر وہ کوئی واضح سند رکھتے ہیں؟ بلکہ ظالم ایک دوسرے کو نرے فریب کے وعدے دے رہے ہیں فاطر
41 یقینا اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے اور اگر وہ اپنے مرکز سے ٹل جائیں تو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا جوانہیں روک سکے بے شک وہ بڑا حلیم، بڑی مغفرت کرنے والا ہے فاطر
42 اور یہ لوگ اللہ کی پروزور قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والاآ گیا تو یہ دنیا کی ہر ایک قوم سے بڑھ کر راست رو ہوں گے پھر جب ان کے پاس ڈرانے والاآ گیا وان کی حق سے نفرت میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا فاطر
43 زمین میں ان کی سرکشی بڑھ گئی اور بری چالیں چلنے لگے اور بری چال کاوبال اس کے کرنے والے پہ لوٹ آتا ہے (١١) تو پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ہیں؟۔ کیا اس سنت کی جو اگلے لوگوں کی رہ چکی ہے تو یادرکھو تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا نہیں پاؤ گے اور نہ کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اسکی سنت کے احکام پھیر دیے جائیں فاطر
44 پھر کیا یہ غافل زمین پر چلتے پھرتے نہیں کہ گزشتہ قوموں کے آثار وحالات کا مطالعہ کرتے اور سوچیں کہ ان قوموں اور طاقتوں کو غفلت وزیادتی کا کیسا نتیجہ بھگتنا پڑا حالانکہ وہ قوت وتعداد میں ان سے بڑھی ہوئی تھیں یاد رکھو اللہ تعالیٰ کو دنیا کی کوئی طاقت بھی عاجز نہیں کرسکتی وہ سب حالات سے واقف ہے اور ہر بات کی قدرت رکھنے والا ہے فاطر
45 اگر وہ لوگوں کو ان کے ظلم وزیادتی کی پاداش میں پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جاندار ہستی کو باقی نہ چھوڑتا لیکن (یہ اس کا قانون ہے کہ وہ اپنے ہر کام کواسباب وعمل کی ترتیب اور طبعی تدریج کے ساتھ انجام دیتا ہے) وہ ایک مقررہ وقت تک ظالموں کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا وقت آپہنچتا ہے تو (تم خودبخود انقلاب حالت دیکھ لو گے) بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں (کے ہر نیک وبد عمل) کو دیکھ رہا ہے (١٢)۔ فاطر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے يس
1 یسین يس
2 قسم ہے قرآن حکیم کی يس
3 کہ آپ یقینا رسولوں سے ہیں يس
4 آپ سیدھی راہ پر ہیں يس
5 یہ قرآن عزیز ورحیم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (١)۔ يس
6 تاکہ ان لوگوں کو جن کے آبا واجداد (کسی پیغمبر کی زبانی) متنبہ نہیں کیے گئے اور اس لیے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں آپ ان کو متنبہ کردیں يس
7 ان میں سے اکثر پر کلمہ عذاب ثابت ہوچکا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے يس
8 ہم نے گمراہی اور شیطان کی غلامی کے طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیے جوان کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں اور ان کے سرپھنس کررہ گئے ہیں (٢)۔ يس
9 ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک ان کے پیچھے اس طرح انہیں ڈھانک دیا ہے لہذا وہ کچھ نہیں دیکھتے يس
10 اور ان کے لیے یکساں ہے آپ ان کو ڈرائیں یانہ ڈائیں یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے يس
11 آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈراسکتے ہیں جونصیحت کی پیروی کرے اور بن دیکھے خدائے رحمن سے ڈڑے، سو ایسے شخص کو مغفرت اور باعزت اجر کی خوش خبری سنادیجئے يس
12 ہم یقینا مردوں کو زندہ کریں گے اور جوافعال انہوں نے کیے اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں وہ سب ہم لکھ رہے ہیں اور ہر شے کو اس کتاب واضح میں ہم نے جمع کردیا ہے يس
13 آپ مثال کے طور پر ان کو اس بستی والوں کا قصہ سنائیے جب کہ اس میں کئی رسول آئے (٣)۔ يس
14 جب پہلے ہم نے ان کے پاس دو رسول بھیجے تو انہوں نے ان کی تکذیب کی پھر ہم نے تیسرے سے ان کی تائید کی اور انہوں نے بلاشبہ ہم تمہارے پاس رسول بناکربھیجے گئے ہیں يس
15 بستی والوں نے جواب دیا تم کچھ نہیں مگر ہم جیسے انسان ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی تم محض جھوٹ بولتے ہو (٤)۔ يس
16 ان رسولوں نے کہا، ہمارا رب خوب جانتا ہے ہے کہ یقینا ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں يس
17 اور ہمارے ذمہ تو صاف صاف پہنچادینا ہے يس
18 بستی والوں نے کہا ہم تمہیں اپنے لیے منحوس سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کرڈالیں گے اور ہم سے تمہیں دردناک سزا ملے گی (٥)۔ يس
19 رسولوں نے جواب دیا تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہے تم کو جونصیحت کی گئی تولگے تم نصیحت کرنے والے کے منحوس کہنے، اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ حد سے بڑھ گئے ہو يس
20 اتنے میں) شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا بڑھا اس نے کہا، اے میری قوم، سچائی کے ان رسولوں کے حکموں کو مان لو يس
21 ایسے لوگوں کی اطاعت کرو جوگمراہی سے تمہیں نجات بخشتے ہیں پھر اپنی محنت اور خدمت کا کچھ بدلہ نہیں مانگتے اور وہ خود سیدھی راہ چل رہے ہیں (٦)۔ يس
22 اور مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں ایسی کھلی اور صریح تعیم سے آنکھیں بند کرلوں اور جس پروردگار نے مجھے پیدا ک یا ہے اس کی پرستش سے انکار کردوں حالانکہ تم سب لوٹ کراسی کی طرف جاؤ گے يس
23 کیا میں اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنالوں کہ خدائے رحمن مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تونہ ان کی شفاعت میرے کام آسکتی ہے اور نہ یہ مجھے چھڑاہی سکتے ہیں يس
24 اگر میں ایسا کروں تب تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہوجاؤں گا يس
25 میں تمہارے رب پر ایمان لاچکا ہوں سو تم میری بات سن لو يس
26 ) (آخرکار ان لوگوں نے اسے شہید کردیا) پس بشارت ملی کہ جنت طیبہ میں داخل ہوجاؤ اس وقت اس نے کہا، کاش میری قوم جانتی يس
27 کہ میرے پروردگار نے مجھے کس طرح بخش دیا اور اپنے نوازے ہووؤں میں شامل کرلیا يس
28 اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی فوج نہیں اتاری اور نہ ہم فوج بھیجنے والے تھے يس
29 صرف ایک ہولناک آواز تھی تو یکایک وہ سب بجھ کررہ گئے يس
30 کیا ہی افسوس ہے بندوں کے حال پر کہ کبھی ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا جس کا انہوں نے مذاق نہ اڑایا ہو يس
31 کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں کہ وہ ان کے پاس لوٹ کر نہیں آئے يس
32 اور یہ سب ہمارے پاس حاضر کیے جائیں گے يس
33 اور لوگوں کے لیے مردہ زمین ایک نشانی ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس سے اناج نکالا پھر اس اناج میں سے لوگ کھاتے ہیں۔ يس
34 اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور ہم نے اس میں چشمے جاری کیے يس
35 تاکہ لوگ اللہ کے عطا کردہ پھل میں سے کھائیں اور یہ سب کچھ ان کے ہاتھوں کابنایا ہوا نہیں ہے تو پھر شکر کیوں نہیں بجالاتے؟ (٧)۔ يس
36 پاکی اور بزرگی ہے اس ذات کے لیے جس نے زمین کی پیداوار میں اور انسان میں اور ان تمام مخلوقات میں جن کا انسان کو علم نہیں دو دو اور متقابل چیزیں پیدا کیں (٨)۔ يس
37 ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے اس پر سے ہم دن کواتار لیتے ہیں تو وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں يس
38 اور دیکھو سورج کے لیے جو قرار گاہ ٹھہرادی گئی ہے وہ اسی پر چلتا ہے یہ عزیز وعلیم خدا کی اس کے لیے تقدیر ہے۔ يس
39 اورچاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ آخر میں وہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح رہ جاتا ہے يس
40 نہ تو آفتاب کے اختیار میں ہے کہ چاند کو جالے اور نہ رات کے بس میں ہے کہ دن سے پہلے ظاہر ہوجائے اور تمام اجرام سماویہ اپنے اپنے دائروں کے اندر پھر رہے ہیں يس
41 اوران کے لیے نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا يس
42 اور ہم نے اسی جیسی اور کشتیاں بھی پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں (٩)۔ يس
43 اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پھر نہ کوئی ان کافریاد رس ہو اور نہ کسی اور طرح بچائے جاسکیں يس
44 مگر یہ ہماری رحمت ہی ہے (جوانہیں پار لگاتی ہے) اور ایک وقت معین تک ان کو زندگی سے متمتع ہونے کا موقع دیتا ہے يس
45 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اس (عذاب) سے بچو جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ کچھ پرواہ نہیں کرتے يس
46 اوران کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان کے سامنے نہیں آتی مگر یہ لوگ اس سے روگردانی کرجاتے ہیں يس
47 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو کافر لوگ مومنوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم ان کو کھانا کھلائیں جن کو اگر اللہ چاہتا تو خود کھانے کودیتا تم لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو يس
48 اور یہ لوگ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ یہ (قیامت کا) وعدہ آخر کب پورا ہوگا؟ (١٠)۔ يس
49 یہ لوگ صرف ایک ہولناک عذاب کا انتظار کرررہے ہیں جو ان کو آپکڑے گا جب یہ لوگ (اپنے دنیوی معاملات میں) لڑ جھگڑ رہے ہوں گے يس
50 پھر اس وقت نہ وصیت ہی کرسکیں گے اور نہ اپنے گھروالوں کی طرف لوٹ سکیں گے يس
51 اور ایک صور میں پھونکا جائے گا تو یکایک یہ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف تیزی سے چلنے لگیں گے يس
52 کہیں گے، ہائے خرابی ہماری، ہم کو کس نے ہماری خواب گاہوں سے اٹھادیا؟ (جواب دیا جائے گا) یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ فرمایا تھا يس
53 بس وہ ایک ہی زور کی آواز ہوگی جس سے وہ یکایک ہمارے سامنے حاضر کردیے جائیں گے يس
54 اس روز کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا اور تم کو صرف انہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے يس
55 بے شک اہل جنت اس روز مزے کرنے میں مشغول ہوں گے يس
56 وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے يس
57 ان کے لیے جنت میں ہر قسم کے میوے ہوں گے اور جو وہ طلب کریں گے ان کے لیے حاضر ہوگا يس
58 رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا جائے گا يس
59 A) ( اور کہا جائے گا) اے مجرمو ! تم آج مومنوں سے الگ ہوجاؤ يس
60 اے اولاد آدم ! کیا ہم نے تم سے اس کا عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی پوجا سے باز رہو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (١١)۔ يس
61 اور صرف ہماری ہی عبادت کرو کہ یہی ہدایت کی حقیقی راہ ہے يس
62 مگر اس کے باوجود) اس نے تم میں سے گروہ کثیر کو گمراہ کردیا تو کیا تم سمجھتے نہ تھے؟ يس
63 اب یہ جہنم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا يس
64 جوکفر تم کرتے رہے ہو اس کی پاداش میں آج اس میں داخل ہوجاؤ يس
65 اس روز ہم ان کے مونہوں پر مہریں کردیں گے اور جو کچھ یہ لوگ کرتے رہے ہیں اس کی بابت ان کے ہاتھ بولیں گے اور پاؤں گواہی دیں گے يس
66 اگرہم چاہیں تو انکی آنکھیں مٹا دیں پھر یہ راستے کی طرف دوڑیں لیکن وہ اس کو کہاں سے دیکھ سکیں گے؟ يس
67 اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے مقام پر ہی اس طرح مسخ کردیں کہ یہ لوگ آگے نہ چل سکیں اور نہ پیچھے ہی لوٹ سکیں يس
68 اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں تو اس کی ساخت کو ہم الٹاکردیتے ہیں کیا یہ (اس کے بعد بھی) سمجھتے نہیں؟ يس
69 اور ہم نے اس پیغمبر کو نہ شعر گوئی سکھلائی ہے اور نہ شاعری اس کے لائق ہے بس یہ توایک نصیحت اور نہایت واضح قرآن ہے يس
70 تاکہ وہ ہراس شخص کو ڈرائے جو زندہ ہو اور کافروں پر حجت ثابت ہوجائے (١٢)۔ يس
71 کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مواشی پیدا کیے ہیں پھر یہ لوگ ان کے مالک ہیں يس
72 اور ہم نے انہیں اس طرح ان کا مطیع کردیا ہے کہ ان میں سے بعض پرسوار ہوتے ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں يس
73 اوران مویشیوں میں ان کے لیے بہت سے فوائد اور پینے کی چیزیں (دودھ وغیرہ) بھی ہیں پھر یہ لوگ کیوں شکر بجانہیں لاتے؟ يس
74 اورانہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنا لیا ہے شاید کہ ان سے کچھ مدد کیے جائیں؟ يس
75 لیکن وہ معبود ان کی کچھ مدد نہیں کرسکتے اور حال یہ ہے کہ یہ لوگ ان کے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں يس
76 سوائے نبی ! ان کی باتیں آپ کے لیے موجب رنج نہ ہوں بلاشبہ جو کچھ یہ ظاہر کررہے ہیں اور جو کچھ چھپارہے ہیں ہم سب جانتے ہیں يس
77 کیا انسان دیکھتا نہیں ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا پھر ناگہاں وصریح جھگڑالو بن گیا يس
78 اور ہماری شان میں مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی اصل پیدائش کو بھول گیا ہے کہتا ہے ان ہڈیوں کو جب کہ وہ بوسیدہ ہوچکی ہوں، کون زندہ کرے گا؟ يس
79 آپ کہہ دیجئے کہ ان کو وہی زندہ کرے گاجس نے اسے پہلی بار پیدا کیا اور وہ ہرقسم کاپیدا کرنا جانتا ہے يس
80 اور دیکھو وہ کارفرمائے قدرت جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کی اور اب تم اس سے (اپنے چولہوں کی) آگ سلگا لیتے ہو يس
81 اور کیا جس خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسے پیدا کردے؟ کیوں نہیں وہ ماہر خلاق، ہر چیز کو جاننے والاہے يس
82 بس اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس چیز کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا وہ فورا ہوجاتی ہے۔ يس
83 پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی حکومت ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹ کرجاؤ گے !۔ يس
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الصافات
1 قسم ہے (١) (مجاہدین کے) ان (گھوڑوں) کی جو (دشمنوں سے لڑنے کے لیے) صفت بستہ کھڑے ہوتے ہیں الصافات
2 پھر (مجاہدین) اپنے گھوڑوں کو زور سے للکارتے ہیں اور دشمنوں پر حملہ کرتے ہیں الصافات
3 پھر (لڑائی سے فارغ ہوجاتے ہیں تو ذکرالٰہی) اور تلاوت قرآن مجید) میں مشغول ہوجاتے ہیں الصافات
4 بلاشبہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے الصافات
5 وہ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کا وہ رب ہے اور وہ رب ہے سارے مشرقوں کا (٢)۔ الصافات
6 ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے الصافات
7 اور ہر سرشک شیطان سے اسے محفوظ کردیا ہے (٣)۔ الصافات
8 یہ شیاطین ملا اعلی کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے دور ہٹانے کو الصافات
9 مارے جاتے ہیں اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے الصافات
10 مگر ہاں جو شیطان اچک کر کوئی خبر لے بھاگے توایک دہکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے الصافات
11 اب ان کافروں سے پوچھیے کہ، ان کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یاجن کو ہم پیدا کرچکے ہیں؟ ان کو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے الصافات
12 بلکہ آپ تعجب کرتے ہیں اور یہ مذاق اڑاتے ہیں الصافات
13 اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ قبول نہیں کرتے الصافات
14 اور جب کوئی معجزہ دیکھتے توہنسی کرتے ہیں الصافات
15 اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے۔ الصافات
16 بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی اور (بوسیدہ) ہڈیاں ہوگئے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے؟ الصافات
17 اور کیا ہمارے اگلے آباواجداد بھی (اٹھائے جائیں گے؟ الصافات
18 آپ کہہ دیجئے، ہاں اور تم ذلیل ہوگئے (٤)۔ الصافات
19 وہ تو بس ایک ہی جھڑکی ہوگی تو یکایک یہ دیکھنے لگیں گے الصافات
20 اور یہ کہیں گے، ہائے خرابی یہ تو جزا کا دن ہے الصافات
21 یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے الصافات
22 حکم ہوگا) گھیرلاؤ سب ظالموں اور ان کے ساتھیوں کو اوران کو بھی جن کی یہ لوگ اللہ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے الصافات
23 پھر ان سب کو دوزخ کی راہ دکھاؤ(٥)۔ الصافات
24 اورانہیں ٹھہراؤ کہ ان سے پوچھا جائے گا الصافات
25 کیا ہوگا تمہیں اب تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ الصافات
26 بلکہ وہ سب اس دن سرجھکائے کھڑے ہوں گے الصافات
27 اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکرسوال وجواب کریں گے الصافات
28 ماتحت لوگ سرداروں سے کہیں گے، تم ہم پر سیدھے رخ سے چڑھ آتے تھے الصافات
29 وہ کہیں گے، نہیں بلکہ تم خود ہی مومن نہ تھے الصافات
30 ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا بلکہ تم خود ہی سرکش لوگ تھے الصافات
31 آخرکار ہم سب پر ہمارے رب کا فرمان ثابت ہوگیا کہ ہم عذاب کا مزہ چکھنے والے ہیں (٦)۔ الصافات
32 سوہم نے تمہیں گمراہ کیا اور ہم خود بھی گمراہ تھے الصافات
33 اس طرح وہ سب اس روز عذاب میں شریک ہوں گے الصافات
34 بلاشبہ ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں الصافات
35 یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ تکبر کا اظہار کرتے الصافات
36 اور کہا کرتے تھے کیا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر اپنے معبودوں کوچھوڑ دیں؟ (حالانکہ وہ شاعر اور دیوانہ نہیں ہے) الصافات
37 بلکہ سچا دین لے کرآیا تھا اور اس نے سب رسولوں کی تصدیق کی تھی الصافات
38 بے شک تم سب کو دردناک عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گا الصافات
39 اور تمہیں وہی بدلہ دیا جارہا ہے جو تم کرتے ہو الصافات
40 A) مگر ہاں اللہ کے چیدہ چیدہ بندے الصافات
41 کہ ان کے لیے مقرر شدہ رزق ہے الصافات
42 ہر طرح کے میوے اور ان کا اعزاز واکرام کیا جائے گا الصافات
43 وہ نعمت کے باغوں میں الصافات
44 تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے الصافات
45 ان پر (شراب طہور کے) چشموں سے ساغر بھر بھر کرپھرائے جائیں گے (A) الصافات
46 جوسفید رنگ کی ہوگی اور پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی الصافات
47 نہ اس میں کوئی ضرر ہوگا اور نہ وہ (پینے والے) اس سے عقل کھوبیٹھیں (٧)۔ الصافات
48 اور اہل جنت کے پاس نگاہیں نیچی رکھنے والی، خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی الصافات
49 وہ گویا چھپاکررکھے ہوئے انڈے ہیں الصافات
50 وہ (اہل جنت) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکرباہم دریافت کریں گے الصافات
51 ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا میرا دنیا میں ایک ساتھی تھا الصافات
52 وہ (طنزا) کہا کرتا تھا کیا تم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ الصافات
53 کیا واقعی جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے توہ میں جزا وسزا دی جائے گی؟ الصافات
54 وہ جنتی کہے گا کیا تم جھانک کر اسے دیکھنے والے ہو؟ الصافات
55 ھر وہ خود ہی جھانکے گا تو اسے وسط دوزخ میں پڑا ہوا دیکھے گا الصافات
56 وہ جنتی اس سے کہے گا، بخدا تو تو مجھے تباہ ہی کردینے والا تھا۔ الصافات
57 اگر اللہ کا فضل میرے شامل حال نہ ہوتا تو میں بھی گرفتار شدگان میں سے ہوتا الصافات
58 پھر یہ جنتی اپنے ساتھیوں سے (وفور مسرت سے) کہے گا کیا یہ واقعہ نہیں ہے الصافات
59 کہ پہلی موت کے سوائے اب ہم کو مرنا نہیں ہے اور نہ ہم کبھی عذاب دیے جانے والے ہیں؟ الصافات
60 بے شک یہ بڑی کامیابی ہے الصافات
61 ایسی ہی کامیابی حاصل کرنے کے لیے عمل کرنے والوں کو چاہیے کہ عمل کریں الصافات
62 A) بھلایہ مہمانی بہتر ہے یا زقوم کا درخت؟ الصافات
63 ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لیے موجب فتنہ بنایا ہے الصافات
64 وہ درخت جہنم کی تہ سے نکلتا ہے الصافات
65 اور اس کے شگوفے شیطان کے سرجیسے ہیں الصافات
66 بے شک وہ اہل جہنم اس سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے الصافات
67 پھر ان کے اوپر سے انہیں گرم ملاوٹ کا پانی ملے گا الصافات
68 پھر ان کی باز گشت جہنم کی طرف ہوگی الصافات
69 بے شک انہوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا الصافات
70 پھر یہ بھی انہی کے نقش قدم پر دوڑے چلے گئے الصافات
71 بلاشبہ ان سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں الصافات
72 ان لوگوں میں بھی ہم نے ڈرانے والے بھیجے تھے الصافات
73 سودیکھو کہ ان ڈرائے گئے لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟ الصافات
74 مگر ہاں اللہ کے بندے جو برگزیدہ تھے (وہ محفوظ رہے الصافات
75 بلاشبہ (اس سے پہلے) ہم کو نوح نے پکارا تھا تو دیکھو، کیسے جواب دینے والے تھے؟ الصافات
76 اور ہم نے نوح اور اس کے متعلقین کو کرب عظیم سے بچالیا الصافات
77 اور ہم نے نوح کی ذریت کو بقا دی کیونکہ وہی ایک صالح قوم پیدا ہوئی تھی الصافات
78 اور (اسی طرح) بعد میں آنے والی قوموں اور نسلوں کے لیے دعوت نوحی کو وسیلہ ہدایت قرار دیا الصافات
79 پس تمام جہانوں، قوموں اور تمام نسلوں میں سلا ہے نوح کے لیے (جن کا وجود تمام عالم کی دعوت ہدایت کا مرکز تھا) الصافات
80 بلاشبہ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں (٨)۔ الصافات
81 بالتحقیق نوح ہمارے نیک بندوں میں سے تھا الصافات
82 پھر ہم نے دوسرے لوگو کو غرق کردیا الصافات
83 اور نوح ہی کی جماعت میں سے ابراہیم بھی ہیں (٩)۔ الصافات
84 جب کہ وہ اپنے پروردگار کے حضور قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوئے الصافات
85 جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا، یہ کہا چیزیں ہیں جن کی تم پوجا کررہے ہو؟ الصافات
86 کیا اللہ کوچھوڑ کرجھوٹ گھڑے ہوئے معبودوں کو چاہتے ہو؟ الصافات
87 آخر اللہ رب العالمین کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے؟۔ الصافات
88 پھر ابراہیم نے تاروں پرایک نگاہ ڈالی الصافات
89 اور کہا میں بیمار ہوں الصافات
90 اس پر وہ لوگ اسے چھوڑ کر چلے گئے الصافات
91 ان کے بعد وہ چپکے سے ان کے معبودوں میں جاگھسا اور کہا، تم کھاتے کیوں نہیں؟ الصافات
92 تم کو کیا ہوا کہ تم بولتے بھی نہیں الصافات
93 پھر وہ ان پر پل پڑا اور پوری قوت سے انہیں ضربیں لگائیں الصافات
94 اس کے بعد قوم کے لوگ ابراہیم کے پاس دوڑتے ہوئے آئے الصافات
95 ابراہیم نے کہا کیا تم ان بتوں کو پوجتے ہو جن کو تم خود ہی تراشتے ہو؟ الصافات
96 حالانکہ تم کو اور جو تم بناتے ہو سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے الصافات
97 قوم کے لوگوں نے کہا ابراہیم کے لیے ایک عمارت بناؤ پھر اس کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دو الصافات
98 غرض انہوں نے ابراہیم کے ساتھ ایک برائی کا ارادہ کیا مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا (١٠)۔ الصافات
99 ابراہیم نے کہا) میں ہر طرف سے کٹ کراپنے پروردگار کارخ کرتا ہوں وہ میری ہدایت کرے گا الصافات
100 اے میرے رب مجھ کو کوئی سعادت مند لڑکا عطا فرما الصافات
101 اس پر ہم نے اسے ایک حلیم لڑکے کی خوش خبری دی الصافات
102 جب اسماعیل ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو انہوں نے (ایک دن اسماعیل سے) کہا میں نے خواب دیکھا، گویا تمہیں (راہ حق میں) ذبح کررہا ہوں (میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا ماجرا ہے) تم اسپر غور کرو کہ اب کیا کرنا چاہیے ؟ بیٹے نے (بلاتامل) کہا (اس خواب سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک اشارہ ہے) پس آپ حکم الٰہی کو پورا کیجئے مجھ آپ انشاء اللہ صبر کرنے والوں اور (ثابت قدموں) میں پائیں گے (١١)۔ الصافات
103 ) جب باپ اور بیٹا دونوں خدا کے آگے جھک گئے اور باپ نے ذبح کرنے کے لیے بیٹے کو زمین پر پچھاڑا الصافات
104 تواس وقت ہم نے آواز دی، اے ابراہیم،(بس کرو) الصافات
105 تم نے اپنے خواب کوسچ کردکھایا ہم صاحبان احسان کواسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں (١٢)۔ الصافات
106 یہ دراصل بہت بڑی قربانی تھی (جس کی تعمیل کے لیے تم تیار ہوگئے تھے الصافات
107 اور ذبیح (اسماعیل) کے فدیے میں ہم نے ایک بہت بڑی قربانی دے دی (یعنی سنت ابراہیمی کی یادگار میں تاقیامت جاری رہنے والی قربانی )۔ الصافات
108 اور تمام آنے والی امت میں اس واقعہ عظیم کا ذکر قائم کردیا الصافات
109 پس سلام ہو (حقیقت اسلامی کے مطابق قربانی کرنے والے) ابراہیم پر الصافات
110 ہم مقام احسان تک پہنچنے والوں کو (بقائے دوام کا) ایسا ہی بدلہ عطا فرماتے ہیں الصافات
111 بے شک وہ ہمارے حقیقی مومن بندوں میں سے تھا (١٣) الصافات
112 اور ہم نے اسے اسحق کی بشارت دی ایک نبی صالحین میں سے۔ الصافات
113 اور ہم نے اسے اور اسحق کو برکت دی اور ان دونوں کی نسل سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والا ہے الصافات
114 اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا الصافات
115 اور ان دونوں کو اور ان کی قوم کو بڑی مصیبت سے نجات دی الصافات
116 اور ہم نے ان کی مدد کی تو آخر کار وہی غالب رہے الصافات
117 اور ہم نے ان دونوں کو واضح کتاب عطا کی الصافات
118 اورانہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی الصافات
119 اور ہم نے بعد کی نسلوں میں ان کی تعریف چھوڑ دی الصافات
120 موسی اور ہارون پر سلام ہو الصافات
121 ہم نیک روش پر قائم رہنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں الصافات
122 بے شک وہ دونوں ہمارے مومن بندوں سے تھے الصافات
123 بے شک الیاس بھی رسولوں میں سے تھا (١٤)۔ الصافات
124 جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا تم لوگ خدا سے ڈرتے نہیں؟ الصافات
125 کیا تم بعل نامی بت کو پوجتے ہو اور سب سے بہتر پیدا کرنے والے کوچھوڑ دیتے ہو؟۔ الصافات
126 یعنی اس اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے آباء واجداد کا بھی رب ہے الصافات
127 مگر انہوں نے الیاس کی تکذیب کی، تو وہ یقینا سزا کے لیے پیش کیے جائیں گے الصافات
128 مگر ہاں جوالہ کے برگزیدہ بندے تھے الصافات
129 اور الیاس کا ذکر خیرہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا الصافات
130 الیاسین پر سلام ہو الصافات
131 بے شک ہم اسی طرح نیکوکار لوگوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں الصافات
132 فی الوقع وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا الصافات
133 بے شک لوط پیغمبروں میں سے تھا الصافات
134 جبکہ ہم نے اسے اور اس کے سب متعلقین کو عذاب سے بچالیا الصافات
135 سوائے ایک بڑھیا، کے جوپیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی الصافات
136 پھردوسروں کو ہم نے تہس نہس کرڈالا الصافات
137 ) اور تم (مکہ والو) شب وروز ان پر گزرتے ہو الصافات
138 تو پھر بھی تم کو عقل نہیں آتی۔ الصافات
139 اور بے شک یونس بھی پیغمبروں میں سے تھا (١٥)۔ الصافات
140 جب کہ وہ بھاگ کر ایک بھری ہوئی کشتی میں پہنچا الصافات
141 پھر وہ قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور مغلوب ٹھہرا الصافات
142 پھر اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا الصافات
143 پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا الصافات
144 توروز قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں پڑا رہتا الصافات
145 بالآخر ہم نے اسے ایک چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار وناتواں تھا الصافات
146 اور ہم نے اس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا الصافات
147 اور اسے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کربھیجا الصافات
148 سوہ اس پر ایمان لے آئے تو ہم نے ان کو ایک خاص وقت تک بہرہ مند کیا الصافات
149 اے نبی آپ ان سے دریافت کیجئے کیا آپ کے رب کے لیے توبیٹیاں ہوں اور ان کے لیے بیٹے؟ الصافات
150 کیا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا ہے اور یہ دیکھ رہے تھے؟ الصافات
151 خوب سن لو یہ لوگ اپنی بہتان طرازی سے یہ بات کہتے ہیں الصافات
152 کہ اللہ کے اولاد ہے اور بلاشبہ یہ لوگ سراسر جھوٹے ہیں الصافات
153 کیا اللہ نے بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیوں کو پسند کیا ہے؟ الصافات
154 تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کیسا حکم لگاتے ہو؟ الصافات
155 کیا تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے الصافات
156 یا تمہارے پاس (ان باتوں کے لیے) کوئی واضح دلیل ہے؟ الصافات
157 اگر سچے ہو تو اپنی کتاب لاکر پیش کرو (١٦)۔ الصافات
158 اورانہوں نے اللہ اور جنات کے مابین نسب کارشتہ بنارکھا ہے حالانکہ جنات خوب جانتے ہیں کہ وہ (جنات) مجرم کی حیثیت سے حاضر کیے جائیں گے الصافات
159 اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں الصافات
160 ماسواللہ کے مخلص بندوں کے (کہ وہ ایسی باتیں نہیں کرتے الصافات
161 سو تم اور تمہارے معبود (شریر جنات) الصافات
162 کسی شخص کو اللہ سے پھیر کر فتنے میں نہیں ڈال سکتے الصافات
163 مگر ہاں اسی کو جو جہنم میں جانے والا ہے الصافات
164 اور (ہمارا مقرب فرشتوں کا حال تو یہ ہے) ہم میں سے ہر ایک کا مقام متعین ہے الصافات
165 اور ہم توصف بستہ کھڑے ہونے والے ہیں الصافات
166 اور ہم (اللہ کی) تسبیح میں لگے ہوئے ہیں الصافات
167 اور بلاشبہ (نزول قرآن سے پہلے) یہ کافر کہا کرتے تھے الصافات
168 اگر ہمارے پاس بھی پہلے لوگوں کی سی کوئی نصیحت آمیز کتاب آتی الصافات
169 تویقینا ہم اللہ کے برگزیدہ بندے ہوتے الصافات
170 مگر (جب وہ ذکر آگیا تو) انہوں نے اس کتاب کو انکار کردیا سوعنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا الصافات
171 اور ہم نے اپنے جن بندوں کو ارشاد وہدایت کے لیے لوگوں کی طرف بھیجا ان کی نسبت پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا الصافات
172 کہ ہماری تائید نصرت سے یقینا وہی فتح یاب ومظفر ہونے والے ہیں الصافات
173 ور بے شک ہماری ہی فوج سب پر غالب آکر رہے گی۔ الصافات
174 سواے پیغمبر ! آپ کچھ مدت کے لیے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے الصافات
175 اور دیکھتے رہیے، عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے الصافات
176 کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں الصافات
177 پھر جب وہ ان کے گھروں کے صحنوں آ اترے گا تو وہ وقت ان کے لیے بہت برا ہوگا جن کو ڈرایا جاچکا ہے الصافات
178 پس ذرا کچھ مدت کے لیے ان سے تعارض نہ کیجئے اور دیکھتے رہیے یہ خود بھی عنقریب اپنا انجام دیکھ لیں گے الصافات
179 پاک ہے آپ کا رب کمال عزت کا مالک ان باتوں سے جو یہ لوگ بنارہے ہیں الصافات
180 اور سلام ہوتمام پیغمبروں پر الصافات
181 اور سلام ہوتمام پیغمبروں پر الصافات
182 اور ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ الصافات
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے ص
1 ص، قسم ہے قرآن کی جو نصیحت سے لبریز ہے (کہ پیغمبر کی نسبت جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں، صحیح نہیں ہے ص
2 بلکہ یہ کفار اپنے تکبیرات اور مخالفت میں مبتلا ہیں (١)۔ ص
3 ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں (جب عذاب آیا) تو انہوں نے چیخ وپکار کی مگر وہ بچنے کا وقت نہیں تھا ص
4 اور لوگوں کو تعجب کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا، اور کافروں نے کہا یہ جادوگر ہے سخت جھوٹا ص
5 کیا اس نے بہت سے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنادیا ہے؟ بلاشبہ یہ بڑی عجیب بات ہے ص
6 اوران کے سردار یہ بات کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو، یہ بات تو ضرور کسی غرض کے لیے کہی جارہی ہے ص
7 یہ بات ہم نے قریب کے کسی دین میں نہیں سنی، کچھ نہیں یہ محض من گھڑت بات ہے ص
8 کیا ہم سب میں سے اسی پر ذکر الٰہی نازل کیا گیا ہے؟ دراصل یہ میرے ذکر کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ (یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ) انہوں نے میرا عذاب چکھانہیں ہے (٢)۔ ص
9 کیا آپ زبردست بخشش کرنے والے رب کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ ص
10 کیا یہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے مابین ہے ان سب کے مالک ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان کو چاہیے کہ رسیاں تان کر آسمان پر چڑھ جائیں ص
11 من جملہ دیگر مخالف جماعتوں کے یہ کفار مکہ بھی ایک معمولی سالشکر ہے جو وہاں شکست دے دیا جائے گا ص
12 ان سے پہلے بھی قوم نوح، عاد اور میخوں والافرعون ص
13 ۔ اور ثمود اور قوم لوط اور ایکہ والے تکذیب کرچکے ہیں۔ یہی لوگ (انبیاء کے مخالفین کے) جتھے تھے ص
14 ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو ان پر میرے عذاب کا فیصلہ ثابت ہوگیا ص
15 یہ لوگ بھی بس ایک ہولناک آواز کے منتظر ہیں جس کے لیے بیچ میں دم لینا نہیں ہے ص
16 اور یہ لوگ کہتے ہیں، اے ہمارے رب، یوم حساب سے پہلے ہی ہمارے عذاب کا حصہ ہمیں جلدی سے دے دے۔ ص
17 اے پیغمبر یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر آپ ذرا صبر کیجئے اور ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجئے جو بڑا صاحب قوت تھا۔ بلاشبہ وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والا تھا (٣)۔ ص
18 اور ہم نے داؤد نبی کے لیے پہاڑوں کو مسخر کردیا کہ صبح وشام خدا کی تسبیح کریں ص
19 اور پرندوں کو بھی تابع کردیاجو (داؤد کے پاس) جمع ہوجاتے ہیں یہ سب کے سب کے سامنے رجوع رہتے۔ ص
20 اور ہم نے اس کی سلطنت کو خوب مضبوط کیا تھا اور ہم نے اس کو حکمت اور فیصلہ کن خطاب کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی ص
21 بھلاآپ کو ان مقدمہ والوں کی کچھ خبر پہنچی ہے جب وہ بالاخانے کی دیوار پھاند کر اندر چلے گئے ص
22 جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا گیا، وہ کہنے لگے آپ ڈریے نہیں، ہم ایک مقدمہ کے دو فریق ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، سوآپ حق کے ساتھ ہمارے درمیان فیصلہ کردیجئے اور بے انصافی نہ کیجئے اور راہ راست کی طرف ہماری رہنمائی کیجئے ص
23 یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے سویہ کہتا ہے کہ تو اپنی ایک دنبی بھی میرے حوالے کردے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبالیا ہے ص
24 داؤد نے جواب دیا، اس نے اپنی دنبیوں میں تیری دنبی ملالینے کا مطالبہ کرکے تم پر ظلم کیا ہے اور بہت سے ساجھے کام کرنے والے ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے تو ان کاشیوہ عدل اور دیانتداری ہے البتہ ایسے لوگ تھوڑے ہیں۔ اور داؤد سمجھ گیا کہ ہم نے اس آزمایا ہے چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گرپڑا اور رجوع ہوا ص
25 تب ہم نے اس کی وہ بات اسے معاف کردی اور یقینا ہمارے ہاں اس کے لیے بڑا قرب اور بڑی اچھی بازگشت ہے ص
26 اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں حکمران بنایا ہے لہذا لوگوں کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کر اور خواہش کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی جو لوگ خدا کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں یقینا ان کے لیے سخت عذاب ہے کہ انہوں نے یوم حساب کوفراموش کررکھا تھا۔ ص
27 اور ہم نے آسمان اور زمین اور اس کو جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکارپیدا نہیں کیا، یہ خیال تومنکرین کا ہے سو کافروں کے لیے آگ کی بربادی ہے (٤)۔ ص
28 کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے برابر کردیں جو ملک میں فساد بپا کرتے پھرتے ہیں یاپرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے؟ ص
29 یہ (قرآن مجید) ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے کہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور اہل دانش نصیحت حاصل کریں ص
30 اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا، بہترین بندہ، اور رب کی طرف بہت رجوع رہنے والا تھا ص
31 سلیمان کا وہ واقعہ قابل ذکر ہے) جب کہ شام کے وقت اس کے روبراصیل تیز روگھوڑے پیش کیے گئے ص
32 توسلیمان نے کہا، میں نے مال کی محبت اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے اختیار کی ہے، حتی کہ وہ گھوڑے نظر سے اوجھل ہوگئے ص
33 تواس نے حکم دیا کہ) ان کو میر پاس واپس لاؤتوان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگا ص
34 ہم نے سلیمان کو آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پرایک جسد لاکرڈال دیا پھر سلیمان نے رجوع کیا ص
35 اور کہا، اے میرے رب میرے قصور معاف کردے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کرجومیرے بعد اور کسی کے لیے مناسب نہ ہو، بے شک تو بڑا ہی دینے والا ہے (٥)۔ ص
36 تب ہم نے ہوا کو اس کے لیے مسخر کردیا، وہ ہوا اس کے حکم سے جہاں وہ جانا چاہتا، نرم رفتار سے چلتی ص
37 اور ہر طرح کے معمار اور غوطہ خورشیاطین کو اس کے زیرفرمان کردیا ص
38 اور دوسرے شیاطین کو جوزنجیروں میں جکڑے رہتے تھے ص
39 (ہم نے اسے کہا) یہ ہماری بخشش ہے تو جسے چاہے عطا کر اور جس سے چاہے روک لے تجھ پر کوئی محاسبہ نہیں ہے۔ ص
40 اور یقینا اس کے لیے ہمارے ہاں بڑا قرب اور بڑی اچھی بازگشت ہے ص
41 اے نبی ! ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے جب کہ اس نے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے (٦)۔ ص
42 ہم نے اسے حکم دیا) اپنا پاؤں زمین پر مار، یہ نہانے اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی ہے ص
43 ہم نے اس کو اس کے اہل وعیال دیے اور ان کے ساتھ اتنے ہی عطا کیے یہ ہماری طرف سے رحمت تھی اور اہل عقل کے لیے درس عبرت ہے ص
44 اور ہم نے اس سے کہا) تنکوں کا ایک مٹھا لے، پھر اس سے (اپنی بیوی کو) مار لے اور اپنی قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے (ایوب کو) صابر پایا، بہترین بندہ تھا ( اور وہ) اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنیوالا تھا۔ ص
45 اور ہمارے بندے ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کا ذکر کیجئے جو بڑی قوت اور بصیرت والے لوگ تھے ص
46 ہم نے ان کو خالص وصف کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا اور وہ آخرت کی یاد تھی ص
47 اور یقینا وہ ہمارے ہاں برگزیدہ اور بہتر لوگوں میں سے ہیں ص
48 اور آپ اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کا بھی ذکر کیجئے اور یہ سب بہترین لوگوں میں سے تھے (٧)۔ ص
49 یہ ایک تذکرہ تھا، اور سنو کہ متقین کے لیے یقینا بہترین ٹھکانا ہے ص
50 ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے ص
51 وہ ان میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے وہ وہاں بہت سے میوے اور مشروبات طلب کررہے ہوں گے ص
52 اور ان کے پاس نیچی نظر رکھنے والی ہم سن بیویاں ہوں گی ص
53 یہ ہیں وہ نعمتیں جویوم حساب کودینے کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے ص
54 یہ ہمارا رزق ہے جوکبھی ختم ہونے والا نہیں ص
55 یہ تو متقیوں کا صلہ ہے) اور سرکشوں کابراٹھکانا ہے ص
56 جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے سوبہت بری آرام گاہ ہے ص
57 ی ہے ان کے لیے پس اس کا مزہ چکھیں، کھولتا ہوا پانی اور پیپ ص
58 اور اسی قسم کی دوسری چیزیں ہیں ص
59 یہ ایک اور لشکر تمہارے ساتھ گھسا چلا آرہا ہے کوئی خوش آمدید ان کے لیے نہیں بے شک وہ جہنم میں داخل ہورہے ہیں ص
60 وہ جواب دیں گے نہیں بلکہ خوش آمدید نہ ہوتم ہی تو یہ عذاب ہمارے آگے لائے ہو سوبہت ہی براٹھکانا ہے۔ ص
61 پھر وہ کہیں گے اے ہمارے رب جو یہ مصیبت ہمارے آگے لایا ہے اسے جہنم میں دگنا عذاب دے ص
62 اور اہل جہنم میں آپس میں کہیں گے ہمیہاں ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جن کو ہم شرپسندوں میں شمار کرتے تھے ص
63 کیا ہم نے انکا مذاق بنا رکھا تھا یا ہماری نظریں ان سے خطا کررہی ہیں ص
64 یقینا یہ دوزخیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا ایک حقیقت ہے ص
65 آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والاہوں اور سوائے اللہ کے عباد کے کوئی لائق نہیں ہے جو واحد اور سب پر غالب ہے (٨)۔ ص
66 وہی آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کارب ہے زبردست اور بڑی بخشش کرنے والا ہے ص
67 آپ کہہ دیجئے کہ وہ ایک بہت بڑی خبر ہے ص
68 جس سے تم اعراض کررہے ہو ص
69 مجھے توملا اعلی کے متعلق کوئی علم نہیں ہے جب کہ وہ جھگڑ رہے تھے ص
70 میری طرف تو صرف اسلیے وحی کی جارہی ہے کہ میں خدا کی جانب سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں ص
71 جب کہ آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ، میں مٹی سے ایک انسان بنانے والا ہوں ص
72 سوجب میں اسے پوری طرح درست کرلوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا ص
73 چنانچہ سب کے سب فرشتے آدم کے سامنے سجدہ میں گر گئے ص
74 بجز ابلیس کے اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا ص
75 رب نے فرمایا، اے ابلیس تجھے کس چیز نے اسے سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے؟ کیا تو نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا ہے یا تو واقعی اونچے درجے کے لوگوں میں سے ہے؟ ص
76 اس نے جواب دیا میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے ص
77 فرمایا اچھا، یہاں سے نکل جا، یقینا تو مردود ہے ص
78 اور بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے ص
79 اس نے کہا میرے رب (یہ بات ہے) تو پھر اس وقت تک کے لیے مہلت دے دے جب یہ لوگ (دوبارہ قبروں سے) اٹھائے جائیں گے ص
80 رب نے فرمایا، اچھا تجھے مہلت ہے ص
81 اس دن تک جس کا وقت معلوم ہے ص
82 ابلیس نے کہا، تیری عزت کی قسم میں ان سب لوگوں کو گمراہ کرکے رہوں گا ص
83 بجز تیرے ان بندوں کے جو مخلص اور برگزیدہ ہیں ص
84 رب نے فرمایا، تو یہ حق ہے، اور میں حق ہی کہتا کرتا ہوں ص
85 کہ میں تجھ سے اور ان لوگوں سے جوتیری پیروی کریں گے، ان سب سے جہنم کو بھردوں گا ص
86 اے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں قرآن کی تبلیغ پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ص
87 یہ توتمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے ص
88 اور تھوڑی ہی مدت کے بعد تمہیں اس کی حقیقت حال معلوم ہوجائے گی۔ ص
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الزمر
1 اس کتاب کی تنزیل اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے جوزبردست اور کمال حکمت کا مالک ہے (١)۔ الزمر
2 یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے لہذا آپ اللہ تعالیٰ کی عباد کیجئے اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے (٢)۔ الزمر
3 خبردار دین خالص اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے اور جن لوگوں نے اللہ کے سوادوسرے اولیاء بنارکھے ہیں ( اور کہتے ہیں کہ) ہم ان بتوں کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے وسیلہ شفاعت ہیں اور تاکہ ہمیں اللہ کا مقرب بنادیں، اللہ یقینا ان لوگوں کے درمیان ان باتوں کو فیصلہ کردے گا جن میں اختلاف کررہے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جوجھوٹا اور سخت ناسپاس ہو (٣)۔ الزمر
4 اگر اللہ کسی کو اپنی اولاد قرار دینا چاہتا تو اپنی مخ (رح) وق میں سے جسے چاہتا منتخب کرلیا، پاک ہے وہ ذات وہ اللہ ہے جو یکتا اور سب پر غالب ہے (٤)۔ الزمر
5 اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت ومصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اس نے رات اور دن کے اختلاف وظہور کا ایساانتظام کردیا کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پرلپٹا آتا ہے۔ اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے مسخر کررکھا ہے اور سب اپنے مقررہ وقت تک کے لیے گردش کررہے ہیں، آگاہ رہو وہ زبردست اور بڑا بخشنے والا ہے (٥)۔ الزمر
6 اس نے تم کواکیلی جان (آدم) سے پیدا کیا۔ پھر اسی سے اس کاجوڑا بنادیا ہے اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں آٹھ نر اور مادہ پیدا کیے وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تین تاریک پر دوں میں ایک شکل کے بعد دوسری شکل دیتا چلا جاتا ہے یہی اللہ تمہارا رب ہے اسی کو سلطنت ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پھر تم کہاں سے کہاں پھرائے جارہے ہو؟ (٦)۔ الزمر
7 اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا اور اگر شکر بجالاؤ تو اس کو تمہارے لیے پسند کرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والاکسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا آخر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتادے گا کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو، بلاشبہ وہ سینوں کے راز تک کو خوب جانتا ہے الزمر
8 اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پوری طرح رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے نعمت عطا کردیتا ہے تو جس مصیبت کو دور کرنے کے لیے وہ اس سے پہلے اسے پکارتا رہا تھا اسے بھول جاتا ہے اور دوسروں کو اللہ کے لیے ہمسر بنالیتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو گمراہ کرے اے نبی آپ ایسے شخص سے کہہ دیجئے کہ اپنے کفر سے تھوڑی مدت فائدہ اٹھا لو یقیناتواہل جہنم میں سے ہے (٧)۔ الزمر
9 بھلاوہ شخص جو رات کے اوقات تنہائی وخلوت میں ہر طرف سے کٹ کر خدا کے سامنے جھک گیا کبھی جوش اضطراب کی منزلوں کے تصور سے ڈرنے لگتا ہے اور کبھی اس کی شان کریمی و رحمت کی یاد کرکے امیدو اور بخشش ہوجاتا ہے توبتلاؤ کہ ایسا شخص اور سرشار ان غفلت وحجاب برابر ہیں؟ پھر کیا صاحبان علم اور گم گشتگان جہل، دونوں کا ایک درجہ ہے اور نصیحت وہی مانتے ہیں جودانشمند ہیں (٨)۔ الزمر
10 اے نبی آپ کہہ دیجئے اے میرے بندوں جو ایمان لائے ہواپنے رب سے ڈرتے رہو، جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا، ان کے لیے (آخرت میں) بھلائی ہے اور اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے صبر کرنے والوں تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا الزمر
11 آپ فرمادیجئے مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے خالص کرکے اس کی عبادت کروں الزمر
12 اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلمان بنوں الزمر
13 آپ کہہ دیجئے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں بڑے دن کی عذاب سے ڈرتا ہوں۔ الزمر
14 آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنے دین کو اللہ کے خالص کرکے اسی کی عبادت کروں گا الزمر
15 تم اس کے سواجس کی عبادت چاہے کرتے پھرو آپ کہہ دیجئے حقیقتا نقصان اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین خسارے میں ڈال دیا آگاہ رہو یہ خسارہ ہی کھلاخسارہ ہے الزمر
16 ان کے اوپر آگ کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے بھی آگ کے سائبان ہوں گے یہ وہ عذاب ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اے میرے بندوں مجھ سے ڈرتے رہو الزمر
17 اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا اور انہوں نے اللہ کی جانب رجوع کرلیا، ان کے لیے خوش خبری ہے پس اللہ کی طرف سے بشارت ہے ان بندوں کے لیے الزمر
18 جوکلام حق کو کان لگا کرسنتے ہیں اور اس کی اچھی باتوں پر عمل کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ہدایت کے لیے کھول دیا اور یہی لوگ عقل سلیم رکھنے والے ہیں الزمر
19 بھلاجس شخص پر عذاب کا حکم ثابت ہوچکا تو کیا آپ اس شخص کو آگ سے بچاسکتے ہیں جو آگ میں گرچکا ہو؟ الزمر
20 البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے تو ان کے رہنے کے لیے منزل بہ منزل بنی ہوئی عمارتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا الزمر
21 کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہوگئے پھر اسی پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں، پھر ان کی نشوونما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہوگئیں پھ رترقی کے بعد زوال طاری ہو اور تم دیکھتے ہو کہ ان پر زردی چھاجاتی ہے پھر وہ خشک ہو کر چورا چورا ہوجاتی ہیں بلاشبہ دانش مندوں کے لیے اس صورت حال میں بڑی ہی عبرت ہے (٩)۔ الزمر
22 اور جس کا دل اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا گیا ہو وہ اپنے پروردگار کی روشن کی ہوئی مشعل ہدایت اپنے سامنے پاتا ہو (تو کہیں ہی سنگ دل شخص کی طرح ہوسکتا ہے؟) پس صد افسوس اور صد حسرت ان دلوں پر جوذکر الٰہی کی طرف سے بالکل سخت ہوگئے اور یہی لوگ ہیں جو کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں الزمر
23 اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب جس کے مضامین ملتے جلتے باربار دہرائے گئے ہیں اس کتاب کوسن کر ان لوگوں کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یہ کتاب الہ کی ہداہت ہے وہ اس کے ذریعہ سے جس کو چاہتا ہے ہدایت فرما دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں الزمر
24 بھلاجوشخص قیامت کے دن بدترین عذاب سے اپنے چہرہ کے ذریعے سے بچے گا (اس کی بدحالی کا کون اندازہ کرسکتا ہے) اور ظالموں سے کہہ دیا جائے گا تم جوکمائی کرتے رہے ہو اب اس کے وبال کا مزہ چکھو الزمر
25 ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ تکذیب کرنے کاشیوہ اختیار کرچکے ہیں پھر ان پر عذاب ایسی جہت سے آیا جدھر سے انہیں احساس تک نہ تھا الزمر
26 سواللہ نے انہیں دنیاہی کی زندگی میں ذلت ورسوائی کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے کاش یہ لوگ جانتے۔ الزمر
27 ہم نے انسان کو سمجھانے کے لیے اس قرآن میں سب طرح کی مثالیں بیان کردیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں الزمر
28 جوعربی زبان میں ہے اور اس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے تاکہ یہ لوگ برے انجام سے بچیں الزمر
29 اللہ نے ایک مثال بیان کی کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں چند لوگ شریک ہیں اور وہ ایک دوسرے کے مخالف اور کج خلق ہیں اور دوسرا شخص پورے کاپورا ایک ہی شخص کا غلام ہے کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہوسکتی ہے؟ الحمدللہ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں الزمر
30 اے پیغمبر آپ کو مرنا بھی ہے اور یقینا انہیں بھی مرنا ہے الزمر
31 پھر قیامت کے روز تم سب اپنے رب کے حضور اپنا اپنا معاملہ پیش کرو گے الزمر
32 پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بولے اور جب سچائی اس کے سامنے آئی تو اس کی تکذیب کردی کیا ایسے کافروں کاٹھکانا جہنم نہیں ہوگا؟ الزمر
33 اور جو لوگ سچائی لے کرآئے اور جنہوں نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ عذاب سے بچنے والے ہیں الزمر
34 انہیں اپنے رب کے ہاں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے یہ نیکوکار لوگوں کی جزا ہے الزمر
35 تاکہ ان لوگوں نے جو بدترین عمل کیے تھے انہیں اللہ تعالیٰ ان سے دور کردے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کا صلہ عطا فرمائے جو وہ کیا کرتے تھے۔ الزمر
36 کیا اللہ (کے خزائن) اس کے بندے کے لیے کافی نہیں کہ وہ اسے دوسروں کے دروازے پر بھیجے؟ اور یہ لوگ اللہ کے سوادوسروں سے تجھے ڈراتے ہیں حالانکہ جسے اللہ گمراہ گردان دے تو اسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں الزمر
37 اور وہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں کیا اللہ زبردست اور انتقام لینے والا نہیں ہے۔ الزمر
38 اے پیغمبر اگر آپ ان مشرکین سے پوچھیں گے کہ کون ہے جس نے ان آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ؟ تو ضرور اس کے جواب میں کہیں گے اللہ نے پھر اگر آپ ان سے کہیں کہ اگر اللہ مجھے تکلیف پہنچانا چاہے تو تمہارے معبود وہ جنہیں تم خدا کوچھوڑ کر پکارتے ہو میری تکلیف دور کرسکتے ہیں؟ یا اللہ اگر مجھ پر اپنا فضل کرنا چاہے تو کیا وہ اسے روک سکتے ہیں؟ اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ میرے لیے تو بس وہی خدا بس کرتا ہے (جس کے وجود سے تم بھی انکار نہیں کرسکتے) اور بھروسا کرنے والے اسی پربھروسا کرتے ہیں الزمر
39 کہہ دیجئے اے لوگو تم بھی اپنی جگہ کام کیے جاؤ اور میں بھی کررہا ہوں اور عنقریب جان جاؤ گے (کہ اللہ کی نصرت کس کے ساتھ ہے اور کسے اخروی کامیابی نصیب ہوتی ہے) الزمر
40 اور کسے عذاب آکر اسے رسوا کرتا ہے اور اس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے الزمر
41 اے نبی ! ہم نے سب انسانوں کی بھلائی کے لیے یہ کتاب برحق آپ پر نازل کردی ہے سواب جوہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اپنی جان کے لیے کرے گا اور جوگمراہی اختیار کرے گا تو اس گمراہی کاوبال اسی پر ہوگا اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں الزمر
42 اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے جس کے مرنے کا وقت نہیں آیا اس کی روح سوتے میں قبض کرلیتا ہے پھر ان روحوں کو جن پر موت کا حکم صادر کرچکا ہے ان کو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک وقت مقررہ کے لیے بھیج دیتا ہے بلاشبہ اس میں غوروفکر سے کام لینے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں (١٠)۔ الزمر
43 کیا انہوں نے اللہ کے سوادوسروں کو شفیع سمجھ رکھا ہے؟ آپ کہیے ( کیا یہ شفاعت کریں گے؟) اگرچہ ان کو کسی چیز کا اختیار نہ ہو اور نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں؟ الزمر
44 آپ ان سے کہہ دیجئے سفارش توتمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے تمام آسمانوں اور زمین کی حکومت کا وہی مالک ہے پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے الزمر
45 اور جب خدائے واحد کا ذکر کیا جاتا ہے توجن لوگوں کو حیات اخروی پر (کامل) ایمان نہیں، تو ان کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو یکایک ان میں خوشی پیدا ہوجاتی ہے (١١)۔ الزمر
46 اے نبی آپ کہیے اے اللہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے چھپے اور کھلے کے جاننے والے توہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں الزمر
47 اگر ان ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہوجوزمین میں ہے اور اتنا ہی اور بھی ہوتویہ لوگ قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیہ میں دینے کو تیار ہوجائیں گے اور وہاں اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ ظاہر ہوگا جس کا وہ وہم وگمان بھی نہ رکھتے تھے۔ الزمر
48 اور وہاں ان کی کمائی کے برے نتائج ان کے سامنے آجائیں گے اور وہی چیز انکو آگھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے الزمر
49 پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے توہ میں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا کرتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ تو مجھکومیرے علم کی بنا پر ملا ہے نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں الزمر
50 یہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جوان سے پہلے گزرچکے ہیں مگر جو کچھ وہ کرتے رہے ان کے کچھ بھی کا منہ آیا الزمر
51 پھر ان تمام بداعمالیوں کاوبال بھی عنقریب ان پر پڑنے والا ہے اور یہ لوگ ہمیں عاجز کردینے والے نہیں ہیں الزمر
52 اور کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے بے شک اس میں ایمان والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں الزمر
53 اے پیغمبر کہہ دیجئے اے میرے بندو۔ (گناہوں میں ڈوب پر) تم انے اپنے اوپر سخت زیادتیاں کی ہیں (خواہ تم کیسے ہی غرق معصیت ہومگر پھر بھی اس محبت فرمائے رحمت سے ناامید نہ ہو یقینا وہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا بے شک وہ درگزر کرنے والا ہے اور اس کی بخشش رحم عام ہے الزمر
54 اے وہ لوگو کہ اپنے پروردگار کی نافرمانیوں میں ڈوبے ہوئے ہو) اس کی طرف رجوع کرو اور اس کے حکم کے آگے اپنی گردن جھکادو قبل اس کے کہ تم پر (آخری) عذاب نازل ہو اور کسی طرف سے تمہیں مدد نہ ملے۔ الزمر
55 اور اللہ کی طرف سے جو بہترین احکام ومواعظ بھیجے گئے ہیں ان کی پیروی کرواس وقت سے پہلے جب کہ یکایک تم کو (آخری ناکامیوں اور نامرادیوں کا) عذاب آگھیرے گا اور تم بالکل بے خبر ہوگے۔ الزمر
56 اور کہیں ایسا نہ ہو کہ (تم اس وقت حسرت وندامت کے ساتھ وقت فرصت کو یاد کرو) اور تم میں سے کوئی کہے آہ آہ، صد افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے اپنے پروردگار کے احکام کی تقدیس کرنے میں کی، اے افسوس کہ مجھے حکم الٰہی سنایا جاتا تھا مگر میں تمسخر کرتا تھا الزمر
57 یاک ہے کہ اگر خدا میری ہدایت فرماتاتوآج پرہیزگاروں میں سے ہوتا ( حالانکہ اس تمام حجت کے لیے آج ہدایت کی صدائے دعوت بلند کی جارہی ہے) الزمر
58 پھر جب وہ آنے والا عذاب آموجود ہو تو اسے دیکھ کر حسرت سے کہے کہ اے کاش مجھے دی گئی مہلت اور گزرا ہواوقت دوبارہ مل جاتا ومیں بھی نیک بن کر نیکوں کی جماعت میں شامل ہوجاتا الزمر
59 لیکن اس وقت صدائے الٰہی اٹھے گی کہ ہاں میں نے توپنا حکم بھیجا تھا اور اپنی نشانیاں تجھے دکھلائی تھیں پرتونے ان کو جھٹلایا اور ان کے آگے جھکنے کی جگہ مغرور ہوگیا میرے حکموں سے انکار کرنیوالوں میں تو بھی تھا اب تیرے لیے حسرت ونامرادی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا الزمر
60 اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا قیامت کے دن آپ دیکھیں گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے کیا ان متکبروں کاٹھکانا جہنم نہیں ہے الزمر
61 اور جن لوگوں نے یہاں تقوی کی راہ اختیار کی ان کی کامیابی کی وجہ سے اللہ انہیں نجات دے گانہ انہیں کسی طرح کی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے الزمر
62 اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے الزمر
63 آسمانوں اور زمین کے خزانے کی کنجیاں اسی کے اختیار میں ہیں اور جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں تو یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں الزمر
64 اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے اے جاہلو ! کیا اب بھی مجھے کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی عبادت کرنے لگوں۔ الزمر
65 بلاشبہ میری طرف اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کی طرف یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے تمام اعمال نیست ونابود ہوجائیں گے اور تم یقینا خسارے میں پڑجاؤ گے الزمر
66 بلکہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور شکرگزار بندوں میں سے ہوجاؤ الزمر
67 اورانہوں نے اللہ کی وہ قدر نہ کی جو اس کی قدر کرنے کا حق ہے حالانکہ یہ ساری زمین قیامت کے دن اس کے قبضہ میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے پاک ہے وہ ذات اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کررہے ہیں الزمر
68 اور صور میں پھونکا جائے گا تو وہ سب بے ہوش کرگرپڑیں گے جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں سوائے انکے جن کو اللہ چاہے پھر اس صور میں دوسری مرتبہ پھونک ماری دی جائے گی تو یکایک یہ سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے الزمر
69 اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور عملوں کی کتاب لاکر رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے گی الزمر
70 اور ہر شخص کو اس کے عملوں کاپورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور جو کچھ لوگ کرتے رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ الزمر
71 اور جو لوگ کفر کرتے رہے ہیں وہ دوزخ کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ دوزخ پر پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے خازن ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے رب کی آیات پڑھ کرسنایا کرتے تھے اور تم کو اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے کیوں نہیں آئے تھے لیکن عذاب کا فیصلہ کافروں پر پورا ہوکررہا۔ الزمر
72 ان سے کہا جائے گا کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اب اس میں ہمیشہ رہو گے سو وہ کتنا ہی براٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کے لیے الزمر
73 اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایاجائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوں گے اور جنت کے خازن ان سے کہیں گے تم پرسلام ہوتم خوش حال رہو سو جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے اس میں داخل ہوجاؤ۔ الزمر
74 اور وہ (جنت میں داخل ہوکر) کہیں گے سب تعریف اللہ کے لی ہے جس نے اپنا وعدہ ہم کوسچ کردکھایا اور ہم کو اس سرزمین کا مالک بنادیا کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں سکونت اختیار کریں پس عمل کرنے والوں کا اجر کتنا عمدہ ہے الزمر
75 اور آپ دیکھیں گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کررہے ہیں اور تمام لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا کہ سب خوبیاں اللہ رب العالمین کے لیے ہی زیبا ہیں۔ الزمر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے غافر
1 حم غافر
2 اس کتاب کی تنزیل اللہ کی جانب سے ہے جوزبردست سب کچھ جاننے والا ہے (١)۔ غافر
3 گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا، بڑا صاحب فضل، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے غافر
4 اللہ کی آیات میں صرف وہی لوگ جھگڑا کرتے ہیں جنہوں نے کفر کاشیوہ اختیار کررکھا ہے سوملکوں میں ان کا چلنا پھرنا تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈال دے (٢)۔ غافر
5 ان لوگوں سے پہلے قوم نوح اور ان کے بعد بہت سے گروہ پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں اور ہر قوم نے اپنے رسول کے ساتھ یہی ارادہ کیا کہ اسے گرفتار کرے اور بے اصل باتوں کا سہارا لے کرجھگڑا کرتے رہے کہ حق کو اس کی جگہ سے ہٹادیں آخرکار میں نے ان کو پکڑ لیا پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی ہوئی ؟ غافر
6 اسی طرح ان کافروں پر بھی تیرے رب کا فیصلہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ اہل دوزخ ہیں غافر
7 وہ فرشتے جو عرش الٰہی کے حامل ہیں اور جو اس کے گردا گرد ہیں یہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز پر چھایا ہوا ہے سوان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے اور ان کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ غافر
8 اے ہمارے رب ان کو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں داخل فرماجن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ان کو بھی ان کے ماں باپ کو بھی اور ان کی بیویوں کو بھی اور ان کی اولاد کو بھی بے شک تو ہی زبردست کمال حکمت کا مالک ہے غافر
9 اوران کی برائیوں کی پاداش سے بچالے اور جس کو تونے قیامت کے دن برائیوں کی پاداش سے بچالیاتواس پر واقعی تو نے رحم کیا اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے غافر
10 جن لوگوں نے کفر کیا ان کو (قیامت کے دن) پکار کرکہاجائے گا کہ آج جتنا شدید غصہ تمہیں اپنے آپ پر آرہا ہے اللہ تم پر اس سے بھی زیادہ غضبناک ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے غافر
11 یہ لوگ کہیں گے اے ہمارے رب تو نے دوبارہ میں موت دی اور دو بار زندہ کیا سواب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پھر یہاں سے نکلنے کی کیا کوئی سبیل ہے ؟ غافر
12 یہ سزا تمہیں اس لیے مل رہی ہے کہ جب صرف تنہا اللہ کا نام لیا جاتا تھا تو تم کفر کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا ہے تو تم مان لیتے تھے بس فیصلہ اللہ ہی کا ہے جو سب سے بلند اور بڑا ہے غافر
13 وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق اتارتا ہے اور ان باتوں سے صرف وہی نصیحت حاصل کرتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع ہونے والا ہو غافر
14 پس اللہ کے لیے اپنے دین کو خالص کرکے اسی کی عبادت کرو، خواہ کافر لوگ کتنا ہی برا مانیں۔ غافر
15 وہ بلند درجوں والا صاحب عرش ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرائے غافر
16 جس دن کہ سب لوگ میدان حشر کی طرف نکل کھڑے ہوں گے ان کی کوئی بات اللہ پر مخفی نہیں ہوگی (اس وقت کہا جائے گا) آج کے دن کس کی بادشاہی ہے ؟ کسی کی نہیں صرف خدائے واحد وقہار کی غافر
17 آج ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا آج کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا، بے شک اللہ بہت حساب کرنے والا ہے غافر
18 اے نبی۔ آپ ان لوگوں کو اس قریب آنے والے دن کی مصیبت سے ڈرایے جس دن کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے اور لوگ غم کے گھونٹ پی رہے ہوں گے اس دن ظالموں کانہ کوئی ہمدردی کرنے والا دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مان لی جائے غافر
19 اللہ خیانت کرنے والی آنکھ کو جانتا ہے اوان باتوں کو بھی جو سینوں نے چھپارکھی ہیں غافر
20 اور اللہ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا اور وہ معبود جن کو (یہ مشرکین) اللہ کوچھوڑ کر پکارتے ہیں وہ کسی طرح کا فیصلہ نہیں کرسکتے بلاشبہ اللہ ہی سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے غافر
21 کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے ہوگزرے ہیں وہ قوت میں ان سے زیادہ تھے اور زمین میں آثارچھوڑنے کے اعتبار سے بھی ان سے بڑھے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا اور اللہ سے کوئی بھی ان کو بچانے والانہ تھا غافر
22 ان پر یہ گرفت اس بنا پر ہوئی کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کرآتے رہے مگر وہ کفر وانکاری ہی کرتے رہے، پھر اللہ نے ان کو پکڑ لیا بے شک اللہ بڑی قوت والا اور سخت عذاب دینے والا ہے (٣)۔ غافر
23 بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور واضح دلیل دے کربھیجا غافر
24 فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف مگر انہوں نے اسے جادوگر، اور جھوٹا بتایا (٤)۔ غافر
25 غرض جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق لے کر پہنچاتوان لوگوں نے کہا، جو لوگ موسیٰ کے ساتھ ایمان لے آئے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کرڈالو اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دو مگر کافروں کی یہ تدبیر اکارت ہی گئی (٥)۔ غافر
26 اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے خدا کو اپنی مدد کے لیے بلائے میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارا دین نہ بدل دے یا یہ کہ زمین میں فساد نہ پھیلائے غافر
27 اور موسیٰ نے کہا میں تو ہر متکبر سے جویوم حساب پر ایمان نہ رکھتا ہو اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں غافر
28 اتنے میں آل فرعون میں سے ایک مومن شخص جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا (٦) آکرکہنے لگا کیا تم ایک شخص کو محض اس بناپرقتل کرڈالو گے وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طف سے تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کرآیا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کاوبال اسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس عذاب کا وہ تمہیں وعدہ دے رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تمہیں پہنچ کررہے گا بلاشبہ اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرجانے والا اور بہت جھوٹا ہو غافر
29 میری قوم کے لوگو ! آج تو تمہاری سلطنت ہے اس ملک میں تم غالب اور حکمران ہو، لیکن اگر ہم پر اللہ کا عذاب آپڑا تو اس عذاب میں کون ہماری مدد کرے گا؟ (٧) فرعون نے کہا میں تم کو وہی رائے دیتاہوں جس کو میں خود صحیح سمجھتا ہوں اور میں اسی راستہ کی طرف تمہاری رہنمائی کرتاہوں جو بالکل ٹھیک ہے غافر
30 اور اسی مومن نے کہا میری قوم کے لوگو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم کو بھی دوسری قوموں کی طرح روز بدنہ دیکھنا پڑے غافر
31 اور تمہارا بھی وہی حشر نہ ہوتوجوقوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد دوسری قوموں کا ہوا اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ہے۔ غافر
32 اے قوم ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر چیخ پکارکادن نہ آجائے غافر
33 جس دن کہ تم پیٹھ پھیر کربھاگو گے اس دن تمہیں اللہ سے کوئی بچانے والانہ ہوگا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے پھر کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا غافر
34 بلاشبہ اس سے پہلے یوسف بھی تمہارے پاس واضح دلائل لے کرآئے تھے مگر تم اس کے لائے ہوئے دلائل میں ہمیشہ شک میں پڑے رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہا اب ان کے بعد اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا اسی طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکوک وشبہات میں رہنے والے ہیں غافر
35 جولوگ اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر اس کے کہ انکے پاس کوئی دلیل آئی ہو یہ رویہ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے نزدیک نہایت ہی مبغوض ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور بڑے جابر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے غافر
36 اور فرعون نے کہا، اے ہامان ! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں ان راستوں پر پہنچ سکوں غافر
37 جوراستے آسمانوں تک پہنچانے والے ہیں، پھر موسیٰ کے خدا کی طرف جھانک سکوں، اور واقعہ یہ ہے کہ میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی مزین کردی گئی اور اسے سیدھی راہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی چال ہی تباہ برباد ہونے والی تھی غافر
38 اور اس مرد مومن نے کہا میری اتباع کرو میں تمہیں صحیح راہ بتاتا ہوں غافر
39 میری قوم یہ دنیا کی زندگی محض چند روزہ فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور اصل قرار گاہ تو دارآخرت ہی ہے۔ غافر
40 جوشخص کسی برائی کا مرتکب ہوگا تو اس کواسی برائی کے برابر بدلہ دیا جائے گا اور جونیک عمل کرے گا خواہ مرد ہویاعورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جس میں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا غافر
41 اور میری قوم کے لوگو، آخریہ بات کیا ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو؟ غافر
42 تم مجھے دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراؤں جن کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے اور میں تمہیں اس خدا کی طرف بلاتاہوں جوزبردست اور مغفرت کرنے والا ہے غافر
43 یہ بات یقینی ہے کہ جس کی طرف تم مجھے دعوت دے رہو ہو وہ نہ دنیا میں دعوت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ آخرت میں اور ہم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے اور جو لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں وہی اہل جہنم ہیں غافر
44 سو جو کچھ میں تم سے کہہ رہا ہوں تم لوگ میری اس بات کو یاد کرو گے اور میں اپنا معاملہ خدا کے سپرد کرتا ہوں بلاشبہ اللہ ہی سب بندوں کا نگہبان ہے غافر
45 چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ان لوگوں کی شرارت آمیز چالوں سے بچالیا اور فرعون کے ساتھی بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے غافر
46 یہ لوگ صبح وشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس (دن ارشاد ہوگا) کہ آل فرعون کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو (٨)۔ غافر
47 اس وقت کو یاد کروجب یہ لوگ جہنم میں جھگڑ رہے ہوں گے پھر دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑا بنے والوں سے کہیں گے ہم دنیا میں تمہارے تابع تھے تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو؟ غافر
48 متکبرین جواب دیں گے ہم سب ہی آگ میں پڑے ہیں فی الواقع اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا ہے غافر
49 اور اہل جہنم حفاظت کرنے والے فرشتوں سے کہیں گے تم اپنے رب سے دعا کرو وہ ہمارے عذاب میں کسی دن تو تخیفف کردے غافر
50 وہ فرشتے جواب دیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول معجزات لے کر نہیں آئے تھے ؟ اہل جہنم کہیں گے کیوں نہیں، اس پر فرشتے کہیں گے تو بس تم خود ہی دعا کرو۔۔ اور کافروں کی دعا بے سودہی ہے غافر
51 بے شک ہم اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد دنیا کی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جس دن کہ گواہ کھڑے ہوں گے غافر
52 جس روز کہ ظالموں کو ان کا کوئی عذر بھی فائدہ نہ دے گا اور ان پر لعنت پڑے گی اور ان کے لیے براٹھکانہ ہوگا غافر
53 بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو ہدایت (کتاب) عطا فرمائی اور بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنادیا۔ غافر
54 جواہل عقل کے لیے ہدایت اور موجب نصیحت تھی غافر
55 پس (اے نبی) صبر کیجئے اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اپنی غلطی کے لیے مغفرت طلب کیجئے اور شام اور صبح اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے رہیے غافر
56 بے شک جو لوگ کسی سند اور دلیل کے بغیرجوا کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑ رہے ہیں ان کے دلوں میں تکبر ہی ہے جس تک وہ پہنچنے والے نہیں ہیں سوآپ ان کے شر سے بچنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگتے رہیے بلاشبہ وہی سننے اور دیکھنے والا ہے غافر
57 آسمانوں اور زمین کاپیدا کرنا انسان کے پیدا کرنے سے یقینا بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں غافر
58 اوراندھا اور بینا برابر نہیں ہوتے اور نہ ہی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور بدکار برابر ٹھہریں تم لوگ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو غافر
59 یقینا قیامت آنے والی ہے اس کی آمد میں کسی طرح کا بھی شک نہیں مگر اکثر ایمان نہیں رکھتے غافر
60 اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گابلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے غافر
61 اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکرگزاری سے کام نہیں لیتے۔ غافر
62 یہ ہے اللہ رب تمہارا ہر چیز کا خالق اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کدھر بہکے جارہے ہو؟ غافر
63 اسی طرح وہ سب لوگ بہکائے جاتے رہے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے غافر
64 اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو قرار گاہ اور آسمان کوچھت بنادیا اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں، سوبہترین صورتیں بنائیں اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کارزق دیا اور وہ اللہ تمہارا رب ہے سو اللہ بہت ہی برکتوں والا ہے جوتمام جہانوں کاپروردگار ہے غافر
65 وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے سو تم اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرکے اس کو پکارا کرو سب تعریف اسی کو سزاوار ہے جوتمام جہانوں کاپروردگار ہے غافر
66 آپ کہہ دیجئے مجھے ان کی عبادت سے منع کردیا گیا جن کو تم اللہ کے سواپکارتے ہو جبکہ میرے پاس رب کی جانب سے واضح دلائل پہنچ چکے ہیں اور مجھے حکم دیا گیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار رہوں غافر
67 وہ پروردگار جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے) پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم کو طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکالتا ہے پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے کہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو پھر تم میں سے کوئی ان منزلوں سے پہلے مرجاتا ہے اور (کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے) تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرلے اور تاکہ تم عقل وفکر سے کام لو۔ غافر
68 وہی ہے جو زندگی عطا کرتا ہے اور موت دیتا ہے پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو بس اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہوجاؤ پس وہ ہوجاتا ہے غافر
69 تم نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کیا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں یہ لوگ کہاں سے پھرائے جارہے ہیں (٩)۔ غافر
70 یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کتاب کی اور تمام کتابوں کی تکذیب کی جنہیں ہم نے اپنے رسولوں کو دے کربھیجا تھا سویہ لوگ عنقریب جان لیں گے غافر
71 ) جبکہ ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی غافر
72 ان کو کھینچ کر گرم پانی میں پھر آگ میں جھوک دیا جائے گا غافر
73 ) پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ اب کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا شریک بناتے تھے ؟ غافر
74 وہ جواب دیں گے وہ ہم سے غائب ہوگئے بلکہ درحقیقت اس سے پہلے ہم کسی کو بھی نہیں پوجتے تھے اسی طرح اللہ تمام کافروں کو گمراہ کرتا ہے غافر
75 یہ عذاب اس لیے ہے کہ تم دنیا میں ناحق اترایا کرتے تھے اور تم اسی ناحق پرنازاں تھے غافر
76 اب جاؤ جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اس میں ہمیشہ رہو گے سو وہ بہت بری قرار گاہ ہے تکبر کرنے والوں کی۔ غافر
77 پس اے نبی صبر سے کام لیجئے بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر جس عذاب کے وعدے ہم ان سے کررہے ہیں اس کا کچھ تمہیں دکھادیں یا اس سے قبل ہی آپ کو اس دنیاسے اٹھالیں، بہرحال انہیں ہماری طرف لوٹ کرآنا ہے۔ غافر
78 اور اے پیغمبر آپ سے پہلے ہم نے کتنے ہی پیغمبر مبعوث فرمائے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات آپ کو نہیں سنائے (یعنی قرآن مجید میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا) اور کسی رول کو یہ مقدور نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لے آتا پھر جب وہ وقت آگیا کہ حکم الٰہی صادر ہو تو (خدا کا فیصلہ) حق نافذ ہوگیا اور اس وقت ان لوگوں کے لیے جو برسرباطل تھے تباہی ہوئی ہے (١٠)۔ غافر
79 اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے مویشی جانور پیدا کیے تاکہ ان میں سے بعض پر تم سواری کرو اور کچھ ایسے ہیں جن کا تم گوشت کھاتے ہو غافر
80 تمہارے لیے ان میں اور بھی فائدے ہیں اور تاکہ تم ان پر سوار ہوکرجہاں جانے کا ارادہ ہو وہاں پہنچ سکو اور تم ان چوپایہ جانوروں اور کشتیوں پرسوار کیے جاتے ہو غافر
81 اور اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے آخر تم اللہ کی کون کون سی نشانیوں کا انکار کروگے؟ غافر
82 کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان لوگوں کو ان کا انجام نظر آتا جوان سے پہلے ہوگزرے ہیں وہ لوگ تعداد میں ان سے زیادہ تھے اور زمین میں آثار چھوڑنے کے اعتبار سے بھی ان سے بڑھے ہوئے تھے ان کے کسب وہنر ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔ غافر
83 جب ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے علم پر نازل کیا اور اسی عذاب کے پھیرے میں آگئے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے غافر
84 جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن کو ہم خدا کا شریک ٹھہراتے تھے ان سب کا ہم نے انکار کردیا غافر
85 لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے بعد ان کایہ ایمان کب سودمند ہوسکتا تھا؟ اللہ کا یہی دستور مقررہے جوہمیشہ اس کے بندوں پر چلاآیا ہے اور اس وقت کافر سخت نقصان میں رہ گئے (١١)۔ غافر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے فصلت
1 حم فصلت
2 یہ اس خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جونہایت مہربان اور بے رحم کرنے ولا ہے فصلت
3 یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں عربی زبان میں پڑھی جانے والی (١) ان لوگوں کے لیے جوعلم رکھتے ہیں فصلت
4 بشارت دینے والی ورڈرانے والی پھر بھی ان میں سے اکثر نے روگردانی کی اور وہ سنتے ہی نہیں فصلت
5 اور کہتے ہیں کہ تمہاری دعوت کے لیے نہ توہمارے دلوں میں کوئی جگہ ہے نہ کانوں میں سماعت ہمارے اور تمہارے درمیان مخالفت کی ایک دیوار کھڑی ہوگئی ہے کہ ہم تمہاری بات سننے والے نہیں سوتواپنا کام کیے جاہم اپنا کام کیے جاتے ہیں فصلت
6 اے پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں بھی تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے سو تم سیدھے اسی کی طرف چلو اور اس سے معافی چاہو اور مشرکوں کیے لیے بڑی خرابی ہے فصلت
7 وہ لوگ جوزکوۃ نہیں دیتے اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔ فصلت
8 یقینا جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے اجر ہے جوکبھی منقطع نہیں ہوگا فصلت
9 آپ ان سے کہہ دیجئے کیا تم اس سے منکر ہو جس نے زمین دو دن میں بنائی اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک و ہم پایہ بناتے یہی رب العالمین خدا ہے فصلت
10 اور رکھے اس (زمین) میں بھاری پہاڑ اوپر سے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور زمین پر رہنے والوں کے لیے اس میں سب مانگنے والوں کے ٹھیک انداز سے خوراک کے سامان مہیا کردیے اور یہ سب کا چار دن میں ہوگئے فصلت
11 پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا (٢) اور وہ دھواں ہورہا تھا اسواس سے اور زمین سے کہا وجود میں آجاؤ، خوشی سے یا زبردستی سے تو انہوں نے کہا ہم آگئے فرمانبردار بن کر فصلت
12 تواس نے دو دن میں سات آسمان بنادیے اور ہرآسمان میں اس کے مناسب حال حکم وحی کردیا، اور ہم نے آسمان کودنیا کو چراغوں سے مزین کردیا اور اسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب کچھ ایک زبردست ہر چیز کو خوب جاننے والی ہستی کا مقرر کردہ نظام ہے فصلت
13 اس پر بھی وہ اگر روگردانی اختیار کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم کا اسی طرح کے اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا۔ فصلت
14 جبکہ ان کے پاس پیغمبر ان کے سامنے اور ان کے پیچھے سے آئے اور انہیں سمجھایا کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مگر انہوں نے جواب دیا اگر ہمارے رب کو منظور ہوتا تو فرشتے نازل فرما دیتا لہذا جو چیز دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں فصلت
15 چنانچہ عاد تو زمین میں بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ طاقت ور ؟ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقت ور ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے فصلت
16 آخرکار ہم نے چند منحوس دنوں میں ان پر سخت طوفانی ہوابھیج دی تاکہ انہیں اس دنیا کی زندگی ہی میں ذلت ورسوائی کے عذاب کا مزہ چکھادیں اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ رسواکن ہے اور وہاں ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی (٣)۔ فصلت
17 اور باقی رہی قوم ثمود تو اسے بھی ہم نے راہ حق جتلادی تھی لیکن اس نے ہدایت کی راہ چھوڑ کر اندھے پن کاشیوہ پسند کیا، آخرکار ان کے کرتوتوں کی بدولت ان کو رسوا کن عذاب کے کڑا کے نے آپکڑا فصلت
18 اور جلوگ ایماندار اور پرہیزگار تھے ان کو ہم نے ب چالیا (٤)۔ فصلت
19 اور اس دن کو یاد کرو جس دن کہ اللہ کے دشمنوں کو آگ کی طرف لے جانے کے لیے اکٹھا کیا جائے گا پھر ان اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روکا جائے گا (٥)۔ فصلت
20 یہاں تک کہ جب وہ سب دوزخ کے قریب پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ فصلت
21 وہ لوگ اپنی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف گواہی دی؟ وہ جواب دیں گی جس اللہ نے ہر چیز کو قوت گویائی بخشی ہے اسی نے ہم کو بھی گویا کردیا اور اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور تم اسی کی طرف واپس لائے گئے ہو فصلت
22 تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہیں تھا کہ کبھی تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں تمہارے خلاف گواہی دیں گے بلکہ تم نے یہ گمان کررکھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو خبر بھی نہیں ہے فصلت
23 اور تمہارے اسی گمان نے جو تم نے اپنے رب کے متعلق قائم کررکھا ہے تمہیں تباہ کردیا اسی وجہ سے تم خسارے میں پڑگئے۔ فصلت
24 پھر اگر یہ لوگ صبر کریں تب بھی ان کاٹھکانہ آگ ہے اور اگر معذرت کرنا چاہیں گے تو انہیں معذرت کا موقع نہیں دیا جائے گا فصلت
25 اور ہم نے ان کے ایسے ہمنشین مقرر کردیے ہیں جوانہیں ان کے آگے اور ان کے پیچھے ہر چیز خوشنما کرکے دکھاتے تھے اور آج ان کے حق میں عذاب کا فیصلہ ثابت ہوگیا جیسا کہ ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کے گروہوں کے ھق میں ثابت ہوا تھا کیونکہ وہ سب زیاں کار تھے فصلت
26 اور یہ کافر ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اس قرآن کوسناہی نہ کرو اور جب سنایاجائے تو اس میں شور مچادیاکروامید ہے کہ اس طرح تم غالب آؤ گے (٦)۔ فصلت
27 سوہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور یقینا ہم انکوان بدترین اعمال کا بدلہ دیں گے جو وہ کرتے رہے ہیں فصلت
28 اور اللہ کے دشمنوں کا بدلہ وہ آگ ہے جس میں ان کا دائمی مقام ہے۔ یہ بدلہ ان کو اس بناپر دیا جائے گا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔ فصلت
29 اور کافر کہیں گے اے ہمارے رب ہم کو وہ جن اور انسان دکھادیے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ہم انکوپاؤں تلے روند ڈالیں گے تاکہ وہ خوب ذیل ہوں فصلت
30 جن لوگوں نے اقرار کیا کہ صرف اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے پھر (اپنے کاموں کے اندر اس اعتقاد کا ثبوت دے کر) درجہ استقامت حاصل کرلیاماسوا کی طرف سے ان پر طمانیت وسکینت کے فرشتے نازل ہوں گے اور ان کو مطمئن کردیں گے کہ نہ تو کسی طرح کا خوف اپنے دلوں میں لاؤ اور نہ غمگین ہواورس جنت کی زندگی میں رہو، جس کا تم (ایسے استقامت والے مومنوں) سے وعدہ کیا گیا تھا فصلت
31 دنیا کی زندگی میں بھی ہم تمہارے مددگار ہیں اور آخرت میں بھی۔ جس چیز کو تمہارا جی چاہے تمہارے لیے مہیا ہے اور جو چیز تم اللہ سے مانگو تمہیں مل جائے گی فصلت
32 یہ درجہ تمہیں خدائے غفور ورحیم کی طرف سے مرحمت ہوا ہے۔ فصلت
33 اور اس شخصے بڑھ کر اور کس شخص کی بات ہوسکتی ہے جولگوں کو خدا کے نام کی دعوت دے نیز اعمال صالحہ انجام دے اور اس کا دعوی صرف اتنا ہی ہو کہ میں مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں (٧)۔ فصلت
34 اور دیکھو) نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی (اگر کوئی برائی کرے) تو برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا طریقہ ہو اگر تم نے ایسا کیا تو تم دیکھو گے جس شخص میں تمہاری عداوت تھی یکایک تمہارا دلی دوست ہوگیا فصلت
35 البتہ یہ مقام ایسا ہے جواسی کو مل سکتا ہے جسے (بدسلوکی کی) برداشت ہو اور (نیک وسعادت کا) حصہ وافر ملاہو (٨)۔ فصلت
36 اگر شیطانی وسوسہ آپ کو کسی وقت ابھارے تو آپ اللہ کی پناہ طلب کیا کریں بلاشبہ وہی اللہ سب کچھ سننے والاجاننے والا ہے فصلت
37 رات اور دن اور سوج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا اگر تم فی الواقع اسی کی عبادت کرنے والے ہو فصلت
38 پھراگر یہ لوگ سرتابی کریں تو پروانہ کیجئے جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب وروز اس کی تسبیح کررہے ہیں اور وہ تھکتے ہیں فصلت
39 اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ تم زمین کو دیکھتے ہو کہ وہ دبی پڑی ہوتی ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یکایک وہ تروتازہ ہوجاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے یقینا جس خدا نے اس زمین کو زندہ کیا وہ مردوں کو بھی زند کرنے والا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے فصلت
40 بلاشبہ جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں بھلاجوشخص آگ میں ڈالاجانے والا ہو وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو قیامت کے دن مامون ہوکرحاضر ہوگا تم جو چاہو کیے جاؤ تم جو کچھ کررہے ہو اس سب کو اللہ دیکھ رہا ہے فصلت
41 بے شک یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس جب نصیحت آتئی تو انہوں نے اس کے ماننے سے انکار کردیا حالانکہ وہ بڑی باعزت کتاب ہے فصلت
42 کہ نہ تو اس کے آگے باطل جم سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے اسے جگہ مل سکتی ہے وہ خدائے حکیم ومجید کا اتارا ہوا پھر باطل کا یہاں کیا گزر ہو؟۔ فصلت
43 اے نبی آپ کی شان میں وہی کچھ کہا جارہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں کے حق میں کہا گیا ہے بے شک تیر ارب بڑی مغفرت کرنے والا اور اس کے ساتھ دردناک سزادینے والا بھی ہے فصلت
44 اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کربھیجتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں مفصل کیوں نہیں بیان کی گئی یہ عجیب بات ہے کہ کلام عجمی اور پیغمبر عربی، آپ کہہ دیجئے کہ ایمان والوں کے لیے یہ قرآن ہدایت اور شفا ہے مگر جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے کانوں میں ثقل ہے اور یہ ان کے حق میں تاریکی ہے یہ لوگ ایسے ہیں جن کو کسی دور افتادہ مقام سے پکارا جارہا ہے۔ فصلت
45 اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی پھر اس میں بھی اختلاف پیدا ہوگیا تھا اگر تیرے رب نے پہلے ہی سے ایک بات طے نہ کرلی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ ہوچکا ہوتا اور یہ لوگ بھی اس کی طرف سے ایک ترددانگیز شک میں پڑے ہیں فصلت
46 اور جس نے نیک کام کیا تو اپنے لیے کیا اور جس نے برائی کی تو خود اس کے آگے آئے گی اور ایسانہیں کہ تمہارا پروردگار اپنے بندوں پر ظلم کرنے والاہو فصلت
47 قیامت کا علم تو صرف خدا ہی کی طرف لوٹایاجاسکتا ہے اور کوئی پھل اپنے شگوفوں سے نہیں نکلتے اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچے کو جنم دیتی ہے مگر یہ اس کے علم میں ہوتا ہے اور جس روز وہ ان لوگوں سے پکار کرک ہے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں؟ تو یہ جواب دیں گے کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے۔ فصلت
48 اور جن معبودوں کو اس سے پہلے یہ لوگ پکارا کرتے تھے وہ سب ان سب سے غائب ہوجائیں گے اور وہ لوگ یقین کرلیں گے اب ان کے لیے کہیں بھی جائے فرار نہیں ہے فصلت
49 انسان بھلائی کی دعا سے کبھی تھکتا نہیں اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہو کر آس تور بیٹھتا ہے فصلت
50 مگر جونہی ہم اس کو تکلیف کا وقت گزرجانے کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میں نہیں خیال کرتا کہ قیامت کبھی قائم ہوگی لیکن اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایابھی گیا تومیرے لیے اس کے ہاں بہتری ہے سوہم کفر کرنے والوں کو ضرور بتادیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے رہے ہیں اور ہم انہیں سخت ترین عذاب کا مزہ چکھائیں گے فصلت
51 اور جب انسان کو ہم کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو اعراض کرلیتا ہے اور اکڑ جاتا ہے اور جب کسی مصیبت اور شر میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس وقت اپنی سرکشی کو بھول جاتا ہے اور لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتا ہے فصلت
52 آپ ان سے کہہ دیجئے بھلایہ توبتاؤ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہو پھر تم اس کا انکار کروتواس شخص سے بڑھ کرکون گمراہ ہوگا جومخالفت میں دور تک چلا گیا ہو؟ فصلت
53 ہم اپنی نشانیاں عالم کائنات کے مختلف اطراف وجوانب میں بھی دکھائیں گے اور انسان کے نفس کے اندر بھی یہاں تک کہ ظاہر ہوجائے گایہ دین الٰہی برحق ہے (٩)۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز پر شاہد ہے ؟ فصلت
54 آگاہ رہو یہ لوگ اپنے رب کے روبرحاضر ہونے سے شک وشبہ میں پڑے ہوئے ہیں یادرکھو کہ اس نے ہر چیز کا احاطہ کرکھا ہے فصلت
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الشورى
1 حم الشورى
2 عسق (١)۔ الشورى
3 اسی طرح اللہ زبردست اور کمال حکمت کا مالک آپ پر اور آپ سے پہلے اور رسولوں پر وحی بھیجتا رہا ہے (٢)۔ الشورى
4 جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور ہی سب سے برتر اور عظمت ولاہے الشورى
5 قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کے لیے بخشش طلب کرتے ہیں آگاہ رہو کہ اللہ ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے (٣)۔ الشورى
6 اور جن لوگوں نے اللہ کے سوادوسروں کو کارساز بنارکھا ہے اللہ ان پر نگران ہے اور آپ ان پر مختار کار نہیں ہیں (٤)۔ الشورى
7 اور اسی طرح ہم نے قرآن عربی آپ کی طرف وحی کیا ہے تاکہ آپ بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اس کے گردوپیش کے لوگوں کو خبردار کردیں اور انہیں سب کے جمع ہونے کے دن (قیامت) سے ڈروایں جس کی آمد میں کوئی شک نہیں ہے اس دن ایک فریق جنت میں ہوگا اور دوسرا فریق دوزخ میں (٥)۔ الشورى
8 اور اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کانہ کوئی یار ہوگا اور نہ مددگار۔ الشورى
9 کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو کارساز بنارکھا ہے حالاکہ کارساز تو اللہ ہی ہے اور وہی مردوں خوزندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے الشورى
10 اور جس چیز میں تم اختلاف کرو اس کافریصلہ کرنااللہ کے سپر دہے وہی اللہ میرا رب ہے میں نے اسی پر بھروسہ کررکھا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتاہوں الشورى
11 آسمانوں اور زمین کو بنانے والا، اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس میں سے جوڑے بنادیے (مرد کے لیے عورت، اور عورت کے لیے مرد) اسی طرح چوپایہ جانوروں میں بھی جوڑے پیدا کیے وہ اس طریق سے تمہیں پھیلاتا ہے اور بڑھاتا ہے اس کی مثل کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے الشورى
12 آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے اختیار میں ہیں وہ جس کی چاہتا ہے روزی فراغ کردیتا ہے اور جس کی روزی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے بلاشبہ وہی ہر چیز سے پوری طرح واقف ہے (٦)۔ الشورى
13 تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا ہے جس کے لیے نوح کو وصیت کی گئی تھی اور اے پیغمبر اسلام جس کے لیے ہم نے تم پروحی کی ہے نیز یہ وہی راستہ ہے جس کے لیے ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی وصیت کی تھی کہ دین الٰہی قام کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ یہی بات مشرکوں پر شاق گزرتی ہے جس کیطرف تم ان کو دعت دے رہے ہو اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے چن لیتا ہے اور جورجوع کرتا ہے اس کی اپنی طرف رہنمائی کرتا ہے (٧)۔ الشورى
14 اور لوگوں میں تفرقہ پیدا نہیں کرتا مگر اس کے کہ ان کے پاس علم آچکا تھا اور وہ تفرقہ اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے اور اے نبی اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک وقت معین نہ ہوتا تو ان کے مابین کبھی کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا وہ لوگ جو ان کے بعد کتاب الٰہی کے وارث بنائے گئے وہ اس کتاب کی طرف سے بڑے تردد انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں الشورى
15 اے پیغمبر) تو ان کو دعوت دے اور جوحکم دیا گیا ہے اس پر قائم ہوجا اور ان کی خواہشوں پر نہ چل۔ اور ان کو کہہ دے کہ تمام اتری ہوئی کتابوں پر میرا ایمان ہے اور مجھے حکم ملا ہے کہ عدل کروں وہی اللہ ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے ہمارا عمل ہمارے لیے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جھگڑنے کی کوئی بات نہیں اللہ ہم سب کو ایک جاجمع کردے گا اور سب کواسی کی طرف جانا ہے الشورى
16 جولوگ اللہ کے دین کے معاملہ میں جھگڑا کرتے ہیں اس کے بعد کہ وہ (لوگوں میں) مقبول ہوچکا ہے ان کی کٹ حجتی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر خدا کا غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے الشورى
17 وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب نازل کی اور میزان عدل وانصاف کا حکم) نازل کیا ہے اور تمہیں معلوم کیا معلوم کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آلگی ہو۔ الشورى
18 جولوگ اس کی آمد پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی کرتے ہیں مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کا وقوع برحق ہے یادرکھو جو لوگ قیامت کے وقوع میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں الشورى
19 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ جس کو جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے اور وہ بڑی قوت والا اور بڑے غلبے والا ہے الشورى
20 جوشخص آخرت کی کھیتی کا خوہش مند ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی کو بڑھا دیتے ہیں اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہوہم اسی میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ہے الشورى
21 کیا ان مشرکوں کے کچھ ایسے خود ساختہ شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا کوئی ایساطریقہ مقرر کردیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ؟ (٨) اگر فیصلے کی بات نے شدہ نہ ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا اور بلاشبہ ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ الشورى
22 نافرمانوں کو تم دیکھو گے کہ انہوں نے جیسے جیسے عمل انجام دیے ہیں اس کے وبال سے ڈررہے ہوں گے حالانکہ اس کے نتائج ان کو ضرور بھگتنے ہوں گے اور (البتہ) جو لوگ ایمان لائے اور اعمال حسنہ انجام دیے تو وہ ضرور بہشت کے سبزہ زاروں میں ہوں گے جو کچھ وہ چاہیں گے ان کے پروردگار کی طرف سے ان کو ملے گا یہی بدلہ ہے جونیک کام انجام دینے والوں کے لیے سب سے بڑا فضل الٰہی ہے الشورى
23 یہی وہ نعمت ہے جس کی بشارت اللہ اپنے بندوں کودیتا ہیی جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ پر بجز قرابت کی محبت کے کچھ صلہ نہیں چاہتا لہذا تم اسی کا پاس کرو (٩) اور جو شخص کوئی نیکی کرے گاہم اس کی نیکی اور خوبی بڑھادیں گے بے شک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا، بڑا قدردان ہے الشورى
24 کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اللہ پر جھوٹ باندھ رکھا ہے سواگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہرلگا دے اور اللہ باطل کو مٹاتا ہے اور حق کو اپنے کلمات سے ثابت کردکھاتا ہے بے شک وہ سینوں کی باتوں تک کو جانتا ہے الشورى
25 اور وہی غفورورحیم تو تمہارا کارساز ہے کہ اس کے بندوں نے خواہ کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں خواہ کتنی ہی سخت مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہوں لیکن جب وہ اس کے آگے توبہ کاسرجھکاتے ہیں اور ہر طرف سے کٹ کرصرف اسی کا ہونا چاہتے ہیں توہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے اور وہ ان کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے اور تم لوگ جو کچھ کررہے ہو اسے رتی رتی معلوم ہے۔ الشورى
26 اور جو لوگ اس کے احکام پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ اختیار کیے تو وہ ان پر اپنی رحمت کے دروازہ کھول دیتا ہے ان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی آرزؤں کو پورا کرتا ہے اور اپنے فضل بندہ نواز سے انہیں حق سے بڑھ کربدلہ دیتا ہے اور کافروں کے لیے سخت عذاب ہے الشورى
27 اگر اللہ اپنے سب بندوں کارزق فراخ ردیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگتے لیکن وہ جس قدر چاہتا ہے ایک مناسب انداز سے اتارتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں سے باخبر اور ان پر نگاہ رکھنے والا ہے الشورى
28 اور وہی خدا تو ہے کہ جب وہ خشک موسم میں لوگ بارش کی طرف سے بالکل ناامید اور مایوس ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی رحمت سے بادلوں کو پھیلا دیتا ہے اور مینہ برسنا شروع ہوجاتا ہے وہی کارساز حقیقی سزاوار حمد وتقدیس ہے (١٠)۔ الشورى
29 اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا اور ان دونوں میں جاندار چیزوں کو پھیلادینا ہے اور وہ جب چاہے ان کو جمع کرلینے پر قادر ہے الشورى
30 اور تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے تمہاری اپنی کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے اور بہت سے گناہ وہ ویسے ہی معاف کردیتا ہے۔ الشورى
31 اور تم زمین میں خدا کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور اللہ کے سوانہ کوئی تمہارا کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار الشورى
32 اور اس کی نشانیوں میں چلنے والے جہاز ہیں جو سمندروں میں پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں الشورى
33 اور اگر وہ چاہے تو ہوا کوٹھہرادے اور یہ جہاز سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کھڑے رہ جائیں بلاشبہ اس میں ہر صبر وشکر کرنے والے کے لیے بڑی نشانیاں ہیں الشورى
34 یاسوار ہونے والوں لوگوں کی کرتوتوں کی وجہ سے انہیں ڈبودے اور بہت سے آدمیوں کو معاف کردے الشورى
35 اور ہماری آیتوں میں جھگڑا کرنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کے لیے کوئی جائے فرار نہیں الشورى
36 سوجوکچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سازوسامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والا ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں الشورى
37 جوبڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو (خطاؤں سے) درگزر کرتے ہیں۔ الشورى
38 اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کو حکم دیا کہ مشورہ کرکے تمام امور سرانجام دیں اور جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہی (١١) نیکی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں الشورى
39 خدا کے پاس کی وہ اجرت جو سراسر خیر اور دائمی ہے ان لوگوں کے لیے ہے جو اس سے سرکشی اور بغاوت کاجوان کے ساتھ کی جائے انتقام لیتے ہیں (١٢) الشورى
40 بدی کا بدلہ ویسا ہی بدی ہے البتہ جو معاف کردے اور صلح کرلے تو اس کا اجر خدا پر ہے وہ ظالموں کو پیار نہیں کرتا الشورى
41 اور جو اپنی مظلومی کے بعد ظلم کا انتقام لے تو اس پر کوئی الزام نہیں الشورى
42 الزام توانہی پر ہے جو خود ظلم کرتے ہیں اور زمین پر فساد پھیلاتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے الشورى
43 مگر جوصبر کرے اور دوسروں کی خطا بخش دے توہی بڑی ہی عالی حوصلگی کے کام ہیں الشورى
44 اور جس شخص کو اللہ گمراہ کردے تو اس کے بعد اس شخص کا کوئی چارساز نہیں اور اے نبی آپ دیکھیں گے کہ یہ ظالم جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو کہیں گے کیا یہاں سے واپس ہوجانے کی کوئی صورت ہے؟ الشورى
45 اور آپ دیکھیں گے کہ وہ آگ میں سامنے اس حال میں لائے جائیں گے کہ مارے ذلت کے جھکے ہوئے ہوں گے اور وہ آگ کو نظر بچاکرکن آنکھیوں سے دیکھیں گے اور اہل ایمان کہیں گے کہ اصل زیاں کار وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے اآپ کو اپنے متعلقین کو نقصان میں ڈال دیا آگاہ رہو کہ ظلم کرنے والے دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے الشورى
46 وہاں ان کے کوئی حامی نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کرسکیں اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کے لیے کوئی بچاؤ کی سبیل نہیں ہے الشورى
47 اے غافل لوگو اس فیصلہ کن دن کے آنے سے پہلے اپنے خدا کا کہا مان لوجواس کیطرف سے عمال بد کے نتائج میں آنے والا ہے) اور اس کاٹلنا ممکن نہیں اس دن نہ تمہارے لیے کہیں کوئی پناہ ہوگی اور نہ اپنے اعمال بد سے انکار ہی کرسکو گے الشورى
48 اگر اس طرح سمجھادینے پر بھی یہ لوگ روگردانی کریں تو (اے پیغمبر) ہم نے کچھ تم کو ان پرداروغہ بناکرتوبھیجا نہیں تمہارے لیے تو بس حکم الٰہی کا پہنچادینا ہی ہے (ماننا نہ ماننا سننے والوں کا کام ہے) اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھادیتے ہیں تو وہ اس پر اترا جاتا ہے اور اگر اس کے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو (ناشکری کرنے لگتے ہیں) بے شک انسان ہی بڑاناسپاس ہے الشورى
49 آسمانوں اور زمین کی سلنطت اللہ ہی کے لیے اور وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے الشورى
50 یالڑکے اور لڑکیاں جمع کرکے دے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے بے شک وہ بڑے علم اور بڑی قدرت والا ہے الشورى
51 اور کسی بشر کایہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے الایہ کہ وہ بات وحی کے طور پر یاپردے کے پیچھے سے ہو یا پھر کسی فرشتے کو پیغامبر بناکربھیج دے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہے وحی کردے بے شک وہ برتر اور کمال حکمت کا مالک ہے (١٣)۔ الشورى
52 اور اسی طرح ہم نے اپنے امرسے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے آپ کو یہ خبر نہ تھی کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے مگر ہم نے اس روح (قران) کو ایک ایسی روشنی بنایا ہے جس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں جس کو چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں ( اور اے پیغمبر بلاشبہ تم صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والے ہو الشورى
53 صراط اللہ، یعنی اللہ کی راہ کی طرف وہ اللہ کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے ہاں یاد رکھو (کائنات خلقت) کے تمام کاموں کا مرجع اسی کی ذات ہے۔ الشورى
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الزخرف
1 حم الزخرف
2 اور کتاب روشن کی قسم الزخرف
3 ہم نے اسے اس شکل میں بنایا کہ عربی زبان کا قرآن ہے تاکہ تم سمجھو بوجھو الزخرف
4 اور یقینا یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں بڑی بلند مرتبہ اور پر از حکمت کتاب ہے (١)۔ الزخرف
5 پھر کیا اس وجہ سے ہم اس نصیحت کارخ تم سے پھیر دیں کہ تم حد سے نکل جانے والی قوم ہو الزخرف
6 اور کتنے ہی نبی ہیں جو ہم نے پہلوں (یعنی ابتدائی عہد کی قوموں) میں مبعوث فرمائے الزخرف
7 اور کبھی کوئی نبی ان کے پاس نہیں آیا مگر وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے الزخرف
8 آخرکار ہم نے ان لوگوں کو جوان سے زیادہ زورآور تھے ہلاک کرڈالا اور پچھلے لوگوں کی مثالیں گزرچکی ہیں الزخرف
9 اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ان کواسی زبردست اور کمال علم کے مالک نے پیدا کیا ہے الزخرف
10 جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنادیے تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ سکو (٢)۔ الزخرف
11 اور جس نے آسمان سے ایک خاص اندار کے ساتھ پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو زندہ کیا اسی طرح تم بھی قبروں سے نکالے جاؤ گے۔ الزخرف
12 اور جس نے یہ تمام جوڑیء پیدا کیے اور کشتی اور جانور تمہارے لیے پیدا کیے جن پر تم سوار ہوتے ہو الزخرف
13 تاکہ تم ان کی پیٹھ پر سیدھے سوار ہو، پھر اپنے خدا کے احسان یاد کرو اور کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے مخلوقات کو مسخر کردیا اور ہم اپنی قوت سے انہیں مسخر نہ کرسکے الزخرف
14 اور بے شک ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے الزخرف
15 اللہ تعالیٰ کی (ان قدرتوں اور نعمتوں کے باوجود) ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزء بناڈالا ہے، واقعی انسان کھلانا سپاس ہے (٣)۔ الزخرف
16 کیا خدا نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں تجویز کی ہیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے؟ الزخرف
17 حالانکہ جس چیز کی مثال یہ رحمن کے لیے بیان کرتے ہیں جب اسی کے پیدا ہونے کی خوش خبری ان میں سے کسی کودی جاتی ہے تو اس کا چہرہ کالاپڑ جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہتا ہے الزخرف
18 کیا (اللہ کے حصہ میں وہ اولاد آئی ہے) جوزیور میں نشوونما پاتی ہے اور بحث وجدال میں اپنا مدعاصاف نہیں بیان کرپاتی؟۔ الزخرف
19 اورانہوں نے فرشتوں کو جوخدائے رحمن کے بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا ہے کیا ان کی خلق کے وقت یہ حاضر تھے ؟ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے جواب دہی کی جائے گی الزخرف
20 اور یہ کہتے ہیں کہ اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے ان کو اصل بات کا علم نہیں ہے محض تخمینے لگاتے ہیں الزخرف
21 کیا ہم نے اس سے پہلے ان کو کتاب دی ہے کہ یہ اس سے دلیل پکڑتے ہیں الزخرف
22 نہیں بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقے پر پایا اور ہم انہی کے نشانہائے قدم پر چل رہے ہیں الزخرف
23 اے پیغمبر ! انسان کی قوم وجماعتی گمراہی کا ظہور تمہارے ہی سامنے ایسا نہیں بلکہ اس کا عام اور یکساں حال ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے) تمہیں اپنے سے پہلے کوئی بستی ایسی نظر نہیں آئے گی جس میں اللہ کی طرف سے ڈرانے آئے ہوں اور انہوں نے قوموں کے بڑوں سے یہ جواب نہ پایا ہو کہ ہم نے تو اپنے باپ داداکواسی قومی طریقے پر چلتا پایا اور ہم بھی انہی کے طریقے پر چلیں گے الزخرف
24 اس پر اس پیغمبر نے کہا، کیا تم انہی کے نقش قدم پر چلتے رہو گے خواہ میں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ تمہیں بتاؤں جس پر تم نے اپنے آباء کو پایا ہے؟ انہوں نے کہا بلاشبہ جس دین کی طرف دعوت دینے کے لیے تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر ہیں الزخرف
25 آخرکار ہم نے ان سے انتقام لیا سوآپ دیکھ لیجئے کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہو؟۔ الزخرف
26 اور اس وقت کو یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ اور قوم سے کہا جن (دیوتاؤں) کی پرستش کرتے ہو مجھے انسے کوئی سروکار نہیں الزخرف
27 میرا رشتہ ہے تو اس ذات سے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہنمائی کرے گی الزخرف
28 اور اسی (توحید) کو ابراہیم اپنی اولاد میں ایک باقی رہنے والا کلمہ بنا گیا تاکہ لوگ شرک سے باز رہیں الزخرف
29 بلکہ میں نے ان کو اوران کے آباء کو ہرقسم کے سامان سے بہرہ مند رکھا حتی کہ ان کے پاس حق (قرآن مجید) اور صاف صاف بیان کرنے والا رسول آگیا الزخرف
30 اور جب ان کے پاس یہ حق آیا تو کہنے لگے یہ تو جادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں الزخرف
31 اورانہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ الزخرف
32 کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ہم نے دنیوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی معیشت تقسیم کردی اور ایک کو کئی درجے دوسرے پربلند کیا تاکہ ایک دوسرے کو اپنے کام میں مدد کے لیے لے سکیں اور تیرے رب کی رحمت بہتر ہے سب چیزوں سے جو وہ سمیٹتے ہیں الزخرف
33 اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہوجائیں گے تو سازوسامان دنیا توہمارے یہاں اس درجہ حقیر وذلیل ہے کہ جو منکران حق اور پرستار ان دنیا میں ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے ہیں اور چاندی ہی کی سیڑھیاں ہوتیں جن پر چڑھ کر وہ چھت پر پہنچتے۔ الزخرف
34 اوران کے گھروں کے چاندی ہی کے دروازے ہوتے اور چاندی ہی کے تخت جن پر وہ تکیے لگائے بیٹھتے الزخرف
35 اور یہ تو مثال کے لیے چاندی کی قید لگائی گئی سمجھ لو کہ چاندی نہیں بلکہ یہ سب کچھ خالص سونے ہی کابنادیا ہوتا لیکن پھر بھی یہ سامان اس دنیا کی زندگی کے چند روزہ فائدے کے ہیں اور آخرت کی کامیابی تو اللہ کے پاس صاحبان ارتقا وحق کے لیے ہے الزخرف
36 اور جو خدا کی یاد سے غافل ہوتا ہے ہم اسپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پھر وہی اس کا ساتھی ہوتا ہے الزخرف
37 اور یہ شیاطین ان کو صحیح راہ سے روکتے ہیں اور وہ اپنی جگہ پر سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں الزخرف
38 حتی کہ یہ شخص جب ہمارے پاس آئے گا تو اپنے ساتھی سے کہے گا، کاش، دنیا میں میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب کا سابعد ہوتا کیونکہ تو براساتھی نکلا الزخرف
39 اور جبکہ تم ظالم ٹھہرچکے تو آج اس سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہے کہ تم سب عذاب میں شریک ہو الزخرف
40 کیا آپ بہروں کوسناسکتے ہیں یا اندھوں کو اور جوصریح گمراہی میں مبتلا ہیں راہ راست پر لاسکتے ہیں ؟ الزخرف
41 سواگر ہم آپ کو اس دنیا سے اٹھا بھی لیں تب بھی ہمیں ان کافروں سے ضرور بدلہ لینا ہے الزخرف
42 یا آپ کو آنکھوں سے ان کا وہ انجام دکھلادیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کررکھا ہے، بہرحال ہمیں ان پر پوری قدرت حاصل ہے الزخرف
43 سوآپ اس قرآن پر جو آپ کی طرف وحی کے ذریعہ بھیجا گیا ہے مضبوطی سے قائم رہیے بلاشبہ آپ سیدھی راہ پر ہیں الزخرف
44 اور یہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے بڑے شرف کی چیز ہے اور عنقریب تم سب سے پوچھا جائے گا۔ الزخرف
45 آپ سے پہلے جتنے پیغمبر ہمنے بیجے ہیں ان سب سے پوچھ دیکھو کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوادوسرے معبود بھی مقرر کیے تھے کہ ان کی پرستش کی جائے؟ الزخرف
46 اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں کے ساتھ فرعون اور ان کے درباریوں کے پاس بھیجا اور اس نے جاکر کہا میں رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں الزخرف
47 پھر جب موسیٰ نے ہماری نشانیاں ان کو دکھلائیں تو وہ ہنسی اڑانے لگے الزخرف
48 اور ہم جو بھی نشانی ان کو دکھاتے ہیں وہ پہلی سے بڑھ چڑھ کر ہوتی اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کرلیاتاکہ وہ باز آجائیں۔ الزخرف
49 اور ہر عذآب کے موقع پر وہ کہتے اے جادوگر ! تو اپنے رب کے اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کررکھا ہے ہمارے لیے دعا کرہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے الزخرف
50 مگر جونہی کہ ہم ان سے عذاب دور کرتے ہیں تو وہ عہد شکنی کردیتے ہیں الزخرف
51 القصہ) فرعون نے ایک روز اپنی قوم سے پکار کرکہا میری قوم کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے؟ اور میرے نیچے یہ نہریں جاری ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ الزخرف
52 بلکہ میں اس سے بہتر ہوں جوحقیر ہے اور وہ صاف طور پر کلام بھی نہیں کرسکتا الزخرف
53 کیوں نہ اس کی طرف سونے کے کنگن ڈالے گئے یا اس کے جلو میں فرشتے جمع ہوکرآتے؟ (٤)۔ الزخرف
54 غرض فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے فرعون کی اطاعت کی بلاشبہ وہ نافرمان لوگ تھے۔ الزخرف
55 پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے بدلہ لیا اور ان سب کو غرق کردیا الزخرف
56 اور بعد والوں کے لیے پیش رو اور فسانہ عبرت بنادیا الزخرف
57 اور جونہی کہ ابن مریم کی مثال دی گئی آپ کی قوم کے لوگ اس پر خوشی کے مارے شور مچانے لگے الزخرف
58 اور کہنے لگے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یاوہ؟ وہ مثال محض آپ کے سامنے کج بحثی کی غرض سے لائے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ سخت جھگڑا لو واقع ہوئے ہیں (٥)۔ الزخرف
59 وہ (عیسی بن مریم) محض ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اس کو ایک نمونہ قدرت بنایا تھا الزخرف
60 اگر ہم چاہیں تو تمہارے بدلے فرشتے پیدا کردیں جوزمین میں تمہارے قائم مقام ہوں الزخرف
61 اور بلاشبہ وہ (عیسی) قیامت کی ایک علامت ہے تو تم اس قیامت کے وقوع میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے (٦)۔ الزخرف
62 اور شیطان تم کو سیدھی راہ سے روک نہ دے کیونکہ وہ تمہارا کھلادشمن ہے الزخرف
63 اور جب عیسیٰ کھلی نشانیاں لے کرآئے تو اس نے کہا لوگو میں تمہارے پاس حکمت لے کرآیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے سامنے بعض ان باتوں کی حقیقت واضح کردوں جن میں تم اختلاف کررہے ہو سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ الزخرف
64 بلاشبہ اللہ ہی میرا اور تمہارا سب کاپرودگار ہے بس اسی کی بندگی کرویہی صراط مستقیم ہے الزخرف
65 مگر ان کے بہت سے گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا سو ایسے ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب کے دن کی تباہی ہے الزخرف
66 کیا یہ لوگ اب بس قیامت کے منتظر ہیں کہ ان پر اچانک آپہنچے اور ان کو خبر بھی نہ ہو الزخرف
67 اس دن متقین کے سواتمام جگری دوست آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے الزخرف
68 ( کہا جائے گا (اے میرے بندوں آج تم پر کوئی نہ خوف ہوگا اور نہ تمہیں غم لاحق ہوگا الزخرف
69 (اس روز) ان لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور فرمانبردار ہوہے الزخرف
70 تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہوجاؤ تمہیں خوش رکھا جائے گا الزخرف
71 ان کے روبرو سونے کی رکابیاں اور جام گردش کریں گے اور وہاں ہر چیز موجود ہوگی جس کی دل خواہش کریں اور جسے دیکھ کر آنکھیں لذت اندوز ہوں اور تم اس جنت میں ہمیشہ رہو گے الزخرف
72 اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی وجہ سے وارث ہوئے ہو الزخرف
73 یہاں تمہارے لیے بہ کثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے الزخرف
74 یقینا مجرم عذاب جہنم میں ہمیشہ رہیں گے الزخرف
75 اس عذاب کا ان سے کبھی وقفہ نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوس پڑے رہیں گے الزخرف
76 ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ظلم کرنے والے تھے الزخرف
77 وہ دوزخ کے داروغہ کو پکار کر کہیں گے اے مالک کسی طرح تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کردے (تواچھا ہے) وہ جواب دے گا تم کواسی حال میں رہنا ہے الزخرف
78 بلاشبہ ہم تمہارے پاس دین حق لائے ہیں لیکن تم میں سے اکثر حق سے نفرت رکھتے ہیں۔ الزخرف
79 کیا انہوں نے کسی بات کا فیصلہ کرلیا ہے تو ہم بھی فیصلہ کردیتے ہیں الزخرف
80 یاوہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور سرگوشیاں سنتے نہیں کیوں نہیں (ضرور سنتے ہیں) اور ہمارے فرشتے جوان کے پاس ہیں لکھ رہے ہیں الزخرف
81 اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے اگر بفرض محال خدائے رحمن کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرنے والا ہوتا الزخرف
82 منزہ ہے آسمانوں اور زمین کا رب عرش کا مالک ان باتوں سے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں الزخرف
83 سوآپ ان کوچھوڑیے کہ یہ انہی بے ہودہ خیالات میں منہمک اور کھیل میں لگے رہیں حتی کہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے الزخرف
84 اور وہی ایک ذات ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی لائق پرستش ہے اور وہ بڑی حکمت والا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے الزخرف
85 اور وہ ذات بابرکات ہے جس کی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب پر حکومت ہے اور قیامت کا علم بھی اسی کو ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے الزخرف
86 اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ان کو سفارش کا کوئی اختیار نہ ہوگا بجزاس کے کہ حق بات کی شہادت دیں اور وہ اس کو جانتے بھی ہوں الزخرف
87 اے نبی اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر کہاں سے دھوکادیے جارہے ہیں الزخرف
88 اور قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے الزخرف
89 لہذا آپ ان سے درگزر کیجئے اور کہہ دیجیے کہ سلام ہے عنقریب ہی انہیں انجام معلوم ہوجائے گا۔ الزخرف
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الدخان
1 حم الدخان
2 قسم ہے واضح کتاب کی (١)۔ الدخان
3 کہ ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل کیا ہے بلاشبہ ہم لوگوں کو آگاہ کرنے والے تھے الدخان
4 یہ وہ روایت ہے) جس میں ہر محکم کا کام فیصلہ کیا جاتا ہے الدخان
5 اس حکم کے مطابق جوہماری جناب سے صادر ہوتا ہے بیشک ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے الدخان
6 آپ کے رب کی رحمت ہے بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے الدخان
7 وہ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے مابین ہے سب کا مالک ہے اگر تم واقعی یقین کرنے والے ہو الدخان
8 اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے پہلے آباد واجداد کا بھی الدخان
9 اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں الدخان
10 سواے نبی۔ آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان صریح دھواں لے کرآئے گا (٢)۔ الدخان
11 وہ لوگوں پرچھاجائے گا یہ ایک دردناک سزا ہے الدخان
12 کہیں گے اے ہمارے رب ہم سے یہ دور کردے بلاشبہ ہم ایمان لانے والے ہیں الدخان
13 ان کو کیسے نصیحت ہو سکتی ہے حالانکہ ان کے پاس ایسا رسول آگیا ہے جس کی شان رسالت نمایاں ہے الدخان
14 پھرانہوں نے اس سے روگردانی کی اور کہنے لگے کہ سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے الدخان
15 ہم تھوڑی سی مدت کے لیے اس عذاب کو ہٹالیں گے مگر تم لوگ پھر وہی کروگے جو پہلے کررہے تھے الدخان
16 جس روز ہم بڑی گرفت کرلیں گے تو ہم سب بدلہ لے لیں گے الدخان
17 ہم نے ان سے پہلے فرعون کو قوم کو آزمایا تھا اور ان کے پاس ایک معزز رسول آیا تھا الدخان
18 کہ خدا کے ان بندوں کو میرے حوالے کرو، میں تمہارے پاس ایک امانت دار پیغمبر بن کرآیا ہوں (٣)۔ الدخان
19 اور تم خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار نہ کرو، میں تمہارے سامنے ایک واضح نشانی پیش کرتا ہوں۔ الدخان
20 اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی اس بات سے پناہ لے چکا ہوں کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو الدخان
21 اور اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھسے الگ ہوجاؤ الدخان
22 آخرکار موسیٰ نے اپنے رب کو پکاڑا کہ یہ بڑے مجرم لوگ ہیں الدخان
23 حکم ہوا کہ) میرے بندوں کولے کر راتوں رات نکل جاؤ تمہارا تعاقب کیا جائے گا الدخان
24 اور (ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ) دریا کو ساکن چھوڑ دو ( اور نکل بھاگو۔ فرعون اپنے لشکر سمیت اس میں ڈوب جائے گا الدخان
25 (پھر دیکھو گے وہ کون لوگ تھے؟ ان کی کسی شان وشوکت تھی؟ کیسا جاہ وجلال تھا؟ کیساگھمنڈ اور کیسی شرارتوں سے بھری ہوئی صدائیں تھی؟ لیکن خدا کے عذاب سے بالآخر انہیں کوئی طاقت بچانہ سکی) کس قدر سرسبز باغ، کیسی کیسی نہریں الدخان
26 ، سرسبز وشاداب زراعت گاہیں، عالی شان اور پر تکلف عمارتیں ، الدخان
27 عیش ونشاط کی نعمتیں (غرض وہ سب کچھ دنیوی جاہ وجلال میں سے تھا) جن کے اندر وہ بے فکری کے مزے اڑارہے تھے الدخان
28 اپنے بعد چھوڑ گئے اور ہم نے دوسری قوم کو ان کا وارث بنایا (٤)۔ الدخان
29 پھر (باوجود اس دردناک عذاب کے) نہ تو آسمان ان پر رویا اور نہ زمین ہی نے آنسو بہائے اور نہ انہیں اپنی حالت کی اصلاح کی مہلت دی گئی (کیونکہ مہلت پوری ہوگئی اور آسمان وزمین کا خداوند جب ناراض ہوجائے تو پھر تمام کائنات ہستی میں کون ہے جوان بدبختوں سے راضی ہوسکتا ہے؟) الدخان
30 ) بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت کے عذاب، سے نجات دی الدخان
31 فرعون سے، بے شک وہ حد سے بڑھ جانے والوں میں سے بڑے اونچے درجے کاسرکش تھا الدخان
32 اور بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو ان کی حالت جانتے ہوئے دوسری قوموں پر ترجیح دی الدخان
33 ) اور ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی الدخان
34 یہ لوگ کہتے ہیں الدخان
35 بس ہمیں صرف پہلی مرتبہ ہی مرنا ہے اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے الدخان
36 پھر اگر تم سچے ہوتوہمارے آباواجداد کو زندہ کردکھاؤ الدخان
37 بھلایہ لوگ بہتر ہیں یاتبع کی قوم اور جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا کیونکہ وہ جرائم پیشہ لوگ تھے (٥)۔ الدخان
38 اور ہم نے آسمانون اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ ہے کھیل تماشا کرتے ہوئے نہیں پیدا کیا الدخان
39 اور ہم نے انہیں نہیں پیدا کیا مگر حکمت ومصلحت کے ساتھ، مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت کا علم نہیں رکھتے (٦) الدخان
40 بے شک فیصلے کا دن ان سب کے اٹھائے جانے کے لیے مقررہ وقت ہے الدخان
41 جس دن کہ کوئی عزیز وقریب کسی عزیز وقریب کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ کہیں سے انہیں مددملے گی الدخان
42 مگر ہاں جس پر اللہ تعالیٰ مہربانی فرمائے بے شک وہ بڑا زبردست اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے الدخان
43 بے شک زقوم کا درخت الدخان
44 گناہ گاروں کا کھانا ہوگا الدخان
45 جیسے سیاہ تل چھٹ وہ پیٹوں میں اس طرح جوش مارے گا الدخان
46 جیسے گرم کھولتا ہوا پانی الدخان
47 حکم دیا جائے گا کہ اس کو پکڑؤ اور گھسیٹتے جاؤ عین جہنم میں لے جاؤ الدخان
48 پھر اس کے سرپ سخت کھولتے ہوئے پانی کا عذاب ڈالو۔ الدخان
49 اس کا مزہ چکھ کیونکہ تو بڑا ذی عزت اور ذی مرتبہ تھا الدخان
50 یہی وہ چیز ہے جس میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے۔ الدخان
51 بے شک متقی لوگ پرامن مقام میں ہوں گے الدخان
52 باغوں اور چشموں میں ہوں گے الدخان
53 وہ باریک اور دبیز ریشم کالباس پہنیں گے اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے الدخان
54 ایسے ہی ہوگا اور ہم گوری گوری آہوچشم عورتوں کو ان کاجوڑا بنادیں گے الدخان
55 وہاں وہ اطمینان سے ہرقسم کے میوے طلب کریں گے الدخان
56 وہاں وہ بجز پہلی موت کے ورکسی موت کا مزہ نہ چکھیں گے اور اللہ ان کو عذاب جہنم سے محفوظ رکھے گا الدخان
57 یہ سب کچھ ان کو آپ کے رب کے فضل سے ملے گا یہی بڑی کامیابی ہے الدخان
58 سواے نبی۔ ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں الدخان
59 پس آپ نتیجے کا انتظار کیجئے یہ لوگ بھی انتظار کررہے ہیں۔ الدخان
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الجاثية
1 حاء۔ میم الجاثية
2 یہ اللہ کی طرف سے کتاب (ہدایت) نازل کی جاتی ہے جوعزیز اور حکیم ہے (١) الجاثية
3 بلاشبہ ایمان رکھنے والوں کے لیے آسمانوں اور زمین میں معرفت حق کی بے شمار نشانیاں ہیں الجاثية
4 نیز تمہاری پیدائش میں اور ان چارپایوں میں جنہیں اس نے زمین میں پھیلارکھا ہے اور ارباب یقین کے لیے بڑی نشانیاں ہیں الجاثية
5 اسی طرحر ات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے میں اور اس سرمایہ رزق میں جسے وہ آسمان سے برساتا ہے اور زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور ہواؤں کے ردوبدل میں ارباب دانش کے لیے بڑی نشانیاں ہیں (٢) الجاثية
6 اور اے پیغمبر) یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو فی الحقیقت ہم تمہیں سنا رہے ہیں پھر اللہ کی آیتوں کے بعد کون سی بات رہ گئی ہے جسے سن کر یہ لوگ ایمان لائیں گے الجاثية
7 تباہی ہے ہراس جھوٹے گناہ گار شخص کے لیے الجاثية
8 جواللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جارہی ہیں پھر بھی وہ ازراہ تکبر (کفر پر) اس طرح مصررہتا ہے گویا اس نے ان کوسناہی نہیں۔ سو ایسے شخص کو دردناک عذاب کا خوش خبری دے دیجئے۔ الجاثية
9 جب وہ ہماری آیتوں میں کسی آیت کی خبر پاتا ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے ایسے لوگوں کے لیے رسواکن عذاب ہے الجاثية
10 ان کے آگے جہنم ہے اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اور وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آئے گا اور نہ وہ معبود کام آئیں گے جن کو انہوں نے اللہ کے سوا اپنا کارساز بنارکھا ہے ان کے لیے بڑا عذاب ہے الجاثية
11 یہ قرآن سراسر ہدایت ہے اور جن لوگوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا ان کے لیے بلادردناک عذاب ہے الجاثية
12 وہ اللہ ہی تو ہے جس نے سمندر کو تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اسکا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو الجاثية
13 اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ نے تمہارے لیے مسخر کردیا (ان کی قوتیں اور تاثیریں اس طرح تمہارے تصرف میں دے دی گئیں کہ جس طرح چاہو کام لے سکتے ہو) بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جوغوروفکر کرنے والے ہیں اس بات میں معرفت حق کی بڑی نشانیاں ہیں الجاثية
14 اے نبی۔ آپ ایمان والوں سے فرمادیجئے کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو، ایام اللہ، کی توقع نہیں رکھتے تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے الجاثية
15 جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا تو اس کاوبال اسی پر پڑے گا پھرتم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے الجاثية
16 بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائی اور ان کو عمدہ عمدہ چیزیں عطا کیں اور ہم نے ان کو اقوام عالم پر فضیلت دی تھی الجاثية
17 اور ہم نے انہیں دین کے بارے میں واضح دلائل عطا فرمائے پھر انہوں نے صحیح علم آجانے کے بعد ایک دوسرے پرزیادتی کرنے کے لیے باہم اختلاف کیا، بے شک تیر ارب قیامت کے دن باتوں کا فیصلہ فرمادے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ الجاثية
18 اس کے بعد اے نبی ! ہم نے آپ کو دین کے معاملہ میں ایک شاہراہ پر قائم کردیا ہے سوآپ اسی راستہ پر چلے جائیے اور ان لوگوں کی پیروی نہ کریں جوعلم سے بے بہرہ ہیں۔ الجاثية
19 کیونکہ یہ لوگ خدا کے مقابلے میں آپ کے کچھ کام نہیں آسکیں گے اور بلاشبہ ظالم آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہوا کرتے ہیں اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے الجاثية
20 قرآن مجید لوگوں کے لیے واضح دلیلوں کی روشنی ہے اور ہدایت اور رحمت ہے یقین رکھنے والوں کے لیے الجاثية
21 جولوگ برائیاں کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں؟ دونوں برابر ہوجائیں، زندگی میں بھی اور موت میں بھی؟ (اگر ان لوگوں کے فہم ودانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ؟ الجاثية
22 اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بے کار وعبث نہیں بنایا بلکہ حکمت ومصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلہ پالے اور ایسا نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو۔ الجاثية
23 اے نبی بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا خدا بنارکھا ہے اور اللہ نے اپنے علم کی بناپر اسے گمراہی میں پھینک رکھا ہے اور اس کے کان پر اور اس کے دل پر مہرلگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر اب خدا کے بعد اس گمراہ کردہ راہ کی کون راہنمائی کرسکتا ہے کیا پھر بھی تم لوگ نصیحت نہیں پکڑتے؟ الجاثية
24 اور یہ کہتے ہیں کہ بس اس دنیا کی زندگی کے بعد اور کوئی زندگی نہیں ہے ہم یہیں مرتے اور یہیں جیتے ہیں اور گردش زمانہ کے سوا ایسی کوئی چیز نہیں ہے جوہ میں ہلاک کردے۔ دراصل اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے یہ محض گمان کی بناپرباتیں کررہے ہیں (٣)۔ الجاثية
25 اور جب انہیں ہماری کھلی کھلی آیتیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو ان کے پاس سوائے کٹ حجتی کے کوئی اور دلیل نہیں ہوتی کہ اگر تم سچے ہوتوہمارے باپ دادا کو اٹھالاؤ الجاثية
26 آپ ان سے کہہ دیجئے اللہ ہی تمہیں زندگی دیتا ہے پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس کی آمد میں کوئی شک نہیں ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں الجاثية
27 اور آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کی سلطنت ہے اور جس دن قیامت بپا ہوگی اس دن اہل باطل سخت گھاٹے میں رہیں گے الجاثية
28 اور اے نبی ! آپ ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گرا ہوادیکھیں گے ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا آج تم لوگوں کو ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے تھے۔ الجاثية
29 یہ نامہ اعمال ہماری کتاب ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے جو کچھ بھی تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جارہے تھے الجاثية
30 سوجولوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہیں ان کارب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی صریح کامیابی ہے الجاثية
31 لیکن جن لوگوں نے کفر کیا ان سے کہا جائے گا، کیا میری آیات تمہیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟ پھر تم نے ان سے تکبر کیا اور تم بڑی ہی مجرم قوم تھے الجاثية
32 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے وقوع میں ذرابھی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے ؟ ہم تو صرفایک خیال سارکھتے ہیں اواسی کے ہونے کا یقین نہیں ہے الجاثية
33 اوران کے اعمال کے برے نتائج ان کے سامنے ظاہر ہوجائیں گے اور وہ اس چیز کے گھیراؤ میں آجائیں گے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے الجاثية
34 اور اس وقت ان سب سے کہا جائے گا کہ جس طرح تم نے اس دن کی حکومت الٰہی کو بھلادیا تھا آج ہم تم کو بھی بھلادیں گے تمہارا ٹھکانا آگ کے شعلے ہیں اور کوئی نہیں جو تمہارا مددگار ہو الجاثية
35 یہ اس کی سزا ہے کہ تم نے خدا کی آیتوں کی ہنسی اڑائی اور دنیا کی زندگی اور اس کے کاموں نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا، پس آج نہ تو عذاب سے نکالے جاؤ گے اور نہ تمہیں اس کا موقع ملے گا کہ توبہ واستغفار کرکے خدا کا منالو کیونکہ اس کا وقت تم نے کھودیا الجاثية
36 سو سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اور سب جہان والوں کاپروردگار ہے الجاثية
37 اور آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے بڑائی ہے اور وہی زبردست اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ الجاثية
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الأحقاف
1 حم الأحقاف
2 اس کتاب کا نازل کیا جانا اللہ زبردست بڑی حکمت والے کی طرف سے ہے (١)۔ الأحقاف
3 ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے برحق اور ایک میعاد مقررہ تک کے لیے بنایا ہے مگر جو کافر ہیں ان کو جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے وہ اس سے اعراض ہی کررہے ہیں الأحقاف
4 اے نبی ان سے کہیے بھلا دیکھو توجن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ذرامجھ کو یہ تودکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کیا بنایا ہے یا آسمانوں کے بنانے میں ان کی کوئی شرکت ہے ؟ اگر تم (قبول پیام حق سے) انکار میں سچے ہوتوثبوت میں کوئی کتاب پیش کرو جواب سے پہلے نازل ہوئی ہو (یاکم ازکم) علم وبصیرت کی کوئی پچھلی روایت ہی لا دکھاؤ جو تمہارے پاس موجود ہو۔ الأحقاف
5 آخر اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کوچھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک بھی ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے بالکل بے خبر ہیں الأحقاف
6 جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے الأحقاف
7 اور جب ہماری کھلی کھلی آیتیں انہیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو یہ کافر، حق (یعنی قرآن) کی نسبت جب ان کے سامنے آجاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ تو کھلاجادو ہے۔ الأحقاف
8 کیا یہ یوں کہتے ہیں کہ رسول نے اسے خود گھڑلیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں نے اسے (قرآن مجید کو) خود گھڑ لیا ہے تو تم خدا کی گرفت سے مجھے کچھ بھی نہیں بچاسکو گے، تم قرآن مجید کے بارے میں جو باتیں بنارہے ہو اللہ ان کو خوب جانتا ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو وہی کافی ہے اور وہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ الأحقاف
9 آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں کوئی نیا رسول نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہونا ہے اور تمہارے ساتھ کیا میں تو صرفاس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس بھیج جاتی ہے اور میں تو صرفایک صاف صاف ڈرانے والا ہوں الأحقاف
10 اے نبی، ان سے کہیے، بھلا یہ توبتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی جانب سے آیا ہو اور تم اس کو ماننے سے انکار کرو، حالانکہ اس جیسے کلام (کے منجانب اللہ ہونے) پربنی اسرائیل سے ایک شخص شہادت بھی دے چکا ہے پھر وہ اس پر ایمان لے آیا اور تم تکبر میں پڑے رہے (٢) تو بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا الأحقاف
11 اور کفار اہل ایمان کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اگر یہ بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے آگے نہ نکل جاتے اور جب انہوں نے اس قرآن مجید سے ہدایت نہ پائی تو اب یہی کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے۔ الأحقاف
12 حالانکہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب امام اور رحمت بن کرآچکی ہے اور یہ کتاب عربی زبان میں اس کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ جو ظالم ہیں ان کو متنبہ کرے اور نیکوکارلوگوں کو بشارت دے۔ الأحقاف
13 یقینا جن لوگوں نے اللہ کو اپنا پروردگار سمجھا اور اپنے اندر استقامت پیدا کرلی تو پھر نہ تو ان کے لیے کسی طرح کا خوف ہے اور نہ کسی ناکامی ونامرادی کا غم۔ الأحقاف
14 یہی لوگ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ان اعمال کے بدلے میں جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں (٣)۔ الأحقاف
15 ہم نے انسان کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا اور حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت کم ازکم تیس مہینوں کی ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری توانائی کو پہنچا اور چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا تو کہنے لگا اے میرے رب مجھ توفیق دے کہ میں تیرے ان احسانات کاشکر بجالاؤں جوتونے مجھ پر اور میرے والدین پر کیے اور میں ایسے نیک کام کرتا رہوں جس سے تو راضی ہو، اور میرے لیے اولاد بھی نیک بنادے میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور یقینا میں تابع فرمان بندوں سے ہوں (٤)۔ الأحقاف
16 انہی صفات کے حامل لوگوں سے ہم ان کے اعمال قبول کرتے ہیں اور ان کے گناہوں سے درگزر کرتے ہیں ان لوگوں کا شمار اہل جنت میں ہے، یہ سچا وعدہ ہے جوان سے کیا جاتا رہا ہے الأحقاف
17 اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا، تف ہے تمہارے لیے کیا مجھے خبر دیتے ہو کہ میں مرنے کے بعد دوبارہ قبر سے نکالاجاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گزرچکی ہیں اور والدین اللہ کی دہائی دے کرلڑکے سے کہتے ہیں کہ ارے تیرا برا ہو تو ایمان لے آ، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ یہ محض اگلے لوگوں کی بے سروپا کہانیاں ہیں۔ الأحقاف
18 یہی وہ لوگ ہیں جن کے حق میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے اور جنوں اور انسانوں کی جو امتیں ان سے پہلے گزرچکی ہیں یہ بھی ان میں شامل ہوں گے کیونکہ یہ سب لوگ زیاں کار تھے الأحقاف
19 اور ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہوں گے اور (یہ اس لیے ہوگا) تاکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کے اعمال کاپورا پورا بدلہ دے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا الأحقاف
20 اور جس روز کفار پرآگ حاضر کیے جائیں گے (ان سے کہا جائے گا) تم دنیوی زندگی میں اپنے حصہ کی نعمتیں حاصل کرچکے ہو اور ان سے خوب فائدہ اٹھا چکے، سو آج تم کواسی تکبر کے باعث جو تم ناحق دنیا میں کرتے تھے ذلیل کرنے والے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ الأحقاف
21 اور اے نبی۔ آپ انہیں قوم عاد کے بھائی (ہود) کا قصہ سنائیے (٥) جبکہ انہوں نے احقاف میں اپنی قوم کو ڈرایا اور ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی بہت سے ڈر سنانے والے (پیغمبر) گزرچکے ہیں کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبات نہ کرو میں تم پر ایک بڑے سخت دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں (٦)۔ الأحقاف
22 انہوں نے کہا توہمار پاس اس لیے آیا کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے برگشتہ کردے؟ پھر اگر تو سچا ہے تو جس دن کے عذاب کا ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے ہم پر لے آ۔ الأحقاف
23 ہودنے کہا اس کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے میں تم کو وہ پیغام پہنچارہا ہوں جو مجھ کو دے کربھیجا گیا ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت ونادانی کی باتیں کررہے ہو۔ الأحقاف
24 پھر جب انہوں نے اس عذاب کو ایک بادل کی شکل میں اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جوہ میں سیراب کرے گا، نہیں بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تم جلدی کررہے تھے یہ ایک ہوا کا سخت طوفان ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ الأحقاف
25 یہ آندھی اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کرڈالے گی آخرکار ان کی یہ حالت ہوگئی کہ ان کی سکونتی جگہوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا ہم مجرموں کواسی طرح سزادیا کرتے ہیں۔ الأحقاف
26 ہم نے ان کو ان چیزوں میں قدرت دی تھی جو تم کو نہیں دی ہم نے ان کو کان آنکھیں اور دل دے رکھے تھے مگر نہ تو ان کے کان ان کے کچھ کام آئے اور نہ آنکھیں اور دل ہی، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اس کے پھیر میں آگئے۔ الأحقاف
27 بلاشبہ ہم تمہارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو تباہ وبرباد کرچکے ہیں اور ہم نے طرح طرح سے ان کو سمجھایا تاکہ وہ باز آجائیں۔ الأحقاف
28 پھر کیوں نہ ان ہستیوں نے ان کی مدد کی جن کو اللہ کے سوا انہوں نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھ کرمعبود بنارکھا تھا بلکہ وہ جھوٹے معبود ان سے کھوئے گئے اور یہ غیر اللہ کو معبود بنانا ان کا محض بہتان اور افتراپردازی تھی۔ الأحقاف
29 اور (یہ واقعہ بھی ذکر کیجئے) جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی جانب متوجہ کردیا تاکہ وہ قرآن سنیں، سوجب وہ اس جگہ آپہنچے تو آپس میں کہنے لگے خاموش ہوجاؤ پھر جب قرآن کی تلاوت ہوچکی تو وہ منذر بن کر اپنی قوم کے پاس واپس آگئے الأحقاف
30 انہوں نے (جاکر) کہا اے ہماری قوم کے لوگو۔ ہم ایک ایسی کتاب سن کرآئے ہیں جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے وہ اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور وہ کتاب حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ الأحقاف
31 اے ہماری قوم کے لوگو، تم اللہ کے داعی (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات قبول کرلو اور اس پر ایمان لے آؤ اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے محفوظ رکھے گا الأحقاف
32 اور جو شخص اللہ کے داعی کے بات قبول نہ کرے گا تو وہ زمین پر رہ کر اللہ کو زچ نہیں کرسکتا اور نہ اللہ تعالیٰ کے سواس کا کوئی حمایتی ہوگا یہی وہ لوگ ہیں جو کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں الأحقاف
33 اور کیا ان لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے بناتے ہوئے جونہ تھا، وہی اللہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے کیوں نہیں یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ الأحقاف
34 اور جس روز کہ کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (اوران سے پوچھا جائے گا) کیا یہ دوزخ ایک حقیقت نہیں ہے؟ تو وہ جواب دیں گے کیوں نہیں ہمارے رب کی قسم (یہ واقعی ایک حقیقت ہے) اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب اس کفر کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے عذاب کا مزہ چکھو۔ الأحقاف
35 پس اے نبی جس طرح دوسرے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا آپ بھی صبر کرتے رہیے اور ان کے لیے عذاب کی جلدی نہ کیجئے جس روز یہ لوگ اس چیز (عذاب) کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو یوں خیال کریں گے گویاوہ دن میں سے گھڑی بھررہے ہوں گے یہ قرآن مجید (اتمام حجت کی غرض سے) پہنچادینا ہے پس اب وہی لوگ تباہ کیے جائیں گے جو نافرمان ہیں (٧)۔ الأحقاف
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے محمد
1 جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو ضائع کردیا (١)۔ محمد
2 اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے اور قرآن حکیم پر یقین کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنازل کیا گیا اور جوان کے پروردگار کی طرف سے ان کے لیے پیام حق ہے سو وہ یقین کریں کہ ان کے سارے گناہ جھڑ گئے اور ان کے دل کو سنوار دیا گیا۔ محمد
3 یہ اس لیے کہ جو لوگ کافر ہیں انہوں نے باطل کی پیروی کی اور جو ایماندار ہیں انہوں نے اس حق کی پیروی کی جوان کے رب کی جانب سے پہنچا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے ان کے احوال بیان کرتا ہے (٢)۔ محمد
4 پس جب تمہارا اور کفار کا مقابلہ میدان جنگ میں ہو تو ان کی گردن اڑادویہاں تک کہ جب خون ریزی ہوچکے تو انہیں خوب باندھ لو، اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دو یافدیہ لے کررہا کرو یہاں تک کہ لڑائی موقوف ہوجائے۔ یہ حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا (لیکن اس نے جہاد کا حکم دیا) تاکہ تم کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ محمد
5 اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی کرے گا اور ان کی حالت کو درست کرے دے گا محمد
6 اوران کو جنت میں داخل کرے گاجس کی تعریف ان سے کردی گئی ہے (٣)۔ محمد
7 اے ایمان والو، اگر تم خدا کے کلمہ حق کی مدد کروگے تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے اندر مضبوطی اور ثابت قدمی پیدا کردے گا محمد
8 رہے وہ لوگ جو کافر ہیں تو ان کے لیے تباہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو ضائع کردیا ہے محمد
9 کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (کلام) کو ناپسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو نیست ونابود کردیا محمد
10 کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جوان سے پہلے ہوگزرے ہیں؟ اللہ نے ان پرتباہی واقع کی اور اسی قسم کے حالات ان کافروں کو بھی پیش آنے والے ہیں۔ محمد
11 یہ اس لیے کہ ایمانداروں کا مالک اور کارساز خدا ہے اور جو خدا کی قدرت کے منکر ہیں اور ان کا کوئی بھی مالک وکار ساز نہیں ہے محمد
12 یقینااللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جن لوگوں نے کفر کیا (دنیا میں) عیش کررہے ہیں اور چوپایہ جانوروں کی طرح کھاپی رہے ہیں اور انکا ٹھکانہ آگ ہے محمد
13 کتنی ہی بستیاں (ایسی گزرچکی ہیں) جو آپ کی اس بستی سے، جس نے آپ کو جلاوطن کیا ہے قوت وطاقت میں بڑھی ہوئی تھیں ہم نے انہیں ہلاک کرڈالا پھر کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوا۔ محمد
14 کیا وہ لوگ جو اپنے رب کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر ہیں ان لوگوں کی طرح ہوسکتے ہیں جنہیں اپنے اعمال بد میں خوبی نظرآتی ہے اور وہ ہوائے نفس پر چلتے ہیں۔ محمد
15 پرہیزگاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی جن کا پانی صاف ستھرہواگا اور دودھ کی نہریں ہوں گی جس کے ذائقہ میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہیں آئے گی اور شراب کی نہریں ہوں گی جوپینے والوں کے لیے بہت لذیذ ہوں گی، اور صاف کیے ہوئے شہد کی، اور ان کے لیے اس میں ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بہت بڑی بخشش ہوگی (کیا یہ اہل جنت) ان لوگوں کی طرح ہوسکتے ہیں جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایاجائے گا جوان کی آنتیں تک کاٹ دے گا محمد
16 اوران میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جو اہل علم ہیں (ازراہ تمسخر) پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگادی اور یہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیروبنے ہوئے ہیں۔ محمد
17 اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں ان کا تقوی دیتا ہے محمد
18 پھر کیا یہ لوگ آخری فیصلہ کردینے والی گھڑی کے منکر ہیں کہ اچانک ان پر آنانازل ہو؟ سواگر اسی کا انتظار ہے تو اس کی نشانیاں تو آچکیں (٤) اور جب وہ گھڑی خود آئے گی تو اس وقت ان کے لیے کیا ہوگا۔ محمد
19 سواے نبی۔ آپ یقین رکھیے کہ اللہ کے سوا کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور آپ اپنی خطاؤں کے لیے بخشش طلب کیجئے اور مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے بھی، اور اللہ تعالیٰ تمہارے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے محمد
20 اور جو لوگ ایمان لائے وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی سورۃ کیوں نازل نہیں کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم ہو) لیکن جب ایک محکم سورۃ نازل کی گئی اور اس میں قتال کا ذکر ہوا توجن لوگوں کے دل مرض ضلالت سے بیمار ہورہے ہیں (اعلان حق کے وقت) تم ان کو دیکھو گے کہ تمہاری طرف ایسے خوف زدہ ہوکردیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں (٥)۔ محمد
21 اطاعت کا اقرار اور بھلی بات کہنی چاہیے پھر جب جہاد کا حکم لازم ہوجائے اس وقت اگر یہ لوگ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلے تو یہ ان کے لیے بہت ہی بہتر ہوتا۔ محمد
22 پھر کیا تم چاہتے ہو کہ زمین میں فسادپھیلاؤ، اگر تمہیں اقتدار مل جائے تو خدا کے قائم کیے ہوئے رشتوں کو قطع کردو محمد
23 یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور ان کو اندھا اور بہرابنادیا ہے محمد
24 کیا لوگ اپنے دماغ سے قرآن پر غور نہیں کرتے یاان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں محمد
25 دراصل جو لوگ ہدایت کے ان کے سامنے واضح ہوجانے کے بعد اس سے پھر گئے ان کے لیے شیطان نے یہ بات آراستہ کردکھائی ہے اور جھوٹی امیدوں کاسلسلہ ان کے لیے درواز کررکھا ہے محمد
26 اسی لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کو ناپسند کرنے والوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم بعض باتوں میں تمہاری اطاعت کریں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے رازوں کو خوب جانتا ہے محمد
27 پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب کہ فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے اور ان کی روحیں قبض کریں گے۔ محمد
28 ان سے یہ سلوک اس لیے ہوگا کہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا تھا اور انہوں نے اس کی رضاکوناپسند کیا اس بناپر اللہ تعالیٰ نے ان کے سب اعمال ضائع کردیے محمد
29 جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے کیا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے کینوں کو کبھی ظاہر نہیں کرے گا محمد
30 ہم چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو دکھادیں ھرآپ انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیتے اور اب بھی آپ ان کے اندر گفتگوسے انہیں اچھی طرح پہچان لیں گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے محمد
31 اور ہم تم کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ معلوم کریں کہ کون تم میں مجاہد وصابر ہیں نیز تمہاری اصل حالت کو جانچ لیں محمد
32 بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا اور ہدایت کے خواب واضح ہوجانے کے بعد انہوں نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکھا اور اللہ کے رسول کی مخالفت کی یہ لوگ اللہ کو ذرا سانقصان بھی نہیں پہنچاسکیں گے البتہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کورائیگاں کردے گا محمد
33 اے ایمان والو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی فرمانبرداری بجالاؤ اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو محمد
34 بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکا پھر وہ کفر ہی کی حالت میں فوت ہوگئے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ محمد
35 پس تم کم ہمت نہ ہو اور کفار سے صلح کی درخواست نہ کرو جبکہ تم ہی غالب رہنے والے ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو ہرگز کم نہیں کرے گا (٦)۔ محمد
36 یہ دنیا کی زندگی توایک کھیل تماشا ہے اور اگر تم ایمان لے آئے اور تقوی کی راہ اختیار کرلو تو وہ تمہیں تمہارے اجروثواب عطا فرمائے گا اور تمہارے مال تم سے طلب نہیں کرے گا محمد
37 اگر وہ تم سے مال طلب کرنے لگے اور طلب میں مبالغہ سے کام لے تو تم بخل کرو گے اور تمہارے باطنی کینوں کو ظاہر کردے گا محمد
38 سن رکھو تم وہ لوگ ہو کہ جب تم کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں سے بعض وہ ہیں کہ بخل کرتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی ہی ذات سے بخل کرتا ہے اللہ توغنی ہے اور تم اس کے محتاج ہو اگر تم روگردانی کی راہ اختیار کرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسرے قوم کولے آئے گا پھر وہ تم جیسے (بخیل اور نافرمان) نہ ہوں گے۔ محمد
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الفتح
1 اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو کھلی فتح دی ہے (١)۔ الفتح
2 تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے آپ کی اگلی اور پچھلی تمام خطاؤں کو معاف کردے اور آپ پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور تاکہ آپ کو سیدھی راہ پر چلائے۔ الفتح
3 اور تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبردست نصرت فرمائے۔ الفتح
4 وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے افسردہ دلوں میں اپنی طرف سے قوت اور اطمینان کی روح پیدا کردی تاکہ ان کی ایمانی قوت میں تازگی پیدا ہوجائے۔ زمین کے جان فروشان حق اور آسمان کے ملائکہ نصرت دونوں کی فوجیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں بے شک وہ علیم وحکیم ہے۔ الفتح
5 مومنوں کے دلوں پہ یہ سکینت اس لیے نازل فرمائی) تاکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنت میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کی برائیاں ان سے دور کردے اور یہ (گناہوں کی معافی اور جنت میں داخل ہونا) اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے الفتح
6 اور نیز اسلیے کہ اللہ ان منافق مرد اور منافق عورتوں اور مشرک مرد اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق بدگمانیاں کیا کرتے ہیں ان لوگوں پر بری گردش ہے ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے جہنم تیار کردی ہے جو بہت ہی براٹھکانا ہے۔ الفتح
7 اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ زبردست اور کامل حکمت والا ہے۔ الفتح
8 (اے پیغمبر) بلاشبہ ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، بشارت پہچانے والا اور ضلالت وخباثت سے خوف دلانے والابناکربھیجا ہے الفتح
9 تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو الفتح
10 جولوگ داعی اسلام کے ہاتھ میں اتباع وبیعت کا ہاتھ دیتے ہیں تو ان کے ہاتھ پر اس کا داعی اسلام کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ دراصل خدا کا ہاتھ ہوتا ہے پھر جو عہد شکنی کرے گا تو وہ اپنے ہی برے کو عہد شکنی کرے گا اور جو اس عہد کو پورا کرے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے تو اللہ اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ الفتح
11 اے نبی ! وہ بدوی جو (غزوہ حدیبیہ) میں پیچھے رہ گئے تھے وہ ضرور آکر کہیں گے آپ سے کہ ہمیں ہمارے اموال اور اہل وعیال کی فکر نے مشغول کررکھا ہے سوآپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں، یہ لوگ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جوان کے دلوں میں نہیں ہے اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یاکسی نفع سے بہرمند کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہارے معاملہ میں اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو بلکہ (بات یہ ہے کہ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب سے باخبر ہے۔ الفتح
12 اصل بات یہ نہیں کہ جو تم کہہ رے ہو) بلکہ تم نے یہ سمجھ لیا کہ اب پیغمبر اور مسلمان اپنے اہل وعیال میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ گمان تمہارے دلوں کو بھی بھلالگا اور تم نے طرح طرح کی بدگمانیاں کیں اور تم برباد ہونے والے لوگ ہو (٢)۔ الفتح
13 اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے تو ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کررکھی ہے الفتح
14 تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک اللہ ہی ہے وہ جسے چاہے معاف کردے اور جسے چاہے عذاب کرے اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے الفتح
15 جب تم (خیبر کی) غنیمتیں لینے چلو گے تو یہی لوگ (جوحدیبیہ میں) پیچھے رہ گئے تھے آپ سے آکرضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ جانے دیجئے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں ان سے کہہ دیجئے کہ تم ہرگز نہیں ہمارے ساتھ چل سکتے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اسی طرح فرمادیا ہے اس پر یہ لوگ کہیں گے (نہیں بلکہ) تم ہم سے حسد کررہے ہو (حالانکہ بات یہ نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ اصل بات کو کم ہی سمجھتے ہیں (٣)۔ الفتح
16 ) آپ ان پیچھے رہ جانے والوں بدویوں سے کہہ دیجئے کہ تمہیں ایسے لوگوں سے مقابلہ کی دعوت دی جائے گی جو سخت جنگجو ہوں گے تم ان سے جنگ کرویاوہ خود مطیع ہوجائیں اس وقت اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا اور اگر تم نے روگردانی کی جیسا کہ تم اس سے قبل (حدیبیہ کے موقع پر) روگردانی کرچکے ہوتواللہ تم کو دردناک عذاب کی سزا دے گا (٤)۔ الفتح
17 ہاں اندھے پر کچھ گناہ نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کچھ گناہ ہے اور نہ بیمار پر (اگریہ لوگ جہاد میں شریک نہ ہوں) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جو شخص روگردانی کرے گا تو اللہ اسے دردناک عذاب کی سزا دے گا۔ الفتح
18 بلاشبہ ان مومنوں سے اللہ راضی ہوگیا جو درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ان کے دلوں کا حال معلوم تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور بدلے میں ان کو قریبی فتح عنایت کی (٥)۔ الفتح
19 اور بکثرت مال غنیمت بھی دیا جیسے یہ لوگ حاصل کررہے تھے اور اللہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے الفتح
20 اور اللہ تعالیٰ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرچکا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فی الحال اس نے تم کو یہ (خیبر کی غنیمت) عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دئیے تاکہ یہ واقعہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھی راہ کی طرف تمہیں ہدایت بخشے۔ الفتح
21 علاوہ ازیں) کچھ اور غنیمتوں کا (تم سے وعدہ فرماتا ہے) جن پر سردست تمہیں دسترس حاصل نہیں ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت میں ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے (٦)۔ الفتح
22 اگر یہ کافر لوگ تم سے لڑتے تو ضرور پیٹھ دے کربھاگتے پھر وہ اپنا کوئی حامی اور مددگار نہیں پاتے۔ الفتح
23 یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم اللہ تعالیٰ کی سنت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے الفتح
24 اور وہی تو ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کافروں پرتم کو قابویافتہ کردینے کے باوجود ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے اور جو عمل تم کرتے ہو اللہ انکودیکھ رہا ہے الفتح
25 یہ لوگ وہی توہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا اور ہدی کے جانور جورکے ہوئے تھے ان کو ان کے ٹھکانے پر پہنچنے سے روک دیا اور اگر یہ خطرہ نہ ہوتاکہ تم ان مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو جن کو تم پہچانتے نہ تھے، نادانستگی میں پامال کردوگے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تویہ سب قضیہ طے کردیا جاتا، لیکن ایسا اس لیے کیا گیا) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرے ہاں اگر وہ (مذکور مسلمان) الگ ہوگئے ہوتے تو ہم ان میں سے جو کافر تھے ان کو سخت سزا دیتے۔ الفتح
26 جبکہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلی حمیت بٹھالی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پرسکینت نازل فرمائی اور مومنوں کو تقوی کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اس (کلمہ تقوی) کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ الفتح
27 بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوسچا خواب دکھلایا ہے جوحق کے مطابق ہے انشاء اللہ تم ضرورمسجد حرام میں امن وامان کے ساتھ داخل ہوگے اپنے سرمنڈواتے اور بال ترشواتے رہو گے اور تمہیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس بات سے واقف ہے جسے تم نہیں جانتے اس لیے اس (مسجد حرام میں داخل ہونے) سے پہلے اس نے ایک قریبی فتح (تم کو) عنایت کردی۔ الفتح
28 وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کربھیجا ہے تاکہ اس دین حق کو تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ ہی گواہ ہونے کے لیے کافی ہے۔ الفتح
29 محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ لوگ جوان دشمنان حق کے مقابلے میں نہایت سخت مگر (٧) آپس میں نہایت رحم دل ہیں انہیں تم ہمیشہ اللہ کے آگے عالم رکوع وسجود میں پاؤ گے کہ اللہ کے فضل اور خوشنودی کے طالب ہیں ان کی پیشانیوں پر کثرت سجود کی وجہ سے نشان بن گئے ہیں یہی وہ جماعت ہے جسے تورات وانجیل میں ایک کھیتی سے تمثیل دی ہے کہ اس نے پہلے زمین سے ایک کونپل نکالی پھر اس نے غذائے نباتی کو ہوا اور مٹی سے جذب کرکے اس کونپل کو قوی کیا، پس وہ بتدریج بڑھتی اور موٹی ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ کھیتی اپنی نال پرسیدھی کھڑی ہوگئی اور اپنی سرسبزی اور شادابی سے کسانوں کو خوشی بخشنے لگی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ترقی انہیں اس لیے عطا کی کہ کفار اسے دیکھ کر غصے میں جلیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور اعمال صالحہ اختیار کیے کہ ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ الفتح
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الحجرات
1 اے ایمان والو تم اللہ اور اس کے رسول سے سبقت نہ کیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے (١)۔ الحجرات
2 اے مسلمانوں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور عرض حال کرو تو اپنی آوازوں کو ان کی آواز سے زیادہ بلند کرکے گفتگو نہ کرو اور نہ بہت زور سے بات چیت کرو جیسا کہ آپس میں کرتیہ و، ایسا نہ ہو کہ اس گستاخی کے سبب تمہارے تمام اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو الحجرات
3 جولوگ اللہ کے رسول کے روبرو اپنی آواز پست رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے آزما لیا ہے۔ ان کے لیے بڑی مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ الحجرات
4 اے پیغمبر) جو لوگ تمہیں مکان کے باہر سے نام لے کر پکارتے ہیں ان میں اکثر ایسے ہیں جنہیں مطلق عقل وتمیز نہیں۔ الحجرات
5 بہتر تھا کہ وہ صبر کرتے اور جب تم باہر نکل آتے مل لیتے، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے (٢)۔ الحجرات
6 اے مسلمانو !(٣) اگر تمہارے ایک فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ اس خبر کی بنا پر غلطی سے کسی قوم کو نقصان پہنچا دو اور آخر میں نادم ہوناپڑے الحجرات
7 اور خوب یاد رکھو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری رائے پر عمل کرنیل گے تو تم مشقت میں مبتلا ہوجاؤ مگر اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں خوش نما کردیا اور کفروفسق اور نافرمانی سے تمہیں متنفر کردیا ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ الحجرات
8 یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور اس کے انعام کی وجہ سے ہے اور اللہ بڑا جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔ الحجرات
9 اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آمادہ جنگ ہوں تو ان دونوں میں صلح کرادو، اور اگر ان دو جماعتوں میں سے ایک اپنی سرکشی پر اڑی رہے تو اس سے اس وقت تک جنگ کروجب تک وہ فرمان الٰہی کی طف رجوع نہ کرے جب وہ باغی جماعت فرمان الٰہی کی طرف رجوع کرے تو پھر باہم عدل وانصاف سے صلح کرلو، اللہ صلح کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے الحجرات
10 مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کو قائم رکھو وار اللہ سے ڈرو۔ یہ امید کرتے ہوئے کہ تم پر اللہ کی رحمت ہو (٤)۔ الحجرات
11 مسلمانوں کوئی قوم کسی قوم کو ہنسی نہ اڑائے، شاید وہ اس سے بہتر ہو، اور نہ کوئی عورت کسی عورت کی ہنسی اڑائے شاید وہ عورتیں اس سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے کی تحقیر کی غرض سے اشارہ بازیاں نہ کرو، لوگوں کے نام نہ بگاڑو۔ ایمان لانے کے بعد ایسے کاموں کا ہونا کیسی بری بات ہے اور جو لوگ اس سے رجوع نہیں کرتے یقینا ظالم ہیں الحجرات
12 مسلمانو ! بہت بدگمانیوں کرنے سے اجتناب کیا کرو، دوسروں کے حالات کی جاسوسی نہ کرو، ایک دوسرے کے پیچھے میں بدگوئی نہ کرو کیا تم پسند کرتے ہو، کسی بھائی کی لاش پڑی ہو، تم اس کا گوشت نوچ نوچھ کرکھاؤ؟ کیا تم گھن نہیں آئے گی؟ خوف خدا کرو (٥) خدا توبہ قبول کرنیوالا اور رحمت والا ہے۔ الحجرات
13 اے لوگو ہم نے دنیا میں تمہاری خلقت کا وسیلہ مرد اور عورت کا اتحاد رکھا اور نسلوں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا اس لیے کہ باہم پہچانے جاؤ ورنہ دراصل یہ تفریق وانشعاب کوئی ذریعہ امتیاز نہیں اور امتیاز وشرف اسی کے لیے ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے (٦)۔ الحجرات
14 یہ جو عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو ان سے کہہ دو کہ تم ابھی تک ایمان نہیں لائے (کیونکہ وہ دل کے اعتقاد کامل کا نام ہے جو تمہیں نصیب نہیں) ہاں البتہ یوں کہو کہ ہم نے اس دین کو مان لیا۔ اور اگر تم الہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کرو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا بیشک اللہ بڑا بخشنے والا بہت مہربان ہے۔ الحجرات
15 درحقیقت مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کبھی شک نہیں کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ ہیں جو سچے (مومن) ہیں۔ الحجرات
16 ان سے کہہ دیجئے کیا تم اللہ کو اپنے دین کی خبر دیتے ہو؟ حالانکہ اللہ تو آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کو جانتا ہے اور اللہ کوہر چیز کا خوب علم ہے۔ الحجرات
17 یہ لوگ تم پر احسان جتلاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا، ان سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی، بشرطیکہ تم ایمان کے دعوی میں سچے ہو۔ الحجرات
18 یقینا اللہ تعالی، زمین اور آسمانوں کی ہر مخفی چیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم کررہے ہو وہ سب اس کی نگاہ میں ہے۔ الحجرات
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے ق
1 قسم ہے قرآن مجید کی (کہ آپ ہمارے رسول ہیں) (١۔ ٢) ق
2 بلکہ ان کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والاآیا، اس پر کافر کہنے لگے یہ ایک عجیب سی بات ہے۔ ق
3 کیا جب ہم مرگئے اور خاک ہوگئے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟) یہ دوبارہ زندگی تو بہت ہی بعید از عقل ہے۔ ق
4 فیصل ق
5 بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسی وقت اسے جھٹلادیا (٣) غرض یہ لوگ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ ق
6 کیا ان لوگوں نے کبھی آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم نے اسے بنایا ہے اور کس طرح اس کے منظر میں خوشنمائی پیدا کردی ہے؟ پھر یہ کہ کہیں بھی اس میں شگاف نہیں، ق
7 اور اسی طرح زمین کو دیکھو، کس طرح ہم نے اسے فرش کی طرح پھیلا دیا اور پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے؟ پھر کس طرح قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگائیں؟ ق
8 ہر اس بندے کے لیے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہے، اس میں غور کرنے کی بات اور نصیحت کی روشنی ہے۔ ق
9 اور آسمان سے ہم نے بابرکت پانی نازل کیا، پھر اس سے بہت سے باغ اور اناج پیدا کیے جس کا کھیت کاٹا جاتا ہے۔ ق
10 اور بلند وبالا کجھور کے درخت پیدا کیے جن پر خوشے گتھے ہوئے ہیں۔ ق
11 یہ سب کچھ بندوں کو رزق دینے کے لیے ہے، اور اسی پانی سے ہم نے مردہ زمین کو زندگی بخش دی، اسی طرح (مردوں کا زندہ ہو کرقبروں سے) نکلنا ہوگا۔ ق
12 جھٹلایا ان سے پہلے قوم نوح اور اصحاب رس اور ثمود ق
13 اور عاد اور فرعون اور لوط کے بھائی ق
14 اور ایکہ والے اور تبع کی قوم کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں،(٤) ان سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا، آخر کار میری وعید ان پر ثابت ہوگئی۔ ق
15 کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں (٥)۔ ق
16 اور یقینا انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں پیدا ہونے والے وساوس تک کو ہم جانتے ہیں اور ہم اس کی گردن رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ ق
17 جب دائیں اور بائیں بیٹھے دو فرشتے لیتے رہتے ہیں۔ ق
18 کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان تیار رہتا ہے۔ ق
19 اور واقعی موت کی سختی آپہنچی، یہی وہ چیز ہے جس سے تو بچتا پھرتا تھا۔ ق
20 اور صور پھونکا جائے گا، یہی دن عذاب کے وعدے کا ہے۔ ق
21 اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ (میدان حشر کی طرف) ہنکانے والا ہوگا اور ایک گواہ ہوگا (اور کہا جائے گا) ق
22 تواس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا، اب ہم نے تجھ پر تیرا پردہ ہٹا دیا ہے سوآج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔ ق
23 اور اس کا ساتھی کہے گا کہ جو میری سپردگی میں تھا، حاضر ہے۔ ق
24 (فرشتوں کو حکم ہوگا) تم دونوں ہر اس شخص کو جہنم میں ڈال دو جو ناسپاس اور حق سے عناد رکھتا تھا۔ ق
25 خیر سے روکنے والا، حد سے تجاوز کرنے والا اور شک میں پڑا ہوا تھا۔ ق
26 جواللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا بنائے بیٹھا ہوا تھا، سو ایسے شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو۔ ق
27 اس کا ساتھی کہے گا، اے میرے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا لیکن یہ خود ہی پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔ ق
28 ارشاد ہوگا، میرے حضور جھگڑا نہ کرو، میں تم کو پہلے ہی انجام بد سے آگاہ کرچکا تھا۔ ق
29 ہمارے ہیں جو بات ایک مرتبہ ٹھہرا دی گئی ہے اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوئی، اور یہ بھی نہیں کہ ہم بندوں کے لیے زیادتی کرنے والے ہوں۔ ق
30 جس روز ہم جہنم سے پوچھیں گے، کیا تو بھر چکی ؟ اور وہ جواب دے گی، کیا کچھ اور بھی ہے؟۔ ق
31 اور جنت پرہیزگاروں کے اس قدر قریب کردی جائے گی کہ کچھ بھی دور نہ رہے گی۔ ق
32 کہاجائے گا یہی وہ جنت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا کہ یہ ہراس شخص کے لیے ہوگی جو رجوع کرنے والا اور حقوق الٰہی کی حفاظت کرنے والا تھا۔ ق
33 جو بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرتا تھا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والادل لے کرآیا ہے۔ ق
34 داخل ہوجاؤجنت میں سلامتی کے ساتھ یہ دن ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ ق
35 وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیدہ بہت کچھ ہوگا۔ ق
36 اور ہم ان (کفار مکہ) سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو گرفت میں ان سے بھی زیادہ طاقتور تھیں چنانچہ انہوں نے دنیا کے ملکوں کو چھان مارا، کیا کہی کوئی جائے پناہ پاسکے؟۔ ق
37 بلاشبہ اس میں بہت بڑی بصیرت ہے جو اپنے پہلو میں سوچنے والا دل رکھتا ہو، جس کے سر میں (توجہ سے) سننے والا کان ہو۔ ق
38 بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور ہمیں کچھ بھی تکان لاحق نہ ہوئی۔ ق
39 پس اے نبی جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجئے اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہیے ق
40 اور کچھ رات کے وقت اس کی تسبیح کیا کیجئے اور نمازوں کے بعدبھی۔ ق
41 اور پوری توجہ سے سنو، جس دن منادی کرنے والا قریبی مقام سے پکارے گا۔ ق
42 جس دن یقین طور پر سب لوگ اس چیخ کو سن لیں گے وہ قبروں سے نکلنے کا دن ہوگا۔ ق
43 بے شک ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہماری طرف ہی سب کو لوٹ کرآنا ہے۔ ق
44 جس دن لوگوں پر زمین کھل جائے گی اور وہ اس سے نکل کر تیزی سے بھاگے جارہے ہوں گے یہ حشر ہم پر نہایت ہی آسان ہے۔ ق
45 اے نبی جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں ہم اس کو خوب جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں پس تم اس قرآن کے ذریعے سے ہراس شخص کو نصیحت کرتے رہو جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔ ق
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الذاريات
1 قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کواڑائے لیے پھرتی ہیں۔ الذاريات
2 پھر مینہ کابوجھ اٹھاتی۔ الذاريات
3 اور جزائے اعمال ضرور ملنے والی الذاريات
4 رحمت زمین پر تقسیم کرتی ہیں الذاريات
5 یقینا جس چیز سے تمہیں ڈرایا جارہا ہے وہ سچی ہے (١۔ ٢)۔ الذاريات
6 اور جزائے اعمال ضرور ملنے والی ہے الذاريات
7 قسم ہے آسمان مختلف راستوں والے کی (٣)۔ الذاريات
8 کہ تم لوگ (قرآن یا آخرت کے بارے میں) مختلف باتیں کررہے ہو الذاريات
9 اس کے ماننے سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جوحق سے پھرا ہوا ہے۔ الذاريات
10 ہلاک ہوجائیں قیاس وگمان کرنے والے۔ الذاريات
11 جوغفلت وجہالت میں بھولے ہوے ہیں الذاريات
12 پوچھتے ہیں کہ روز جزا کب ہوگا؟ الذاريات
13 جس روز یہ آگ پر تپائے جائیں گے الذاريات
14 (ان سے کہا جائے گا) اپنی تکذیب کی جزا کا مزہ چکھو، یہی وہ عذاب ہے جس کے طلب کرنے میں تم جلدی کررہے تھے۔ الذاريات
15 البتہ متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ الذاريات
16 جوکچھ ان کے رب نے دیا ہوگا وہ اسے لے رہے ہوں گے کیونکہ وہ اس سے قبل نیکوکار تھے۔ الذاريات
17 وہ لوگ رات کو بہت کم ہی سویا کرتے تھے الذاريات
18 اورب وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔ الذاريات
19 اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا حق تھا۔ الذاريات
20 اور ان لوگوں کے لیے جو سچائی پریقین رکھتے ہیں ہیں (خدا کی کارفرمائی کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں الذاريات
21 اور خود تمہارے وجود میں بھی، پھر کیا تم نہیں دیکھتے۔ الذاريات
22 اور تمہارا رزق اور جو کچھ تم سے عدہ کیا جاتا ہے وہ سب آسمان میں ہے۔ الذاريات
23 آسمان اور زمین کے رب کی قسم (یونی ان کے پروردگار کی پروردگاری شہادت دے رہی ہے) بلاشبہ وہ معاملہ (جزاوسزا کا معاملہ) حق ہے ٹھیک اسی طرح جیسے یہ بات کہ تم گویائی رکھتے ہو۔ الذاريات
24 اے نبی کیا ابراہم کے معزز مہمانوں کا قصہ بھی آپ تک پہنچا ہے؟۔ الذاريات
25 جب وہ مہمان ابراہیم کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کہا، ابراہیم نے بھی کہا، سلام ہے کچھ ناآشنا سے لوگ ہیں۔ الذاريات
26 پھر چپکے سے اپنے گھروالوں کے پاس گیا اور موٹا بچھڑا (کباب کرکے) لے آیا۔ الذاريات
27 اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا اور کہا، آپ حضرات کھاتے کیوں نہیں؟ الذاريات
28 پھراپنے دل میں انسے خوف محسوس کیا انہوں نے کہا ڈریے نہیں، اور (ساتھی ہی) ابراہیم کایک ذی علم لڑکے کی بشارت دی (٤)۔ الذاريات
29 یہ سن کر انکی بیوی سامنے آئی اور اس نے اپنے چہرہ پر تعجب سے ہاتھ مارا کہنے لگی میں بڑھیا بانجھ۔ الذاريات
30 انہوں نے کہا تیرے رب نے اسی طرح فرمایا ہے بے شک وہ حکیم وعلیم ہے۔ الذاريات
31 ابراہیم نے کہا اے اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں اب تمہیں کیا مہم درپیش ہے؟۔ الذاريات
32 انہوں نے جواب دیا ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ الذاريات
33 تاکہ ان پر پتھر برسائے جائیں، کھنگر کے۔ الذاريات
34 جوآپ کے رب کی جانب سے حد سے گزر جانے والی قوم کے نشان زدہ ہیں الذاريات
35 اور آخر کار ہم نے اس بستی میں جتنے ایمان دار تھے ان کو نکال لیا۔ الذاريات
36 اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا اور کوئی مسلم گھر پایا ہی نہیں۔ الذاريات
37 ہم نے ان تباہ شدہ بستیوں میں ایسے لوگوں کے لیے ایک نشانی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں (٥)۔ الذاريات
38 اور موسیٰ کے واقعہ میں بھی (عبرت آموز نشانی ہے) جب ہم نے اسے کھلی نشانی دے کر فرعون کی طرف بھیجا۔ الذاريات
39 لیکن اس نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر روگردانی کی اور کہنے لگا جادوگر ہے یادیوانہ۔ الذاريات
40 آخرکار ہم نے اسے اس کے لشکروں سمیت پکڑا اور ان سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہو کر رہ گیا۔ الذاريات
41 اور عاد کے قصہ میں بھی (عبرت کی نشانی ہے) جب ہم نے ان پر نامبارک آندھی بھیجی۔ الذاريات
42 وہ جس چیز پر بھی گزرتی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیتی۔ الذاريات
43 اور ثمود کے قصہ میں بھی (نشان عبرت ہے) جب ان سے کہا گیا کہ ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھا لو۔ الذاريات
44 سو ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی، پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کو ایک ہولناک کڑک نے آپکڑا۔ الذاريات
45 پھر نہ تو وہ کھڑے ہوسکے اور نہ ہم سے بدلہ ہی لے سکے۔ الذاريات
46 اور ان (مذکورہ قوموں) سے پہلے ہم قوم نوح کو ہلاک کرچکے ہیں کیونکہ وہ بڑے ہی نافرمان لوگ تھے (٦)۔ الذاريات
47 اور ہم نے آسمان کو اپنی طاقت سے بنایا اور ہم بڑی قدر رکھتے والے ہیں۔ الذاريات
48 اور ہم نے زمین کو بچھایا، سو ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں۔ الذاريات
49 اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے پیدا کردیے (یعنی دو دو اور متقابل اشیاپیدا کیں) شاید تم غوروفکر کرو۔ الذاريات
50 سو تم اللہ ہی کی طرف دوڑو میں تم سب کے لیے اس کی طرف سے صاف طور پر ڈرانے والا ہوں۔ الذاريات
51 اور نہ تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک مت کرو تم سب کے لیے اس کی طرف سے صاف طور پر ڈرانے والا ہوں۔ الذاريات
52 اسی طرح ان سے پہلے جو لوگ گزرچکے ہیں ان کے پاس کوئی ایسا رسول نہیں آیاجس کو انہوں نے جادوگر یادیوانہ نہ کہا کرو۔ الذاريات
53 کیا یہ ایک دوسرے کواسی بات کی وصیت کرتے چلے آئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ الذاريات
54 ۔ سوآپ ان سے بے رخی کابرتاؤ کیجئے کیونکہ اب آپ پر کچھ ملاملت نہیں ہے۔ الذاريات
55 اور ذکر کرو کہ ذکر صاحبان حق کے لیے ضروری نفع بخش ہے۔ الذاريات
56 اور ہم نے جنوں اور انسانوں کواسی واسطے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ الذاريات
57 میں ان سے رزق کی خواہش نہیں کرتا اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلایا کریں۔ الذاريات
58 بے شک اللہ تعالیٰ ہی خود ہی رازق، صاحب قوت اور زبردست ہے۔ الذاريات
59 ان ظالموں کے لیے بھی عذاب کا ایک حصہ مقرر ہے جیسا کہ ان کے ہم مشربوں کو حصہ مل چکا ہے، لہذایہ عذاب مانگنے میں جلدی نہ کریں۔ الذاريات
60 غرض ان کافروں کے لیے اس دن بڑی خرابی ہوگی جس کا انہیں خوف دلایا جارہا ہے۔ الذاريات
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الطور
1 قسم ہے طور کی (١) الطور
2 اور کتاب کی جو کھلی الطور
3 رقیق جلد میں (رح) لکھی ہوئی ہے۔ الطور
4 اور آباد گھر کی الطور
5 اور اونچی چھت کی۔ الطور
6 اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی الطور
7 بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا (٢) الطور
8 جسے کوئی دفاع کرنے والا نہیں ہے الطور
9 جس دن آسمان زور سے لرزائے گا الطور
10 اور پہاڑ نہایت تیزی سے چلیں گے الطور
11 سوتباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لیے الطور
12 جو بے ہودہ نکتہ چینیوں میں کھیل رہے ہیں الطور
13 جس دن یہ لوگ دھکے مار مار کردوزخ کی طرف دھکیلے جائیں گے الطور
14 اور ان سے کہا جائے گا) یہ وہی آگ ہے جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے الطور
15 کیا یہ کوئی جادو ہے یا تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا؟ الطور
16 جاؤ اس دوزخ میں داخل ہوجاؤ، پھر تم صبر کرو یانہ کرو، تمہارے لیے دونوں یکساں ہیں، بس تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جارہا ہے جیسے تم عمل کیا کرتے تھے الطور
17 متقی لوگ بلاشبہ باغوں اور مختلف قسم کی نعمتوں میں ہوں گے الطور
18 جوکچھ انہیں ان کے رب نے دیا ہوگا وہ اس پر شادماں ہوں گے اور ان کارب انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے گا الطور
19 ان سے کہا جائے گا) تم ان اعمال کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے، مزے سے کھاؤ اور پیو۔ الطور
20 وہ برابر بچھے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کو ان کاجوڑا بنادیں گے الطور
21 اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد ایمان لاکر ان کے نقش قدم پر چلی تو ہم ان کی اولاد کو بھی (جنت میں) ان کے ساتھ رکھیں گے اور ان کے عمل میں کسی قسم کی کمی نہیں کریں گے (٣)۔ ہر آدمی اپنی کمائی کے نتیجے کے ساتھ بندھا ہوا ہے الطور
22 اور جس قسم کے پھل اور گوشت وہ (اہل جنت) چاہیں گے ہم انہیں پے درپے دیتے چلے جائیں گے الطور
23 وہ جنت میں شراب کے جام لپک لپک کرلے رہے ہوں گے جس میں نہ کوئی یا وہ گوئی ہوگی اور نہ کوئی گناہ کی بات۔ الطور
24 اور ان کی خدمت میں جو غلمان دوڑے پھر رہے ہوں گے (ایسے خوبصورت معلوم ہوں گے) جیسے چھپاکررکھے ہوئے موتی الطور
25 اور وہ اہل جنت باہم متوجہ ہو کر سوال کریں گے الطور
26 کہیں گے ہم اس سے پہلے اپنے گھروالوں میں بہت ڈرا کرتے تھے الطور
27 سواللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والے عزاب سے بچا لیا الطور
28 ہم اس عالم سے پہلے (دنیا میں) اسی کو پکارا کرتے تھے واقعی وہ بڑا محسن اور نہایت مہربان ہے الطور
29 پس اے نبی، آپ نصیحت کیے جائیں آپ کے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون الطور
30 ہان تو کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں ہم اس کے لیے گردش ایام کا انتظار کررہے ہیں؟ الطور
31 ان سے کہہ دیجئے اچھا تم انتظار کیے جاؤ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں الطور
32 کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی باتیں کرنیکے لیے کہتی ہیں یا یہ لوگ سرکش واقع ہوئے ہیں؟ الطور
33 کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے بلکہ دراصل یہ ایمان نہیں لانا چاہتے الطور
34 اگر یہ اپنے اس دعوی میں سچے ہیں تو اس قرآن کی مثل کوئی کلام لے آئیں۔ الطور
35 کیا یہ کسی پیدا کرنے والے کے بغیر خود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟ الطور
36 یاانہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا ک یا ہے ؟ اصل میں یہ لوگ یقین نہیں رکھتے الطور
37 کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا یہ حکمران ہیں؟ الطور
38 کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر یہ چڑھ کر (آسمان کی باتیں) سن آیا کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان میں سے جو سن کر آنے والا ہے کوئی واضح دلیل پیش کرے الطور
39 کیا اللہ کے لیے بیٹیاں ہوں اور تمہارے لیے بیٹے ہوں؟ الطور
40 کیا آپ ان سے (تبلیغ پر) کوئی اجر طلب کرتے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں؟ الطور
41 کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں الطور
42 یاان کا ارادہ مکروفریب پھیلانے کا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یادرکھیں کہ یہ منکر خود ہی (شیطان کے) فریب میں پڑے ہیں۔ الطور
43 یا پھر خدا کے سوا ان کا کوئی اور معبود ہے اگر یہی بات ہے تو یقین کرو کہ الہ تعالیٰ کی ذات ان کے شرک سے پاک ہے۔ الطور
44 اگر یہ لوگ آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھ لیں تو کہیں گے یہ تو تہ بہ تہ جماہوا بادل ہے الطور
45 سوائے پیغمبر آپ ان کو ان کے حال پرچھوڑ دیجئے حتی کہ اپنے اس دن کا مشاہدہ کرلیں جس میں ان کے ہوش گم کردیے جائیں گے الطور
46 اس دن ان کا مکروفریب ان کے کچھ کام بھی نہیں آئے گا اور نہ کہیں سے ان کو مدد پہنچے گی الطور
47 اور بلاشبہ ظالموں پر اس سے پہلے بھی ایک عذاب آنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں الطور
48 اے نبی) آپ اپنے رب کے فیصلہ آنے تک صبر سے کام لیجئے آپ ہماری نگاہ میں ہیں اور جس وقت آپ اٹھا کریں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کیا کریں۔ الطور
49 اور رات کو بھی اس کی تسبیح کیا کریں اور ستاروں کے غائب ہوئے پیچھے بھی۔ الطور
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النجم
1 قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب ہونے لگے (١) النجم
2 کہ تمہارے رفیق نہ گمراہ ہوئے ہیں اور نہ غلط راہ پر چلے ہیں النجم
3 اور وہ اپنی خودی اور ارادے سے کچھ نہیں کہتا النجم
4 اس کے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے وہی ہے جو اس پر وحی ہوتا ہے۔ النجم
5 اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے النجم
6 جو خوش منظر (تندرست وتوانا) ہے۔ وہ سامنے آکر کھڑا ہوا النجم
7 جب کہ وہ (آسمان کے) بالائی افق پر تھا النجم
8 پھر وہ نزدیک ہوا اور اتر آیا النجم
9 یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا النجم
10 پھر اس نے وحی کی اپنے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی النجم
11 جو کچھ بھی پیغمبر کی آنکھوں نے دیکھا، دل نے اس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کی النجم
12 پھر کیا تم پیغمبر سے اس چیز پر جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے النجم
13 بلاشبہ اس نے ایک مرتبہ پھر اس کو النجم
14 سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا النجم
15 جہاں پاس ہی جنت الماوی ہے النجم
16 جب کہ اس سدرہ پر چھارہا تھا جو کچھ کہ چھارہا تھا۔ النجم
17 نہ نگاہ نے کج رہی کی اور نہ حد سے تجاوز کیا النجم
18 فی الواقع اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں النجم
19 اب بتاؤ کہ کیا تم نے لات اور عزی نامی بتوں کو نہیں دیکھا ہے؟ النجم
20 اور وہ جو ایک سب سے بڑا تیسرا بت ہے جس کا نام منات ہے؟ النجم
21 کیا بیٹے تمہارے لیے ہیں اور خدا کے لیے بیٹیاں ؟ النجم
22 یہ تو بہت ہی غیرمنصفانہ تقسیم ہے النجم
23 دراصل یہ کچھ نہیں مگر چندنام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے ثبوت میں کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی یہ لوگ محض وہم گمان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں، حالانکہ ان کے رب کی جانب سے ان کے پاس صحیح ہدایت آچکی ہے (٢)۔ النجم
24 کیا انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے تمنا کی ؟ النجم
25 نہیں یہ بات نہیں ہے) کیونکہ دنیا اور آخرت اللہ ہی کے اختیار میں ہے النجم
26 آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، جن کی شفاعت ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی، مگر ہاں اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہے، شفاعت کی اجازت دے، اور اس کے لیے شفاعت کو پسند بھی کرے النجم
27 جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو زن کے نام سے موسوم کرتے ہیں النجم
28 اور اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی اور ذریعہ تحقیق وعلم نہیں، محض اپنے گمان پر چل رہے ہیں اور راہ ظن وتخمین کا یہ حال ہے کہ وہ حقیقت وعلم کے سامنے کچھ کارآمد نہیں۔ النجم
29 سوآپ بھی ایسے شخص سے اعراض کیجئے جس نے ہمارے ذکر سے روگردانی اختیار کررکھی ہے اور بجز دنیوی زندگی کے اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہے النجم
30 ان لوگوں کا مبلغ علم ہی بس اتنا ہے تیراب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے النجم
31 اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے، تاکہ برائی کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے اچھے کام کیے انہیں اچھی جزا سے نوازے، النجم
32 جوکبائر اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں الا یہ کہ کوئی معمولی گناہ ان سے سرزد ہوجائے۔ بلاشبہ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے وہ اس وقت تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین تھے، لہذا خود ستائی نہ کیا کرو، وہی خوب جانتا ہے اس کو جو واقعی پرہیزگار ہے۔ النجم
33 بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو دین حق سے پھرا ہوا ہے؟ النجم
34 اور اس نے تھوڑا سا دیا اور بند کردیا النجم
35 کیا اس کے پاس علم غیب ہے کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے؟ النجم
36 کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں میں مذکور ہیں النجم
37 اور ابراہیم کے صحیفوں میں، جس نے (اللہ تعالیٰ کے احکام کو) پورا کردکھایا؟ النجم
38 کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا النجم
39 اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے سعی کی النجم
40 اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔ النجم
41 اس کو اس کاپورا پورا بدلہ دیا جائے گا النجم
42 اور یہ کہ آخر کار تیرے رب کے پاس پہنچنا ہے النجم
43 اور یہ کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے النجم
44 اور یہ کہ وہی موت دیتا ہے اور زندگی بخشتا ہے النجم
45 اور یہ کہ وہی نر اور مادہ دو قسمیں پیدا کرتا ہے النجم
46 نطفے سے جب وہ رحم مادر میں ٹپکایا جاتا ہے النجم
47 اور یہ کہ دوسری بار پیدا کرنا اس کے ذمہ ہے النجم
48 اور وہی غنی کرتا اور جائداد دیتا ہے النجم
49 اور یہ کہ وہی شعری کارب ہے (٣) النجم
50 اور یہ کہ اسی نے عاد اولی کو ہلاک کیا (٤)۔ النجم
51 اور ثمود کو بھی اور ان میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا النجم
52 اور ان سے پہلے قوم نوح کو ہلاک کرڈالا، بلاشبہ وہ بڑے ہی ظالم اور سرکش تھے النجم
53 اور اوندھی ہونے والی بستیوں کو اس نے دے مارا النجم
54 پس ڈھانک دیا ان کو اس چیز سے جس سے ڈھانک دیا النجم
55 سوائے مخاطب، اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں میں شک کرتا رہے گا؟ النجم
56 یہ نبی بھی پہلے ڈرانے والوں کی طرح ایک ڈرانے والا ہے النجم
57 آنے والی گھڑی قریب آلگی ہے النجم
58 اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اسے ہٹانے والا نہیں ہے النجم
59 کیا تم اس قرآن پر تعجب کرتے ہو النجم
60 اور (اس پر) ہنستے ہو اور روتے نہیں النجم
61 اور تم متکبرانہ انداز میں گزرجاتے ہو النجم
62 سو جھک جاؤاللہ کے سامنے اور اس کی عبادت کرو۔ النجم
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے القمر
1 قیامت قریب آپہنچی اور چاند پھٹ گیا (١۔ ٢) القمر
2 اور (کفار کا حال یہ ہے کہ) خواہ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اس سے اعراض کرجاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ توایک چلتا ہواجادو ہے القمر
3 اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور ہر معاملہ کی ایک حد ہے جہاں پہنچ کر اسے ٹھہرنا ہے القمر
4 اور ان کے سامنے (گزشتہ اقوام کے) وہ واقعات آچکے ہیں کہ ان میں (سرکشی روکنے کے لیے) کافی تنبیہ القمر
5 اور اعلی درجہ کی حکمت موجود ہے مگر ان پر تنبیہات کارگر نہیں ہوتیں۔ القمر
6 پس اے نبی ان سے اعراض برتیے جس روز بلانے والا ایک ناگوار چیز کی طرف بلائے گا القمر
7 لوگ جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ قبروں سے اس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں القمر
8 وہ پکارنے والے کی طرف دوڑ رہے ہوں گے کافر کہہ رہے ہوں گے یہ تو بڑا ہی سخت دن ہے (٣)۔ القمر
9 ان سے پہلے نوح کی قوم جھٹلا چکی ہے چنانچہ انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور اسے سخت دھمکی دی گئی ہے القمر
10 آخر کار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوچکا، اب تو ان سے بدلہ لیجئے القمر
11 تب ہم نے موسلا دھار مینہ سے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ القمر
12 زمین کے سوتے جاری کردیے آخر جو اندازہ مقرر ہوا تھا اسی کے مطابق آسمان وزمین کے پانی مل گئے القمر
13 اور ہم نے نوح کو ایک تختوں اور کیلوں والی (کشتی) پر سوار کردیا القمر
14 وہ ہماری حفاظت اور نگرانی میں چلتی تھی اور یہ اس شخص کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا جس کی ناقدری کی گئی القمر
15 اور ہم نے اس کو ایک نشانی بناکرچھوڑ دیا پھر کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (٤)۔ القمر
16 پھر دیکھ لو، کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھی میری تنبیہات القمر
17 اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیا ہے پھر کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا القمر
18 عاد نے جھٹلایا تو دیکھ لو میرا عذاب اور میری تنبیہات کیسی ہوئی؟ القمر
19 ہم نے ان پر دائمی نحوست کے دن میں نہایت تیز وتند ہوابھیجی القمر
20 جو لوگوں کو اس طرح اٹھا کرپھنک رہی تھی جیسے وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں القمر
21 سو دیکھ لو میرا عذاب اور میری تنبیہات کیسی تھیں؟ القمر
22 اور ہم نے نصیحت حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کو آسان کردیا ہے پھر کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے القمر
23 ثمود نے تنبیہات کو جھٹلایا القمر
24 اور کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی سے ایک آدمی کی پیروی اختیار کرلیں اگر ایسا کریں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم بڑی گمراہی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں۔ القمر
25 کیا ہم سب میں سے اسی پر وحی اتاری گئی ہے ؟ نہیں بلکہ یہ برا جھوٹا اور خود پسند ہے القمر
26 انہیں ابھی کل ہی معلوم ہوجائے گا کہ کون بڑا جھوٹا اور شیخٰ خوردہ ہے القمر
27 ہم ان کی آزمائش کے لیے ایک اونٹنی بھیجنے والے ہیں سوان (کے انجام) کا انتظار کر اور صبر سے کام لے القمر
28 اور ان لوگوں کو آگاہ کردے کہ پانی ان کے مابین تقسیم ہوگا اور ہر ایک اپنی باری کیدن حاضر ہوگا القمر
29 آخرکار انہوں نے اپنے رفیق کو پکارا اس نے اونٹنی پر دست درازی کی اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں القمر
30 پھر دیکھو میرا عذاب اور میری تنبیہات کیسی ہوئیں؟ القمر
31 ہم نیان پرایک ہی ہولناک آواز مسلط کردی پس وہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح (چورا چورا) ہوگئے القمر
32 ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے اب ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا القمر
33 لوط کی قوم نے بھی تنبیہ کرنے والوں کی تکذیب کی القمر
34 ہم نے ان پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دی ماسوالوط کے گھروالوں کے کہ ان کو ہم نے اخیر شب میں بچالیا القمر
35 اپنے فضل سے نکال لیا، ہم ہر شکرگزار کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں القمر
36 اورب لاشبہ لوط نے ہماری پکڑ سے ان کو خبردار کیا مگر انہوں نے ان ساری تنبیہات میں (شک وشبہ پیدا کرکے) جھگڑے نکال کرکھڑے کیے القمر
37 اور وہ بری نیت سے لوط کے مہمانوں کو اس سے طلب کرنے لگے آخرکار ہم نے ان کی آنکھیں بے نور کردیں لو اب میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزہ چکھو القمر
38 اور صبح سویرے ان پر ایک دائمی عذاب آ پہنچا القمر
39 لو اب میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزہ چکھو القمر
40 اور ہم نے قرآن نصیحت حاصل کرنے کے لیے، آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟ القمر
41 اور آل فرعون کے پاس بھی تنبیہات آئیں۔ القمر
42 پرانہوں نے ہماری تمام نشانیوں کو جھٹلایا آخرکار ہم نے ان پر ایسی گرفت کی جیسی کہ ایک زبردست صاحب اقتدار کی گرفت ہوتی ہے القمر
43 کیا تمہارے کفار ان (گزشتہ) لوگوں سے بہتر ہیں یاکتب سماویہ میں تمہارے لیے معافی کاپروانہ درج ہے؟ القمر
44 یا یہ یوں کہتے ہیں کہ ہم ایک انتقام لینے والی جماعت ہیں؟ القمر
45 کفا کی جمعیت عنقریب منہزم ہوجائے گی اور وہ پیٹھ دکھا کر بھاگیں گے القمر
46 بلکہ قیامت ان کا وعدہ ہے اور وہ گھڑی مصیبت کی تلخ ترین گھڑی ہے القمر
47 یہ گناہ گار ہیں) اور مجرم گمراہی اور آگ میں ہیں القمر
48 وہ دن آنے والا ہے جبکہ منہ کے بل یہ آگ میں کھینچے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ عذاب دوزخ کا مزہ چکھو القمر
49 ہم نے ہر چیز کوٹھیک اندازے سے پیدا کیا ہے القمر
50 اور ہمارے حکم کو ذرا ایک آنکھ جھپکنے کی طرح پہنچا ہوا سمجھو القمر
51 دیکھتے ہیں کہ ہم نے تمہارے حامیوں کو ہلاک کرڈالا، کیا اب بھی تم میں کوئی غوروفکر سے کام لینے والا نہیں؟ القمر
52 اور جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب (اعمال کے) دفتروں میں موجود ہے القمر
53 اور ہر چھوٹی اور بڑی بات لکھی ہوئی ہے القمر
54 جوپرہیزگار ہیں وہ یقینا باغوں اور نہروں میں ہوں گے القمر
55 ایسے بادشاہ کے قریب سچے مقام میں ہوں گے جو بڑا صاحب قدرت ہے۔ القمر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الرحمن
1 وہ رحمان ہی ہے (١۔ ٢) الرحمن
2 جس نے قرآن مجید کی تعلیم دی الرحمن
3 اسی نے انسانوں کو پیدا کیا الرحمن
4 اسی نے انسان کو بولنا سکھایا (٣)۔ الرحمن
5 سورج اور چاند ایک خاص نظام کے ماتحت گردش کررہے ہیں الرحمن
6 اور درختوں اور ستاروں نے بھی اپنے بلند سروں کو اس نظام کے آگے جھکا دیا ہے الرحمن
7 یہ فطری نظام قدیم سے ہے خدا نے جب آسمان کو پیدا کیا اور اسے بلند کیا تو اسی وقت ایک میزان عدل بھی قائم کردیا الرحمن
8 جس طرح آفتاب ومہتاب، درخت اور آسمان اپنے محدود نظام عدل سے تجاوز نہیں کرتے الرحمن
9 اسی طرح تم بھی اس نظام عدالت کو پوری عدالت کے ساتھ قائم رکھو اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرو الرحمن
10 اور اسی نے مخلوقات کے لیے زمین کو (رہنے کے قابل) بنایا الرحمن
11 جس میں بکثرت میوے اور کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں الرحمن
12 اور اس زمین میں بھوسہ والااناج اور خوشبودار پھول ہیں الرحمن
13 سواے جن وانس، تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے؟ الرحمن
14 انسان کو اس نے ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتے ہوئے خشک اور سڑے ہوئے گارے سے بنایا الرحمن
15 اور جان (جن) کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا الرحمن
16 سو (اے جن وانس) تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کی تکذیب کروگے؟ الرحمن
17 وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے الرحمن
18 پھر اے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کا انکار کرو گے الرحمن
19 اس نے کھاری اور میٹھے پانی کے دو سمندر کیے کہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں الرحمن
20 پھر بھی اک دوسرے سے مل نہیں سکتے، کیونکہ دونوں کے درمیان اس نے ایک حد فاصل قائم کردی ہے۔ الرحمن
21 پس اے جن وانس تم اپنے رب کے کون کون سے عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے الرحمن
22 ان سمندروں سے مونگے اور موتی برآمد ہوتے ہیں الرحمن
23 سو اے جن وانس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
24 اور یہ جہاز اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح بلند (نظرآتے) ہیں الرحمن
25 سو اے جن وانس، تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے؟ الرحمن
26 جو کچھ روئے زمین پر ہے سب فنا ہونے والا ہے الرحمن
27 اور صرف آپ کے رب کی ذات باقی رہ جائے گی جو صاحب عظمت اور احسان ہے الرحمن
28 سواے جن وانس تم اپنے رب کی کون کون سے کمالات کو جھٹلاؤ گے الرحمن
29 سب آسمانوں اور زمین والے اسی سے مانگتے ہیں وہ ہر آن ایک نہ ایک شان میں ہے الرحمن
30 پس اے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن صفات کمال کو جھٹلاؤ گے الرحمن
31 فیصل الرحمن
32 پس اے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن صفات کمال کو جھٹلاؤ گے الرحمن
33 اے مجمع جن وانس اگر تمہاری طاقت میں ہے کہ زمین اور آسمانوں کے مدبرات وملکوت کے اندر سے اپنی راہ پیدا کرکے آگے نکل جاؤ تو ترقی کی اس انتہا کے لیے بھی کوشش کردیکھو، مگر بغیر سلطان الٰہی کے کچھ بھی نہ کرسکو گے اور یاد رکھو کہ وہ قوت تمہارے بس میں نہیں الرحمن
34 پھر تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
35 تم پر آگ کا دھواں اور اس کی لپٹ چھاجائے گی اور تمہارے پاس کوئی قوت ایسی نہیں کہ اس کے ذریعے سے ہلاکت کو دفع کرسکو الرحمن
36 سو اے جن وانس اپنے رب کی کو کن کن سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
37 پھر اس وقت کیا بنے گا جب آسمان پھٹ جائے گا اور تیل کی تلچھٹ کی طرح سرغ ہوجائے گا الرحمن
38 سو اے جن وانس تم اپنے رب کی کون کون سی قدرتوں کا انکار کرو گے الرحمن
39 اس روز کسی جن اور کسی انسان سے اس کے گناہ کے متعلق سوال کی ضرورت نہ ہوگی۔ الرحمن
40 سو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
41 گناہ گاروں کو ان کے چہرہ سے پہچان لیاجائے گا پھر ان کو پیشانی کے بال اور پاؤں سے پکڑ پکڑ کر گھسیٹاجائے گا الرحمن
42 پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
43 اس وقت کہا جائے گا) یہ وہی جہنم ہے جسے مجرم لوگ جھٹلایا کرتے تھے الرحمن
44 وہ مجرم لوگ آگ اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان گردش کرتے رہیں گے الرحمن
45 پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے الرحمن
46 اور ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے روبراکھڑا ہونے سے ڈرتا ہے دوباغ ہیں الرحمن
47 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے الرحمن
48 وہ دوباغ ہر بھری ڈالیوں والے ہوں گے الرحمن
49 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
50 ان باغوں میں دوراں چشمے ہوں گے الرحمن
51 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
52 ان میں ہر قسم کے پھل دار جوڑے ہیں الرحمن
53 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
54 اور وہ ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استردبیز ریشم کے ہوں اور باغوں کے پھل بہت ہی قریب ہوں گے الرحمن
55 پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
56 ان میں شرمیلی نگاہوں والی عورتیں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کسی انسان یا جن نے چھوانہ ہوگا الرحمن
57 پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے الرحمن
58 وہ عورتیں ایسی خوبصورت ہوں گی جیسے یاقوت اور مونگے الرحمن
59 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ الرحمن
60 اخلاص عبادت کا بدلہ انعام واکرام کے سوا کیا ہوسکتا ہے الرحمن
61 سو اے جن وانس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے؟ الرحمن
62 ان دوباغوں کے علاوہ دوباغ اور ہوں گے الرحمن
63 سواے جن وانس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
64 وہ دونوں نہایت سرسبز ہوں گے الرحمن
65 سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
66 ان میں پانی کے دو ابلتے ہوئے چشموں ہوں گے الرحمن
67 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
68 ان دونوں باغوں میں میوے، کھجوریں اور انار ہوں گے الرحمن
69 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے الرحمن
70 ان میں نیک سیرت، خوبصورت عورتیں ہوں گی الرحمن
71 سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے الرحمن
72 خیموں میں محفوظ حوریں ہوں گی الرحمن
73 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
74 اہل جنت سے پہلے ان کو کسی انسان یاجن نے چھوانہیں ہوگا الرحمن
75 سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
76 وہ جنتی سبز اور نادر ونفیس قالینوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے الرحمن
77 سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے الرحمن
78 اے نبی) آپ کے رب کا نام بڑی برکت والا ہے، جوصاحب عظمت اور صاحب اکرام ہے۔ الرحمن
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الواقعة
1 جب واقع ہوجانے والی واقع ہوجائے گی الواقعة
2 تو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگا (١)۔ الواقعة
3 وہ کسی کو پست اور کسی کو بلند کرنے والی ہوگی الواقعة
4 اس وقت زمین یکبارگی ہلاڈالی جائے گی الواقعة
5 اور پہاڑ ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے الواقعة
6 حتی کہ وہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے الواقعة
7 اور تم لوگ (اس وقت) تین قسم کے گروہ بن جاؤ گے الواقعة
8 پس ایک گروہ تو داہنے ہاتھ والوں کا ہے الواقعة
9 داہنے ہاتھ والوں کا کہا کہنا، اور ایک گروہ بائیں جانب والوں کا ہے اور بائیں جانب والوں کا کیا ہی براگروہ ہے الواقعة
10 اور پھر ان دونوں کے علاوہ تیسرے گروہ کے لوگ جو سب سے آگے ہیں اور وہ آگے ہی رہنے کے مستحق بھی ہیں الواقعة
11 کیونکہ وہ بارگاہ الٰہی کے مقرب ہیں الواقعة
12 اوران کی جگہ جنت کی خوشیاں ہیں اور وہاں کی نعمتیں الواقعة
13 ان میں سے بہت سے اگلوں میں ہوں گے الواقعة
14 اور کچھ پچھلوں میں (٢)۔ الواقعة
15 یہ لوگ مرصع تختوں پر الواقعة
16 آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے الواقعة
17 ان کی خدمت گزاری کے لیے) ان کے گرد لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے الواقعة
18 صاف شراب کے جام، آفتاب اور ساغر لیے پھر رہے ہوں گے الواقعة
19 جس سے نہ تو ان کاسرچکرائے گا اور نہ ہی ان کی عقل میں فتور آئے گا الواقعة
20 اور وہ ان کے لیے طرح طرح کے میوے لیے پھریں گے جن سے اہل جنت حسب پسند چن لیں گے (٣) الواقعة
21 ) اور پرندوں کے گوشت۔۔ جس قسم (کے گوشت) کی وہ خواہش کریں گے الواقعة
22 اور بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی الواقعة
23 جو چھپا کرکھے ہوئے موتیوں کی طرح (خوبصورت ہوں گی) الواقعة
24 یہ سب ان کے اعمال کا صلہ ہوگا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے الواقعة
25 وہ جنت میں کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہیں سنیں گے الواقعة
26 صرف سلام ہی سلام کی آوازیں ہوں گی الواقعة
27 اور اصحاب الیمین، اصحاب الیمین کا کیا ہی کہنا الواقعة
28 ان کے لیے باغ وبہار کی دائمی خوشیاں اور نظارے ہیں، الواقعة
29 رہتے ہیں بیری کے درختوں میں، جن کا کانٹا نہیں اور کیلے تہ برتہ الواقعة
30 اور سایہ لمبا الواقعة
31 اور پانی بہتا ہوا الواقعة
32 اور میوے بکثرت الواقعة
33 جو نہ کبھی رو کے جاسکیں گے اور نہ کبھی ان کاسلسلہ ٹوٹے گا الواقعة
34 ان میں اونچے اونچے فراش ہوں گے الواقعة
35 وہاں کی عورتوں کو ہم نے خاص طور پر پیدا کیا ہے الواقعة
36 اور نہیں پاکیزہ بنادیا ہے الواقعة
37 اپنے شوہروں سے محبت کرنے والی اور ہم سن، الواقعة
38 یہ سب چیزیں دائیں بازو والوں کے لیے ہوں گی الواقعة
39 ایک بڑا گروہ وہ اگلوں میں سے ہوگا الواقعة
40 اور ایک بڑا گروہ ہی پچھلوں میں سے ہوگا الواقعة
41 اور اصحاب شمال کون ہیں اصحاب شمال ہیں الواقعة
42 اور کھولتے ہوئے پانی کی سی گرمی ہے ان کے لیے تپش وسوزش الواقعة
43 وہ لو کی لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی اور سایہ میں ہوں گے الواقعة
44 جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ آرام دہ الواقعة
45 یہ وہ لوگ ہیں کہ پہلے بڑے آسودہ حال تھے مگر پاداش عمل میں ان کایہ حال ہوگیا ہے الواقعة
46 اور وہ گناہ عظیم (شرک) پر اصرار کیا کرتے تھے الواقعة
47 اور کہا کرتے تھے جب ہم مر کرخاک اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا (دوبارہ زندہ کرکے) ہم اٹھائے جائیں گے الواقعة
48 اور کیا ہمارے باپ دادا ابھی (زندہ کیے جائیں گے؟ الواقعة
49 آپ کہہ دیجئے سب اگلے اور پچھلے الواقعة
50 ایک مقرر دن میں وقت پر ضرور جمع کیے جائیں گے الواقعة
51 پھر بے شک وہ لوگ جو گمراہ ہوئے اور انہوں نے جھٹلایا الواقعة
52 تمہیں زقوم کے درخت سے کھانا ہوگا الواقعة
53 اور اسی سے پیٹ بھرنا ہوگا الواقعة
54 پھر اس کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی تونس لگے ہوئے الواقعة
55 (پیاسے) اونٹوں کی طرح پیو گے الواقعة
56 یہ ان کی مہمانی کا سامان قیامت کے دن ہوگا الواقعة
57 ہم ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر تم یقین کیوں نہیں کرتے الواقعة
58 بھلا یہ بھی کبھی سوچا ہے کہ جو نطفہ رحم میں ٹپکاتے ہو الواقعة
59 کیا تم اس کو پیدا کرتے ہو یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ الواقعة
60 ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقرر کیا ہے اور ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں الواقعة
61 کہ تمہاری مانند کوئی اور مخلوق یہاں لابسائیں اور تمہیں کسی ایسے جہان میں پیدا کریں جسے تم نہیں جانتے الواقعة
62 اور بلاشبہ تم نے اپنی پہلی پیدائش کو جان لیا ہے پھر تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے الواقعة
63 اچھا تم نے اس بات پر غور کیا تھا کہ جو کچھ کاشت کاری کرتے ہو الواقعة
64 اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں الواقعة
65 اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم صرف یہ کہنے کے لیے رہ جاؤ کہ افسوس الواقعة
66 ہمیں تو اس نقصان کا تاوان دینا پڑے گا الواقعة
67 بلکہ ہم تو اپنی محنت کے تمام فائدوں سے محروم ہوگئے الواقعة
68 اچھا تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ جو پانی تمہارے پینے میں آتا ہے اسے کون برساتا ہے؟ الواقعة
69 تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں الواقعة
70 اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری کردیں پھر کیا اس نعمت کے لیے ضروری نہیں کہ تم شکرگزار ہو؟ الواقعة
71 اچھا تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو الواقعة
72 تواس کے لیے لکری تم نے پیدا کی یا ہم پیدا کررہے ہیں الواقعة
73 ہم نے اسے یادگار اور مسافروں کے لیے فائدہ بخش بنایا الواقعة
74 پس اے نبی آپ اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کیجئے الواقعة
75 پس میں ستاروں کے جائے وقوع کی قسم کھا کر کہتا ہوں (٥)۔ الواقعة
76 اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے الواقعة
77 کہ یہ ایک گرامی قدر قرآن ہے الواقعة
78 جوایک محفوظ کتاب میں (درج) ہے (٦)۔ الواقعة
79 جسے پاکیزہ ہستیوں کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا الواقعة
80 یہ قرآن رب العالمین کی جانب سے نازل کیا گیا ہے الواقعة
81 پھر کیا تم اس کتاب کے ساتھ مداہنت سے کام لیتے ہو؟ الواقعة
82 اور تم نے اپنا وظیفہ یہ بنارکھا ہے کہ اس کی تکذیب کرتے رہو الواقعة
83 سو جب جان حلقوم تک پہنچ جاتی ہے الواقعة
84 اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو الواقعة
85 اور ہم اس مرنے والے کے تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تمہیں نظر نہیں آتے الواقعة
86 پس اگر تم کسی کے زیرفرمان نہیں ہو الواقعة
87 اور تم اس دعوی میں سچے ہو تو پھر اس روح کو واپس کیوں نہیں لے آتے الواقعة
88 پھر اگر وہ مرنے والا مقربین سے ہو الواقعة
89 تواس کے لیے راحت اور عمدہ رزق اور نعمتوں کا باغ ہے الواقعة
90 اور اگر وہ داہنے ہاتھ ولوں میں سے ہے الواقعة
91 توتیرے لیے سلامتی ہے کہ تو اصحاب یمین ہے الواقعة
92 اور اگر وہ شخص جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے الواقعة
93 تو کھولتے ہوئے گرم پانی سے اس کی مہمانی ہوگی الواقعة
94 اور جہنم میں داخل کیا جانا ہوگا الواقعة
95 یہ سب کچھ سراسر حق ہے الواقعة
96 پس اے نبی آپ اپنے عظیم رب کے نام کی تسبیح بیان کیجئے۔ الواقعة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الحديد
1 جو چیز بھی آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں اور وہ بڑا زبردست اور بڑی حکمت والا ہے (١)۔ الحديد
2 آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے وہی زندگی عطا فرماتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے الحديد
3 وہی اول ہے اور وہی آخر بھی، اور وہ ظاہر ہے اور مخفی بھی۔ اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے الحديد
4 وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر بلند ہوا جو چیز بھی زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس میں سے نکلتی ہے اور جو کچھ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور جو اس میں چڑھتا ہے وہ سب کو جانتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو اور جو کام بی تم کرتے ہو اسیوہ دیکھ رہا ہے الحديد
5 آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے اور تمام معاملات (فیصلے کے لیے) اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں الحديد
6 وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ سینوں کی تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے الحديد
7 تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے پس جو لوگ تم میں سے ایمان لے آئیں اور مال خرچ کریں ان کے لی بہت بڑا اجر ہے الحديد
8 اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں دعوت دے رہا ہے تم اپنے رب پر ایمان لاؤ اور وہ تم سے عہد بھی لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔ الحديد
9 وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے ندے پر واضح آیات نازل کررہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے اور بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے الحديد
10 اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی سب میراث اللہ ہی کے لیے ہے (٢) تم میں سے جن لوگوں نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ بعد میں خرچ کرنے اور جہاد کرنے والوں سے بہت بڑا ہے، اور دونوں سیا للہ نے بھلائی کا وعدہ کررکھا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح واقف ہے الحديد
11 کون ہے جو اللہ کو قرض دے، چاھا قرض، پھر اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لیے بہتر اجر (بھی) ہے الحديد
12 اس دن تم مسلمان مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کانوران کے ساتھ ساتھ اور ان کے آگے آگیچل رہا ہوگا اور ان سے کہا جائے گا کہ آج کے دن تمہارے لیے فتح ومراد کی بشارت ہے، ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی (اور اس لیے کہ ان کی شادابی متغیر ہونے والی نہیں) وہ (سرور وراحت کی) اس حالت میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی ہی کامیابی ہے جو انہیں حاصل ہوگی۔ الحديد
13 پس اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے ذرا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں مگر ان سے کہا جائے گا کہ ایسا نہیں ہوسکتا (آگے مت بڑھو) پیچھے ہٹو اور کوئی اور روشنی تلاش کرواتنے میں ان (مومنوں اور منافقوں) درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اور اس کے اندر رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب عذاب ہوگا الحديد
14 وہ منافق مومنوں کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ مومن جواب دیں گے کیوں نہیں مگر تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں ڈالا، اور تم (ہمارے متعلق) موقع کے انتظار میں رہے اور شک میں پڑے رہے اور جھوٹی آرزوں نے تمہیں فریب میں مبتلا رکھا، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آپہنچا اور اس بڑے دھوکے باز نے تمہیں دھوکے میں مبتلا رکھا الحديد
15 لہذا آج نہ تو تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جو کھلے کافر تھے اور تم سب کاٹھکانا جہنم ہے وہی تمہارا مولی ہے وار وہ بہت برا ٹھکانہ ہے الحديد
16 کیامومنین کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور جو حق نازل ہوا اس کے سامنے جھک جائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور (اب ان کی حالت یہ ہے کہ) ان میں اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں الحديد
17 خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے ہم نے تمہارے سامنے نشانیاں واضح کردی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو الحديد
18 بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ان کو کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا اور ان کے لیے بہتراجر ہے الحديد
19 اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک سچے اور گواہی دینے والے ہیں ان کے لیے ان کا اجر اور ان کانور ہوگا اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ لوگ جہنمی ہیں الحديد
20 خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور دل لگی، اور ظاہری آرائش اور تمہارا ایک دوسرے پر فخر جتانا اور اموال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس سے پیدا ہونے والی نباتات کاشتکاروں کو خوش لگتی ہے پھر وہ پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ چوراچورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں تو سخت عذاب ہے، اور (یا پھر ) اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک سرمایہ فریب ہے الحديد
21 تم اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے وہ (جنت) ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے الحديد
22 جتنی مصیبتیں اقوام وامم پر نازل ہوئی ہیں اور خود تم پر نازل ہوئیں وہ سب ہم نے پہلے سے ایک کتاب میں لکھ رکھی ہیں (یعنی پہلے سے وہ ایک منضبط قانون کی صورت میں موجود ہے) اور ایسا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل بات نہ تھی۔ الحديد
23 یہ اس لیے بتادیا کہ) تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ نہ لگے اس پر آرزدہ خاطر نہ ہوجاؤ اور جو کچھ وہ تمہیں عطا فرمائے اس پر اتراؤ نہیں اور اللہ خود ستا، فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا الحديد
24 جو لوگ خود بخل کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیتے ہیں اور جو روگردانی کرے گا تو بے شک اللہ تعالیٰ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے الحديد
25 ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل حقہ اور براہین واضحہ کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کواتارا تاکہ عدل وتوازن قائم رہے، اور ہم نے لوہا اتارا کہ اس میں سلطان ونفوذ کی بڑی خوفناکی ہے اور لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں اور اس لیے تاکہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہیی بے شک اللہ قوی اور زبردست ہے الحديد
26 اور بلاشبہ ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا اور ان دونوں کی ذریت میں نبوت اور کتابت کاسلسلہ جاری کردیا، پھر ان کی نسل میں سے کچھ نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہوگئے الحديد
27 پھر ان کے نقش قدم پر ہم نے رسولوں کو، اور ان کے نقش قدم پر عیسیٰ ابن مریم کو چلایا اور اسے انجیل عطا کی، اور ان لوگوں کے دلوں میں، جنہوں نے (مسیح) کی پیروی کی ہم نے شفقت اور رحمت ڈال دی، اور رہبانیت انہوں نے خود پیدا کرلی، ہم نے اس کا حکم نہیں دیا تھا (٣) سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی خوشنودی طلب کریں اس کی رعایت جیسا چاہیے تھا انہوں نے ملحوظ نہ رکھی پھر جو لوگ ان میں ایمان لائے ہم نے ان کا اجر ان کا عطا کو عطا کیا اور ان میں بہت سے لوگ فاسق ہیں الحديد
28 اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دوہرا اجر عطا فرمائے گا، اور تمہیں وہ نور عطا فرمائے گا جس کے ذریعہ سے تم چلو گے اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے الحديد
29 یہ اس لیے بتایا گیا تاکہ اہل کتاب کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے فضل پر انہیں کچھ قدرت نہیں ہے اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ الحديد
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المجادلة
1 اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملہ میں آپ سے جھگڑا کررہی ہے اور اللہ کی جناب میں شکایت وفریاد کررہی ہے (١) اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے بے شک اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے المجادلة
2 تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں حقیقتا وہ بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں ان کی مائیں تو صرف وہ ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے یہ لوگ ایک بری اور جھوٹی بات کہتے ہیں بے شک اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے المجادلة
3 جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو قبل اس کے کہ وہ باہم ملاپ کریں ایک گردن آزاد کرنا ہوگی اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ ان سے پوری طرح باخبر ہے۔ المجادلة
4 پھر جو شخص گردن نہ پائے وہ دو ماہ کے پے درپے روزے رکھے، قبل اس کے کہ وہ باہم ملاپ کریں پھر جس کو روزہ رکھنے کی استطاعت بھی نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے المجادلة
5 جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس طرح ذلیل وخوار کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل خوار کیے جاچکے ہیں ہم نے صاف صاف احکام نازل کیے ہیں اور کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہے المجادلة
6 اس دن جب اللہ ان سب کو زندہ کرکے اٹھائے گا پھر ان کو ان اعمال سے آگاہ کرے گا جو انہوں نے کیے تھے اللہ تعالیٰ ان سب اعمال کو شمار کررکھا ہے اور وہ بھول گئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگران ہے المجادلة
7 اے مخاطب) کیا تجھے خبر نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی ہر چیز کا علم ہے جہاں کہیں تین اشخاص گرم راز ونیاز ہیں وہاں ان کا چوتھا خدا ہے پانچ ہوں تو ان کا چھٹا شریک خدا ہے اس سے کم یازیادہ جس تعداد میں بھی ہوں خدا ان کے ساتھ ہے پھر قیامت کے دن انہیں بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے (٢)۔ المجادلة
8 کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشیوں سے منع کیا تھا؟ وہ پھر وہی کرتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ یہ لوگ آپس میں گناہ اور ظلم اور رسول کی نافرمانی کے خفیہ مشورے کرتے رہتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ان الفاظ سے سلام کرتے ہیں جن الفاظ سے اللہ نے آپ پر سلام نہیں بھیجا، اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں کیوں عذاب نہیں دیتا ؟ ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے اس میں یہ لوگ داخل ہوں گے سو وہ بہت ہی براٹھکانہ ہے (٣)۔ المجادلة
9 اے ایمان والو، جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی نہ کیا کرو، بلکہ نیکی اور تقوی کی سرگوشی کیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس کے حضور تم سب جمع کیے جاؤ گے (٤)۔ المجادلة
10 راز دارانہ سرگوشیاں شیطان کی وسوسہ اندازی سے ہوتی ہیں تاکہ مسلمان اس کی وجہ سے آزردہ خاطر ہوں حالانکہ بغیر مشیت الٰہی کے یہ سرگوشیاں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی پر اعتماد رکھیں المجادلة
11 اے ایمان والو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجالس کو کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی کردے گا، اور جب تم سے کہا جائے گا کہ اٹھ کر چلے جاؤ تو چلے جایا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن لوگوں نے علم حاصل کیا سو اللہ تعالیٰ ان کے مدارج کو ترقی دیتا ہے اور ارتفاع بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے (٥)۔ المجادلة
12 اے ایمان والو، جب تم رسول سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو، یہ تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے پھر اگر تم کو کچھ میسر نہ ہوتواللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے المجادلة
13 کیا تم اس حکم سے ڈر گئے ہو کہ سرگوشی سے پہلے کچھ صدقات دے دیا کرو پھر جب تم نے ایسا نہ کیا، اور اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا، تو اب تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے المجادلة
14 کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اس قوم سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب نازل کیا ہے؟ یہ لوگ پوری طرح نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں، اور یہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹی بات پر قسمیں کھاجاتے ہیں۔ المجادلة
15 ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت عذاب تیار کررکھا ہے بے شک وہ کام بہت برے ہیں جو وہ کررہے ہیں المجادلة
16 انہوں نے اپنے بچاؤ کے لیے اپنی قسموں کو ڈھال بنارکھا ہے جس کی آڑ میں وہ اللہ کی راہ سے روکتے ہیں لہذا ان کے لیے ذلیل وخوار کرنے والا عذاب ہے المجادلة
17 ان کے اموال اور ان کی اولاد اللہ تعالیٰ سے بچانے کے لیے ان کے کچھ کام نہ آئیں گے یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے المجادلة
18 جس روز اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو بھی اسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور یہ لوگ اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح موقف پر ہیں، آگاہ رہو کہ یہ لوگ بڑے ہی جھوٹے ہیں المجادلة
19 شیطان (اور اس کی قوتیں) ان پر مسلط ہوگئی ہیں پس انہوں نے خدا کے ذکر اور اس کے رشتے کوفراموش کردیا ہے یہ حزب الشیطان (یعنی شیطان کی جماعت) ہے اور جان رکھو کہ آخر کار حزب الشیطان کے لیے نقصان اور خسران ہی ہے۔ المجادلة
20 جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ترین لوگوں میں ہوں گے المجادلة
21 اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور ہی غالب ہو کر رہیں گے، بے شک اللہ تعالیٰ قوی اور زبردست ہے المجادلة
22 اے نبی آپ کبھی ان لوگوں کو جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان لوگوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یاان کے بیٹے یاان کے بھائی یاان کے عزیز واقارب ہوں (٦) یہی وہ راست باز انسان ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے اپنے ایمان کا نقش جمادیا، اور اپنی روح نصرت وفتح مندی سے ان کی مدد کی (پس اب خوف وہراس اور ناکامی ونامرادی ان کے لیے نہ رہی) وہ ان کو بہشتوں کی بہشتی زندگی میں داخل کرے گا وہاں باغ چمن کا دائمی عیش ہے اور نہروں کی روانی کانظارہ رحمت، اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ اللہ کی جماعت ہے اور یقین رکھو کہ اللہ کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے۔ المجادلة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الحشر
1 جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہی غالب اور بڑی حکمت والا ہے (١) الحشر
2 وہی خدا ہے جس نے اہل کتاب کی اس جماعت کو کہ انتقام الٰہی کی منکر ہوچکی تھی اس کے گھروں سے (مسلمانوں کے) پہلے ہی اجتماع میں نکال باہر کیا، مسلمان سمجھے تھے کہ نہ نکال سکیں گے، خود ان کو بھی گمان تھا کہ ان کے قلعے خدا سے انہیں بچالیں گے، آخر اس طرح غضب الٰہی نازل ہوا کہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ان کے دلوں پر ہیبت چھا گئی، اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں ویران کرنے لگے، مسلمانوں نے بھی اس ویرانی میں انہیں مدد دی، جن لوگوں کی آنکھیں ہوں انہیں اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ الحشر
3 خدا نے اگر ان لوگوں کی قسمت میں اخراج نہ لکھ دیا ہوتا تو دنیا میں ان کو عذاب دیتا اور آخرت میں تو ان کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ الحشر
4 سبب یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی تعلیم سے انہوں نے منہ موڑ لیا، اور جوایسا کرتا ہو اسے یقین کرلینا چاہیے کہ خدا کا عذاب نہایت سخت ہے الحشر
5 اے مسلمانو) جن کھجور کے درخت کو تم نے کاٹ ڈالا یاجن کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو یہ سب اللہ کے اذن سے ہی ہوا، اور تاکہ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ذلیل وخوار کرے (٣) الحشر
6 ان کے جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بطور فے عطا کیے ان پر نہ تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ، بلکہ اللہ تعالیٰ جن پر چاہتا ہے اپنے رسولوں کو مسلط کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے (٤)۔ الحشر
7 جو کچھ اللہ تعالیٰ ان بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسولوں کو بطور فے دلوائے گا وہ اللہ اور رسول اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے مال دار طبقہ ہی کے درمیان کروش نہ کرتا رہے، اور پیغمبر خدا جس چیز کا تمہیں حکم دیں اسے قبول کرو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ خدا سے ڈرو، اور خدا سخت عذاب دینے والا ہے الحشر
8 نیز ان اموال فے میں) ان فقراء ومہاجرین کا بھی حق ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حمایت میں لگے رہتے ہیں یہی لوگ حقیقت راست باز ہیں (٥) الحشر
9 اور (ان اموال فے کے وہ لوگ بھی مستحق ہیں) جو ان مہاجرین سے پہلے دار الہجرت میں مقیم ہیں اور وہ ایمان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور مہاجرین کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اور خواہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں، اور جو لوگ اپنے طبعی بخل وحرص سے بچا لیے گئے تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں الحشر
10 اور (اموال فے میں ان لوگوں کا بھی حق ہے) جو ان کے بعد آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے بغض وعداوت کو جگہ نہ دے، اور اے ہمارے پروردگار، تو بڑی شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے الحشر
11 اے نبی کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے وہ اپنے بھائی کفار اہل کتاب سے کہتے ہیں کہ اگر تم جلاوطن کیے گئے تو یقینا ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور ہم تمہارے معاملہ میں کبھی کسی کا کہنا نہیں مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے، مگر اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ سراسر جھوٹے ہیں (٦)۔ الحشر
12 اگر وہ نکالے گئے تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہرگز نہیں نکلیں گے اور ان سے جنگ چھڑ گئی تو یہ ان کی مدد بھی نہیں کریں گے اور بالفرض ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ دے کر بھاگ جائیں گے پھر کہیں سے کوئی مدد نہ پائیں گے الحشر
13 ان منافقین کے دلوں میں اللہ کے خوف سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے یہ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے الحشر
14 یہ سب مل کر بھی تم سے نہیں لڑ سکتے الا یہ کہ قلعہ بند بستیوں یادیواروں کے پیچھے چھپے ہوئے ہوں، ان کی آپس کی مخالفت سخت ہے تم انہیں متحد خیال کرتے ہو حالانکہ ان کے دل (ایک دوسرے سے) پھٹے ہوئے ہیں ان کی یہ حالت اس لیے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں الحشر
15 یہ ان لوگوں کی مثل ہیں جو ان سے کچھ ہی پہلے اپنے کیے کا مزہ چکھ چکے ہیں اور (آخرت میں) ان کے لیے دردناک عذاب ہے الحشر
16 اس کی مثال شیطان کی سی ہے کہ اس نے انسان سے کہا کہ کفر وضلالت اختیار کر، جب انسان نے اس حکم کی تعمیل کی تو پھر وہ الگ ہوگیا اور کہنے لگا کہ مجھے اس کام سے کوئی واسطہ نہیں، میں تیرے کفر سے بالکل بری الذمہ ہوں میں تو جہانوں کے پروردگار سے ڈرتا ہوں الحشر
17 پھر دونوں کا انجام یہ ہے کہ وہ آگ میں ہمیشہ کے لیے جائیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے الحشر
18 اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے الحشر
19 اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ، جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلاکہ اپنے نفس ہی کی طرف سے غافل ہوگئے یہی لوگ فاسق وبدکار ہیں الحشر
20 اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ اپنے اعمال ونتائج میں یکساں نہیں ہوسکتے، کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں الحشر
21 اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی نازل کرتے تو (اے مخاطب) تو اس پہاڑ کو دیکھتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر وتامل سے کام لیں الحشر
22 وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ غیب اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہی رحمان ورحیم ہے الحشر
23 وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ الملک ہے، القدوس ہے، السلام ہے، المومن ہے، المہیمن ہے، العزیز ہے، الجبار ہے، المتکبر ہے، اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اسکی معبودیت کے بنارکھے ہیں الحشر
24 وہ اللہ ہی الخالق ہے الباری ہے، المصور ہے (غرض) اس کے لیے حسن وخوبی کی سب صفتیں ہیں (٧) آسمانوں اور زمین میں جتنی بھی مخلوقات ہے سب اس کی پاکی اور عظمت کی شہادت دے رہی ہے اور بلاشبہ وہی ہے جو حکمت کے ساتھ غلبہ وتوانائی بھی رکھنے والا ہے۔ الحشر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الممتحنة
1 مسلمانو ! اللہ کے اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ(١، ٢) کہ ان کے ساتھ محبت واعانت سے پیش آنے لگو، حالانکہ اللہ نے جو سچائی تمہاری طرف بھیجی ہے وہ اس سے انکار کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ دشمن ہیں وہ رسول کو اور تمہیں محض اس بنا پر جلاقطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو اگر تم میری راہ میں جہاد اور میری رضا جوئی کی خاطر (ہجرت کرکے اپنے گھروں سے) نکلے ہو (تویہ دوستی مت کرو) تم پوشیدہ ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو ؟ حالانککہ جو کچھ تم چھپاکر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو ہر چیز کو خوب میں خوب جانتا ہوں اور جو کوئی بی تم میں سے ایسا کرے گا تو یقین جانو کہ وہ راہ راست سے بھٹک گیا الممتحنة
2 اگر وہ تم پر قابوپالیں تو تمہارے دشمن بن جائیں اور ہاتھ اور زبان سے تمہیں آزاد پہنچائیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ۔ الممتحنة
3 قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں تمہیں کچھ فائدہ دیں گی اور نہ تمہاری اولاد (کچھ کام آئے گی) اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سب کو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے الممتحنة
4 بے شک تمہارے لیے ایک بہترین نمونہ ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے اعمال زندگی میں ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سواپوجتے ہو، سخت بے زار ہیں ہم تمہارے (عقائد باطلہ) کے منکر ہیں ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے عداوت پیدا ہوگئی تاوقتیکہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ، مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا کہ میں تمہارے لیے استغفار کروں گا ٠ اس سے مستثنی ہے) اور میں اللہ تعالیٰ کے سامنے تیرے لیے کسی شے کا مالک نہیں ہوں (اور انہوں نے دعا کی کہ) اے ہمارے پروردگار ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور تیری ہی طرف سب کی بازگشت ہے الممتحنة
5 پروردگار، ہمیں ظالم گروہ کے لیے آزمائشوں کاموجب نہ بناؤ پروردگار ہمیں بخش دے بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو سب پر غالب اور حکمت والی ہے الممتحنة
6 بے شک تمہارے لیے کہ اللہ اور یوم آخرت سے ڈرتے ہو، ان لوگوں کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے اور جو شخص اس کی طرف سے منہ موڑے تو اللہ تعالیٰ تو انسانوں کے اعمال کا کچھ محتاج نہیں الممتحنة
7 اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور ان کے درمیان، جو تمہارے دشمن ہیں، دوستی پیدا کردے اور اللہ قدرت والا ہے اور غفور رحیم ہے۔ الممتحنة
8 جن لوگوں نے تم سے دین کے لیے جنگ نہیں کی اور تم کو گھروں سے نہیں نکالا اللہ تعالیٰ اس سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ احسان اور بھلائی کرو اور انصاف کے ساتھ پیش آؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے الممتحنة
9 اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں سے میل ملاپ رکھنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے مقابلہ کیا اور تم کو گھروں سے نکالا یا تمہارے دشمنوں کی مدد کی، بے شک جو شخص ایسے لوگوں سے دوستی رکھے گا اس کا شمار (مسلمانوں پر) ظلم کرنے والوں میں ہوگا الممتحنة
10 اے ایمان والو جب مومن عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں تو ان (کے ایمان) کا امتحان لیا کرو اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے پھر اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن عورتیں ہیں تو ان کو کافروں کی طرف واپس نہ کرو (کیونکہ) نہ وہ عورتیں ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان عورتوں کے لیے حلال ہیں اور انہوں نے جو مہران کو دیے تھے وہ واپس کردو، اور ان مہاجر عورتوں سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے جبکہ تم ان کو ان کے مہر ادا کردو، اور تم خود بھی کافر عورتوں سے زوجیت کا کوئی تعلق قائم نہ رکھو۔ ہاں جو مہر تم نے ان کو دیا ہو وہ واپس طلب کرو۔ (اسی طرح) جو مہر انہوں نے دیا ہے وہ (تم سے) واپس طلب کریں، یہ اللہ کا حکم ہے وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑی حکمت والا ہے الممتحنة
11 اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر چلی جائے (اور وہ اس کا مہر تمہیں واپس نہ کریں) پھر تمہاری نوبت آجائے تو تم ان مسلمانوں کو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں اتنی رقم دے دوجتنی کہ ان کے دیے ہوئے مہروں کے برابر ہو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو الممتحنة
12 اے نبی جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس شرط پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑکر لائیں گی اور نہ کسی امر معروف میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیجئے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعائے مغفرت کیجئے بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے الممتحنة
13 اے ایمان والوان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب فرمایا جو آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں جیسے وہ کافر مایوس ہیں جو قبروں میں مدفون ہیں (٣)۔ الممتحنة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الصف
1 جو چیز بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنے میں لگی ہوئی ہے اور وہی غالب اور بڑی حکمت والا ہے (١)۔ الصف
2 اے ایمان والو، تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ الصف
3 خدا کو یہ بات نہایت ناپسند ہے کہ جو تمہارا قول ہو وہ تمہارا فعل نہ ہو الصف
4 خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں استقلال سے صف بستہ لڑتے ہیں گویا ایک دیوار ہیں جس کے اندر سیسہ پگھلا کر بھر دیا گیا ہے الصف
5 اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم کے لوگو تم مجھے ایذا کیوں دیتے ہو؟ حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف بھیجا ہوا للہ کارسول ہوں، پھر جب انہوں نے کج روی اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا الصف
6 اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل، میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف بھیجا ہوا آیا ہوں (میں کوئی نئی شریعت نہیں لایا) بلکہ میرا کام صرف یہی ہے کہ کتاب تورات کی، جو مجھ سے پہلے آچکی ہے تصدیق کرتا ہوں اور ایک آنے والے رسول کی خوشخبری دیتا ہوں (٢) جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمد ہوگا مگر وہ جب ان کے پاس صریح دلائل لے کرآیا تو انہوں نے کہا یہ تو کھلاجادو ہے الصف
7 اور بھلا اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے حالانکہ اسے اسلام کی طرف دعوت دی جارہی ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا الصف
8 پیروان باطل چاہتے ہیں کہ حق وصداقت کاجونور الٰہی روشن کیا گیا ہے اسے اپنی مخالفت کی پھونک مار کر بجھا دیں، مگر وہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے اس نور صداقت کی روشنی کو درجہ کمال تک پہنچا کر چھوڑے گا اگرچہ باطل پرستوں کو بر الگے (٣)۔ الصف
9 جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا کہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے، اگرچہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناپسند ہو الصف
10 اے وہ لوگو ! کہ دعوائے ایمان رکھتے ہو (اور کاروبار دنیوی میں مشغول ہو) میں ایک ایسی تجارت بتلاؤں جو تمہیں آنے والے سخت وشدید مصائب عذاب سے بچالے الصف
11 اللہ اور اس کے رسول پر کامل ایمان پیدا کرو اور خدا کی راہ میں اپنے مال ودولت اور اپنی جانوں سے جہاد کرو یہی طریق تمہارے لیے بہتر ہے بشرطیکہ تم (وقت کی مصیبت) کو سمجھو الصف
12 اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تمہارے قصوروں سے درگزر کرے گا اور تم کو کامیابی وبامرادی کیا ایسے باغ ہائے نشاط میں پہنچا دے گا جہاں (اشک حسرت ونامرادی کی جگہ عیش مراد کی) نہریں بہہ رہی ہوں گی نیز ایسے مکانات طیبہ میں، جودائمی مسرتوں کے باغوں میں ہیں، تمہیں بسائے رکھے گا (غور کرو تو) یہی سب سے بڑی کامیابی ہے الصف
13 اس کے علاوہ ایک دوسری نعمت بھی تمہیں ملے گی یعنی اللہ کی طف سے غیبی نصرت کانزول ہوگا اور تم عنقریب فتح مندہ ہوجاؤ گے (اے پیغمبر) یہ بشارت ہے مسلمانوں کو پہنچا دو الصف
14 اے ایمان والو تم اللہ کے مددگار بنو جس طرح عیسیٰ بن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا گھا کون ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت دینے میں میرا مددگار، حواریوں نے جواب دیا تھا ہم اللہ کے مددگار ہیں، پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا، پھر جو لوگ ایمان لائے تھے ان کی ہم نے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی، سو وہ غالب ہو کررہے الصف
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الجمعة
1 جومخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ سب اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں جو بادشاہ ہے پاک ذات ہے اور بڑا زبردست اور بڑی حکمت والا ہے (١) الجمعة
2 وہی ہے جس نے امیوں میں سے ایک رسول انہی میں سے مبعوث کیا، جوان پر خدا کی آیات کی تلاوت کرتا ہے ان کے اخلاق کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی باتیں سکھاتا ہے، حالانکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے (٢)۔ الجمعة
3 اور اس رسول کی بعثت دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے اور وہ اللہ بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے الجمعة
4 یہ (نبوت) اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے الجمعة
5 جن لوگوں پر تورات کے (علم وفضل کا) بار ڈالا گیا تھا پھر انہوں نے اس کابار نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بڑی بڑی کتابیں اٹھائے ہوئے ہو جن لوگوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی ان کی مثال (اس سے بھی) بری ہے اور ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا (٣۔ ٤)۔ الجمعة
6 اے پیغمبر) یہودیوں سے کہہ دو کہ اگر تمہیں اس بات کا دعوی ہے کہ تمام بندوں میں سے تم اللہ کے ولی اور دوست ہو تو (اس کی آزمائش یہ ہے کہ خدا کی راہ میں) موت کی آرزو کرو اگر تم سچے ہو (توضرور ایسا کرو گے الجمعة
7 اور یہ (اللہ اور اس کی تعلق داری کا جھوٹا دم بھرنے والے) کبھی موت کی تمنا کرنے والے نہیں کیونکہ انہوں نے ایسے کام کیے ہیں جوانہیں موت کے تصور سے ڈراتے ہیں اور (اور وہ زندگی کی مہلت کو غنیمت سمجھے ہوئے ہیں) اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے الجمعة
8 ان سے کہہ دو (اے نفس پرستو) جس موت سے تم اس قدر بھاگتے ہو وہ (کچھ تمہیں چھوڑ نہ دے گی) ایک دن ضرور آئے گی پھر تم اس خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے (٥) پھر جو کچھ تم کرتے رہے وہ تم کو اس سے آگاہ کردے گا الجمعة
9 اے ایمان والو جب جمعہ کے روز نماز کے لیے ندا کی جائے تو فورا اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے بشرطیکہ تم جانو الجمعة
10 پھر جب نماز پوری ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح یاب ہوجاؤ الجمعة
11 اور (اس کے برعکس) جب انہوں نے تجارت یاکھیل تماشا ہوتے ہوئے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا ان سے کہہ دیجئے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بدرجہا بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے (٦)۔ الجمعة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المنافقون
1 اے نبی جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں (مگر) اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین جھوٹے ہیں (١) المنافقون
2 انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے اس طرح یہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں بے شک یہ برے کام ہیں جو یہ لوگ کررہے ہیں المنافقون
3 یہ اس لیے کہ وہ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے لہذا ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی اب یہ لوگ (حق بات کو نہیں سمجھ پاتے المنافقون
4 اگر تم ان کے ظاہری ڈیل ڈول دیکھو تونہایت نظر فریب اور موثر نظر آئیں اور جب بات کریں تو اس طمطراق سے کہ تم بڑی دل چسپی سے سنو، تمہارے سامنے اس طرح جم کر اور ٹیک لگا کربیٹھتے ہیں گویالکڑیوں کے کندے ہیں جو کسی سہارے کھڑے کردییگئے ہیں پھر یہ بھی ان کی خاص علامت ہے کہ جب بات کیجئے تو زور کی ہر آواز کو سمجھتے ہیں کہ انہیں للکارا آپ ان سے محتاط رہیے اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر پھرے جارہے ہیں (٢)۔ المنافقون
5 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کارسول تمہارے لیے بخشش کی دعا کرے تو یہ لوگ اپنے سرپھیر لیتے ہیں اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ متکبرانہ انداز میں بے رخی برتتے ہیں المنافقون
6 اے نبی تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرویانہ کرو (یہ دونوں) ان کے لیے یکساں ہیں اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کرے گا بیشک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (٣) المنافقون
7 یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس رہتے ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ (کود بخود ہی) منتشر ہوجائیں حالانکہ زمین و آسمان کے تمام خزانے اللہ ہی کے ہیں لیکن منافقین اتنی بات بھی نہیں سمجھتے المنافقون
8 یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ جائیں تو جوعزت والا ہے وہ ذلیل کو باہر نکال کرے گا حالانکہ عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن یہ غافل جانتے نہیں المنافقون
9 اے ایمان والو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے، اور جوایسا کریں گے تو وہی لوگ سخت نقصان اٹھانے والے ہیں المنافقون
10 اور جو کچھ ہم نے تم کودیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ اے میرے پروردگارتو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہ دے دی تاکہ میں صدقہ دیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہوجاتا المنافقون
11 حالانکہ جب کسی جاندار کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔ المنافقون
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے التغابن
1 جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے وہ سب اللہ کی تسبیح میں لگی ہوئی ہے اسی کی سلطنت ہیی اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے (١) التغابن
2 وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے (٢) التغابن
3 اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت ومصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن وخوبی سے بنائیں (٣) اور سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے التغابن
4 وہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو سب اس کو معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ سینوں کے حال تک سے بخوبی واقف ہے التغابن
5 کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا پھر انہوں نے اپنے عملوں کے وبال کا مزہ چکھ لیا اور (آخرت میں) ان کے لیے دردناک عذاب ہے التغابن
6 یہ (دنیا اور آخرت کا عذاب) اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کردیا اور روگرداں ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی پرواہ نہ کی اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے (٤) التغابن
7 منکرین نے بڑے دعوے سے کہا وہ ہرگز دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے آپ فرمادیجئے کیوں نہیں میرے رب کی قسم، تم ضرور زندہ کیے جاؤ گے پھر تمہیں جرور بتایاجائے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے التغابن
8 سوتم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے التغابن
9 جب اجتماع کے روز وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا، یہی ہار جیت کا دن ہے اور جو شخص اللہ پر ایمان لایا ہوگا اور اس نے نیک عمل کیے ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اس سے دور کرے گا اور اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی وہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے التغابن
10 و اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کی تکذیب کی یہ لوگ جہنمی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ بہت براٹھکانہ ہے التغابن
11 کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ تعالیٰ ہی کے اذن سے آتی ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو صحیح راہ دکھا دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ التغابن
12 اللہ کی طاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم روگردانی کرتے ہو تو ہمارے ذمہ تو صرفصاف صاف پہنچادینا ہے التغابن
13 اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں لہذا مومنوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں التغابن
14 اے ایمان والو تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں سوان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو ودرگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے التغابن
15 تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو (تمہارے لیے آزمائش ہیں اور اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے التغابن
16 لہذا جس قدر تم میں استطاعت ہو، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور اسکاحکم سنو اور اطاعت بجالاؤ اور اپنے مال خرچ کرتے رہو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور جو لوگ نفسانی بخل سے محفوظ رہے بس وہی فلاح پانے والے لوگ ہیں التغابن
17 اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھاکر (اس کا اجر) عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی قدردان اور بڑے تحمل والا ہے التغابن
18 وہ غائب اور حاضر ہر چیز کو جانتا ہے زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔ التغابن
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الطلاق
1 اے نبی ! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا ارادہ کرتو ان کی عدت کا خیال کرتے ہوئے طلاق دو اور (طلاق کے بعد ان کی) عدت شمار کرتے رہو (١، ٢) اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے تم مطلقہ عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہکسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں، یہ (احکام) اللہ کے (مقرر کردہ) حدود ہیں اور جو بھی اللہ تعالیٰ کے حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا تم نہیں جانتے شاید اللہ تعالیٰ اس (طلاق دینے) کے بعد کوئی نئی صورت پیدا کردے الطلاق
2 پھر جب وہ (مطلقہ عورتیں) اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو معروف کے مطابق یاتوان کو (نکاح میں) روک رکھو اور یا معروف کے مطابق ان کو الگ کردو اور اپنے میں سے دو صاحب عدل آدمیوں کو گواہ بنالو ور اللہ کے لیے گواہی ٹھیک ٹھیک ادا کرو یہ ہر اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے او جو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو اللہ تعایل اس کے لیے خلاصی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کردے گا الطلاق
3 اور اسے ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں سے (کچھ ملنے کا) اسے خیال تک نہ ہو اور جس نے اللہ پربھروسہ کیا سو اللہ کی اعانت ونصرت اس کے لیے بس کرتی ہے بے شک اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے بلاشبہ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے الطلاق
4 اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اسی طرح ان عورتوں کی عدت بھی تین مہینے ہے جن کو ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے کام میں سہولت پیدا کردیتا ہے۔ الطلاق
5 یہ اللہ کا حکم ہے کہ جو تمہاری طرف نازل کیا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ اس سے دور کردے گا اور اس کابڑا اجر دے گا (٣)۔ الطلاق
6 تم ان مطلقہ عورتوں کو (زمانہ عدت میں) اپنی بساط کے مطابق اسی جگہ رکھو جہاں تم خود رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک وہ اپنا حمل وضع نہ کرلیں۔ پھر اگر وہ تمہارے لیے دودھ بچہ کو پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو اور مناسب طور پر باہمی مشورہ دے (اجرت کا معاملہ) طے کرلولیکن اگر تم دونوں (اجرت کے طے کرنے میں) دشواری پیدا کرو گے تو اس بچے کو دوسری عورت دودھ پلاوے گی۔ الطلاق
7 صاحب وسعت کو اپنی وسعت کیمطابق خرچ کرنا چاہیے اور جو تنگ دست ہوتوجوکچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے اس کواسی میں خرچ کرنا چاہیے اللہ نے جتنا کچھ کسی کودی ہے اس سے زیادہ کی اسے تکلیف نہیں دیتا اللہ تعالیٰ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا کرتا ہے الطلاق
8 اور کتنی ہی آبادیاں تھیں جن کے رہنے والوں نے اپنے پروردگار اور اسکے رسولوں کی صداقتوں سے سرتابی کی اور عصیان وطغیان پر اتر آئے تب ہم نے بڑی سختی کے ساتھ ان کے کاموں کا حساب لیا اور بڑے ہی سخت عذاب (٤) میں گرفتار کیا الطلاق
9 بالاآخر ان کے اعمال کاوبال ان کے آگے آیا اور (گوطاقت اور عظمت میں بہت بڑھ چکے تھے) لیکن ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہوا الطلاق
10 اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کررکھا ہے پس اے دانش مندلوگو۔ یعنی ایمان والو تم خدا سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک نعمت نازل کی ہے الطلاق
11 ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے جو احکام الٰہی کو واضح کرنے والی ہیں تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے اور جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ لوگ ان میں ہمیشہ رہیں گے بے شک اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے عمدہ رزق تیار کررکھا ہے الطلاق
12 اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین کو بھی پیدا کیا، ان آسمانوں اور زمین میں اللہ کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ نے اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے۔ الطلاق
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے التحريم
1 اے پیغمبر تم اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے اس چیز کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کردی ہے (١)۔ التحريم
2 اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے بیشک اللہ نے تمہارے لیے فرض کردیا ہے کہ اپنی قسموں کو کھول دو، وہ تمہارا دوست ہے اور سب باتوں کو جاننے والا ہے اور ان کی حکمتوں پر نظر رکھنے والا ہے التحريم
3 اور جب کہ پیغمبر نے اپنی بعض بیویوں سے راز کی بات کہی اور اس نے فاش کردی اور اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کو اس کی خبر دے دی تو پیغمبر نے اسب ات کا کچھ حصہ تو جتادیا اور کچھ کو نظر انداز کردیا پھر جب پیغمبر نے اسے جتایا تو یہ سن کر بیوی نے پوچھا کہ آپ کو کس نے خبر دی؟ فرمایا اس خدا نے جس کے علم وخبر سے کوئی چیزباہر نہیں التحريم
4 اگر تم دونوں خدا کی طرف رجوع کرو (تویہ تمہارے لیے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل مائل ہوچکے ہیں اور اگر رسول اللہ کے مقابلے میں ایکا کرو گی تو جان لوگو کہ اللہ ان کا مددگار ہیی اور جبرائیل اور نیک مسلمان بھی ان کے ساتھ ہیں اور سب کے بعد ملائکہ بھی انہی کے مددگار ہیں التحريم
5 اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دیدو تو بعید نہیں کہ اس کا ارتکاب تمہارے بدلے میں تم سے بہتر بیویاں اس کو دیدے جو مسلمان، باایمان، اطاعت گزار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار اور روزہ دار ہوں (کچھ) شوہر دیدہ (بیوہ، مطلقہ اور کچھ) باکرہ ہوں التحريم
6 اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پرنہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں جوحکم اللہ تعالیٰ ان کودیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو بھی حکم نہیں دیا جاتا ہے بجالاتے ہیں التحريم
7 اس روز کہا جائے گا) اے کافرو آج کوئی عذر پیش نہ کرو تم کو صرف انہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو تم کیا کرتے تھے (٢)۔ التحريم
8 اے ایمان والو تم اللہ کے سامنے خالص توبہ کرو، بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ تم سے دور کردے اور تمہیں جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی (٣)۔ اور وہ (نتائج وعواقب امور کا) دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا اور ذلیل نہیں کرے گا، ان کے ایمان کی روشنی ان کے آگے اور داہنی طرف ساتھ چل رہی ہوگی اور ان کی زبان پر یہ دعائیں ہوں گی کہ خدایا، اس روشنی کو ہمارے لیے آخرتک رکھیو، اور ختم نہ کردیجو، نیز ہمارے قصوروں کو معاف کردیجیو بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے اے نبی کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے ان کاٹھکانا جہنم ہے اور (وہ بہت برا ٹھکانا ہے) التحريم
9 اللہ تعالیٰ کفار کے لیے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان فرماتا ہے وہ ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں پھر ان دونوں نے ان نیک بندوں سے خیانت کی اور وہ دونوں اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ کام نہ آئے اور ان دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جاؤ آگ میں داخل ہونے والے لوگوں کے ساتھ تم بھی داخل ہوجاؤ(٤) التحريم
10 اور اللہ تعالیٰ کفار کے لیے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان فرماتا ہے وہ ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں پھر ان دونوں نے نیک بندوں کی خیانت کی اور وہ دونوں اللہ کے مقابلے میں کچھ ان کے کام نہ آئے اور ان دونوں عورتوں سے کہہ دیا گیا کہ جاؤ آگ میں داخل ہونے والے لوگوں کے ساتھ تم بھی داخل ہوجاؤ۔ التحريم
11 اور اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرماتا ہے جب اس نے دعا کی، اے میریرب، میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور اس ظالم قوم سے مجھے نجات عطا فرما التحريم
12 اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال (بھی) بیان فرماتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی اور مریم نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی (٥)۔ التحريم
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الملك
1 بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں سارے جہان کی سلطنت ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے (١) الملك
2 جس نے موت اور زندگی (دونوں) اس لیے بنائیں کہ تمہیں آزما کردیکھے کہ کون تم میں سے بہتر عمل کرتا ہے (اور کون برے؟) اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے الملك
3 جس نے تہ برتہ سات آسمان بنادیے (اے دیکھنے والے) تم الرحمن کی بناوٹ میں (کیونکہ یہ اس کی رحمت ہی کا ظہور ہے) کبھی کوئی اونچ نیچ نہیں پاؤ گے (اچھا نظر اٹھاؤ اور اس نمائش گاہ صحت کا مطالعہ کرو) ایک بار نہیں، بار بار دیکھو، کیا تمہیں کوئی دراڑ دکھائی دیتی ہے (٢)۔ الملك
4 تم یکے بعد دیگرے دیکھو، تمہاری نگاہ اٹھے گی اور عاجز ودرماندہ ہو کر واپس آجائے گی لیکن کوئی نقص نہیں نکال سکے گی (٣) الملك
5 دیکھو ہم نے دنیا کے آسمان (کرہ ارضی کی فضا) کوستاروں کی قندیلوں سے خوش منظر بنایا اور انہیں شیاطین کو بھگانے کا ذریعہ بنایا اور آخرت میں ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کررکھا ہے الملك
6 اور جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کے لیے بھی جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے الملك
7 جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو اس کے دھاڑنے کی آواز سنیں گے اور وہ (ایسی) بھڑک رہی ہوگی (گویا ) الملك
8 مارے جوش کے پھٹ پڑے گی جب بھی کوئی گروہ اس میں ڈالاجائے گا تو دوزخ کے کارندے ان سے پوچھیں گے کیا (خدا کے عذاب سے) ڈرانے والا (کوئی پیغمبر) تمہارے پاس نہیں آیا تھا؟ الملك
9 وہ جواب دیں گے ہاں ڈرانے والا توہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے (اسے) جھٹلا دیا اور کہا کہ خدا نے تو کچھبھی نازل نہیں کیا ہے بلاشبہ تم بہت بڑی گمراہی میں ہو الملك
10 اور (یہ بھی) کہیں گے، اگر ہم (پیغمبر کی بات) سنتے اور سمجھتے تو (آج) اہل دوزخ میں شامل نہ ہوتے الملك
11 اس طرح وہ اپنے قصور کا خود ہی اعتراف کرلیں گے سو دوزخیوں پر (اللہ کی) پھٹکار ہو الملك
12 دوسری طرف) جو لوگ بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لیے (آخرت میں) مغفرت ہے اور (علاوہ مغفرت کے) بڑے اجر (یعنی جنت ہے الملك
13 اور تم خواہ چپکے سے بات کہو یا پکار کر کہو وہ تو تمہارے دلوں کے خیالات (تک) سے واقف ہے الملك
14 بھلایہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جو ذات پیدا کرے وہی (اپنی مخلوق کی حالت کو) نہ جانے؟ حالانکہ وہ (بڑا) باریک بیں (اور) باخبر ہے الملك
15 وہی (خدا تو) ہے جس نے زمین کو تمہارے (چلنے پھرنے کے) لیے نرم ہموار کررکھا ہے پس (جدھر چاہو) اس کے وسیع راستوں پر چلتے پھرتے رہو اور خدا کا دیا ہوا رزق (مزے سے) کھاؤ اور (یہ یاد رکھو کہ قیامت کے دن) اسی کے حضور تمہیں زندہ ہو کر جانا ہے الملك
16 خدا جو آسمان میں ہے کیا تمہیں اس کے جلال سے ڈر نہیں کہ زمین میں تم کو دھنسا دے اور وہ پڑی جھکولے مار کرے الملك
17 یا جو آسمان میں ہے تمہیں اس کے غضب کا کوف نہیں رہا کہ تم پر پتھراؤ کرے؟ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا ڈرانا کیسا تھا (٤)۔ الملك
18 اور ان سے (یعنی کفار مکہ سے) پہلے بھی جو لوگ گزر چکے ہیں (وہ اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو کہ میری نکیر ان پر کیسی (تباہ کن ثابت) ہوئی ؟ الملك
19 کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو پرکھولے اور سمیٹے ہوئے اڑتے نہیں دیکھا انہیں الرحمن کے سوا کون تھامے ہوئے ہے اللہ کی نظروں سے کوئی چیز مخفی نہیں الملك
20 لوگو) بھلا (خدائے) رحمان کے سوا کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر (مصیبت کے وقت) تمہاری مدد کرے؟ (بلاشبہ) کافر تو نرے (شیطان کے) فریب میں پڑے ہوئے ہیں الملك
21 یا پھر کون ہے جو تمہیں روزی دے اگر خدائے رحمن اپنی روزی روک لے؟ دراصل یہ کافر تو سرکشی اور (حق سے) گریز پر اڑے ہوئے ہیں الملك
22 بھلا تم ہی بتاؤ ایک شخص منہ اوندھا کیے چلا جارہا ہے وہ زیادہ راہ پانے والا ہے یا وہ شخص جو سیدھا راہ راست پر چل رہاہو؟ الملك
23 کہہ دو کہ اسی کی ذات خالق کائنات ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے (اندر حواس ظاہری) کان آنکھیں اور دل اور ان کی قوتیں ودیعت کیں مگر تم لوگ کم ہی شکر ادا کرتے ہو الملك
24 ان سے کہو کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا رکھا ہے اور (قیامت کے دن) اسی کے حضور جمع کیے جاؤ گے الملك
25 اور یہ کہتی ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ، یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ الملك
26 آپ کہہ دیجئے اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے میں تو صاف ڈرانے والا ہوں اور بس الملك
27 پھر جب یہ اس کو (یعنی قیامت کو) قریب سے دیکھیں گے تو (مارے ہیبت کے) ان کافروں کے چہرے بگڑجائیں گے اور ان سے کہا جائے گا یہی وہ عذاب ہے جس کے لیے تم (پیہم) تقاضا کیا کرتے تھے الملك
28 اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے بھلادیکھو تواگر اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کردے یا ہماری حالت پر رحم فرمائے تو کوئی ہے جو کافروں کو دردناک عذاب سے بچالے گا؟ الملك
29 ان سے کہہ دیجئے وہ اللہ بڑا رحمن کرنے والا ہے پم اسی پر ایمان لائے اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے لہذا عنقریب ہی تمہیں پتہ چل جائے گا کہ (ہم دونوں فریقوں میں) صریح گمراہی میں کون ہے (اور کون ہدایت پر ہے) الملك
30 ان سے کہہ دیجئے بھلاتم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تمہارا پانی (جوتم پیتے ہو) اگر زمین میں نیچے اترجائے تو کون ہے جو تم کو نتھرا (یابہتا ہوا) پانی لاکردے گا۔ الملك
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے القلم
1 نون۔ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں القلم
2 تواپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں (١) القلم
3 وار تیرے واسطے بے انتہا بدلہ ہے القلم
4 اور تو بڑے خلق پر پیدا ہوا ہے القلم
5 عنقریب تم بھی دیکھ لوگے اور یہ کفار بھی دیکھ لیں گے القلم
6 کہ دونوں تم فریقوں میں سے کون سافریق مخبوط ہیی القلم
7 بے شک تمہارا پروردگار ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹکتے ہوئے ہیں اور وہی ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جوراہ راست پر ہیں القلم
8 تم جھٹلانے والوں کی اطاعت نہ کرنا نہ ان کے کہے میں آجانا القلم
9 وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ مداہنت کرو ڈھیل دو تو وہ بھی ملائم پڑجائیں القلم
10 خبردار تو کسی ایسے کی طاعت نہ کرنا اور نہ اس کی بات ماننا جو بہت ساری قسمیں کھاتا ہے آبرو وباختہ ہے القلم
11 لوگوں پر آوازے کستا ہے چغلیاں لگاتا پھرتا ہے القلم
12 اچھے کاموں سے لوگوں کو روکتا ہے حد سے بڑھ گیا ہے بدکار ہے القلم
13 اکھڑ ہے، ان عیوب کے علاوہ بداصل بھی ہے القلم
14 اس بنا پرکہ وہ مال واولاد والابھی ہے القلم
15 جب ہماری آیتیں اسے پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ اگلے لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں القلم
16 اچھا دیکھو تو ہم عنقریب اس کے ناکڑے (ناک) پر داغ لگائیں گے القلم
17 جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا اسی طرح ہم نے ان کافروں کی بھی آزمائش کی ہے، ان باغ والوں نے قسمیں کھائی تھیں کہ صبح ہوتے ہی ہم اس کے میوے توڑیں گے القلم
18 اور اس سے کوئی بھی استثناء نہ ہونیپ ائے گا القلم
19 وہ سوتے ہی سوتے رہ گئے اور تمہارے پروردگار کی طرف سے باغ پرایک ایسی بلا چھاگئی القلم
20 کہ صبح ہوتے ہی وہ بالکل خالی رہ گیا (جیسے کوئی سارے میوے لوٹ لے گیا) القلم
21 سویرے جب لوگ اٹھے اور ایک دوسرے کو آواز دی۔ القلم
22 کہ تم کو میوے توڑنے ہیں تو اٹھو تڑکے سے باغ میں جاپہنچو القلم
23 لوگ اٹھے اور چل پڑے آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے القلم
24 کہ دیکھنا کہ آج کوئی غریب آدمی باغ کے اندر نہ آنے پائے القلم
25 سمجھتے تھے کہ بس اب جاتے ہی سارے میوے توڑلیں گے سازوسامان سے چلے اور سویرے پہنچ گئے القلم
26 باغ کو جب دیکھا کہ اجڑا پڑا ہے تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں القلم
27 نہیں راستہ تو یہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی القلم
28 ان میں سے جو سب سے بہتر آدمی تھا کہنے لگا کیا میں تم سے نہیں کہا کرتا تھا کہ اپنے اس آخری معبود ہی کو تسبیح وتقدیس کیوں نہیں کرتے (جوتمام مشکلوں کو حل کرنے والا ہے) القلم
29 بولے پاک ہے ہمارا پروردگار یقینا ہم ہی ظالم تھے القلم
30 پس لگے آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے القلم
31 اور آخرکار سب بول اٹھے کہ ہائے ہمارے کمبختی بے شک ہم بڑی نافرمانیوں اور گمراہیوں میں مبتلا تھے ہم حد سے بڑھ گئیتھے القلم
32 شاید ہمارا پروردگار ہمیں اس کے بدلے اس سے چھا باغ عنایت کرے اب ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہیں القلم
33 ظالموں پر ایسے ہی عذاب اترتا ہے اور انجام کار جو عذاب نازل ہونے والا ہے اگر اس کی حقیقت جان لیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اس سے بھی بڑا عذاب ہے القلم
34 جن لوگوں میں تقوی (اسلامی کریکٹر) ہے ان لوگوں کے لیے بے شک ان کے پروردگار کے پاس نعمت اور برکت والے باغ ہیں القلم
35 کیا ہم مسلمانوں کو گناہ گاروں کے برابر کردیں گے (٢) القلم
36 تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کیسے حکم لگایا کرتے ہو؟ القلم
37 کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟ القلم
38 کہ تم جوپسند کرو گے وہی تمہیں ملے گا؟۔ القلم
39 یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو روز قیامت تک چلی جائیں گی کہ تم جس چیز کی فرمائش کرو گے وہی تمہارے لیے موجود کردی جائے گی القلم
40 ان لوگوں سے پوچھو کہ ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے؟ القلم
41 کیا ان لوگوں کے اور شرکاء بھی ہیں؟ اگر ہیں اور یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو لائیں اور حاضر کریں القلم
42 وہ دن آنے والا ہے جب کہ ساق (الٰہی) کھلے گی اور ان لوگوں کوسرافگندگی (سجدے) کید عوت دی جائیگی مگر اس سوقت ان میں اتنی قدرت واستطاعت کہاں؟ القلم
43 ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی صورتوں پر ذلت چھارہی ہوگی یہ وہی لوگ ہیں جب انہیں سرجھکانے کو کہا جاتا تو اس وقت یہ اچھے خاصے اور صحیح وسالم تھے (٣)۔ القلم
44 ہم کو اور ان لوگوں کو جو اس کلام کو جھٹلاتے ہیں اپنے اپنے حال پر رہنے دو، ہم اس طرح پر کہ انہیں خبر بھی نہ ہوآہستہ آہستہ گھسیٹے اور ڈھیل دیتے چلے جارہے ہیں القلم
45 بے شک ہماری تدبیر نہایت پختہ اور محکم ہے القلم
46 کیا تم ان سے کسی بات کی اجرت مانگتے ہو کہ اس کے تاوان سے یہ دیے جارہے ہیں القلم
47 یاان کے غیب کی خبریں آتی ہیں اور یہ انہیں لکھ لیا کرتے ہیں القلم
48 بہرحال تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں ثابت قدم رہو اور اس مچھلی والے کی طرحنہ ہوجاؤ جس نے مغموم ہو کر خدا کو آواز دی تھی القلم
49 اگر پروردگار عالم کا فضل وکرم اس کی دستگیری نہ کیے ہوتاتوبڑے برے حالوں، فضائے زمین پر پھینکا ہوا پڑا رہتا القلم
50 لیکن پروردگار کو بندہ نوای منظور تھی اس نے نوازش کی پھر اپنے صالح بندوں میں جونیک وبہتر زندگی بسر کررنے کی صلاحیت رکھتے تھے شامل کردیا القلم
51 اور کافر جب قرآن سنتے ہیں تو اس طرح اپنی نظروں سے گھورتے ہیں جیسے وہ تجھ کو صحیح راہ سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے القلم
52 حالانکہ یہ (قرآن) سارے جہان کے لیے نصیحت ہے۔ القلم
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الحاقة
1 ) ایک شدنی اور ہونے والی بات تھی (١، ٢) الحاقة
2 اور تم جانتے ہو کہ وہ کون سی شدنی بات تھی؟ الحاقة
3 اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ کون سی شدنی بات تھی؟ الحاقة
4 ثمود اور عاد نے (اس) کھڑا کھڑا ڈالنے والے (حادثے) کو جھٹلایا الحاقة
5 سو ثمود تو ایک چنگھاڑ سے ہلاک کردییگئے الحاقة
6 اور عاد ایک زناٹے کی سخت آندھی سے تباہ کردیے گئے الحاقة
7 جسے اللہ تعالیٰ نے برابر سات راتیں اور آٹھ دن ان پر چلائے رکھا، آپ (اگر وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہاں اس طرح پچھڑے پڑے تھے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں الحاقة
8 اب کیا ان میں سے کوئی بچا ہوانظر آتا ہے الحاقة
9 اور فرعون اور اس سے پہلے کے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں والوں نے جرائم کا ارتکاب کیا الحاقة
10 چنانچہ انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو اس نے ان کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا الحاقة
11 لوگو ! جب پانی کا طوفان حد سے گزر گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں سوار کرلیا الحاقة
12 تاکہ اس واقعہ کو تمہارے لیے نصیحت آموز بنادیں، اور جوکان اسے (سن کر) یاد رکھنے کے قابل ہیں وہ یاد رکھیں الحاقة
13 پھر جب ایک (پہلی مرتبہ) صور میں پھونک مار دی جائے گی الحاقة
14 اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ساتھ پٹک دیے جائیں گے اور وہ دفعۃ چور چور ہوگئے الحاقة
15 پس آج ہی قیامت کاسب سے بڑا دن آگیا الحاقة
16 آسمان پھٹ پڑے اور اس کی چولیں ڈھیلی ہوگئیں۔ الحاقة
17 فرشتے اس کے اطراف میں ہوں گے اور اس دن تیرے پروردگار کے عرش کو (٣) آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے الحاقة
18 لوگو) اس روز تم اپنے رب کے حضور پیش کیے جاؤ گے اور تمہارا کوئی راز بھی مخفی نہیں رہے گا الحاقة
19 توجس کو اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا، لویہ مرانامہ (اعمال تو) پڑھو الحاقة
20 مجھے تو (دنیا میں) یقین تھا کہ ایک روز مجھے میرا حساب ملنے والا ہے الحاقة
21 پس وہ خاطر خواہ عیش میں ہوگا الحاقة
22 یعنی) عالی مقام جنت میں الحاقة
23 جس کے پھل جھکے پڑ رہے ہوں گے الحاقة
24 اور ان سے کہا جائے گا) کہ گزشتہ دنوں (یعنی دنیا میں) جو تم نے عمل کیے تھے ان کے بدلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو الحاقة
25 اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کاش میرا نامہ اعمال مجھے نہ ملاہوتا الحاقة
26 میں نے نہ جانا ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے الحاقة
27 کاش، اس موت سے (میری ہستی کا) خاتمہ ہوگیا ہوتا الحاقة
28 میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا الحاقة
29 میراسارا اقتدار تباہ ہوگیا الحاقة
30 حکم ہوگا) اس کو پکڑ لو اور اس کے گلے میں طوق ڈال دو الحاقة
31 پھر (لے جاکر) اسے جہنم میں جھونک دو الحاقة
32 پھر اسے ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑ دو الحاقة
33 کیونکہ یہ خدائے بزرگ وبرتر پر ایمان لاتا تھا الحاقة
34 اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی طرف راغب ہوتا تھا الحاقة
35 پس آن نہ کوئی اس کا دوست دار ہے الحاقة
36 اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا (اس کے لیے) کچھ کھانے کو ہے الحاقة
37 جسے خطاکاروں کے بغیر کوئی نہیں کھائے گا الحاقة
38 تو (لوگو) میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جو تم دیکھ رہے ہو الحاقة
39 اور ان کی بھی جو تمہیں نظر نہیں آتیں الحاقة
40 کہ یہ (قرآن مجید) بلاشبہ رسول کریم کا گفتار ہے (٤)۔ الحاقة
41 اور نہ یہ کسی شاعری کی (بنائی ہوئی) بات ہے (مگر) تم لوگ کم ہی یقین کرتے ہو الحاقة
42 اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، مگر تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو الحاقة
43 یہ تو رب العالمین کا اتارا ہواکلام ہے الحاقة
44 اگر اس (نبی) نے خود کوئی بات بناکرمنسوب کی ہوتی الحاقة
45 تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے الحاقة
46 پھر ہم اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے الحاقة
47 اور تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اس بات سے نہ روک سکتا الحاقة
48 اور کچھ شک نہیں کہ یہ (قرآن) اہل تقوی کے لیے نصیحت ہے الحاقة
49 اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ تم میں کچھ لوگ جھٹلانے والے ہیں الحاقة
50 اس میں کچھ شک نہیں جو کچھ ہوا کافروں کے لیے موجب ماتم وحسرت ہے الحاقة
51 اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ ایک یقینی صداقت کا ظہور ہے الحاقة
52 پس اپنے پروردگار کی حمدوثنا کروجس نے دشمنان اسلام کوشادی کی جگہ حسرت ونامرادی میں مبتلا کردیا۔ الحاقة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المعارج
1 ایک مانگنے والے نے (جلدی کرکے) عذاب مانگا (٢) المعارج
2 کافروں پر واقع ہونے والا ہے، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں المعارج
3 ، جو اللہ ذی المعارج (بلند درجوں (٣) کی طرف سے المعارج
4 ملائکہ اور روح اس کی طرف ایک ایسے دن میں (٤) چڑھ جائیں گے جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے المعارج
5 تو (اے نبی ان کے جھٹلانے پر) صبر جمیل کیجئے المعارج
6 یہ لوگ اسے بعید (از قیاس) سمجھتے ہیں المعارج
7 اور ہم اسے قریب سے ردیکھ رہے ہیں المعارج
8 جس روز کہ آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح سرخ ہوجائے گا المعارج
9 اور پہاڑ رنگ برنگ کی (دھنکی ہوئی) اون کی طرح ہوجائیں گے المعارج
10 اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو دکھائی دینے پر بھی نہ پوچھے گا المعارج
11 مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں المعارج
12 اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی المعارج
13 اور اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا المعارج
14 اور روئے زمین کے سب لوگ فدیہ میں دے دے پھریہ اسے نجات دلا دے المعارج
15 ہرگز نہیں وہ تو آگ کی لپیٹ ہوگی المعارج
16 جو سر کی کھلڑی ادھیڑ ڈالے گی المعارج
17 پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہراس شخص کو جس نے (دنیا میں حق بات سن کر) پیٹھ پھیری اور روگردانی (اختیار) کی۔ المعارج
18 اور مال جمع کیا اور سینت سینت کررکھا المعارج
19 بے شک انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے المعارج
20 جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے المعارج
21 اور خیر، یعنی مال دولت، حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے المعارج
22 مگر وہ لوگ (اس عیب سے محفوظ ہیں) جو نمازی ہیں (٥)۔ المعارج
23 یعنی وہ جوہمیشہ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں المعارج
24 اور انکے اموال میں ایک حصہ مقرر ہے المعارج
25 سائل اور نہ مانگنے والے (محتاج) کا المعارج
26 اور روز جزا پر یقین رکھتے ہیں المعارج
27 اور اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں المعارج
28 کیونکہ ان کے رب کا عذاب ڈرنے کالائق ہے المعارج
29 اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں المعارج
30 بجز اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے (کہ ان سے استمتاع میں) ان پر کچھ الزام نہیں ہے المعارج
31 ہاں جو لوگ ان کے علاوہ (اور کے) طلب گار ہوں تو وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں المعارج
32 اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس کرتے ہیں المعارج
33 اور جو اپنی گواہیوں میں سچائی پر قائم رہتے ہیں المعارج
34 اور وہ جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں المعارج
35 یہی وہ لوگ ہیں جو (بہشت کے) باغوں میں عزت سے رہیں گے المعارج
36 پس اے نبی، ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے المعارج
37 کہ دائیں اور بائیں سے گروہ درگروہ تمہاری طرف دوڑے چلے آرہے ہیں المعارج
38 کیاان میں سے ہر شخص یہ لالچ رکھتا ہے کہ نعمت بھری جنت میں داخل کرلیاجائے گا؟ المعارج
39 یہ تو ہونا نہیں ان کو معلوم ہے کہ ہم نے جس چیز سے ان کو پیدا کیا ہے المعارج
40 پروردگار عالم شاہد ہے کہ ہم اس بات کی قدرت رکھتے ہیں المعارج
41 کہ جیسے لوگ اب ہیں ہم انہیں بدل کرکے ان سے اچھی قوم لائیں اور اس کام میں کسی نے بھی ہم پر سبقت حاصل نہ کی ہوگی المعارج
42 انہیں چھوڑ دو کہ غوروخوض اور لہولعب میں پڑے رہیں یہاں تک کہ عذاب کا دن آئے اور اس روز غفلت کا نتیجہ ظاہر ہوجائے المعارج
43 جس روز کہ یہ قبروں سے نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے جیسے دوڑ کے مقررہ نشانوں کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں المعارج
44 ان کی نظریں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان (کے چہروں) پر ذلت چھارہی ہوگی، یہی وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ المعارج
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے نوح
1 ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف (رسول بناکر) بھیجا اور حکم دیا کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کردے، قبل اس کے کہ ان پر دردناک عذاب آنازل ہو (٢)۔ نوح
2 چنانچہ) اس نے (اپنی قوم سے) کہا، اے میری قوم کے لوگو میں تم کو صاف صاف خبردار کرنے والا (پیغمبر) ہوں نوح
3 کہ تم (ایک) اللہ کی عباست کرو وراسی سے ڈرو اور میری اطاعت کرو نوح
4 ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں مقررہ وقت تک مہلت دے گا، بلاشبہ جب اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وقت آجاتا ہے تو وہ (کسی ٹالے) ٹل نہیں سکتا کاش تمہیں اس کا علم ہوگا نوح
5 نوح نے (اپنا فرض رسالت ادا کرچکنے کے بعد بالآخر) عرض کی خداوند، میں نے شب وروز دعوت حق دی نوح
6 لیکن اس کا الٹا اثر یہ ہوا کہ لوگ مجھ سے دوربھاگنے لگے نوح
7 میں نے جب ان کو تیری مغفرت کے لیے پکارا انہوں نے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں، اپنے کپڑوں میں لپٹ گئے کہ ان تک تیری آواز نہ پہنچ سکے آہ، یہ ناحق شناس قوم ہمیشہ سخت ہٹ دھرمی اور باطل پرستانہ گھمنڈکا اظہار کرتی رہی نوح
8 میں اس پر بھی باز نہیں آیا، پھر انہیں پکار پکار کرتیرا پیغام پہنچایا نوح
9 اور اس کے بعد ظاہر پوشیدہ ہر طرح سمجھایا نوح
10 میں نے ان سے کہا : اپنے رب سے بخشش طلب کرو بیشک وہ بڑابخشنے والا ہے نوح
11 وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا نوح
12 اور مال واولاد سے تمہاری مدد کرے گا، تمہیں باغ دے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا نوح
13 تمہیں کیا ہوگا کہ تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے؟ نوح
14 حالانکہ اس نے تم کو طرح طرح سے بنایا ہے نوح
15 کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سات آسمان تہ برتہ بنائے؟ نوح
16 اور آسمانوں میں) خدا تعالیٰ نے چاند کو بھی بنایا جوایک نور ہے اور سورج کو بھی بنایا کہ ایک روشن مشعل ہے نوح
17 للہ تعالیٰ ہی نے تم کو زمین سے اگایا نوح
18 پھر وہ تمہیں اسی زمین میں لوٹا کرلے جایاجائے گا اور (قیامت کے دن) اسی سے تمہیں نکال کھڑا کرے گا نوح
19 اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لیے فرش (کی طرح ہموار) بنادیا۔ نوح
20 تاکہ تم اس کے کھلے راستوں پر چلو پھرو نوح
21 بالاآخر نوح نے عرض کیا خدایا بایں ہمہ سعی دعوت واصلاح ان سرکشوں نے میرا کہنا نہ مانا اور انہی معبودان باطل کی غلامی کرتے رہے جنہیں ان کے مال اور ان کی اولاد نے فائدے کی جگہ الٹا نقصان پہنچایا نوح
22 اور ان لوگوں نے بڑے بھاری مکر کیے ہیں نوح
23 اور (ایک دوسرے کو) کہا ہیکہ، اپنے معبودوں کو مت چھوڑو اور نہ ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر کو (٣)۔ نوح
24 اور انہوں نے (یعنی رئیسوں یابتوں نے) بہتیروں کو گمراہ کیا ہے اور تو بھی ان ظالموں کو گمراہی کے سوا کسی چیز میں ترقی نہ دے نوح
25 آخر اپنی ہی خطاؤں کی بنا پر وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے پھر انہوں نے اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہ پائے نوح
26 اور (نیز) نوح نے کہا میریرب ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے اولا نہ چھوڑ نوح
27 اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی نسل سے جو بھی ہوگا وہ بدکار سخت کافر ہی ہوگا نوح
28 میرے رب مجھے میرے والدین اور جو کوئی ایمان لاکر میرے گھر میں داخل ہوجائے (سب کو بخش دے) اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو بھی معاف فرما دے، اور ظالموں کے لیے تباہی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر۔ نوح
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الجن
1 اے نبی (ان سے) کہہ دیجئے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے (مجھے قرآن پڑھتے) غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے کہا) کہ ہم نے بڑا ہی عجیب (قسم کا) قرآن سنا ہے الجن
2 جوراہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے سوہم اس پر ایمان لائے ہیں اور (اب) ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں کریں گے (١)۔ الجن
3 اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے نہ تو کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ اولاد رکھتا ہے الجن
4 اور یہ کہ ہم میں کچھ نادان لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ناحق باتیں کہتے رہتے ہیں الجن
5 اور یہ کہ، ہم تو سمجھتے تھے کہ انسان اور جن (کوئی بھی) خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتے الجن
6 اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے اس طرح انہوں نے جنوں کو اور بھی زیادہ مغرور بنادیا الجن
7 اور یہ کہ انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا کہ تمہارا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی (پیغمبر بنا کر) نہ بھیجے گا الجن
8 اور یہ کہ، ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ سخت پہرہ داروں اور شہابوں سے پٹا پڑا ہے الجن
9 اور یہ کہ پہلے تو ہم سننے کے لیے آسمان کے ٹھکانوں میں (جا) بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو (چوری چھپے) سننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے لیے گھاٹ میں لگا ہوا ایک شہاب ثاقب پاتا ہے الجن
10 اور یہ کہ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برامعاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یاان کارب انہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے۔ الجن
11 اور یہ کہ، ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں۔ (غرض) ہم مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں الجن
12 اور یہ کہ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم نہ توزمین میں (رہ کر) اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہراسکتے ہیں الجن
13 اور یہ کہ جب ہم نے ہدایت کی بات سنی تو اس پر ایمان لے آئے۔ اب جو بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے گا تو اسے نہ کسی قسم کی حق تلفی اور نہ ظلم ہی کا خوف ہوگا الجن
14 اور یہ کہ ہم میں سے کچھ مسلمان (فرمانبردار) اور کچھ سرتابی کرنے والے ہیں تو جنہوں نے اسلام میں فرمانبرداری کی راہ اختیار کی انہوں نے نجات کی راہ تلاش کرلی الجن
15 لیکن جو سرتاب ہوگئے تو وہ دوزخ کا ایندھن بننے والے ہیں الجن
16 اور (میرے پاس یہ وحی بھیجی گئی ہے کہ) اگر لوگ سیدھی راہ پر قائم ہوجاتے تو ہم ان کو وافر پانی سے خوب سیراب کرتے الجن
17 تاکہ ہم اس (احسان سے) ان کو پرکھیں۔ اور جو کچھ اپنے پروردگار کی یاد سے روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ناقابل برداشت عذاب میں داخل کرے گ الجن
18 اور یہ کہ مسجدیں (٢) صرف اللہ ہی کے لیے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو الجن
19 اور جب بندہ مخلص (حضرت داعی اسلام) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو لوگ اس کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں اور اس طرح نزدیک آکر دیکھتے ہیں گویا قریب ہے کہ لپٹ پڑیں گے۔ الجن
20 اے نبی (ان سے) کہیے کہ میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا الجن
21 آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لیے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ بھلائی (راہ راست پرلانے) کا۔ الجن
22 آپ کہہ دیجئے مجھے نہ تو اللہ (کے غضب) سے کوئی بچاسکتا ہے اور نہ میرے لیے اس کے سوا کوئی جائے پناہ ہے الجن
23 میرا بچاؤ تو صرف اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (جوحکم آیا ہے) اور اس کے پیغام کو (لوگوں تک) پہنچا دوں۔ اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے الجن
24 ہ لوگ ماننے والے نہیں) تاوقتیکہ اس (عذاب) کو نہ دیکھ لیں جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو (اس وقت) انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کون گنتی میں کم ہے؟ الجن
25 اے پیغمبر ان سے) کہیے کہ میں نہیں جانتا کہ جس (عذاب) کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے ایک مدت مقرر فرماتا ہے الجن
26 وہی عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا الجن
27 ہاں جس رسول کو پسند فرمالے تو اس کے آگے اور پیچھے (فرشتوں کا) پہرہ لگا دیتا ہے الجن
28 تاکہ معلوم ہوجائے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیے، اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس نے ایک ایک چیز کو گن رکھا ہے۔ الجن
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المزمل
1 اے کپڑے میں لپٹنے والے (١) المزمل
2 رات (کے وقت نماز) میں کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی رات (آرام کرلیا کرو المزمل
3 یعنی آدھی رات یا اس سے کچھ کم المزمل
4 یا اس سے کچھ زیادہ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو المزمل
5 ہم تم پر ایک بھاری کلام (قرآن مجید) نازل کرنے والے ہیں المزمل
6 بے شک رات کو اٹھنا (نفس کو) خوب روندنا ہے اور اس کی تلاوت (یادعا) کرنا بہت ٹھیک ہوتا ہے المزمل
7 دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں المزمل
8 اپنے پروردگار کا ذکر کرو اور سب کی طرف سے آنکھیں بند کرکے صرف اسی کے ہوجاؤ المزمل
9 وہ پروردگار تمام عالم میں اسی کی ربوبیت کارفرما ہے اور اس کے سوا کارساز عالم اور کوئی نہیں سو جب ایسا کارساز تمہارے ساتھ ہے تو تم اور کسی کی طرف کیوں نظر اٹھاؤ ؟ بس اسی کو اپنا کارساز یقین کرو المزمل
10 رہا منکرین حق کا ظلم ان کا کبر باطل اور باطل پرست کامیابیوں کے دعوے اور اعلانات، سوچاہیے کہ ان پر صبر کرو۔ سردست بغیر کسی سختی کے ان سے الگ ہوجاؤ المزمل
11 اور انہیں ان کے حال پر زیادہ نہیں تو تھورے دنوں کے لیے چھوڑ دو، پھر دیکھو کہ حق کے یہ جھٹلانے والے، جوطرح طرح کی خوشحالیوں اور دنیوی عزتوں میں اپنے تئیں پاکر بڑے ہی متکبر اور مغرور ہوگئے ہیں المزمل
12 بالاآخر کیسانتیجہ پاتے ہیں ہمارے پاس اگر ان کے لیے مہلت تھی تو اب ان کے جکڑنے کے لیے بیڑیاں اور ان کی عقوبت کے لیے آگ بھی ہے المزمل
13 اور حلق سے نیچے نہ اترنے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے المزمل
14 یہ عذاب اس دن وہگا جب کہ زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے اور پہاڑ پھسلنے والے ریت کے تودوں کی طرح ہوجائیں گے المزمل
15 ہم نے تمہاری جانب ایک رسول بھیجا تمہارے آگے حق کی شہادت دینے والا، جس طرح فرعون کی جانب ہم نے ایک رسول بھیجا تھا المزمل
16 فرعون نے ہمارے رول کی نافرمانی کی سو ہمارے غضب نے اسے بڑا ہی سخت پکڑا اور اس کاسارا گھمنڈ اور غرور باطل بیکار ہوگیا (٢)۔ المزمل
17 پھر اے منکرین اسلام۔ اگر تم بھی اسی طرح نافرمانی کرو گے تو اس دن کی مصیبت سے کیسے بچ سکو گے جس کی سختی بچوں کو مارے غم کے بوڑھا کردے گی المزمل
18 اس دن آسمان پھٹ جائیگا اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکررہے گا المزمل
19 یہ قرآن نصیحت ہے پھر جو کوئی چاہے اس پر عمل پیرا ہو کر پروردگار کی طرف راستہ پیدا کرے المزمل
20 اے پیغمبر تمہارا پروردگار واقف ہے کہ تم راتوں کو اللہ کی یاد اور ذکر کے لیے جاگتے ہو، کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہارئی رات، اور ایک جماعت تمہارے ساتھیوں کی اس شب بیدار نہ عبادت میں تمہارے ساتھ شریک ہوتی ہے رات اور دن کے تمام (اشغال واعمال) کا اللہ تعالیٰ ہی اندازہ کرسکتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ تم (بوجہ انہماک عبادت اور کمال محویت وخود فراموشی) وقت کو محفوظ نہیں کرسکتے اس لیے اس نے تمہارے حال پر ارادہ لطف وکرم کیا اور وقت کی قید اٹھا دی۔ پس اب جس قدر بھی آسانی سے قرآن پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ تم میں سے بعض آدمی بیمار پڑیں گے، بعض تلاش معاش وتجارت کے سلسلے میں سیروسیاحت کررہے ہوں گے بعض خدا کی راہ میں دشمنان اسلام سے لڑتے ہوں گے بہرحال ایسی صورت میں اب یہی حکم ہے کہ شب کو جس قدر (تہجد کی نماز میں) قرآن باآسانی پڑھا جاسکتا ہے، پڑھو اور اپنے جسم پربہت زیادہ بار نہ ڈالو، اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیتے رہو، اور جو بھلائی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے وہی بھلائی اور اجر میں بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں پاؤ گے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو، بے شک اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے (٣)۔ المزمل
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المدثر
1 اے چادر اوڑھ کر سونے والے (١)۔ المدثر
2 اٹھ، پھر لوگوں کو ڈرا المدثر
3 ) اپنے خدا کی تکبیر کہہ المدثر
4 اپنے کپڑوں کو پاک کرو المدثر
5 اور اب توں سے دوری اختیار کر المدثر
6 اور زیادہ حاصل کرنے کے لیے (کسی کے ساتھ) احسان نہ کرو المدثر
7 اور اپنے رب (کی رضاجوئی) کے لیے (تکالیف) برداشت کرو المدثر
8 پھر جب صور میں پھونکا جائے گا المدثر
9 پس وہی دن ہے کہ بڑی ہی سختی اور مشکل کا دن ہوگا المدثر
10 جس میں کسی راہ کسی شکل میں بھی آسانی کی صورت نظرنہ آئے گی المدثر
11 تم مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلاپیدا کیا المدثر
12 ) اور (پھر) اسے بہت سا مال دیا المدثر
13 اور سامنے موجود رہنے والے بیٹے دیے المدثر
14 اور ہر طرح کا سامان اس کے لیے مہیا کردیا المدثر
15 پھر (اس پربھی) وہ طمع رکھتا ہے کہ اسے اور زیادہ دوں المدثر
16 ہرگز نہیں، وہ ہماری آیتوں سے بغض وعناد رکھتا ہے (٢)۔ المدثر
17 میں اسے سخت چرھائی پر چڑھواؤں گا المدثر
18 اس نے سوچا اور اندازہ کیا المدثر
19 تواس کو (خدا کی) مارکہ اس نے کیسی اٹکل دوڑائی المدثر
20 پھر اس پر (خدا کی) مار کہ اس نے کیسی اٹکل دوڑائی المدثر
21 پھر (مجھ پر) نگاہ ڈالی المدثر
22 پھر تیوری چڑھائی اور خوب منہ بنایا المدثر
23 پھر پیٹھ پھیری اور تکبر میں پڑ گیا المدثر
24 اور کہنے لگا، یہ قرآن کچھ نہیں مگر (ایک قسم کا) جادو ہے جو (پہلوں سے) نقل ہوتا چلا آرہا ہے المدثر
25 یقینا یہ تو کسی بشر کا کلام ہے المدثر
26 میں عنقریب اسے دوزخ میں جھونک دوں گا المدثر
27 اور تم کیا جانو کہ وہ دوزخ ہے کیا چیز؟ المدثر
28 نہ وہ باقی رکھے اور نہ چھوڑے المدثر
29 کھال کو جھلس دینے والی المدثر
30 اس پر انیس (فرشتے) مقرر ہیں المدثر
31 اور ہم نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے ہیں اور ان کی تعداد (انیس) کا کافروں کے لیے فتنہ بنادیا ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے، اور اہل کتاب اور مومنین کو (قرآن مجید کی صداقت میں) کسی قسم کا شبہ نہ رہے اور جن کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے اور کفاریہ کہیں کہ ایسی باتوں کے بیان کرنے سے اللہ کو کیا غرض ہے؟ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے اور تمہارا پروردگار اس کاراز ہستی کی کارفرمائیوں کے لیے) جوفوجیں رکھتا ہے، ان کا حال اس کے سوا کون جانتا ہے؟ اور یہ (دوزخ کا ذکر) تو صرفنصیحت کے لیے ہے المدثر
32 سچ کہتا ہوں، اور قسم ہے چاند کی المدثر
33 پس قسم ہے رات (انتظار ٰکی جب وہ ختم ہونے لگے المدثر
34 اور صبح (نتائج) کی جب وہ روشن ہوجائے المدثر
35 کہ دنیا کے عظیم الشان واقعات میں سے یہ ایک واقعہ ہے المدثر
36 ( اور آنے والے نتائج وحوادث سے) انسان کو ڈرانے والا ہے المدثر
37 البتہ یہ اقدار وتخویف انہی کے لیے ہے جو تم میں سے نظر عبرت رکھتے ہیں اور جن کا دماغ فہم وتدبر کے لیے متحرک رہتا ہے یعنی جو تم میں سے آگے بڑھنا یاپیچھے ہٹنا چاہتے ہیں، ایک ہی خیال پر منجمد نہیں پتھر کی طرح المدثر
38 ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے المدثر
39 مگر داہنے ہاتھ والے۔ المدثر
40 جنت میں ہوں گے، پوچھیں گے ایک دوسرے سے المدثر
41 مجرموں کے متعلق المدثر
42 پھر گناہ گاروں کی طرف متوجہ ہو کرپوچھیں گے) تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لے گئی؟ المدثر
43 وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے المدثر
44 اور نہ مسکین کو کھانا کھلاتے تھے المدثر
45 اور بے ہودہ بکنے والوں کے ساتھ ہم بھی بکواس کرتے تھے المدثر
46 اور ہم روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے المدثر
47 حتی کہ ہم پر موت آپہنچی المدثر
48 تواس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی انکوکچھ فائدہ نہ دے گی المدثر
49 ان کو کیا ہوگیا کہ یہ اس نصیحت سے روگردانی کررہے ہیں المدثر
50 گویا یہ جنگلی گدھے ہیں المدثر
51 جوشیر سے ڈر کربھاگ پڑے ہیں المدثر
52 بلکہ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے صحیفے دیے جائیں المدثر
53 ہرگز نہیں، بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) یہ لوگ آخرت سے نہیں ڈرتے المدثر
54 ہرگز نہیں، یہ توایک نصیحت ہے المدثر
55 پھر جس کا جی چاہے اسے مان لے المدثر
56 اور یہ نہیں مانیں گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مشیت ہو، اس کی شان یہ ہے کہ اس سے ڈرائے جائے اور اس کی شان کے لائق ہے کہ وہ ڈرنے والوں کو بخش دے۔ المدثر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے القيامة
1 میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی (١)۔ القيامة
2 اس پاک روح کی قسم جو گناہ کرنے کے بعد انسان کو بہت ملامت کرتی ہے (٢)۔ القيامة
3 کیاانسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم (اس کے مرنے کے بعد) اس کی ہڈیاں جمع نہ کرسکیں گے ؟ القيامة
4 کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور درست کردینے پر قادر ہیں القيامة
5 بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ آئندہ بھی برے کام کرتا رہے (اس لیے قیامت کا انکار کرتا ہے القيامة
6 پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا؟ القيامة
7 جب نظر پتھرا جائے گی القيامة
8 اور چاند بے نور ہوجائے گا القيامة
9 اور سورج اور چاند ملادیے جائیں گے القيامة
10 اس وقت انسان کہے گا، اب کہاں بھاگ کرجاؤں القيامة
11 ہرگز نہیں، کہیں پناہ نہ ملے گی القيامة
12 اس روز تیرے رب ہی کے حضور ٹھہرنا ہوگا القيامة
13 اس روز انسان کو سب اگلے پچھلے اعمال جتلادیے جائیں گے (٣)۔ القيامة
14 بلکہ انسان کا وجود خود اس (کی کج اندیشیوں) کے خلاف ایک حجت ہے القيامة
15 اگرچہ وہ (اپنے وجدان کے خلاف) کتنے ہی عذر بہانے تلاش کرے القيامة
16 اے نبی) قرآن مجید اترتے وقت) اس کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے القيامة
17 اس کو یاد کرادینا اور پڑھوادینا ہمارے ذمہ ہے القيامة
18 لہذا جب ہم سے پڑھیں تو تم غور سے سنتے رہو القيامة
19 پھر اس کی وضاحت بھی ہمارے ذمہ ہے (٤)۔ القيامة
20 ہرگز نہیں بلکہ تم جلد حاصل ہونے والی چیز (متاع دنیا) سے محبت رکھتے ہو القيامة
21 اور آخرت کوچھوڑ دیتے ہو القيامة
22 اس روز بہتوں کے منہ تروتازہ ہوں گے القيامة
23 جواپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے القيامة
24 اور بہت سے منہ اس روز برے بن رہے ہوں گے القيامة
25 ان کو گمان ہوگا کہ ایسی سختی ان کے ساتھ ہونے والی ہے کہ ان کی کمر توڑ دے گی (٥)۔ القيامة
26 خوب سمجھ لو کہ جب ہنسلی تک جان پہنچے گی القيامة
27 لوگ چلا اٹھیں گے کہ کوئی جھاڑنے والا ہے؟ القيامة
28 یقین ہوجائے گا کہ یہ (دنیا سے) مفارقت کا دن ہے القيامة
29 اس وقت پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی القيامة
30 تویاد رکھ اسی دن تجھے اپنے رب کی طرف چلنا ہوگا القيامة
31 مگر اس نے نہ تصدیق کی نہ نماز پڑھی القيامة
32 بلکہ جھٹلایا اور منہ مورا القيامة
33 پھراکڑتا ہوا اپنے گھروالوں کی طرف چل دیا القيامة
34 تجھ پر افسوس درافسوس القيامة
35 پھرافسوس درافسوس القيامة
36 کیاانسان خیال کرتا ہے کہ وہ سہل چھوڑ دیا جائے گا اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہوگی؟ القيامة
37 کیا اس پر یہ حالت نہیں گزرچکی کہ پیدائش سے پہلے نطفہ تھا؟ القيامة
38 پھر نطفہ سے علقہ (جونک کی سی چکل) ہوا پھر علقہ سے ٠ اس کا ڈیل ڈل) پیدا کیا گیا پھر اس (ڈیل ڈول کو) ٹھیک ٹھیک درست کیا گیا القيامة
39 پھر اس کی دو قسمیں کیں (یعنی) نر اور مادہ القيامة
40 کیا وہ اللہ اس پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو جلا اٹھائے؟ القيامة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الإنسان
1 بے شک زمانے میں انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرچکا ہے جبکہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا (١، ٢)۔ الإنسان
2 بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا (٣) جسے (ایک کے بعد ایک) مختلف حالتوں میں پلٹتے ہیں پھر اسے ایسا بنادیا کہ سننے اور دیکھنے والاوجود ہوگیا (٤)۔ الإنسان
3 ہم نے اس پر راہ عمل کھول دی اب یہ اس کا کام ہے کہ یا تو شکر کرنے والا ہو ناشکر الإنسان
4 بے شک ہم نے کافروں کے لیے (آخرت میں) زنجریں اور طوق اور دہکتی آگ تیار کررکھی ہے الإنسان
5 جولوگ نیک ہیں وہ بلاشبہ (جنت میں) ایسے شراب کے جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی الإنسان
6 وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اور جہاں چاہیں گے اسے بہالے جائیں گے الإنسان
7 یہ لوگ ہوں گے جونذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی الإنسان
8 اور اللہ تعالیٰ کی محبت وہ مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں الإنسان
9 اور کہتے ہیں) ہمارا یہ کھلانا اس کے سوا کچھ نہیں کہ محض اللہ تعالیٰ کیل یے ہے ہم تم سے نہ تو بدلہ چاہتے ہیں نہ کسی طرح کی شکرگزاری الإنسان
10 ہمیں تو اپنے رب سے اس دن (کے عذاب) کا خوف لگا ہوا ہے جونہایت اداس اور سخت ہوگا۔ الإنسان
11 ) سو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس دن کی سختی سے بچالے گا اور ان کو تازگی اور مسرت سے ہمکنار کرے گا الإنسان
12 اور ان کے صبر واستقلال کے صلے میں انہی جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا الإنسان
13 وہ مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور اس جنت میں نہ وہ سورج کی گرمی پائیں گے اور نہ جاڑے کی سختی الإنسان
14 جنت (کے درختوں) کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے پھل ان کے اختیار میں کردیے جائیں گے الإنسان
15 اوران پر چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالوں کا دور چل رہا ہوگا الإنسان
16 شیشے بھی وہ جو چاندی کی قسم کے ہوں گے (یعنی سفید شفاف) جن کو (خدام جنت نے) ٹھیک ٹھیک اندازے کے موافق بھرا ہوگا الإنسان
17 اوران کو وہاں (ایسی شراب کے) جام پلائے جائیں گے جن میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی الإنسان
18 وہ جنت میں ایک چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل ہوگا الإنسان
19 اوران کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے پھرتے ہوں گے جوہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے جب تو انہیں دیکھے گا توسمجھے کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں الإنسان
20 اور جب تو بہشت کو دیکھے تو وہاں بہ کثرت نعمتیں اور بڑی سلطنت کا سامان تمہیں نظر آئے گا الإنسان
21 ان کے اوپر باریک رشیم کے سبز لباس اور دبیز ریشم کے کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کارب انہیں شراب طہور (یعنی نہایت پاکیزہ شراب) پلائے گا (٥)۔ الإنسان
22 اوران سے کہا جائے گا) یہ تمہارا اصلہ ہیں اور تمہاری کوشش قابل قدر ٹھہری الإنسان
23 اے پیغمبر) بیشک ہم نے ہی آپ پر تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن مجید نازل فرمایا ہے (٦)۔ الإنسان
24 سوآپ اپنے رب کے حکم پر صبر کیجئے اور ان میں سے کسی بدکار یا کافر کی بات نہ مانیے الإنسان
25 اور صبح وشام اپنے رب کا نام لیاکیجئے الإنسان
26 اور رات کو اس کے حضور سجدہ ریز رہیے اور رات کے طویل حصہ میں اس کی تسبیح کرتے رہیے الإنسان
27 یہ لوگ تو دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور آگے جو بھاری دن آنے والا ہے اسے نظر انداز کررہے ہیں (٧)۔ الإنسان
28 ہم نے ہی ان کو پیدا کیا اور ہم نے ہی ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں اور جب ہم چاہیں توانہی جیسے لوگ لے آئیں الإنسان
29 بلاشبہ یہ نصیحت (کی باتیں) ہیں جو شخص چاہے اپنے رب تک پہنچنے کاراستہ اختیار کرلے الإنسان
30 اور مشیت الٰہی کے بغیر تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے بے شک اللہ تعایل بڑیعلم اور بڑی حکمت والا ہے الإنسان
31 وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ الإنسان
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المرسلات
1 قسم ہے ان ہواؤں کی جوابتدا میں معمولی رفتار سے چلائی جاتی ہیں (١، ٢) المرسلات
2 پھر یکایک زور پکڑ کرتیز ہوجاتی ہیں المرسلات
3 پھر بادلوں کو چاروں طرف سے پھیلادیتی ہیں المرسلات
4 پھرانہیں پھاڑ کرالگ الگ کردیتی ہیں المرسلات
5 پھر قسم ہے ان کی اس لیے کہ وہ انسان کے دل میں قدرت الٰہی کا خیال پیدا کردیتی ہیں المرسلات
6 اپنی عجیب وغریب مختلف حالتوں سے المرسلات
7 کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ ضرور واقع ہونے والے ہے المرسلات
8 سوجب ستارے ماند پڑجائیں گے المرسلات
9 اور جب آسمان میں شگاف پڑجائیں گے المرسلات
10 اور جب پہاڑ اڑادیے جائیں گے المرسلات
11 اور جب رسولوں کے پیش ہونے کا وقت مقرر کردیا جائے گا المرسلات
12 آخر یہ کس دن کے لیے تاخیر کی گئی ؟ المرسلات
13 یہ معاملہ) فیصلہ کے دن کے لیے (ملتوی رکھا گیا ہے المرسلات
14 اور آپ کو کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا ہے؟ المرسلات
15 اس روز تکذیب کرنے والوں کے لیے بڑی تباہی ہے المرسلات
16 کیا ہم نے طغیان وعصیان کی پاداش میں اگلی قوموں کو ہلاک نہیں کیا؟۔ المرسلات
17 پس اسی طرح ہم پچھلی قوموں کو بھی عذاب میں متبلا کردیں گے المرسلات
18 یہ ہمارا قانون ہے کہ اپنے مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں المرسلات
19 پس اس دن اللہ کی سچائی کو جھٹلانے والوں پر افسوس المرسلات
20 کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کی المرسلات
21 اور اسے محفوظ مقام نہیں رکھا؟ المرسلات
22 ایک مقررہ انداز سے تک المرسلات
23 پھر ہم نے اس کا اندازہ کیا، سوہم کیا ہی اچھا اندازہ کرنے والے ہیں المرسلات
24 اس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے بڑی تباہی ہے المرسلات
25 کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا المرسلات
26 زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی المرسلات
27 اور اس میں اونچے اونچے مضبوط پہاڑجمادیے اور ہم نے تمہیں میٹھا پانی پلایا المرسلات
28 تباہی ہے اس روزجھٹلانے والوں کے لیے المرسلات
29 اس دن منکروں سے کہا جائے گا) اب چلواس عذاب کی طرف جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے (٣) المرسلات
30 چلواس (دھویں کے) سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے المرسلات
31 جو (درحقیقت) نہ توسایہ ہے اور نہ آگ ہی کی لپٹ سے بچاتا ہے المرسلات
32 وہ (سایہ) محل جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکتا ہے المرسلات
33 گویاوہ زرد رنگ کے اونٹ ہیں۔ المرسلات
34 اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے المرسلات
35 یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ کچھ نہ بول سکیں گے المرسلات
36 اورانہیں اسبات کی اجازت بھی نہ دی جائے گی کہ کوئی عذر پیش کریں المرسلات
37 اس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے المرسلات
38 یہ وہ فیصلے کا دن ہے (جس میں) ہم نے تمہیں اور اگلے لوگوں کو جمع کردیا ہے المرسلات
39 پھر اگر کوئی چل چل سکتے ہو تو میرے مقابلہ میں چل دکھاؤ المرسلات
40 تباہی سے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے المرسلات
41 البتہ متقی لوگ (اس روز) سایوں اور چشموں المرسلات
42 اور من پسند میووں میں ہوں گے المرسلات
43 کھاؤ اور پیو خوب مزے سے ان اعمال کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے المرسلات
44 ہم نیک سیرت لوگوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں المرسلات
45 اس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے بڑی تباہی ہے المرسلات
46 ) (A) (اے منکرین حق) تم تھوڑے دنوں کے لیے کھا (پی) لو اور مزے اڑالو یقینا تم مجرم ہو المرسلات
47 اس روز جھٹلانے والوں کے لیے بڑی تباہی ہے المرسلات
48 جب ان (منکروں) سے کہا جاتا ہے کہ (اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو) تو وہ نہیں جھکتے المرسلات
49 اس روز جھٹلانے والوں کے لیے بڑی تباہی ہے المرسلات
50 اب آخر اس (قرآن) کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر ایمان لائیں گے؟۔ المرسلات
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النبأ
1 یہ لوگ ایک دوسرے سے کس بات کا حال دریافت کررہے ہیں؟ النبأ
2 اس بہت بڑے حادثے کی بابت (١، ٢) النبأ
3 جس کی نسبت یہ مختلف طرح کی رائیں رکھتے ہیں النبأ
4 توخیر بہت جلد انہیں معلوم ہوجائے جگا النبأ
5 پھر کہتے ہیں کہ بہت جلد معلوم ہوجائے گا النبأ
6 کیا ہم نے زمین کو آرام گاہ النبأ
7 اور پہاڑوں کو اس کا ستون نہیں بنایا؟ النبأ
8 کیا ہم نے تم کو جوڑاجوڑا نہیں پیدا کیا النبأ
9 اور تمہاری نیند کو ایک غافل کردینے والی چیز نہیں بنایا؟ (٣)۔ النبأ
10 اور رات کو پردہ بنادیا النبأ
11 اور دن کو معاش کا وقت بنادیا النبأ
12 اور ہم ہی نے تمہارے اوپر ساتھ آسمان بنادیے النبأ
13 اور ایک روشن چراغ (یعنی آفتاب) بنایا (٤)۔ النبأ
14 اور ہم ہی نے برسنے والے بالوں سے بکثرت پانی برسایا النبأ
15 تاکہ اس کے ذریعہ سے غلہ نبابات النبأ
16 اور لپٹے ہوئے باغ اگائیں النبأ
17 بے شک فیصلے کا دن مقرر ہے النبأ
18 وہ دن جبکہ آخری نتائج کے ظہور کا صور پھونکا جائے گا اور تم فوج درفوج ہر طرف سے آجمع ہوگے النبأ
19 اور آسمان کھول دیا جائے گا اور وہ دروازے ہی دروازے بن کررہ جائے گا النبأ
20 اور پہاڑ چلائے جائیں گے حتی کہ وہ سراب بن جائیں النبأ
21 بے شک جہنم ایک گھات ہے النبأ
22 سرکشوں کے لوٹنے کی جگہ ہے النبأ
23 وہ اس میں قرن ہاقرن پڑے رہیں گے النبأ
24 اس میں کسی ٹھنڈک اور پینے کا مزہ نہیں چکھیں گے النبأ
25 ماسوا گرم پانی اور بہتی ہوئی پیپ کے النبأ
26 اور وہ اپنے کرتوتوں کا) بھرپور بدلہ دیے جائیں گے النبأ
27 کیونکہ وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے النبأ
28 اور ہماری آیتوں کو انہوں نے بار بار جھٹلایا تھا النبأ
29 حالانکہ ہم نے ہر چیز کو قلم بند کرکے ضبط کررکھا ہے النبأ
30 سو (ان سے کہا جائے گا کہ) اب مزہ چکھو ہم تم پر عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے النبأ
31 یقینا پرہیزگاروں کے لی کامرانی ہے (٥)۔ النبأ
32 باغ اور انگور ہیں النبأ
33 اور نوجوان ہم عمر عورتیں ہیں النبأ
34 اور چھلکتے ہوئے جام ہیں النبأ
35 وہاں یہ لوگ کوئی لغو اور جھوٹی بات نہیں سنیں گے النبأ
36 ان کو یہ صلہ دیا جائے گا جو آپ کے رب کی جانب سے کامل انعام ہوگا۔ النبأ
37 اس نہایت مہربان کی طرف سے جو آسمان، زمین اور جو کچھ ان دونون کے درمیان ہے سب کا مالک ہے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس سے خطاب کرسکے النبأ
38 جس روز کہ روح اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے کوئی کلام نہیں کرسکے گا مگر ہاں جسے خدائے رحمان اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک کہے النبأ
39 اس دن کا واقع ہونا یقینی ہے جو شخص چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کاراستہ اختیار کرے النبأ
40 ہم نے تم کو قریب آنے والے عذاب سے ڈرادیا ہے جس روز کی آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکاراٹھے گا، کاش میں مٹی ہوجاتا۔ النبأ
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النازعات
1 قسم ہے ان فرشتوں کی جو سختی سے کھینچتے ہیں (١)۔ النازعات
2 اوران کی جونرمی سے نکال لے جاتے ہیں النازعات
3 اوران کی جو کائنات میں) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں النازعات
4 پھر ان کی جو (حکم بجا لانے میں) دوڑ کر آگے بڑھتے ہیں النازعات
5 پھر (احکام الٰہی کے مطابق) ہر کام کی تدبیر کرتے ہیں النازعات
6 وہ ہولناک دن، جبکہ زمین کانپ اٹھے گی النازعات
7 جب ایک بھونچال کے بعد دوسرا بھونچال آئے گا النازعات
8 جب انسان کے دل دھڑک اٹھیں گے النازعات
9 اور جب اٹھتی ہوئی نظریں جھک جائیں گی النازعات
10 اور کہیں گے، کیا ہم (دنیا میں اس قدر ترقی کرکے اور آگے بڑھ کے) پھر (وحشت کی طرف) لوٹائے جائیں گے؟ النازعات
11 اور وہ بھی ایسی حالت میں جب گل سڑ کرہڈیاں ہوجائیں گے (یقین کرو ایسا ہی ہونے والا ہے) النازعات
12 کہنے لگے یہ واپسی بڑے خسارے کی ہوگی النازعات
13 پس وہ واقعہ ایک سخت آواز ہوگی النازعات
14 جس کے ساتھ ہی یہ لوگ کھلے میدان میں آموجود ہوں گے النازعات
15 اے پیغمبر) کیا تمہیں موسیٰ کے قصے کی خبر پہنچی ہے النازعات
16 جب کہ اسے اس کے رب نے طوی کی مقدس وادی میں پکارا تھا النازعات
17 اے موسیٰ فرعون کی طرف جاؤ، کیونکہ وہ نہایت ظالم اور سرکش ہوگیا ہے النازعات
18 اور اسے کہو کہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے النازعات
19 اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں، توتیرے دل میں اس کی خشیت پیدا ہوجائے؟ النازعات
20 پھر موسیٰ نے (فرعون کے پاس پہنچ کر) اسے بڑا نشان دکھایا النازعات
21 مگر اس نے جھٹلادیا اور نافرمانی کی النازعات
22 پھر وہ چالبازیاں کرنے پلٹا النازعات
23 چنانچہ لوگوں کو جمع کیا النازعات
24 اور پکار کریوں گویا ہوا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں !۔ النازعات
25 آخرکار اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذاب میں پکڑ لیا النازعات
26 بے شک اس واقعہ میں ہراس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جو ڈرتا ہے النازعات
27 کیا تمہیں دوبارہ پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو بنانا اللہ نے آسمان کو بنایا (٢)۔ النازعات
28 اس کے تلینچے کو بلند کیا اور پھر اس کو درست فرمایا النازعات
29 اور اس کی رات کو تاریک کیا اور اس کے دن کو ظاہر کردیا النازعات
30 اس کے بعد زمین کو بچھایا النازعات
31 زمین (کے اندر) سے اس کا پانی اور چارہ نکالا النازعات
32 اور پہاڑوں کو جمادیا النازعات
33 یہ سب کچھ تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے فائدہ ہے النازعات
34 پھر جب وہ ہنگامہ بپا ہوگا النازعات
35 جس روز انسان اپنی دوڑ دھوپ کو یاد کرے گا النازعات
36 اور دیکھنے والوں کے سامنے جہنم کو ظاہر کردیا جائے گا النازعات
37 پس جو شخص سرشک ہوا النازعات
38 اور دنیوی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی النازعات
39 تواس کاٹھکانا صرف جہنم ہے النازعات
40 لیکن جو شخص خدا سے ڈرا اور اپنے دل کو ان نفسانی خواہشوں سے روکا (جوطلم وتمرد اور طغیان وفساد کی طرف لے جاتی ہیں) النازعات
41 ) تو اس کاٹھکانا جنت ہے النازعات
42 یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا (٣)۔ النازعات
43 اس کا وقت بیان کرنے سے آپکا کیا واسطہ؟ النازعات
44 اس کے علم کا منتہا توتیرے رب کی جانب ہے النازعات
45 بس آپ تو صرفاس کو خبردار کرنے والے ہیں جو اس (قیامت) سے ڈرتا ہے النازعات
46 یہ لوگ جس دن اسے دیکھیں گے تو ان کو ایسا معلوم ہوا کہ گویاوہ دنیا میں دن کا آخری حصہ یا ابتدائی حصہ ٹھہرے ہیں۔ النازعات
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے عبس
1 ترش رو ہوئے اور منہ پھیر لیا عبس
2 اس لیے کہ ان کے پاس ایک نابینا آگیا (١)۔ عبس
3 تجھے کیا خبر شاید کہ وہ سنور جائے؟ عبس
4 یاوہ کوئی نصیحت کی بات قبول کرلے اور نصیحت کرنا اس کے نافع ہو؟ عبس
5 جوشخص بے پروائی کرتا ہے (٢)۔ عبس
6 اس کی طرف تو تم توجہ دیتے ہو؟ عبس
7 حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو آپ پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے عبس
8 لیکن جو شخص خود آپ کے پاس دوڑ آتا ہے عبس
9 اور وہ ڈرتا بھی ہے (٣)۔ عبس
10 توآپ اس سے تغافل کابرتاؤ کرتے ہیں؟ عبس
11 ہرگز نہیں یہ (قرآن مجید) توایک نصیحت ہے عبس
12 سوجس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ عبس
13 یہ مکرم، معظم، عبس
14 بلند مقام اور پاکیزہ صحیفوں میں درج ہے عبس
15 جو ہاتھ میں رہتے ہیں عبس
16 بزرگ اور نیک کاتبوں کے عبس
17 غارت ہوجائے انسان وہ کیسا سخت منکر حق ہے عبس
18 اس اللہ نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا؟ عبس
19 نطفہ سے پیدا کیا پھر اس (کی تمام باطنی وظاہری قوتوں) کے لیے ایک اندازہ ٹھہردیا (٤)۔ عبس
20 پھر اس پر (زندگی وعمل کی) راہ آسان کردی عبس
21 پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا عبس
22 پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کرے گا عبس
23 ہرگز نہیں اس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا تھا عبس
24 انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے (جوشب روز اس کے استعمال میں آتی رہتی ہے (٥)۔ عبس
25 ہم پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں عبس
26 پھر اس کی روئیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کرتے ہیں عبس
27 اناج کے دانے، عبس
28 اورانگور کی بیلیں اور سبزی ترکاری عبس
29 اور زیتون کا پھل اور کھجور کے خوشے عبس
30 اور درختوں کے جھنڈ عبس
31 اور قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کا چارہ عبس
32 اور یہ سب کچھ کس لیے ہے) تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے عبس
33 آخرکار جب کان بہرے کردینے والی آواز بلند ہوگی عبس
34 اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا عبس
35 اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے عبس
36 اور اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں سے عبس
37 اس دن ہر شخس ایسے حال میں گرفتار ہوگا کہ اسے اپنے سواکسی کا ہوش نہ ہوگا عبس
38 کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے عبس
39 ہنستے اور خوش وخرم ہوں گے عبس
40 اور بہت سے چہرے اسروز گرد آلود ہوں گے عبس
41 ان پر سیاہی چھارہی ہوگی عبس
42 یہی کافر اور بدکار لوگ ہوں گے۔ عبس
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے التكوير
1 جب سورج لپیٹ دیا جائے گا (١)۔ التكوير
2 اور تارے ٹوٹ کرگرپڑیں گے التكوير
3 اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے التكوير
4 اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں قابل توجہ نہ رہیں گی التكوير
5 اور وحشی جانوراکٹھے کردیے جائیں گے التكوير
6 اور سمندر بھڑکادیے جائیں گے التكوير
7 اور جب لوگوں کو جوڑ دیا جائے گا التكوير
8 اور جب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائیگا (٢)۔ التكوير
9 کہ وہ کس جرم میں ماری گئی تھی ؟ التكوير
10 اور جب نامہ ہائے اعمال کھول دیے جائیں گے التكوير
11 اور جب آسمان کی کھال اتاردی جائے گی التكوير
12 اور جب جہنم خوب دہکائی جائے گی التكوير
13 اور جب جنت قریب کردی جائے گی التكوير
14 اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کرآیا ہے؟ التكوير
15 پس میں قسم کھاتا ہوں تاروں کی جو (چلتے چلتے) پیچھے ہٹنے لگتے ہیں التكوير
16 اور چلتے ہوئے چھپ جاتے ہیں التكوير
17 اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے التكوير
18 اور صبح کی جب وہ طلوع ہو۔ التكوير
19 بے شک یہ قرآن معزز فرشتہ کالایا ہوا کلام ہے (٣)۔ التكوير
20 جوبڑی قوت والا صاحب عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے التكوير
21 وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے التكوير
22 اور تمہارے یہ رفیق کوئی دیوانے نہیں التكوير
23 بے شک انہوں نے اس فرشتے یعنی جبرائیل کو) روشن افق پر دیکھا بھی ہے التكوير
24 اور یہ (محمد) غیب (یعنی وحی) کی باتیں بتانے پر بخیل بھی نہیں ہے التكوير
25 اور یہ قرآن مجید کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے التكوير
26 پھرتم کدھر جارہے ہو؟ التكوير
27 یہ قرآن مجید تو اقوام عالم کے لیے سراسر نصیحت ہے التكوير
28 خصوصا تم میں سے اس شخص کے لیے جو سیدھا چلنا چاہے التكوير
29 اور جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ التكوير
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الإنفطار
1 جب آسمان پھٹ جائے گا (١)۔ الإنفطار
2 اور جب تارے جھڑپڑیں گے الإنفطار
3 اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے الإنفطار
4 اور جب قبریں زیرو زبر کردی جائیں گی الإنفطار
5 اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑ آیا۔ الإنفطار
6 اے غافل انسان ! کیا ہے جس کے گھمنڈ نے تجھے اپنے مہربان اور پیار کرنے والے آقا سے سرکش بنادیا؟۔ الإنفطار
7 وہ پروردگار جس نے تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھیک درست کردیا، پھر (تمہارے ظاہری وباطنی قوی میں) اعتدال وتناسب ملحوظ رکھا الإنفطار
8 پھر جیسی صورت بنانی چاہی اس کے مطابق ترکیب دے دی الإنفطار
9 نہیں اصل یہ ہے کہ تمہیں اس کی حکومت کا یقین ہی نہیں الإنفطار
10 حالانکہ اس کی طرف سے تم پر ایسے زبردست نگران کار متعین ہیں الإنفطار
11 جو تمہارے اعمال کاہرآن احتساب کرتے رہتے ہیں الإنفطار
12 اور تمہارا کوئی بھی فعل ان کی نظروں سے مخفی نہیں الإنفطار
13 یادرکھو، ہم نے کامیابی اور ناکامی کی ایک تقسیم کردی ہے) خدا کے اطاعت گزار بندے عزت ومراد اور فتح وکامرانی کے عیش ونشاط میں رہیں گے الإنفطار
14 اور بدکارونافرمان نامرادی اور ہلاکت کے عذاب میں مبتلا ہوں گے الإنفطار
15 خدا کی بادشاہی کے دن الإنفطار
16 جس سے کبھی نہ نکل سکیں گے الإنفطار
17 یہ خدا کی بادشاہی کا دن ہے اور تم الإنفطار
18 کیا جانو کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہی کا دن کیا ہے؟ الإنفطار
19 وہ دن جس میں کوئی کسی کے لیے کچھ نہ کرسکے گا اور اس دن صرف خدا ہی کی حکومت ہوگی۔ الإنفطار
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المطففين
1 لین دین میں کمی کرنے والوں کے لیے ہی تباہی وہلاکت ہے (١)۔ المطففين
2 جب وہ دوسروں سے لیتے ہیں تو وزن میں ٹھیک ٹھیک لیتے ہیں المطففين
3 پردوسروں کا وقت آتا ہے تو گھٹا گھٹا کر اور بچا بچا کردیتے ہیں المطففين
4 کیا ان لوگوں کو یقین نہیں کہ یہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے المطففين
5 ایک بڑے دن المطففين
6 ) جس روز کہ تمام لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (٢) المطففين
7 ہرگز نہیں بدکاروں کا نامہ اعمال سجین میں ہوگا (٣)۔ المطففين
8 اور تمہیں کیا معلوم کہ سجین کیا ہے؟ المطففين
9 ایک کتاب لکھی ہوئی المطففين
10 اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے المطففين
11 جولوگ روز جزا کو جھٹلاتے ہیں المطففين
12 قرآن کی تکذیب وہی کرتے ہی جو ظالم اور گناہ گار ہیں المطففين
13 انہیں جب ہماری آیات پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں المطففين
14 ہرگز نہیں بلکہ ان کے اعمال کے سبب سے ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا المطففين
15 ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب (کے دیدار) سے روک دیے جائیں گے المطففين
16 پھر یقینا یہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے المطففين
17 پھر (ان سے) کہا جائے گا کہ یہی وہ چیز ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے المطففين
18 بے شک نیک لوگوں کے اعمال اعلی درجے کے لوگوں کی فہرست میں لکھے جاتے ہیں المطففين
19 اور تم جانتے ہو کہ وہ فہرست کیا چیز ہے؟ المطففين
20 وہ ایک کتاب اعمال ہے جوہمیشہ لکھی جاتی ہے المطففين
21 اور مقربان بارگاہ الٰہی اس کے شاہد وگواہ ہیں المطففين
22 یقینا ان نیک عمل لوگوں کی زندگی نہایت آرام وراحت میں ہوگی المطففين
23 وہ سکون واطمینان کے تخت پر بیٹھے ہوئے بہشت کی سیر کررہے ہوں گے۔ المطففين
24 اگر تم انہیں دیکھو تو خوشحالی کی تازگی ان کے چہروں سے نمایاں ہوگی المطففين
25 انہیں حیات سرمدی کی وہ شراب پلائی جائے گی المطففين
26 جس کی بوتلیں سربہ مہر ہوں گی اور ان پر مشک کی مہریں لگی ہوں گی بس یہ زندگی ہے کہ تقلید کرنے والوں کو اس کی تقلید کرنی چاہیے المطففين
27 اس شراب میں تسنیم کے پانی کی آمیزش ہوگی المطففين
28 یہ ایک چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پئیں گے المطففين
29 بے شک مجرم لوگ اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے المطففين
30 جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تو یہ (مجرم) لوگ ان پر آنکھوں سے باہم اشارے کیا کرتے تھے المطففين
31 اور جب یہ (مجرم) اپنے گھروں کو لوٹتے (ان کا تزکرہ کرکے) مزے لیتے تھے المطففين
32 اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے بلاشبہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں المطففين
33 حالانکہ وہ ان پر نگران بناکر نہیں بھیجے گئے المطففين
34 پس آج کا دن وہ ہے کہ مسلمان ارباب کفر پر ہنستے ہیں المطففين
35 اور امن وراحت کے تختوں پر بیٹھے ہوئے تماشا دیکھ رہے ہیں المطففين
36 ہاں اب تو وقت آگیا ہے کہ منکروں نے اپنے اعمال کا بدلہ پالیا۔ المطففين
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الانشقاق
1 جب آسمان پھٹ جائے گا (١) الانشقاق
2 اور اپنے رب (کاحکم سننے) کے لیے کان لگائے اور اس کو یہی سزا وار ہے الانشقاق
3 اور جب زمین پھیلا دی جائے گی الانشقاق
4 اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک دے گی اور خالی ہوجائے گی الانشقاق
5 اور اپنے رب (کاحکم سننے) کے لیے کان لگائے گی اور وہ اسی لائق ہے الانشقاق
6 اے انسان تحقیق تو محنت کرنے والا ہے اپنے رب کی طرف (لہذا) تو خوب محنت کر کہ تو اس سے ملنے والا ہے الانشقاق
7 سوجس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیاگیا الانشقاق
8 تو اس سے آسان حساب لیاجائے گا الانشقاق
9 اور وہ اپنے لوگوں کے پاس خوش خوش واپس آئے گا الانشقاق
10 رہا وہ شخص کہ جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا الانشقاق
11 تو وہ موت کو پکارے گا الانشقاق
12 اور جہنم میں داخل ہوگا الانشقاق
13 وہ اپنے اہل وعیال میں مگن رہا کرتا تھا الانشقاق
14 اس نے سمجھ رکھا تھا کہ پلٹ کر نہیں جائے گا الانشقاق
15 کیوں نہیں (ضرور جانا ہے) بے شک اس کارب اس کو خوب دیکھ رہا تھا الانشقاق
16 پس شفق کی قسم الانشقاق
17 اور رات کی قسم (جبکہ وہ تاریک ہوئی) اور ان سب کی جن کو اس کی تاریکی نے چھپالیا الانشقاق
18 پھر چاند، جبکہ اس کی روشنی پوری ہوئی الانشقاق
19 کہ) یقینا تم سب ایک امر مقدر کے ماتحت ہو، ضرور ہے کہ انقلاب لیل ونہار کے ان مراتب ثلاثہ کی طرح تم بھی یکے بعد دیگرے منازل تغیر وتبدل سے گزرو۔ الانشقاق
20 پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے؟ الانشقاق
21 اور جب قرآن مجید ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے الانشقاق
22 بلکہ یہ کافر تکذیب میں پڑے ہوئے ہیں الانشقاق
23 حالاکہ جو کچھ یہ (اپنے دلوں میں) جمع کررہے ہیں اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے الانشقاق
24 لہذا انہیں دردناک عذاب کی بشارت سنا دیجئے الانشقاق
25 البتہ جو لوگ ایمان لائے اور اجنہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ الانشقاق
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے البروج
1 قسم ہے برجوں والے آسمان کی (١)۔ البروج
2 اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے البروج
3 اور قسم ہے حاضرہونے والے دن کی اور اس دن کی جس میں لوگ حاضر ہوتے ہیں البروج
4 کہ خندق والے ہلاک ہوگئے البروج
5 کہ جس میں ایندھن والی آگ تھی البروج
6 جبکہ وہ اس آگ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے البروج
7 اور جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کررہے تھے اسے دیکھ رہے تھے البروج
8 اور ان خندق والوں کی دشمنی مسلمانوں سے محض اس بنا پر تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جوزبردست اور ستودہ صفات ہے البروج
9 جوآسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے اور ہر چیز پر مطلع ہے البروج
10 جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم دھائے اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے یقینا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے جلائے جانے کا عذاب ہے البروج
11 اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تو ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ بہت بڑی کامیابی ہے البروج
12 بے شک تیرے رب کی گرفت بہت ہی سخت ہے البروج
13 وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی دوبارہ پیدا کرے گا البروج
14 اور وہ بخشنے والا ہے اور محبت کرنے والاہے (٢)۔ البروج
15 عرش کا مالک ہے اور بزرگ وبرتر ہے البروج
16 جوکچھ چاہتا ہے کرڈالنے والا ہے البروج
17 کیا آپ کولشکروں کا واقعہ پہنچا ہے؟ (یعنی )۔ البروج
18 فرعون وثمود کا البروج
19 بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں البروج
20 اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے البروج
21 حقیقت یہ ہے کہ ایک باعظمت قرآن ہے البروج
22 جولوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ البروج
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الطارق
1 قسم ہے آسمان اور رات کو ظاہر ہونے والی کی (١)۔ الطارق
2 اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ رات کو ظاہر ہونے والا کیا ہے؟ الطارق
3 وہ روشن تارا ہے الطارق
4 کوئی جان ایسی نہیں کہ جس پر نگہبان مقرر نہ ہو (٢)۔ الطارق
5 پھر انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے بنایا گیا ہے؟ الطارق
6 وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے بنایا گیا ہے الطارق
7 ) جوپیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے الطارق
8 یقینا وہ اس کے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے الطارق
9 جس روز کہ تمام بھید آشکار ہوں گے اور ان کی جانچ پڑتال ہوگی (٣)۔ الطارق
10 اس دن انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی مدد کرنے والا ہوگا الطارق
11 قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی (٤)۔ الطارق
12 اور (نباتات اگتے وقت) پھٹ جانے والی زمین کی الطارق
13 بے شک یہ قرآن ایک قول فیصل ہے تمام اختلافات واعمال کے لیے الطارق
14 وہ کوئی بے معنی اور فضول بات نہیں الطارق
15 یہ لوگ اپنا داؤد کررہے تھے الطارق
16 اور ہم اپنا داو کھیل رہے ہیں الطارق
17 پس منکروں کو مہلت لینے دو، زیادہ نہیں، تھوڑی سی۔ الطارق
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الأعلى
1 پاکی بیان کر اپنے رب کی جو سب سے اوپر ہے (١، ٢)۔ الأعلى
2 وہ پروردگار عالم جس نے پیدا کیا پھر اسے ٹھیک ٹھیک کردیا الأعلى
3 اور جس نے ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرادیا پھر اس پر راہ عمل کھول دی (٣) الأعلى
4 وہ جس نے چارہ نکالا الأعلى
5 پھر اس کو خشک وسیاہ کوڑا کردیا الأعلى
6 ہم تمہیں پڑھوا دیں گے پھر اس کو بھولو گے نہیں (٤)۔ الأعلى
7 ہاں جو اللہ چاہے وہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے الأعلى
8 اور ہم آپ کو آسان طریقے پر لے چلیں گے الأعلى
9 سونصیحت کرو، اگر نصیحت کرنا نافع معلوم ہوتا ہو الأعلى
10 وہی شخص نصیحت قبول کرتا ہے جو ڈرتا ہے الأعلى
11 اور اس (نصیحت کے قبول کرنے سے) وہی گریز کرے گا جو بڑا بدبخت ہے الأعلى
12 جوبڑی آگ میں جائے گا الأعلى
13 پھر وہ اس آگ میں نہ مرے گا اور نہ جئے گا۔ الأعلى
14 کامیاب ہوا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی الأعلى
15 اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا اور نما زپڑھی الأعلى
16 مگر تم دنیوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو الأعلى
17 حالانکہ آخرت بدرجہا بہتر اور باقی رہنے والی ہے الأعلى
18 یہی بات پچھلے صحیفوں میں مذکور ہے الأعلى
19 جو) ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفے ہیں (٥)۔ الأعلى
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الغاشية
1 کیا آپ کو اس چھاجانے والی (آفت) کی خبر پہنچی ہے؟ (١)۔ الغاشية
2 بہت سے چہرے اس روزذلیل وخوار ہوں گے (٢)۔ الغاشية
3 سخت مشقت کررہے ہوں گے (اور) درماندہ ہوں گے الغاشية
4 انتہائی تیز آگ میں جھلس رہے ہوں گے الغاشية
5 کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کے لیے دیا جائے گا الغاشية
6 ان کو بجز خارداری جھاری کے اور کوئی کھانا نہیں ملے گا الغاشية
7 جونہ تو موٹا کرے گا اور نہ بھوک ہی رفع کرے گا الغاشية
8 بہت سے چہرے اس روز پر رونق ہوں گے الغاشية
9 اپنی جدوجہد پر خوش ہوں گے الغاشية
10 عالی مقام باغ میں ہوں گے الغاشية
11 وہ اس میں کوئی لغو بات نہ سنیں گے الغاشية
12 اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے الغاشية
13 اس میں بلند مسندیں ہوں گی۔ الغاشية
14 اور جام رکھے ہوں گے الغاشية
15 اور گاؤ تکیے قطار درقطار لگے ہوں گے الغاشية
16 اور مخملی فرش بچھے ہوں گے الغاشية
17 کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے الغاشية
18 اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا الغاشية
19 اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح قائم کیے گئے؟ الغاشية
20 اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے بچھائی گئی ہے؟ الغاشية
21 سو (اے نبی) آپ نصیحت کیے جائیے بس آپ تو نصیحت کرنے والے ہیں الغاشية
22 آپ پر کچھ داروغہ مقرر نہیں ہیں الغاشية
23 البتہ جو شخص روگردانی اور کفر کرے گا الغاشية
24 تواللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑی سزا دے گا الغاشية
25 ان کی بازگشت ہماری ہی طرف ہے الغاشية
26 پھرہمارے ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔ الغاشية
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الفجر
1 قسم ہے فجر کی (١)۔ الفجر
2 اور دس راتوں کی الفجر
3 اور جفت اور طاق کی الفجر
4 اور رات کی جب وہ رخصت ہورہی ہو (٢)۔ الفجر
5 ان چیزوں میں صاحب عقل کے لیے بڑی شہادت ہے الفجر
6 ) کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمہارے پروردگار نے عاد الفجر
7 ارم کے ساتھ کیا سلوک کیا (٣) الفجر
8 جو ایسے قوی اور متمدن تھے کہ دنیا میں ایسی قوم پیدا نہیں ہوئی تھی الفجر
9 اور قوم ثمود جنہوں نے اپنے رہنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کرگھر بنائے تھے الفجر
10 اور فرعون جو اپنی شان وشوکت خسروی کے لیے خیمہ وخرگاہ رکھتا تھا۔ الفجر
11 ) یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے انسانی آبادیوں میں فتنہ وظلم کابڑاسراٹھایا تھا الفجر
12 اور عدل واصلاح کی جگہ ان میں فساد پھیلا رکھا تھا الفجر
13 پس قانون الٰہی نے اپنے تازیانہ عذاب کو حرکت دی اور ان سب کو نابود کردیا الفجر
14 بے شک آپ کارب گھات میں لکھا ہوا ہے الفجر
15 انسان کا حال تو یہ ہے کہ جب اسکا پروردگار اس کے ایمان کو اس طرح آزماتا ہے کہ اسے دنیا میں عزت اور نعمت عطا فرماتا ہے تو وہ فورا خوش ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا پروردگار میرا اعزاز واکرام کرتا ہے الفجر
16 اور جب اس کے ایمان کو کسی آزمائش میں ڈال کر اس طرح آزماتا ہے کہ رزق اس پر تنگ کرددیتا ہے (یعنی مصیبت میں ڈال دیتا ہے تو معا مایوس ہوکر) کہنے لگتا ہے کے میرا پروردگار تو مجھے ذلیل کررہا ہے اور میرا کچھ خیال نہیں کرتا (٤)۔ الفجر
17 ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ یتیم سے عزت کاسلوک نہیں کرتے الفجر
18 اور نہ مسکین ہی کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو اکساتے ہو الفجر
19 اور میراث کاسارامال سمیٹ کرکھاجاتے ہو۔ الفجر
20 اور مال سے بہت محبت رکھتے ہو الفجر
21 ہرگز نہیں جب زمین کوٹ کوٹ کرریگ زار بنادی جائے گی الفجر
22 اور آپ کاپروردگار جلوہ فرما ہوگا اور فرشتے قطاردرقطار کھڑے ہوں گے الفجر
23 اور اس روز جہنم (سامنے) لائی جائے گی اس روز انسان کو سمجھ میں آئے گا کہ لیکن اس وقت سمجھنے سے کیا فائدہ ؟ وہ کہے گا الفجر
24 کاش میں (آخرت کی) زندگی کے لیے کچھ سامان کرلیتا الفجر
25 پھر اس روز اللہ تعالیٰ ایسی سزا دے گا اس جیسا کوئی سزا دینے والا نہ ہوگا الفجر
26 اور نہ اس کے جکڑنے کی طرح کوئی جکڑنے والا ہوگا الفجر
27 اے نفس مطمئنہ الفجر
28 تم اپنے رب کی طرف اس طرح چلو کہ تم اس سے راضی اور وہ تم سے راضی، الفجر
29 پھر شامل ہوجاؤ میرے خاص بندوں میں الفجر
30 اورداخل ہوجاؤ میری جنت میں۔ الفجر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے البلد
1 اے پیغمبر ! ہم شہر مکہ کی قسم کھاتے ہیں (١)۔ البلد
2 اور اس لیے کہ تم اس شہر میں مقیم ہو البلد
3 اور قسم ہے جننے والے کی اور جو اس نے جنا (٢)۔ البلد
4 بلاشبہ ہم نے انسان کو اس طرح بنایا کہ اس کی زندگی مشقتوں سے گھری ہوئی ہے (٣) البلد
5 کیا اس نے سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کسی کو قدرت نہ ہوگی؟ البلد
6 کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کرڈالا البلد
7 کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے نہیں دیکھا؟ البلد
8 کیا ہم نے اسے ایک ایک چھوڑ، دو دوآنکھیں نہیں دیں؟ (جن سے وہ دیکھتا ہے؟ البلد
9 اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے ہیں؟ (جوگویائی کا ذریعہ ہیں)۔ البلد
10 اور کیا ہم نے اسے سعادت وشقاوت کی دونوں راہیں نہیں دکھادیں؟ البلد
11 پس وہ نہ دھمک سکا گھاٹی (عقبہ) پر (٤)۔ البلد
12 تم کیا سمجھے کہ ہم نے جویہاں عقبہ کا لفظ کہا ہے سواس سے کیا مقصود ہے؟ البلد
13 عقبہ سے مرادیہ ہے کہ انسان کی گردن کو غلامی کے پھندے سے چھڑادینا (٥)۔ البلد
14 بھوکوں کو کھاناکھلانا البلد
15 اور یتیم کی (علی الخصوص) جب کہ وہ اپنے قریبی لوگوں میں سے ہو البلد
16 اور محتاج ومسکین کی مدد کرنا (پس جو انسان اپنی برائی کا مدعی تھا، اسے چاہیے تھا کہ اس آزمائش گھاٹی کی منزل سے گزرتا)۔ البلد
17 اس کے علاوہ اس جماعت کے لوگوں میں سے ہوتا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر وبرداشت کی اور مرحمت کی وصیت کرتے ہیں البلد
18 یہی لوگ، اصحاب المیمنہ، ہیں (٦)۔ البلد
19 مگر جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو ہماری تعلیمات کو ہمارے احکام کو اور ہماری بھیجی ہوئی ہدایت کو قول سے اور عمل سے جھٹلایا تو وہ لوگ، اصحاب المشئمہ، ہیں۔ البلد
20 انہی کو آگ میں موند دیا ہے۔ البلد
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الشمس
1 سورج اور اس کی حرارت ونورانیت کی قسم (١)۔ الشمس
2 اورچاند کی جو اس کے بعد ضیاگستر ہوتا ہے الشمس
3 روز روشن کی جو رات کی تاریکی کاپردہ چاک کردیتا ہے الشمس
4 رات کی ظلمت جودن کی روشنی کوچھپالیتی ہے الشمس
5 آسمان کی اور اس کی عجیب وغریب بناوٹ الشمس
6 زمین اور اس کا حیرت انگیز پھیلاؤ الشمس
7 پھر مادہ عالم کے ان تمام مظاہر وشیون کے بعد روح انسانی اور وہ قادر مطلق جس نے اس پر ایسی مناسب، موزوں مستقیم اور عادلہ فطرت صالحہ رکھی الشمس
8 بالآخر خیروشر، حق وباطل، صحت وسقم، عدل واسراف، نوروظلمت دونوں راہوں کو اس پر کھول دیا (٢)۔ الشمس
9 پس اب کامیاب وجود وہ ہے جس نے اپنی قوت محتسبہ کے عمل سے اپنی فطرت صالحہ کو بالکل پاک اور بے آمیزش رکھا الشمس
10 اور نامراد انسان وہ ہے جس نے اسے ضائع کردیا الشمس
11 قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی بنا پر (حضرت صالح کی) تکذیب کی۔ الشمس
12 جب کہ ان میں ایک بدبخت شخص اٹھ کھڑا ہوا الشمس
13 تواللہ تعالیٰ کے رسول نے ان سے کہا، خبردار اللہ کی اونٹنی کو ہاتھ نہ لگانا اور اس کو اپنی باری میں پانی پینے دو الشمس
14 مگرانہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی اور اونٹنی کو ہلاک کرڈالا، آخرکار ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر سخت ہلاک نازل کی اور سب کا صفایا کردیا الشمس
15 اور اللہ تعالیٰ کو قوم ثمود (کی ہلاکت) کے انجام سے ذرااندیشہ نہیں ہے (٣)۔ الشمس
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الليل
1 رات کی قسم، جبکہ اس کی تاریکی کائنات کی تمام اشیاکوچھپادیتی ہے (١)۔ الليل
2 اور روز روشن کی قسم جب کہ آفتاب کی تجلی تمام کائنات کو روشن کردیتی ہے الليل
3 اور دراصل اس خالق کی قسم، جس نے تخلیق عالم کے لیے نر اور مادہ کا وسیلہ پیدا کیا الليل
4 بلاشبہ تمہاری مساعی مختلف قسم کی ہیں (٢)۔ الليل
5 پھر جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور تقوی کی راہ اختیار کی الليل
6 اور بھلی بات کی تصدیق کی الليل
7 تو ہم اسے آسان راستے پر (چلنے کے لیے) سہولت دیں گے الليل
8 اور جس نے بخل کیا اور اللہ تعالیٰ سے بے نیازی برتی الليل
9 اور بھلی بات کو جھٹلادیا الليل
10 تو ہم اسے بتدریج مشکل میں ڈال دیں گے الليل
11 اور جب ہلاک ہوگا تواس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا (٣)۔ الليل
12 بلاشبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم راہنمائی کریں الليل
13 اور یقینا آخرت اور دنیا ہمارے ہی لیے ہیں الليل
14 پس میں نے تمہیں دہکتی آگ سے آگاہ کردیا ہے۔ الليل
15 اس میں نہیں جھلسے گا مگر انتہائی بدبخت الليل
16 جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا الليل
17 اور جونہایت پرہیزگار ہے وہ اس سے بچالیاجائے گا الليل
18 جوپاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے الليل
19 اور اس پر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا اسے بدلہ دیناہو الليل
20 اس کا مقصد تو اپنے رب اعلی کی رضاجوئی ہے الليل
21 اور وہ اپنے مالک سے ضرور راضی ہوگا۔ الليل
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الضحى
1 قسم ہے روشن دن کی (١) الضحى
2 اور رات کی جب وہ پرسکون ہو الضحى
3 کہ آپ کے پروردگار نے نہ تو آپ کوچھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناخوش ہے (٢)۔ الضحى
4 یقینا آپ کے لیے بعد کی حالت پہلی حالت سے بہتر ہے الضحى
5 اور آپ کاپروردگار آپ کواتنا کچھ دے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے الضحى
6 کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا، پھر ٹھکانا دیا؟ الضحى
7 اے پیغمبر ہم نے دیکھا کہ ہماری تلاش میں ہو، ہم نے خود ہی تمہیں اپنی راہ دکھلادی الضحى
8 اور تمہیں نادار پایا پھر مالدار کردیا الضحى
9 لہذا یتیم پر سختی نہ کیجئے الضحى
10 اور سائل کو نہ جھڑکیے الضحى
11 اور اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کرتے رہیے۔ الضحى
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الشرح
1 کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کاسینہ کھول نہیں دیا (١)۔ الشرح
2 اور آپ سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا الشرح
3 جس سے آپ کی پیٹھ کو گراں بار کررکھا تھا۔ الشرح
4 اور ہم نے تیرے ذکر کو رفعت اور بقائے دوام عطا فرمائی۔ الشرح
5 پس یہ واقعہ ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ الشرح
6 یقینا ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے الشرح
7 لہذاجب آپ فارغ ہوں تو (عبادتمیں) مشقت اٹھائیے۔ الشرح
8 اور اپنے رب کی ہی طرف راغب رہیے۔ الشرح
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے التين
1 انجیر اور زیتون (١)، التين
2 طور سینا التين
3 اور مکہ معظمہ التين
4 شاہد ہیں کہ بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین حالت عدل پر پیدا کیا التين
5 پھر اس کو بد سے بدتر حالت میں پھینک دیا۔ التين
6 مگر وہ لوگ کہ ایمان لائے اور عمل صالح کیے تو ان کے اعمال کے نتائج صرف بہتری ہی کے لیے ہیں ان کے عمل صالح کا بدلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ہمیشہ پھل دے گا۔ التين
7 پس اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد کون ہے جو اعمال کے نتائج سے انکار کرے گا اور اس بارے میں رسول کی تعلیم کو جھٹلائے گا؟۔ التين
8 کیاسب سے بڑاحکم کرنے والا خدا ہی نہیں ہے جس کے قانون جزا وسزا میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ ؟ التين
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے العلق
1 پڑھیے (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (١)۔ العلق
2 خون کے لوتھڑے سے انسان کو پیدا کیا العلق
3 پڑھیے اور آپ کارب بڑا کریم ہے العلق
4 جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھلایا العلق
5 انسان کو ان چیزوں کا علم دیا جن کو وہ نہ جانتا تھا العلق
6 ہرگز نہیں، انسان حد سے نکل جاتا ہے العلق
7 اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے العلق
8 بلاشبہ آپ کے رب کی طرف ہی پلٹ کرآنا ہے العلق
9 بھلا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو منع کرتا ہے؟ العلق
10 ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے العلق
11 بھلاآپ ہی بتلائیں کہ اگر وہ بندہ راہ راست پر ہو؟ العلق
12 یاپرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟ العلق
13 بھلابتائیے توسہی (اگر یہ منع کرنے والاشخص) دین حق کی تکذیب کرتا ہو اور اس سے روگردانی کرتا ہو؟ العلق
14 کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے؟ العلق
15 ہرگز نہیں ! اگر یہ شخص باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اس کو گھسیٹیں گے العلق
16 وہ پیشانی جوجھوٹی اور خطا کار ہے العلق
17 وہ اپنی مجلس کو بلالے العلق
18 ہم بھی دوزخ کے فرشتوں کو بلائیں گے العلق
19 ہرگز نہیں، آپ اس کی بات نہ مانیے اور خدا کے حضور سجدہ کیجئے اور اس کا قرب حاصل کرتے رہیے۔ العلق
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے القدر
1 ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارا (١، ٢)۔ القدر
2 اور تم کیا سمجھے کہ لیلۃ القدر کیا شے ہے؟ القدر
3 لیلۃ القدر ایک عہد رحمت ودور برکت ہے جوہزار مہینوں سے افضل ہے (٣)۔ القدر
4 ملائکہ سماوی وروح الٰہی (٤) کا اس میں ہر طرف سے نزول ہوتا ہے القدر
5 سلام ہے اس پر یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجائے۔ القدر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے البينة
1 اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ (اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس واضح دلیل نہ آجاتی (١)۔ البينة
2 وہ (واضح دلیل) اللہ کا ایک رسول ہے جو پاک صحیفے پڑھ کرسنائے البينة
3 جن میں بالکل درست تحریریں ہوں البينة
4 مگر جب اہل کتاب کے پاس وہ کھلی دلیل آگئی تو اس کے بعد وہ اختلاف میں پڑ کرمتفرق ہوگئے البينة
5 حالانکہ ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہ دیا گیا تھا کہ وہ ایک اللہ کی بندگی کریں، خالص اسی کی اطاعت کرتے ہوئے، یک سو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور یہی درست دین ہے (٢)۔ البينة
6 اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر ہیں وہ یقینا جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے یہ لوگ بدترین خلائق ہیں البينة
7 بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے، سوہ وہ دنیا کی بہترین ہستی ہیں البينة
8 ان کا صلہ ان کے رب کے ہاں دائمی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ لوگ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، یہ جزا اس شخص کی ہے جو اپنے رب سے ڈر گیا۔ البينة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الزلزلة
1 جب زمین پوری شدت کے ساتھ ہلائی جائے گی (١، ٢)۔ الزلزلة
2 اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال باہر ڈال دے گی الزلزلة
3 اور انسان کہے گا، اس کو کیا ہوگیا ہے؟ الزلزلة
4 اس روز وہ اپنے حالات بیان کرے گی الزلزلة
5 کیونکہ تیرے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا الزلزلة
6 اس روز لوگ متفرق جماعتیں بن کرلوٹیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ الزلزلة
7 پھر جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا الزلزلة
8 اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ الزلزلة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے العاديات
1 قسم ہے مجاہدوں کے ان گھوڑوں کی، جو میدان جہاد میں دوڑتے ہوئے ہانپ جاتے ہیں (١)۔ العاديات
2 پھر پتھروں پر اپنی ٹاپوں کے مارنے سے چنگاریاں نکالتے ہیں العاديات
3 پھرصبح کے وقت دشمنوں پرچھاپے مارتے ہیں العاديات
4 اپنی تیزگامی سے غبار بلند کرتے ہیں العاديات
5 اور دشمنوں کی صفوں میں درآتے ہیں العاديات
6 بلاشبہ انسان اپنے رب کابڑاناسپاس ہے (٢) العاديات
7 اور وہ اپنی اس ناسپاسی پر خود بھی گواہ ہے العاديات
8 اور وہ مال ودولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے العاديات
9 کیا اسے وہ وقت معلوم نہیں جب وہ مردے جوقبروں میں ہیں (زندہ کرکے) اٹھاکھڑے کیے جائیں گے العاديات
10 اور جو کچھ سینوں میں مخفی ہے وہ سب آشکار کردیا جائے گا العاديات
11 یقینا ان کارب اس دن ان کے احوال سے پوری طرح آگاہ ہوگا۔ العاديات
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے القارعة
1 وہ کھڑ کھڑانے والاحادثہ (١) القارعة
2 کیا ہے وہ کھڑا کھڑانے والاحادثہ؟ القارعة
3 آپ کو کیا معلوم کہ وہ کھڑا کھڑانے والا حادثہ کیا ہے؟ القارعة
4 جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح پراگندہ ہوں گے القارعة
5 اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوجائیں گے القارعة
6 پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے القارعة
7 وہ دل پسند عیش میں ہوگا القارعة
8 اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے القارعة
9 تواس کاٹھکانہ ہاویہ ہوگا القارعة
10 اور آپ کو کیا معلوم ہاویہ کیا ہے؟ القارعة
11 وہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔ القارعة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے التکاثر
1 کثرت لذائذ اور فوائد دنیوی کی غفلت نے تمہیں بیدار نہ ہونے دیا (١)۔ التکاثر
2 یہاں تک کہ قبروں کا چہرہ تمہیں نظر آگیا التکاثر
3 کوئی نہیں آگے جان لو گے التکاثر
4 پھر بھی کوئی نہیں آگے جان لوگے التکاثر
5 ہرگز نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لیتے (توکبھی غفلت میں نہ پڑتے التکاثر
6 بخدا تم دیکھ کررہو گے التکاثر
7 پھر (سن لوکہ) تم اس کو بالکل یقین کے ساتھ دیکھ لوگے التکاثر
8 پھر اس روز تم سے ان (دنیوی) نعمتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی۔ التکاثر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے العصر
1 قسم ہے اس عصر انقلاب اور دورتغیرات کی، جو پچھلے دور کو ختم کرتا اور نئے دور کی بنیاد رکھتا ہے العصر
2 کہ نوع انسانی کے لیے دنیا میں نقصان وہلاکت کے سوا کچھ نہیں (١، ٢)۔ العصر
3 مگر ہاں وہ نفوس قدسیہ جوقوانین الٰہیہ پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ اختیار کیے ایک دوسرے کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے دین حق کی وصیت کرتے رہے، نیز صبر واستقامت کی بھی انہوں نے تعلیم دی ہے۔ العصر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الهمزة
1 تباہی ہے اس شخص کے لیے جو عیب جو اور طعنہ زن ہے (١، ٢)۔ الهمزة
2 جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کے رکھا الهمزة
3 وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا الهمزة
4 ایساہرگز نہیں ہوگا، بخدا اسے حطمہ میں پھینکاجائے گا الهمزة
5 اور تمہیں کیا معلوم کہ حطمہ کیا ہے؟ الهمزة
6 وہ اللہ کی (پیدا کی ہوئی) آگ ہے خوب بھڑکائی ہوئی الهمزة
7 جودلوں تک جاپہنچے گی الهمزة
8 وہ ان (اہل جہنم) پربند کردی جائے گی الهمزة
9 اس حال میں کہ وہ بڑے بڑے ستونوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ الهمزة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الفیل
1 اے پیغمبر) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اس لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا جو ہاتھیوں کا ایک غول لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا (١)۔ الفیل
2 خدا نے ان کے تمام داؤ غلط نہیں کردیے؟ الفیل
3 اوران پر عذاب کی نحوستوں کے غول نازل نہیں کیے؟ الفیل
4 جنہوں نے انہیں سخت بربادی میں مبتلا کردیا جوان کے لیے لکھ دی گئی تھی الفیل
5 یہاں تک کہ پامال شدہ کھیت کی طرح تباہ ہوگئے۔ الفیل
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے قریش
1 چونکہ قریش مانوس ہوئے (١)۔ قریش
2 (یعنی) گرمی اور سردی کے سفروں سے مانوس ہونے کی وجہ سے قریش
3 ان کو چاہیے کہ اس خانہ خدا (کعبہ) کے مالک کے عبادت کریں۔ قریش
4 جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا۔ قریش
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الماعون
1 اے نبی) بھلا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جوجزاوسزا کی تکذیب کرتا ہے (١)۔ الماعون
2 یہ وہی شخص ہے جویتیم کودھکے دیتا ہے الماعون
3 اور مسکین کو کھانا دینے کی لوگوں کو ترغیب تک نہیں دیتا الماعون
4 سو ایسے نمازیوں کے لیے تباہی ہے الماعون
5 جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں الماعون
6 جوریاکاری کرتے ہیں الماعون
7 اور لوگوں کو روز مرہ کے برتنے کی معمولی چیز دینے سے گریز کرتے ہیں۔ الماعون
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الكوثر
1 اے نبی) ہم نے آپ کو خیرکثیر عطا فرمائی ہے الكوثر
2 لہذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے الكوثر
3 یقینا آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا ہوا ہے (١، ٢)۔ الكوثر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الكافرون
1 اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو (١)۔ الكافرون
2 میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کررہے ہو الكافرون
3 اور نہ تم اس کی پرستش کرتے ہو جس کی میں عبادت کررہا ہوں الكافرون
4 اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والاہوں جن کی تم نے عبادت کی الكافرون
5 اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرنیوالے ہو الكافرون
6 تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لے میرا دین ہے۔ الكافرون
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النصر
1 جب کہ خدا کی نصرت آپہنچی اور حق وصداقت کو فتح ہوئی (١)۔ النصر
2 اور تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دین الٰہی میں لوگ جوق درجوق داخل ہورہے ہیں۔ النصر
3 تو اب پروردگار کی حمدوثنا کرو اور اپنی خطاؤں کی معافی مانگو۔ یقینا وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ النصر
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الہب
1 ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا (١)۔ الہب
2 نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی الہب
3 وہ ضرور ہی شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا الہب
4 اور اس کی بیوی بھی جو (ایندھن کی) لکڑیاں اٹھانے والی ہے الہب
5 اس کی گردن میں مونج کی رسی ہوگی۔ الہب
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الاخلاص
1 اللہ کی ذات یگانہ ہے (١، ٢)۔ الاخلاص
2 اسے کسی کی احتیاج نہیں الاخلاص
3 نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا الاخلاص
4 نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابر کی ہوئی۔ الاخلاص
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الفلق
1 اے نبی ! آپ کہیے، میں صبح کے رب کی پناہ لیتاہوں (١) الفلق
2 ہراس چیز کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا الفلق
3 اور رات کی تاریکی کے شر سے (بھی پناہ لیتا ہوں) جبکہ وہ چھاجائے الفلق
4 اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے الفلق
5 اور ہر حسد کرنے والے کے شرسے جب کہ وہ حسد کرے۔ الفلق
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الناس
1 اے نبی ! آپ یوں کہیے، میں پناہ لیتا ہوں انسانوں کے رب الناس
2 انسانوں کے بادشاہ الناس
3 انسانوں کے معبود حقیقی کی الناس
4 اس وسوسہ ڈالنے والے، پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے الناس
5 جولوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے الناس
6 وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ الناس
Flag Counter