Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الفاتحة
2 ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے الفاتحة
3 جو رحمت والا ہے اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کر رہی ہے الفاتحة
4 جو اس دن کا مالک ہے جس دن کاموں کا بدلہ لوگوں کے حصے میں آئے گا الفاتحة
5 (خدایا !) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں) مدد مانگتے ہین الفاتحة
6 (خدایا) ہم پر (سعادت کی) سیدھی راہ کھول دے الفاتحة
7 وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تو نے انعام کی۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے الفاتحة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے البقرة
1 الف۔ لام۔ میم۔ البقرة
2 یہ الکتاب ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ متقی انسانوں پر (سعادت کی) راہ کھولنے والی البقرة
3 (متقی انسان وہ ہیں) جو غیب (کی حقیقتوں) پر ایمان رکھتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہے اسے (نیکی کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں البقرة
4 نیز وہ لوگ جو اس (سچائی) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو تم پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل ہوئی ہے اور ان تمام (سچائیوں پر) جو تم سے پہلے (یعنی پیغمبر اسلام سے پہلے) نازل ہوچکی ہیں اور (ساتھی ہی) آخرت (کی زندگی) کے لیے بھی ان کے اندر یقین ہے البقرة
5 تو یقیناً یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے (ٹھہرائے ہوئے) راستہ پر ہیں اور یہی ہیں ( دنیا اور آخرت میں) کامیابی پانے والے البقرة
6 (لیکن) وہ لوگ جنہوں نے (ایمان کی جگہ) انکار کی راہ اختیار کی (اور سچائی کے سننے اور قبول کرنے کی استعداد کھودی) تو (ان کے لیے ہدایت کی تمام صدائیں بیکار ہیں) تم انہیں (انکار حق کے نتائج سے) خبرار کرو یا نہ کرو وہ ماننے والے نہیں البقرة
7 ان کے دلوں اور کانوں پر اللہ نے مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا سو (جن لوگوں نے اپنا یہ حال بنا لیا ہے) وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتے۔ کامیابی کی جگہ، ان کے لیے عذاب جانکاہ ہے البقرة
8 (ان دو قسم کے آدمیوں کے علاوہ) کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مومن نہیں البقرة
9 وہ (ایمان کا دعوی کرکے) اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، حالاکہ وہ خود دھکوے میں پڑے ہیں اگرچہ (جہل و سرکشی سے) اس کا شعور نہیں رکھتے البقرة
10 ان کے دلوں میں (انکار کا) روگ ہے۔ پس اللہ نے (دعوت حق کامیاب کر کے) انہیں اور زیادہ روگی کردیا اور ان کے عذاب جانکاہ ہوگا اس لیے کہ اپنی نمائش میں سچے نہیں البقرة
11 جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں خرابی نہ پھیلاؤ (اور بدعملیوں سے باز آجاؤ) تو کہتے ہیں (ہمارے کام خرابی کا باعث کیسے ہوسکتے ہیں) ہم تو سنوارنے والے ہیں۔ البقرة
12 یاد رکھو یہی لوگ ہیں جو خرابی پھیلانے والے ہیں اگرچہ (جہل و سرکشی سے اپنی حالت کا) شعور نہیں رکھتے البقرة
13 اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ایمان کی راہ اختیا کرو جس طرح اور لوگوں نے اختیار کی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح (یہ) بے وقوف آدمی ایمان لے آئے ہیں (یعنی جس طرح ان لوگوں نے بے سروسامنی و مظلومی کی حالت میں دعوت حق کا ساتھ دیا اسی طرح ہم بھی بے وقوف بن کر ساتھ دے دیں؟) یاد رکھو فی الحقیقت یہی لوگ بے وقوف ہیں اگرچہ (جہہل وغرور کی سرشاری میں اپنی حالت کا) شعور نہیں رکھتے البقرة
14 جب یہ لوگ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو (دعوت حق پر) ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے۔ لیکن جب اپنے شیطانوں کے ساتھ اکیلے میں بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارا اظہار ایمان اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ہم تمسخر کرتے تھے البقرة
15 (حالانکہ) حقیقت یہ ہے کہ خود انہی کے ساتھ تمسخر ہورہا ہے کہ اللہ (کے قانون جزا) نے رسی ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور سرکشی (کے طوفان میں) میں بہکے چلے جا رہے ہیں البقرة
16 (یقین کرو) یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی۔ لیکن نہ تو ان کی تجارت فائدہ مند نکلی نہ ہدایت ہی پر قائم رہے البقرة
17 ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی (رات کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا۔ اس) نے (روشنی کے لیے) آگ سلگائی لیکن جب (آگ سلگ گئی اور اس کے شعلوں سے) آس پاس روشن ہوگیا تو قدرت الٰہی سے ایسا ہوا کہ (اچانک شعلے بجھ گئے، اور) روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی کے بعد اندھیرا چھا گیا اور آنکھیں اندھی ہو کر رہ گئیں کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا البقرة
18 بہرے، گونگے، اندھے ہو کر رہ گئے۔ پس (جن لوگوں کی محرومی و شقاوت کا یہ حال ہے) وہ کبھی اپنی گم گشتگی سے لوٹ نہیں سکتے البقرة
19 یا پھر ان لوگوں کی مثال ایسی سمجھو جیسے آسمان سے پانی کا برسنا کہ اس کے ساتھ کالی گھٹائیں اور بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک ہوتی ہے (فرض کرو دنیا پانی کے لیے بے قرار تھی۔ اللہ نے اپنی رحمت سے بارش کا سماں باندھ دیا۔ تو اب ان لوگوں کا حال یہ ہے بارش کی برکتوں کی جگہ صرف اس کی ہولناکیاں ہی ان کے حصے میں آئی ہیں) بادل جب زور سے گرجتے ہیں تو موت کا ڈر انہٰں دہلا دیتا ہے (اس کی گرج تو روک سکتے نہیں) اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے لگتے ہیں۔ حالانکہ (اگر بجلی گرنے والی ہی ہو تو ان کے کان بند کرلینے سے رک نہیں جائے گی) اللہ کی قدرت تو (ہر حال میں) منکروں کو گھیرے ہوئے ہے البقرة
20 (جب) بجلی (زور سے چمکتی ہے تو ان کی خیرگی کا یہ حال ہوتا ہے گویا) قریب ہے کہ بینائی اچک لے۔ اس کی چمک سے جب فضا روشن ہوجاتی ہے تو دوچار قدم چل لیتے ہیں۔ جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو (ٹھٹک کر) رک جاتے ہیں۔ اگر اللہ چاہے تو یہ بالکل بہرے اندھے ہو کر رہا جائیں۔ اور یقیناً اللہ ہر بات پر قادر ہے البقرة
21 اے افراد نسلِ انسانی ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو (اس پروردگار کی) جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو بھی پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (اور اس لیے پیدا کیا) تاکہ اس کی نافرمانی سے بچو البقرة
22 وہ پروردگار عالم، جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی، اور آسمان کو چھت کی طرح بلند کردیا اور (پھر تم دیکھ رہے ہو کہ وہی ہے) جو آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے زمین شاداب ہوجاتی ہے اور طرح طرح کے پھل تمہاری غذا کے لیے پیدا ہوجاتے ہیں۔ پس (جب خالقیت اسی کی خالقیت ہے اور ربوبیت اسی کی ربوبیت تو) ایسا نہ کرو کہ اس کے ساتھ کسی دوسری ہستی کو شریک اور ہم پایہ بناؤ۔ اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے ! البقرة
23 اور (دیکھو) اگر تمہیں اس (کلام) کی سچائی میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل کیا ہے۔ تو (اس کا فیصلہ بہت آسان ہے۔ اگر یہ محض ایک انسانی دماغ کی بناوت ہے، تو تم بھی انسان ہو۔ زیادہ نہیں) اس کی سی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن (طاقتوں) کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لو البقرة
24 اور پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو اور حقیقت یہ ہے کہ کبھی نہ کرسکو گے، تو اس آگ کے عذاب سے ڈرو جو (لکڑی کی جگہ) انسان اور پتھر کے ایندھن سے سلگتی ہے، اور منکرین حق کے لیے تیار ہے البقرة
25 (لیکن ہاں) جن لوگوں نے (انکار و سرکشی کی جگ) ایمان کی راہ اختیار کی، اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے، تو ان کے لیے (آگ کی جگہ ابدی راحت کے) باغوں کی بشارت ہے۔ (سرسبزوشاداب باغ) جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ( اور اس لیے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں) جب کبھی ان باغوں کا کوئی پھل ان کے حصے میں آئے گا (یعنی بہشتی زندگی کی کوئی نعمت ان کے حصے میں آئے گی) تو بول اٹھیں گے، یہ تو وہ نعمت ہے جو پہلے ہمیں دی جاچکی ہے (یعنی نیک عملی کا وہاجر ہے جس کے ملنے کی ہمیں دنیا میں خبر دی جا چکی ہے) اور (یہ اس لیے کہیں گے کہ) باہم دگر ملتی جلتی ہوئی چیزیں ان کے سامنے آئیں گی (یعنی جیسا کچھ ان کا عمل تھا، ٹھیک ویسی ہی بہشتی زندگی کی نعمت بھی ہوگی) علاوہ بریں ان کے لیے نیک اور پارسا بیویاں ہوں گی اور ان کی راحت ہمیشگی کی راحت ہوگی کہ اسے کبھی زوال نہیں ! البقرة
26 اللہ (کا کلام جو انسانوں ککو ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب کرنا چاہتا ہے) اس بات سے نہیں جھجکتا کہ کسی (حقیقت کے سمجھانے کے لیے کسی حقیر سے حقیر کی) مثال سے کام لے۔ مثلاً مچھر کی، یا اس سے بھی زیادہ کسی حقیر چیز کی پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ (مثالیں سن کر ان کی دانائی میں غور کرتے ہیں اور) جان لیتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہے ان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ لیکن جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کی ہے تو وہ (جہل اور کج فہمی سے حقیقت نہیں پا سکتے۔ وہ) کہتے ہیں بھلا ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بس کتنے ہی انسان ہیں جن کے حصے میں اس سے گمراہی آئے گی اور کتنے ہی ہیں جن پر اس (کی سمجھ بوجھ سے) راہ (سعادت) کھل جائے گی۔ اور (خدا کا قانون یہ ہے کہ) وہ گمراہ نہیں کرتا مگر انہی لوگوں کو جو (ہدایت کی تمام حدیں توڑ کر) فاسق ہوگئے ہیں البقرة
27 (فاسق کون ہیں؟ فاسق وہ ہیں) جو احکام الٰہی کی اطاعت کا عہد کر کے پھر اسے تور ڈالتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کے کاٹنے میں بے باک ہیں اور (اپنی بدعملیوں اور سرکشیوں سے) ملک میں فساد پھیلاتے ہیں سو (جن لوگوں کی شقاوتوں کا یہ حال ہے وہ ہمیشہ گمراہی کی چال ہی چلین گے۔ اور فی الحقیقت) یہی لوگ ہیں جے کے لیے سرتسر نامرادی اور نقصان ہے البقرة
28 (اے افراد نسل انسای !) تم کس طرح اللہ سے (اور اس کی عبادت سے) انکار کرسکتے ہو جبکہ حالت یہ ہے کہ تمہار اوجود نہ تھا، اس نے زندی بخشی پھر وہی ہے جو زندگی کے بعد موت طاری کرتا ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشے گا، اور بالآخر تم سب کو اسی کے حضور لوٹنا ہے البقرة
29 (اور دیکھو) یہ اسی (پروردگار) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں (تاکہ جس طرح چاہو ان سے کام لو) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان درست کردیے (جن سے طرح طرح کے فوائد تمہیں حاصل ہوتے ہیں) اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے البقرة
30 (اور اے پیغمبر اس حقیقت پر غور کر) جب ایسا ہوا تھا کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا : "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" فرشتوں نے عرض کیا "کیا ایسی ہستی کو خلیفہ بنایا جا رہا ہے جو زمین خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی؟ حالانکہ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہوئے تیری پاکی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں (کہ تیری مشیت برائی سے پاک اور تیرا کام نقصان سے منزہ ہے) اللہ نے کہا " میری نظر جس حقیق پر ہے، تمہیں اس کی خبر نہیں"۔ البقرة
31 (پرھ جب ایسا ہوا کہ مشیت الٰہی نے جو کچھ چاہا تھا ظہور میں آگیا) اور آدم نے (یہاں تک معنوی ترقی کی کہ) تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کرلیے تو اللہ نے فرشتوں کے سامنے وہ (تمام حقائق) پیش کردیے اور فرمایا "اگر تم (اپنے شبہ میں) درستی پر ہو تو بتلاؤ ان (حقائق) کے نام کیا ہیں؟ البقرة
32 فرشتوں نے عرض کیا" خدایا ساری پاکیاں اور بڑائیاں تیری ہی لیے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھلا دیا ہے۔ علم تیرا علم ہے اور حکمت تیری حکمت البقرة
33 (جب فرشتوں نے اس طرح اپنے عجز کا اعتراف کرلیا، تو) حکم الٰہی ہوا۔ "اے آدم، تم (اب) فرشتوں کو ان (حقائق) کے نام بتلا دو" جب آدم نے بتلا دیے تو اللہ نے فرمایا " کیا میں نے تم سنے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے تمام غیب مجھ پر روشن ہیں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میری علم میں ہے اور جو کچھ تم چھپاتے تھے وہ بھی مجھ سے مخفی نہیں" البقرة
34 اور پھر (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا۔ آدم کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔ وہ جھک گئے۔ مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی اس نے نہ نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منکروں میں سے تھا البقرة
35 پھر (ایسا ہوا کہ) ہم نے آدم سے کہا "اے آدم تو اور تیری بیوی دنووں جنت میں رہو جس طرح چاہو کھاؤ پیو، امن چین کی زندگی بسر کو، مگر دیکھو، وہ جو ایک دخرت ہے تو کبھی اس کے پاس بھی نہ پھٹکنا، اگر تم اس کے قریب گئے تو (نتیجہ یہ نکلے گا کہ) حد سے تجاوز کر بیٹھو گے، اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤ گے جو زیادتی کرنے والے ہیں البقرة
36 پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان کی وسوہ اندازی نے ان دونوں کے قدم ڈگمگا دیے، اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسی کچھ (راحت و سکون کی) زندگی بسر کر رہے تھے اسے نکلنا پڑا۔ خدا کا حکم ہوا "یہاں سے نکل جاؤ۔ تم میں سے ہر وجود دوسرے کا دشمن ہے" اب تمہیں (جنت کی جگہ) زمین میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک کے لیے (جو علم الٰہی میں مقرر ہوچکا ہے) اس سے فائدہ اٹھانا ہے البقرة
37 پھر ایسا ہوا کہ آدم نے اپنے پروردگار کی تعلیم سے چند کلمات معلوم کرلیے (جن کے لیے اس کے حضور قبولیت تھی) پس اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی اور بلاشبہ وہی ہے جو رحمت سے درگزر کرنے والا ہے اور اس کی درگزر کی کوئی انتہا نہیں البقرة
38 (آدم کی توبہ قبول ہوگئی اور) ہمارا حکم ہوا، تو اب تم سب یہاں سے نکل چلو (اور جس نئی زندگی کا دروازہ تم پر کھولا جا رہا ہے اسے اختیا کرو) لیکن (یاد رکھو) جب کبھی ایسا ہوگا کہ ہماری جانب سے تم پر راہ (حق) کھولی جائے گی تو (تمہارے لیے دو ہی راہیں ہوں گی) جو کوئی ہدایت کی پیرو کرے گا اس کے لیے کسی طرح کی غمگینی نہیں البقرة
39 جو کوئی انکار کرے گا اور ہماری نشانیاں جھٹلائے گا وہ دوزخی گروہ میں سے ہوگا۔ ہمیشہ عذاب میں رہنے والا البقرة
40 اے بنی اسرائیل ! میری نعمت یاد کرو، وہ نعمت جس سے میں تمہیں سرفراز کیا تھا اور دیکھو اپنا عہد پورا کرو (جو ہدایت قبول کرنے اور اس پر کاربند ہونے کا عہد ہے) میں بھی اپنا عہد پورا کروں گا (جو ہدایت پر کاربند ہونے والوں کے لیے کامرانی و سعادت کا عہد ہے) اور دیکھو میرے سوا کوئی نہیں پس دوسروں سے نہیں صرف مجھی سے ڈرو البقرة
41 اور اس کلام پر ایمان لاﷺ جو میں نازل کیا ہے، اور جو اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا نمایاں ہوا ہے جو تمہارے پاس (پہ ٩ لے سے) موجود ہے اور ایسا نہ کرو کہ اس کے انکار میں (شقاوت کا) پہلا قدم جو اٹھے وہ تمہارا ہو۔ اور (دیکھو) میرے سوا کوئی نہیں، پس میری نافرمانی سے بچو البقرة
42 اور ایسا نہ کرو کہ حق کو باطل کے ساتھ ملا کر مشتبہ بنا دو اور حق کو چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو حقیقت حال کیا ہے؟ البقرة
43 اور نماز قائم کرو (جس کی حقیقت تم نے کھو دی ہے) اور زکوۃ ادا کرو (جس کا تم میں اخلاص باقی نہیں رہا) اور جب اللہ کے حضور جھکنے والے جھکیں تو ان کے ساتھ تم بھی سرِ نیاز جھکا دو البقرة
44 تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر خود اپنی خبر نہیں لیتے کہ تمہارے کاموں کا کیا حال ہے حالانکہ خدا کی کتاب تمہارے پاس ہے اور ہمیشہ تلاوت کرتے رہتے ہو؟ (افسوس تمہاری عقلوں پر !) کیا اتنی سی موٹی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی البقرة
45 اور (دیکھو) صبر اور نماز (کی قوتوں) سے (اپنی اصلاح میں) مدد لو لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو (انسان کی رحت طلب طبیعت پر) بہت ہی کٹھن گزرتا ہے۔ البتہ جن لوگوں کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں البقرة
46 اور جو سمجھتے ہیں انہیں اپنے پروردگار سے ملنا اور (بالآخر) اس کے حضور لوٹنا ہے تو ان پر یہ عمل کٹھن نہیں ہوسکتا البقرة
47 اے بنی اسرائیل ! میری نعمتیں یاد کرو جن سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا اور (خصوصا) یہ (نعمت) کہ دنیا کی قوموں پر تمہیں فضیلت دی تھی البقرة
48 اس دن کی پکڑ سے ڈرو جبکہ (انسان کی کوئی کوشش بھی اسے برے کاموں کے نتیجوں سے نہیں بچاسکے گی اس دن) نہ تو کوئی انسان دوسرے انسان کے کے کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش سنی جائے گی، نہ کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا، اور نہ کہیں سے کسی طرح کی مدد ملے گی البقرة
49 اور (اپنی تاریخ حیات کا) وہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں خاندان فرعون (کی غلامی) سے جنہوں نے تمہیں نہایت سخت عذاب میں ڈال رکھا تھا نجات دی تھی۔ وہ تمہارے لڑکوں کو بے دریغ ذبح کرڈالتے (تاکہ تمہاری نسل نابود ہوجائے) اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے (حکمراں قوم کی لونڈیاں بن کر زندگی بسر کریں اور فی الحقیقت اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے بڑی ہی آزمائش تھی البقرة
50 اور پھر وہ وقت یاد کرو جب (تم مصر سے نکلے تھے اور فرعون تمہارا تعاقب کر رہا تھا) ہم نے سمندر کا پانی اس طرح الگ الگ کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا، اور تم (کنارے پر کھڑے) دیکھ رہے تھے البقرة
51 اور ( پھر وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں والا وعدہ کیا تھا۔ (پھر جب ایسا ہوا کہ وہ چالیس دن کے لیے تمہیں چھوڑ کر پہاڑ پر چلا گیا تو اس کے جاتے ہی) تم نے ایک بچھڑے کی پرستش اختیار کرلی، اور تم راہ حق سے ہٹ گئے تھے (یہ تمہاری بڑی گمراہی تھی) البقرة
52 لیکن ہم نے (اپنی رحمت سے) درگزر کی تاکہ اللہ کی بخشائشوں کی قدر کرو البقرة
53 اور پھر وہ واقعہ بھی یاد کرو جب ہم نے (چالیس راتوں وال اوعدہ پورا کیا تھا، اور) موسیٰ کو الکتاب (یعنی تورات) اور الفرقان (یعنی حق وباطل میں امتیاز کرنے والی قوت) عطا فرمائی تھی، تاکہ تم پر (سعادت و فلاح کی) راہ کھل جائے البقرة
54 اور (پھر وہ وقت) جوب موی (کتاب الٰہی کا عطیہ لے کر پہاڑ سے اترا تھا اور تمہیں ایک بچھڑے کی پوجا میں سرگرم دیکھ کر) پکار اٹھا تھا : اے میری قوم ! افسوس تمہاری حق فراموشی پر) تم نے بچھڑے کی پوجا کر کے خود اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہ کردیا ہے۔ پس چاہیے کہ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور گوسالہ پرستی کے بدلے اپنی جانوں کو قتل کرو۔ اسی میں خدا کے نزدیک تمہارے لیے بہتری ہے۔ چنانچہ تمہاری توبہ قبول کرلی گئی، اور اللہ بڑا ہی رحمت والا، اور رحمت سے سے درگزر کرنے والا ہے البقرة
55 اور (پھر وہ واقعہ یاد کرو) جب تم نے کہا تھا : اے مرسی ! ہم کبھی تم پر یقین کرنے والے نہیں جب تک کہ کھلے طور پر اللہ کو (تم سے بات کرتا ہوا) نہ دیکھ لیں۔ پھر (تمہیں یاد ہے کہ اس گمراہانہ جسارت کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ یہ نکلا تھا کہ) بجلی کے کڑاکے نے (اچانک) آگھیرا، اور تم نظر اٹھائے تک رہے تھے البقرة
56 پھر ہم نے تمہیں اس ہلاکت کے بعد (دوبارہ) اٹھا کھڑا کی اتاکہ اپنے آپ کو نعمت الٰہی کا قدر شناس ثابت کرو ! البقرة
57 اور (پھر جب ایسا ہوا تھا کہ صحراسینا کی بے آب و گیاہ سرزمین میں دھوپ کی شدت اور غزا کے نہ ملنے سے تم ہلاک ہوجانے والے تھے تو) ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلادیا اور من اور سلوی کی غذا فراہم کردی (تم سے کہا گیا :) خدا نے تمہاری غذا کے لیے جو اچھی چیزیں مہیا کردی ہیں انہیں بفراغت کھاؤ اور کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرو (لیکن اس پر بھی تم اپنی بدعملیوں سے باز نہ آئے۔ غور کرو) تم نے (اپنی ناشکریوں سے) ہمارا کیا بگاڑا؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے البقرة
58 اور پھر (کیا اس وقت کی یاد بھی تمہارے اندر عبرت پیدا نہیں کرسکتی) جب (ایک شہر کی آبادی تمہارے سامنے تھی اور) ہم نے حکم دیا تھا کہ اس آبادی میں (فتح مندانہ) داخل ہوجاؤ اور پھر کھاؤ پیو، آرام چین کی زندگی بسر کرو، لیکن جب شہر کے دروازے میں قدم رکھو، تو تمہارے سر اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور تمہاری زبانوں پر توبہ واستغفار کا کلمہ جاری ہو کہ حطۃ! حطۃ! (خدایا ہمیں گناہوں کی آلودگی سے پاک کردے ! اگر تم نے ایسا کیا، تو) اللہ تمہاری خطائیں معاف کردے گا، اور (اس کا قانون یہی ہے کہ) نیک کردار انسانوں کے اعمال میں برکت دیتا ہے اور ان کے اجر میں فراوانی ہوتی رہتی ہے البقرة
59 لیکن پھر ایسا ہوا کہ تم میں سے ان لوگوں نے جن کی راہ ظلم و شرارت کی راہ تھی خدا کی بتلائی ہوئی بات ایک دوسری بات سے بدل ڈالی (اور عجز و عبودیت کی جگہ غفلت و غرور میں مبتلا ہوگئے) نتیجہ یہ نکلا کہ ظلم وشرارت کرنے والوں پر ہم نے آسمان سے عذاب نازل کیا اور یہ ان کی نافرمانیوں کی سزا تھی البقرة
60 اور پھر (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تھا اور ہم نے حکم دیا تھا پنی لاٹھی سے پہاڑ کی چٹان پر ضرب لگاؤ(تم دیکھو گے کہ پانی تمہارے لیے موجود ہے۔ موسیٰ نے اس حکم کی تعمیل) چنانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے اپنے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کرلی (اس وقت تم سے کہا گیا تھا) کھاؤ پیو خدا کی بخشائس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس سرزمین میں جھگڑ فساد نہ کرو البقرة
61 اور پھر (دیکھو تمہاری تاریخ حیات کا وہ واقعہ بھی کس درجہ عبرت انگیز ہے) جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی طرح کے کھانے پر قناعت کرلیں، پس اپنے پروردگار سے دعا کرو ہمارے لیے وہ تمام چیزیں پیدا کردی جائیں جو زمین کی پیداوار ہیں۔ سبزی، ترکاری، گھیہوں، دال، پیاز، لہسن وغیرہ (جو مصر میں ہم کھایا کرتے تھے) موسیٰ نے یہ سن کر کہا (افسوس تمہاری غفلت اور بے حسی پر !) کیا تم چاہتے ہو ایک ادنی سی بات کے لیے (یعنی غذا کی لذت کے لیے) اس (مقصد عظیم) سے دست بردار ہوجاؤ جس میں بڑی ہی خیر و برکت ہے؟ (یعنی قومی آزادی و سعادت سے؟ اچھا اگر تمہاری غفلت و بدبختی کا یہی حال ہے تو) یہاں سے نکلو، شہر کی راہ لو، وہاں یہ تمام چیزیں مل جائیں جن کے لیے ترس رہے ہو۔ بہرحال بنی اسرائیل پر خواری و نامرادی کی مار پڑی اور خدا کے غضب کے سزاوار ہوئے اور یہ اس لیے ہوا کہ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور اس کے نبیوں کے ناحق قتل میں بے باک تھے، اور (گمراہی و شقاوت کی یہ روح ان میں) اس لیے (پیدا ہوگئی) کہ (اطاعت کی جگہ) سرکشی سما گئی تھی اور تمام حدیں توڑ کر بے لگام ہوگئے تھے ! البقرة
62 جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاری اور صابی ہوں (کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں سے ہو) لیکن جو کوئی بھی خدا پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
63 اور پھر (اپنی تاریخ حیات کا وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے تمہارا عہد لیا تھا اور (یہ ووہ وقت تھا کہ تم نیچے کھڑے تھے اور) کوہ طور کی چوٹیاں تم پر بلند کردی تھیں : (دیکھو) جو کتاب تمہیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھو۔ (اور یہ اس لیے ہے) تاکہ تم (نافرمانی سے بچو۔ البقرة
64 لیکن پھر تم اپنے عہد سے پھر گئے ور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارا ساتھ نہ دیتی تو (تمہاری گمراہی کی چال تو ایسی تھی کہ) فوراً ہی تباہی کے حوالے ہوجاتے البقرة
65 اور یقیناً تم ان لوگوں کے حال سے بے خبر نہیں ہو جو تم ہی میں سے تھے اور جنہوں نے "سبت" (یعنی تعطیل اور عبادت کے مقدس دن) کے معاملہ میں راست بازی کی حدیں توڑ ڈالی تھیں (یعنی حکم شریعت سے بچنے کے لیے حیلوں اور مکاریوں سے کام لیا تھا) ہم نے کہا ذلیل و خوار بندروں کی طرح ہوجاؤ (انسانوں کے پاس سے ہمیشہ دھتکارے نکالے جاؤ گے) البقرة
66 چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم نے اس معاملہ کو ان سب کے لیے جن کے سامنے ہوا اور ان کے لیے بھی جو بعد کو پیدا ہوئے تازیانہ عبرت بنا دیا اور ان لوگوں کے لیے جو متقی ہیں اس میں نصیحت و دانائی رکھ دی البقرة
67 اور پھر (وہ معاملہ یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے یہ بات کہی تھی کہ یہ خدا کا حکم ہے ایک گائے ذبح کردو۔ (بجائے اس کے کہ راست بازی کے ساتھ اس پر عمل کرتے، لگے طرح طرح کی کٹ حجتیاں کرنے) کہنے لگے : معلوم ہوتا ہے تم ہمارے ساتھ تمسخر کر رہے ہو۔ موسیٰ نے کہا نوعذ باللہ اگر میں (احکام الٰہی کی تبلیغ میں تمسخر کروں اور) جاہلوں کا سا شیوہ اختیار کروں البقرة
68 (یہ سن کر) وہ بولے (اگر ایسا ہی ہے تو) اپنے پروردگار سے درخواست کرو وہ کھول کر بیان کردے کس طرح کا جانور ذبح کرنا چاہے ی؟ (یعنی ہمیں تفصیلات معلوم ہونی چاہیں) موسیٰ نے کہا۔ خدا کا حکم یہ ہے کہ ایسی گائے ہو جو نہ تو بالکل بوڑھی ہو نہ بالکل بچھیا۔ درمیانی عمر کی ہو۔ اور اب (کہ تمہیں تفصیل کے ساتھ حکم مل گیا ہے) چاہیے کہ اس کی تعمیل کرو البقرة
69 (لیکن انہوں نے پہلے سوال کا جواب پا کر ایک دوسرا سوال کھڑا کردیا) کہنے لگے اپنے پروردگار سے درخواست کرو۔ وہ یہ بھی بتلا دے کہ جانور کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ موسیٰ نے کہا حکم الٰہی یہہ ہے کہ اس کا رنگ پیلا ہوخوب گہرا پیلا۔ ایسا کہ دیکھنے والوں کا جی دیکھ کر خوش ہوجائے البقرة
70 (جب رنگ کی خصوصیت بھی معین ہوچکی تو انہوں نے اور الجھاؤ پیدا کردیا) کہنے لگے (ان ساری باتوں کے بعد بھی) ہمارے لیے جانور کی پہچان مشکل ہے اپنے پروردگار سے کہو کہ (اور زیادہ کھول کے) بتلا دے کہ جانور کیسا ہونا چاہیے؟ انشاء اللہ ہم ضرور پتہ لگا لیں گے البقرة
71 اس پر موسیٰ نے کہا اللہ فرماتے ہے۔ ایسی گائے ہو جو نہ تو کبھی ہل میں جوتی گئی ہو نہ کبھی آب پاشی کے لیے کام میں لائی گئی ہو۔ پوری طرح صحیح سالم، داغ دھبے سے پاک و صاف۔ (جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو پھر عاجز ہو کر بولے۔ ہاں اب تم نے ٹھیک ٹھیک بات بتلا دی۔ چنانچہ جاور ذبح کیا گیا۔ اگرچہ ایسا کرنے پر وہ (دل سے) آمادہ نہ تھے البقرة
72 اور پھر (غور کرو وہ واقعہ) جب تم نے (یعنی تمہاری قوم نے) ایک جان ہلاک کردی تھی، اور اس کی نسبت آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے اور جو بات تم چھپانی چاہتے تھے خدا اسے آشکارا کردینے والا تھا البقرة
73 چنانچہ ایسا ہوا کہ ہم نے حکم دیا اس (شخص) پر (جو فی الحقیقت قاتل تھا) مقتول کے بعض (اجزائے جسم) سے ضرب لگاؤ (جب ایسا کیا گیا تو حقیقت کھل گئی اور قاتل کی شخصیت معلوم ہوگئی) اللہ اسی طرح مردوں کو زندگی بخشتا اور تمہیں اپنی (قدرت و حکمت کی) نشنایاں دکھلاتا ہے تاکہ سمجھ بوجھ سے کام لو البقرة
74 اور پھر تمہارے دل سخت پڑگئے ایسے ست، گویا پتھر کی چٹانیں ہیں !(نہیں) بلکہ پتھر سے بھی زیادہ سخت کیونکہ پتھروں میں تو بعض پتھر ایسے بھی ہیں جن میں سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور انہی پتھروں میں ایسی چٹانیں بھی ہیں جو شق ہو کر دو ٹکڑے ہوجاتی ہیں اور ان میں سے پانی اپنی راہ نکال لیتا ہے، اور پھر انہی میں وہ چٹانیں بھی ہوئیں جو خوف الٰہی سے (لرز کر) گر پڑتی ہیں (پس افسوس ان دلوں پر، جن کے آگے پتھر کی سختی اور چٹانوں کا جماؤ بھی ماند پڑجائے) اور (یاد رکھو) خدا (کا قانون) تمہارے کرتوتوں کی طرف سے غافل نہیں ہے البقرة
75 (مسلمانو !) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ (کلام حق پر غور کریں گے اور اس کی سچائی پرکھ کر) تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور اس کا مطلب سمجھتا تھا لیکن پھر بھی جان بوجھ کر اس میں تحریف کردیتا تھا (یعنی اس کا مطلب بدل دیتا تھا) البقرة
76 اور (دیکھو ان کا حال تو یہ ہے کہ) جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں، تو اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتے ہیں لیکن جب اکیلے میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں "جو کچھ تمہیں خدا نے (تورات کا) علم دیا ہے وہ ان لوگوں پر کیوں ظاہر کرتے ہو؟ کیا اس لیے کہ وہ تمہارے خلاف تمہارے پروردگار کے حضور اس سے دلیل پکڑیں) یعنی تورات سے تمہارے خلاف دلیل لائیں؟ کیا (اتنی موٹی سی بات بھی) تم نہیں سمجھتے؟ البقرة
77 (افسوس ان کے دعوائے ایمان و حق پرستی پر !) کیا یہ نہیں جانتے کہ (معاملہ انسان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے اور) اللہ کے علم سے کوئی بات چھپی ؟ وہ جو کچھ چھپا رکھتے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں وہ بھی اس کے سامنے ہے؟ البقرة
78 اور پھر انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو ان پڑھ ہیں، اور جہاں تک کتاب الٰہی کا تعلق ہے (خوش اعتقادی کی) آرزوؤں اور ولولوں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے، اور محض وہموں گمانوں میں مگن ہیں البقرة
79 پس افسوس ان پر جن کا شیوہ یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں (یعنی اپنی رایوں اور خواہشوں کے مطابق احکام شرع کی کتابیں بناتے ہیں) پھر لوگوں سے کہتے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ہے (یعنی اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ کتاب الٰہی کے احکام ہیں) اور یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں ایک حقیر سی قیمت دنیوی فائدہ فائدہ کی حاصل کرلیں۔ پس افسوس اس پر جو کچھ ان کے ہاتھ لکھتے ہیں، اور افسوس اس پر، جو کچھ وہ اس ذریعہ سے کماتے ہیں البقرة
80 یہ لوگ (یعنی یہودی) کہتے ہیں جہنم کی آگ ہمیں کبھی چھونے والی نہیں (کیونکہ ہماری امت خدا کے نزدیک نجات پائی ہوئی امت ہے) اگر ہم آگ میں ڈالے بھی جائیں گے تو (اس لیے نہیں کہ ہمیشہ عذاب میں رہیں بلکہ) صرف چند گنے ہوئے دنوں کے لیے (تاکہ گناہ کے میل کچیل سے پاک صاف ہو کر پھر جنت میں جا داخل ہوں)۔ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دو یہ بات جو تم کہتے ہو تو (دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو) تم نے خدا سے (غیر مشروط) نجات کا کوئی پٹہ لکھا لیا ہے کہ اب وہ اس کے خلاف جا نہیں سکتا، اور یا پھر تم خدا کے نام پر ایک ایسی بات کہہ رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں البقرة
81 نہیں (آخرت کی نجات کسی ایک گروہ ہی کی میراث نہیں ہے کہ ہر حال میں اسی کے لیے ہو۔ خدا کا قانون تو یہ ہے کہ کوئی انسان ہو اور کسی گروہ کا ہو، لیکن) جس کسی نے بھی اپنے کاموں سے برائی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے گھیرے میں لے لیا، تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا البقرة
82 اور جو کوئی بھی ایمان لایا اور اس کے کام بھی اچھے ہوئے تو وہ بہشتی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ بہشت میں رہنے والا البقرة
83 اور پھر (وہ وقت) یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (وہ عہد کیا تھا؟ کیا اسرائیلیت کے گھمنڈ اور یہودی گروہ بندی کی نجات یافتگی کا عہد تھا؟ نہیں، ایمان و عمل کا عہد تھا) اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، عزیزوں قریبوں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، یتیموں مسکینوں کی خبر گیری کرنا، تمام انسانوں سے اچھا برتاؤ کرنا، نماز قائم کرنی، زکوۃ ادا کرنی (ایمان و عمل کی یہی بنیادی سچائیاں ہیں جن کا تم سے عہد لیا گیا تھا) لیکن تم اس عہد پر قائم نہیں رہے) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب الٹی چال چلے، اور حقیقت یہ ہے کہ (ہدایت کی طرف سے) تمہارے رخ ہی پھرے ہوئے ہیں البقرة
84 اور پھر و (وہ معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا : آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو (یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی) یہ بات مانتے ہو۔ البقرة
85 لیکن (پھر دیکھو) تم ہی وہ اقرار کرنے والی جماعت ہو جس کے افراد ایک دوسرے کو بے دریغ قتل کرتے ہیں اور ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف ظلم و معصیت سے جتھا بندی کر کے اس اس کے وطن سے نکال باہر کرتا ہے (اور تم میں سے کسی کو بھی یہ بات یاد نہیں آتی کہ اس بارے میں خدا کی شریعت کے احکام کیا ہیں؟) لیکن پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تمہارے جلا وطن کیے ہوئے آدمی (دشمنوں کے ہاتھ پڑجاتے ہیں اور) قیدی ہو کر تمہارے سامنے آتے ہیں تو تم فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو (اور کہتے ہو شریعت کی رو سے ایسا کرنا ضروری ہے) حالانکہ (اگر شریعت کے حکموں کا تمہیں اتنا ہی پاس ہے تو) شریعت کی رو سے تو یہی بات حرام تھی کہ انہیں ان کے گھروں اور بستیوں سے جلا وطن کردو (پھر یہ گمراہی کی کیسی انتہا ہے کہ قیدیوں کے چھڑانے اور ان کے فدیہ کے لیے مال جمع کرنے میں تو شریعت یاد آجاتی ہے لیکن اس ظلم و معصیت کے وقت یاد نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ دشمنوں کے ہاتھ پڑے اور قید ہوئے؟) کیا یہ اس لیے ہے کہ کتاب الٰہی کا کچھ حصہ تو تم مانتے ہو اور کچھ حصے سے منکر ہو؟ پھر بتلاؤ تم میں سے جن لوگوں کے کاموں کا یہ حال ہے انہیں پاداش عمل میں اس کے سوا کیا مل سکتا ہے کہ دنیا میں ذلت و رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سسے سخت عذاب ! یاد رکھو اللہ (کا قانون جزا) تمہارے کاموں کی طرف سے غافل نہیں ہے البقرة
86 یقینا یہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت (کی زندگی) تاراج کرکے دنیا کی زندی مول لی ہے۔ (پس ایسے لوگوں کے لیے علاج کی کوئی امید نہیں) نہ تو ان کے عذاب میں کمی ہوگی، نہ کہیں سے مدد پا سکیں گے البقرة
87 اور (پھر دیکھو) ہم نے (تمہاری رہنمائی کے لیے پہلے) موسیٰ کو کتاب دی۔ پھر موسیٰ کے بعد ہدایت کا سلسلہ پے در پے رسولوں کو بھیج کر جاری رکھا، بالآخر مریم کے بیٹے عیسیٰ کو سچائی کی روشن نشانیاں دیں، اور روح القدس کی تائید سے ممتاز کیا (لیکن ان میں سے ہر دعوت کی تم نے مخالفت کی) پھر کیا تمہار شیوہ ہی یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کا کوئی رسول ایسی دعوت لے کر آئے جو تمہاری نفسانی خواہشوں کے خلاف ہو، تو تم اس کے مقابلے میں سرکشی کر بیٹھو، اور کسی کو جھٹلاؤ، کسی کو قتل کردو البقرة
88 اور (یہ لوگ اپنے جماؤ اور بے حسی کی حالت پر فخر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں (یعنی اب کسی نئی بات کا اثر ان تک پہنچ ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ اعتقاد کی پختگی اور حق کا اثبات نہیں ہے) بلکہ انکار حق کے تعصب کی پھٹکار ہے (کہ کلام حق سننے اور اثر پذیر ہونے کی استعداد ہی کھو دی) اور اسی لیے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ دعوت حق سنیں اور قبول کریں البقرة
89 چنانچہ جب ایسا ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لیے ایک کتاب نازل ہوئی اور وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی تھی جو پہلے سے ان کے پاس موجود ہے تو باوجودیکہ وہ (تورات کی پیشین گوئیوں کی بنا پر اس کے ظہور کے منتظر تھے، اور) کافروں کے مقابلے میں اس کا نام لے کر فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے تھے، لیکن جب وہی جانی بوجھی ہوئی بات سامنے آگئی، تو صاف انکار کرگئے، پس ان لوگوں کے لیے جو (جان بوجھ کر) کفر کی راہ اختیار کریں اللہ کی لعنت ہے، (یعنی ایسوں پر فلاح و سعادت کی راہ کبھی نہیں کھلتی) البقرة
90 (افسوس ان کی شقاوت پر) کیا ہی بری قیمت ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا چکایا ! انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی سچائی سے انکار کیا، اور صرف اس لیے انکار کیا کہ وہ جس کسی پر چاہتا ہے اپنا فضل کردیتا ہے (اس میں خود ان کی نسل و جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے پہلے ہی ذلیل و خوار ہوچکے تھے، لیکن اس نئے انکار سے اور زیادہ ذلت و خواری کے سزاوار ہوئے) پس اللہ کا غضب بھی ایک کے بعد ایک ان کے حصے میں آیا اور اس کا قانون یہی ہے کہ انکار حق کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) رسوا کرنے والا عذاب ہوتا ہے البقرة
91 اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے جو کچھ خدا نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں ہم تو صرف وہی بات کہیں گے جو ہم پر اتری ہے (یعنی اس کے سوا جو کچھ ہے اس سے انہیں انکار ہے) حالانکہ وہ خدا کا سچا کلام ہے جو ان کی کتاب کی تصدیق کرتا ہوا نمودار ہوا ہے۔ اے پیغمبر، تم ان لوگوں سے کہو اچھا اگر واقعی تم (اپنی کتاب پر) ایمان رکھنے والے ہو (اور قرآن کی دعوت سے صرف اس لیے انکار کرتے ہو کہ تورات پر ایمان رکھنے کے بعد اس کی ضرورت نہیں) تو پھر تم نے پچھلے وقتوں میں خدا کے نبیوں کو کیوں قتل کیا (جو تمہیں تورات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے، اور کیوں ایمان کی جگہ انکار و سرکشی کی راہ اختیار کی) البقرة
92 اور پھر دیکھو، یہ واقعہ ہے کہ موسیٰ سچائی کی روشن دلیلوں کے ساتھ تمہارے پاس آیا لیکن جب (چالیس دن کے لیے) تم سے الگ ہوگیا تو تم بچھڑے کے پیچھے پڑگئے، اور ایسا کرتے ہوئے یقینا تم حق سے گزر گئے تھے البقرة
93 اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (دین الٰہی پر قائم رہنے کا) تم سے عہد لیا تھا اور کوہ طور کی چوٹیا تم پر بلند کردی تھیں (تو تم نے اس کے بعد کیا کیا؟ تمہیں حکم دیا گیا تھا کہ) جو کتاب تمہیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور اس کے حکموں پر کاربند ہو، تم نے (زبان سے) کہا سنا اور (دل سے کہا) نہیں مانتے۔ اور پھر ایسا ہوا کہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے دلوں میں بچھڑے کی پوجا رچ گئی (اے پیغمبر) ان سے کہو (دعوت حق سے بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے) تم اپنے جس ایمان کا دعوی کرتے ہو اگر وہ یہی ایمان ہے تو افسوس اس ایمان پر، کیا ہی بری راہ ہے جس پر تمہارا ایمان تمہیں لے جا رہا ہے البقرة
94 یہ لوگ کہتے ہیں آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے) تم ان سے کہو اگر آخرت کا گھر خدا کے نزدیک صرف تمہارے ہی لیے ہے۔ اور تم اپنے اس اعتقاد میں سچے ہو تو (تمہیں دنیا کی جگہ آخرت کا طلب گار ہونا چاہیے۔ پس بے خوف ہو کر) موت کی آرزو کرو (حیات فانی کے پجاری نہ بنو) البقرة
95 اے پیغمبر ! تم دیکھ لوگے کہ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے جس کا ذخیرہ جمع کرچکے ہیں۔ کبھی ایسا کرنے والے نہیں اور اللہ ظلم کرنے والوں کو اچھی طرح جانتا ہے البقرة
96 اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ تم دیکھو گے، زندگی کی سب سے زیادہ حرص رکھنے والے یہی لوگ ہیں۔ مشرکوں سے بھی زیادہ (ان مدعیان توحید کے دلوں میں حیات فانی کا عشق ہے) ان میں ایک ایک آدمی کا دل یہ حسرت رکھتا ہے کہ کاش ایک ہزار برس تک توحید کے دلوں میں حیات فانی کا عشق ہے) ان میں سے ایک ایک آدمی کا دل یہ حسرت رکھتا ہے کہ کاش ایک ہزار برس تک تو جیے ! حالانکہ عمر کی درازی انہیں عذاب آخرت سے نجات نہیں دلا دے گی اور جو کچھ کررہے ہیں، اللہ کی نظر سے چھپا ہوا نہیں ہے البقرة
97 (اے پیغمبر ! یہ اللہ کا کلام ہے جو جبرایل نے اس کے حکم سے تمہارے دل میں اتارا ہے اور یہ اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے، جو اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے۔ اس میں انسان کے لیے ہدایت ہے اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (فلاح و کامیابی کی) بشارت البقرة
98 (پھر اگر یہ لوگ اللہ کی وحی و نبوت کے سلسلہ کے مخالف ہیں اور جہل و تعصب سے کہتے ہیں ہم جبریل کا اتارا ہوا کلام نہیں مانیں گے اس سے ہماری دشمنی ہے تو) تم کہہ دو جو کوئی اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکال کا دشمن ہے، تو یقینا اللہ بھی منکرین حق کا دوست نہیں ہے البقرة
99 اے پیغمبر ! یقین کرو ہم نے تم پر سچائی کی روشن دلیلیں نازل کی ہیں، اور ان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر صرف وہی جو راست بازی کے دائرہ سے باہر ہوگیا ہے البقرة
100 جب کبھی ان لوگوں نے اتباع حق کا کوئی عہد کیا تو کسی نہ کسی گروہ نے ضرور ہی اسے پس پشت ڈال دیا اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جن کے دل ایمان سے خالی ہیں البقرة
101 چنانچہ (دیکھو) جب ایسا ہوا کہ اللہ کا ایک رسول اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوا آیا جو پہلے سے ان کے پاس موجود تھی (یعنی حضرت مسیح کا ظہور ہوا) تو ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے کہ کتاب الٰہی رکھتے تھے، کتاب الٰہی اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دی گویا اسے جانتے ہی نہیں البقرة
102 اور پھر (دیکھو) ان لوگوں نے (کتاب الٰہی کی تعلیم فراموش کرکے جادوگری کے) ان (مشرکانہ) عملوں کی پیروی کی جنہیں شیطان سلیمان کے عہد سلطنت کی طرف منسوب کرکے پڑھا پڑھایا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان کبھی کفر کا مرتکب نہیں ہوا۔ دراصل یہ انہی شیطانوں کا کفر تھا کہ لوگوں کو جادوگری سکھلاتے تھے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماورت پر اس طرح کی کوئی بات نازل ہوئی تھی (جیسا کہ ان لوگوں میں مشہور ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ) وہ جو کچھ بھی کسی کو سکھلاتے تھے تو یہ کہے بغیر نہیں سکھلاتے تھے کہ دیکھو ہمارا وجود تو ایک فتنہ ہے، پھر تم کیوں کفر میں مبتلا ہوتے ہو؟ (یعنی جادوگری کی باتوں کا برا ہونا ایک ایسی مانی ہوئی بات ہے، کہ جو لوگ اس کے سکھانے والے تھے وہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ بات خدا پرستی کے خلاف ہے) لیکن اس پر بھی لوگ ان سے ایسے ایسے عمل سیکھتے جن کے ذریعے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈالنا چاہتے، حالانکہ وہ کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ ہاں یہ ہوسکتا تھا کہ خدا کے حکم سے کسی کو نقصان پہنچنے والا ہو اور نقصان پہنچ جائے۔ (بہرحال) یہ لوگ (کتاب الٰہی کی تعلیم فراموش کرکے) ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو انہیں سراسر نقصان پہنچانے والی ہیں۔ اور (پرھ کچھ یہ بات بھی نہیں کہ انہیں احکام الٰہی کی خبر نہ ہو) انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کوئی (اپنا دین و ایمان بیچ کر) جادوگری کا خریدار ہوتا ہے اس کے لیے آخرت کی برکتوں میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پس افسوس ان کی اس خرید و فروخت پر ! کیا ہی بری جنس ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کی نجات بیچ ڈالی ! کاش وہ اس حقیقت کی خبر رکھتے البقرة
103 اگر یہ لوگ (خا کے حکموں پر سچائی کے ساتھ) ایمان لاتے اور نیک عملی کی چال اختیار کرتے، تو ان کے لیے اللہ کے حضور بہتر اجر تھا۔ کاش وہ سمجھ بوجھ سے کام لیں البقرة
104 مسلمانو ! (پیغمبر اسلام کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہو، تو ان منکرین حق کی طرح) یہ نہ کہو کہ "راعنا" (جو مشتبہ اور ذومعنی رکھنے والا لفظ ہے، بلکہ) کہو "انظرنا" ہماری طرف التفات کیجیے !" اور پھر وہ جو کچھ بھی کہیں اسے جی لگا کر سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ باقی رہے یہ منکرین حق تو یاد رکھو انہیں (پاداش عمل میں) دردناک عذاب ملنے والا ہے البقرة
105 اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ اور مشرک دونوں نہیں چاہتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر خیر و برکت (یعنی وحی الٰہی) نازل ہو (اور اس لیے وہ طرح طرح کے شک پیدا کرکے تمہیں سچائی کی راہ سے باز رکھنا چاہتے ہیں) لیکن اللہ (کا قانون اس بارے میں انسانی خواہشوں کا پابند نہیں ہوسکتا وہ) جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بہت بڑا فضل رکھنے والا ہے البقرة
106 ہم اپنے احکام میں سے جو کچھ بدل دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اس سے بہتر یا اس جیسا حکم نازل کردیتے ہیں (پس اگر اب ایک نئی شریعت ظہور میں آئی ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پو لوگوں کو حیرانی ہو) کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں البقرة
107 (اگر وہ ایک مرتبہ تمہاری ہدایت کے لیے حسب ضرورت احکام بھیج سکتا ہے تو یقینا اس کے بعد بھی بار بار ایسا کرسکتا ہے) اور پھر کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی سلطانی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہارا دوست اور مددگار ہو البقرة
108 پھر کیا تم چاہتے ہو اپنے رسول سے بھی (دین کے بارے میں) ویسے ہی سوالات کرو جیسے اب سے پہلے موسیٰ سے سے کیے جا چکے ہیں؟ (یعنی جس طرح بنی اسرائیل نے راست بازی کی جگہ کٹ حجتیاں کرنے اور بلا ضرورت باریکیاں نکالنے کی چال اختیار کی تھی ویسی ہی تم بھی اختیار کرو؟ سو یاد رکھو) جو کوئی بھی ایمان کی نعمت پا کر پھر اسے کفر سے بدل دے گا تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور فلاح و کامیابی کی منزل اس پر گم ہوگئی البقرة
109 یاد رکھو اہل کتاب میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو چاہتے ہیں، تمہیں ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹا دیں، اور اگرچہ ان پر سچائی ظاہر ہوچکی ہے لیکن پھر اس حسد کی وجہ سے جس کی جلن ان کے اندر ہے، پسند نہیں کرتے کہ تم راہ حق میں ثابت قدم رہو۔ پس چاہیے کہ (ان سے لڑنے جھگرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو، اور) عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہر ہوجائے (اور وہ حق کو فتح مند کرکے بتلا دے کہ کون حق پر تھا اس کس کی جگہ باطل پرستی کی جگہ تھی) بلاشبہ وہ ہر بات پر قادر ہے البقرة
110 اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ یاد رکھو جو کچھ بھی تم اپنے لیے نیکی پونجی پہلے سے اکٹھی کرلوگے، اللہ کے پاس اس کے نتیجے موجود پاؤگے (یعنی مستقبل میں اس کے نتائج و ثمرات ظاہر ہوں گے) تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے البقرة
111 اور یہودی کہتے ہیں جنت میں کوئی آدمی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو۔ اسی طرح عیسائی کہتے ہیں جنت میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ عیسائی نہ ہو۔ (یعنی ان میں سے ہر گروہ سمجھتا ہے آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے اور جب تک ایک انسان اس کی مذہبی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پاسکتا۔ (اے پیغمبر) یہ ان لوگوں کی جاہلانہ امنگیں اور آرزوئیں ہیں۔ نہ کہ حقیقت حال۔ تم ان سے کہ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو تو ثابت کرو تمہارے دعوے کی دلیل کیا ہے البقرة
112 ہاں (بلاشک نجات کی راہ کھلی ہوئی ہے مگر وہ کسی خاص گروہ بندی کی راہ نہیں ہوسکتی۔ وہ تو ایمان و عمل کی راہ ہے) جس کسی نے بھی اللہ کے آگے سر جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہوا تو وہ اپنے پروردگار سے اپنا اجر ضرور پائے گا۔ نہ تو اس کے لیے کسی طرح کا کھٹکا ہے نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
113 یہودی کہتے ہیں، عیسائیوں کا دین کچھ نہیں ہے، عیسائی کہتے ہیں، یہودیوں کے پاس کیا دھر اہے؟ حالانکہ اللہ کی کتاب دونوں پڑھتے ہیں (اور اصل دین دونوں کے لیے ایک ہی ہے) ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب نے کہ وہ بھی صرف اپنے طریقہ ہی کو سچائی کا طریقہ سمجھتے ہیں) اچھا، قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان حاکم ہوگا اور جس بات میں جھگڑ رہے ہیں اس کا فیصلہ کردے گا البقرة
114 اور غور کرو اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والا انسان کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی عبادت گاہوں میں اس کے نام کی یاد کو روکے اور ان کی ویرانی میں خوش ہو؟ جن لوگوں کے ظلم کا یہ حال ہے یقینا وہ اس لائق نہیں کہ خدا کی عبادت گاہوں میں قدم رکھیں۔ بجز اس حالت کے کہ (دوسروں کو اپنی طاقت سے ڈرانے کی جگہ خود دوسروں کی طاقت سے) ڈرے سہمے ہوئے ہوں۔ یاد رکھو، ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی سخت عذاب ہے البقرة
115 اور دیکھو، پورب ہو یا پچھم ساری دنیا اللہ ہی کے لیے ہے (اس کی عبادت کسی ایک رخ اور مقام ہی پر موقوف نہیں) جہاں کہیں بھی تم اللہ کی طرف رخ کرلو اللہ تمہارے سامنے ہے۔ بلاشبہ اس کی قدرت کی سمائی بڑی ہی سمائی ہے، اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
116 اور (عیسائیوں کو دیکھو) انہوں نے کہا خدا نے (نوع انسانی کا گناہ معاف کرنے کے لیے مسیح کو) اپنا بیٹا بنایا حالانکہ خدا کی ذات اس سے پاک (وہ کیوں اس بات کا محتاج ہو کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے) زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمان کے آگے جھکے ہوئے ہیں البقرة
117 وہ آسمان و زمین کا صناع ہے۔ وہ جب کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو ( نہ تو اسے کسی مددگار کی ضرورت ہوتی ہے نہ ذریعوں کی) بس وہ حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور جیسا اس نے حکم دیا تھا ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے البقرة
118 اور جو لوگ (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب) وہ کہتے ہیں (اگر یہ تعلیم خدا کی طرف سے ہے تو کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ خدا ہم سے براہ راست بات چیت کرے یا اپنی کوئی (عجیب و غریب)ٰ نشانی ہی بھیج دے، تو (دیکھو گمراہی کی) جیسی بات یہ کہہ رہے ہیں، ٹھیک ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اس بارے میں پہلوں اور پچھلوں سب کے دل ایک ہی طرح کے ہوئے۔ (بہرحال اگر یہ لوگ نشانیوں ہی کے طلب گار ہیں تو چاہیے نشانیوں کی پہچان بھی پیدا کریں، ہم نے ان لوگوں کے لیے جو ماننے والے ہیں کتنی ہی نشانیاں نمایاں کردی ہیں البقرة
119 اے پیغمبر ! یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے تمہی (خلق اللہ کی ہدایت کے لیے) بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ (ایمان و عمل کی برکتوں کی) بشارت دو، اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کردو (یعنی تمہاری دعوت تمام تر خدا پرستی اور نیک عملی کی دعوت ہے۔ پھر جو لوگ نشانیاں مانگ رہے ہیں اگر فی الحقیقت ان میں سچائی کی طلب ہے تو غور کریں، تمہاری دعوت سے بڑھ کر اور کون سی نشانی ہوسکتی ہے؟ جو لوگ (اپنی محرومی و شقاوت سے) دوزخی گروہ ہوچکے، تم ان کے لیے خدا کے حضور جوابدہ نہیں ہوگے (تمہارا کام صرف پیام حق پہنچا دینا ہے) البقرة
120 اور (حقیقت یہ ہے کہ اپنی سچائی کی کتنی ہی نشانیاں پیش کرو، لیکن) یہود اور نصاری تم سے خوش ہونے والے نہیں۔ وہ تو صرف اسی حالت میں خوش ہوسکتے ہیں کہ تم ان کی (بنائی ہوئی) جماعتوں کے پیرو ہوجاؤ (کیونکہ جس بات کو انہوں نے دین سمجھ رکھا ہے وہ گروہ پرستی کے تعصب کے سوا کچھ نہیں) پس تم ان سے (صاف صاف) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت کی راہ تو وہی ہے جو ہدایت کی اصلی راہ ہے (نہ کہ تمہاری خود ساختہ گروہ بندیاں) اور یاد رکھو اگر تم نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی باوجودیکہ تمہارے پاس علم و یقین کی روشنی آچکی ہے تو (یہ ہدایت الٰہی سے منہ موڑنا ہوگا اور پھر) اللہ کی دوستی اور مددگاری سے تم یکسر محرم ہوجاؤگے البقرة
121 اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب الٰہی کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کرتے ہیں (یعنی راست بازی و اخلاص کے ساتھ پڑھتے ہیں) تو وہی ہیں جو (قبولیت کی استعداد رکھتے ہیں اور اس لیے وہی ہیں جو) اس پر ایمان لائیں گے اور جو کوئی ان میں سے انکار کرتا ہے تو (اس کی ہدایت کی کوئی امید نہیں) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے تباہی و نامرادی ہے البقرة
122 اے بنی اسرائیل میری وہ نعمتیں یاد کرو جن سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا۔ میں نے تمہیں دنیا کی قوموں میں برگزیدگی عطا فرمائی تھی البقرة
123 اور دیکھو اس دن سے ڈرو جو یقینا آنے والا ہے (اور جس دن ہر انسان کو اپنے اعمال کے نتیجوں سے دو چار ہونا ہے) اس دن نہ تو کوئی جان دوسری جان کے کام آئے گی (کہ اپنے بزرگوں اور پیشواؤں کا نام لے کر اپنے آپ کو بخشوا لو) نہ کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا (کہ اپنی بدعملیوں کا فدیہ دے کر جان چھڑا لو) نہ کسی سعی و سفارش چل سکے گی ( کہ ان کا وسیلہ پکڑ کے کام نکال لو) اور نہ ہی ایسا ہوگا کہ مجرموں کو کہیں سے مدد ملے البقرة
124 اور (پھر غور کرو وہ واقعہ) جب ابراہیم کو اس کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا تھا اور وہ ان میں پورا اترا تھا۔ جب ایسا ہو تو خدا نے فرمایا اے ابراہیم ! میں تجھے انسانوں کے لیے امام بنانے والا ہوں (یعنی دنیا کی آنے والی قومیں تیری دعوت قبول کریں گی اور تیرے نقش قدم پر چلیں گی) ابراہیم نے عرض کیا جو لوگ میری نسل میں سے ہوں گے ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ ارشاد ہو جو ظلم و معصیت کی راہ اختیا کریں تو ان کا میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں البقرة
125 اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ) کے اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کے گرد آوری کا مرکز اور امن و ھرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنا لی جائے۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں، عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سوجد کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا) البقرة
126 اور (پھر) جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے خدا کے حضور دعا مانگی تھی (اے پروردگار ! اس جگہ کو (جو دنیا کی آباد سرزمین سے دور اور سرسبزی و شادابی سے یک قلم محروم ہے) امن و امان کا ایک آباد شہر بنا دے اور پنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ یہاں کے بسنے والوں میں جو لوگ تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہوجائے" اس پر ارشاد الٰہی ہوا تھا کہ (تمہاری دعا قبول کی گئی، یہاں کے باشندوں میں سے) جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا سو اسے بھی ہم (سروسامان رزق سے) فائدہ اٹھانے دیں گے۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا بہت تھوڑا ہوگا۔ کیونکہ بالآخر اسے (پاداش عمل میں) چاروناچار دوزخ میں جانا ہے اور کیا ہی برا اس کا ٹھکانا ہوا البقرة
127 اور (پھر دیکھو وہ کیسا عظیم الشان اور انقلاب انگیز وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی نیو ڈال رہا تھا اور اس معیل بھی اس کے ساتھ شریک تھا (ان کے ہاتھ پتھر چن رہے تھے اور دل و زبان پر یہ دعا طاری تھی) اے پروردگار ! ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو ! بلاشبہ تو ہی ہے جو دعاؤں کا سننے والا اور (مصالح عالم کا) جاننے والا ہے البقرة
128 اے پروردگار (اپنے فضل و کرم سے) ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہم سچے مسلم (یعنی تیرے حکموں کے فرمانبردار ہوجائیں اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی امت پیدا کردے جو تیرے حکموں کی فرمانبردار ہو ! خدایا ! ہمیں ہماری عبادت کے (سچے) طور طریقے بتلا دے اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر۔ بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو رحمت سے درگزر کرنے والی ہے اور جس کی رحیمات نہ درگزر کی کوئی انتہا نہیں ! البقرة
129 اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار ! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے البقرة
130 (یہ ہے ابراہیم کا طریقہ) اور ان لوگوں کے سوا جنہوں نے اپنے آپ کو نادانی و جہالت کے حوالے کردیا ہے کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے منہ پھیر سکتا ہے؟ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں بھی اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا اور آخرت میں بھی اس کی جگہ نیک انسانوں کے زمرے میں ہوگی البقرة
131 جب ابراہیم کے پروردگار نے اسے حکم دیا تھا کہ "فرمانبردار ہوجا" تو وہ پکار اٹھا تھا میں اس کے حکموں کا فرمانبردار ہوگیا جو تمام دنیا کا پروردگار ہے البقرة
132 اور پھر اسی طریقہ کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور (اس کے پوتے) یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی۔ انہوں نے کہا "اے میرے بیٹو ! خدا نے تمہارے لیے اس دین (حقیقی) کی راہ پسند فرما لی ہے تو دیکھو، دنیا سے نہ جانا مگر اس حالت میں کہ تم مسلم ہو (یعنی فرمانبردار ہو) البقرة
133 پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کے سرہانے موت آ کھڑی ہوئی تھی اور اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے پوچھا تھا "میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے جواب دیا "اسی خدائے واحد کی جس کی تو نے عبادت کی ہے اور تیرے بزرگوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق نے کی ہے اور ہم اس کے حکموں کے فرمانبردار ہوئے۔ البقرة
134 (بہرحال) یہ ایک مات تھی جو گزر چکی اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا۔ تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم اپنے عمل سے کماؤ گے۔ تم سے کچھ اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان لوگوں کے اعمال کیسے تھے البقرة
135 یہودیوں نے کہا یہودی ہوجاؤ ہدایت پاؤ گے، نصاری نے کہا نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاؤگے۔ لیکن تم کہو، نہیں (خدا کی عالمگیر سچائی ان گروہ بندیوں میں محدود نہیں ہوجا سکتی) اس کی راہ تو وہی "حنیفی" راہ ہے جو ابراہیم کی راہ تھی یعنی تمام انسانی طریقوں سے منہ موڑنا اور صرف خدا کے سیدھے سادھے فطری طریقہ کا ہو رہنا) اور یقینا وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا البقرة
136 مسلمانو ! تم کہو، ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں۔ قرآن پر ایمان لائے ہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے۔ ان تمام تعلیموں پر ایمان لائے ہیں جو ابراہیم کو، اسماعیل کو، اسحاق کو، یعقوب کو اور اولاد یعقبو کو دی گئیں۔ نیز ان کتابوں پر جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دی گئی تھیں۔ اور (صرف اتنا ہی نہیں بلکہ) ان تمام تعلیموں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو دنیا کے تمام نبیوں کو ان کے پروردگار سے ملی ہیں۔ ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے (کہ اسے نہ مانیں۔ باقی سب کو مانیں۔ یا اسے مانیں۔ مگر دوسروں سے منکر ہوجائیں۔ خدا کی سچائی کہیں بھی اور کسی پر بھی آئی ہو) ہم خدا کے فرمانبردار ہیں البقرة
137 پھر اگر یہ لوگ بھی ایمان کی راہ اختیار کرلیں۔ اسی طرح جس طرح تم نے اختیار کی ہے تو سارے جھگڑے ختم ہوگئے، اور انہوں نے ہدایت پا لی۔ لیکن اگر اس سے روگردانی کریں تو پھر سمجھ لو کہ (ان کے ماننے کی کوئی امید نہیں) ان کی راہ (طلب حق کی جگہ) ہٹ دھرمی کی راہ ہے۔ پس (ان سے قطع نظر کرلو اور اپنے کام میں سرگرم رہو) وہ وقت دور نہیں جب اللہ کی مدد تمہیں ان مخالفتوں سے بے پروا کردے گی۔ وہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ! البقرة
138 (ہدایت اور نجات کی راہ کسی رسمی اصطباغ یعنی رنگ دینے کی محتاج نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا شیوہ ہے) یہ اللہ کا رنگ دینا ہے اور بتلاؤ اللہ سے بہتر اور کس کا رنگ دینا ہوسکتا ہے؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں البقرة
139 (اے پیغمبر) تم ان لوگوں سے کہو، ہماری راہ تو خدا پرستی کی راہ ہے۔ پھر، کیا تم خدا کے بارے میں جھگڑتے ہو؟ (یعنی خدا پرستی کے شیوے ہی سے تمہیں اختلاف ہے؟ حالانکہ ہماری اور تمہارا دونوں کا پروردگار وہی ہے۔ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ اور ہمارا طیقہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف اسی کی بندگی کرنے والے ہیں البقرة
140 جس کے پاس اللہ کی ایک گواہی موجود ہو اور وہ اسے چھپائے؟ (اور محض اپنی بات کی پچ کے لیے سچائی کا اعلان نہ کرے؟) یاد رکھو جو کچھ بھی تم کر رہے ہو، اللہ اس سے غافل نہیں ہے البقرة
141 (اور پھر جو کچھ بھی ہو) یہ ایک امت تھی جو گزر چکی۔ اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا۔ تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم اپنے عمل سے کماؤگے۔ تم سے کچھ اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان کے اعمال کیسے تھے البقرة
142 جو لوگ عقل و بصیرت سے محروم ہیں وہ کہیں گے مسلمان جس قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے کیا بات ہوئی کہ ان کا رخ اس سے پھر گیا؟ (اے پیغمبر) تم کہو پورب ہو یا پچھم سب اللہ ہی کے لیے ہے (وہ کسی خاص مقام یا جہت میں محدود نہیں) وہ جس کسی کو چاہتا ہے (کامیابی و سعادت کی) سیدھی راہ دکھا دیتا ہے البقرة
143 اور (مسلمانو ! جس طرح یہ بات ہوئی کہ بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ قبلہ قرار پایا) اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ ہم نے تمہیں نیک ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تم انسانوں کے لیے (سچائی کی) گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لیے اللہ کا رسول گواہی دینے والا ہو۔ اور اگر ہم نے اتنے دنوں تک تمہیں اسی قبلہ پر رہنے دیا جس کی طرف تم رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہ اس لیے تھا، تاکہ (وقت پر) معلوم ہوجائے کون لوگ اللہ کے رسول کی پیروی میں سچے ہیں اور کون لوگ (دل کے کچے ہیں جو آزمائش میں پڑ کر) الٹے پاؤں پھر جانے والے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں کے سوا اور سب کے لیے اس معاملہ میں بڑی ہی سخت آزمائش تھی۔ بہرحال (جو لوگ آزمائش میں پورے اترے ہیں وہ یقین کریں ان کی استقامت کے ثمرات بہت جلد انہیں حاصل ہوں گے) ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا تمہارا ایمان رائگاں جانے دے۔ وہ تو انسان کے لیے سرتاسر شفقت و رحمت رکھنے والا ہے البقرة
144 (اے پیغمبر) ہم دیکھ رہے ہیں کہ (حکم الٰہی کے شوق و طلب میں) تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ اتھ جاتا ہے تو یقین کرو ہم عنقریب تمہارا رخ ایک ایسے ہی قبلہ کی طرف پھر دینے والے ہیں جس سے تم خوشنود ہوجاؤگے (اور اب کہ اس معاملہ کے ظہور کا وقت آگیا ہے) تو چاہیے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں بھی تم اور تمہارے ساتھی ہوں، ضروری ہے کہ (نماز میں) رخ اسی طرف کو پھر جایا کرے۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے (یعنی یہود اور نصآری) وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے (کیونکہ ان کے مقدس نوشتوں میں اس کی پیشین گوئی موجود ہے اور جیسے کچھ ان کے اعمال ہیں اللہ ان سے غافل نہیں ہے البقرة
145 اگر تم اہل کتاب کے سامنے دنیا جہان کی ساری دلیلیں بھی پیش کردو جب بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں۔ نہ یہ ہوسکتا ہے کہ (علم و بصیرت سے بے بہرہ ہوکر) تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے لگو اور نہ خود وہی کسی ایک قبلہ پر متفق ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ کا قبلہ ماننے والا نہیں۔ اور یاد رکھو اگر تم نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی باوجودیکہ تمہیں اس بارے میں علم حاصل ہوچکا ہے تو یقینا نافرمانی کرنے والوں میں سے ہوجاؤگے البقرة
146 کسی بات کا حق ہونا ہی اس کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ حق کے معنی ہی قائم و ثابت رہنے کے ہیں اور جو بات قائم و ثابت رہنے والی ہے اس کے لیے اس کے قیام و ثبات سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہوسکتی ہے البقرة
147 یقین کرو یہ (تحویل قبلہ کا) معاملہ تمہارے پروردگار کی طرف سے امر حق ہے (اور جو بات حق ہو تو وہ اپنے قیام و ثبات سے اپنی حقانیت کا اعلان کردے گی) پس دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ البقرة
148 اور (دیکھو ہر گروہ کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ (عبادت کے وقت) رخ پھیر لیتا ہے۔ (پس یہ کوئی ایس بات نہیں جسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے۔ اصلی چیز جو مقصود ہے وہ تو نیک عملی ہے) پس نیکیوں کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو (یعنی جس جگہ اور جس سمت میں بھی خدا کی عبادت کرو) خدا تم سب کو پا لے گا۔ یقیناً اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں البقرة
149 اور (اے پیغمبر) تم کہیں سے بھی نکلو (یعنی سمت اور کسی مقام میں بھی ہو) لیکن نماز میں) رخ اسی طرف کو پھیر لو جس طرف مسجد حرام واقع ہے اور یقین کرو یہ یہ معاملہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے اور جانتے رہو کہ اللہ (تمہارے اعامل کی طرف سے غآفل نہیں ہے البقرة
150 اور (دیکھو) تم کہیں سے بھی نکلو (اور کسی مقام میں بھی ہو) لیک چاہیے کہ (نماز میں اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیر لو اور (اے پیروان دعوت قرآنی) تم بھی اپنا رخ اسی طرف کو کرلیا کرو۔ خواہ کسی جگہ اور کسی سمت میں ہو۔ اور یہ (جو تقرر قبلہ پر اس قدر زور دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے تاکہ تمہارے خلاف لوگوں کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہے (اور یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ معبد ابراہیمی ہی تمہارا قبلہ ہے) البتہ جو لوگ حق سے گزر چکے ہیں (ان کی مخالفت ہر حال میں جاری رہے گی) تو ان سے نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو۔ اور علاوہ بریں یہ (حکم) اس لیے بھی (دیا گیا) ہے کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کردوں۔ نیز اس لیے کہ (سعی و عمل کی) سیدھی راہ پر تم لگ جاؤ البقرة
151 یہ اسی طرح کی بات ہوئی جیسے یہ ہوئی کہ ہم نے تم میں سے ایک شخص کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا۔ وہ ہماری آیتیں تمہیں سناتا ہے (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) تمہارے دلوں کو صاف کرتا ہے، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور وہ باتیں سکھلاتا ہے جن سے تم یکسر نا آشنا تھے البقرة
152 پس (اب) میری یاد میں لگے رہو۔ میں بھی لگے رہو۔ میں بھی تمہاری طرف سے غافل نہ ہوں گا (یعنی قانون الٰہییہ ہے کہ اگر تم اللہ سے غافل نہ ہوگے، تو اللہ کی مدد و نصرت بھی تمہاری طرف سے غافل نہ ہوگی) اور دیکھو، میری نعمتوں کی قدر کرو۔ ایسا نہ کرو کہ کفران نعمت میں مبتلا ہوجاؤ البقرة
153 مسلمانو ! صبر اور نماز (کی معنوی قوتوں) سے سہارا پکڑو۔ یقین کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے البقرة
154 اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوجاتے ہیں تو یہ مت کہو کہ مردے ہیں۔ نہیں وہ تو زندہ ہیں، لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے البقرة
155 اور یاد رکھو یہ ضرور ہونا ہے کہ ہم تمہارا امتحان لیں۔ خطرات کا خوف، بھوک کی تکلیف، مال وجان کا نقصان، پیداوار کی تباہی، وہ آزمائشیں ہیں جو تمہیں پیش آئیں گی۔ پھر جو لوگ صبر کرنے والے انہیں (فتح و کامرانی کی) بشارت دے دو البقرة
156 یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی کوئی مصیبت ان پر آن پڑتی ہے تو (بے قرار ہونے کی جگہ ذکر الٰہی سے اپنی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں، اور) ان کے زبان حال کی یہ صدا ہوتی ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون !(ہماری زندگی اور موت، رنج و غم، سود و زیاں، جو کچھ بھی ہے سب کچھ اللہ کے یلے ہے، اور ہم سب کو بالاآخر مرنا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے) البقرة
157 سو یقینا ایسے ہی لوگ ہیں، جن پر ان کے پروردگار کے الطاف و کرم ہیں، جن پر اس کی رحمت اترتی ہے، اور یہی ہیں جو اپنے مقصد میں) کامیاب ہیں البقرة
158 بلاشبہ صفا اور مروی (نامی دو پہاڑیا) اللہ کی (حکمت و رحمت کی) نشانیوں میں سے ہیں پس جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے اس گھر کا (یعنی خانہ کعبہ کا) قصد کرے تو اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان طواف کے پھیرے کرلے۔ اور جو کوئی خوش دلی کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے، تو اللہ ہر عمل کی اس کی منزلت کے مطابق قدر کرنے والا، اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
159 جن لوگوں کا یہ شیوہ ہے کہ (دنیا کے خوف یا طمع سے) ان باتوں کو چھاپتے ہیں جو سچائی کی روشنیوں اور رہنمائیوں میں سے ہم نے نازل کی ہیں باوجودیکہ ہم نے انہیں کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے تو یقین کرو ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے (یعنی اس کی رحمت سے محروم ہوجاتے ہیں) تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتیں بھی ان کے حصے میں آتی ہیں۔ البقرة
160 مگر ہاں (توبہ کا دروازہ ہر گناہ کے بعد کھلا ہوا ہے۔ پس) جن لوگوں نے اس گناہ سے توبہ کرلی اور اپنی (بگری) حالت ازسر نو نوار لی اور ساتھ ہی (احکام حق کو چھپانے کی گہ) بیان کرنے کا شیوہ اختیار کرلیا تو ایسے لوگوں کی توبہ ہم قبول کرلیتے ہیں۔ اور ہم بڑے ہی درگزر کرنے والے اور رحمت سے بخش دینے والے ہیں البقرة
161 (لیکن) جن لوگوں نے راہ حق سے انکار کیا اور پھر مرتے دم تک اسی پر قائم رہے تو (ظاہر ہے کہ ان کے لیے اصلاح حال کا کوئی موقعہ باقی نہ رہا) یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی، انسانوں کی، سب کی لعنت ہوئیئ البقرة
162 ہمیشہ اسی حالت میں رہنے والے۔ نہ تو کبھی ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت ملے گی البقرة
163 اور (دیکو) تمہار معبود ایک ہی معبود ہے کوئی معبود نہیں مگر صرف اسی کی ایک ذات۔ رحمت والی اور اپنی رحمت کی بخشش سے تمام کائنات ہستی کو فیضیاب کرنے والی البقرة
164 بلاشبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اور جہاز میں جو انسان کی کار براریوں کے لیے سمندر میں چلتا ہے، اور برسات میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی (آب پاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین کے پھیلاؤ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہواؤں کے (مختلف رخ) پھرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے ہوئے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھنے والے ہیں (اللہ کی ہستی و یگانگی اور اس کے قوانین رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں البقرة
165 اور (دیکھو) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو خدا کے سوا دوسری ہستیوں کو اس کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جیسی چاہت اللہ کے لیے ہوقنی چاہیے۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے دلوں میں تو سب سے زیادہ محبت اللہ ہی کی ہوتی۔ جو بات ان ظالموں کو اس وقت سوجھے گی جب عذاب ان کے سامنے آجائے گا کاش ! اس وقت سوجھتی۔ اس دین یہ دیکھیں گے کہ قوت اور ہر طرح کی قوت صرف اللہ ہی کو ہے، اور (اگر اس کے قوانین حق سے سرتابی کی جائے تو) اس کا عذاب بڑا ہی سخت عذاب ہے البقرة
166 اور (دیکھو) جب ایسا ہوگا کہ وہ (جھوٹے پیشوا) جن کی پیروی کی گئی تھی ( بجائے اس کے کہ اپنے پیروؤں کے کام آئیں) اپنے پیروؤں سے بیزار ظاہر کرنے لگیں گے (یعنی کہیں گے ہمیں ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں) کیونکہ عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان باہمی رشتوں وسیلوں کا تمام سلسلہ ٹوٹ جائے گا ( کہ نہ تو کوئی کسی کا ساتھ دے گا اور نہ کسی کو کسی کی فکر ہوگی) البقرة
167 تب وہ لوگ جنہوں نے ان کی پیروی کی تھی پکار اٹھیں گے۔ کاش ہمیں ایک دفعہ پھر دنیا میں لوٹنے کی مہلت مل جائے تو ہم ان (جھوٹے پیشواؤں) سے اسی طرح بیزاری ظاہر کردیں جس طرح یہ ہم سے بیزار ظاہر کر رہے ہیں ! سو دیکھو اس طرح اللہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کی حقیقت دکھلا دے گا کہ سرتاسر حسرت و پشیمانی کا منظر ہوگا اور وہ آتش عذاب سے چھٹکارا پانے والے نہیں البقرة
168 اے افراد نسل انسانی ! زمین میں جس قدر حلال اور پاکیزہ چیزیں (تمہاری غذا کے لیے) مہیا کردی گئی ہیں شوق کسے کھاؤ اور (یہ جو لوگوں نے اپنے وہموں خیالوں سے طرح طرح کی رکاوٹیں اختیار کر رکھی ہیں تو یہ شیطانی وسوسے ہیں۔ تم) شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے البقرة
169 وہ تو تمہیں بری اور قبیح باتوں ہی کے لیے حکم دے گا۔ نیز اس (گمراہی) کے لیے اکسائے گا کہ اللہ کے نام سے جھوٹی باتیں کہو جن کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں البقرة
170 اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو ہدایت نازل کی ہے اس کی پیرو کرو تو کہتے ہیں نہیں ہم تو اسی طرقے پر چلیں گے جس پر اپنے بڑے بوڑھوں کو چلتے دیکھ رہے ہیں۔ کوئی ان لوگوں سے پوچھے اگر تمہارے بڑے بوڑھے عقل سے کورے اور ہدایت سے محروم رہے ہوں تو تم بھی عقل و ہدایت سے انکار کردو گے؟ البقرة
171 اور (حقیقت یہ ہے کہ) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو ان کی مثال ایسے ہے (یعنی انہیں کورانہ تقلید کی جگہ عقل و ہدایت کی دعوت دینا ایسا ہے) جیسے ایک چرواہا چارپایوں کے آگے چیختا چلتا ہے کہ چارپائے کچھ بھی نہیں سنتے مگر صرف ہلانے اور پکارنے کی صدائیں۔ وہ بہرے گونگے اندھے ہو کر رہ گئے پس کبھی سوچنے سمجھنے والے نہیں البقرة
172 مسلمانو ! اگر اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو (اور سمجھتے ہو کہ حلال و حرام میں حکم اسی کا حکم ہے تو) وہ تمام پاکیزہ چیزیں بے کھٹکے کھاؤ جو اللہ نے تمہاری غذا کے لیے مہیا کردی ہیں اور اس کی نعمتیں کام میں لا کر اس کی بخشایشوں کے شکر گزار رہو البقرة
173 اللہ نے جو چیزیں تم پر حرام کردی ہیں وہ تو صرف یہ ہیں کہ مردار جانور، حیوانات کا خون، سور کا گوشت، اور وہ (جانور) جو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کے نام پر پکارے جائیں۔ البتہ اگر ایسی حالت پیش آجائے کہ ایک آدمی (حلال غذا نہ مل سکنے کی وجہ سے) بہ حالت مجبور کھا لے اور یہ بات نہ ہو کہ حکم شریعت کی پابندی سے نکل جانا چاہتا ہو یا اتنی مقدار سے زیادہ کھانا چاہتا ہو جتنے کی (زندگی بچانے کے لیے) ضرورت ہے تو اس صورت میں مجبور آدمی کے لیے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ بلاشبہ اللہ (خطاؤں لغزشوں کو) بخش دینے والا اور (ہر حال میں) تمہارے لیے رحمت رکھنے والا ہے البقرة
174 جو لوگ ان حکمتوں کو جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں چھپاتے ہیں، اور اس (کتمان حق) کے بدلے دنیا کے حقیر فائدے خریدتے ہیں تو یقین کرو یہ وہ لوگ ہیں جو آگ کے شعلوں سے اپنا پیٹ بھر رہے ہیں (کیونکہ یہ کمائی ان کے لیے آتش عذاب کے شعلے بننے والی ہے) قیامت کے دن یہ اللہ کے خطاب سے محروم رہیں گے، وہ انہیں (بخش کر) گناہوں سے پاک نہیں کرے گا۔ ان کے لیے عذاب دردناک میں مبتلا ہونا ہے البقرة
175 یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت بیچ کر گمراہی مول لی اور مغفرت کے بدلے عذاب کا سودا کیا تو (برائی کی راہ میں ان کا حوصلہ کیا ہی عجیب حوصلہ ہے اور) جہنم کی آگ کے لیے ان کی برداشت کیسی سخت ہی برداشت ہے البقرة
176 یہ اس لیے ہوا کہ اللہ نے کتاب (تورات) سچائی کے ساتھ نازل کردی تھی (اور جب وحی الٰہی کی روشنی آجائے تو پھر انسانی گمانوں وہموں کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی پھر بھی یہ لوگ اختلافات میں پڑگئے) اور جن لوگوں نے کتاب اللہ ( کے احکام میں) الگ الگ راہیں اختیار کی ہیں تو وہ تفرقہ و مخالفت کی دور دراز راہوں میں کھوئے گئے البقرة
177 نیکی اور بھلائی (کی راہ) یہ نہیں ہے کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف پھیر لیا یا پچھم کی طرف کرلیا ( یا اسی طرح کی کوئی دوسرت بات رسم ریت کی کرلی) نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر،، آسمانی کتابوں پر اور خدا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ خدا کی محبت کی راہ میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں۔ جب قول و قرار کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرکے رہتے ہیں۔ تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے (اور اپنی راہ میں ثابت قدم) ہوتے ہیں۔ تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو نیکی کی راہ میں سچے ہوئے اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے انسان ہیں البقرة
178 مسلمانو ! جو لوگ قتل کردیے جائیں ان کے لیے تمہیں قصاص (یعنی بدلہ لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ (لیکن بدلہ لینے میں انسان دوسرے انسان کے برابر ہے) اگر آزاد آدمی نے آزاد آدمی کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہی قتل کیا جائے گا (یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کی بڑائی یا نسل کے شرف کی وجہ سے دو آدمی قتل کیے جائیں جیسا کہ عرب جاہلیت میں دستور تھا) اگر غلام قاتل ہے تو غلام ہی قتل کیا جائے گا ( یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کے آزاد ہونے کی وجہ سے دو غلام قتل کیے جائیں) عورت نے قتل کیا ہے تو عورت ہی قتل کی جائے گی۔ اور پھر اگر ایسا ہو کہ کسی قاتل کو مقتول کے وارث سے کہ (رشتہ انسانی میں) اس کا بھائی ہے معافی مل جائے (اور قتل کی جگہ خوں بہا لینے پر راضی ہوجائے) تو (خوں بہا لے کر چھوڑ دیا جاسکتا ہے) اور ( اس صورت میں) مقتول کے وارث کے لیے دستور کے مطابق (خوں بہاکا) مطالبہ ہے اور قاتل کے لیے خوش معاملگی کے ساتھ ادا کردینا۔ اور دیکھو یہ ( جو قصاص کے معاملہ کو تمام زیادتیوں سے پاک کرکے عدل و مساوات کی اصل پر قائم کردیا گیا ہے تو یہ) تو تمہارے پروردگار کی طجرف سے تمہارے لیے سختیوں کا کم دکردینا اور رحمت کا فیضان ہوا۔ اب اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے گا تو یقین کرو وہ (اللہ کے حضور) عذاب دردناک کا سزاوار ہوگا البقرة
179 اور ارباب دانش ! قصاص کے حکم میں (اگرچہ بظاہر ایک جان کی ہلاکت کے بعد دوسری جان کی ہلاکت گوارا کرلی گئی ہے، لیکن فی الحقیقت یہ ہلاکت نہیں ہے) تمہارے لیے زندگی ہے اور یہ سب کچھ اس لیے تاکہ تم برائیوں سے بچو البقرة
180 مسلمانو ! یہ بات بھی تم پر فرض کردی گئی ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی محسوس کرے کہ اس کے مرنے کی گھڑی آگئی اور وہ اپنے بعد مال و متاع میں سے کچھ چھوڑ جانے والا ہوں تو چاہیے کہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے اچھی وصیت کرجائے۔ جو متقی انسان ہیں ان کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے البقرة
181 پھر جو کوئی ایسا کرے کہ کسی آدمی کی وصیت سننے (اور اس کے گواہ اور امین ہونے) کے بعد اس میں ردوبدل کردے تو اس گناہ کی ذمہ داری اسی کے سر ہوگی جس نے ردوبدل کیا ہے (وصیت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا اس کی تعمیل ہر حال میں ضروری ہوگی) یقین کرو اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ البقرة
182 اور اگر کسی شخص کو وصیت کرنے والے سے بے جا رعایت کرنے یا کسی معصیت کا اندیشہ ہو اور وہ (بروقت مداخلت کرکے یا وارثوں کو سمجھا بجھا کر) ان میں مصالحت کرا دے تو ایسا کرنے میں کوئی گنا نہیں (کیونکہ یہ وصیت میں ردوبدل کرنا نہیں ہوگا بلکہ ایک برائی کی اصلاح کردینا ہوگا اور) بلاشبہ اللہ (انسانی کمزوریوں کو) بخشنے والا اور (اپنے تمام احکام میں) رحمت رکھنے والا ہے البقرة
183 مسلمانو ! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں روزہ فرض کردیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کردیا گیا ہے تاکہ تم میں پرہیز گاری پیدا ہو البقرة
184 (یہ روزے کے) چند گنے ہوئے دن ہیں۔ (کوئی بڑی مدت نہیں) پھر جو کوئی تم میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر روزے کے دنوں کی گنتی پوری کرلے۔ اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے لیے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو (جیسے نہایت بوڑھا آدمی کہ نہ تو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے نہ یہ توقع رکھتا ہے کہ آگے چل کر قضا کرسکے گا) تو اس کے لیے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا ہے۔ پھر اگر کو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ کر (یعنی زیادہ مسکینوں کو کھلائے) تو یہ اس کے لیے مزید اجر کا موجب ہوگا۔ لیکن اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو سمجھ لو کہ روزہ رکھنا تمہارے لیے (ہر حال میں) بہتر ہے البقرة
185 یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول (شروع) ہوا۔ وہ انسانوں کے لیے رہنما ہے، ہدایت کی روشن صداقیں رکھتا ہے اور حق کو باطل سے الگ کردینے والا ہے۔ پس جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے تو چاہیے کہ اس میں روزہ رکھے۔ ہاں جو کوئی بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ دوسرے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ سخی و تنگی نہیں چاہتا۔ اور یہ (جو بیماروں اور مسافروں کے لیے روزہ قضا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے کہ (حکمت الٰہی نے روزے کے فوائد کے لیے دنوں کی ایک خاص گنتی ٹھہرا دی ہے تو تم اس کی) گنتی پوری کرلو (اور اس عمل میں ادھورے نہ رہو) اور اس لیے بھی کہ اللہ نے تم پر راہ (سعادت) کھول دی ہے تو اس پر اس کی بڑائی کا اعلان کرو۔ نیز اس لیے کہ (اس کی نعمت کام میں لا کر) اس کی شکر گزاری میں سرگرم رہو البقرة
186 اور (اے پیغمبر) جب میرا کوئی بندہ میری نسبت تم سے دریافت کرے (کہ کیونکر مجھ تک پہنچ سکتا ہے؟ تو تم اسے بتلا دو کہ) میں تو اس کے پاس ہوں وہ جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور اسے قبول کرتا ہوں۔ پس (اگر وہ واقعی میری طلب رکھتے ہیں تو) چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ حصول مقصد میں کامیاب ہوں البقرة
187 تمہارے لیے یہ بات جائز کردی گئی ہے کہ روزہ کے دنوں میں رات کے وقت اپنی بیویوں سے خلوت کرو۔ تم میں اور ان میں چولی دامن کا ساتھ ہے (یعنی ان کی زندگی تم سے وابستہ ہے۔ تمہاری ان سے) اللہ کے علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہے کہ تم اپنے اندر ایک بات کا خیال رکھ کر پھر اس کی بجا آوری میں خیانت کررہے ہو (یعنی اپنے ضمیر کی خیانت کر رہے ہو۔ کیونکہ اگرچہ اس بات میں برائی نہ تھی مگر تم نے خیال کرلیا تھا کہ برائی ہے) پس اس نے (اپنے فضل و کرم سے تمہیں اس غلطی کے لیے جو اب وہ نہیں ٹھہرایا) تمہاری ندامت قبول کرلی اور تمہاری خطا بخش دی۔ اور اب ( کہ یہ معاملہ صفا کردیا گیا ہے) تم (بغیر کسی اندیشہ کے) اپنی بیویوں سے خلوت کرو اور جو کچھ تمہارے لیے (ازدواجی زندگی میں) اللہ نے ٹھہرا دیا ہے اس کے خواہش مند ہو۔ اور (اسی طرح رات کے وقت کھانے پینے کی بھی کوئی روک نہیں) شوق سے کھاؤ پیو۔ یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) کالی دھاری سے الگ نمایاں ہوجائے (یعنی صبح کی سب سے پہلی نمود شروع ہوجائے) پھر اس وقت سے لے کر رات (شروع ہونے) تک روزے کا وقت پورا کرنا چاہیے۔ البتہ اگر تم مسجد میں اعتکاف کررہے ہو تو اس حالت میں نہیں چاہے کہ اپنی بیویوں سے خلوت کرو ( جہاں تک روزے کا تعلق ہے) یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں پس ان سے دور دور رہنا۔ اللہ اسی طرح اپنے احکام واضح کردیتا ہے تاکہ لوگ (نافرمانی سے) بچیں البقرة
188 اور (دیکھو) ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھاؤ اور نہ ایسا کرو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہنچنے کا (یعنی انہیں اپنی طرف مائل کرنے کا) ذریعہ بناؤ۔ تاکہ دوسروں کے مال کا کوئی حصہ ناحق حاصل کرلو۔ اور تم جانتے ہو کہ حقیقت حال کیا ہے البقرة
189 اے پیغمبر لوگ تم سے (مہینوں کی) چاند رات کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہہ دو یہ انسان کے لیے وقت کا حساب ہے اور اس سے حج کے مہینے کا تعین ہوجاتا ہے (باقی جس قدر توہمات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی رسمیں اختیار کر رکھی ہیں تو ان کی کوئی اصلیت نہیں) اور یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں (دروازہ چھوڑ کر) پچھواڑے سے داخل ہو) جیسا کہ عرب کی رسم تھی کہ حج کے مہینے کا چاند دیکھ لیتے اور احرام باندھ لینے کے بعد اگر گھروں میں داخل ہونا چاہتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے، پچھواڑے سے راہ نکال کر جاتے) نیکی تو اس کے لیے ہے جس نے اپنے اندر تقوی پیدا کیا۔ پس (ان وہم پرستیوں میں مبتلا نہ ہو) گھروں میں آؤ تو دروازے ہی کی راہ آؤ۔ (پچھواڑے سے راہ نکالنے کی مصیبت میں کیوں پڑو) البتہ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ (طلب سعادت میں) کامیاب ہو البقرة
190 اور (دیکھو) جو لوگ تم سے لڑائی لڑ رہے ہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں تم بھی ان سے لڑو۔ (پیٹھ نہ دکھلاؤ) البتہ کسی طرح کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرنے والے ہیں البقرة
191 (اہل مکہ نے تمہارے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے تو تمہارے طرف سے بھی اب اعلان جنگ ہے) جہاں کہیں پاؤ انہیں قتل کرو اور جس جگہ سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے تم بھی انہیں لڑ کر نکال باہر کرو۔ اور فتنہ کا قائم رہنا قتل و خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے (باقی رہا حرم کی حدوں کا معاملہ کہ ان کے اندر لڑائی کی جائے یا نہ کی جائے؟ تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ)ٰ جب تک وہ خود مسجد حرام کی حدود میں تم سے لڑائی نہ کریں تم بھی اس جگہ ان سے لڑائی نہ کرو۔ پھر اگر ایسا ہوا کہ انہوں نے لڑائی کی تو تمہارے لیے بھی یہی ہوگا کہ لڑو۔ منکرین حق (کی ظالمانہ پیش قدمیوں) کا یہی بدلہ ہے البقرة
192 لیکن اگر ایسا نہہوا کہ وہ لڑائی سے باز آگئے تو (پھر اللہ کا دروازہ بخشش بھی بند نہیں ہے) بلاشبہ وہ رحمت سے بخش دینے والا ہے البقرة
193 اور دیکھو ان لوگوں سے لڑائی جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی ظلم و فساد) باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ یہ لوگ لڑائی سے باز آجائیں تو (تمہیں بھی ہاتھ روک لینا چاہیے۔ کیونکہ) لڑائی نہیں لڑنی ہے۔ مگر انہی لوگوں کے مقابلہ میں جو ظلم کرنے والے ہیں البقرة
194 اگر حرم کے مہینوں کے رعایت کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی رعایت ہونی چاہیے۔ اگر نہ کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی نہیں ہے۔ (مہینوں کی) حرمت کے معاملہ میں (جب کہ لڑائی ہو) ادلہ کا بدلہ ہے (یعنی جیسی روش ایک فریق جنگ کی ہوگی، ویسی ہی دوسرے فریق کو بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فریق تو مہینوں کی حرمت سے بے پروا ہو کر حملہ کردے اور دوسرا فریق حرمت کے خیال سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے) پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو چہایے کہ ججس طرح کا معاملہ اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے ویسا ہی معاملہ تم بھی اس کے ساتھ کرو، البتہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (انے تمام کاموں میں) پرہیز گار ہیں البقرة
195 اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ ایسا نہ کرو کہ (جہاد کی اعانت سے غافل ہو کر) اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو، نیکی کرو، یقینا اللہ کی محبت انہی لوگوں کے لیے ہے جو نیکی کرنے والے ہیں﷽ البقرة
196 اور (دیکھو) حج اور عمرہ کی جب نیت کرلی جائے تو اسے اللہ کے لیے کرنا چاہیے اور اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ تم (اس نیت سے نکلے مگر) راہ میں گھر گئے (لڑائی کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے) تو پھر ایک جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔ جیسا کچھ بھی میسر آجائے۔ اور اس وقت تک سر کے بال منہ منڈاؤ (جو اعمال حج سے فارغ ہو کر احرام اتارتے وقت کیا جاتا ہے) جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص بیمار ہو یا اسے سر کی کسی تکلیف کی وجہ سے مجبوری ہو تو چہایے کہ (بال اتارنے کا) فدیہ دے دے اور وہ یہ ہے کہ روزہ رکھے یا صدقہ دے یا جانور کی قربانی کرے۔ اور پھر جب ایسا ہو کہ تم امن کی حالت میں ہو اور کوئی شخص چاہے کہ (عمرہ حج سے ملا کر) تمتع کرے (یعنی ایک ہی سفر میں دونوں عملوں کے ثواب سے فائدہ اٹھائے) تو اس کے لیے بھی جانور کی قربانی ہے جیسی کچھ میسر آجائے۔ اور جس کسی کو قربانی میسر نہ آئے تو اسے چاہیے تین روزے حج کے دنوں میں رکھے سات روزے واپسی پر، یہ دس کی پوری گنتی ہوگئی۔ البتہ یاد رہے کہ یہ حکم (یعنی عمرہ کے تمتع کا حکم) اس کے لیے ہے جس کا گھر بار مکہ میں نہ ہو ( باہر حج کے لیے آیا ہو) اور دیکھو ہر حال میں اللہ کی نافرمانی سے بچو اور یقین کرو وہ (نافرمانوں کو) سزا دینے میں بہت ہی سخت ہے البقرة
197 حج (کی تیاری) کے مہینے عام طور پر معلوم ہیں۔ پس جس کسی نے ان مہینوں میں حج کرنا اپنے اوپرلازم کرلیا تو (وہ حج کی حالت میں ہوگیا اور) حج کی حالت میں نہ تو عورتوں کی طرف رغبت کرنا ہے، نہ گناہ کی کوئی بات کرنی ہے، اور نہ لڑائی جھگڑا۔ اور (یاد رکھو) تم نیک عملی کی باتوں میں سے جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں رہتا، پس (حج کرو تو اس کے) سروسامان کی تیاری بھی کرو۔ اور سب سے بہتر سروسامان (دل کا سروسامان ہے اور وہ) تقوی ہے اور اے ارباب دانش (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو (کہ خوف الٰہی سے پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے) البقرة
198 (اور دیکھو) اس میں تمہارے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں اگر (اعمال حج کے ساتھ) تم اپنے پروردگار کے فض (رح) کی بھی تلاش میں رہو (یعنی کاروبار تجارت کا بھی مشغلہ رکھو) پس جب عرفات (نامی مقام) سے انبوہ در انبوہ لوٹو تو مشعر الحرام (یعنی مزدلفہ میں (ٹھہر کر) اللہ کا ذکر کرو۔ اور اسی طرح ذکر کرو جس طرح ذکر کرنے کا طریقہ تمہیں بتلا دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے تم بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو راہ حق سے بھٹک گئے ہیں البقرة
199 پھر (یہ بات بھی ضروری ہے کہ) جس جگہ (تک جا کر) لوگ انبوہ در لوٹتے ہیں تم (اہل مکہ) سے بھی وہیں سے لوٹو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ بلاشبہ اللہ (خطائیں) بخشنے والا اور (ہرحال مٰں) رحمت رکھنے والا ہے البقرة
200 پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کرچکو تو چاہیے کہ جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کی بڑائیوں کا ذکر کیا کرتے تھے اب اسی طرح اللہ کا ذکر کیا کرو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ (کہ تمام اعمال حج سے اصل مقصود یہی ہے) اور پھر (دیکھو) کچھ لوگ تو ایسے ہیں (جو صرف دنیا ہی کے پجاری ہوتے ہیں اور) جن کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ خدایا ! ہمیں جو کچھ دینا ہے دنیا ہی میں دے دے پس آخرت کی زندگی میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوتا البقرة
201 اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو (دنیا و آخرت دنوں کی فلاح چاہتے ہیں۔ وہ) کہتے ہیں خدایا ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچالے البقرة
202 تو یقین کرو ایسے ہی لوگ ہیں جنہیں ان کے عمل کے مطابق (دنیا و آخرت کی) فلاح میں حصہ ملنا ہے اور اللہ (کا قانون) اعمال کی جانچ میں سست رفتار نہیں (وہ ہر انسان کو اس کے عمل کے مطابق فورا نتیجہ دینے والا ہے) البقرة
203 اور (دیکھو) حج کے گنے ہوئے دنوں میں (جو معلوم ہے اور دسویں ذوالحج سے لے کر تیرہویں تک ہیں) اللہ کی یاد میں مشغول رہو۔ پھر جو کوئی (واپسی میں) جلدی کرے اور دو ہی دن میں روانہ ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور جو کوئی تاخیر کرے تو وہ تاخیر بھی کرسکتا ہے۔ لیکن یہ (جلدی اور تاخیر کی رخصت) اسی کے لیے ہے جس میں تقوی ہو (کیونکہ تمام اعمال سے اصل مقصود تقویٰ ہے۔ اگر ایک شخص کے ارادے اور عمل میں تقوی نہیں تو اس کا کوئی عمل بھی صحیح نہیں ہوسکتا) پس ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولوں کہ تم سب کو (ایک دن مرنا اور پھر) اس کے حضور جمع ہونا ہے البقرة
204 اور (دیکھو) بعض آدمی ایسے ہیں کہ دنیوی زندگی کے بارے میں ان کی باتیں تمہیں بہت ہی اچھی معلوم ہوتی ہیں، اور وہ اپنے ضمیر کی پاکی پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ فی الحقیقت وہ دشمنی اور خصومت میں بڑے ہی سخت ہیں البقرة
205 جب انہیں حکومت مل جاتی ہے تو ان کی تمام سرگرمیاں ملک میں اس لیے ہوتی ہیں تاکہ خرابی پھیلائیں اور انسان کی زراعت اور محنت کے نتیجوں کو اور اس کی نسل کو ہلاک کردیں۔ حالانکہ اللہ یہ کبھی پسند نہیں کرسکتا کہ (زندگی و آبادی کی جگہ) ویرانی و خرابی پھیلائی جائے۔ البقرة
206 اور جب ان لوگوں سے کہا جائے خدا سے ڈرو (اور ظلم و فساد سے باز آؤ) تو ان کا گھمنڈ انہیں (اور زیادہ) گناہ پر اکساتا ہے۔ پس (جن لوگوں کا حال ایسا ہو تو وہ کبھی ظلم و فساد سے باز آنے والے نہیں) انہیں تو جہنم ہی کفایت کرے گا (اور جس کسسی نے جہنم کا ٹھکانا ڈھونڈھا تو اس کا ٹھکانا) کیا ہی برا ٹھکانا ہوا البقرة
207 (برخلاف ان کے) کچھ آدمی ایسے بھی ہیں جو (نفس پرستی کی جگہ خدا پرستی کی روح سے معمور ہوتے ہیں اور) اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اپنی جانیں تک بیچ دالتے ہیں (یعنی رضائے الٰہی کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں) اور (جو کوئی ایسا کرتا ہے تو یاد رکھے) اللہ بھی اپنے بندوں کے لیے سرتاسر شفقت و مہربانی رکھنے والا ہے البقرة
208 مسلمانو ! پوری طرح اور (اعتقاد و عمل کی) ساری باتوں میں مسلم ہوجاؤ۔ اور دیکھو شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے البقرة
209 پھر اگر ایسا ہوا ہے کہ تم ڈگمگا گئے باوجودیکہ ہدایت کی روشن دلیلیں تمارے سامنے آچکی ہیں تو یاد رکھو اللہ (کے قانون جز اکی پکڑ سے تم بچ نہیں سکتے۔ وہ) سب پر غالب اور (اپنے کاموں میں) حکمت والا ہے البقرة
210 پھر یہ لوگ کس بات کے انتظام میں ہیں؟ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا ان کے سامنے نمودار ہوجائے (اور اس طرح نمودار ہوجائے کہ) بادل اس پر سایہ کیے ہوں اور فرشتے (صف باندھے کھڑے) ہوں اور جو کچھ ہونا ہے ہوچکے؟ (اگر اسی بات کے منتظر ہیں تو یاد رکھیں یہ بات دنیا میں تو ہونے والی نہیں) اور تمام کاموں کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے البقرة
211 بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں (علم و بصیرت کی کتنی روشن نشانیاں دی تھیں؟ اور جو کوئی خدا کی نعمت پا کر پھر اسے (محرومی و شقاوت) سے بدل ڈالے تو یاد رکھو خدا کا (قانون مکافات) بھی سزا دینے میں بہت سخت ہے البقرة
212 منکرین حق کی گناہوں میں تو صرف دنیا کی زندگی ہی سمائی ہوئی ہے۔ وہ ایمان والوں کی (موجودہ بے سروسامانی دیکھ کر) ہنسی اڑاتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ متقی ہیں قیامت کے دن وہی ان منکروں کے مقابلے میں بلند مرتبہ ہوں گے۔ اور (پھر یہ منکرین حق نہیں جانتے کہ جو لوگ آج مال و جاہ دنیوی سے تہی دست ہی کل کو اللہ کے فضل سے مالا مال ہوجاسکتے ہیں۔ اور) اللہ جسے چاہتا ہے، اپنے رزق بے حساب سے مالا مال کردیتا ہے البقرة
213 ابتدا میں ایسا تھا کہ لوگ الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے نہیں تھے۔ ایک ہی قوم و جماعت تھے (پھر ایسا ہوا کہ باہم دگر مختلف ہوگئے اور الگ الگ ٹولیاں بن گئیں) پس اللہ نے (ایک کے بعد ایک) نبیوں کو مبعوث کیا۔ وہ ( ایمان و عمل کی برکتوں کی) بشارت دیتے اور (انکار و بد عملی کے نتائج سے) متنبہ کرتے تھے۔ نیز ان کے ساتھ کتاب الٰہی نازل کی گئی تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے ان میں وہ فیصلہ کردینے والی ہو (اور تمام لوگوں کو راہ حق پر متحد کردے) اور یہ جو لوگ باہم دگر مختلف ہوئے تو اس لیے نہیں ہوئے کہ ہدایت سے محروم اور حقیقت سے بے خبر تھے۔ نہیں وحی الٰہی کے واضح احکام ان کے سامنے تھے مگر پھر بھی محض آپس کی ضد اور مخالفت کرنے لگتے تھے۔ بالآخر اللہ نے ایمان لانے والوں کو (دین کی) وہ حقیقت دکھا دی جس میں لوگ مختلف ہوگئے تھے (اور ایک دوسرے کو جھٹلا رہے تھے) اور اللہ جسے چاہتا ہے دین کی سیدھی راہ دکھلا دیتا ہے البقرة
214 پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ (محض ایمان کا زبانی دعوی کرکے) تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو تمہیں وہ آزمائشیں پیش ہی نہیں آئی ہیں جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آچکی ہیں۔ ہر طرح کی سختیاں اور محنتیں انہیں پیش آئیں، شدتوں اور ہولناکیوں سے ان کے دل دہل گئے۔ یہاں تک کہ اللہ کا رسول اور جو لوگ ایمان لائے تھے پکار اٹھے اے نصر الٰہی ! تیرا وقت کب آئے گا؟ (تب اچانک پردۂ غیب چاک ہوا اور خدا کی نصرت یہ کہتی ہوئی نمودار ہوگئی) ہاں گھبراؤ نہیں خدا کی نصرت تم سے دور نہیں ہے البقرة
215 اے پیغمبر تم سے سے لوگ دریافت کرتے ہیں کہ خیرات کے لیے خرچ کریں تو کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو جو کچھ بھی تم اپنے مال میں سے نکال سکتے ہو نکالو، تو اس کے مستحق تمہارے ماں باپ ہیں، عزیز و اقربا ہیں، یتیم بچے ہیں، مسکین ہیں (مصیبت زدہ) مسافر ہیں اور یاد رکھو جو کچھ بھی تم بھلائی کے کاموں میں سے کرتے ہو تو وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا (کہ اکارت جائے) وہ سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
216 لڑائی کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے لیکن بہت ممکن ہے ایک بات کو تم ناگوار سمجھتے ہو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ایک بات تمہیں اچھی لگتی ہو اور اسی میں تمہارے لیے برائی ہو۔ اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔ البقرة
217 اے پیغمبر لوگ تم سے پوچھتے ہیں جو مہینہ حرمت کا مہینہ سمجھا جاتا ہے اس میں لڑائی لڑنا کیسا ہے؟ ان سے کہہ دو اس میں لڑائی لڑنا بڑی برائی کی بات ہے۔ مگر (ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ) انسان کو اللہ کی راہ سے روکنا (یعنی ایمان اور خدا پرستی کی راہ اس پر بند کردینا) اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام نہ جانے دینا، نیز مکہ سے وہاں کے بسنے والوں کو نکال دینا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برائی ہے اور فتنہ (یعنی ظلم و فساد) قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور (یاد رکھو) یہ لوگ تم سے برابر لڑتے ہی رہیں گے۔ یہاں تک کہ اگر بن پڑے تو تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کردیں۔ اور دیکھو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے گا اور اسی حالت برگشتگی میں دنیا سے جائے گا تو یادرکھو اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جن کے تمام اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت گئے اور ایسے ہی لوگ ہیں جو کا گروہ دوزخی گروہ ہے، ہمیشہ عذاب میں رہنے والا البقرة
218 (برخلاف اس کے) جو لوگ ایمان لائے (اور راہ ایمان میں ثابت قدم رہے) اور جن لوگ نے وطن سے بے وطن ہونے کی سختیاں برداشت کیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی (سچی) امیدواری کرنے والے ہیں، اور جو کوئی اللہ کی رحمت کا سچے طریقہ پر امیدوار ہو تو) اللہ (بھی) رحمت سے بخش دینے والا ہے البقرة
219 اے پیغمبر ! تم سے لوگ شراب اور جوے کی بابت دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دو، ان دونوں چیزوں میں نقصان بہت ہے اور انسان کے لیے فائدے بھی ہیں۔ لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے اور تم سے پوچھتے ہیں (راہ حق میں خرچ کریں تو) کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو جس قدر (تمہاری ضروریات معیشت سے) فاضل ہو۔ دیکھو اللہ اس طرح کے احکام دے کر تم پر اپنی نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ دنیا اور آخرت (دونوں) کی مصلحتوں میں غور و فکر کرو البقرة
220 اور لوگ تم سے یتیم بچوں کی نسبت پوچھتے ہیں۔ ان سے کہہ دو جس بات میں ان کے لیے اصلاح و درستگی ہو وہی بہتر ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو (یعنی انہیں اپنے گھرانے میں شامل کرلو) تو بہرحال وہ تمہارے بھائی ہیں (کچھ غیر نہیں) اور اللہ جانتا ہے کون اصلاح کرنے والا ہے کون خرابی کرانے والا ہے۔ (پس اگر تمہاری نیت بخیر ہے، تو تمہیں یتمیوں کے مال کی ذمہ داری لینے سے گھبرانا نہیں چاہیے) اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (یعنی اس بارے میں سخت پابندیاں عائد کردیتا۔ کیونکہ یتیموں کے حقوق کا معاملہ بہت ہی اہم ہے) بلاشبہ وہ غلبہ و طاقت کے ساتھ حکم رکھنے والا ہے البقرة
221 اور دیکھو مشرک عورتوں سے، جب تک ایمان لے آئے آئیں، نکاح نہ کرو۔ ایک مشرک عورت تمہیں (بظاہر) کتنی ہی پسند آئے، لیکن مومن عورت اس سے کہیں بہتر ہے۔ اور اسی طرح مشرک مرد جب تک ایمان نہ لے آئیں، مومن عورتیں ان کے نکاح میں نہ دی جائیں۔ یقینا خدا کا مومن بندہ ایک مشرک مرد سے بہتر ہے اگرچہ بظاہر مشرک مرد تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ یہ لوگ (یعنی مشرکین عرب) تمہیں (دین حق سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ اپنے حکم سے (دین حق کی راہ کھول کر) تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے ( پس ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تمہاری سازگاری کیونکر ہوسکتی ہے؟) اللہ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنی آیتیں واضح کردیتا ہے تاکہ متنبہ ہوں اور نصیحت پکڑیں البقرة
222 اور اے پیغمبر ! لوگ تم سے عورتوں کے ماہواری ایام کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دو وہ مضرت (کا وقت) ہے۔ پس چاہیے کہ ان دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو۔ اور جب تک وہ (ایما سے فارغ ہوکر) پاک و صاف نہ ہو لیں ان سے نزدیکی نہ کرو۔ اور (یہ بات بھی یاد رکو کہ) جب وہ پاک صاف ہولیں اور تم ان کی طرف ملتفت ہو، تو اللہ نے (فطری طور پر) جو بات جس طرح ٹھہرا دی ہے اسی کے مطابق ہونی چاہیے۔ (اس کے علاوہ کسی دوسری خلاف فطرت بات کا خیال نہ کرو) اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو (برائی سے) پناہ مانگنے والے ہیں اور ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو پاکی وہ صفائی رکھنے والے ہیں البقرة
223 (جہاں تک وظیفہ زوجیت کا تعلق ہے) تمہاری عورتیں تمہارے لیے ایسی ہیں جیسے کاشت کی زمین پس جس طرح بھی چاہو اپنی زمین) فطری طریقہ سے) کاشت کرو اور اپنے لیے مستقبل کا سروسامان کرو (اور اصلی بات یہ ہے کہ ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو، اور یہ بات نہ بھولو کہ (ایک دن تمہیں مرنا اور) اس کے حضور حاضر ہونا ہے، اور ان کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (دین حق کی سہولتوں اور بے جا قید و بند سے پاک ہونے کی) بشارت ہے البقرة
224 اور دیکھو ایسا نہ کرو کہ کسی کے ساتھ بھلائی کرنے یا پرہیز گاری کی راہ اختیار کرنے یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرا دینے کے خلاف قسمیں کھا کر اللہ کے نام کو نیکی سے بچ نکلنے کا بہانہ بنا لو (یعنی پہلے تو کسی اچھے کام کے خلاف قسم کھالو۔ پھر کہو خدا کی قسم کھا کر ہم کیونکر یہ کام کرسکتے ہیں) یاد رکھو اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ البقرة
225 تمہاری قسموں میں جو لغو اور بے معنی قسمیں ہوں، ان پر اللہ پکڑ نہیں کرے گا (اور اس لیے ان کو کوئی اعتبار نہیں) جو کچھ بھی پکڑ ہوگی، وہ تو اسی بات پر ہوگی جو (سچ مچ کو تم نے سمجھ بوجھ کرکی ہے، اور اس لیے) تمہارے دلوں نے (اپنے عمل سے) کمائی ہے اور اللہ (ہر حال میں بخشنے والا، تحمل کرنے والا ہے البقرة
226 جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے کی قسم کھا بیٹھیں تو ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر اس عدت کے اندر وہ رجوع کرلیں (یعنی بیوی سے ملاپ کرلیں) تو رحمت سے بخشنے والا ہے البقرة
227 لیکن اگر (ایسا نہ ہوسکے اور) طلاق ہی کی ٹھان لیں، تو (پھر بیوی کے لیے طلاق ہے۔ البتہ ملاپ کی جگہ جدائی کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بات نہ بھولو کہ) اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے البقرة
228 اور جن عورتوں کو ان کے شوہروں) نے طلاق دے دی ہو تو انہیں چاہیے ماہواری ایام کے تین مہینوں تک اپنے ٓپ کو (نکاح ثانی سے) روکے رکھیں۔ اور اگر وہ اللہ پر اور ٓخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، تو ان کے لیے جائز نہیں کہ جو چیز اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کردی ہو، اسے چھپائیں (یعنی اگر حمل سے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ اسے ظاہر کردیں) اور ان کے شوہر (جنہوں نے طلاق دی ہے) اگر عدت کے اس مقررہ زمانے کے اندر اصلاح حال پر ٓمادہ ہوجائیں تو وہ انہیں اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔ اور دیکھو، عورتوں کے لیے بھی اسی طرح کے حقوق مردوں پر ہیں۔ جس طرح کے حقق مردوں کے عورتوں پر ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک خاص درجہ دیا گیا ہے۔ اور یاد رکھو اللہ زبردست حکمت رکھنے والا ہے البقرة
229 طلاق (جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے) دو مرتبہ (کرکے دو مہینوں میں دو طلاقیں ہیں)۔ پھر اس کے بعد شوہر کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو اچھے طریقے پر روک لینا (یعنی رجوع کرلینا) یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا۔ (یعنی تیسرے مہینے تیسری طلاق دے کر جدا ہوجا) اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اپنی بیویوں کو دے چکے ہو (طلاق دیتے ہوئے) اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر شوہر اور بیوی کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے (تو باہمی رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے) تو اگر تم دیکھو ایسی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ واقعی) اندیشہ ہے خدا کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے، تو پھر شوہر اور بیوی کے لیے اس میں کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر بیوی (اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے) بطور معاوضے کے (اپنے حق میں سے) کچھ دے دے (اور شوہر اسے لے کر علیحدگی پر راضی ہوجائے) یاد رکھو، یہ اللہ کی ٹھرائی ہوئی ھد بندیاں ہیں، پس ان سے قدم باہر نہ نکالوں (اور اپنی اپنی حدوں کے اندر رہو) جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے نکل جائے گا، تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں البقرة
230 اگر ایسا ہوا کہ ایک شخص نے (دو طلاقوں کے بعد رجوع نہ کیا اور تیسرے مہینے تیسری) طلاق دے دی تو پھر (دونوں میں قطعی جدائی ہوگئی، اور اب شوہر کے لیے وہ عورت جائز نہ ہوگی جب تک کہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں نہ آجائے۔ پھر اگر ایسا ہوا کہ دوسرا مرد (نکاح کرنے کے بعد خود بخود) طلاق دے دے (اور مرد و عورت از سر نو ملنا چاہیں) تو ایک دوسرے کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ اس میں ان کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ بشرطیکہ دونوں کو توقع ہو اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں پر قائم رہ سکیں گے۔ اور (دیکھو) یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیاں ہیں، جنہیں وہ ان لوگوں کے لیے جو (مصالح معیشت کا) علم رکھتے ہیں واضح کردیتا ہے البقرة
231 اور جب ایسا ہوا کہ تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دے اور ان کی (عدت کی) مدت پوری ہونے کو آئے تو پھر (تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو (طلاق سے رجوع کرکے) انہیں ٹھیک طریقے پر روک لو، یا (آخری طلاق دے کر) ٹھیک طریقے پر جانے دو۔ ایسا نہ کرو کہ انہیں نقصان پنچانے کے لیے روکے رکھو، تاکہ ان پر جور و ستم کرو (یعنی نہ تو رجوع کرو۔ نہ جانے دو۔ بیچ میں لٹکائے رکھو) اور یاد رکھو جو کوئی ایسا کرے گا تو اپنے ہاتھوں خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ اللہ کے حکموں کو ہنسی کھیل بنا لو ( کہ آج نکاح کیا۔ کل بلاوجہ طلاق دے دی) اللہ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو۔ اس نے کتاب و حکمت میں جو کچھ نازل کیا ہے اور اس کے ذریعے تمہیں نصیحت کرتا ہے، اسے نہ بھولو، اور اللہ سے ڈرو، اور یاد رکھو کہ اس کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔ البقرة
232 اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ اپنی (عدت) کی مدت پوری کرچکیں، تو (پھر انہیں اپنی پسند سے دوسرا نکاح کرلینے کا اختیار ہے) اگر وہ اپنے (ہونے والے) شوہروں سے مناسب طریقے پر نکاح کرنا چاہیں، اور دونوں آپس میں رضامند ہوجائیں، تو اس سے انہیں نہ روکو۔ تم میں سے ہر اس انسان کو جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس حکم کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے؟ اسی بات میں تمہارے لیے زیادہ برکت اور زیادہ پاکی ہے اور اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے البقرة
233 اور جو شخص (اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور بیوی کی گود میں بچہ ہو اور وہ) ماں سے بچے کو دودھ پلوانا چاہے، تو اس صورت میں چاہیے پورے دو برس تک ماں بچے کو دودھ پلائے، اور جس کا بچہ ہو اور وہ) ماں سے بچے کو دودھ پلوانی چاہے، تو اس صورت میں چاہیے پورے دو برس تک ماں بچے کو دودھ پلائے، اور جس کا بچہ ہے، اس پر لازم ہے کہ ماں کے کھانے کپڑے کا مناسب طریقہ پر انتظام کردے (یہ انتظام ہر شخص کی حالت اور حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اصل اس بارے میں یہ ہے کہ) کسی شخص پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ نہ تو ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے۔ نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے۔ اور اگر باپ کا اس اثنا میں انتقال ہوجائے تو جو اس کا) وارث (ہو، اس) پر (عورت کا کھانا کپڑا) اسی طرح ہے (جس طرح باپ کے ذمہ تھا) پھر اگر (کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ) ماں باپ آپس کی رضا مندی اور صلاح مشورہ سے (قبل از مدت) دودھ چھڑانا چاہیں تو (ایسا کرسکتے ہیں) ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور اگر تم چاہو اپنے بچوں کو (ماں کی جگہ) کسی دوسری عورت سے دود پلواؤ، تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ (ماؤں کی حق تلفی نہ کرو اور جو کچھ انہیں دینا کیا تھا) دستور کے مطابق ان کے حوالہ کردو اور دیکھو (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو، اور یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کی نظریں اسے دیکھ رہی ہیں البقرة
234 اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو انہیں چاہیے چار مہینے دس دن تک (عدت و فات میں) اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پھر جب وہ یہ مدت پوری کرلیں تو (انہیں اپنے معاملے کا اختیار ہے) وہ جو کچھ جائز طریقے پر اپنے لیے کریں (یعنی اپنے دوسرے نکاح کی تیاری کریں) اس کے لیے تمہارے سر کوئی الزام نہیں (کہ تم نکاح سے مانع آؤ یا زیادہ عرصہ تک سوگ کرنے پر مجوبر کرو) اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے البقرة
235 اور جن بیوہ عورتوں سے تم نکاح کرنا چاہو تو تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں اگر اشارے کنایے میں اپنا خیال ان تک پہنچا دو۔ یا اپنے دل میں نکاح کا ارادہ پوشیدہ رکھو۔ اللہ جانتا ہے کہ (قدرت طور پر) ان کا خیال تمہیں آئے گا لیکن ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ چوری چھپے نکاح کا وعدہ کرلو۔ الا یہ کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہی جائے۔ اور جب تک ٹھہرائی ہوئی مدت (یعنی عدت) پوری نہ ہوجائے۔ نکاح کی گرہ نہ کسو) کہ عدت کی حالت میں عورت کے لیے نکاح کی تیاری جائز نہیں) اور یقین کرو کہ جو کچھ تمہارے اندر (اس بارے میں نفس کی پوشیدہ کمزوری) ہے اللہ اسے اچھی طرح جانتا ہے پس اس ڈرتے رہ اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا اور (نفس انسانی کی کمزوریوں کے لیے بہت) برباد ہے البقرة
236 اور اگر (ایسی صورت پیش آجائے کہ) بغیر اس کے کہ تم نے عورت کو ہاتھ لگایا ہو، اور اس کے لیے جو کچھ (مہر) مقرر کرنا تھا، مقرر کیا ہو، طلاق دے دو تو (ایسا بھی کرسکتے ہو) اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ایسی صورت میں (عورت کو رشتہ جوڑنے اور پھر توڑ دینے سے جو نقصان پہنچا ہے اس کے معاوضے میں ضروری ہے کہ) اسے فائدہ پہنچاؤ۔ ایسا فائدہ جو دستور کے مطابق پہنچایا جائے۔ مقدور والا اپنی حیثیت کے مطابق دے تنگ دست اپنی حالت کے مطابق۔ نیک کردار آدمیوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کریں البقرة
237 اور اگر ایسا ہو کہ تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو اور جو کچھ (مہر) مقرر کرنا تھا مقرر کرچکے ہو، تو اس صورت میں مقررہ مہر کا آدھا دینا چاہیے۔ الا یہ کہ عورت (اپنی خوشی سے) معاف کردے یا (مرد) جس کے ہاتھ میں نکاح کا رشتہ ہے (پورا مہر دے کر آدھی رقم رکھ لینے کے حق سے) درگزر کرے۔ اور اگر تم (مرد) درگزر کروگے تو یہ زیادہ تقوے کی بات ہوگی۔ دیکھو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنا نہ بھولو اور یاد رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کی نظر سے مخفی نہیں ہے البقرة
238 اور (دیکھو) اپنی نمازوں کی حفاظت میں کوشاں رہو۔ خصوصاً ایسی نماز کی جو (اپنے ظاہر و باطن میں) بہترین نماز ہو اور اللہ کے حضور کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو البقرة
239 پھر اگر ایسا ہو کہ تمہیں (دشمن کا) ڈر ہو (اور مقررہ صورت میں نماز نہ پڑھ سکو) تو پیدل ہو یا سوار جس حالت میں بھی ہو اور جس طرح بھی بن پڑے نماز پڑھ لو۔ پھر جب مطمئن ہوجاؤ (اور خوف و جنگ کی حالت باقی نہ رہے) تو چاہیے کہ اسی طریقے سے اللہ کا ذکر کیا کرو (یعنی نماز پڑھو) جس طرح اس نے تمہیں سکھلایا ہے اور جو تمہیں پہلے معلوم نہ تھا البقرة
240 اور جو لوگ تم میں سے وفات پائیں اور اپنے پیچھے بیوہ عورتیں چھوڑ جائیں اور (مرنے سے پہلے اس طرح کی) وصیت کرجائیں کہ برس دن تک انہیں نان و نفقہ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں اور پھر ایسا ہو کہ وہ (اس مدت سے پہلے) گھر چھوڑ دیں (اور دوسرا نکاح کرلیں یا نکاح کی بات چیت کریں) تو جو کچھ وہ جائز طریقہ پر اپنے لیے کریں، اس کے لیے تم پر کوئی گناہ عائد نہ ہوگا (کہ تم انہیں وصیت کی تعمیل کے خیال سے روکو اور سال بھر تک سوگ منانے پر مجبور کرو) یاد رکھو، اللہ سب پر غالب اور (اپنے ہر کام میں) حکمت رکھنے والا ہے البقرة
241 اور (یاد رکھو) جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو تو چاہیے کہ انہیں مناسب طریقہ پر فائدہ پہنچایا جائے (یعنی ان کے ساتھ جس قدر حسن سلوک کیا جاسکتا ہے کیا جائے) متقی انسانوں کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے البقرة
242 اس طرح اللہ تم پر اپنی آیتیں واضح کردیتا ہے تاکہ عقل سے کام لو اور سوچو سمجھو البقرة
243 (اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کی سرگزشت پر غور نہیں کیا جو اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اور باوجودیکہ ہزاروں کی تعداد میں تھے مگر (دلوں کی بے طاقتی کا یہ حالت تھا کہ) موت کے ڈر سے بھاگ گئے تھے۔ اللہ کا حکم ہوا (تم موت کے ڈر سے بھاگ رہے ہو تو دیکھو اب تمہارے لیے موت ہی ہے (یعنی ان کی بزدلی کی وجہ سے دشمن ان پر غالب آگئے) پھر (ایسا ہوا کہ) اللہ نے انہیں زندہ کردیا (یعنی عزم و ثبات کی ایسی روح ان میں پیدا ہوگئی کہ دشمنوں کے مقابلہ پر آمادہ ہوگئے اور فتح مند ہوئے) یقینا اللہ انسان کے لیے بڑا ہی فضل و بخشش رکھنے والا ہے لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر) اکثر آدمی ایسے ہیں جو ناشکری کرنے والے ہیں البقرة
244 اور (دیکھو) اللہ کی راہ میں (لڑائی پیش آجائے تو موت سے نہ ڈرو بے خوف ہو کر) لڑو ! اور یقین کرو اللہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
245 کون ہے جو (انسان کی جگہ خدا سے معاملہ کرتا ہے اور) خدا کو خوش دلی کے ساتھ قرض دیتا ہے تاکہ خدا اس کا قرض دو گنا سہ گنا زیادہ کرکے ادا کردے؟ (یعنی مال حقیر راہ حق میں خرچ کرکے دین و دنیا کی بے شمار برکتیں اور سعادتیں حاصل کرلے؟ اور (باقی رہا تنگ دستی کا خوف جس کی وجہ سے جس کی وجہ سے تمہارا ہاتھ رک جاتا ہے تو یاد رکھو) تنگی اور کشائش دونوں کا رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے اور اسی کے حضور تم سب کو لوٹنا ہے البقرة
246 (اے پیغمبر) کیا تم نے اس واقعہ پر غور نہیں کیا جو موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سردروں کو پیش آیا تھا؟ بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے عہد کے نبی سے درخواست کی تھی کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے۔ ہمارے لیے ایک حکمراں مقرر کردو۔ نبی نے کہا (مجھے امید نہیں کہ تم ایسا کرسکو) اگر تمہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو کچھ بعید نہیں تم لڑنے سے انکار کردو۔ سرداروں نے کہا ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم اپنے گھروں سے نکالے جا چکے ہیں اور اپنی اولاد سے علیحدہ ہوچکے ہیں، لیکن پھر دیکھو جب ایسا ہوا کہ انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو (ان کی ساری گرم جوشیاں ٹھنڈی پڑگئیں، اور) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب نے پیٹھ دکھلا دی۔ اور اللہ نافرمانوں (کے دلوں کے کھوٹ) سے بے خبر نہیں ہے البقرة
247 اور پھر ایسا ہوا کہ ان کے نبی نے کہا اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو حکمراں مقرر کردیا ہے (سو اس کی اطاعت کرو اور اس کے ماتحت جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ) انہوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اے ہم پر حکمرانی مل جائے حالانکہ اس سے کہیں زیادہ حکمراں ہونے کے ہم خود حقدار ہیں۔ علاوہ بریں یہ بھی ظاہر ہے کہ اسے مال و دولت کی وسعت حاصل نہیں۔ نبی نے یہ سن کر کہا اللہ نے طالہوت ہی کو (حکمرانی کی قابلیتوں کے لحاظ سے) تم پر برگزیدگی عطا فرمائی ہے اور علم کی فراوانی اور جسم کی طاقت، دونوں میں اسے وسعت دی ہے۔ اور (قیادت و حکمرانی تمہارے دے دینے سے کسی کو مل نہیں سکتی) وہ جسے چاہتا ہے اپنی زمین کی حکمرانی بخش دیتا ہے۔ اور وہ (اپنی قدرت میں) بڑی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
248 اور پھر ان کے نبی نے کہا (تم طالوت کے استحقاق حکومت پر اعتراض کرتے تھے تو دیکھو) اس کی (اہلیت) حکومت کی نشانی یہ ہے کہ (مقدس) تابوت (جو تم کھو چکے ہو اور دشمنوں کے ہاتھ پڑچکا ہے) تمہارے پاس واپس) آجائے گا، اور (حکمت الٰہی سے ایسا ہوگا کہ) فرشتے اسے اٹھا لائیں گے۔ اس تابوت میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے (فتح کامرانی کی) دلجمعی ہے اور جو کچھ موسیٰ اور ہارون کے گھرانے (اپنی مقدس یادگاریں) چھوڑ گئے ہیں، ان کا بقیہ ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو تو یقینا اس واقعے میں تمہارے لیے بڑی ہی نشانی ہے البقرة
249 پھر جب (کچھ عرصہ کے بعد) اییسا ہوا کہ طالوت نے لشکر کے ساتھ کوچ کیا تو اس نے کہا دیکھو (راہ میں ایک ندی پڑے گی) اللہ (اس) ندی کے پانی سے (تمہارے صبر اور اطاعت کی) آزمائش کرنے والا ہے۔ پس یاد رکھو، جس کسی نے اس ندی کا پانی پیا اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔ وہ میر جماعت سے خارج ہوجائے گا۔ میرا ساتھی وہی ہوگا جو اس کے پانی کا مزہ تک نہ چکے۔ ہاں اگر آدمی (بہت ہی مجبور ہو اور) اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے اور پی لے تو اس کا مضائقہ نہیں لیکن (جب لشکر ندی پر پہنچا تو) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب نے پانی پی لیا (اور صبر و اطاعت کی آزمائش میں پورے نہ اترے) پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ وہ لوگ جو (حکم الٰہی پر سچا) ایمان رکھتے تھے ندی کے پار اترے تو ان لوگوں نے (جنہوں نے طالوت کے حکم کی نافرمانی کی تھی) کہا "ہم میں یہ طاقت نہیں کہ آج جالوت سے (جو فلسطینیوں کے لشکر کا ایک دیوہیکل سردار تھا) اور اس کی فوج سے مقابلہ کرسکیں" لیکن وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ انہیں (ایک دن) اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے پکار اٹھے (تم دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہراساں ہوئے جاتے ہو؟) کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر حکم الٰہی سے غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے البقرة
250 اور پھر جب وہ میدان جنگ میں جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے آئے تو انہوں نے کہا۔ "خدایا (تو دیکھ رہا ہے کہ ہم کمزور ہیں اور تھوڑے ہیں اور مقابلہ ان سے ہے جو طاقتور ہیں اور بہت ہیں۔ پس) ہم (صبر و ثبات کے پیاسوں) پر صبر (کے جام) انڈیل دے (کہ عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں) اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جما دے (کہ کسی حال میں بھی پیچھے نہ ہٹھیں) اور پھر (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر فتح مند ہوجائیں البقرة
251 چنانچہ (ایسا ہی ہوا) انہوں نے حکم الٰہی سے اپنے دشمنوں کو ہزیمت دی اور داود کے ہاتھ سے جالوت مارا گیا۔ پھر اللہ نے داود کو بادشاہی اور حکمت سے سرفراز کیا اور (حکمرانی و دانشوری کی باتو میں سے) جو کچھ سکھلانا تھا سکھلا دیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ ایسا نہ کرتا کہ انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کو راہ سے ہٹاتا رہتا تو دنیا خراب ہوجاتی (اور امن و عدالت کا نام و نشان باقی نہ رہتا) لیکن اللہ دنیا کے لیے فضل و رحمت رکھنے والا ہے (اور یہ اس کا فضل ہے کہ کوئی ایک گروہ سدا ایک ہی حالت میں نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ ہمیشہ منازعت اور مدافعت جاری رہتی ہے۔ البقرة
252 (اے پیغمبر) یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے تو یقین کرو اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں اور ہمارا سنانا برحق ہے یقینا تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں ہم نے اپنی پیغمبری کے لیے چن لیا ہے البقرة
253 یہ ہمارے پیغمبر ہیں، جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے (یعنی اگرچہ پیغمبری کے لحاظ سے سب کا درجہ یکساں ہے لیکن اپنی اپنی خصوصیتوں کے لحاظ سے مختلف درجے رکھتے ہیں) ان میں کچھ تو ایسے تھے جن سے اللہ نے کلام کیا (یعنی ان پر اپنی کتاب نازل کی) بعض ایسے تھے جن کے درجے (ان کے وقتوں اور حالتوں کے مطابق دوسری باتوں میں) بلند کیے گئے اور (تم سے پہلے) مریم کے بیٹے عسی کو (ہدایت کی) روشن دلیلیں عطا فرمائی، اور روح القدس (یعنی وحی) تائید سے سرفراز کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو (اس کی قدرت سے یہ بات باہر نہ تھی کہ) جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد پیدا ہوئے، وہ ہدایت کی روشن دلیلیں پالینے کے بعد پھر (اختلاف و نزاع میں نہ پر تے اور) آپس میں نہ لڑتے۔ لیکن (تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ انسان کو کسی ایک حالت پر مجبور نہ کردے۔ ہر طرح کے ارادہ و فعل کی استعداد دے دے۔ پس) پیغمبروں کے بعد لوگ آپس میں مخالف ہوگئے کچھ لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی۔ کچھ لوگوں نے کفر کا شیوہ پسند کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے (یعنی ان سے لڑائی کی قوت سلب کرلیتا) لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (تم اس کے کاموں کی حکمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتے) البقرة
254 مسلمانوں ! ہم نے مال و متاع دنیا میں سے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے، اسے ( صرف اپنے نفس کے آرام و راحت پر نہیں بلکہ راہ حق میں بھی) خرچ کرو اور ہاتھ نہ روکو۔ قبل اس کے کہ (زندگی کی عارضی مہلت ختم ہوجائے، اور آنے والا دن سامنے آئے جائے۔ اس دن نہ تو (دنیا کی طرح) خرید و فروخت ہوسکے گی (کہ قیمت دے کر نجات خرید لو)، نہ کسی کی یاری کام آئے گی (کہ اس کے سہارے گناہ بخشوا لو) نہ ایسا ہی ہوسکے گا کہ کسی کی سعی و سفارش سے کام نکال لیا جائے، (اس دن صرف عمل ہی نجات دلا سکے گا) اور یاد رکھو، جو لوگ اس حقیقت سے) منکر ہیں، تو یقینا یہی لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔ البقرة
255 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ "الحی" ہے (یعنی زندہ ہے اور اس کی زندگی کے لیے فنا و زوال نہیں۔ القیوم ہے، (یعنی ہر چیز اس کے حکم سے قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لیے کسی کا محتاج نہیں) اس (کی آنکھ) کے لیے نہ تو اونگ ہے نہ (دماغ کے لیے) نیند۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور اسی کے حکم سے ہے۔ کون ہے جو اس کے سامنے، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت کے لیے زبان کھولے، جو کچھ انسان کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ پیچھے ہے وہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں۔ انسان اس کے علم سے کسی بات کا بھی احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر یہ کہ جتنی بات کا علم وہ انسان کو دینا چاہے اور دے دے۔ اس کا تخت (حکومت) آسمان و زمین کے تمام پھیلاؤ پر چھایا ہوا ہے اور ان کی نگرانی و حفاظت میں اس کے لیے کوئی تھکاوٹ نہیں۔ اس کی ذات بڑی ہی بلند مرتبہ ہے البقرة
256 دین کے بارے میں کسی طرح کا جبر نہیں (کیونکہ وہ دل کے اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے، اور جبر و تشدد سے اعتقاد پیدا نہیں کیا جاسکتا) بلاشبہ ہدایت کی راہ گمراہی سے الگ اور نمایاں ہوگئی ہے (اور اب دونوں راہیں لوگوں کے سامنے ہیں۔ جسے چاہیں اختیار کریں۔ پھر جو کوئی طاغوت سے انکار کرے (یعنی سرکشی و فساد کی قوتوں سے بیزار ہوجائے) اور اللہ پر ایمان لائے تو بلاشبہ اس نے (فلاح و سعادت کی) مضبوط ٹہنی پکڑ لی۔ یہ ٹہنی ٹوٹنے والی نہیں (جس کے ہاتھ آگئی وہ گرنے سے محفوظ ہوگیا) اور یاد رکھو اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ البقرة
257 اللہ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو ایمان کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ انہیں (ہر طرح کی) تاریکیوں سے نکالتا اور روشنی میں لاتا ہے۔ مگر جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، تو ان کے مددگار سرکش اور مفسد (معبودان باطل) ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکالتے اور تاریکیوں میں لے جاتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کا گروہ دوزخی گروہ ہوا۔ ہمیشہ عذاب جہنم میں رہنے والا البقرة
258 (اے پیغمبر) کیا تم نے اس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے اس کے پروردگار کے بارے میں حجت کی تھی اور اس لیے حجت کی تھی کہ خدا نے اسے بادشاہت دے رکھی تھی؟ (یعنی تاج و تخت شاہی نے اس کے اندر ایسا گھمنڈ پیدا کردیا تھا کہ خدا کے بارے میں حجت کرنے لگا تھا) جب ابراہیم نے کہا، میرا پروردگار تو وہ ہے جو مخلوقات کو جلاتا (زندہ کرتا) ہے اور مارتا ہے، تو اس نے جواب میں کہا جلانے (زندہ کرنے والا) اور مارنے والا تو میں ہوں (جسے چاہوں ہلاک کردوں، جسے چاہوں بخش دوں)۔ اس پر ابراہیم نے کہا اچھا اگر ایسا ہی ہے تو اللہ سورج کو پورب کی طرف سے (زمین پر) طلوع کرتا ہے تم پچھم سے نکال دکھاؤ۔ یہ جواب سن کر وہ بادشاہ جس نے کفر کا شیوہ اختیار کیا تھا، ہکا بکا ہو کر رہ گیا (اور ابراہیم کے خلاف کچھ نہ کرسکا) اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ظالموں پر (کامیابی و فلاح کی) راہ نہیں کھولتا البقرة
259 اور پھر اسی طرح اس شخص کی حالت پر بھی غور کرو جو ایک ایسی بستی پر سے گزرا تھا جس کے مکانوں کی چھتیں گرچکی تھیں اور گری ہوئی چھتوں پر درودیوار کا ڈھیر تھا (یہ حال دیکھ کر) بول اٹھا "جس بستی کی ویرانی کا یہ حال ہے کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ اسے موت کے بعد (دوبارہ) زندہ کردے" (یعنی دوبارہ آباد کردے)۔ پھر ایسا ہوا کہ اللہ نے اس شخص پر سو برس تک موت طاری کردی۔ پھر اس حالت سے اسے اٹھا دیا اور پوچھا کتنی دیر اس حالت میں رہے؟ عرض کیا۔ ایک دن تک یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ ارشاد ہوا نہیں، بلکہ سو برس تک، پس اپنے کھانے اور پانی پر نظر ڈالو۔ ان میں برسوں تک پڑے رہنے کی کوئی علامت نہیں اور (اپنی سواری کے) گدھے پر بھی نظر ڈالو (کہ وہ کس حالت میں) اور (یہ جو کچھ کیا گیا) اس لیے کیا گیا، تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے (حق کی) ایک نشانی ٹھہرائیں (اور تمہارا علم ان کے لیے یقین و بصیرت کا ذریعہ ہو) اور پر (جسم کی) ہڈیوں پر غور کرو۔ کس طرح ہم (ان کا ڈھانچہ بنا کر) کھڑا کردیتے ہیں اور پھر (کس طرح) اس ـ(ڈھانچے) گوشت پر گوشت کا غلاف چرھا دیتے ہیں (کہ ایک مکمل اور متشکل ہستی ظہور میں آجاتی ہے؟) پس جب اس شخص پر یہ حقیقت کھل گئی تو وہ بول اٹھا۔ میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں۔ بلاشبہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ البقرة
260 اور پھر (دیکھو) جب ایسا ہوتا تھا کہ ابراہیم نے کہا تھا "اے پروردگار ! مجھے دکھلا دے کس طرح تو مردوں کو زندہ کردے گا؟ اللہ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں؟ عرض کیا ضرور ہے لیکن یہ اس لیے چاہتا ہوں تاکہ میرے دل کو قرار آجائے (یعنی تیری قدرت پر تو یقین و ایمان ہے، لیکن یہ جو مایوس کن حالت دیکھ کر دل دھڑکنے لگتا ہے، تو یہ بات دور ہوجائے)۔ اس پر ارشاد الٰہی ہوا، اچھا یوں کرو کہ پرندوں میں سے چار جانور پکڑ لو اور انہیں اپنے پاس رکھ کر اپنے ساتھ ہلا (سدھا) لو (یعنی اس طرح ان کی تربیت کرو کہ وہ اچھی طرح تم سے مل جائیں پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کو (اپنے سے دور) ایک ایک پہاڑ پر بٹھا دو، پھر انہیں بلاؤ۔ وہ (آواز سنتے ہی) تمہاری طرف اڑتے ہوئے چلے آئیں گے ! یاد رکھو اللہ سب پر غالب اور اپنے تمام کاموں میں حکمت رکھنے والا ہے البقرة
261 جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں، ان کی (نیکی اور نیکی برکتوں کی) مثال اس بیج کے دانے کی سی ہے جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ (جب بویا گیا تھا تو صرف ایک دانہ تھا۔ لیکن جب بار آور ہوا، تو) ایک دانہ سے سات بالیاں پیدا ہوگئیں، اور ہر بالی میں سو دانے نکل آئے۔ (یعنی خرچ کیا ایک اور بدلے میں ملے سینکڑوں !) اور اللہ جس کسی کے لیے چاہتا ہے، اس سے بھی دوگنا کردیتا ہے۔ وہ بڑی ہی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
262 جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اور اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ لینے والے کو (اپنے قول و فعل سے کسی طرح کا) دکھ پہنچاتے ہیں، تو ان کے پروردگار کے حضور ان کے عمل کا اجر ہے۔ نہ تو ان کے لیے کسی طرح کا ڈر ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
263 سیدھے منہ سے ایک اچھا بول اور (رحم و شفقت سے) عفو و درگزر کی کوئی بات اس خیرات سے کہیں بہتر ہے جس کے ساتھ خدا کے بندوں کے لیے اذیت ہو۔ اور (دیکھو، یہ بات نہ بھولو کہ) اللہ بے نیاز اور حلیم ہے البقرة
264 مسلمانو ! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور لوگوں کو اذیت پہنچا کر برباد نہ کردو، جس طرح وہ آدمی برباد کردیتا ہے، جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے، اور اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ سو ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے۔ جیسے (پتھر کی) ایک چٹان، اس پر مٹی کی تہہ جم گئی، اور اس میں بیج بویا گیا۔ جب زور سے پانی برسا، تو (ساری مٹی مع بیج کے بہہ گئی) اور ایک صاف اور سخت چٹان کے سوا کچھ باقی نہ رہا (سو یہی حال ان ریا کاروں کا بھی ہے) انہوں نے (اپنے نزدیک خیر خیرات کرکے) جو کچھ بھی کمایا تھا وہ (ریا کاری کی وجہ سے) رائیگاں گیا۔ کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ لگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں پر (فلاح و سعادت) کی راہ نہیں کھولتا جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ البقرة
265 (برخلاف اس کے) جو لوگ اپنا مال (نمود و نمائش کے لیے نہیں، بلکہ) اللہ کی خوشنوی کی طلب میں اپنے دل کے جماؤ کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اونچی زمین پر اگایا ہوا باغ۔ اس پر پانی برسا تو دو چند پھل پھول پیدا ہوگئے اور اگر زور سے پانی نہ برسے، تو ہلکی بوندیں بھی اسے شاداب کردینے کے لیے کافی ہیں ! اور یاد رکھو تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں البقرة
266 کیا تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ بات پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں کے درختوں اور انگوروں کی بیلوں کا باغ ہو۔ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں۔ نیز اس میں اور بھی ہر طرح کے پھل پھول پیدا ہوتے ہوں۔ پھر ایسا ہو کہ جب بڑھاپا آجائے اور ناتواں اولاد اس آدمی کے چاروں طرف جمع ہوں، تو اچانک ایک جھلستی ہوئی آندھی چلے اور (آن کی آن میں) باغ جل کر ویران ہوجائے؟ اللہ ایسی ہی مثالوں کے پیرایہ میں تم پر (حقیقت کی) نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ غو و فکر سے کام لو۔ البقرة
267 مسلمانو ! جو کچھ تم نے (محنت مزدوری یا تجارت سے) کمائی کی ہو اس میں سے خرچ کرو یا جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین میں پیدا کردیتے ہیں، اس میں سے نکالو، کوئی صورت ہو لیکن چاہیے کہ خدا کی راہ میں خیرات کرو تو اچھی چیز خیرات کرو۔ ایسا نہ کرو کہ فصل کی پیداوار میں سے کسی چیز کو ردی اور خراب دیکھ کر خیرات کردو (کہ بیکار کیوں جائے، خدا کے نام پر نکال دیں) حالانکہ اگر ویسی ہی چیز تمہیں دی جائے، تو تم کبھی اسے (خوشدلی سے) لینے والے نہیں مگر ہاں، (جان بوجھ کر) آنکھیں بند کرلو، تو دوسری بات ہے۔ یاد رکھو، اللہ کی ذات بے نیاز اور ساری ستائشوں سے ستودہ ہے (اسے تمہاری کسی چیز کی احتیاج نہیں، مگر اپنی سعادت و نجات کے لیے عمل خیر کے محتاج ہو۔ البقرة
268 شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔ اور برائیوں کی ترغیب دیتا ہے، لیکن اللہ تمہیں ایسی راہ کی طرف بلاتا ہے، جس میں اس کی مغفرت اور کے فضل و کرم کا وعدہ ہے۔ اور یاد رکھو اللہ وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے البقرة
269 وہ جسے چاہتا، حکمت دے دیتا ہے، اور جس کسی کو حکمت مل گئی تو یقین کرو، اس نے بڑی ہی بھلائی پالی اور نصیحت حاصل نہیں کرتے، مگر وہی لوگ جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں البقرة
270 اور دیکھو، خیرات کی قسم میں سے تم جو کچھ بھی خرچ کرو، یا خدا کی نذر ماننے کے طور پر جو کچھ بھی نکالنا چاہو، تو یہ بات یاد رکھو کہ اللہ کے علم سے وہ پوشیدہ نہیں ہے۔ اور جو معصیت کرنے والے ہیں تو انہیں (خدا کی پکڑ سے بچانے میں) کوئی مددگار نہیں ملے گا البقرة
271 اگر تم (بغیر اس کے کہ دل میں نام و نمود کی خواہش ہو) کھلے طور پر خیرات کرو، تو یہ بھی اچھی بات ہے اگر پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو تو اس میں تمہارے لیے بڑی ہی بہتری ہے۔ یہ تمہارے گناہوں کو تم سے دور کردے گی۔ اور یاد رکھو تم جو کچھ بھی کرتے ہو خدا کے علم سے پوشیدہ نہیں، وہ ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے البقرة
272 (اے پیغمبر) تم پر کچھ اس بات کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ ہدایت قبول ہی کرلیں (تمہاری کام) صرف راہ دکھا دینا ہے، یہ کام اللہ کا ہے کہ جسے چاہے راہ پر لگا دے (پس تم لوگوں سے کہہ دو) جو کچھ بھی تم خیرات کرو گے تو (اس کا فائدہ کچھ مجے نہیں مال جائے گا، اور نہ کسی دوسرے پر اس کا احسان ہوگا) خود اپنے ہی فائدہ کے لیے کروگے۔ اور تمہارا خرچ کرنا اسی غرض کے لیے ہے کہ اللہ کی رضا جوئی کی راہ میں خرچ کرو۔ اور (پھر یہ بات بھی یاد رکھو کہ) جو کچھ تم خیرات کرو گے تو (خدا کا قانون یہ ہے کہ) اس کا بدلہ پوری طرح تمہیں دے دے گا، تمہاری حق تلفی نہ ہوگی البقرة
273 حیرات تو ان حاجت مندوں کا حق ہے جو (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہوکر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کام کے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہو کر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کا مکے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (معیشت کی ڈھونڈھ میں) نکلیں اور دوڑ دھوپ کریں (پھر باوجود فقر و فاقے کے ان کی خود داری کا یہ حال ہے کہ) ناواقف آدمی دیکھے، تو خیال کرے انہیں کسی طرح کی احتیاج نہیں۔ تم ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حالت جان لے سکتے ہو، لیکن وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال کرنے والے نہیں۔ اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی نیکی کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا علم رکھنے والا ہے البقرة
274 (غرض کہ) جو لوگ رات کی تاریکی میں اور دن کی روشنی میں، پوشیدہ طور پر اور کھلے طور پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں، تو یقینا ان کے پروردگار کے حضور ان کا اجر ہے۔ نہ تو ان کے لیے (عذاب کا) ڈر ہوگا، نہ (نامرادی کی) غمگینی البقرة
275 جو لوگ (حاجت مندوں کی مدد کرنے کی جگہ الٹا ان سے) سود لیتے اور اس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں، وہ (یاد رکھیں ان کے ظلم و ستم کا نتیجہ ان کے آگے آنے والا ہے۔ وہ) کھڑے نہیں ہوسکیں گے مگر اس آدمی کا سا کھڑا ہونا جسے شیطان کی چھوت نے باؤلا کردیا ہو۔ (یعنی مرگی کا روگی ہو) یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے (سود کے ناجائز ہونے سے انکار کیا اور) کہا، خرید و فروخت کرنا بھی ایسا ہی ہے جیسے قرض دے کر سود لینا، حالانکہ خرید و فروخت کو تو خدا نے حلال ٹھہرایا ہے، اور سود کو حرام (دونوں باتیں ایک طرح کی کیسے ہوسکتی ہیں) سو اب جس کسی کو اس کے پروردگار کی یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ آئندہ سود لینے سے رک گیا، تو جو کچھ پہلے لے چکا ہے، وہ اس کا ہوچکا، اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے۔ لیکن جو کوئی باز نہ آیا تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ عذاب میں رہنے والا البقرة
276 اللہ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور (یاد رکھو) تمام ایسے لوگوں کو جو نعمت الٰہی کے ناسپاس اور نافرمان ہیں، اس کی پسندیدگی حاصل نہیں ہوسکتی البقرة
277 جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کے کام بھی اچھے ہیں، نیز نماز قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے ہیں، تو بلاشبہ ان کے پروردگار کے حضور ان کا اجر ہے۔ نہ تو ان کے لیے کسی طرح کا ڈر ہوسکتا ہے نہ کسی طرح کی غمگینی البقرة
278 مسلمانو ! اگر فی الحقیقت تم خدا پر ایمان رکھتے ہو، تو اس سے ڈرو، اور جس قدر سود مقروضوں کے ذمے باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو البقرة
279 اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ (کیونکہ ممانعت کے صاف صاف حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا، اللہ اور اس کے رسول کے برخلاف جنگ آزما ہوجانا ہے) اور اگر (اس باغیانہ روش سے) توبہ کرتے ہو، تو پھر تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ اپنی اصلی رقم لے لو اور سود چھوڑ دو۔ نہ تو تم کسی پر ظلم کرو نہ تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے۔ البقرة
280 اور اگر ایسا ہو کہ ایک مقروض تنگ دست ہے (اور فوراً قرض ادا نہیں کرسکتا) تو چاہیے کہ اسے فراخی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے۔ اور اگر تم سمجھ رکھتے ہو، تو تمہارے لیے بہتری کی بات تو یہ ہے کہ (ایسے تنگ دست بھائی کو) اس کا قرض بطور خیرات بخش دو البقرة
281 اور دیکھو، اس دن (کی پرسش) سے ڈرو، جبکہ تم سب اللہ کے حضور لوٹائے جاؤگے، اور پھر ایسا ہوگا کہ ہر جان نے (اپنے عمل سے) جو کچھ کمایا ہے اس کا بدلہ پورا پورا اسے مل جائے گا۔ یہ نہ ہوگا کہ کسی کی بھی حق تلفی ہو البقرة
282 مسلمانو ! جب کبھی ایسا ہو کہ تم خاص میعاد کے لیے ادھار لینے دینے کا معاملہ کرو تو چاہیے کہ لکھا پڑھی کرلو اور تمہارے درمیان ایک لکھنے والا ہو جو دیانت داری کے ساتھ دستاویز قلم بند کردے۔ لکھنے والے کو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے کہ جس طرح اللہ نے اسے (دیانت داری کے ساتھ لکھنا) بتلا دیا ہے اس کے مطابق لکھ دے۔ اسے لکھ دینا چاہیے۔ لکھا پڑھی اس طرح ہو کہ جس کے ذمہ دینا ہے، وہ مطلب بولتا جائے (اور کاتب لکھتا جائے) اور چاہیے کہ ایسا کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا دل میں خوف رکھے۔ جو کچھ اس کے ذمے آتا ہے، اس میں کسی طرح کی کمی نہ کرے ٹھیک ٹھیک لکھوادے۔ اگر ایسا ہو کہ جس کے ذمے دینا ہے، وہ بے عقل ہو یا ناتواں ہو (یعنی لین دین اور معاملہ کی سمجھ نہ رکھتا ہو) یا اس کی استعداد نہ رکھتا ہو کہ خود کہے اور لکھوائے، تو اس صورت میں چاہیے، اس کی جانب سے اس کا سرپرست دیانت داری کے ساتھ مطلب بولتا جائے اور (جو دستاویز لکھی جائے) اس پر اپنے آدمیوں میں سے دو آدمیوں کو گواہ کرلو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد (کے بدلے) دو عورتیں، جنہیں تم گواہ کرنا پسند کرو۔ اگر (گواہی دیتے ہوئے) ایک بھول جائے گی دوسری یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ طلب کیے جائیں تو گواہی دینے سے بچنا نہ چاہیں اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جب تک میعاد باقی ہے، دستاویز لکھنے میں کاہلی نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک اس میں تمہارے لیے انصاف کی زیادہ مضبوطی ہے، شہادت کو اچھی طرح قائم رکھنا ہے، اور اس بات کا حتی الامکان بندوبست کردینا ہے کہ (آئندہ) شک و شبہ میں نہ پڑو۔ ہاں، اگر ایسا ہو کہ نقد (لین دین) کا کاروبار ہو جسے تم (ہاتھوں ہاتھ) لیا دیا کرتے ہو، تو ایسی حالت میں کوئی مضائقہ نہیں اگر لکھا پڑھی نہ کی جائے۔ لیکن (تجارتی کاروبار میں بھی) سودا کرتے ہوئے گواہ کرلیا کرو (تاکہ خرید و فروخت کی نوعیت اور شرائط کے بارے میں بعد کو کوئی جھگڑا نہ ہوجائے) اور کاتب اور گواہ کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے (یعنی اس کا موقعہ نہ دیا جائے کہ اہل غرض ان پر دباؤ ڈالیں اور سچی بات کے اظہار سے مانع ہوں) اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہارے لیے گناہ کی بات ہوگی۔ اور چاہیے کہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہیں (فلاح و سعادت کے طریقے) سکھلاتا ہے، اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے البقرة
283 اور اگر تم سفر میں ہو اور (ایسی حالت ہو کہ باقاعدہ لکھا پڑھی کرنے کے لیے) کوئی کاتب نہ ملے، تو اس صورت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز گرو رکھ کر اس کا قبضہ (قرض دینے والے کو) دے دیا جائے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ تم میں سے ایک آدمی دوسرے کا اعتبار کرے، تو جس کا اعتبار کیا گیا ہے (یعنی جس کا اعتبار کرکے گرو کی چیز اس کی امانت میں دے دی گئی ہے) وہ (قرض کی رقم لے کر مقروض کی) امانت واپس کردے اور (اس بارے میں) اپنے پروردگار (کی پوچھ گچھ) سے بے خوف نہ ہو۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ گواہی چھپاؤ (اور کسی کے خوف یا طمع سے حقیقت کا اظہار نہ کرو) جو کوئی گواہی چھپائے گا، وہ اپنے دل میں گنہگار ہوگا (اگرچہ بظاہر لوگ اس کے جرم سے واقف نہ ہوں اور اسے بے گناہ سمجھیں) اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں البقرة
284 آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، تم اسے ظاہر کرو، یا پوشیدہ رکھو ہر حال میں اللہ جاننے والا ہے۔ وہ تم سے ضرور اس کا حساب لے گا۔ اور پھر یہ اسی کے ہاتھ ہے کہ جسے چاہے بخش دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ ہر بات پر قادر ہے البقرة
285 اللہ کا رسول اس (کلام) پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر نازل ہوا ہے، اور جو لوگ (دعوت حق پر) ایمان لائے ہیں وہ بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ (ان کے ایمان کا دستور العمل یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی کو دوسرے سے جدا نہیں کرتے (کہ اسے مانیں، دوسروں کو نہ مانیں۔ یا سب کو مانیں مگر کسی ایک سے انکار کردیں۔ ہم خدا کے تمام رسولوں کی یکساں طور پر تصدیق کرنے والے ہیں) اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں داعی حق نے پکارا تو) انہوں نے کہا خدایا ! ہم نے تیرا حکم سنا اور ہم نے تیرے آگے اطاعت کا سر جھکا دیا۔ تیری مغفرت ہمیں نصیب ہو۔ خدایا ! ہم سب کو تیری ہی طرف (بالآخر) لوٹنا ہے۔ البقرة
286 اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ ہر جان کے لیے وہی ہے، جیسی کچھ اس کی کمائی ہے۔ جو کچھ اسے پانا ہے، وہ بھی اس کی کمائی سے ہے، اور جس کے لیے اسے جواب دہ ہونا ہے، وہ بھی اس کی کمائی ہے (پس ایمان والوں کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! اگر ہم سے (سعی و عمل میں) بھول چوک ہوجائے تو اس کے لیے نہ پکڑیوں اور ہمیں بخش دیجیو ! خدایا ! ہم پر بندھنوں اور گرفتاریوں کا بوجھ نہ ڈالیو جیسا ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ! خدایا ! بوجھ ہم سے نہ اٹھوائیو جس کے اٹھانے کی ہم (ناتوانوں ٰ میں سکت نہ ہو ! خدایا ہم سے درگزر کر ! خدایا ہم پر رحم کر ! خدایا ! تو ہی ہمارا مالک و آقا ہے۔ پس ان (ظالموں) کے مقابلے میں جن کا گروہ کفر کا گروہ ہے، ہماری مدد فرما البقرة
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے آل عمران
1 الف۔ لام۔ میم آل عمران
2 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کوئی نہیں مگر اسی کی ایک ذات الحی (یعنی زندہ کہ اس کے لیے زوال و فنا نہیں) القیوم (کہ کائنات ہستی کی ہر چیز اس سے قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لیے کسی کا محتاج نہیں) آل عمران
3 اسی نے تم پر سچائی کے ساتھ الکتاب نازل کی (یعنی قرآن نازل کیا) اس سے پہلے جس قدر کتابیں نازل ہوچکی ہیں۔ ان سب کی تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے (ان سے الگ نہیں ہے) اور اسی (حی و قیوم ذات) نے اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کی تھی۔ آل عمران
4 نیز اس نے الفرقان (یعنی نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوت) بھی نازل فرمائی۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں (اور حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیتے ہیں) تو (یاد رکھیں) انہیں (پاداش عمل میں) سخت عذاب ملنے والا ہے، اور اللہ سب پر غالب اور (مجرموں کو) سزا دینے والا ہے۔ آل عمران
5 بلاشبہ اللہ کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں آل عمران
6 خواہ زمین میں ہو خواہ آسمان میں۔ یہ اسی کی کار فرمائی ہے کہ جس طرح چاہتا ہے، ماں کے شکم میں تمہاری صورت (کا ڈیل ڈول اور ناک نقشہ) بنا دیتا ہے (اور قبل اس کے کہ دنیا میں قدم رکھو تمہاری حالت و ضرورت کے مطابق تمہیں ایک موزوں صورت مل جاتی ہے) یقیناً کوئی معبود نہیں ہے، مگر وہی غالب و توانا ۃ کہ اسی کے حکم و طاقت سے سے سب کچھ ظہور میں آتا ہے) حکمت والا (کہ انسان کی پیدائش سے پہلے شکم مادر میں اس کی صورت آرائی کردیتا ہے آل عمران
7 (اے پیغمبر) وہی (حی و قیوم ذات) ہے جس نے تم پر الکتاب نازل فرمائی ہے۔ اس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کی ہے ( یعنی ایسی آیتوں کی جو اپنے ایک ہی معنی میں اٹل اور ظاہر ہیں) اور وہ کتاب کی اصل و بنیاد ہیں۔ دوسری قسم متشابہات کی ہے (یعنی جن کا مطلب کھلا اور قطعی نہیں ہے) تو جن لوگوں کے لیے دلوں میں کجی ہے (اور سیدھے طریقے پر بات نہیں سمجھ سکتے) وہ (محکم آیتیں چھوڑ کر) ان آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں جو کتاب اللہ میں متشابہ ہیں۔ اس غرض سے کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرلیں، حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (کیونکہ ان کا تعلق اس عالم سے ہے جہاں تک انسان کا علم و حواس نہیں پہنچ سکتا) مگر جو لوگ علم میں پکے ہیں، وہ (متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے وہ) کہتے ہیں "ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے" اور حقیقت یہ ہے کہ (تعلیم حق سے) دانائی حاصل نہیں کرتے مگر وہی جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں آل عمران
8 (ان ارباب عقل و بصیرت کی صدائے حال ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! ہمیں سیدھے رستے لگا دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ڈانوا ڈول نہ کر، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ! یقینا تو ہی ہے کہ بخشش میں تجھ سے بڑا کوئی نہیں آل عمران
9 خدایا (عالم آخرت کے معاملات ہماری عقل نارسا میں آئیں یا نہ آئیں لیکن) اس میں کوئی شک نہیں کہ تو ایک دن سب کو اپنے حضور جمع کرنے والا ہے (یہ تیرا وعدہ ہے اور) یقیناً تیرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوسکتا آل عمران
10 جن لوگوں نے (ایمان و راست بازی کی جگہ) کفر کی راہ اختیار کی ہے تو (وہ یاد رکھیں) انہیں اللہ کی پکڑ سے نہ تو ان کی دولت بچا سکے گی (جس کی کثرت کا انہیں گھمنڈ ہے) نہ آل اولاد، (جس دنیا کی مصیبتوں مشکلوں میں ان کے کام آتی رہتی ہے) یہ وہ لوگ ہیں کہ آتش عذاب کا ایندھن بن کر رہیں گے آل عمران
11 ان لوگوں کا بھی وہی ڈھنگ ہوا جو فرعون کے گروہ کا تھا، اور ان لوگوں کا تھا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے اللہ کی نشانیاں جھٹلائیں۔ تو اللہ نے بھی پاداش عمل میں انہیں پکڑ لیا اور (یاد رکھو) وہ (جرموں میں کی سزا دینے میں) بہت ہی سخت سزا دینے والا ہے آل عمران
12 (اے پیغمبر !) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، ان سے کہہ دو "وہ وقت دور نہیں جب (آل فرعون کی طرح) تم بھی (غلبہ حق سے) مغلوب ہوجاؤ گے اور جہنم کی طرف ہنکائے جاؤ گے۔ اور (جس گروہ کا آخری ٹھکانا جہنم ہو، تو اس کا ٹھکانا) کیا ہی برا ٹھکانا ہے آل عمران
13 بلاشبہ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں (کلمہ حق کی فتح مندیوں کی) بڑی ہی نشانی تھی، جو (بدر کے میدان میں) ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے۔ اس وقت ایک گروہ تو (مٹھی بھر بے سروسامان مسلمانوں کا تھا جو) اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا۔ دوسرا منکرین حق کا تھا جنہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان سے دو چند ہیں (بایں ہمہ منکرین حق کو شکست ہوئی) اور اللہ جس کسی کو چاہتا ہے، اپنی نصرت سے مددگاری پہنچاتا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو چشم بینا رکھتے ہیں، اس معاملہ میں بڑی عبرت ہے آل عمران
14 انسان کے لیے مرد و عورت کے رشتہ میں، اولاد میں، چاندی سونے کے ذخیروں میں، چنے ہوئے گھوروں میں، مویشی میں اور کھیتی باری میں دل کا اٹکاؤ اور خوش نمائی رکھ دی گئی ہے۔ (اس لیے قدرتی طور پر تمہیں بھی ان چیزوں کی خواہش ہوگی) لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی زندگی کا فائدہ اٹھانا ہے اور بہتر ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے آل عمران
15 (اے پیغمبر) ان سے کہہ دو۔ میں تمہیں بتلاؤ۔ زندگی کے ان فائدوں سے بھی بہتر تمہارے لیے کیا ہے؟ جو لوگ متقی ہیں ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس (نعیم ابدی کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ ان باغوں میں رہیں گے۔ پاک بیویاں ان کے ساتھ ہوں گی۔ اور (سب سے بڑھ کر یہ کہ) اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی۔ اور (یاد رکھو) اللہ اپنے بندوں کا حال دیکھ رہا ہے آل عمران
16 (یہ متقی انسان وہ ہیں) جو کہتے ہیں "خدایا ! ہم تجھ پر ایمان لائے، پس ہمارے گناہ بخش دیجیو اور عذاب جہنم سے ہمیں بچا لیجیو" آل عمران
17 (شدت و مصیبت میں) صبر کرنے والے (قول و عمل میں) سچے، خشوع و خضوع میں پکے، نیکی کی راہ میں خرچ کرے والے، اور رات کی آخری گھڑیوں میں (جب تمام دنیا خواب سحر کے مزے لوٹتی ہے) اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے اور اس کی مغفرت کے طلب گار آل عمران
18 اللہ نے اس بات کی گواہی آشکارا کردی کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف اسی کی ذات یگانہ، عدل کے ساتھ (تمام کارخانہ ہستی میں) تدبیر و انتظام کرنے والی۔ فرشتے بھی (اپنے اعمال سے) اسی کی شہادت دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علم رکھنے والے ہیں۔ ہاں کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی ایک۔ طاقت و غلبہ والا (کہ اسی کی تدبیر سے تمام کارخانہ ہستی قائم ہے) حکمت والا (کہ اسی نے عدل کی بنیاد پر اس کارخانہ کا ہر گوشہ استوار کردیا ہے۔ آل عمران
19 بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دین بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین کی راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پاسنے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ (کا قانون جزا) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں آل عمران
20 اللہ نے اس بات کی گواہی آشکارا کردی کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف اسی کی ذات یگانہ، عدل کے ساتھ (تمام کارخانہ ہستی میں) تدبیر و انتظام کرنے والی۔ فرشتے بھی (اپنے اعمال سے) اسی کی شہادت دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علم رکھنے والے ہیں۔ ہاں کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی ایک۔ طاقت و غلبہ والا (کہ اسی کی تدبیر سے تمام کارخانہ ہستی قائم ہے۔) حکمت والا (کہ اسی نے عدل کی بنیاد پر اس کارخانہ کا ہر گوشہ استوار کردیا ہے) آل عمران
21 بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دیں بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پانے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ ( کا قانون جز) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں آل عمران
22 پھر اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں تو (اے پیغمبر) تم کہہ دو میرے اور میرے پیروؤں کا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیا ہے (یعنی ہماری راہ خدا پرستی کے سوا اور کچھ نہیں ہے) اور اہل کتاب اور (عرب کے) ان پڑھ لوگوں سے پوچھو تم بھی اللہ کے آگے جھکتے ہو یا نہیں؟ اگر وہ جھک جائیں تو (سارا جھگڑا ختم ہوگیا اور) انہوں نے راہ پالی، اگر روگردانی کریں تو پھر (جن لوگوں کو خدا پرستی ہی سے انکار ہو اور محض گروہ بندی کے تعصب کو دین داری سمجھ رہے ہوں، ان کے لیے دلیل و موعظت کیا سود مند ہوسکتی ہے) تمہارے ذمے جو کچھ ہے وہ پیام حق پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں کے حال سے غافل نہیں۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے آل عمران
23 جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں اور اس کے نبیوں کے ناحق قتل میں چھوٹ ہیں۔ نیز ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو حق و عدالت کا حکم دینے والے ہیں تو (ایسے خوش اعمال لوگوں کے لیے اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ) انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری پہنچا دو آل عمران
24 یہی لوگ ہیں جن کا کیا دھرا دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت گیا اور کوئی نہیں جو ان کا مددگار ہوگا آل عمران
25 بھلا اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ہم انہیں ایک ایسے دن ( کا سامنا کرنے) کے لیے جمع کر لائیں گے جس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے اور ہر ہر شخص نے جو کچھ کمائی کی ہوگی وہ اس کو پوری پوری دے دی جائے گی، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
26 کہو کہ : اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (٦) آل عمران
27 تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ (٧) اور تو ہی بے جان چیز میں سے جاندار کو برآمد کرلیتا ہے اور جاندار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے، (٨) اور جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ آل عمران
28 مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، (٩) اور اللہ تمہیں اپنے ( عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف ( سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔ آل عمران
29 (اے رسول) لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ اسے جان لے گا۔ اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، وہ سب جانتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آل عمران
30 وہ دن یاد رکھو جس دن کسی بھی شخص نے نیکی کا جو کام کیا ہوگا، اسے اپنے سامنے موجود پائے گا، اور برائی کا جو کام کیا ہوگا اس کو بھی ( اپنے سامنے دیکھ کر) یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کی بدی کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہوتا۔ اور اللہ تمہیں اپنے ( عذاب) سے بچاتا ہے، اور اللہ بندوں پر بہت شفقت رکھتا ہے۔ آل عمران
31 (اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ آل عمران
32 کہہ دو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر منہ موڑو گے تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ آل عمران
33 اللہ نے آدم، نوح، ابراہیم کے خاندان، اور عمران کے خاندان کو چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ آل عمران
34 یہ ایسی نسل تھی جس کے افراد (نیکی اور اخلاص میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے، (١٠) اور اللہ ( ہر ایک کی بات) سننے والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ آل عمران
35 (چنانچہ اللہ کے دعا سننے کا وہ واقعہ یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا تھا کہ : یا رب ! میں نے نذر مانی ہے کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے ہر کام سے آزاد کر کے تیرے لیے وقف رکھوں گی۔ میری اس نذر کو قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ آل عمران
36 پھر جب ان سے لڑکی پیدا ہوئی تو وہ (حسرت سے) کہنے لگیں : یا رب یہ تو مجھ سے لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔ حالانکہ اللہ کو خوب علم تھا کہ ان کے یہاں کیا پیدا ہوا ہے۔ اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں ہوتا، میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے حفاظت کے لیے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ آل عمران
37 چنانچہ اس کے رب نے اس ( مریم) کو بطریق احسن قبول کیا اور اسے بہترین طریقے سے پروان چڑھایا۔ اور زکریا اس کے سرپرست بنے۔ ( ١١) جب بھی زکریا ان کے پاس ان کی عبادت گاہ میں جاتے، ان کے پاس کوئی رزق پاتے، انہوں نے پوچھا : مریم ! تمہارے پاس یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ وہ بولیں : اللہ کے پاس سے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے آل عمران
38 اس موقع پر زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، کہنے لگے : یا رب مجھے خاص اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرمادے۔ بیشک تو دعا کا سننے والا ہے۔ (١٢) آل عمران
39 چنانچہ ( ایک دن) جب زکریا عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ : اللہ آپ کو یحی کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جو اس شان سے پیدا ہوں گے کہ اللہ کے ایک کلمے کی تصدیق کریں گے، (١٣) لوگوں کے پیشوا ہوں گے، اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر روکے ہوئے ہوں گے، (١٤) اور نبی ہوں گے اور ان شمار راست بازوں میں ہوگا۔ آل عمران
40 زکریا نے کہا : یا رب ! میرے یہاں لڑکا کس طرح پیدا ہوگا جبکہ مجھے بڑھاپا آپہنچا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے ؟ (١٥) اللہ نے کہا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ آل عمران
41 انہوں نے کہا : پروردگار میرے لیے کوئی نشانی مقرر کردیجیے، اللہ نے کہا : تمہاری نشانی یہ ہوگی کہ تم تین دن تک اشاروں کے سوا کوئی بات نہیں کرسکو گے۔ (١٦) اور اپنے رب کا کثرت سے ذکر کرتے رہو، اور ڈھلے دن کے وقت بھی اور صبح سویرے بھی اللہ کی تسبیح کیا کرو۔ آل عمران
42 اور ( اب اس وقت کا تذکرہ سنو) جب فرشتوں نے کہا تھا کہ : اے مریم ! یشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے، تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور دنیا جہان کی ساری عورتوں میں تمہیں منتخب کرکے فضیلت بخشی ہے۔ آل عمران
43 اے مریم ! تم اپنے رب کی عبادت میں لگی رہو، اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع بھی کیا کرو۔ آل عمران
44 ( اے پیغمبر) یہ سب غیب کی خبریں ہیں جو ہم وحی کے ذریعے تمہیں دے رہے ہیں، تم اس وقت ان کے پاس نہیں تھے جب وہ یہ طے کرنے کے لیے اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے گا، ( ١٧) اور نہ اس وقت تم ان کے پاس تھے جب وہ ( اس مسئلے میں) ایک دوسرے سے اختلاف کررہے تھے۔ آل عمران
45 ( وہ وقت بھی یاد کرو) جب فرشتوں نے مریم سے کہا تھا کہ : اے مریم ! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ایک کلمے کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، ( ١٨) جو دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب وجاہت ہوگا، اور ( اللہ کے) مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ آل عمران
46 اور وہ گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرے گا (١٩) اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا۔ آل عمران
47 مریم نے کہا : پروردگار مجھ سے لڑکا کیسے پیدا ہوجائے گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں؟ اللہ نے فرمایا : اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ“ ہوجا ” بس وہ ہوجاتا ہے۔ آل عمران
48 اور وہی ( اللہ) اس کو (یعنی عیسیٰ ابن مریم کو) کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دے گا۔ آل عمران
49 اور اسے بنی اسرائیل کے پاس رسول بنا کربھیجے گا (جو لوگوں سے یہ کہے گا) کہ : میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، (اور وہ نشانی یہ ہے) کہ میں تمہارے سامنے گارے سے پرندے جیسی ایک شکل بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے، اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کردیتا ہوں، اور مردوں کو زندہ کردیتا ہوں، اور تم لوگ جو کچھ اپنے گھروں میں کھاتے یا ذخیرہ کر کے رکھتے ہو میں ہو سب بتا دیتا ہوں۔ (٢٠) اگر تم ایمان لانے والے ہو تو ان تمام باتوں میں تمہارے لیے ( کافی) نشانی ہے۔ آل عمران
50 اور جو کتاب مجھ سے پہلے آچکی ہے، یعنی تورات، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں، اور ( اس لیے بھیجا گیا ہوں) تاکہ کچھ چیزیں جو تم پر حرام کی گئی تھیں، اب تمہارے لیے حلال کردوں۔ (٢١) اور میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں، لہذا اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔ آل عمران
51 بیشک اللہ میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ یہی سیدھا راستہ ہے ( کہ صرف اسی کی عبادت کرو) آل عمران
52 پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں، تو انہوں نے (اپنے پیرووں سے) کہا : کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہوں؟ حواریوں (٢٢) نے کہا : ہم اللہ ( کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لاچکے ہیں، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔ آل عمران
53 اے ہمارے رب ! آپ نے جو کچھ نازل کیا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے رسول کی اتباع کی ہے، لہذا ہمیں ان لوگوں میں لکھ لیجیے جو ( حق کی) گواہی دینے والے ہیں۔ آل عمران
54 اور ان کافروں نے ( عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف) خفیہ تدبیر کی، اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ آل عمران
55 (اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، (٢٣) اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان ( کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے، ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ (٢٤) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ آل عمران
56 چنانچہ جو لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کو تو میں دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دوں گا، اور ان کو کسی طرح کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔ آل عمران
57 البتہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کو اللہ ان کا پورا پورا ثواب دے گا، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ آل عمران
58 (اے پیغمبر) یہ وہ آیتیں اور حکمت بھرا ذکر ہے جو ہم تمہیں پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ آل عمران
59 اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا : ہوجاؤ۔ بس وہ ہوگئے۔ آل عمران
60 حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے آیا ہے، لہذا شک کرنے والوں میں شامل نہ ہوجانا۔ آل عمران
61 تمہارے پاس ( حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (٢٥) آل عمران
62 یقین جانو کہ واقعات کا سچا بیان یہی ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور یقینا اللہ ہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ آل عمران
63 پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو اللہ مفسدوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ آل عمران
64 (مسلمانو ! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، ( اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔ آل عمران
65 اے اہل کتاب ! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد ہی تو نازل ہوئی تھیں، کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے ؟ آل عمران
66 دیکھو ! یہ تم ہی تو ہو جنہوں نے ان معاملات میں اپنی سی بحث کرلی ہے جن کا تمہیں کچھ نہ کچھ علم تھا۔ (٢٦) اب ان معاملات میں کیوں بحث کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے ؟ اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔ آل عمران
67 ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ آل عمران
68 ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ لوگ ہیں جو ( ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔ آل عمران
69 (مسلمانو) اہل کتاب کا ایک گروہ یہ چاہتا ہے کہ تم لوگوں کو گمراہ کردے، حالانکہ وہ اپنے سوا کسی اور کو گمراہ نہیں کر رہے، اگرچہ انہیں اس کا احساس نہیں ہے۔ آل عمران
70 اے اہل کتاب ! اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود (ان کے من جانب اللہ ہونے کے) گواہ ہو۔ (٢٧) آل عمران
71 اے اہل کتاب ! تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں گڈ مڈ کرتے ہو اور کیوں جان بوجھ کر حق بات کو چھپاتے ہو؟ آل عمران
72 اہل کتاب کے ایک گروہ نے (ایک دوسرے سے) کہا ہے کہ : جو کلام مسلمانوں پر نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے شروع میں تو ایمان لے آؤ، اور ان کے آخری حصے میں اس سے انکار کردینا، شاید اس طرح مسلمان ( بھی اپنے دین سے) پھر جائیں۔ (٢٨) آل عمران
73 مگر دل سے ان لوگوں کے سوا کسی کی نہ ماننا جو تمہارے دین کے متبع ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ہدایت تو وہی ہدایت ہے جو اللہ کی دی ہوئی ہو، یہ ساری باتیں تم اس ضد میں کر رہے ہو کہ کسی کو اس جیسی چیز (یعنی نبوت اور آسمانی کتاب) کیوں مل گئی جیسی کبھی تمہیں دی گئی تھی یا یہ ( مسلمان) تمہارے رب کے آگے تم پر غالب کیوں آگئے۔ آپ کہہ دیجیے کہ فضیلت تمام تر اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ آل عمران
74 وہ اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے خاص طور پر منتخب کرلیتا ہے، اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔ آل عمران
75 اہل کتاب میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس دولت کا ایک ڈھیر بھی امانت کے طور پر رکھوا دو تو وہ تمہیں واپس کردیں گے، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو۔ ان کا یہ طرز عمل اس لیے ہے کہ انہوں نے یہ کہہ رکھا ہے کہ : امیوں ( یعنی غیر یہودی عربوں) کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہماری کوئی پکڑ ہیں ہوگی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں۔ آل عمران
76 بھلا پکڑ کیوں نہیں ہوگی؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو اپنے عہد کو پورا کرے گا اور گناہ سے بچے گا تو اللہ ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
77 (اس کے برخلاف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک۔ آل عمران
78 اور انہی میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے ہیں جو کتاب ( یعنی تورات) پڑھتے وقت اپنی زبانوں کو مروڑتے ہیں تاکہ تم ( ان کی مروڑ کر بنائی ہوئی) اس عبارت کو کتاب کا حصہ سمجھو، حالانکہ وہ کتاب کا حصہ نہیں ہوتی، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ( عبارت) اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں۔ آل عمران
79 یہ کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کرے، اور وہ اس کے باوجود لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ (٢٩) اس کے بجائے ( وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ پڑھتے رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے۔ آل عمران
80 اور نہ وہ تمہیں یہ حکم دے سکتا ہے کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا قرار دے دو۔ جب تم مسلمان ہوچکے تو کیا اس کے بعد وہ تمہیں کفر اختیار کرنے کا حکم دے گا؟ آل عمران
81 اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے، اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔ آل عمران
82 اس کے بعد بھی جو لوگ (ہدایت سے) منہ موڑیں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔ آل عمران
83 اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے، (کچھ نے) خوشی سے اور (کچھ نے) ناچار ہوکر، (٣٠) اور اسی کی طرف وہ سب لوٹ کر جائیں گے۔ آل عمران
84 کہہ دو کہ : ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو (کتاب) ہم پر اتاری گئی اس پر، اور اس (ہدایت) پر جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور (ان کی) اولاد پر ان کے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی، اور ان باتوں پر جو موسی، عیسیٰ اور (دوسرے) پیغمبروں کو عطا کی گئیں۔ ہم ان (پیغمبروں) میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (ایک اللہ) کے آگے سرجھکائے ہوئے ہیں۔ آل عمران
85 جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔ آل عمران
86 اللہ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلیا؟ حالانکہ وہ گوہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچے ہیں، اور ان کے پاس ( اس کے) روشن دلائل بھی آچکے تھے۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ آل عمران
87 ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے۔ آل عمران
88 اسی (پھٹکار) میں یہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے لیے عذاب ہلکا کیا جائے گا، اور نہ انہیں کوئی مہلت دی جائے گی۔ آل عمران
89 البتہ جو لوگ اس سب کے بعد بھی توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ آل عمران
90 (اس کے برخلاف) جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی۔ (٣١) ایسے لوگ راستے سے بالکل ہی بھٹک چکے ہیں۔ آل عمران
91 جن لوگوں نے کفر اپنایا اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے، ان میں سے کسی سے پوری زمین بھر کر سونا قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے اس کی پیشکش ہی کیوں نہ کرے۔ ان کو تو دردناک عذاب ہو کر رہے گا، اور ان کو کسی قسم کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔ آل عمران
92 تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خڑچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔ (٣٢) اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ آل عمران
93 تورات کے نازل ہونے سے پہلے کھانے کی تمام چیزیں (جو مسلمانوں کے لیے حلال ہیں) بنی اسرائیل کے لیے ( بھی) حلال تھیں، سوائے اس چیز کے جو اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام) نے اپنے اوپر حرام کرلی تھی۔ (اے پیغمبر ! یہودیوں سے) کہہ دو کہ : اگر تم سچے ہو تو تورات لے کر آؤ اور اس کی تلاوت کرو۔ (٣٣) آل عمران
94 پھر ان باتوں کے (واضح ہونے کے) بعد بھی جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھیں، تو ایسے لوگ بڑے ظالم ہیں۔ آل عمران
95 آپ کہیے کہ اللہ نے سچ کہا ہے، لہذا تم ابراہیم کے دین کا اتباع کرو جو پوری طرح سیدھے راستے پر تھے، اور ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اللہ کی خدائی میں کسی کو شریک مانتے ہیں۔ آل عمران
96 حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینی طور پر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے (اور) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے۔ (٣٤) آل عمران
97 اس میں روشن نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہوتا ہے امن پا جاتا ہے۔ اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔ آل عمران
98 کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب کا گواہ ہے۔ آل عمران
99 کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! اللہ کے راستے میں ٹیڑھ پیدا کرنے کی کوشش کر کے ایک مومن کے لیے اس میں کیوں رکاوٹ ڈالتے ہو جبکہ تم خود حقیقت حال کے گواہ ہو؟ (٣٥) جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ آل عمران
100 اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی بات مان لو گے تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تم کو دوبارہ کافر بان کر چھوڑیں گے۔ آل عمران
101 اور تم کیسے کفر اپناؤ گے جبکہ اللہ کی آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں اور اس کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے؟ اور (اللہ کی سنت یہ ہے کہ) جو شخص اللہ کا سہارا مضبوطی سے تھام لے، وہ سیدھے راستے تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ آل عمران
102 اے ایمان والو ! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار ! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔ آل عمران
103 اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگے کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔ آل عمران
104 اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ آل عمران
105 اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جن کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے تھے، اس کے بعد بھی انہوں نے آپس میں پھوٹ ڈال لی اور اختلاف میں پڑگئے، ایسے لوگوں کو سخت سزا ہوگی۔ آل عمران
106 اس دن جب کچھ چہرے چمکتے ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے۔ چنانچہ جن لوگوں کے چہرے سیاہ پڑجائیں گے ان سے کہا جائے گا کہ : کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا؟ (٣٦) لو پھر اب مزہ چکھو اس عذاب کا، کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے۔ آل عمران
107 دوسری طرف جن لوگوں کے چہرے چمکتے ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں جگہ پائیں گے، وہ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ آل عمران
108 یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنا رہے ہیں، اور اللہ دنیا جہان کے لوگوں پر کسی طرح کا ظلم نہیں چاہتا۔ آل عمران
109 آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، اللہ ہی کا ہے اور اسی کی طرف تمام معاملات لوٹائے جائیں گے۔ آل عمران
110 (مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔ آل عمران
111 وہ تھوڑا بہت ستانے کے سوا تمہیں کوئی نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکیں گے، اور اگر وہ تم سے لڑیں گے بھی تو تمہیں پیٹھ دکھا جائیں گے، پھر انہیں کوئی مدد بھی نہیں پہنچے گی۔ آل عمران
112 وہ جہاں کہیں پائے جائیں، ان پر ذلت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہوجائے یا انسانوں کی طرف سے کوئی ذریعہ نکل آئے جو ان کو سہارا دیدے، انجام کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (نیز) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے، اور ساری حدیں پھلانگ جایا کرتے تھے۔ آل عمران
113 (لیکن) سارے اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں، اہل کتاب ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو (راہ راست پر) قائم ہیں، جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور جو (اللہ کے آگے) سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (٣٧) آل عمران
114 یہ لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اچھائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، اور نیک کاموں کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہے۔ آل عمران
115 وہ جو بھلائی بھی کریں گے، اس کی ہرگز ناقدری نہیں کی جائے گی، اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔ آل عمران
116 (اس کے برعکس) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، اللہ کے مقابلے میں نہ ان کے مال ان کے کچھ کام آئیں گے، نہ اولاد، وہ دوزخی لوگ ہیں، اسی میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ آل عمران
117 جو کچھ یہ لوگ دنیوی زندگی میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سخت سردی والی تیز ہوا ہو جو ان لوگوں کی کھیتی کو جا لگے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کر رکھا ہو اور وہ اس کھیتی کو برباد کردے۔ (٣٨) ان پر اللہ نے ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ہیں۔ آل عمران
118 اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو راد دار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ (٣٩) ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتا دی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔ آل عمران
119 دیکھو تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو، مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اور تم تو تمام (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، اور (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (قرآن پر) ایمان لے آئے، اور جب تنہائی میں جاتے ہیں تو تمہارے خلاف غصے کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دو کہ : اپنے غصے میں خود مر رہو، اللہ سینوں میں چھپی ہوئی باتیں خوب جانتا ہے۔ آل عمران
120 اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو ان کو برا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے ( علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔ آل عمران
121 (اے پیغبر ! جنگ احد کا وہ وقت یاد کرو) جب تم صبح کے وقت اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو جنگ کے ٹھکانوں پر جما رہے تھے، (٤٠) اور اللہ سب کچھ سننے جاننے والا ہے۔ آل عمران
122 جب تمہی میں کے دو گروہوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ ہمت ہار بیٹھیں، (٤١) حالانکہ اللہ ان کا حامی و ناصر تھا، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ آل عمران
123 اللہ نے تو ( جنگ) بدر کے موقع پر ایسی حالت میں تمہاری مدد کی تھی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ (٤٢) لہذا (صرف) اللہ کا خوف دل میں رکھو، تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔ آل عمران
124 جب (بدر کی جنگ میں) تم مومنوں سے کہہ رہے تھے کہ : کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کو بھیج دے ؟ آل عمران
125 ہاں ! بلکہ اگر تم صبر اور تقوی اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی (٤٣) آل عمران
126 اللہ نے یہ سب انتظام صرف اس لئے کیا تھا تاکہ تمہیں خوشخبری ملے، اور اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہو، ورنہ فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے، تمام تر حکمت کا بھی مالک۔ آل عمران
127 (اور جنگ بدر میں یہ مدد اللہ نے اس لئے کی) تاکہ جن لوگوں نے کفر اپنایا ہے ان کا ایک حصہ کاٹ کر رکھ دے، یا ان کو ایسی ذلت آمیز شکست دے کہ وہ نامراد ہو کر واپس چلے جائیں۔ آل عمران
128 (اے پیغبر) تمہیں اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں۔ * آل عمران
129 آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ آل عمران
130 اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو (٤٤) آل عمران
131 اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ آل عمران
132 اور اللہ اور رسول کی بات مانو، تاکہ تم سے رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔ آل عمران
133 اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام اور زمین سما جائیں۔ وہ ان پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ آل عمران
134 جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی ( اللہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
135 اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کر بھی بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کرگزرتے ہیں تو فورا اللہ کو یاد کرتے ہیں کہ اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے؟ اور یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔ آل عمران
136 یہ ہیں وہ لوگ جن کا صلہ ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے، اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہوں گے، جن میں انہین دائمی زندگی حاصل ہوگی، کتنا بہترین بدلہ ہے جو کام کرنے والوں کو ملنا ہے۔ آل عمران
137 تم سے پہلے بہت سے واقعات گزر چکے ہیں، اب تم زمین میں چل پھر کر دیکھو لو کہ جنہوں نے (پیغمبروں کو) جھٹلایا تھا ان کا انجام کیسا ہوا؟ آل عمران
138 یہ تمام لوگوں کے لیے واضح اعلان ہے اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت اور نصیحت۔ آل عمران
139 (مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔ (٤٥) آل عمران
140 اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔ (٤٦) یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ آل عمران
141 اور مقصد یہ ( بھی) تھا کہ اللہ ایمان والوں کو میل کچیل سے نکھار کر رکھ دے اور کافروں کو ملیا میٹ کر ڈالے۔ آل عمران
142 بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ( یونہی) جنت کے اندر جاپہنچو گے؟ حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں، اور نہ ان کو جانچ کر دیکھا ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ آل عمران
143 اور تم تو خود موت کا سامنا کرنے سے پہلے ( شہادت کی) موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ (٤٧) چنانچہ اب تم نے کھلی آنکھوں اسے دیکھ لیا ہے۔ آل عمران
144 اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔ آل عمران
145 اور یہ کسی بھی شخص کے اختیار میں نہیں ہے کہ اسے اللہ کے حکم کے بغیر موت آجائے، جس کا ایک معین وقت پر آنا لکھا ہوا ہے۔ اور جو شخص دنیا کا بدلہ چاہے گا ہم اسے اس کا حصہ دے دیں گے، اور جو آخرت کا ثواب چاہے گا ہم اسے اس کا حصہ عطا کردیں گے، (٤٨) اور جو لوگ شکر گزار ہیں ان کو ہم جلد ہی ان کا اجر عطا کریں گے۔ آل عمران
146 اور کتنے سارے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ ملکر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ! نتیجتا انہیں اللہ کے راستے میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری، نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو جھکایا، اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
147 ان کے منہ سے جو بات نکلی وہ اس کے سوا نہیں تھی کہ وہ کہہ رہے تھے : ہمارے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو بھی اور ہم سے اپنے کاموں میں جو زیادتی ہوئی ہو اس کو بھی معاف فرمادے، ہمیں ثابت قدمی بخش دے، اور کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرمادے۔ آل عمران
148 چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا کا انعام بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی، اور اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
149 اے ایمان والو ! جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے اگر تم ان کی بات مانو گے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں (کفر کی طرف) لوٹا دیں گے، اور تم پلٹ کر سخت نقصان اٹھاؤ گے۔ آل عمران
150 (یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں) بلکہ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہے، اور وہ بہترین مددگار ہے۔ آل عمران
151 جن لوگوں نے کفر اپنایا ہے ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انہوں نے اللہ کی خدائی میں ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ ظالموں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ آل عمران
152 اور اللہ نے یقینا اس وقت اپنا وعدہ پورا کردیا تھا جب تم دشمنوں کو اسی کے حکم سے قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور حکم کے بارے میں باہم اختلاف کیا اور جب اللہ نے تمہاری پسندیدہ چیز تمہیں دکھائی تو تم نے ( اپنے امیر کا) کہنا نہیں مانا (٤٩) تم میں سے کچھ لوگ وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے، اور کچھ وہ تھے جو آخرت چاہتے تھے۔ پھر اللہ نے ان سے تمہارا رخ پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ البتہ اب وہ تمہیں معاف کرچکا ہے، اور اللہ مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ آل عمران
153 (وہ وقت یاد کرو) جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اور رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے، چنانچہ اللہ نے تمہیں (رسول کو) غم ( دینے) کے بدلے (شکست کا) غم دیا، تاکہ آئندہ تم زیادہ صدمہ نہ کیا کرو، (٥٠) نہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے، اور نہ کسی اور مصیبت پر جو تمہیں پہنچ جائے۔ اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔ آل عمران
154 پھر اس غم کے بعد اللہ نے تم پر طمانینت نازل کی، ایک اونگھ جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی۔ (٥١) اور ایک گروہ وہ تھا جسے اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، وہ لوگ اللہ کے بارے میں ناحق ایسے گمان کر رہے تھے جو جہالت کے خیالات تھے، وہ کہہ رہے تھے : کیا ہمیں بھی کوئی اختیار حاصل ہے؟ کہہ دو کہ : اختیار تو تمام تر اللہ کا ہے۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھاتے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ (٥٢) کہتے ہیں کہ اگر ہمیں بھی کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے۔ کہہ دو کہ : اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن کا قتل ہونا مقدر میں لکھا جاچکا تھا وہ خود باہر نکل کر اپنی اپنی قتل گاہوں تک پہنچ جاتے۔ اور یہ سب اس لیے ہوا تاکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے، اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کا میل کچیل دور کردے۔ (٥٣) اللہ دلوں کے بھید کو خوب جانتا ہے۔ آل عمران
155 تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ پھیری جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے، درحقیقت ان کے بعض اعمال کے نتیجے میں شیطان نے ان کو لغزش میں مبتلا کردیا تھا۔ (٥٤) اور یقین رکھو کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے۔ یقینا اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا بردبار ہے۔ آل عمران
156 اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ہے، اور جب ان کے بھائی کسی سرزمین میں سفر کرتے ہیں یا جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو یہ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے، اور نہ مارے جاتے۔ (ان کی اس بات کا) نتیجہ تو (صرف) یہ ہے کہ اللہ ایسی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت کا سبب بنا دیتا ہے، (ورنہ) زندگی اور موت تو اللہ دیتا ہے۔ اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ آل عمران
157 اور اگر تم اللہ کے راستے میں قتل ہوجاؤ یا مرجاؤ، تب بھی اللہ کی طرف سے ملنے والی مغفرت اور رحمت ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔ آل عمران
158 اور اگر تم مرجاؤ یا قتل ہوجاؤ تو اللہ ہی کے پاس تو لے جاکر اکٹھے کیے جاؤ گے۔ آل عمران
159 ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر ( اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔ لہذا ان کو معاف کردو، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب تم رائے پختہ کر کے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ یقینا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران
160 اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں، اور اگر وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔ آل عمران
161 اور کسی نبی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ (٥٥) اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
162 بھلا جو شخص اللہ کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف سے ناراضی لے کر لوٹا ہو، اور جس کا ٹھکانا جہنم ہو؟ اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ آل عمران
163 اللہ کے نزدیک ان لوگوں کے درجات مختلف ہیں، اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ اس کو خوب دیکھتا ہے۔ آل عمران
164 حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ آل عمران
165 جب تمہیں ایک ایسی مسیبت پہنچی جس سے دگنی تم (دشمن کو) پہنچا چکے تھے (٥٦) تو کیا تم ایسے موقع پر یہ کہتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟ کہہ دو کہ : یہ خود تمہاری طرف سے آئی ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آل عمران
166 اور تمہیں جو مصیبت اس دن پہنچی جب دونوں لشکر ٹکرائے تھے، وہ اللہ کے حکم سے پہنچی، تاکہ وہ مومنوں کو بھی پرکھ کر دیکھ لے۔ آل عمران
167 اور منافقین کو بھی بھی دیکھ لے، اور ان (منافقوں) سے کاہ گیا تھا کہ آؤ اللہ کے راستے میں جنگ کرو یاد فاع کرو، تو انہوں نے کہا تھا کہ : اگر ہم دیکھتے کہ ( جنگ کی طرح) جنگ ہوگی تو ہم ضرور آپ کے پیچھے چلتے۔ (٥٧) اس دن ( جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے) وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی (٥٨) اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ آل عمران
168 یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے (شہید) بھائیوں کے بارے میں بیٹھے بیٹھے یہ باتیں بناتے ہیں کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے، کہہ دو کہ : اگر تم سچے ہو تو خود اپنے آپ ہی سے موت کو ٹال دینا۔ آل عمران
169 اور (اے پیغبر) جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں، انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں، انہیں اپنے رب کے پاس رزق ملتا ہے۔ آل عمران
170 اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے وہ اس پر مگن ہیں، اور ان کے پیچھے جو لوگ ابھی ان کے ساتھ (شہادت میں) شامل نہیں ہوئے، ان کے بارے میں اس بات پر بھی خوشی مناتے ہیں کہ (جب وہ ان سے آکر ملیں گے تو) نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ آل عمران
171 وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر بھی خوشی مناتے ہیں اور اس بات پر بھی کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ آل عمران
172 وہ لوگ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار کا فرمانبرداری سے جواب دیا، ایسے نیک اور متقی لوگوں کے لیے زبردست اجر ہے۔ آل عمران
173 وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا : یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے ( مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ : ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (٥٩) آل عمران
174 نتیجہ یہ کہ یہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل لے کر اس طرح واپس آئے کہ انہیں ذرا بھی گزند نہیں پہنچی، اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔ آل عمران
175 درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔ آل عمران
176 اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھا رہے ہیں، وہ تمہیں صدمے میں نہ ڈالیں، یقین رکھو وہ اللہ کا ذرا بھی نقصان نہیں کرسکتے، اللہ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کوئی حصہ نہ رکھے، اور ان کے لیے زبردست عذاب (تیار) ہے۔ آل عمران
177 جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر کو مول لے لیا ہے وہ اللہ کو ہرگز ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور ان کے لیے ایک دکھ دینے والا عذاب (تیار ہے۔ آل عمران
178 اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور آگے بڑھ جائیں اور (آخر کار) ان کے لیے ایسا عذاب ہوگا جو انہیں ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ آل عمران
179 اللہ ایسا نہیں کرسکتا کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ رکھے جس پر تم لوگ اس وقت ہو، جب تک وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے، اور (دوسری طرف) وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ تم کو (براہ راست) غیب کی باتیں بتا دے۔ ہاں وہ (جتنا بتانا مناسب سمجھتا ہے اس کے لیے) اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ (٦٠) لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو، اور اگر ایمان رکھو گے اور تقوی اختیار کرو گے تو زبردست ثواب کے مستحق ہوگے۔ آل عمران
180 اور جو لوگ اس (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے، اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے، جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ (٦١) اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ آل عمران
181 اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ : اللہ فقیر ہے اور ہم مال دار ہیں۔ (٦٢) ہم ان کی یہ بات بھی (ان کے اعمال نامے میں) لکھے لیتے ہیں، اور انہوں نے انبیاء کو جو ناحق قتل کیا ہے، اس کو بھی، اور (پھر) کہیں گے کہ : دہکتی آگ کا مزہ چکھو۔ آل عمران
182 یہ سب تمہارے ہاتھوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے جو تم نے آگے بھیج رکھا تھا، ورنہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ آل عمران
183 یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اللہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ کسی پیغمبر پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے جسے آگ کھا جائے۔ (٦٣) تم کہو کہ : مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے پیغمبر کھلی نشانیاں بھی لے کر آئے اور وہ چیز بھی جس کے بارے میں تم نے ( مجھ سے) کہا ہے۔ پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم واقعی سچے ہو؟ آل عمران
184 (اے پیغمبر) اگر پھر بھی یہ لوگ تمہیں جھٹلائیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) تم سے پہلے بھی بہت سے ان رسولوں کو جھٹلایا جاچکا ہے جو کھلی کھلی نشانیاں بھی لائے تھے، لکھے ہوئے صحیفے بھی اور ایسی کتاب بھی جو (حق کو) روشن کردینے والی تھی۔ آل عمران
185 ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آل عمران
186 (مسلمانو) تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں ( جو تمہیں اختیار کرنے ہیں) آل عمران
187 اور (ان لوگوں کو وہ وقت نہ بھولنا چاہئے) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ : تم اس کتاب کو لوگوں کو سامنے ضرور کھول کھول کر بیان کرو گے، اور اس کو چھپاؤ گے نہیں۔ پھر انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سے قیمت حاصل کرلی، اس طرح کتنی بری ہے وہ چیز جو یہ مول لے رہے ہیں۔ آل عمران
188 یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔ آل عمران
189 اور آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ کی ہے، اور اللہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔ آل عمران
190 بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ آل عمران
191 جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ ( ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔ آل عمران
192 اے ہمارے رب ! آپ جس کسی کو دوزخ میں داخل کردیں، اسے آپ نے یقینا رسوا ہی کردیا، اور ظالموں کو کسی قسم کے مددگار نصیب نہ ہوں گے۔ آل عمران
193 اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، چنانچہ ہم ایمان لے آئے۔ لہذا اے ہمارے پروردگار ! ہماری خاطر ہمارے گناہ بخش دیجیے، ہماری برائیوں کو ہم سے مٹا دیجیے، اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر کے اپنے پاس بلایئے۔ آل عمران
194 اور اے ہمارے پروردگار ! ہمیں وہ کچھ بھی عطا فرمایئے جس کا وعدہ آپ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم سے کیا ہے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجئے۔ یقینا آپ وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے۔ آل عمران
195 چنانچہ ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کی (اور کہا) کہ : میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ لہذا جن لوگوں نے ہجرت کی، اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا، اور میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں، اور جنہوں نے (دین کی خاطر) لڑائی لڑی اور قتل ہوئے، میں ان سب کی برائیوں کا ضرور کفارہ کردوں گا، اور انہیں ضرور بالضرور ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے انعام ہوگا، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بہترین انعام ہے۔ آل عمران
196 جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کا شہروں میں (خوشحالی کے ساتھ) چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے۔ آل عمران
197 یہ تو تھوڑا سا مزہ ہے جو یہ اڑا رہے ہیں) پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بدترین بچھونا ہے۔ آل عمران
198 لیکن جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہوئے عمل کرتے ہیں، ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اللہ کی طرف سے میزبانی کے طور پر وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ وہ نیک لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے۔ آل عمران
199 اور بیشک اہل کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے آگے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اس کتاب پر بھی جو تم پر نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو ان پر نازل کی گئی تھی، اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی سی قیمت لے کر بیچ نہیں ڈالتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں۔ بیشک اللہ حساب جلد چکانے والا ہے۔ آل عمران
200 اے ایمان والو ! صبر اختیار کرو، مقابلے کے وقت ثابت قدمی دکھاؤ، اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے جمے رہو۔ (٦٤) اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔ آل عمران
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے النسآء
1 اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو، (١) اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے) ڈرو۔ یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کررہا ہے۔ النسآء
2 اور یتیموں کو ان کے مال دے دو، اور اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو، اور ان ( یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ، (٢) بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔ النسآء
3 اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں (٣) دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے، (٤) ہاں ! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلا نہیں ہوگے۔ النسآء
4 اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے د یا کرو۔ ہاں ! اگر وہ خود اس کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑ دیں تو اسے خوشگواری اور مزے سے کھالو۔ النسآء
5 اور ناسمجھ (یتیموں) کو اپنے وہ مال حوالے نہ کرو جن کو اللہ نے تمہارے لیے زندگی کا سرمایہ بنایا ہے، ہاں ان کو ان میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے مناسب انداز میں بات کرلو۔ (٥) النسآء
6 اور یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں، تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو۔ اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں۔ اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریق کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھا لے۔ (٦) پھر جب تم ان کے مال انہیں دو تو ان پر گواہ بنا لو، اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ النسآء
7 مردوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، چاہے وہ (ترکہ) تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔ (٧) النسآء
8 اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار، یتیم اور مسکین لوگ آجائیں، تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دو، اور ان سے مناسب انداز میں بات کرو۔ (٨) النسآء
9 اور وہ لوگ (یتیموں کے مال میں خرد برد کرنے سے) ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور بچے چھوڑ کر جائیں تو ان کی طرف سے فکر مند رہیں گے۔ (٩) لہذا وہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی سیدھی بات کہا کریں۔ النسآء
10 یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔ النسآء
11 اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ : مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ (١٠) اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انہیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے کا) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا (اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد (١١) تمہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمہارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے ؟ یہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں، (١٢) یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ النسآء
12 اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان (بیویوں) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں، نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ (١٣) یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔ النسآء
13 یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ ان (باغات) میں رہیں گے، اور یہ زبردست کامیابی ہے۔ النسآء
14 اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ النسآء
15 تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ بنا لو۔ چنانچہ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روک کر رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کرلے جائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کردے۔ (١٤) النسآء
16 اور تم میں سے جو دو مرد بدکاری کا ارتکاب کریں، ان کو اذیت دو۔ (١٥) پھر اگر وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے درگزر کرو۔ بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ النسآء
17 اللہ نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لی ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کر ڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی۔ النسآء
18 تو بہ کی قبولیت ان کے لیے نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت کا وقت آکھڑا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے اب توبہ کرلی ہے، اور نہ ان کے لیے ہے جو کفر ہی کی حالت میں مرجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ النسآء
19 اے ایمان والو ! یہ بات تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو، اور ان کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ لے اڑو، الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں، (١٦) اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ النسآء
20 اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہتے ہو اور ان میں سے ایک کو ڈھیر سارا مہر دے چکے ہو، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا تم بہتان لگا کر اور کھلا گناہ کر کے (مہر) والس لو گے ؟ (١٧) النسآء
21 اور آخر تم کیسے (وہ مہر) واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوچکے تھے اور انہوں نے تم سے بڑا بھاری عہد لیا تھا؟ النسآء
22 اور جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا (کسی وقت) نکاح کرچکے ہوں، تم انہیں نکاح میں نہ لاؤ، البتہ پہلے جو کچھ ہوچکا وہ ہوچکا۔ (١٨) یہ بڑی بے حیائی ہے، گھناؤنا عمل ہے، اور بے راہ روی کی بات ہے۔ النسآء
23 تم پر حرام کردی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہارے زیر پرورش تمہاری سوتیلی بیٹیاں (١٩) جو تمہاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔ ہاں اگر تم نے ان کے ساتھ خلوت نہ کی ہو (اور انہیں طلاق دے دی ہو یا ان کا انتقال ہوگیا ہو) تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی گناہ نہیں ہے، نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں، اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو، البتہ جو کچھ پہلے ہوچکا وہ ہوچکا۔ بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ النسآء
24 نیز وہ عورتیں (تم پر حرام ہیں) جو دوسرے شوہروں کے نکاح میں ہوں، البتہ جو کنیزیں تمہاری ملکیت میں آجائیں (وہ مستثنی ہیں) (٢٠) اللہ نے یہ احکام تم پر فرض کردیئے ہیں۔ ان عورتوں کو چھوڑ کر تمام عورتوں کے بارے میں یہ حلال کردیا گیا ہے کہ تم اپنا مال (بطور مہر) خرچ کر کے انہیں (اپنے نکاح میں لانا) چاہو، بشرطیکہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کا رشتہ قائم کر کے عفت حاصل کرو، صرف شہوت نکالنا مقصود نہ ہو۔ (٢١) چنانچہ جن عورتوں سے (نکاح کر کے) تم نے لطف اٹھایا ہو، ان کو ان کا وہ مہر ادا کرو جو مقرر کیا گیا ہو۔ البتہ مہر مقرر کرنے کے بعد بھی جس (کمی بیشی) پر تم آپس میں راضی ہوجاؤ، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ یقین رکھو کہ اللہ ہر بات کا علم بھی رکھتا ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔ النسآء
25 اور تم میں سے جو لوگ اس بات کی طاقت نہ رکھتے ہوں کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرسکیں، تو وہ ان مسلمان کنیزوں میں سے کسی سے نکاح کرسکت ہیں جو تمہاری ملکیت میں ہوں، اور اللہ کو تمہارے ایمان کی پوری حالت خوب معلوم ہے۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔، (٢٢) لہذا ان کنیزوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرلو، اور ان کو قاعدے کے مطابق ان کے مہر ادا کرو، بشرطیکہ ان سے نکاح کا رشتہ قائم کر کے انہیں پاک دامن بنایا جائے، نہ وہ صرف شہوت پوری کرنے کے لیے کوئی (ناجائز) کام کریں، اور نہ خفیہ طور پر ناجائز آشنائیاں پیدا کریں۔ پھر جب وہ نکاح کی حفاظت میں آجائیں، اور اس کے بعد کسی بڑی بے حیائی (یعنی زنا) کا ارتکاب کریں تو ان پر اس سزا سے آدھی سزا واجب ہوگی جو (غیر شادی شدہ) آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے۔ (٢٣) یہ سب (یعنی کنیزوں سے نکاح کرنا) تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جن کو (نکاح نہ کرنے کی صورت میں) گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر تم صبر ہی کیے رہو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ النسآء
26 اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (احکام کی) وضاحت کردے، اور جو (نیک) لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں، تم کو ان کے طور طریقوں پر لے آئے، اور تم پر ( رحمت کے ساتھ) توجہ فرمائے، اور اللہ ہر بات کا جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی ہے۔ النسآء
27 اللہ تو چاہتا ہے کہ تمہاری طرف توجہ کرے، اور جو لوگ نفسانی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر بہت دور جا پڑو۔ النسآء
28 اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے اور انسان کمزور پیدا ہوا ہے۔ (٢٤) النسآء
29 اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ (٢٥) یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔ النسآء
30 اور جو شخص زیادتی اور ظلم کے طور پر ایسا کرے گا، تو ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے، اور یہ بات اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔ النسآء
31 اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔ (٢٦) اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔ النسآء
32 اور جن چیزوں میں ہم نے تم کو ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے، ان کی تمنا نہ کرو، مرد جو کچھ کمائی کریں گے ان کو اس میں سے حصہ ملے گا، اور عورتیں جو کچھ کمائی کریں گے ان ان کو اس میں سے حصہ ملے گا۔ (٢٧) اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ النسآء
33 اور ہم نے ہر اس مال کے کچھ وارث مقرر کیے ہیں جو والدین اور قریب ترین رشتہ دار چھوڑ کرجائیں۔ اور جن لوگوں سے تم نہ کوئی عہد باندھا ہوا ان کو ان کا حصہ دو۔ (٢٨) بیشک اللہ ہر چیز کا گواہ ہے۔ النسآء
34 مرد وعورتوں کے نگراں ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرد کیے ہیں۔ چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو) انہیں مار سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کارروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کے اوپر، سب سے بڑا ہے۔ النسآء
35 اور اگر تمہیں میاں بیوی کے د رمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے د رمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔ النسآء
36 اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، (٢٩) ساتھ بیٹھے (یاساتھ کھڑے) ہوئے شخص (٣٠) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ رکھو) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ النسآء
37 ایسے لوگ جو خود بھی کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی تلقین کرتے ہیں، اور اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں، اور ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے زلیل کردینے والا عذاب تیار رکھا ہے۔ النسآء
38 اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ روز آخرت پر، اور شیطان جس کا ساتھی بن جائے تو وہ بدترین ساتھی ہوتا ہے۔ النسآء
39 بھلا ان کا کیا بگڑا جاتا اگر یہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لے آتے اور اللہ نے ان کو جو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ (نیک کاموں میں) خرچ کردیتے؟ اور اللہ کو ان کا حال کو ب معلوم ہے۔ النسآء
40 اللہ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے کئی گنا کردیتا ہے، اور خود اپنے پاس سے عظیم ثواب دیتا ہے۔ النسآء
41 پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت ( ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے؟ (٣١) النسآء
42 جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے اور رسول کے ساتھ نافرمانی کا رویہ اختیار کیا ہے، اس دن وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش انہیں زمین (میں دھنسا کر اس) کے برابر کردیا جائے اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے۔ النسآء
43 اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے سمجھنے نہ لگو۔ (٣٢) اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کرلو، (نماز جائز نہیں) الا یہ کہ تم مسافر ہو (اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو، پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا (اس مٹی سے) مسح کرلو۔ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے۔ النسآء
44 جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) گمراہی مول لے رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ۔ النسآء
45 اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور رکھوالا بننے کے لیے بھی اللہ کافی ہے، اور مددگار بننے کے لیے بھی اللہ کافی ہے۔ النسآء
46 یہودیوں میں سے کچھ وہ ہیں جو (تورات) کے الفاظ کو ان کے موقع محل سے ہٹا ڈالتے ہیں، اور اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے ہیں : سمعنا وعصینا۔ اور اسمع غیر مسمع۔ اور راعنا۔ حالانکہ اگر وہ یہ کہتے کہ : سمعنا واطعنا اور اسمع وانظرنا۔ تو ان کے لیے بہتر اور راست بازی کا راستہ ہوتا (٣٣) لیکن ان کے کفرکی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے، اس لیے تھوڑے سے لوگوں کے سوا وہ ایمان نہیں لاتے۔ النسآء
47 اے اہل کتاب ! جو (قرآن) ہم نے اب نازل کیا ہے، جو تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق بھی کرتا ہے، اس پر ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ ہم کچھ چہروں کو مٹا کر انہیں گدی جیسا بنا دیں، یا ان پر ایسی پھٹکار ڈال دیں جیسی پھٹکار ہم نے سبت والوں پر ڈالی تھی۔ (٣٤) اور اللہ کا حکم ہمیشہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ النسآء
48 بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ (٣٥) اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتا ہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔ النسآء
49 کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ بتاتے ہیں؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اور (اس عطا میں) ان پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوتا۔ (٣٦) النسآء
50 دیکھو یہ لوگ اللہ پر کیسے کیسے جھوٹے بہتان باندھتے ہیں وہ کھلا گناہ ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے۔ النسآء
51 جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے انکو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) بتوں اور شیطان کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں (یعنی بت پرستوں) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ (٣٧) النسآء
52 یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پھٹکار ڈال رکھی ہے، اور جس پر اللہ پھٹکار ڈال دے، اس کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔ النسآء
53 تو کیا ان کو (کوئنات کی) بادشاہی کا کچھ حصہ ملا ہوا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیتے۔ (٣٨) النسآء
54 یا یہ لوگوں سے اس بنا پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا فضل (کیوں) عطا فرمایا ہے؟ سو ہم نے تو ابراہیم کے کاندان کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور انہیں بڑی سلطنت دی تھی؟ (٣٩) النسآء
55 چنانچہ ان میں سے کچھ ان پر ایمان لائے اور کچھ نے ان سے منہ موڑ لیا۔ اور جہنم ایک بھڑکتی آگ کی شکل میں (ان کافروں کی خبر لینے کے لیے) کافی ہے۔ النسآء
56 بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا ہے، ہم انہیں آگ میں داخل کریں گے، جب بھی ان کی کھالیں جل جل کر پک جائیں گی، تو ہم انہیں ان کے بدلے دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں۔ بیشک اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔ النسآء
57 اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور ہم انہیں گھنی چھاؤں میں داخل کریں گے۔ (٤٠) النسآء
58 (مسلمانو) یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم کو جس بات کی نصیحت کرتا ہے وہ بہت اچھی ہوتی ہے۔ بیشک اللہ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ النسآء
59 اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی۔ (٤١) پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔ النسآء
60 (اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لے آئے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا، (لیکن) ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقصد فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں؟ (٤٢) حالانکہ ان کو حکم یہ گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں۔ اور شیطان طاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کردے۔ النسآء
61 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسول کی طرف، تو تم ان منافقوں کو دیکھو گے کہ وہ تم سے پوری طرح منہ موڑ بیٹھتے ہیں۔ النسآء
62 پھر اس وقت ان کا کیا حال بنتا ہے جب خود اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے؟ اس وقت یہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھلائی کرنے اور ملاپ کرادینے کے سوا کچھ نہ تھا۔ (٤٣) النسآء
63 یہ وہ ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی ساری باتیں خوب جانتا ہے۔ لہذا تم انہیں نظر انداز کردو، انہیں نصیحت کر، اور ان سے خود ان کے بارے میں ایسی بات کہتے رہو جو دل میں اتر جانے والی ہو۔ النسآء
64 اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔ النسآء
65 نہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔ النسآء
66 اور اگر ہم ان کے لیے یہ فرض قرار دے دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا کوئی اس پر عمل نہ کرتا۔ اور جس بات کی انہیں نصیھت کی جارہی ہے اگر یہ لوگ اس پر عمل کرلیتے تو ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، اور ان میں خوب ثابت قدمی پیدا کردیتا۔ (٤٤) النسآء
67 اور اس صورت میں ہم انہیں خود اپنے پاس سے یقینا اجر عظیم عطا کرتے۔ النسآء
68 اور انہیں ضرور بالضرور سیدھے راستے تک پہنچا دیتے۔ النسآء
69 اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ النسآء
70 یہ فضیلت اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اور (لوگوں کے حالات سے) پوری طرح باخبر ہونے کے لیے اللہ کافی ہے۔ (٤٥) النسآء
71 اے ایمان والو ! (دشمن سے مقابلے کے وقت) اپنے بچاؤ کا سامان ساتھ رکھو، پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں (جہاد کے لیے) نکلو، یا سب لوگ اکٹھے ہو کر نکل جاؤ النسآء
72 اور یقینا تم میں کوئی ایسا بھی ضرور ہوگا جو (جہاد میں جانے سے) سستی دکھائے گا، پھر اگر (جہاد کے دوران) تم پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ کہے گا کہ اللہ نے مجھ پر بڑا انعام کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ النسآء
73 اور اگر اللہ کی طرف سے کوئی فضل (یعنی فتح اور مال غنیمت) تمہارے ہاتھ آئے تو وہ کہے گا گویا تمہارے اور اس کے درمیان کبھی کوئی دوستی تو تھی ہی نہیں۔ (٤٦) کہ کاش میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا تو بہت کچھ میرے بھی ہاتھ لگ جاتا۔ النسآء
74 لہذا اللہ کے راستے میں وہ لوگ لڑیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ دیں۔ اور جو اللہ کے راستے میں لڑے گا، پھر چاہے قتل ہوجائے یا غالب آجائے، (ہر صورت میں) ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔ النسآء
75 اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمار لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔ النسآء
76 جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں۔ لہذا (اے مسلمانو) تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔ النسآء
77 کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے (مکی زندگی میں) کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روک کر رکھو، اور نماز قائم کیے جاؤ اور زکوۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے ایک جماعت (دشمن) لوگوں سے ایسی ڈرنے لگی جیسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگی، اور ایسے لوگ کہنے لگے کہ : اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، تھوڑی مدت تک ہمیں مہلت کیوں نہیں دی؟ کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے اور جو شخص تقوی اختیار کرے اس کے لیے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے، (٤٧) اور تم پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ النسآء
78 تم جہاں بھی ہوگے (ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جاپکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ رہ رہے ہو۔ اور اگر ان (منافقوں) کو کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر ان کو کوئی برا واقعہ پیش آجاتا ہے تو (اے پیغمبر) وہ (تم سے) کہتے ہیں کہ یہ برا واقعہ آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ کہہ دو کہ ہر واقعہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے نزدیک تک نہیں آتے؟ النسآء
79 تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، وہ تو تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ ( اس بات کی) گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ (٤٨) النسآء
80 جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جو (اطاعت سے) منہ پھیر لے تو (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجا (کہ تمہیں ان کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے) النسآء
81 اور (دیکھو) یہ لوگ تمہارے سامنے تو تمہاری باتیں مان لیتے ہیں، اور) کہتے ہیں آپ کا حکم ہمارے سر آنکھوں پر ! لیکن جب تمہارے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں، تو ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو راتوں کو اپنی مجلسیں جماتے اور جو کچھ تم کہتے ہو، اس کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور راتوں کی (ان) مجلسوں میں وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ (کے علم سے چھپا نہیں، وہ ان کے نامہ اعمال میں) لکھ رہا ہے۔ پس (جب ان لوگوں کا حال یہ ہے تو) چاہیے کہ ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ کارسازی کے لیے اللہ کی کارسازی بس کرتی ہے النسآء
82 پھر کیا یہ لوگ قرآن (کے مطالب) میں غور و فکر نہیں کرتے؟ (اور خدا کی دی ہوئی سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے) اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا، اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو ضوری تھا کہ یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے (حالانکہ وہ اپنی ساری باتوں میں اول سے لے کر آخر تک، کامل طور پر ہم آہنگ اور یکساں ہے) النسآء
83 اور جب ان لوگوں کے پاس امن کی یا خوف کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ (فورا) اسے لوگوں میں پھیلانے لگتے ہیں اگر یہ اسے (لوگوں میں پھیلانے کی جگہ) اللہ کے رسول کے سامنے اور ان لوگوں کے سامنے جو ان میں حکم و اختیار والے ہیں پیش کرتے تو جو (علم و نظر والے) بات کی تہ تک پہنچنے والے ہیں، وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے (اور عوام میں تشویش نہ پھیلتی) اور (دیکھو) اگر اللہ کا تم پر فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو (تمہاری کمزوریوں کا یہ حال تھا کہ) معدودے چند آدمیوں کے سوا سب کے سب شیطان کے پیچھے لگ لیے ہوتے النسآء
84 پس (اے پیگمبر) تم اس بات کی بالکل پروا نہ کرو کہ یہ لوگ تمہارا ستاھ دیتے ہیں یا نہیں) تم اللہ کی راہ میں جنگ کرو، کہ تم پر تمہاری ذات کے سوا اور کسی کی زمہ داری نہیں اور مومنوں کو بھی جنگ کی ترگیب دو۔ عجب نہیں کہہ بہت جلد اللہ منکرین حق کا زور اور تشدد روک دے اور اللہ کا زور سب سے زیادہ قوی اور سزا دینے میں وہ سب سے زیادہ سخت ہے النسآء
85 جو انسان دوسرے انسان کے ساتھ نیکی کے کام میں ملتا اور مددگار ہوتا ہے تو اسے اس کام کے (اجر و نتائج) میں حصہ ملے گا اور جو کوئی برائی میں دوسرے کے ساتھ ملتا اور مددگار ہوتا ہے تو اس کے لیے اس برائی میں حصہ ہوگا اور اللہ ہر چیز کا محافظ اور نگران ہے (وہ ہر حالت اور ہر عمل کے مطابق بدلہ دیتا ہے) النسآء
86 اور (مسلمانو) جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا (کم از کم) جو کچھ کہا گیا ہے اسی کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوتی بات بھی اس کے محاسبہ سے چھوٹ نہیں سکتی) النسآء
87 (یاد رکھو) اللہ ہی کی ایک ذات ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر صرف وہی۔ وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن (اپنے حضور) اکٹھا کرے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں (یہ خود اللہ کا کہنا ہے) اور اللہ سے بڑا کر بات کہنے میں کون سچا ہوسکتا ہے النسآء
88 (مسلمانو) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فریق بن گئے ہو؟ حالانکہ اللہ نے ان بدعملیوں کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی ہیں انہیں الٹآ دیا ہے (یعنی وہ راہ حق سے پھر چکے ہیں) کیا تم چاہتے ہو، ایسے لوگوں کو راہ دکھا دو جن پر خدا نے راہ گم کردی (یعنی جن پر خدا کے قانون سعادت و شقاوت کے بموجب ہدایت کی راہ بند ہوگئی ہے) اور (یاد رکھو) جس کسی پر اللہ راہ گم کردے (یعنی جس کسی پر اس کے قانون کا فیصلہ لگ جائے کہ اس کے لیے راہ پانا نہیں) تو پھر تم اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکال سکتے النسآء
89 ان منافقوں کی دلی تمنا تو یہ ہے کہ جس طرح انہوں کفر کی راہ اختیار کرلی ہے تم بھی کرلو اور تم سب ایک ہی طرح کے ہوجاؤ۔ پس (دیکھو) جب تک یہ لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں ( اور دشمنوں کا ساتھ چھور کر تمہارے پاس نہ آجائیں) تمہیں چاہیے ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ۔ پھر اگر یہ ہجرت کرنا قبول نہ کریں، تو (جو کوئی جنگ کی حالت میں دشمنوں کا ساتھ دیتا ہے یقینا اس کا شمار بھی دشمنوں ہی میں ہوگا پس) انہیں گرفتار کرو جہاں کہیں پاؤ، قتل کرو، اور نہ تو کسی اپنا دوست بناؤ نہ کسی کو اپنا مددگار النسآء
90 مگر ہاں جو لوگ (دشمنوں سے الگ ہو کر) کسی ایسی قوم سے جا ملیں کہ تم میں اور اس میں عہد و پیمان ہوچکا ہے، یا ایسے لوگ ہوں کہ لڑائی سے دل برداشتہ ہو کر تمہارے پاس چلے آئیں۔ نہ تم سے لڑیں نہ (تمہاری طرف سے) اپنی قوم کے ساتھ لڑیں (تو ایسے لوگ اس حکم میں داخل نہیں۔ ان کے خلاف تمہاری ہاتھ نہ اٹھے) اگر خدا چاہتا تو ان لوگوں کو بھی مسلط کردیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے۔ پس اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوگئے اور جنگ نہیں کرتے نیز صلح کا پیغام بھیج رہے ہیں، تو پھر خدا نے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں رکھ کہ ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کرو النسآء
91 ان کے علاوہ کچھ لوگ تمہیں ایسے بھی ملیں گے جو (لڑائی کے خواہشمند نہیں ہیں) تمہاری طرف سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، اور اپنی قوم کی طرف سے بھی۔ لیکن جب کبھی فتنہ و فساد کی طرف لوٹا دیے جائیں تو اوندھے منہ اس میں گر پڑیں (اور اپنی جگہ قائم نہ رہ سکیں) سو اگر ایسے لوگ کنارہ کش نہ ہوجائیں اور تمہاری طرف پیام صلح نہ بھیجیں اور نہ لڑائی سے ہاتھ روکیں تو انہیں بھی گرفتار کرو، اور جہاں کہیں پاؤ قتل کرو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے برخلاف ہم نے تمہیں کھلی حجت (جنگ) دے دی ہے النسآء
92 اور (دیکھو) کسی مسلمان کو سزا وار نہیں کہ کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے، مگر یہ کہ غلطی سے (اور شبہ میں) اس کے ہاتھ سے کوئی قتل ہوجائے۔ اور جس کسی نے ایک مسلمان کو غلطی سے (اور شبہ میں) قتل کردیا ہو تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو اس کا خوں بہا دے۔ اگر مقتول کے وارث خون بہا معاف کردیں تو کردے سکتے ہیں۔ اور اگر مقتول اس قوم میں سے ہو جو تمہاری دشمن ہے (یعنی تم سے لڑ رہی ہے) اگر مومن ہو (اور کسی نے یہ سمجھ کر کہ یہ بھی دشمنوں میں سے ہے اسے قتل کردیا ہو) تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے۔ (خوں بہا کا دلانا ضروری نہ ہوگا کیونکہ اس کے وارثوں اور ساتھیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہے)۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ صلح ہے (یعنی معاہد ہو) تو چاہیے کہ قاتل، مقتول کے وارثوں کو خوں بہا بھی دے، اور ایک مسلمان غلام آزاد بھی کرے۔ اور جو کوئی غلام نہ پائے (یعنی اس کا مقدور نہ رکھتا ہو کہ غلام کو مال کے بدلے حاصل کرے اور آزاد کرائے تو اسے چاہیے، لگاتار دو مہینے روزے رکھے۔ اس لیے کہ اللہ کی طرف سے یہ (اس کے گناہ کی) توبہ ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور (اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
93 اور جو مسلمان کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے، تو (یاد رکھو) اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی پھٹکار پڑی، اور اس کے لیے خدا نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے النسآء
94 مسلمانو ! جب ایسا ہو کہ تم اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) باہر جواؤ تو چہایے کہ (جن لوگوں سے مقابلہ ہو، ان کا حال) اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (کہ وہ دشمنوں میں سے ہیں یا دوستوں میں سے ہیں) جو کوئی تمہیں سلام کرے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے) تو یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو ( ہم تم سے ضرور لڑیں گے) کیا تم دنیا کے سروسامن زندگی کے طلب گار ہو ( کہ چالتے ہو) جو کوئی بھی ملے اس سے لڑ کر مال غنیمت لوت لیں؟ اگر یہی بات ہے تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سی (جائز غنیمتیں موجود ہیں (تم ظلم و معصیت کی راہ کیوں اختیار کرو) تمہاری حالت بھی تو پہلے ایسی ہی تھی (اور بجز کلمہ اسلام کے اسلام کا اور کوئی ثبوت نہیں رکھتے تھے) پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (کہ تمام باتیں اسلامی زندگی کی حاصل ہوگئیں) پس ضوری ہے کہ (لڑنے سے پہلے) لوگوں کا حال تحقیق کرلیا کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے النسآء
95 مسلمانوں میں سے جو لوگ معذور نہیں ہیں اور بیٹھھے رہے ہیں (یعنی جہاد میں شریک نہیں ہوئے ہیں) وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو اپنے مال سے اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ اللہ نے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر باعتبار درجے کے فضیلت دی ہے اور (یوں تو) خدا کا وعدہ نیک سب کے لیے ہے (کسی کا بھی عمل نیک ضائع نہیں ہوسکتا لیکن درجے کے اعتبار سے سب برابر نہیں) اور (اسی لیے) بیٹھ رہنے والوں کے مقابلے میں جہاد کرنے والوں کو ان کے بڑے اجر میں بھی اللہ نے فضیلت عطا فرمائی النسآء
96 یہ اس کی طرف سے (ٹھرائے ہوئے) درجے ہیں اس کی بخشش اور رحمت ہے اور وہ (بڑا ہی) بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے النسآء
97 جو لوگ (دشمنوں کے ساتھ رہ کر) اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہے ہیں، ان کیر وح قبض کرنے کے بعد فرشتے ان سے پوچھیں گے "تم کس حال میں تھے؟ "(یعنی دین کے اعتبار سے تمہارا حال کیا تھا؟) وہ جواب میں کہیں گے "ہم کیا کرتے؟ ہم ملک میں دبے ہوئے اور بے بس تھے" (یعنی بے بسی کی وجہ سے اپنے اعتقاد و عمل کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتے تھے) اس پر فرشتے کہیں گے (اگر تم اپنے ملک میں بے بس ہو رہے تھے تو) کیا خدا کی زمین سیع نہ تھی کہ کسی دوسری جگہ ہجرت کرکے چلے جاتے غرض کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہوا، اور اور جس کا ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری جگہ ہے النسآء
98 مگر (ہاں) جو مرد، عورتیں، بچے ایسے مجبور اور بے بس ہوں کہ کوئی چارہ کار نہ رکھتے ہوں، اور (ہجرت کی) کوئی راہ نہ پاتے ہوں النسآء
99 تو امید ہے، اللہ (ان کی معذوری دیکھتے ہوئے) انہیں معاف کردے، اور وہ معاف کردینے والا، بخش دینے والا ہے النسآء
100 اور (دیکھو) جو کوئی اللہ کی راہ میں (انا گھر بار چھوڑ کر) ہجرت کرے گا، تو اسے خدا کی زمین بہت سے اقامت گاہیں ملیں گی، اور (ہر طرح کی) کشائش پائے گا (کہ معیشت کی نئی نئی راہیں اس کے سامنے کھل جائیں گی) اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے، اور پھر (راہ ہی میں) موت آجائے، تو اس کا اجر اللہ کے حضور ثابت ہوگیا (وہ اپنی نیت کے مطابق اپنی کوشش کا اجر ضرور پائے گا) اور اللہ تو (ہر حال میں) بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے النسآء
101 اور اگر (جنگ کے لیے) تم سفر میں نکلو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر نماز (کی تعداد) میں سے کچھ کم کردو۔ بلاشبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (وہ جب موقع پائیں گے تم پر حملہ کردیں گے) النسآء
102 اور (اے پیغمبر) جب تم مسلمانوں میں موجود ہو (اور جنگ ہو رہی ہو) اور تم ان کے لیے نماز قائم کرو، تو چاہیے کہ (فوج کا) ایک حصہ (مقتدی ہو کر) تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے اور اپنے ہتھیار لیے رہے۔ پھر جب وہ سجدہ کرچکے، تو پیچھے (فوج کا) ایک حصہ (مقتدی ہو کر) تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے اور اپنے ہتھیار لیے رہے۔ پھر جب وہ سجدہ کرچکے تو پیچھے ہٹ جائے اور دوسرا حصہ جو نماز میں شریک نہ تھا، تمہارے ساتھ شریک ہوجائے اور چاہیے کہ پوری طرح ہشیاری رکھے اور اپنے ہتھیار لیے رہے۔ (یاد رکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، ان کی دلی تمنا ہے کہ تم اپنے ہتھیار اور سامانِ جنگ سے ذرا بھی غفلت کرو تو ایک بارگی تم پر ٹوٹ پڑیں۔ اور اگر تمہیں برسات کی وجہ سے کچھ تکلیف ہو، یا تم بیماری ہو، تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں اگر ہتھیار اتار کر رکھ دو۔ لیکن اپنے بچاو کی طرف سے غافل نہ ہوجانا چاہیے (یقین رکھو) اللہ نے منکرین حق کے لیے (نامرادی کا) رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے (وہ تم پر فتح مند نہیں ہوسکتے) النسآء
103 پھر جب تم نماز (خوف) پوری کرچکو، تو چاہیے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو (کہ اس کی یاد صرف نماز کی حالت ہی پر موقوف نہیں۔ ہر حالت میں تمہارے اندر بسی ہونی چاہیے) پھر جب ایسا ہو کہ تم (دشمن کی طرف سے) مطمئن ہوجاؤ۔ تو (معمول کے مطابق) نماز قائم رکھو۔ بلاشبہ نماز مسلمانوں پر وقت کی قید کے ساتھ فرض کردی گئی ہے النسآء
104 اور (دیکھو) دشمنوں کا پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو۔ اگر تمہیں (جنگ میں) دکھ پہنچتا ہے، تو جس طرح تم دکھی ہوتے ہو، وہ بھی (تمہارے ہاتھوں) دکھی ہوتے ہیں، اور (تمہیں ان پر یہ فوقیت ہے کہ) اللہ سے (کامیابی اور اجر کی) ایسی ایسی امیدیوں رکھتے ہو، جو انہیں میسر نہیں۔ (کیونکہ تم اللہ کی راہ میں حق و انصاف کے لیے لڑ رہے ہو۔ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے لیے ظلم و فساد کی راہ میں لڑ رہے ہیں) اور (یاد رکھو) الہ (تمام حال) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
105 (اے پیغمبر) ہم نے تم پر الکتاب سچائی کے ساتھ نازل کردی ہے تاکہ جیسا کہ کچھ خدا نے بتلا دیا ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ اور خیانت کرنے والوں کی طرف داری میں نہ جھگڑو (یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کی وکالت میں فریق ثانی سے جھگڑو) النسآء
106 اور اللہ سے مغفرت مانگو (کہ قضا کا معاملہ نہایت نازک ہے) بلاشبہ اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے النسآء
107 اور جو لوگ اپنے اندر خیانت رکھتے ہیں تم ان کی طرف سے نہ جھگڑو۔ خدا ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو خیانت اور معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں النسآء
108 (اس طرح کے لوگ) انسانوں سے (اپنی خیانت) چھپاتے ہیں، لیکن خدا سے نہیں چھپاتے، حالانکہ یہ وہ راتوں کو مجلس بٹھا کر ایسی ایسی باتوں کا مشورہ کرتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں تو اس وقت وہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کے احاطہ حکم سے باہر نہیں النسآء
109 دیکھو تم لوگ وہ ہو کہ تم نے دنیا کی زندگانی میں تو ان (مجرموں کی طرف سے جھگڑا کرلیا لیکن (بتلاؤ) قیامت کے دن ان کی طرف سے اللہ کے ساتھ کون جھگڑے گا؟ یا کون ہے جو (اس دن) ان کا وکیل بنے النسآء
110 اور جو شخص کوئی برائی کی بات کر بیٹھتا ہے یا اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرلیتا ہے، اور پھر (اس سے توبہ کرتا ہوا) اللہ سے بخشش طلب کرتا ہے (تو اس کے لیے بخشش کا دروازہ کھلا ہوا ہے) وہ اللہ کو بخشنے والا، رحمت رکھنے والا پائے گا النسآء
111 اور جو کوئی (بدعملی کرکے) برائی کماتا ہے، تو وہ اپنی جان ہی کے لیے کماتا ہے ( اس کا جو کچھ بھی وبال ہوگا اسی کو پیش آئے گا) اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا اور (اپنے احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
112 اور جس کسی سے (بے جانے بوجھے) کوئی خطا سرزد ہوجائے۔ یا (جان بوجھ کر) کسی گناہ کا مرتکب ہو اور پھر (اپنے بچاؤ کے لیے) اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دے تو (یاد رکھو) اس نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (بھی) اپنی گردن پر لاد لیا النسآء
113 اور (اے پیغمبر) اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت (کار فرما) نہ ہوتی تو واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے ایک جماعت نے تو پورا ارادہ کرلیا تھا، کہ (اصل مجرم کی حمایت میں جتھا بندی کر کے) تمہیں غلط راستہ پر ڈال دیں (اور تم بے گناہ آدمی کو مجرم سمجھ لو) یہ لوگ غلط راستہ پر نہیں ڈال رہے ہیں، مگر خود اپنی ہی جانوں کو (کہ حق کی حمایت کرنے کی جگہ جھوٹے کی حمایت کررہے ہیں) یہ (اپنی چالاکیوں سے) تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کردی ہے، اور جو باتیں معلوم نہ تھیں وہ تمہیں سکھلا دی ہیں، اور تم پر اس کا بہت ہی بڑا فضل ہے النسآء
114 ان لوگوں کے پوشیدہ مشوروں میں سے اکثر مشورے بھلائی کے لیے نہیں ہوتے۔ ہاں جو کوئی خیرات کے لیے یا کسی نیک کام کے لیے حکم دے، یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرادینا چاہے (اور اس میں پوشیدگی ملحوظ رکھے تو البتہ یہ نیکی کی بات ہے) اور جو کوئی خدا کی خوشنودی کی طلب میں اس طرح کے کام کرتا ہے، تو ہم اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے النسآء
115 اور جس شخص پر الہدی (یعنی ہدایت کی حقیقی راہ) کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول سے مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف کو لے جائیں گے جس (طرف) کو (جانا) اس نے پسند کرلیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے۔ اور (جس کے پہنچنے کی جگہ دوزخ ہوئی تو) یہ پہنچنے کی کیا ہی بری جگہ ہے النسآء
116 اللہ یہ بات بخشنے والا نہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جتنے گناہ ہیں وہ جسے چاہے بخش دے اور جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ بھٹک کر سیدھے راستے سے بہت دور جا پڑا۔ النسآء
117 (یہ مشرک خدا کے ساتھ کن کو شریک ٹھہراتے ہیں؟ اور کن کو پکارتے ہیں) یہ نہیں پکارتے، مگر۔۔۔۔ کو، اور یہ نہیں کارتے ہیں مگر شیطان مردود کو جس پر اللہ لعنت کرچکا ہے النسآء
118 اور شیطان نے کہا کہ میں تیرے بندوں سے (گمراہی کا) ایک مقررہ حصہ لے کر رہوں گا النسآء
119 اور ضرور انہیں بہکاؤں گا اور ضرور ایسا کروں گا کہ (حقیقت اور عمل کی جگہ جھوٹی) آرزوؤں میں انہیں مشغول رکھوں اور ضرور انہٰں (مشرکانہ خرافات کا) حکم دوں گا، پس وہ جانوروں کے کان ضرور ہی چیریں گے (اور انہیں بتوں کے نام پر چھوڑ دیں گے) اور میں البتہ انہیں حکم دوں گا۔ پس وہ (میری ہدایت کے مطابق) خدا کی خلقت میں ضرور رد و بدل کردیا کریں گے (سو یہ مشرک اسی شیطان کی وسوسہ اندازیوں پر چلتے ہیں) اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق و مددگار بناتا ہے تو یقینا وہ تباہی میں پڑگیا۔ ایسی تباہی میں جو کھلی تباہی ہے النسآء
120 شیطان ان سے وعدہ کرتا اور آرزوؤں میں ڈالتا ہے اور شیطان ان سے جو کچھ وعدے کرتا ہے، وہ فریب کے سوا کچھ نہیں ہے النسآء
121 یہی لوگ ہیں جن کا (بالآخر) ٹھکانا دوزخ ہوا، اور یہ اس سے نکل بھاگنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے النسآء
122 اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیے، تو ہم انہیں (راحت اور سرور ابدی کے ایسے) باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی (اور اس لیے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ حق ہے۔ اور اللہ سے بڑھ کر بات کہنے میں سچا اور کون ہوسکتا ہے النسآء
123 (مسلمانو ! نجات و سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر (موقوف) ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ (وہ تو ایمان و عمل پر موقوف ہے) جو کوئی برائی کرے گا (خواہ کوئی ہو) ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے، اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے نہ مددگار النسآء
124 اور جو کوئی اچھ کام کرے گا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ (خدا پر) ایمان بھی رکھتا ہوگا، تو ایسے ہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور رائی برابر بھی ان کے ساتھ (جزا و عمل میں) بے انصافی ہونے والی نہیں النسآء
125 اور پھر (بتلاؤ) اس آدمی سے بہتر دین رکھنے والا کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہے، اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی ہے جو (تمام انسانی گروہ بندیوں سے الگ ہو کر) صرف خدا ہی کے لیے ہورہا تھا اور (یہ واقعہ ہے کہ) اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست مخلص بنا لیا تھا النسآء
126 اور (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں میں ہے۔ اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (اس کے سوا کوئی نہیں) اور وہ (اپنے علم و قدرت سے) ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے النسآء
127 اور (اے پیغمبر) لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں (یعنی حکم دریافت کرتے ہیں) تم کہہ دو، اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے (جو اب بیان کیا جائے گا) نیز وہ تمہیں یتیم عورتوں کی نسبت بھی حکم دیتا ہے جو تمہیں قرآن میں سنایا جا رہا ہے ( اور پہلے نازل ہوچکا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی نہ کرو) وہ یتیم عورتیں (جو تمہاری سرپرستی میں ہوتی ہیں اور (جنہیں تم ان کا حق جو (وراثت میں) ان کے لیے ٹھہرایا جا چکا ہے نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ (ان کے مال پر قبضہ کرلینے کے لیے خود) ان سے نکاح کرلو۔ نیز جو کچھ بے بس (یتیم لڑکوں) کی نسبت قرآن میں سنایا جا رہا ہے (اور پہلے نازل ہوچکا ہے) تو اس بارے میں بھی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ (ان کے) حقوقت تلف نہ کرو۔ اور وہ حکم دیتا ہے کہ یتیموں کے معاملہ میں (خواہ لڑکیاں ہوں خواہ لڑکے ہوں، اور تمہاری سرپرستی میں ہوں یا نہ ہوں ہر حال میں) حق و انصاف کے ساتھ قائم رہو، اور (یاد رکھو) تم بھلائی کی باتوں میں سے جو کچھ کرتے ہو خدا اس کا علم رکھنے والا ہے النسآء
128 اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے سرکشی یا کنارہ کشی کا اندیشہ ہو تو شوہر اور بیوی پر کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر (مصالحت کی کوئی بات آپس میں ٹھہرا کر) صلح کرلیں۔ (نا اتفاق سے) صلح (ہر حال میں) بہتر ہے۔ اور (یاد رکھو انسان کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ) مال کا لالچ سبھی میں ہوتا ہے (عورت چاہتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ ملے۔ مرد چاہتا ہے کم سے کم خرچ کرے۔ پس ایسا نہ کرو کہ مال کی وجہ سے آپس میں مصالحت نہ ہو) اور اگر تم (ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور (سخت گیری سے بچو تو تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس کی خبر رکھنے والا ہے النسآء
129 اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو، لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کرسکو (کیونکہ دل کا قدرتی کھنچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ کسی طرف زیادہ کھنچے گا کسی طرف کم) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک پڑو، اور دوسری کو (اس طرح) چھور بیٹھو گویا "معلقہ" ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظام کرے۔ نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عورت کی طرح ہو۔ بیچ میں پڑی لٹک رہی ہے) اور (دیکھو) اگر تم (عورتوں کے معاملہ میں) درستی پر رہو، اور (بے انصافی سے) بچو، تو اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے۔ النسآء
130 اور اگر (میاں بی بی میں اصلاح کی کوئی صورت بن نہ پڑے اور ایک دوسرے سے) جدا ہوجائیں، تو اللہ اپنے (فضل کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجائے گا جو عجب نہیں، پہلے کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجاجائے گا جو عجب نہیں، پہلے سے بہتر ہو) اور اللہ بڑی وسعت والا اور اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
131 اور (مسلمانو ! یاد رکھو) آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) ہم نے یقینا ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی۔ اور (اسی طرح) خود تم کو بھی، یہ حکم دیا کہ اللہ (کی نافرمانی کے نتائج) سے ڈرو (اور احکام حق کی پیروی کرو) اور اگر (اس کا حکم) نہ مانو گے سو (اس سے اس کی خدائی کا تو کچھ نقصان ہونے والا نہیں۔ تم خود ہی نقصان اٹھاؤگے) آسمانوں میں اور زمین جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ بے نیاز ہے، ساری ستائشوں سے ستودہ۔ النسآء
132 اور (بے شک) اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور (جو کوئی اس کی فرماں برداری کرے تو) کارسازی کے لیے اس کا کارسازی کے لیے اس کا کارساز ہونا کفایت کرتا ہے النسآء
133 لوگو ! اگر وہ چاہے تو تمہیں (اقبال و سعادت کے میدان سے) ہٹا دے، اور (تمہاری جگہ) دوسروں کو لے آئے۔ وہ بلاشبہ ایسا کرنے پر قادر ہے۔ النسآء
134 جو کوئی دنیا کا ثواب چاہتا ہے تو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کے پاس دنیا اور آکرت، دونوں کا ثواب موجود ہے (اور وہ دونوں کی بخشش رکھتا ہے وہ (سب کچھ سنے والا اور دیکھنے والا ہے النسآء
135 مسلمانو ایسے ہوجاؤ کہ انصاف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے (سچی) گواہی دینے والے ہو۔ اگر تمہیں خود اپنے خلاف، یا اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے جب بھی نہ جھجکو۔ اگر کوئی مال دار ہے یا محتاج ہے، تو اللہ (تم سے) زیادہ ان پر مہربانی رکھنے والا ہے۔ (تمہیں ایسا نہ کرنا چاہیے کہ مال دار کی دولت کے لالچ میں یا محتاج کی محتاجی پر ترس کھا کر سچی بات کہنے سے جھجکو)۔ پس (دیکھو) ایسا نہ ہو کہ ہوائے نفس کی پیروی تمہیں انصاف سے باز رکھے۔ اور اگر تم (گواہی دیتے ہوئے) بات کو گھما پھرا کر کہو گے (یعنی صاف صاف کہنا نہ چاہو گے) یا گواہی دینے سے پہلو تہی کروگے تو (یاد رکھو) تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے النسآء
136 مسلمان ! اللہ پر ایمان لاؤ، اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ نیز کتابوں پر جو اس سے پہلے (دوسرے پیغمبروں پر) نازل کی تھیں۔ اور (دیکھو) جس کسی نے اللہ سے انکار کیا، اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھا، تو وہ بھٹک کر سیدھے راستے سے بہت دور جا پڑا النسآء
137 جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایمان لائے، پھر کفر میں پڑگئے، پھر ایمان لائے، پھر کفر میں پڑگئے، اور پھر برابر کفر میں بڑھتے ہی گئے (تو فی الحقیقت ان کا ایمان لانا ایمان لانا، نہ تھا) اللہ انہیں بخشنے والا نہیں اور ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ (کامیابی کی) انہیں کوئی راہ دکھائے۔ النسآء
138 (اے پیغمبر) تم منافقوں کو یہ خوش خبری سنادو کہ بلاشبہ ان کے لیے عذاب دردناک ہے النسآء
139 (وہ منافق) جو مسلمانوں کو چھوڑ کر منکرین حق کو اپنا رفیق اور مددگار بناتے ہیں (اور مسلمانوں کی دوستی پر مسلمانوں کے دشمنوں کی دوستی کو ترجیح دیتے ہیں) تو کیا وہ چاہتے ہیں ان کے پاس عزت ڈھونڈھیں؟ (اگر ایسا ہی ہے) تو (یاد رکھیں) عزت جتنی بھی ہے سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے (یعنی اسی کے اختیار میں ہے، جسے چاہے دے دے، دشمنان حق کے ہاتھ میں نہیں، اگرچہ وہ اس وقت عارضی طور پر دنیوی عزت اور شوکت رکھتے ہیں اور پیروان حق بے سروسامان اور کمزور ہیں) النسآء
140 اور (دیکھو) اللہ اپنی کتاب میں تمہارے لیے یہ حکم نازل کرچکا ہے کہ جب تم دیکھو اور سنو خدا کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے (یعنی انہیں سرکشی اور شرارت سے جھٹلایا جا رہا ہے) اور ان کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے تو (تم اس مجلس سے اٹھ جاؤ اور) جب تک (اس طرح کی باتیں چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں لوگ نہ لگ جائیں، ان کے پاس نہ بیٹھو۔ اگر بیٹھا کروگے تو تم بھی انہی جیسے ہوجاؤگے۔ (یاد رکھو) خدا منافقوں کو (جو ایسی باتوں میں شریک ہوتے ہیں) اور منکرین حق کو (جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں) سب کو جہنم میں اکٹھا کردینے والا ہے النسآء
141 ان (منافقوں) کا شیوہ یہ ہے کہ وہ تمہاری حالت دیکھتے رہتے اور (مآل کار کے) منتظر رہتے ہیں۔ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہے تو (اپنے کو تمہارا ساتھی ظاہر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں۔ کیا ہم بھی تمہارے ساتھ نہ تھے۔ اگر منکرین حق کے لیے فتح مندی ہوتی ہے تو (ان کی طرف دوڑے جاتے ہیں اور اپنا احسان جتانے کے لیے) کہتے ہیں کیا ہم نے ایسا نہیں کیا کہ (جنگ میں) بالکل غالب آگئے تھے پھر بھی تمہیں مسلمانوں سے بچا لیا۔ تو (یقین کرو) اللہ قیامت کے دن تم میں (کہ سچے مسلمان ہو) اور ان میں (کہ نفاق میں ڈوبے ہوئے ہیں) فیصلہ کردے گا، اور یقین کرو (یہ منافق کتنا ہی دشمنوں کا ساتھ دیں مگر خدا کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ کافر، ایمان رکھنے والوں کے خلاف کوئی راہ پالیں۔ النسآء
142 منافق (اپنی اس دورنگی چال سے) خدا کو دھوکا دے رہے ہیں (یعنی خدا کے رسول کو اور مسلمانوں کو دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں) اور (واقعہ یہ ہے کہ) خدا انہیں دھوکا دینے میں ہرا رہا ہے اور مغلوب کر رہا ہے (کہ مہلت پر مہلت دے رہا ہے اور اس عارضی ہلت کو وہ جہل و غرور سے اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں) اور جب یہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں (جیسے کوئی مارے باندھے کھڑا ہوجائے) محض لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے (یعنی تلاوت نہیں کرتے) مگر برائے نام۔ النسآء
143 کفر اور ایمان کے درمیان متردد کھڑے ہیں کہ ادھر رہیں یا ادھر۔ نہ تو ان کی طرف ہیں، نہ ان کی طرف (یعنی نہ تو مسلمانوں کی طرف ہیں، نہ مسلمانوں کے دشمنوں کی طرف) اور حقیقت یہ ہے کہ جس پر اللہ ہی راہ گم کردے (یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانون ہدایت و ضلالت کے بموجب راہ سعادت گم ہوجائے) تو پھر ممکن نہیں تم اس کے لیے کوئی راہ نکال سکو النسآء
144 مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ مسلمانوں کے سوا کافروں کو (جو تمہارے خلاف لڑ رہے ہیں اور تمہاری بربادی پر تلے ہوئے ہیں) اپنا رفیق و مددگار بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو خدا کا صریح الزام اپنے اوپر لے لو۔ النسآء
145 بلاشبہ منافقوں کے لیے یہی ہونا ہے کہ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ڈالے جائیں اور (اس دن) کسی کو بھی تم ان کا رفیق و مددگار نہ پاؤ (پھر کیا تم چاہتے ہو ان کی سی روش تم بھی اختیار کرو) النسآء
146 ہاں (ان میں سے) جن لوگوں نے توبہ کرلی، اپنی (عملی) حالت سنوار لی، اللہ کے حکم) پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے، اور اپنے دین میں صرف اسی کے لیے ہوگئے تو (بلاشبہ) ایسے لوگ (منافقوں میں سے نہیں سمجھے جائیں گے) مومنوں کی صف میں ہوں اور قریب ہے کہ اللہ مومنوں کو (ان کا) اجر عطا فرمائے۔ ایسا اجر، جو بہت ہی بڑا اجر ہوگا۔ النسآء
147 (لوگو !) اگر تم شکر کرو، (یعنی خدا کی نعمتوں کی قدر کرو اور انہیں ٹھیک ٹھیک کام میں لاؤ) اور خدا پر ایمان رکھو تو خدا کو تمہیں عزاب دے کر کیا کرنا ہے؟ (یعنی وہ کیوں تمہیں عزاب دے) خدا تو (انسانی اعمال کا) قدر شناس اور (ان کی حالت کا) علم رکھنے والا ہے۔ النسآء
148 خدا کو پسند نہیں کہ تم (کسی کی) برائی پکارتے پھرو۔ ہاں یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو (اور وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرے) اور (یاد رکھو) خدا سننے والا جاننے والا ہے (اس سے کسی کی کوئی بات پوشیدہ نہیں النسآء
149 تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو، یا چھپا کر کرو، یا کسی کی برائی سے درگزر کرو (ہر حال میں تمہارے لیے نیکی و احسان کا اجر ہے، اور دیکھو) اللہ بھی (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہوا (برائیوں سے) درگزر کرنے والا ہے النسآء
150 جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے برگشتہ ہیں اور چاہتے ہیں، اللہ میں اور اس کے رسولوں میں (تصدیق کے لحاظ سے) تفرقہ کریں اور کہتے ہیں ہم ان میں سے بعض کو مانتے ہیں، بعض کو نہیں مانتے اور اس طرح چاہتے ہیں ایمان اور کفر کے درمیان کوئی (تیسری) راہ اختیار کرلیں۔ النسآء
151 تو ایسے لوگ یقینا کافر ہیں (ان کا بعض رسالتوں پر ایمان رکھنے کا دعوی انہیں مومن نہیں بنا دے سکتا) اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے النسآء
152 اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کیا (یعنی کسی ایک سے بھی انکار نہیں کیا) تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں کہ (سچے مومن ہیں، اور) عنقریب ہم انہیں ان کے اجر عطا فرمائیں گے، اور اللہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے۔ النسآء
153 (اے پیغمبر) اہل کتاب (یعنی یہودی) تم سے درخواست کرتے ہیں کہ آسمان سے کوئی کتاب ان پر نازل کرا دو (تاکہ انہیں تصدیق ہوجائے) کہ تم خدا کے نبی ہو) تو (یہ فرمائش انہوں نے تم ہی سے نہیں کیا ہے) یہ اس سے بھی بڑی بات کا سوال موسیٰ سے کرچکے ہیں انہوں نے (یعنی ان کے بزرگوں اور ہم مشربوں نے سینا کے میدان میں) کہا تھا۔ ہمیں خدا آشکارا طور پر دکھلا دو۔ (یعنی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں خدا تم سے کلام کر رہا ہے) تو ان کی شرارت کی وجہ سے بجلی (کی ہولناکی) نے انہیں پکڑ لیا تھا (اور اس پر بھی وہ نافرمانی و شرارت سے باز نہیں آئے تھے) پھر باوجودیکہ (دین حق کی روشن دلیلیں ان پر واضح ہوچکی تھیں، وہ پوجا کے لیے) بچھڑے کو لے بیٹھے (اور بت پرستی میں مبتلا ہوگئے) ہم نے اس سے بھی درگزر کی تھی اور موسیٰ کو (قیام حق و شریعت میں) ظاہر و واضح اقتدار دے دیا تھا۔ النسآء
154 اور پھر (دیکھو احکام حق پر) عہد لینے کے لیے ہم نے ان کے سروں پر (کوہ) طور بلند کردیا تاھ۔ (اور انہوں نے اتباع حق کا قول و قرار کیا تھا) اس کے بعد ہم نے انہیں حکم دیا کہ شہر کے دروازے میں (خدا کے آگے) جھکے ہوئے داخل ہو (اور فتح و کامیابی کے بعد ظلم و شرارت نہ کرو) اور ہم نے حکم دیا کہ سب کے دن (کا احترام کرو) اور اس دن (حکم شریعت سے) تجاوز نہ کرجاؤ۔ ہم نے ان سے ان تمام باتوں پر پکا عہد و میثاق لے لیا تھا النسآء
155 پس ان کے عہد (اطاعت) توڑنے کی وجہ سے، اور اللہ کی آیتیں جھٹلانے کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ خدا کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے، نیز (اس شقاوت کی وجہ سے کہ) انہوں نے کہا "ہمارے دلوں پر (تہ در تہ) غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ (ان میں قبولیت حق کی استعداد باقی ہی نہیں رہی۔ ان کے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے، یہی وجہ ہے کہ معدودے چند آدمیون کے سوا سب کے سب ایمان سے محروم ہیں النسآء
156 اور (نیز) اس بات کی وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور مریم کے خلاف ایسی بات کہی جو بڑے ہی بہتان کی بات تھی النسآء
157 اور (نیز) ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو جو خدا کے رسول (ہونے کا دعوی کرتے) تھے (سولی پر چرھا کر) قتل کرڈالا، حالانکہ (واقعہ یہ ہے کہ) نہ تو انہوں نے قتل کیا، اور نہ سولی پر چرھا کر ہلاک کیا، بلکہ حقیقت حال ان پر مشتبہ ہوگئی (یعنی صورت حال ایسی ہوگئی کہ انہوں نے سمجھا ہم نے مسیح کو مصلوب کردیا حالانکہ نہیں کرسکے تھے) اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا (یعنی عیسائیوں نے جو کہتے ہیں مسیح مصلوب ہوئے لیکن اس کے بعد زندہ ہوگئے) تو بلاشبہ وہ بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ظن و گمان کے سوا کوئی علم ان کے ان کے پاس نہیں، اور یقیناً یہودیوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا النسآء
158 بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ سب پر غالب رہنے والا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
159 اور (دیکھو) اہل کتاب میں (یعنی یہودیوں میں سے جنہوں نے میسح سے انکار کیا) کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے (حقیقت حال پر مطلع نہ ہوجائے اور) اس پر (یعنی مسیح کی صداقت پر) یقین نہ لے آئے۔ ایسا ہونا ضروری ہے (کیونکہ مرنے کے وقت غفلت و شرارت کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور حقیقت نمودار ہوتی ہے) اور قیامت کے دن وہ (اللہ کے حضور) ان پر شہادت دینے والا ہوگا النسآء
160 الغرض یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے (کئی ایک) اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں جو (پہلے) حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بتہ روکنے لگے تھے (اور ہدایت کی راہ میں سرتا سر روک ہوگئے تھے النسآء
161 نیز ان کی یہ بات کہ سود لینے لگے، حالانکہ اس سے روک دیے گئے تھے اور یہ بات کہ ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھانے لگے (حالانکہ انہیں ہر انسان کے ساتھ دیانت دار ہونے کا حکم دیا گیا تھا) اور (یاد رکھو) ان میں جو لوگ (اس طرح احکام حق کے) منکر ہوگئے، ہم نے ان کے لیے (پاداش عمل میں) دردناک عذاب تیار رکھتا ہے النسآء
162 لیکن (اے پیغمبر) ان میں سے جو لوگ (کتاب اللہ کے) علم میں پکے ہیں، تو وہ اور مسلمان (ان گمراہیوں سے اپنی راہ الگ رکھتے ہیں۔ وہ) اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل ہوئی ہے اور ان تمام کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور وہ جو نماز قائم کرنے والا ہیں، زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، تو ایسے ہی لوگ ہیں جنہیں ہم عنقریب ان کا اجر عطا فرمائیں گے۔ ایسا اجر جو بہت ہی بڑا اجر ہوگا النسآء
163 (اے پیغمبر) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح پر اور ان نبیوں پر جو نوح کے بعد ہوئے، بھیجی تھی اور جس طرح ابراہیم، اسمعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد، یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان پر بھیجی، اور داود کو زبور عطا فرمائی النسآء
164 نیز خدا کے وہ رسول جن کا حال ہم (قرآن میں) پہلے سنا چکے ہیں اور وہ جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا، اور (اسی طرح) اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ واقعی طور پر کلام کرنا ہوتا ہے النسآء
165 یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کرنے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کسی نے نہیں دکھلائی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
166 (اے پیغمبر ! اگر یہ لوگ تمہاری سچائی سے انکار کرتے ہیں، تو انکار کریں) لیکن اللہ نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اور (خدا کے) فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں اور (جس بات پر اللہ گواہی دے تو) اللہ کی گواہی بس کرتی ہے النسآء
167 جو لوگ (سچائی سے) منکر ہوئے اور خدا کی راہ سے لوگوں کو روکا، تو بلاشبہ وہ (سیدھے راستے سے) بھٹک گئے اور ایسے بھٹکے کہ دور دراز راہوں میں گم ہوگئے النسآء
168 جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم (میں بھی بے باک ہوگئے اور مرتے دم تک اسی حالت میں سرشار رہے) تو خدا انہیں کبھی بخشنے والا نہیں، نہ انہیں (کامیابی کی) کوئی راہ دکھائے گا النسآء
169 بجز جہنم کی راہ کے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لیے ایسا کرنا بالکل سہل ہے (کوئی نہیں جو اس کے قوانین کے نفاز میں رکاوٹ ڈال سکے) النسآء
170 اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ الرسول (یعنی پیغمبر اسلام) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس سچائی کے ساتھ آگیا ہے (اور اس کی سچائی اب کسی کے جھٹلائے جھٹلائی نہیں جاسکتی) پس ایان لاؤ کہ تمہارے لیے (اسی میں بہتری ہے اور (دیکھو) اگر تم کفر کرو گے تو آسمان و زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (تمہاری شقاوت خود تمہارے ہی آگے آئے گی اور (یاد رکھو) اللہ (سب کچھ) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے النسآء
171 اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو (یعنی حقیق و اعتدال سے گزر نہ جاؤ) اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا اور کچھ نہ کہو مریم کا بیٹا عیسیٰ مسیح اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کا رسول ہے اور اس کے کلمہ (بشارت) کا ظہور ہے جو مریم پر القا کیا گیا تھا، نیز ایک روح ہے جو اس کی جانب سے بھیجی گئی پس چاہیے کہ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور یہ بات نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔ دیکھو، ایسی بات کہنے سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہو، حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے (اس کے سوا کوئی نہیں) وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کے ہے ہے (وہ بھلا اپنے کاموں کے لیے اس بات کا کیوں محتاج ہونے لگا کہ کسی کو بیٹا بنا کر دنیا میں بھیجے؟ کارسازی کے لیے خدا کا کارساز ہونا بس ہے النسآء
172 مسیح کو ہرگز اس بات میں عار نہیں کہ وہ خدا کا بندہ سمجھا جائے اور نہ خدا کے مقرب فرشتوں کو اس سے ننگ و عار ہے۔ جو کوئی خدا کی بندگی میں ننگ و عار سمجھے اور گھمنڈ کرے تو ( وہ گھمنڈ کرکے جائے گا کہاں؟) وہ وقت دور نہیں کہ خدا سب کو ( قیامت کے دن) اپنے حضور جمع کرے گا النسآء
173 (اس دن) ایسا ہوگا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک کام کیے ہیں، تو ان کی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ انہیں دے دے گا، اور اپنے فضل سے اس میں زیادتی بھی فرمائے گا۔ لیکن جن لوگوں نے (خدا کی) بندگی کو ننگ و عار سمجھا اور گھمنڈ کیا تو انہیں (پاداش جرم میں) ایسا عذاب دے گا جو دردناک عذاب ہوگا اور اس دن انہیں خدا کے سوا نہ تو کوئی رفیق ملے گا نہ مددگار النسآء
174 لوگو تمہاے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان (یعنی دلیل و حجت) آگئی، اور ہم نے تمہاری طرف چمکتی ہوئی روشنی بھیج دی النسآء
175 پس جو لوگا للہ پر ایمان لائے اور اس کا سہارا مضبوط پکڑ لیا، تو وہ انہیں عنقریب اپنی رحمت کے سایے میں داخل کردے گا اور ان پر اپنا فضل کرے گا اور انہیں اپنے تک پہنچنے کی راہ دکھا دے گا۔ ایسی راہ جو بالکل سیدھی راہ ہے النسآء
176 (اے پیغمبر) لوگ تم سے کلالہ کے بارے میں (یعنی ایسے آدمی کی میراث کے بارے میں جس کے نہ تو باپ ہو نہ اواد) فتوی طلب کرتے ہیں۔ کہہ دو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں (حسب ذیل) حکم دیتا ہے۔ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ باپ دادا) اور اس کے بہن ہو تو جو کچھ مرنے والا چھور مرا ہے اس کا آدھا بہن کا حصہ ہوگا اور بہن مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اس (کے سارے مال) کا وارث وہ بھائی ہی ہوگا۔ پھر اگر دو بہنیں ہوں (یا دو سے زیادہ) تو انہیں ترکے میں سے دو تہائی ملے گا۔ اور اگر بھائی بہن (ملے جلے ہوں) کچھ مرد، عورتیں، تو پھر (اسی قاعدے سے حصے تقسیم ہوں گے کہ) مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ۔ اللہ تمہارے لیے اپنے احکام واضح کرتا ہے تاکہ گمراہ نہ ہو اور اللہ تمام باتوں کا علم رکھنے والا ہے النسآء
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے المآئدہ
1 اے ایمان والو ! معاہدوں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے وہ چوپائے حلال کردیے گئے ہیں جو مویشیوں میں داخل ( یا ان کے مشابہ) ہوں۔ (١) سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنایا جائے گا (٢) بشرطیکہ جب تم احرام کی حالت میں ہو اس وقت شکار کو حلال نہ سمجھو۔ (٣) اللہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اس کا حکم دیتا ہے (٤) المآئدہ
2 اے ایمان والو ! نہ اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی کرو، نہ حرمت والے مہینے کی، نہ ان جانوروں کی جو قربانی کے لیے حرم لے جائے جائیں، نہ ان پٹوں کی جو ان کے گلے میں پڑے ہوں، اور نہ ان لوگوں کی جو اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر بیت حرام کا ارادہ لے کر جارہے ہوں۔ اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرسکتے ہو۔ اور کسی قوم کے ساتھ تمہاری یہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم (ان پر) زیادتی کرنے لگو (٥) اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ المآئدہ
3 تم پر مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور حرام کردیا گیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جسے چوٹ مار کر ہلاک کیا گیا ہو، اور جو اوپر سے گر کر مرا ہو۔ اور جسے کسی جانور نے سینگ مار کر ہلاک کیا ہو، اور جسے کسی درندے نے کھالیا ہو، الا یہ کہ تم (اس کے مرنے سے پہلے) اس کو ذبح کرچکے ہو، اور وہ (جانور بھی حرام ہے) جسے بتوں کی قربان گاہ پر ذبح کیا گیا ہو۔ اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے) کہ تم جوے کے تیروں سے (گوشت وغیرہ) تقسیم کرو۔ (٦) یہ ساری باتیں سخت گناہ کی ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے مغلوب ہونے) سے ناامید ہوگئے ہیں، لہذا ان سے مت ڈرو، اور میرا ڈر دل میں رکھو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا (٧) (لہذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو) ہاں جو شخص شدید بھوک کے عالم میں بالکل مجبور ہوجائے (اور اس مجبوری میں ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھا لے) بشرطیکہ گناہ کی رغبت کی بنا پر ایسا نہ کیا ہو، تو بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
4 لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ : تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھا لیا ہو، وہ جس جانور کو (شکار کر کے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھا سکتے ہو، اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، (٨) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے المآئدہ
5 آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن لوگوں کو (تم سے پہلے) کتاب دی گئی تھی، ان کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے (٩) نیز مومنوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (١٠) جبکہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیے ہوں، نہ تو (بغیر نکاح کے) صرف ہوس نکالنا مقصودہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا۔ اور جو شخص ایمان سے انکار کرے اس کا سارا کیا دھراغارت ہوجائے گا اور آخرت میں اس کا شمار خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا۔ المآئدہ
6 اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارے جسم کو (غسل کے ذریعے) خوب اچھی طرح پاک کرو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے جسمانی ملاپ کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو (١١) اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس (مٹی) سے مسح کرلو۔ اللہ تم پر کوئی تنگی مسلط کرنا نہیں چاہتا، لیکن یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے، اور یہ کہ تم پر اپنی نعمت تمام کردے، تاکہ تم شکر گزار بنو۔ المآئدہ
7 اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا ہے اسے اور اس عہد کو یاد رکھو جو اس نے تم سے لیا تھا۔ جب تم نے کہا تھا کہ : ہم نے ( اللہ کے احکام کو) اچھی طرح سن لیا ہے، اور اطاعت قبول کرلی ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقینا سینوں کے بھید سے پوری طرح باخبر ہے۔ المآئدہ
8 اے ایمان والو ! ایسے بن جاؤ کہ اللہ ( کے احکام کی پابندی) کے لیے ہر وقت تیار ہو (اور) انصاف کی گواہی دینے والے ہو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصافی کرو۔ انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔ المآئدہ
9 جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ (آخرت میں) ان کو مغفرت اور زبردست ثواب حاصل ہوگا۔ المآئدہ
10 اور جن لوگوں نے کفر اپنایا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا وہ دوزخ کے باسی ہیں۔ المآئدہ
11 اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دییے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ المآئدہ
12 اور یقینا اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ہم نے ان میں سے بارہ نگراں مقرر کیے تھے (١٣) اور اللہ نے کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، میرے پیغمبروں پر ایمان لائے، عزت سے ان کا ساتھ دیا اور اللہ کو اچھا قرض دیا (١٤) تو یقین جانو کہ میں تمہاری برائیوں کا کفارہ کردوں گا، اور تمہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، پھر اس کے بعد بھی تم میں سے جو شخص کفر اختیار کرے گا تو درحقیقت وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا المآئدہ
13 پھر یہ ان کی عہد شکنی ہی تو تھی جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا، اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا۔ وہ باتوں کو اپنے موقع محل سے ہٹا دیتے ہیں۔ اور جس بات کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ بھلا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر تمہیں آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ لہذا (فی الحال) انہیں معاف کردو اور درگزر سے کام لو (١٥) بیشک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے المآئدہ
14 اور جن لوگوں نے کہا تھا کہ ہم نصرانی ہیں، ان سے (بھی) ہم نے عہد لیا تھا، پھر جس چیز کی ان کو انصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ وہ (بھی) بھلا بیٹھے۔ چنانچہ ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لیے دشمنی اور بغض پیدا کردیا (١٦) اور اللہ انہیں عنقریب بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ المآئدہ
15 اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے (یہ) پیغبر آگئے ہیں جو کتاب (یعنی تورات اور انجیل) کی بہت سی ان باتوں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو تم چھپایا کرتے ہو، اور بہت سی باتوں سے درگزر کر جاتے ہیں (١٧) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی آئی ہے اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کردینے والی ہے۔ المآئدہ
16 جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں اور انہیں اپنے حکم سے اندھیریوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔ المآئدہ
17 جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ یقینا کافر ہوگئے ہیں۔ (اے نبی ! ان سے) کہہ دو کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور ان کی ماں کو اور زمین میں جتنے لوگ ہیں ان سب کو ہلاک کرنا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں کچھ کرنے کی ذرا بھی طاقت رکھتا ہو؟ تمام آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ وہ جو چیز چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
18 یہود و نصاری کہتے ہیں کہ : ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (ان سے) کہو کہ پھر اللہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ (١٨) نہیں ! بلکہ تم انہی انسانوں کی طرح انسان ہوجو اس نے پیدا کیے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔ المآئدہ
19 اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر ایسے وقت دین کی وضاحت کرنے آئے ہیں جب پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی (جنت کی) خوشخبری دینے والا آیا، نہ کوئی (جہنم سے) ڈرانے والا۔ لو اب تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ اور اللہ ہر بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
20 اور اس وقت کا دھیان کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : اے میری قوم ! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے کہ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تمہیں حکمران بنایا، اور تمہیں وہ کچھ عطا کیا جو تم سے پہلے دنیا جہان کے کسی فرد کو عطا نہیں کیا تھا۔ المآئدہ
21 اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے، (١٩) اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد جاؤ گے۔ المآئدہ
22 وہ بولے۔ اے موسیٰ ! اس (ملک) میں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں، اور جب تک وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، ہم ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو بیشک ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔ المآئدہ
23 جو لوگ (خدا کا) خوف رکھتے تھے، ان میں سے دو مرد جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تھا۔ (٢٠) بول اٹھے کہ : تم ان پر چڑھائی کر کے (شہر کے) دروازے میں گھس تو جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو۔ المآئدہ
24 وہ کہنے لگے : اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے (اگر ان سے لڑنا ہے تو) تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ، اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ المآئدہ
25 موسیٰ نے کہا : اے میرے پروردگار سوائے میری اپنی جان کے اور میرے بھائی کے کوئی میرے قابو میں نہیں ہے۔ اب آپ ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان الگ الگ فیصلہ کردیجیے۔ المآئدہ
26 اللہ نے کہا : اچھا تو وہ سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ (اس دوران) زمین میں بھٹکتے پھریں گے (٢١) تو (اے موسی) اب تم بھی ان نافرمان لوگوں پر ترس مت کھانا۔ المآئدہ
27 اور (اے پیغمبر) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ (٢٢) اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ : میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔ المآئدہ
28 اگر تم نے مجھے قتل کرنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا تب بھی میں تمہیں قتل کرنے کو اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ المآئدہ
29 میں تو یہ چاہتا ہوں کہ انجام کار تم اپنے اور میرے دونوں کے گناہ میں پکڑے جاؤ، (٢٣) اور دوزخیوں میں شامل ہو۔ اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ المآئدہ
30 آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا۔ المآئدہ
31 پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے (٢٤) (یہ دیکھ کر) وہ بولا۔ ہائے افسوس ! کیا میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ اس طرح بعد میں وہ بڑا شرمندہ ہوا۔ المآئدہ
32 اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا (٢٥) اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں ہی کرتے رہے ہیں۔ المآئدہ
33 جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سول پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، (٢٦) یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے (٢٧) یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔ المآئدہ
34 ہاں وہ لوگ اس سے مستثنی ہیں جو تمہارے ان کو قابو میں لانے سے پہلے ہی توبہ کرلیں (٢٨) ایسی صورت میں یہ جان رکھو کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
35 اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو (٢٩) اور اس کے راستے میں جہاد کرو (٣٠) امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔ المآئدہ
36 یقین رکھو کہ جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے اگر زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب ان کے پاس ہوں، اور اتنی ہی اور بھی ہوں، تاکہ وہ قیامت کے دن کے عذاب سے بچنے کے لیے وہ سب فدیہ میں پیش کردیں، تب بھی ان کی یہ پیشکش قبول نہیں کی جائے گی، اور ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ المآئدہ
37 وہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں، حالانکہ وہ اس سے نکلنے والے نہیں ہیں، اور ان کو ایسا عذاب ہوگا جو قائم رہے گا۔ المآئدہ
38 اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، تاکہ ان کو اپنے کیے کا بدلہ ملے، اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہو۔ اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی المآئدہ
39 پھر جو شخص اپنی ظالمانہ کارروائی سے توبہ کرلے، اور معاملات درست کرلے، تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا (٣١) بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
40 کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی حکمرانی صرف اللہ کے پاس موجود ہے؟ وہ جس کو چاہے عذاب دے، اور جس کو چاہے بخش دے، اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
41 اے پیغمبر ! جو لوگ کفر میں بڑی تیزی دکھا رہے ہیں وہ تمہیں غم میں مبتلا نہ کریں (٣٢) یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (کھلے بندوں) یہودیت کا دین اختیار کرلیا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں کان لگا لگا کر سننے والے ہیں (٣٣) (اور تمہاری باتیں) ان لوگوں کی خاطت سنتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں آئے (٣٤) جو (اللہ کی کتاب کے) الفاظ کا موقع محل طے ہوجانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو اس کو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیا جائے تو بچ کر رہنا۔ اور جس شخص کو اللہ فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلے تو اسے اللہ سے بچانے کے لیے تمہارا کوئی زور ہرگز نہیں چل سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ( ان کی نافرمانی کی وجہ سے) اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ (٣٥) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے۔ المآئدہ
42 یہ کان لگا لگا کر جھوٹی باتیں سننے والے، جی بھر بھر کر حرام کھانے والے ہیں۔ (٣٦) چنانچہ اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو چاہے ان کے د رمیان فیصلہ کردو، اور چاہے ان سے منہ موڑ لو (٣٧) اگر تم ان سے منہ موڑ لو گے تو یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، اور اگر فیصلہ کرنا ہو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ المآئدہ
43 اور یہ کیسے تم سے فیصلہ لینا چاہتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا فیصلہ درج ہے؟ پھر اس کے بعد (فیصلے سے) منہ بھی پھیر لیتے ہیں (٣٨) دراصل یہ ایمان والے نہیں ہیں۔ المآئدہ
44 بیشک ہم نے تورات نازل کی تھی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا۔ تمام نبی جو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے، اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور تمام اللہ والے اور علماء بھی (اسی پر عمل کرتے رہے) کیونکہ ان کو اللہ کی کتاب کا محافظ بنایا گیا تھا، اور وہ اس کے گواہ تھے۔ لہذا (اے یہودیو) تم لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو، اور تھوڑی سی قیمت لینے کی کا طر میری آیتوں کا سودا نہ کیا کرو۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔ المآئدہ
45 اور ہم نے اس (تورات میں) ان کے لیے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت۔ اور زخموں کا بھی (اسی طرح) بدلی لیا جائے۔ ہاں جو شخص اس (بدلے) کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ ظالم ہیں۔ (٣٩) المآئدہ
46 اور ہم نے ان (پیغمبروں) کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا، اور جو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والی اور متقیوں کے لیے سراپا ہدایت و نصیحت بن کر آئی تھی۔ المآئدہ
47 اور انجیل والوں کو چاہئے کہ اللہ نے اس میں جو کچھ نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں، اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں۔ المآئدہ
48 اور (اے رسول محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ (٤٠) اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لیے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ لہذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ المآئدہ
49 اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے (٤١) اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ (٤٢) اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں۔ المآئدہ
50 بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ المآئدہ
51 اے ایمان والو ! یہودیوں اور نصرانیوں کو یارومددگار نہ بناؤ (٤٣) یہ خود ہی ایک دوسرے کے یارومددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔ یقینا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ المآئدہ
52 چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے، تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں : ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑے گا (٤٤) لیکن) کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے (٤٥) اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی تھی۔ المآئدہ
53 اور (اس وقت) ایمان والے ( ایک دوسرے سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بڑے زور و شور سے اللہ کی قسمیں کھائی تھیں کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال غارت ہوگئے، اور وہ نامراد ہو کر رہے۔ المآئدہ
54 اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔ المآئدہ
55 (مسلمانو) تمہارے یارومددگار تو اللہ، اس کے رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو اس طرح نماز قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے ہیں کہ وہ (دل سے) اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ المآئدہ
56 اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اور ایمان والوں کو دوست بنائے تو (وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے اور) اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے۔ المآئدہ
57 اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں جو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یارومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔ المآئدہ
58 اور جب تم نماز کے لیے (لوگوں کو) پکارتے ہو تو وہ اس (پکار) کو مذاق اور کھیل کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سب (حرکتیں) اس وجہ سے ہیں کہ ان لوگوں کو عقل نہیں ہے۔ المآئدہ
59 تم (ان سے) کہو کہ : اے اہل کتاب ! تمہیں اس کے سوا ہماری کون سی بات بری لگتی ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کلام ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو پہلے اتارا گیا تھا اس پر ایمان لے آئے ہیں، جبکہ تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں؟ المآئدہ
60 (اے پیغمبر ان سے) کہو کہ : کیا میں تمہیں بتاؤں کہ (جس بات کو تم برا سمجھ رہے ہو) اس سے زیادہ برے انجام والے کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پھٹکار ڈالی، جن پر اپنا غضب نازل کیا، جن میں سے لوگوں کو بندر اور سور بنایا، اور جنہوں نے شیطان کی پرستش کی، وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا بھی بدترین ہے اور وہ سیدھے راستے سے بھی بہت بھٹکے ہوئے ہیں۔ المآئدہ
61 اور جب یہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، حالانکہ یہ کفر لے کر ہی آئے تھے، اور اسی کفر کو لے کر باہ نکلے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ کیا کچھ چھپاتے رہے ہیں۔ المآئدہ
62 اور ان میں سے بہت سوں کو تم دیکھو گے کہ وہ گناہ، ظلم اور حرام خوری میں لپک لپک کر آگے بڑھتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ جو حرکتیں یہ کرتے ہیں وہ نہایت بری ہیں۔ المآئدہ
63 ان کے مشائخ اور علماء ان کو گناہ کی باتیں کہنے اور حرام کھانے سے آخرت کیوں منع نہیں کرتے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ طرز عمل نہایت برا ہے المآئدہ
64 اور یہودی کہتے ہیں کہ : اللہ کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں (٤٦) ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں اور جو بات انہوں نے کہی ہے اس کی وجہ سے ان پر لعنت الگ پڑی ہے، ورنہ اللہ کے دونوں ہاتھ پوری طرح کشادہ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور (اے پیغمبر) جو وحی تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لیے عداوت اور بغض پیدا کردیا ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے (٤٧) اور یہ زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، جبکہ اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ المآئدہ
65 اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ضرور ان کی برائیاں معاف کردیتے، اور انہیں ضرور آرام و راحت کے باغات میں داخل کرتے۔ المآئدہ
66 اور اگر وہ تورات اور انجیل اور جو کتاب (اب) ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پابندی کرتے تو وہ اپنے اوپر اور اپنے پاؤں کے نیچے ہر طرف سے (اللہ کا رزق) کھاتے۔ (اگرچہ) ان میں ایک جماعت راہ راست پر چلنے والی بھی ہے، مگر ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہی ہیں کہ ان کے اعمال خراب ہیں۔ المآئدہ
67 اے رسول ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ( اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا۔ یقین رکھو کہ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ المآئدہ
68 کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل پر اور جو (کتاب) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس (اب) بھیجی گئی ہے اس کی پوری پابندی نہیں کرو گے، تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہوگی جس پر تم کھڑے ہوسکو۔ اور (اے رسول) جو وحی اپنے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، لہذا تم ان کافر لوگوں پر افسوس مت کرنا۔ المآئدہ
69 حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی یا نصرانی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔ (٤٨) المآئدہ
70 ہم نے بنو اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ان کے پاس رسول بھیجے تھے، جب کوئی رسول ان کے پاس کوئی ایسی بات لے کر آتا جس کو ان کا دل نہیں چاہتا تھا تو کچھ (رسولوں) کو انہوں نے جھٹلایا اور کچھ کو قتل کرتے رہے۔ المآئدہ
71 اور وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہیں ہوگی، اس لیے اندھے بہرے بن گئے، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی تو ان میں سے بہت سے پھر اندھے بہرے بن گئے، اور اللہ ان کے تمام اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔ المآئدہ
72 وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح نے تو یہ کہا تھا کہ : اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ یقین جا نو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور جو لوگ (یہ) ظلم کرتے ہیں ان کو کسی قسم کے یارومددگار میسر نہیں آئیں گے۔ المآئدہ
73 وہ لوگ (بھی) یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ : اللہ تین میں کا تیسرا ہے (٤٩) حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر یہ لوگ اپنی اس بات سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے ( ایسے) کفر کا ارتکاب کیا ہے، ان کو دردناک عذاب پکڑ کر رہے گا۔ المآئدہ
74 کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے، اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے؟ حالانکہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
75 مسیح ابن مریم تو ایک رسول تھے، اس سے زیاد کچھ نہیں، ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی ماں صدیقہ تھیں۔ یہ دونوں کھانا کھاتے تھے (٥٠) دیکھو ! ہم ان کے سامنے کس طرح کھول کھول کر نشانیاں واضح کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ ان کو اوندھے منہ کہاں لے جایا جارہا ہے۔ (٥١) المآئدہ
76 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : کیا تم اللہ کے سوا یسی مخلوق کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتی ہے اور نہ فائدہ پہنچانے کی (٥٢) جبکہ اللہ ہر بات کو سننے والا، ہر چیز کو جاننے والا ہے ؟ المآئدہ
77 (اور ان سے یہ بھی کہو کہ) اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو (٥٣) اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔ المآئدہ
78 بنو اسرائیل کے جو لوگ کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی تھی (٥٤) یہ سب اس لیے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی تھی، اور وہ حد سے گزر جایا کرتے تھے۔ المآئدہ
79 وہ جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔ المآئدہ
80 تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے (بت پرست) کافروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے (٥٥) یقینا جو کچھ انہوں نے اپنے حق میں اپنے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے، کیونکہ (ان کی وجہ سے) اللہ ان سے ناراض ہوگیا ہے، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ المآئدہ
81 اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبی پر اور جو کلام ان پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے تو ان (بت پرستوں) کو دوست نہ بناتے، لیکن (بات یہ ہے کہ) ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو نافرمان ہیں۔ المآئدہ
82 تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔ اور تم یہ بات بھی ضرور محسوس کرلو گے کہ (غیر مسلموں میں) مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نصرانی کہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں بہت سے علم دوست عالم اور بہت سے تارک الدنیا درویش ہیں (٥٦) نیز یہ وجہ بھی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔ المآئدہ
83 اور جب یہ لوگ وہ کلام سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو چونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہوتا ہے، اس لیے تم ان کی آنکھوں کو دیکھو گے کہ وہ آنسوؤں سے بہہ رہی ہیں۔ (٥٧) (اور) وہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں، لہذا گواہی دینے والوں کے ساتھ ہمارا نام بھی لکھ لیجیے۔ المآئدہ
84 اور ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس آگیا ہے اس پر آخر کیوں ایمان نہ لائیں، اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں میں شمار کرے گا؟ المآئدہ
85 چنانچہ ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ ان کو وہ باغات دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی نیکی کرنے والوں کا صلہ ہے المآئدہ
86 اور جن لوگوں نے کفر اپنایا ہے اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے وہ دوزخ والے لوگ ہیں۔ المآئدہ
87 اے ایمان والو ! اللہ نے تمہارے لیے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار دنہ دو، اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقین جانو کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (٥٨)۔ المآئدہ
88 اور اللہ نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے حلال پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور جس اللہ پر تم ایمان رکھتے ہو اس سے ڈرتے رہو۔ المآئدہ
89 اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری پکڑ نہیں کرے گا (٥٩) لیکن جو قسمیں تم نے پختگی کے ساتھ کھائی ہوں، (٦٠) ان پر تمہاری پکڑ کرے گا۔ چنانچہ اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا ان کو کپڑے دو، یا ایک غلام آزاد کرو۔ ہاں اگر کسی کے پاس (ان چیزوں میں سے) کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم نے کوئی قسم کھالی ہو (اور اسے توڑ دیا ہو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ (٦١) اسی طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے سامنے واضح کرتا ہے، تاکہ تم شکر ادا کرو۔ المآئدہ
90 اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے (٦٢) یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ المآئدہ
91 شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے؟ المآئدہ
92 اور اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور (نافرمانی سے) بچتے رہو۔ اور اگر تم (اس حکم سے) منہ موڑو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے (اللہ کے حکم کی) تبلیغ کردیں۔ المآئدہ
93 جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، اور نیکی پر کار بند رہے ہیں، انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا ہے، اس کی وجہ سے ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، (٦٣) بشرطیکہ وہ آئندہ ان گناہوں سے بچتے رہیں، اور ایمان رکھیں اور نیک عمل کرتے رہیں، پھر (جن چیزوں سے آئندہ روکا جائے ان سے) بچا کریں، اور ایمان پر قائم رہیں اور اس کے بعد بھی تقوی اور احسان کو اپنائیں۔ (٦٤) اللہ احسان پر عمل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ المآئدہ
94 اے ایمان والو ! اللہ تمہیں شکار کے کچھ جانوروں کے ذریعے ضرور آزمائے گا جو تمہارے ہاتھوں اور تمہارے نیزوں کی زد میں آجائیں گے، (٦٥) تاکہ وہ یہ جان لے کہ کون ہے جو اسے دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرتا ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے گا وہ دردناک سزا کا مستحق ہوگا۔ المآئدہ
95 اے ایمان والو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو کسی شکار کو قتل نہ کرو۔ اور اگر تم میں سے کوئی اسے جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ دینا واجب ہوگا (جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ) جو جانور اس نے قتل کیا ہے، اس جانور کے برابر چوپایوں میں سے کسی جانور کو جس کا فیصلہ تم میں سے دو دیانت دار تجربہ کار آدمی کریں گے، کعبہ پہنچا کر قربان کیا جائے، یا (اس کی قیمت کا) کفارہ مسکینوں کا کھانا کھلا کر ادا کیا جائے، یا اس کے برابر روزے رکھے جائیں، (٦٦) تاکہ وہ شخص اپنے کیے کا بدلہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ نے اسے معاف کردیا، اور جو شخص دوبارہ ایسا کرے گا تو اللہ اس سے بدلہ لے گا، اور اللہ اقتدار اور انتظام کا مالک ہے۔ المآئدہ
96 تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے، تاکہ وہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنے، لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب کو جمع کر کے لے جایا جائے گا۔ المآئدہ
97 اللہ نے کعبے کو جو بڑی حرمت والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام امن کا ذریعہ بنا دیا ہے، نیز حرمت والے مہینے، نذرانے کے جانوروں اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے پٹوں کو بھی (امن کا ذریعہ بنایا ہے) (٦٧)۔ یہ سب اس لیے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے، اور اللہ ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔ المآئدہ
98 یہ بات بھی جان رکھو کہ اللہ عذاب دینے میں سخت ہے، اور یہ بھی کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ المآئدہ
99 رسول پر سوائے تبلیغ کرنے کے کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔ اور جو کچھ تم کھلے بندوں کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو، اللہ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔ المآئدہ
100 (اے رسول ! لوگوں سے) کہہ دو کہ ناپاک اور پاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں، چاہے تمہیں ناپاک چیزوں کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ (٦٨) لہذا اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ المآئدہ
101 اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (٦٩) (البتہ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔ المآئدہ
102 تم سے پہلے ایک قوم نے اس قسم کے سوالات کیے تھے، پھر ان (کے جو جوابات دیے گئے ان) سے منکر ہوگئے۔ (٧٠) المآئدہ
103 اللہ نے کسی جانور کو نہ بحیرہ بنانا طے کیا ہے، نہ سائبہ، نہ وصیلہ اور نہ حامی (٧١) لیکن جن لوگوں نے کفر اپنایا ہوا ہے وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگوں کو صحیح سمجھ نہیں ہے۔ المآئدہ
104 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کلام نازل کیا ہے، اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے جس (دین پر) اپنے باپ دادوں کو پایا ہے، ہمارے لیے وہی کافی ہے۔ بھلا اگر ان کے باپ دادے ایسے ہوں کہ نہ ان کے پاس کوئی علم ہو، اور نہ کوئی ہدایت تو کیا پھر بھی (یہ انہی کے پیچھے چلتے رہیں گے؟) المآئدہ
105 اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (٧٢) اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ المآئدہ
106 اے ایمان والو ! (٧٣) جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں۔ پھر اگر تمہیں کوئی شک پڑجائے تو ان دو گواہوں کو نماز کے بعد روک سکتے ہو، اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کو ہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے۔ المآئدہ
107 پھر بعد میں اگر یہ پتہ چلے کہ انہوں نے (جھوٹ بول کر) اپنے اوپر گناہ کا بوجھ اٹھا لیا ہے تو ان لوگوں میں سے دو آدمی ان کی جگہ (گواہی کے لیے) کھڑے ہوجائیں جن کے خلاف ان پہلے دو آدمیوں نے گناہ اپنے سر لیا تھا (٧٤) اور وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان پہلے دو آدمیوں کی گواہی کے مقابلے میں زیادہ سچی ہے، اور ہم نے (اس گواہی میں) کوئی زیادتی نہیں کی ہے، ورنہ ہم ظالموں میں شمار ہوں گے۔ المآئدہ
108 اس طریقے میں اس بات کی زیادہ امید ہے کہ لوگ (شروع ہی میں) ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا اس بات سے ڈریں کہ ( جھوٹی گواہی کی صورت میں) ان کی قسموں کے بعد لوٹا کر دوسری قسمیں لی جائیں گی (جو ہماری تردید کردیں گے) اور اللہ سے ڈرو، اور (جو کچھ اس کی طرف سے کہا گیا ہے اسے قبول کرنے کی نیت سے) سنو۔ اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ المآئدہ
109 وہ دن یاد کرو جب اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا، اور کہے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں، پوشیدہ باتوں کا تمام تر علم تو آپ ہی کے پاس ہے۔ (٧٥) المآئدہ
110 (یہ واقعہ اس دن ہوگا) جب اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ابن مریم میرا انعام یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا، جب میں نے روح القدس کے ذریعے تمہاری مدد کی تھی۔ (٧٦) تم لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتے تھے، اور بڑی عمر میں بھی۔ اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی تھی، اور جب تم میرے حکم سے گارا لے کر اس سے پرندے کی جیسی شکل بناتے تھے، پھر اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے (سچ مچ کا) پرندہ بن جاتا تھا، اور تم مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کردیتے تھے، اور جب تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ) نکال کھڑا کرتے تھے، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت تم سے دور رکھا جب تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔ المآئدہ
111 جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ : تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ، تو انہوں نے کہا : ہم ایمان لے آئے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔ المآئدہ
112 (اور ان کے اس واقعے کا بھی ذکر سنو) جب حواریوں نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا آپ کا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (کھانے کا) ایک خوان اتارے؟ عیسیٰ نے کہا : اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (٧٧) المآئدہ
113 انہوں نے کہا : ہم چاہتے ہیں کہ اس خوان سے کھانا کھائیں، اور اس کے ذریعے ہمارے دل پوری طرح مطمئن ہوجائیں، اور ہمیں (پہلے سے زیادہ یقین کے ساتھ) یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے ہم سے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے، اور ہم اس پر گواہی دینے والوں میں شامل ہوجائیں۔ المآئدہ
114 (چنانچہ) عیسیٰ ابن مریم نے درخواست کی کہ : یا اللہ ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار دیجیے جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ایک خوشی کا موقع بن جائے، اور آپ کی طرف سے ایک نشانی ہو۔ اور ہمیں یہ نعمت عطا فرما ہی دیجیے، اور آپ سب سے بہتر عطا فرمانے والے ہیں۔ المآئدہ
115 اللہ نے کہا کہ : میں بیشک تم پر وہ خوان اتار دوں گا، لیکن اس کے بعد تم میں سے جو شخص بھی کفر کرے گا اس کو میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا جہان کے کسی بھی شخص کو نہیں دوں گا۔ (٧٨) المآئدہ
116 اور (اس وقت کا بھی ذکر سنو) جب اللہ کہے گا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو معبود بناؤ؟ (٧٩) وہ کہیں گے : ہم تو آپ کی ذات کو (شرک سے) پاک سمجھتے ہیں۔ میری مجال نہیں تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کو یقینا معلوم ہوجاتا۔ آپ وہ باتیں جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیِ اور میں اور آپ کی پوشیدہ باتوں کو نہیں جانتا۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے۔ المآئدہ
117 میں نے ان لوگوں سے اس کے س وا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، اور وہ یہ کہ : اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ اور جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، میں ان کے حالات سے واقف رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگراں تھے، اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں۔ المآئدہ
118 اگر آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں ہی، اور اگر آپ انہیں معاف فرمادیں تو یقینا آپ کا اقتدار بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔ المآئدہ
119 اللہ کہے گا کہ : یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا۔ ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہے اور یہ اس سے خوش ہیں۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔ المآئدہ
120 تمام آسمانوں اور زمین میں اور ان میں جو کچھ ہے اس سب کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ المآئدہ
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الانعام
1 تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور اندھیریاں اور روشنی بنائیَ پھر بھی جن لوگوں کفر اپنا لیا ہے وہ دوسروں کو (خدائی میں) اپنے پروردگار کے برابر قرار دے رہے ہیں۔ الانعام
2 وہی ذات ہے جس نے تم کو گیلی مٹی سے پیدا کیا، پھر (تمہاری زندگی کی) ایک میعاد مقرر کردی، اور (دوبارہ زندہ ہونے کی) ایک متعین میعاد اسی کے پاس ہے (١) پھر بھی تم شک میں پڑے ہوئے ہو۔ الانعام
3 اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے، اور زمین میں بھی۔ وہ تمہارے چھپے ہوئے بھید بھی جانتا ہے اور کھلے ہوئے حالات بھی، اور جو کچھ کمائی تم کر رہے ہو، اس سے بھی واقف ہے۔ الانعام
4 اور (ان کافروں کا حال یہ ہے کہ) ان کے پاس ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جب بھی کوئی نشانی آتی ہے، تو یہ لوگ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ الانعام
5 چنانچہ جب حق ان کے پاس آگیا تو ان لوگوں نے اسے جھٹلا دیا۔ نتیجہ یہ کہ جس بات کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں، جلد ہی ان کو اس کی خبریں پہنچ جائیں گی۔ (٢) الانعام
6 کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو تمہیں نہیں دیا۔ ہم نے ان پر آسمان سے خوب بارشیں بھیجیں، اور ہم نے دریاؤں کو مقرر کردیا کہ وہ ان کے نیچے بہتے رہیں۔ لیکن پھر ان کے گناہوں کی وجہ سے ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ اور ان کے بعد دوسری نسلیں پیدا کیں۔ الانعام
7 اور (ان کافروں کا حال یہ ہے کہ) اگر ہم تم پر کوئی ایسی کتاب نازل کردیتے جو کاغذ پر لکھی ہوئی ہوتی، پھر یہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ پھر بھی یہی کہتے کہ یہ کھلے ہوئے جادو کے سوا کچھ نہیں۔ الانعام
8 اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ : اس (پیغمبر) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ حالانکہ اگر ہم کوئی فرشتہ اتار دیتے تو سارا کام ہی تمام ہوجاتا (٣) پھر ان کو کوئی مہلت نہ دی جاتی الانعام
9 اور اگر ہم فرشتے ہی کو پیغمبر بناتے، تب بھی اسے کسی مرد ہی (کی شکل میں) بناتے، اور ان کو پھر ہم اسی شب ہے میں ڈال دیتے جس میں اب مبتلا ہیں۔ (٤) الانعام
10 اور (اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے جن لوگوں نے مذاق اڑایا تھا ان کو اسی چیز نے آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ الانعام
11 (ان کافروں سے) کہو کہ : ذرا زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ (پیغمبروں کو) جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ (٥) الانعام
12 (ان سے) پوچھو کہ : آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کی ملکیت ہے؟ (پھر اگر وہ جواب نہ دیں تو خود ہی) کہہ دو کہ : اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ اس نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے۔ (اس لیے توبہ کرلو تو پچھلے سارے گناہ معاف کردے گا، ورنہ) وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، (لیکن) جن لوگوں نے اپنی جانوں کے لیے گھاٹے کا سودا کر رکھا ہے وہ (اس حقیقت پر) ایمان نہیں لاتے۔ الانعام
13 اور رات اور دن میں جتنی مخلوقات آرام پاتی ہیں، سب اسی کے قبضے میں ہیں (٦) اور وہ ہر بات کو سنتا، ہر چیز کو جانتا ہے۔ الانعام
14 کہہ دو کہ : کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رکھوالا بناؤں؟ (اس اللہ کو چھوڑ کر) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جو سب کو کھلاتا ہے، کسی سے کھاتا نہیں؟ کہہ دو کہ : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ فرمانبرداری میں سب لوگوں سے پہل کرنے والا میں بنوں۔ اور تم مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔ الانعام
15 کہہ دو کہ : اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف ہے۔ الانعام
16 جس کسی شخص سے اس دن وہ عذاب ہٹا دیا گیا، اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا، اور یہی واضح کامیابی ہے۔ الانعام
17 اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو خود اس کے سوا اسے دور کرنے والا کوئی نہیں، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہی ہے۔ الانعام
18 اور وہ اپنے بندوں کے اوپر مکمل اقتدار رکھتا ہے، اور وہ حکیم بھی ہے، پوری طرح باخبر بھی الانعام
19 کہو : کون سی چیز ایسی ہے جو (کسی بات کی) گواہی دینے کے لیے سب سے اعلی درجے کی ہو ؟ کہو : اللہ (اور وہی) میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اور مجھ پر یہ قرآن وحی کے طور پر اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے میں تمہیں ڈراؤں، اور ان سب کو بھی جنہیں یہ قرآن پہنچے۔ کیا سچ مچ تم یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دو کہ : میں تو ایسی گواہی نہیں دوں گا۔ کہہ دو کہ : وہ تو صرف ایک خدا ہے اور جن جن چیزوں کو تم اس کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔ الانعام
20 جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان کو (یعنی خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) اس طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (پھر بھی) جن لوگوں نے اپنی جانوں کے لیے گھاٹے کا سودا کر رکھا ہے، وہ اہمان نہیں لاتے۔ الانعام
21 اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے، یا اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے؟ یقین رکھو کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاسکتے۔ الانعام
22 اس دن (کو یاد رکھو) جب ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، پھر جن لوگوں نے شرک کیا ہوگا ان سے پوچھیں گے کہ : کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کے بارے میں تم یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ خدائی میں اللہ کے شریک ہیں؟ الانعام
23 اس وقت ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہوگا، سوائے اس کے کہ وہ کہیں گے : اللہ کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم تو مشرک نہیں تھے۔ (٧) الانعام
24 دیکھو یہ اپنے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول جائیں گے، اور جو (معبود) انہوں نے جھوٹ موٹ تراش رکھے تھے، ان کا انہیں کوئی سراغ نہیں مل سکے گا۔ الانعام
25 اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں، مگر (چونکہ یہ سننا طلب حق کے بجائے ضد پر اڑے رہنے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے) ہم نے ان کے دلوں پر ایسے پردے ڈال دییے ہیں کہ وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں، اور ان کے کانوں میں بہرا پن پیدا کردیا ہے۔ اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کے لیے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پچھلے سلوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں۔ الانعام
26 اور یہ دوسروں کو بھی اس (قرآن) سے روکتے ہیں، اور خود بھیا س سے دور رہتے ہیں۔ اور (اس طرح) وہ اپنی جانوں کے سوا کسی اور کو ہلاکت میں نہیں ڈال رہے، لیکن ان کو احساس نہیں ہے۔ الانعام
27 اور (بڑا ہولناک نظارہ ہوگا) اگر تم وہ وقت دیکھو جب ان کو دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا، اور یہ کہیں گے : اے کاش ! ہمیں واپس (دنیا میں) بھیج دیا جائے، تاکہ اس بار ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ہمارا شمار مومنوں میں ہوجائے۔ الانعام
28 حالانکہ (ان کی یہ آرزو بھی سچی نہ ہوگی) بلکہ دراصل وہ چیز (یعنی آخرت) ان کے سامنے کھل کر ااچکی ہوگی جسے وہ پہلے چھپایا کرتے تھے (اس لیے مجبورا یہ دعوی کریں گے) ورنہ اگر ان کو واقعی واپس بھیجا جائے تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے، اور یقین جانو یہ پکے جھوٹے ہیں۔ الانعام
29 یہ تو یوں کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور ہم مر کر دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے۔ الانعام
30 اور اگر تم وہ وقت دیکھو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ وہ کہے گا : کیا یہ (دوسری زندگی) حق نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے : بیشک ہمارے رب کی قسم ! اللہ کہے گا : تو پھر چکھو عذاب کا مزہ، کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے۔ الانعام
31 حقیقت یہ ہے کہ بڑے خسارے میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے جا ملنے کو جھٹلایا ہے، یہاں تک کہ جب قیامت اچانک ان کے سامنے آکھڑی ہوگی تو وہ کہیں گے : ہائے افسوس ! کہ ہم نے اس (قیامت) کے بارے میں بڑی کوتاہی کی۔ اور وہ (اس وقت) اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ (لہذا) خبردار رہو کہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ لوگ اٹھا رہے ہیں۔ الانعام
32 اور دنیوی زندگی تو ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں (٨) اور یقن جانو کہ جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے آخرت والا گھر کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تو کیا اتنی سی بات تمہاری عقل میں نہیں آتی؟ الانعام
33 (اے رسول) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں (٩) الانعام
34 اور حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا ہے۔ پھر جس طرح انہیں جھٹلایا گیا اور تکلیفیں دی گئیں، اس سب پر انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو پہنچ گئی۔ اور کوئی نہیں ہے جو اللہ کی باتوں کو بدل سکے اور (پچھلے) رسولوں کے کچھ واقعات آپ تک پہنچ ہی چکے ہیں۔ الانعام
35 اور اگر ان لوگوں کا منہ موڑے رہنا تمہیں بہت بھاری معلوم ہورہا ہے تو اگر تم زمین کے اندر (جانے کے لیے) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے کے لیے) کوئی سیڑھی ڈھونڈ سکتے ہو تو ان کے پاس (ان کا منہ مانگا یہ) معجزہ لے آؤ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ لہذا تم نادانوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔ (١٠) الانعام
36 بات تو وہی لوگ مان سکتے ہیں جو (حق کے طالب بن کر) سنیں۔ جہاں تک ان مردوں کا تعلق ہے ان کو تو اللہ ہی قبروں سے اٹھائے گا، پھر یہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ الانعام
37 یہ لوگ کہتے ہیں کہ (اگر یہ نبی ہیں تو) ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ تم (ان سے) کہو کہ اللہ بیشک اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی نازل کردے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ ( اس کا انجام) نہیں جانتے۔ (١١) الانعام
38 اور زمین میں جتنے جانور چلتے ہیں، اور جتنے پرندے اپنے پروں سے اڑتے ہیں، وہ سب مخلوقات کی تم جیسی ہی اصناف ہیں۔ ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر ان سب کو جمع کر کے ان کے پروردگار کی طرف لے جایا جائے گا۔ (١٢) الانعام
39 اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے وہ اندھیروں میں بھٹکتے بھٹکتے بہرے اور گونگے ہوچکے ہیں۔ (١٣) اللہ جسے چاہتا ہے، (اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے) گمراہی میں ڈال دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ الانعام
40 (ان کافروں) سے کہو : اگر تم سچے ہو تو ذرا یہ بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے، یا تم پر قیامت ٹوٹ پڑے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ الانعام
41 بلکہ اسی کو پکارو گے، پھر جس پر یشانی کے لیے تم نے اسے پکارا ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے دور کردے گا، اور جن (دیوتاؤں) کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو (اس وقت) ان کو بھول جاؤ گے۔ (١٤) الانعام
42 اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کے پاس پیغمبر بھیجے، پھر ہم نے (ان کی نافرمانی کی بنا پر) انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں گرفتار کیا، تاکہ وہ عجز و نیاز کا شیوہ اپنائیں۔ الانعام
43 پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تھی، اس وقت وہ عاجزی کا رویہ اختیار کرتے؟ بلکہ ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، شیطان نے انہیں یہ سجھایا کہ وہی بڑے شاندار کام ہیں۔ الانعام
44 پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے (١٥) یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔ الانعام
45 اس طرح جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی، اور تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ الانعام
46 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے، تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لاکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔ الانعام
47 کہو : ذرا یہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تمہارے پاس اچانک آئے یا اعلان کرکے، دونوں صورتوں میں کیا ظالموں کے سوا کسی اور کو ہلاک کیا جائے گا؟ (١٦) الانعام
48 ہم پیغمبروں کو اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ (نیکیوں پر) خوشخبری سنائی (اور نافرمانی پر اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں۔ چنانچہ جو لوگ ایمان لے آئے اور اپنی اصلاح کرلی، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، اور نہ و غمگین ہوں گے۔ الانعام
49 اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچ کر رہے گا، کیونکہ وہ نافرمانی کے عادی تھے۔ الانعام
50 (اے پیغمبر !) ان سے کہو : میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا (پورا) علم رکھتا ہوں، اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں (١٧) میں تو صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔ کہو کہ : کیا ایک اندھا اور دوسرا بینائی رکھنے والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ پھر کیا تم غور نہیں کرتے؟ الانعام
51 اور (اے پیغمبر) تم اس وحی کے ذریعے ان لوگوں کو خبردار کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ ان کو ان کے پروردگار کے پاس ایسی حالت میں جمع کر کے لایا جائے گا کہ اس کے سوا نہ ان کا کوئی یارومددگار ہوگا، نہ کوئی سفارشی (١٨) تاکہ وہ لوگ تقوی اختیار کرلیں۔ الانعام
52 اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پکارتے رہتے ہیں۔ (١٩) ان کے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اور تمہارے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے جس کی وجہ سے تم انہیں نکال باہر کرو، اور ظالموں میں شامل ہوجاؤ۔ الانعام
53 اسی طرح ہم نے کچھ لوگوں کو کچھ دوسروں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے (٢٠) تاکہ وہ (ان کے بارے میں) یہ کہیں کہ : کیا یہ ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے ہم سب کو چھوڑ کر احسان کرنے کے لیے چنا ہے؟ (٢١) کیا (جو کافر یہ بات کہہ رہے ہیں ان کے خیال میں) اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو دوسروں سے زیادہ نہیں جانتا؟ الانعام
54 اور جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہو : سلامتی ہو تم پر ! تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت کا یہ معاملہ کرنا لازم کرلیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی سے کوئی برا کام کر بیٹھے، پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ الانعام
55 اور ہم اسی طرح نشانیاں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں (تاکہ سیدھا راستہ بھی واضح ہوجائے) اور تاکہ مجرموں کا راستہ بھی کھل کر سامنے آجائے الانعام
56 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : تم اللہ کے سوا جن (جھوٹے خداؤں) کو پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کہو کہ : میں تمہاری خواہشات کے پیچھے نہیں چل سکتا۔ اگر میں ایسا کروں تو گمراہ ہوں گا، اور میرا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوگا۔ الانعام
57 کہو کہ : مجھے اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل مل چکی ہے جس پر میں قائم ہوں، اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے، جس چیز کے جلدی آنے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے پاس موجود نہیں ہے۔ (٢٢) حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ وہ حق بات بیان کردیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ الانعام
58 کہو کہ : جس چیز کی تم جلدی مچا رہے ہو، اگر وہ میرے پاس ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ الانعام
59 اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جس کا اسے علم نہ ہو، اور زمین کی اندھیریوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں ہے جو ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔ الانعام
60 اور وہی ہے جو رات کے وقت (نیند میں) تمہاری روح (ایک حد تک) قبض کرلیتا ہے اور دن بھر میں تم نے جو کچھ کیا ہوتا ہے، اسے خوب جانتا ہے، پھر اس (نئے دن) میں تمہیں زندگی دیتا ہے، تاکہ (تمہاری عمر کی) مقررہ مدت پوری ہوجائے۔ پھر اسی کے پاس تم کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کیا کرتے تھے الانعام
61 وہی اپنے بندوں پر مکمل اقتدار رکھتا ہے اور تمہارے لیے نگہبان (فرشتے) بھیجتا ہے۔ (٢٣) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کو پورا پورا وصول کرلیتے ہیں، اور وہ ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے۔ الانعام
62 پھر ان سب کو اللہ کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جو ان کا مولائے برحق ہے۔ یاد رکھو ! حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ سب سے زیادہ جلدی حساب لینے والا ہے۔ الانعام
63 کہو : خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے اس وقت کون تمہیں نجات دیتا ہے جب تم اسے گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارتے ہو، (اور یہ کہتے ہو کہ) اگر اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیں گے ؟ الانعام
64 کہو : اللہ ہی تمہیں اس مصیبت سے بھی بچاتا ہے اور ہر دوسری تکلیف سے بھی، پھر بھی تم شرک کرتے ہو؟ الانعام
65 کہو کہ : وہ اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (نکال دے) یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھڑا دے، اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ! ہم کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں واضح کر رہے ہیں تاکہ یہ کچھ سمجھ سے کام لے لیں۔ الانعام
66 اور (اے پیغبر) تمہاری قوم نے اس (قرآن) کو جھٹلایا ہے، حالانکہ وہ بالکل حق ہے۔ تم کہہ دو کہ : مجھ کو تمہاری ذمہ داری نہیں سونپی گئی (٢٤) الانعام
67 ہر واقعے کا ایک وقت مقرر ہے، اور جلد ہی تمہیں سب معلوم ہوجائے گا۔ الانعام
68 اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کو برا بھلا کہنے میں لگے ہوئے ہیں، تو ان سے اس وقت تک کے لیے الگ ہوجاؤ جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو الانعام
69 ان کے کھاتے میں جو اعمال ہیں ان کی کوئی ذمہ داری پرہیزگاروں پر عائد نہیں ہوتی۔ البتہ نصیحت کردینا ان کا کام ہے، شاید وہ بھی (ایسی باتوں سے) پرہیز کرنے لگیں۔ الانعام
70 اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے (٢٥) اور جن کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، اور اس (قرآن) کے ذریعے (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے سبب اس طرح گرفتار ہوجائے کہ اللہ ( کے عذاب) سے بچانے کے لیے اللہ کو چھوڑ کر نہ کوئی اس کا یارومددگار بن سکے نہ سفارشی، اور اگر وہ (اپنی رہائی کے لیے) ہر طرح کا فدیہ بھی پیش کرنا چاہے تو اس سے وہ قبول نہ کیا جائے۔ (چنانچہ) یہی (دین کو کھیل تماشا بنانے والے) وہ لوگ ہیں جو اپنے کیے کی بدولت گرفتار ہوگئے ہیں۔ چونکہ انہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اس لیے ان کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور ایک دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔ الانعام
71 (اے پیغمبر) ان سے کہو : کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پکاریں جو ہمیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں، نہ نقصان اور جب اللہ ہمیں ہدایت دے چکا ہے تو کیا اس کے بعد بھی ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ (اور) اس شخص کی طرح (ہوجائیں) جسے شیطان بہکا کر صحرا میں لے گئے ہوں، اور وہ حیرانی کے عالم میں بھٹکتا پھرتا ہو، اس کے کچھ ساتھی ہوں جو اسے ٹھیک راستے کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آجاؤَ کہو کہ : اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی صحیح معنی میں ہدایت ہے، اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے آگے جھک جائیں۔ الانعام
72 اور یہ (حکم دیا گیا ہے) کہ : نماز قائم کرو، اور اس (کی نافرمانی) سے ڈرتے رہو، اور وہی ہے جس کی طرف تم سب کو اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا۔ الانعام
73 اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، (٢٦) اور جس دن وہ (روز قیامت سے) کہے گا کہ : تو ہوجا تو وہ ہوجائے گا۔ اس کا قول برحق ہے۔ اور جس دن صورت پھونکا جائے گا، اس دن بادشاہی اسی کی ہوگی (٢٧) وہ غائب و حاضر ہر چیز کو جاننے والا ہے، اور وہی بڑی حکمت والا، پوری طرح باخبر ہے الانعام
74 اور (اس وقت کا ذکر سنو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کہ : کیا آپ بتوں کو خدا بنائے بیٹھے ہیں؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اور آپ کی قوم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ الانعام
75 اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے و الوں میں شامل ہوں۔ الانعام
76 چنانچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارا دیکھا۔ کہنے لگے : یہ میرا رب ہے (٢٨) پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا : میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ الانعام
77 پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ : یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے : اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔ الانعام
78 پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔ الانعام
79 میں نے تو پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ الانعام
80 اور (پھر یہ ہوا کہ) ان کی قوم نے ان سے حجت شروع کردی۔ (٢٩) ابراہیم نے (ان سے) کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو جبکہ اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے ؟ اور جن چیزوں کو تم اللہ کے ساتھ شریک مانتے ہو، میں ان سے نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچا دیں گی) الا یہ کہ میرا پروردگار (مجھے) کچھ (نقصان پہنچانا) چاہے (تو وہ ہر حال میں پہنچے گا) میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر بھی کوئی نصیحت نہیں مانتے؟ الانعام
81 اور جن چیزوں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، میں ان سے کیسے ڈر سکتا ہوں جبکہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک ماننے سے نہیں ڈرتے جن کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے؟ اب اگر تمہارے پاس کوئی علم ہے تو بتاؤ کہ ہم دو فریقوں میں سے کون بے خوف رہنے کا زیادہ مستحق ہے ؟ الانعام
82 (حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا (٣٠) امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے، اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔ الانعام
83 یہ ہماری وہ کامیاب دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں عطا کی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ بیشک تمہارے رب کی حکمت بھی بڑی ہے، علم بھی کامل ہے۔ الانعام
84 اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو اہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ الانعام
85 اور زکریا، یحی، عیسیٰ اور الیاس کو (بھی ہدایت عطا فرمائی) یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔ الانعام
86 نیز اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط کو بھی۔ اور ان سب کو ہم نے دنیا جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی۔ الانعام
87 اور ان کے باپ دادوں، ان کی اولادوں اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بہت سے لوگوں کو۔ ہم نے ان سب کو منتخب کر کے راہ راست تک پہنچا دیا تھا۔ الانعام
88 یہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے۔ اور اگر وہ شرک کرنے لگتے تو ان کے سارے (نیک) اعمال اکارت ہوجاتے۔ الانعام
89 وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب، حکمت اور نبوت عطا کی تھی۔ (٣١) اب اگر یہ (عرب کے) لوگ اس (نبوت) کا انکار کریں تو (کچھ پروا نہ کرو، کیونکہ) اس کے ماننے کے لیے ہم نے ایسے لوگ مقرر کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں۔ (٣٢) الانعام
90 یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اللہ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔ (مخالفین سے) کہہ دو کہ میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو دنیا جہان کے سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے، اور بس۔ الانعام
91 اور ان (کافر) لوگوں نے جب یہ کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا تو انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی۔ (٣٣) (ان سے) کہو کہ : وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ لے کر آئے تھے، جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، اور جس کو تم نے متفرق کاغذوں کی شکل میں رکھا ہوا ہے۔ (٣٤) جن (میں سے کچھ) کو تم ظاہر کرتے ہو، اور بہت سے حصے چھپا لیتے ہو، اور (جس کے ذریعے) تم کو ان باتوں کی تعلیم دی گئی تھی جو نہ تم جانتے تھے، نہ تمہارے باپ دادا؟ (اے پیغمبر ! تم خود ہی اس سوال کے جواب میں) اتنا کہہ دو کہ : وہ کتاب اللہ نے نازل کی تھی۔ پھر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ یہ اپنی بے ہودہ گفتگو میں مشغول رہ کر دل لگی کرتے رہیں۔ الانعام
92 اور (اسی طرح) یہ بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے، پچھلی آسمانی ہدایات کی تصدیق کرنے والی ہے، تاکہ تم اس کے ذریعے بستیوں کے مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو خبردار کرو۔ اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اور وہ اپنی نماز کی پوری پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ الانعام
93 اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے، اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمے لگاتے تھے، اور اس لئے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرکا رویہ اختیار کرتے تھے۔ الانعام
94 (پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ) تم ہمارے پاس اسی طرح تن تنہا آگئے ہوجیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور جو کچھ ہم نے تمہیں بخشا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور ہمیں تو تمہارے وہ سفارشی کہیں نظر نہیں آرہے جن کے بارے میں تمہارا دعوی تھا کہ وہ تمہارے معاملات طے کرنے میں (ہمارے ساتھ) شریک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمہارے سارے تعلقات ٹوٹ چکے ہیں اور جن (دیوتاؤں) کے بارے میں تمہیں بڑا زعم تھا وہ سب تم سے گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ الانعام
95 بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ جاندار چیزوں کو بے جان چیزوں سے نکال لاتا ہے، اور وہی بے جان چیزوں کو جاندار چیزوں سے نکالنے والا ہے۔ (٣٥) لوگو ! وہ ہے اللہ پھر کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لئے جارہا ہے ؟ (٣٦) الانعام
96 وہی ہے جس کے حکم سے صبح کو پو پھٹتی ہے، اور اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے، اور سورج اور چاند کو ایک حساب کا پابند ! یہ سب کچھ اس ذات کی منصوبہ بندی ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، علم بھی کامل الانعام
97 اور اسی نے تمہارے لیے ستارے بنائے ہیں، تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستے معلوم کرسکو۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کر کے کھول دی ہیں (مگر) ان لوگوں کے لیے جو علم سے کام لیں الانعام
98 وہی ہے جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر ہر شخص کا ایک مستقر ہے، اور ایک امانت رکھنے کی جگہ (٣٧)۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کرکے کھول دی ہیں، (مگر) ان لوگوں کے لیے جو سمجھ سے کام لیں۔ الانعام
99 اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر قسم کی کونپلیں اگائیں۔ ان (کونپلوں) سے ہم نے سبزیاں پیدا کیں جن سے ہم تہہ بر تہہ دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے گابھوں سے پھلوں کے وہ گچھے نکلتے ہیں جو (پھل کے بوجھ سے) جھکے جاتے ہیں، اور ہم نے انگوروں کے باغ اگائے، اور زیتون اور انار۔ جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ (٣٨) جب یہ درخت پھل دیتے ہیں تو ان کے پھلوں اور ان کے پکنے کی کیفیت کو غور سے دیکھو۔ لوگو ! ان سب چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں (مگر) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔ الانعام
100 اور لوگوں نے جنات کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک قرر دے لیا، (٣٩) حالانکہ اللہ نے ہی ان کو پیدا کیا ہے۔ اور مجھ بوجھ کے بغیر اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں۔ (٤٠) حالانکہ اللہ کے بارے میں جو باتیں یہ بناتے ہیں وہ ان سب سے پاک اور بالاوبرتر ہے۔ الانعام
101 وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجود ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کہاں ہوسکتا ہے، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں؟ اسی نے ہر چیز پیدا کی ہے اور وہ ہر ہر چیز کا پورا پورا علم رکھتا ہے۔ الانعام
102 لوگو ! وہ ہے اللہ جو تمہارا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہذا اس کی عبادت کرو۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کرنے والا ہے۔ الانعام
103 نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں، اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس کی ذات اتنی ہی لطیف ہے، اور وہ اتنا ہی باخبر ہے۔ (٤١) الانعام
104 (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کے سامان پہنچ چکے ہیں۔ اب جو شخص آنکھیں کھول کر دیکھے گا، وہ اپنا ہی بھلا کرے گا، اور جو شخص اندھا بن جائے گا، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور مجھے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے۔ (٤٢) الانعام
105 اسی طرح ہم آیتیں مختلف طریقوں سے بار بار واضح کرتے ہیں (تاکہ تم انہیں لوگوں تک پہنچا دو) اور بالآخر یہ لوگ تو یوں کہیں کہ : تم نے کسی سے سیکھا ہے (٤٣) اور جو لوگ علم سے کام لیتے ہیں ان کے لیے ہم حق کو آشکار کردیں۔ الانعام
106 (اے پیغبر) تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے جو وحی بھیجی گئی ہے، تم اسی کی پیروی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور جو لوگ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ان سے بے پروا ہوجاؤ۔ الانعام
107 اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے (٤٤) ہم نے نہ تمہیں ان کی حفاظت پر مقرر کیا ہے اور نہ تم ان کاموں کے ذمہ دار ہو۔ (٤٥) الانعام
108 (مسلمانو) جن (جھوٹے معبودوں) کو یہ لوگ اللہ کے بجائے پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہو، جس کے نتیجے میں یہ لوگ جہالت کے عالم میں حد سے آگے بڑھ کر اللہ کو برا کہنے لگیں۔ (٤٦) (اس دنیا میں تو) ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے عمل کو اس کی نظر میں خوشنما بنا رکھا ہے۔ (٤٧) پھر ان سب کو اپنے پروردگار ہی کے پاس لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کیا کرتے تھے۔ الانعام
109 اور ان لوگوں نے بڑی زور دار قسمیں کھائی ہیں کہ اگر ان کے پاس واقعی کوئی نشانی (یعنی ان کا مطلوب معجزہ) آگئی تو یہ یقینا ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے (ان سے) کہو کہ : ساری نشانیاں اللہ کے قبضے میں ہیں۔ (٤٨) اور (مسلمانو) تمہیں کیا پتہ کہ اگر وہ (معجزے) آبھی گئے تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ الانعام
110 جس طرح یہ لوگ پہلی بار (قرآن جیسے معجزے پر) ایمان نہیں لائے، ہم بھی (ان کی ضد کی پاداش میں) ان کے دلوں اور نگاہوں کا رخ پھیر دیتے ہیں، اور ان کو اس حالت میں چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں۔ الانعام
111 اور اگر بالفرض ہم ان کے پاس فرشتے بھیج دیتے، اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے، اور (ان کی مانگی ہوئی) ہر چیز ہم کھلی آنکھوں ان کے سامنے لاکر کے رکھ دیتے (٤٩) تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے، الا یہ کہ اللہ ہی چاہتا (کہ انہیں زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو بات دوسری تھی، مگر ایسا ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر) لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (٥٠) الانعام
112 اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٥١) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔ الانعام
113 اور (وہ انبیاء کے دشمن چکنی چپڑی باتیں اس لیے بناتے تھے) تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے دل ان باتوں کی طرف خوب مائل ہوجائیں اور وہ ان میں مگن رہیں، اور ساری وہ حرکتیں کریں جو وہ کرنے والے تھے۔ الانعام
114 (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو فیصل بناؤں، حالانکہ اسی نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کرکے بھیجی ہے جس میں سارے (متنازعہ) معاملات کی تفصیل موجود ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ یقین سے جانتے ہیں کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر نازل ہوئی ہے۔ لہذا تم شک کرنے والوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔ الانعام
115 اور تمہارے رب کا کلام سچائی اور انصاف میں کامل ہے۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔ الانعام
116 اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر ڈالیں گے۔ وہ تو وہم و گمان کے سوا کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے، اور ان کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی اندازے لگاتے رہیں۔ الانعام
117 یقین رکھو کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اپنے راستے سے بھٹک رہا ہے، اور وہی ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو صحیح راستے پر ہیں۔ الانعام
118 چنانچہ ہر اس (حلال) جانور میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اگر تم واقعی اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۔ (٥٢) الانعام
119 اور تمہارے لیے کون سی رکاوٹ ہے جس کی بنا پر تم اس جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو؟ حالانکہ اس نے وہ چیزیں تمہیں تفصیل سے بتا دی ہیں جو اس نے تمہارے لیے (عام حالات میں) حرام قرار دی ہیں، البتہ جن کو کھانے پر تم بالکل مجبور ہی ہوجاؤ (تو ان حرام چیزوں کی بھی بقدر ضرورت اجازت ہوجاتی ہے) اور بہت سے لوگ کسی علم کی بنیاد پر نہیں (بلکہ صرف) اپنی خواہشات کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ بلا شبہ تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ الانعام
120 اور تم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہ چھوڑ دو۔ (٥٣) یہ یقینی بات ہے کہ جو لوگ گناہ کماتے ہیں، انہیں ان تمام جرائم کی جلد ہی سزا ملے گی جن کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔ الانعام
121 اور جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس میں سے مت کھاؤ، اور ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ (مسلمانو) شیاطین اپنے دوستوں کو ورغلاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں۔ اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم یقینا مشرک ہوجاؤ گے۔ الانعام
122 ذرا بتاؤ کہ جو شخص مردہ ہو، پھر ہم نے اسے زندگی دی ہو، اور اس کو ایک روشنی مہیا کردی ہو جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو (٥٤) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو جن سے کبھی نکل نہ پائے ؟ اسی طرح کافروں کو یہ سجھا دیا گیا ہے وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں، وہ بڑا خوشنما کام ہے۔ الانعام
123 اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے مجرموں کے سرغنوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اس (بستی) میں (مسلمانوں کے خلاف) سازشیں کیا کریں۔ (٥٥) اور وہ جو سازشیں کرتے ہیں، (درحقیقت) وہ کسی اور کے نہیں، بلکہ خود ان کے اپنے خلاف پڑتی ہیں، جبکہ ان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ الانعام
124 اور جب ان (اہل مکہ) کے پاس (قرآن کی) کوئی آیت آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس جیسی چیز خود ہمیں نہ دے دی جائے جیسی اللہ کے پیغمبروں کو دی گئی تھی۔ (٥٦) (حالانکہ) اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے۔ جن لوگوں نے (اس قسم کی) مجرمانہ باتیں کی ہیں ان کو اپنی مکاریوں کے بدلے میں اللہ کے پاس جاکر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔ الانعام
125 غرض جس شخص کو اللہ ہدایت تک پہنچانے کا ارادہ کرلے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جس کو (اس کی ضد کی وجہ سے) گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے، اس کے سینے کو تنگ اور اتنا زیادہ تنگ کردیتا ہے کہ (اسے ایمان لانا ایسا مشکل معلوم ہوتا ہے) جیسے اسے زبردستی آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہو۔ اسی طرح اللہ (کفر کی) گندگی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ الانعام
126 اور یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بتایا ہوا) سیدھا سیدھا راستہ ہے۔ جو لوگ نصیحت قبول کرتے ہیں، ان کے لیے ہم نے (اس راستے کی) نشانیاں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔ الانعام
127 ان کے پروردگار کے پاس سکھ چین کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے اور جو عمل وہ کرتے رہے ہیں ان کی وجہ سے وہ خود ان کا رکھوالا ہے۔ الانعام
128 اور (اس دن کا دھیان رکھو) جس دن اللہ ان سب کو گھیر کر اکٹھا کرے گا، اور (شیطانین جنات سے کہے گا کہ) اے جنات کے گروہ ! تم نے انسانوں کو بہت بڑھ چڑھ کر گمراہ کیا۔ اور انسانوں میں سے جو ان کے د وست ہوں گے، وہ کہیں گے : اے ہمارے پروردگار ! ہم ایک دوسرے سے خوب مزے لیتے رہے ہیں۔ (٥٧) اور اب اپنی اس میعاد کو پہنچ گئے ہیں جو آپ نے ہمارے لیے مقرر کی تھی۔ اللہ کہے گا ؛ (اب) آگ تم سب کا ٹھکانا ہے، جس میں تم ہمیشہ رہو گے، الا یہ کہ اللہ کچھ اور چاہے۔ (٥٨) یقین رکھو کہ تمہارے پروردگار کی حکمت بھی کامل ہے، علم بھی کامل۔ الانعام
129 اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ایک دوسرے پر مسلط کردیتے ہیں۔ (٥٩)۔ الانعام
130 اے جنات اور انسانوں کے گروہ ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ کر سناتے تھے (٦٠) اور تم کو اسی دن کا سامنا کرنے سے خبردار کرتے تھے جو آج تمہارے سامنے ہے ؟ وہ کہیں گے : (آج) ہم نے خود اپنے خلاف گواہی دے دی ہے (کہ واقعی ہمارے پاس پیغمبر آئے تھے، اور ہم نے انہیں جھٹلایا تھا) (٦١) اور (درحقیقت) ان کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا، اور (اب) انہوں نے خود اپنے خلاف گواہی دے دی کہ وہ کافر تھے۔ الانعام
131 یہ (پیغمبر بھیجنے کا) سارا سلسلہ اس لیے تھا کہ تمہارے پروردگار کو یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ بستیوں کو کسی زیادتی کی وجہسے (٦٢) اس حالت میں ہلاک کردے کہ اس کے لوگ بے خبر ہوں۔ الانعام
132 اور ہر قسم کے لوگوں کو مختلف درجات ان اعمال کے حساب سے ملتے ہیں جو انہوں نے کیے ہوتے ہیں۔ اور جو اعمال بھی وہ کرتے ہیں، تمہارا پروردگار ان سے غافل نہیں ہے۔ الانعام
133 اور تمہارا پروردگار ایسا بے نیاز ہے جو رحمت والا بھی ہے۔ (٦٣) اگر وہ چاہے تو تم سب کو (دنیا سے) اٹھا لے، اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہاری جگہ لے آئے، جیسے اس نے تم کو کچھ اور لوگوں کی نسل سے پیدا کیا تھا۔ (٦٤) الانعام
134 یقین رکھو کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے اس کو آنا ہی آنا ہے۔ (٦٥) اور تم (اللہ کو) عاجز نہیں کرسکتے۔ الانعام
135 (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے) کہو کہ : اے میری قوم ! تم اپنی جگہ (اپنے طریقے کے مطابق) عمل کرو، میں (اپنے طریقے کے مطابق) عمل کر رہا ہوں۔ پھر جلد ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس دنیا کا انجام کس کے حق میں نکلتا ہے۔ یہ حقیقت (اپنی جگہ) ہے کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ الانعام
136 اور اللہ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کیے ہیں ِ ان لوگوں نے ان میں سے اللہ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ (٦٦) چنانچہ بزعم خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے، اور یہ ہمارے ان معبودوں کا ہے جن کو ہم خدائی میں اللہ کا شریک مانتے ہیں۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسی بری بری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں۔ الانعام
137 اور اسی طرح بہت سے مشرکین کو ان کے شریکوں نے سجھا رکھا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل کرنا بڑا چھا کام ہے، تاکہ وہ ان (مشرکین) کو بالکل تباہ کر ڈالیں، اور ان کے لیے ان کے دین کے معاملے میں مغالطے پیدا کردیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٦٧) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔ الانعام
138 اور یوں کہتے ہیں کہ : ان چوپایوں اور کھیتیوں پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ ان کا زعم یہ ہے کہ : ان کو سوائے ان لوگوں کے کوئی نہیں کھا سکتا جنہیں ہم کھلانا چاہیں۔ (٦٨)۔ اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن کی پشت حرام قرار دی گئی ہے، (٦٩) اور کچھ چوپائے وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ پر یہ بہتان باندھتے ہیں کہ ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے۔ (٧٠) جو افترا پردازی یہ لوگ کر رہے ہیں، اللہ انہیں عنقریب اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ الانعام
139 نیز وہ کہتے ہیں کہ : ان خاص چوپایوں کے پیٹ میں جو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہیں، اور ہماری عورتوں کے لیے حرام ہیں۔ اور اگر وہ بچہ مردہ پیدا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانے میں سب (مرد و عورت) شریک ہوجاتے ہیں۔ (٧١) جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں، اللہ انہیں عنقریب ان کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یقینا وہ حکمت کا بھی مالک ہے، علم کا بھی مالک۔ الانعام
140 حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو کسی علمی وجہ کے بغیر محض حماقت سے قتل کیا ہے، اور اللہ نے جو رزق ان کو دیا تھا اسے اللہ پر بہتان باندھ کر حرام کرلیا ہے۔ وہ بری طرح گمراہ ہوگئے ہیں، اور کبھی ہدایت پر آئے ہی نہیں۔ الانعام
141 اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں، اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں، اور نخلستان اور کھیتیاں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ (٧٢) جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو، (٧٣) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ الانعام
142 اور چوپایوں میں سے اللہ نے وہ جانور بھی پیدا کیے ہیں جو بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ بھی جو زمین سے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ (٧٤) اللہ نے جو رزق تمہیں دیا ہے، اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو، وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔ الانعام
143 (مویشیوں کے) کل آٹھ جوڑے اللہ نے پیدا کیے ہیں، دو صنفیں (نر اور مادہ) بھیڑوں کی نسل سے اور دو بکریوں کی نسل سے۔ ذرا ان سے پوچھو کہ : کیا دونوں نروں کو اللہ نے حرام کیا ہے، یا دونوں مادہ کو؟ یا ہر اس بچے کو جو دونوں نسلوں کی مادہ کے پیٹ میں موجود ہو؟ اگر تم سچے ہو تو کسی علمی بنیاد پر مجھے جواب دو۔ (٧٥) الانعام
144 اور اسی طرح اونٹوں کی بھی دو صنفیں (نر اور مادہ اللہ نے) پیدا کی ہیں، اور گائے کی بھی دو صنفیں۔ ان سے کہو کہ : کیا دونوں نروں کو اللہ نے حرام کیا ہے، یا دونوں مادہ کو؟ یا ہر اس بچے کو جو دونوں نسلوں کی مادہ کے پیٹ میں موجود ہو؟ کیا تم اس وقت خود حاضر تھے جب اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا تھا؟ (اگر نہیں، اور یقینا نہیں) تو پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر اس لیے جھوٹ باندھے تاکہ کسی علمی بنیاد کے بغیر لوگوں کو گمراہ کرسکے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔ الانعام
145 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : جو وحی مجھ پر نازل کی گئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا کسی کھانے والے کے لیے حرام ہو (٧٦) الا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہتا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا جو ایسا گناہ کا جانور ہو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ ہاں جو شخص (ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر) انتہائی مجبور ہوجائے (٧٧) جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو، اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ الانعام
146 اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا، اور گائے اور بکری کے اجزاء میں سے ان کی چربیاں ہم نے حرام کی تھیں، البتہ جو چربی ان کی پشت پر یا آنتوں پر لگی ہو، یا جو کسی ہڈی سے ملی ہوئی ہو وہ مستثنی تھی۔ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی تھی۔ اور پورا یقین رکھو کہ ہم سچے ہیں۔ الانعام
147 پھر بھی اگر یہ (کافر) تمہیں جھٹلائیں تو کہہ دو کہ : تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے اور اس کے عذاب کو مجرموں سے ٹلایا نہیں جاسکتا۔ (٧٨) الانعام
148 جن لوگوں نے شرک اپنایا ہوا ہے وہ یہ کہیں گے کہ : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی بھی چیز کو حرام قرار دیتے، (٧٩) ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی اسی طرح (رسولوں کو) جھٹلایا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ تم ان سے کہو کہ : کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جو ہمارے سامنے نکال کر پیش کرسکو؟ تم تو جس چیز کے پیچھے چل رہے ہو وہ گمان کے سوا کچھ نہیں، اور تمہارا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہمی اندازے لگاتے رہو۔ الانعام
149 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : ایسی دلیل تو اللہ ہی کی ہے جو (دلوں تک) پہنچنے والی ہو۔ چنانچہ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (زبردستی) ہدایت پر لے آتا۔ (٨٠) الانعام
150 ان سے کہو کہ : اپنے وہ گواہ ذرا سامنے لاؤ جو یہ گواہی دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر اگر یہ خود گواہی دے بھی دیں تو تم ان کے ساتھ گواہی میں شریک نہ ہونا، اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے۔ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور جو دوسروں کو (خدائی میں) اپنے پروردگار کے برابر مانتے ہیں۔ الانعام
151 (ان سے) کہو کہ : آؤ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے (درحقیقت) تم پر کونسی باتیں حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی۔ اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی، (٨١) اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے اسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو ! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے۔ الانعام
152 اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے، اس وقت تک اس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اس کے حق میں) بہترین ہو، اور ناپ تول انصاف کے ساتھ وپرا پورا کیا کرو، (البتہ) اللہ کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا۔ (٨٢) اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو، چاہے معاملہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کا ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ (٨٣) لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ الانعام
153 اور (اے پیغمبر ! ان سے) یہ بھی کہو کہ : یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔ لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو۔ الانعام
154 پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ نیک لوگوں پر اللہ کی نعمت پوری ہو، اور ہر چیز کی تفصیل بیان کردی جائے، اور وہ (لوگوں کے لیے) رہنمائی اور رحمت کا سبب بنے، تاکہ وہ (آخرت میں) اپنے پروردگار سے جا ملنے پر ایمان لے آئیں۔ الانعام
155 اور (اسی طرح) یہ برکت والی کتاب ہے جو ہم نے نازل کی ہے۔ لہذا اس کی پیروی کرو، اور تقوی اختیار کرو، تاکہ تم پر رحمت ہو الانعام
156 (یہ کتاب ہم نے اس لیے نازل کی کہ) کبھی تم یہ کہنے لگو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں (یہود و نصاری) پر نازل کی گئی تھی، اور جو کچھ وہ پڑھتے پڑھاتے تھے، ہم تو اس سے بالکل بے خبر تھے۔ الانعام
157 یا یہ کہو کہ اگر ہم لوگوں پر کتاب نازل ہوجاتی تو ہم ان (یہودیوں اور عیسائیوں) سے یقینا زیادہ ہدایت پر ہوتے۔ لو ! پھر تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت و رحمت کا سامان آگیا ہے۔ اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑ لے ؟ جو لوگ ہماری آیتوں سے منہ موڑ رہے ہیں، ان کو ہم بہت برا عذاب دیں گے۔ کیونکہ وہ برابر منہ موڑے ہی رہے۔ الانعام
158 یہ (ایمان لانے کے لیے) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تمہارا پروردگار خود آئے، یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں؟ (حالانکہ) جس دن تمہارے پروردگار کی کوئی نشانی آگئی، اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لیے کار آمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو، یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو۔ (٨٤) (لہذا ان لوگوں سے) کہہ دو کہ : اچھا، انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔ الانعام
159 (اے پیغمبر) یقین جانو کہ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے، اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا معاملہ تو اللہ کے حوالے ہے۔ پھر وہ انہیں جتلائے گا کہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ الانعام
160 جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا ثوب ہے اور جو شخص کوئی بدی لے کر آئے گا، تو اس کو صرف اسی ایک بدی کی سزا دی جائے گی، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ الانعام
161 (اے پیغمبر) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے، ابراہیم کا دین۔ جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ الانعام
162 کہہ دو کہ : بیشک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ الانعام
163 اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والا ہوں۔ الانعام
164 کہہ دوکہ : کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور پروردگار تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے ؟ اور جو کوئی شخص کوئی کمائی کرتا ہے، اس کا نفع نقصان کسی اور پر نہیں، خود اسی پر پڑتا ہے۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (٨٥) پھر تمہارے پروردگار ہی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ ساری باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ الانعام
165 اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو دوسروں سے درجات میں بلندی عطا کی، تاکہ اس نے تمہیں جو نعمتیں دی ہیں ان میں تمہیں آزمائے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمہارا رب جلد سزا دینے والا ہے، اور یہ (بھی) حقیقت ہے کہ وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ الانعام
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الاعراف
1 الف لام میم صاد الاعراف
2 ( اے پیغمبر) یہ کتاب ہے (١) جو تم پر نازل کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو (انکار و بدعملی کی پاداش سے) خبردار ہوشیار کردو اور اس لیے کہ ایمان رکھنے والے کے لیے بیدار و نصیحت ہو۔ دیکھو ایسا نہ ہو کہ اس بارے میں کسی طرح کی تنگ دلی تمہارے اندر راہ پائے۔ الاعراف
3 (اے لوگو) جو کچھ تمہارے پروردگار کی جانب سے تم پر نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور خدا کو چھوڑ کر اپنے (ٹھہرائے ہوئے) مددگاروں کے پیچھے نہ چلو (افسوس تم پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو۔ الاعراف
4 اور (٢) (دیکھو کہ) کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے (پاداش عمل میں) ہلاک کردیا۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ لوگ راتوں کو بے خبر سو رہے تھے یا دوپہر کے وقت استراحت میں تھے کہ اچانک عذاب کی سختی نمودار ہوگئی۔ الاعراف
5 پھر جب عذاب کی سختی نمودار ہوئی تو (انکار و شرارت کا سارا دم خم جاتا رہا) اس وقت ان کی پکار اس کے سوا کچھ بھی نہ تھی کہ بلا شبہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔ الاعراف
6 تو دیکھو یقینا ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں گے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے (کہ انہوں نے پیغمبروں کی دعوت پر کان دھرا یا نہیں) اور یقینا پیغمبروں سے بھی باز پرس ہوگی (کہ انہوں نے فرض رسالت ادا کیا یا نہیں) الاعراف
7 اور پھر یقینا ایسا ہوگا کہ (ان کے اعمال کی سرگزشت) ہم اپنے علم سے سنا دیں گے اور ہم غائب نہ تھے (کہ بے خبر ہوں) الاعراف
8 اور اس دن (١) (اعمال کا) تولنا برحق ہے۔ پھر جس کسی (کی نیکیوں) کا پلہ بھاری نکلے گا تو کامیابی اسی کے لیے ہوگی۔ الاعراف
9 اور جس کا پلہ ہلکا ہوا تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا، کیونکہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔ الاعراف
10 اور (دیکھو) ہم نے تمہیں (یعنی نوع انسانی کو) زمین میں (قدرت و اختیار کے ساتھ) بسا دیا اور زندگی کے سرو سامان مہیا کردیئے مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم شگر گزار رہو۔ الاعراف
11 اور (٢) (دیکھو یہ ہماری ہی کار فرمائی ہے کہ) ہم نے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارا وجود پیدا کیا) پھر تمہاری (یعنی نوع انسانی کی) شکل و صورت بنا دی پھر (وہ وقت آیا کہ) فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے جھک جاؤ، اس پر سب جھک گئے مگر ابلیس کہ جھکنے والوں میں سے نہ تھا۔ الاعراف
12 خدا نے فرمایا کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا جب کہ میں نے حکم دیا تھا؟ کہا اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اسے مٹی سے۔ الاعراف
13 فرمایا جنت سے نکل جا، تیری یہ ہستی نہیں کہ یہاں رہ کر سرکشی کرے، یہاں سے نکل دور ہو، یقینا تو ان میں سے ہوا جو ذلیل و خوار ہیں۔ الاعراف
14 ابلیس نے کہا : مجھے اس وقت تک کے لیے مہلت دے جب لوگ (مرنے کے بعد) اٹھائے جائیں گے۔ الاعراف
15 فرمایا : تجھے مہلت ہے۔ الاعراف
16 اس پر ابلیس نے کہا، چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کردی تو اب میں بھی ایسا ضرور کروں گا کہ تیری سیدھی راہ سے بھٹکانے کے لیے بنی آدم کی تاڑ میں بیٹھوں۔ الاعراف
17 پھر سامنے سے، پیچھے سے، داہنے سے، بائیں سے (غرض کہ ہر طرف سے) ان پر آؤں اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ الاعراف
18 خدا نے فرمایا یہاں سے نکل جا، ذلیل اور ٹھکرایا ہوا، بنی آدم میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو (وہ تیرا ساتھی ہوگا اور) میں البتہ ایسا کروں گا کہ ( پاداش عمل میں) تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔ الاعراف
19 اے آدم ! تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو سہو اور جس جگہ سے جو چیز پسند آئے شوق سے کھاؤ، مگر دیکھو (وہ جو ایک درخت ہے تو) اس درخت کے قریب بھی نہ جانا، اگر گئے تو یاد رکھو تم زیادتی کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔ الاعراف
20 لیکن پھر ایسا ہوا کہ شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کے ستر جو ان سے چھپے تھے ان پر کھول دے۔ اس نے کہا تمہارے پروردگار نے اس درخت سے جو تمہیں روکا ہے تو صرف اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم فرشتے بن جاؤ یا دائمی زندگی تمہیں حاصل ہوجائے۔ الاعراف
21 اس نے قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ میں تم دونوں کو خیر خواہی سے نیک بات سمجھانے والا ہوں۔ الاعراف
22 غرض کہ شیطان (اس طرح کی باتیں سنا سنا کر بالآخر) انہیں فریب میں لے آیا، پھر جونہی ایسا ہوا کہ انہوں نے درخت کا پھل چکھا ان کے ستر ان پر کھل گئے اور (جب انہیں اپنی برہنگی دیکھ کر شرم محسوس ہوئی تو) باغ کے پتے اوپر تلے رکھ کر اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ اس وقت ان کے پروردگار نے پکارا، کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روک دیا تھا۔ اور کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شطیان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ الاعراف
23 انہوں نے عرض کیا پروردگار ! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا، اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ الاعراف
24 فرمایا یہاں سے نکل جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور یہ کہ ایک خاص وقت تک وہاں کے سامان زندگی سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ الاعراف
25 اور فرمایا تم اسی میں جیو گے، اسی میں مرو گے پھر اسی سے ( مرنے کے بعد) نکالے جاؤ گے۔ الاعراف
26 اے اولاد (١) آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کردیا جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی جو زیب و زینت کا ذریعہ ہیں، نیز تمہیں پرہیزگاری کی راہ دکھا دی کہ یہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے۔ یہ اللہ (کے فضل و رحمت) کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ نصیحت پذیر ہوں۔ الاعراف
27 (اور خدا نے فرمایا) اے اولاد آدم ! دیکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان کے لباس اتروا دیے تھے کہ ان کے ستر انہیں دکھا دیئے، وہ اور اس کا گروہ تمہیں اس طرح دیکھتا ہے کہ تم اسے نہیں دیکھتے۔ یاد رکھو ہم نے یہ بات ٹھہرا دی ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے رفیق و مددگار شیاطین ہوتے ہیں۔ الاعراف
28 اور یہ لوگ (یعنی مشرکین عرب) جب بے حیائی کی باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اور (چونکہ وہ کرتے رہے ہیں اس لیے) خدا نے ایسا ہی کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے۔ (اے پیغمبر) تم کہہ دو خدا کبھی بے حیائی کی باتوں کا حکم نہیں دے گا۔ کیا تم خدا کے نام پر ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی (دلیل) علم نہیں؟ الاعراف
29 تم کہو میرے پروردگار نے جو کچھ حکم دیا ہے وہ تو یہ ہے کہ (ہر بات میں) اعتدال کی راہ اختیار کرو، اپنی تمام عبادتوں میں خدا کی طرف توجہ درست رکھو اور دین کو اس کے لیے خالص کر کے اسے پکارو۔ اس نے جس طرح تمہاری ہستی شروع کی اسی طرح لوٹائے جاؤ گے۔ الاعراف
30 (تمہارے دو گروہ ہوگئے) ایک گروہ کو (اس کے ایمان و عمل کی وجہ سے کامیابی کی) راہ دکھلائی۔ دوسرے پر (اس کے انکار و بدعملی سے) گمراہی ثابت ہوگئی۔ ان لوگوں نے (یعنی دوسرے گروہ نے) خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا رفیق بنا لیا (یعنی مفسوں شریروں کی تقلید کی) بایں ہمہ سمجھے کہ راہ راست پر ہیں۔ الاعراف
31 (اور ہم نے حکم دیا تھا) اے اولاد آدم ! عبادت کے ہر موقع پر اپنے جسم کی زیب و زینت سے آراستہ رہا کرو۔ نیز کھاؤ پیو مگر حد سے نہ گزر جاؤ، خدا انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ الاعراف
32 ( اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو خدا کی زینتیں جو اس نے اپنے بندوں کے برتنے کے لیے پیدا کی ہیں اور کھانے پینے کی اچھی چیزیں کس نے حرام کی ہیں۔ تم کہو یہ (نعمتیں) تو اسی لیے ہیں کہ ایمان والوں کے کام آئیں، دنیا کی زندگی میں (زندگی کی مکروہات کے ساتھ اور) قیامت کے دن (ہر طرح کی مکروہات سے) خالص دیکھو، اس طرح ہم ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں جو جاننے والے ہیں۔ الاعراف
33 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو، میرے پروردگار نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ تو یہ ہے کہ : بے حیائی کی باتیں جو کھلے طور پر کی جائیں اور جو چھپا کر کی جائیں۔ گناہ کی باتیں، ناحق کی زیادتی، یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اور یہ کہ خدا کے نام سے ایسی بات کہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں۔ الاعراف
34 اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ایک ٹھہرایا ہوا وقت ہے سو جب کسی امت کا ٹھہرایا ہوا وقت آگیا تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتی ہے نہ ایک گھڑی آگے (جو کچھ اس کے لیے ہونا ہے ہو گزرتا ہے) (١٢) الاعراف
35 (اور فرمان الہی ہوا) اے اولاد آدم ! جب کبھی ایسا ہو کہ میرے پیغمبر تم میں پیدا ہوں اور میری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں تو جو کوئی (ان کی تعلیم سے متنبہ ہوکر) برائیوں سے بچے گا اور اپنے آپ کو سنوار لے گا اس کے لیے کسی طرح کا اندیشہ نہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔ الاعراف
36 لیکن جو لوگ میری آیتیں جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کریں گے تو وہ دوزخی ہوں گے، ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔ الاعراف
37 پھر بتلاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو جھوٹ بولتے ہوئے خدا پر بہتان لگائے؟ (یعنی خدا نے اسے مامور نہیں کیا ہے، مگر وہ کہے میں مامور ہوں) اور اس سے بڑھ کر جو خدا کی آیتیں جھٹلائے؟ (یعنی خدا کا کلام واقعی نازل ہوا ہو اور وہ ضد اور سرکشی سے کہے نازل نہیں ہوا؟) یہی لوگ ہیں کہ (علم الہی کے) نوشہ میں جو کچھ ان کے لیے ٹھہرا دیا گیا ہے اس کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے۔ لیکن بالآخر جب ہمارے فرستادہ پہنچیں گے کہ انہیں وفات دیں تو اس وقت وہ کہیں گے جن ہستیوں کو تم خدا کے سوا پکارا کرتے تھے اب وہ کہاں ہیں؟ وہ جواب دیں گے وہ ہم سے کھوئی گئیں (یعنی ان کی ہستی و طاقت کی کوئی نمود ہمیں دکھائی نہ دی) اور (اس طرح) اپنے اوپر خود گواہی دے دیں گے کہ وہ واقعی (سچائی سے) منکر تھے۔ الاعراف
38 اس پر حکم الہی ہوگا انسانوں اور جنوں کی ان امتوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں تم بھی آتش دوزخ میں داخل ہوجاؤ۔ جب کبھی ایسا (١) ہوگا کہ ایک امت دوزخ میں داخل ہو تو وہ اپنی طرح کی دوسرے امت پر لعنت بھیجے گی پھر جب سب اکٹھی ہوجائیں گی تو پچھلی امت پہلی امت کی نسبت کہے گی اے ہمارے پروردگار ! یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا (یعنی جن کی تقلید میں ہم گمراہ ہوئے) تو انہیں آتش عذاب کا دوگنا عذاب دیجیو۔ خدا فرمائے گا تم میں سے ہر ایک کے لیے دو گنا عذاب ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں۔ الاعراف
39 (یہ سن کر) پہلی امت پھچلی امت سے کہے گی دیکھو تمہیں (عذاب کی کمی میں) ہم پر کوئی بزرگی نہ ہوئی تو جیسی کچھ کمائی کرچکے ہو اس کے مطابق اب عذاب کا مزہ چکھ لو۔ الاعراف
40 جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی تو (یاد رکھو) ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی کھلنے والے نہیں۔ ان کا جنت میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اسی طرح ہم مجرموں کو ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں (یعنی ہم نے اسی طرح قانون جزا ٹھہرا دیا ہے۔ الاعراف
41 ان کے نیچے آگ کا بچھونا ہوگا اور اوپر آگ کی چادر، ہم ظلم کرنے والوں کو ان کے ظلم کا ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ الاعراف
42 اور جو لوگ (١) ایمان لائے اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے، اور (یاد رہے ہمارا قانون یہ ہے کہ) ہم کسی جان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تو بس ایسے ہی لوگ جنت والے ہیں۔ ہمیشہ جنت (کے راحت و سرور) میں رہنے والے۔ الاعراف
43 اور (دیکھو) ان لوگوں کے دلوں میں (ایک دوسرے کی طرف سے) جو کچھ کینہ و غبار تھا ہم نے نکال دیا، ان کے تلے (آگ کے شعلوں کی جگہ) نہریں رواں ہیں۔ انہوں نے (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے کی جگہ) کہا ساری ستائش اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اس (زندگی) کی راہ دکھائی۔ ہم کبھی اس کی راہ نہ پاتے اگر وہ ہماری رہنمائی نہ کرتا۔ بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر سچائی کا پیغام لے کر آئے تھے، اور (دیکھو) انہوں نے پکار سنی، یہ ہے جنت جو تمہارے ورثہ میں آئی ان (نیک) کاموں کی بدولت جو تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو۔ الاعراف
44 اور جنت والوں نے دوزخیوں کو پکارا ہمارے پروردگار نے جو کچھ ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے اسے سچا پایا ہے۔ پھر کیا تم نے بھی وہ تمام باتیں ٹھیک پائیں جن کا تمہارے پروردگار نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ دوزخی جواب میں بولے ہاں اس پر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا ظالموں پر خدا کی لعنت ہو۔ الاعراف
45 ان ظالموں پر جو خدا کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے اور چاہتے تھے وہ سیدھی نہ ہو، اس میں کجی ڈال دیں اور آخرت کی زندگی سے بھی منکر تھے۔ الاعراف
46 اور (دیکھو) ان (١) دونوں کے درمیان ایک اوٹ ہے اور اعراف پر (یعنی بلندی پر) کچھ لوگ ہیں جو (دونوں گروہوں میں سے) ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچان لیتے ہیں، ان لوگوں نے جنت والوں کو پکارا تم پر سلامتی ہو، وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے اس کے آرزو مند ہیں۔ الاعراف
47 اور جب ان لوگوں کی نگاہ دوزخیوں کی طرف پھری (اور ان کی ہولناک حالت نظر آئی) تو پکار اٹھے اے پروردگار ! ہمیں ظالم گروہ کے ساتھ شامل نہ کیجیو۔ الاعراف
48 اور اعراف والوں نے ان لوگوں کو پکارا جنہیں وہ ان کے قیافہ سے پہچان گئے تھے، نہ تو تمہارے جتھے تمہارے کام آئے نہ تمہاری بڑائیاں۔ الاعراف
49 (انہوں نے جنتیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا) دیکھو کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ خدا کی رحمت سے انہیں کچھ ملنے والا نہیں؟ (لیکن انہیں تو آج رحمت الہی پکار رہی ہے) جنت میں داخل ہوجاؤ، آج تمہارے لیے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہے نہ کسی طرح کی غمگینی۔ الاعراف
50 اور دوزخیوں نے جنت والوں کو پکارا تھوڑا سا پانی ہم پر بہا دو (کہ گرمی کی شدت سے پھٹکے جاتے ہیں) یا اس میں سے کچھ دے دو جو خدا نے تمہیں بخشا ہے، جنت والوں نے جواب دیا خدا نے یہ دونوں چیزیں (آج) منکروں پر روک دی ہیں۔ الاعراف
51 (کیونکہ وہ فرماتا ہے) جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا (یعنی عمل حق کی جگہ ایسے کاموں میں لگے رہے جو کھیل تماشے کی طرح حقیقت سے خالی تھے) اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالے رکھا تو جس طرح انہوں نے اس دن کا آنا بھلا دیا تھا آج وہ بھی بھلا دیئے جائیں گے نیز اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں سے جان بوجھ کر انکار کرتے تھے۔ الاعراف
52 اور (١) (دیکھو) ہم نے تو ان لوگوں کے لیے ایک ایسی کتاب بھی نازل کردی جس میں علم کے ساتھ (دین حق کی تمام باتیں) الگ الگ کر کے واضح کردی ہیں اور جو ایمان رکھنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ الاعراف
53 (پھر) کیا یہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ (فساد و بدعملی کے جس نتیجہ کی اس میں خبر دی گئی ہے) اس کا مطلب وقوع میں آجائے؟ (اگر اسی بات کا انتظار ہے تو جان رکھیں) جس دن اس کا مطلب وقوع میں آئے گا اس دن وہ لوگ کہ اسے پہلے سے بھولے بیٹھے تھے (نامرادی و حسرت کے ساتھ) بول اٹھیں گے، بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر ہمارے پاس سچائی کا پیام لے کر آئے تھے (مگر افسوس کہ ہم نے انہیں جھٹلایا) کاش شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہو جو آج ہماری شفاعت کرے ! یا کاش ایسا ہی ہو کہ ہم پھر دنیا میں لوٹا دیئے جائیں اور جیسے کچھ کام کرتے رہے ہیں اس کے برخلاف (نیک) کام انجام دیں، بلا شبہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی میں ڈالا اور دنیا میں جو کچھ افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب (آج) ان سے کھوئی گئیں۔ الاعراف
54 تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں (یعنی چھ دوروں میں یکے بعد دیگرے واقع ہوئے) پیدا کیا اور پھر (اپنی حکومت و جلال کے) تخت پر متمکن ہوگیا۔ (اس نے رات اور دن کی تبدیلی کا ایسا نظام ٹھہرایا ہے کہ) رات کی اندھیری دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے اور (ایسا معلوم ہوتا ہے گویا) دن کے پیچھے لپکی چلی آرہی ہو اور (دیکھو) سورج، چاند، ستارے سب اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو ! اسی کے لیے پیدا کرنا ہے اور اسی کے لیے حکم دینا (اس کے سوا کوئی نہیں جسے کارخانہ ہستی کے چلانے میں دخل ہو) سو کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا۔ الاعراف
55 (اے لوگو) اپنے پروردگار سے دعائیں مانگو، آہ و زاری کرتے ہوئے بھی اور پوشیدگی سے بھی، وہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ الاعراف
56 اور (دیکھو) ملک کی درستی کے بعد (یعنی دعوت حق کے ظہور کے بعد جو اس کی درستی کی دعوت ہے) اس میں خرابی نہ پھیلاؤ۔ (اپنی خطاؤں سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت سے) امیدیں رکھتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرو۔ یقینا اللہ کی رحمت ان سے نزدیک ہے جو نیک کردار ہیں۔ الاعراف
57 اور (دیکھو) یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ باران رحمت سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے کہ (مینہ برسنے کی) خوشخبری پہنچا دیں، پھر جب وہ بوجھل بادل لے اڑتی ہیں تو انہیں کسی مردہ زمین کی بستی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ پھر ان سے پانی برساتا ہے اور زمین سے ہر طرح کے پھل پیدا کردیتا ہے، اس طرح ہم مردوں کو زندہ کردیتے ہیں تاکہ تم (قدرت الہی کی کرشمہ سنجیوں میں) غور و فکر کرو۔ الاعراف
58 اور (دیکھو) اچھی زمین اپنے پروردگار کے حکم سے اچھی پیداوار ہی نکالتی ہے لیکن جو زمین نکمی ہے اس سے کچھ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ نکمی چیز پیدا ہو، اس طرح ہم (حکمت و عبرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لیے دہراتے ہیں جو شکر کرنے والے ہیں (یعنی خدا کی نعمتوں کے قدر شناس ہیں) الاعراف
59 یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف (تبلیغ حق کے لیے) بھیجا تھا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے ہی (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں پیش نہ آجائے۔ الاعراف
60 اس پر اس کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے جواب دیا : ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں پڑگئے ہو۔ الاعراف
61 نوح نے کہا، بھائیو ! یہ بات نہیں ہے کہ میں گمراہی میں پڑگیا ہوں، میں تو اس کی طرف سے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے فرستادہ ہوں۔ الاعراف
62 میں اپنے پروردگار کا پیغام تمہیں پہنچاتا ہوں اور پند و نصیحت کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے اس بات کا علم رکھتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں۔ الاعراف
63 (نیز نوح (١) نے کہا) کیا تمہیں اس بات پر اچنبھا ہورہا ہے کہ تمہارے پروردگار کی نصیحت ایک ایسے آدمی کے ذریعہ تمہیں پہنچی تو تم ہی میں سے ہے؟ اور اس لیے پہنچی تاکہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کردے۔ اور تم برائیوں سے بچو اور رحمت الہی کے سزاوار رہو۔ الاعراف
64 بایں ہمہ لوگوں نے نوح کو جھٹلایا، پس ہم نے اسے اور ان سب کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے (سیلاب سے) نجات دی اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں انہیں غرق کردیا، حقیقت یہ ہے کہ وہ (اپنی سمجھ بوجھ کھو کر) یک قلم اندھے ہوگئے تھے۔ الاعراف
65 اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم عاد کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے ہود کو بھیجا، اس نے کہا، اے قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا تم (انکار و بدعملی کے نتائج سے) نہیں ڈرتے؟ الاعراف
66 اس پر قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا تھا کہا، ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم حماقت میں پڑگئے ہو اور ہمارا خیال یہ ہے کہ تم جھوٹ بولنے والوں میں سے ہو۔ الاعراف
67 ہود نے کہا، بھائیو ! میں احمق نہیں ہوں۔ میں تو اس کی طرف سے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے فرستادہ ہوں۔ الاعراف
68 میں اس کا پیام تمہیں پہنچاتا ہوں، اور یقین کرو کہ تمہیں دیانتداری کے ساتھ نصیحت کرنے والا ہوں۔ الاعراف
69 کیا تمہیں اس بات پر اچنبھا ہورہا ہے کہ ایک ایسے آدمی کے ذریعہ تمہارے پروردگار کی نصیحت تم تک پہنچی جو خود تم ہی میں سے ہے؟ خدا کا یہ احسان یاد کرو کہ قوم نوح کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تمہاری نسل کو زیادہ وسعت و توانائی بخشی۔ پس چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کی یاد سے غافل نہ ہو، تاکہ ہر طرح کامیاب ہو۔ الاعراف
70 انہوں نے کہا، کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ ہم صرف ایک ہی خدا کے پجاری ہوجائیں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں؟ اگر تم سچے ہو تو وہ بات لا دکھاؤ جس کا ہمیں خوف دلارہے ہو؟ الاعراف
71 ہود نے کہا یقین کرو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب واقع ہوگیا ہے ( کہ عقلیں ماری گئی ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی کے حوالے کر رہے ہو) کیا ہے جس کی بنا پر تم مجھ سے جھگڑ رہے ہو؟ محض چند نام جو تم نے اور تمہارے برزگوں نے اپنے جی سے گھڑ لیے ہیں اور جن کے لیے خدا نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اچھا (آنے والے وقت کا) انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کروں گا۔ الاعراف
72 پھر ایسا ہوا کہ ہم نے ہود کو اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ان کی بیخ و بنیاد تک اکھاڑ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی ایمان لانے والے نہ تھے۔ الاعراف
73 اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں صالح کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے۔ یہ خدا کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے۔ پس اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں جہاں چاہے چرے، اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچاؤ کہ (اس کی پاداش میں) عذاب جانکاہ تمہیں آپکڑے۔ الاعراف
74 اور وہ وقت یاد کرو کہ خدا نے تمہیں قوم عاد کے بعد اس کا جانشین بنایا اور اس سرزمین میں اس طرح بسا دیا کہ میدانوں سے محل بنانے کا کام لیتے اور پہاڑوں کو بھی تراش کر اپنا گھر بنا لیتے ہو (یہ اس کا تم پر احسان ہے) پس اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور ملک میں سرکشی کرتے ہوئے خرابی نہ پھیلاؤ الاعراف
75 قوم کے جن سربرآورہ لوگوں کو (اپنی دولت و طاقت کا) گھمنڈ تھا انہوں نے مومنوں سے کہا، اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں (افلاس و بے چارگی کی وجہ سے) کمزور و حقیر سمجھتے تھے : کیا تم (١) نے سچ مچ کو معلوم کرلیا ہے کہ صالح خدا کا بھیجا ہوا ہے؟ (یعنی ہمیں تو ایسی کوئی بات اس میں دکھائی دیتی نہیں) انہوں نے کہا، ہاں بیشک جس پیام حق کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے ہم اس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ الاعراف
76 اس پر گھمنڈ کرنے والوں نے کہا، تمہیں جس بات کا یقین ہے ہمیں اس سے انکار ہے۔ الاعراف
77 غرض کہ انہوں نے اونٹنی کا کوٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی۔ انہوں نے کہا، اے صالح ! اگر تم واقعی پیغمبروں میں سے ہو تو اب وہ بات ہم پر لا دکھاؤ جس کا تم نے ہمیں خوف دلایا تھا۔ الاعراف
78 پس ایسا ہوا کہ لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا، اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ الاعراف
79 پھر صالح ان سے کنارہ کش ہوگیا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے پروردگار کا پیام تمہیں پہنچایا اور نصیحت کی مگر (افسوس تم پر) تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ الاعراف
80 اور لوط کا واقعہ (١) یاد کرو جب اس نے اپنی سے کہا تھا، کیا تم ایسی بے حیائی کا کام کرنا پسند کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی انسان نے نہیں کیا؟ الاعراف
81 تم عورتوں کو چھوڑ کر نفسانی خواہش سے مردوں پر مائل ہوتے ہو، یقینا تم ایک ایسی قوم ہوگئے ہو جو (اپنی نفس پرستیوں میں) بالکل چھوٹ ہے۔ الاعراف
82 لوط کی قوم کے پاس اگر اس کا کچھ جواب تھا تو یہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے : اس آدمی کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو بڑے پاک صاف بننا چاہتے ہیں۔ الاعراف
83 پس ایسا ہوا کہ لوط کو اور اس کے گھر والوں کو تو ہم نے بچا لیا مگر اس کی بیوی نہ بچی کہ وہ بھی پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ الاعراف
84 ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینہ برسا دیا تھا، سو دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟ الاعراف
85 اور (اسی طرح) مدین (١) کی بستی میں شعیب بھیجا گیا کہ انہی کے بھائی بندوں میں سے تھا، اس نے کہا : بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے، پس چاہیے کہ ماپ تول پورا پورا کیا کرو، لوگوں کو (خریدو فروخت میں) ان کی چیزیں کم نہ دو، ملک کی درستی کے بعد (کہ دعوت حق کے قیام سے ظہور میں آرہی ہے) اس میں خرابی نہ ڈالو، اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یقین کرو اسی میں تمہارے لیے بہتر ہے۔ الاعراف
86 اور دیکھو ایسا نہ کرو کہ (دعوت حق کی اشاعت روکنے کے لیے) ہر راستے جا بیٹھو اور جو آدمی بھی ایمان لائے اسے دھمکیاں دے کر خدا کی راہ سے روکو اور اس میں کجی ڈالنے کے درپے ہورہو۔ خدا کا احسان یاد کرو کہ تم بہت تھوڑے تھے اس نے (امن و عافیت دے کر) تمہاری تعداد زیادہ کردی، اور پھر غور کرو جن لوگوں نے فساد کا شیوہ اختیار کیا تھا انہیں کیسا کچھ انجام پیش آچکا ہے؟ الاعراف
87 اور اگر ایسا ہوا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر ایمان لے آیا ہے جس کی تبلیغ کے لیے میں بھیجا گیا ہوں اور دوسرا گروہ ہے جسے اس پر یقین نہیں تو (صرف اتنی ہی بات دیکھ کر فیصلہ نہ کرلو) صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ الاعراف
88 اس پر (١) قوم کے سرداروں نے جنہیں (اپنی دنیوی طاقتوں کا) گھمنڈ تھا کہا اے شعیب ! (دو باتوں میں سے ایک بات ہو کر رہے گی) یا تو تجھے اور ان سب کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ہم اپنے شہر سے ضرور نکال باہر کریں گے یا تمہیں مجبور کردیں گے کہ ہمارے دین میں لوٹ آؤ۔ شعیب نے کہا، اگر ہمارا دل تمہارے دین پر مطمئن نہ ہو تو کیا جبرا مان لیں؟ الاعراف
89 اگر ہم تمہارے دین میں لوٹ آئیں حالانکہ خدا نے (علم و یقین کی روشنی نمایاں کر کے) ہمیں اس سے نجات دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے جھوٹ بولتے ہوئے خدا پر بہتان باندھا، ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اب قدم پیچھے ہٹائیں، ہاں اللہ کا جو ہمارا پروردگار ہے ایسا ہی چاہنا ہو۔ (تو وہ جو چاہے گا ہو کر رہے گا) کوئی چیز نہیں جس پر وہ اپنے علم سے چھایا ہوا نہ ہو۔ ہمارا تمام تر بھروسہ اسی پر ہے، اے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سچائی کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ الاعراف
90 قوم کے سرداروں (١) نے جو شعیب کے منکر تھے (لوگوں سے) کہا اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بس سمجھ لو، تم برباد ہوئے۔ الاعراف
91 پس ایسا ہوا کہ لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا، اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ الاعراف
92 جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا (ان کا کیا حال ہوا؟) گویا ان بستیوں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہی برباد ہونے والے تھے۔ الاعراف
93 بہرحال شعیب ان سے کنارہ کش ہوگیا، اس نے کہا بھائیو ! میں نے پروردگار کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے تھے اور تمہاری بہتری چاہی تھی (مگر جب تم نے جان بوجھ کر ہلاکت کی راہ پسند کی) تو میں نہ مانے والوں (کی تباہی) پر اب کیسے افسوس کروں۔ الاعراف
94 اور ہم نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو ہمیشہ ایسا کیا کہ اس کے باشندوں کو سختیوں اور نقصانوں میں مبتلا کردیا کہ (سرکشی سے باز آئیں اور) عاجزی و نیاز مندی کریں۔ الاعراف
95 پھر جب ایسا ہوا کہ وہ (خوشحالیوں میں) خوب بڑھ گئے اور ( پاداش عمل سے بے پروا ہوکر) کہنے لگے ہمارے بزرگوں پر سختی کے دن بھی گزرے راحت کے بھی (یعنی دنیا میں اچھی بری حالتیں پیش آتی ہی رہتی ہیں، جزائے عمل کوئی چیز نہیں) تو اچانک ہمارے عذاب کی پکڑ میں آگئے اور وہ بالکل بے خبر تھے۔ الاعراف
96 اور اگر بستیوں کے رہنے والے (جن کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں) ایمان لاتے اور برائیوں سے بچتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے ضرور ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا پس اس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ) حاصل کی تھی ہم نے انہیں پکڑ لیا (اور وہ مبتلائے عذاب ہوئے)۔ الاعراف
97 کیا شہروں (١) کے بسنے والوں کو اس بات سے امان مل گئی ہے کہ ہمارا عذاب راتوں رات آ نازل ہو او وہ پڑے سوتے ہوں؟ الاعراف
98 یا انہیں اس بات سے امان مل گئ ہے کہ دن دہاڑے عذاب نازل ہوجائے اور وہ (بے خبر) کھیل کود میں مشغول ہوں؟ الاعراف
99 کیا انہیں خدا کی مخفی تدبیروں سے امان مل گئی ہے ؟ (اور وہ سمجھتے ہیں ان کے خلاف کچھ ہونے والا نہیں؟) تو یاد رکھو خدا کی مخفی تدبیروں سے بے خوف نہیں ہوسکتے مگر وہی جو تباہ ہونے والے ہیں۔ الاعراف
100 پھر جو لوگ (پہلی جماعتوں کے بعد) ملک کے وارث ہوتے ہیں کیا وہ یہ بات نہیں پاتے کہ اگر ہم چاہیں تو (پہلوں کی طرح) انہیں بھی گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا کردیں اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں تاکہ کوئی بات سنیں ہی نہیں؟ الاعراف
101 (اے پیغمبر) یہ ہیں (دنیا کی پرانی) آبادیاں جن کے حالات ہم تمہیں سناتے ہیں، ان سب میں ان کے پیغمبر (سچائی کی) روشن دلیلوں کے ساتھ آئے مگر ان کے بسنے والے ایسے نہ تھے کہ جو بات پہلے جھٹلا چکے تھے اسے (سچائی کی نشانیاں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو اس طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو (ہٹ دھرمی سے) انکار کرتے ہیں۔ الاعراف
102 اور ان میں سے اکثروں کو ہم نے ایسا پایا کہ اپنے عہد پر قائم نہ تھے (یعنی انہوں نے اپنا فطری شعور و وجدان کہ فطرت انسانی کا عہد ہے ضائع کردیا تھا) اور اکثروں کو ایسا ہی پایا کہ یک قلم نافرمان تھے۔ (١) الاعراف
103 پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے ہماری نشانیوں کے ساتھ نا انصافی کی تو دیکھو مفسدوں کا کیسا انجام ہوا؟ الاعراف
104 موسی نے کہا اے فرعون ! میں اس کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ الاعراف
105 میرا فرض منصبی ہے خدا کے نام سے کوئی بات نہ کہوں مگر یہ کہ سچ ہو، میں تیرے پروردگار کی طرف سے (سچائی کی) روشن دلیلیں لایا ہوں۔ سو بنی اسرائیل کو (آئندہ اپنی غلامی پر مجبور نہ کرو) اور میرے ساتھ رخصت کردے۔ الاعراف
106 فرعون نے کہا اگر تو واقعی کوئی نشانی لے کر آیا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو پیش کر۔ الاعراف
107 اس پر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈال دی تو اچانک ایسا ہوا کہ ایک نمایاں اژدھا ان کے سامنے تھا، الاعراف
108 اور اپنا ہاتھ (جیب سے باہر) نکالا تو اچانک ایسا ہوا کہ دیکھنے والوں کے لیے سفید چمکیلا تھا۔ الاعراف
109 فرعون کی قوم کے سردار (آپس میں) کہنے لگے بلا شبہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے۔ الاعراف
110 یہ چاہتا ہے (اپنی ان طاقتوں سے کام لے کر) تمہیں ملک سے نکال باہر کرے (اور خود مالک بن بیٹھے) اب بتلاؤ تمہاری صلاح اس بارے میں کیا ہے ؟ الاعراف
111 (چنانچہ) انہوں (١) نے (باہم مشورہ کے بعد فرعون سے کہا) موسیٰ اور اس کے بھائی کو ڈھیل دے کر روک لے اور (اس اثنا میں) نقیب روانہ کردے الاعراف
112 کہ (مملکت کے) تمام شہروں سے جادوگر اکٹھا کر کے تیرے حضور لے آئیں۔ الاعراف
113 چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آئے، انہوں نے کہا، اگر ہم موسیٰ پر غالب آئے تو ہمیں اس خدمت کے صلے میں انعام ملنا چاہیے۔ الاعراف
114 فرعون نے کہا، ضرور ملے گا اور تم سب میرے مقربوں کی صفت میں داخل ہوجاؤ گے۔ الاعراف
115 (پھر جب مقابلہ ہوا تو) جادوگروں نے کہا، اے موسیٰ ! یا تو تم پہلے (اپنی لاٹھی) پھینکو یا پھر ہم ہی کو پھینکنا ہے۔ الاعراف
116 موسی نے کہا تم ہی پہلے پھینکو، پھر جب جادوگروں نے (جادو کی بنائی ہوئی لاٹھیاں اور رسیاں) پھینکیں تو ایسا کیا کہ لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دیں اور ان میں (اپنے کرتبوں سے) دہشت پھیلا دی اور بہت بڑا جادو بنا لائے۔ الاعراف
117 اور (اس وقت) ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ تم بھی اپنی لاٹھی (میدان میں) ڈال دو، جونہی اس نے لاٹھی پھینکی تو اچانک کیا ہوا کہ جو کچھ جھوٹی نمائش جادوگروں کی تھی سب (آنا فانا) اس نے نگل کر نابود کردی۔ الاعراف
118 غرض کہ (١) سچائی ثابت ہوگئی اور جو کچھ جادوگروں نے کرتب کیے تھے سب ملیا میٹ ہوئے۔ الاعراف
119 نتیجہ یہ نکلا کہ فرعون اور اس کے درباریوں کو اس مقابلہ میں مغلوب ہونا پڑا اور (فتح مند ہونے کی جگہ) الٹے زلیل ہوئے۔ الاعراف
120 اور پھر ایسا ہوا کہ (موسی کی سچائی دیکھ کر) جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے۔ الاعراف
121 انہوں نے کہا، ہم اس پر ایمان لائے جو تمام جہان کا پروردگار ہے۔ الاعراف
122 جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۔ الاعراف
123 فرعون نے (غضبناک ہوکر) کہا مجھ سے اجازت لیے بغیر تم موسیٰ پر ایمان لے آئے؟ ضرور یہ ایک پوشیدہ تدبیر ہے جو تم نے (مل جل کر) شہر میں کی ہے تاکہ اس کے باشندوں کو اس سے نکال باہر کرو، اچھا تھوڑی دیر میں تمہیں (اس کا نتیجہ) معلوم ہوجائے گا۔ الاعراف
124 میں ضرور ایسا کروں گا کہ پہلے تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹواؤں، پھر تم سب کو سولی پر چڑھا دوں۔ الاعراف
125 انہوں نے جواب دیا، ہمیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے (پھر ہم جسم کے عذاب و موت سے کیوں ہراساں ہوں؟) الاعراف
126 ہمارا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے سامنے آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔ (ہماری دعا خدا سے یہ ہے کہ) پروردگار ! ہمیں صبر و شکیبائی سے معمور کردے (تاکہ زندگی کی کوئی اذیت ہمیں اس راہ میں ڈگمگا نہ سکے) اور ہمیں دنیا سے اس حالت میں اٹھا کہ تیرے فرمانبردار ہوں۔ الاعراف
127 اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے کہا، کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دے گا کہ ملک میں بدامنی پھیلائیں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو ترک کردیں؟ فرعون نے کہا ہم ان کے لڑکوں کو قتل کردیں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے (کہ ہماری باندیاں بن کر رہیں) اور (ہمیں ڈر کس بات کا ہے ؟) وہ ہماری طاقت سے دبے ہوئے بے بس ہیں۔ الاعراف
128 تب موسیٰ نے اپنی قوم کو (وعظ کرتے ہوئے) کہا، خدا سے مدد مانگو اور (اس راہ میں) جمے رہو، بلا شبہ زمین (کی پادشاہت صرف) خدا ہی کے لیے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام کار انہی کے لیے ہے جو متقی ہوں گے۔ الاعراف
129 انہوں نے کہا تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے گئے اور اب تمہارے آنے کے بعد بھی ستائے جارہے ہیں۔ موسیٰ نے کہا قریب ہے تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور تمہیں ملک میں اس کا جانشین بنائے۔ پھر دیکھے (اس جانشینی کے بعد) تمہارے کام کیسے ہوتے ہیں؟ الاعراف
130 اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے فرعون کی قوم کو خشک سالی کے برسوں اور پیداوار کے نقصان میں مبتلا کیا تھا تاکہ وہ متنبہ ہوں۔ الاعراف
131 تو جب کبھی ایسا ہوتا کہ خوشحالی آتی تو کہتے یہ ہمارے حصے کی بات ہے (یعنی ہماری وجہ سے ہے) اور اگر ایسا ہوتا کہ سختی پیش آجاتی تو کہتے یہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست ہے۔ (اے مخاطب) سن رکھ کہ ان کی نحوست (اور کسی کے پاس نہ تھی) اللہ کے یہاں تھی (جس نے انسان کی اچھی بری حالتوں کے لیے ایک قانون ٹھہرا دیا ہے اور اسی کے مطابق نتائج پیش آتے ہیں) لیکن بہتوں کو یہ بات معلوم نہیں۔ الاعراف
132 اور فرعون کی قوم نے کہا (اے موسی) تو ہم پر اپنا جادو چلانے کے لیے کتنی ہی نشانیاں لائے مگر ہم ماننے والے نہیں۔ الاعراف
133 پس ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیوں کے دل اور جوئیں (١) اور مینڈک اور لہو کہ یہ سب الگ الگ نشانیاں تھیں، اس پر بھی انہوں نے سرکشی کی اور ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا۔ الاعراف
134 اور جب ان پر عذاب کی سختی واقع ہوئی تو کہنے لگے، اے موسیٰ ! تیرے پروردگار نے تجھ سے (نبوت کا) جو عہد کیا ہے تو اس کی بنا پر ہمارے لیے دعا کر، اگر تیری دعا سے عذاب ٹل گیا تو ضرور ہم تیرے معتقد ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو چھوڑ دیں گے کہ تیرے ساتھ چلے جائیں۔ الاعراف
135 لیکن پھر جب ایسا ہوا کہ ہم نے ایک خاص وقت تک کے لیے کہ (اپنی سرکشیوں اور بدعملیوں سے) انہیں اس تک پہنچنا تھا عذاب ٹال دیا تو دیکھو اچانک وہ اپنی بات سے پھر گئے۔ الاعراف
136 بالآخر ہم نے (ان کی بدعملیوں پر) انہیں سزا دی یعنی اس جرم کی پاداش میں خہ ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کی طرف سے غافل رہے انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ الاعراف
137 اور جس قوم کو کمزور و حقیر خیال کرتے تھے اسی کو ملک کے تمام پورب (١) کا اور اس کے مغربی حصوں کا کہ ہماری بخشی ہوئی برکت سے مالا مال ہے وارث کردیا۔ اور اسی طرح (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کا فرمان پسندیدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا کہ (ہمت و ثبات کے ساتھ) جمے رہے تھے اور فرعون اور اس کا گروہ (اپنی طاقت و شوکت کے لیے) جو کچھ بناتا رہا تھا اور جو کچھ ( عمارتوں کی) بلندیاں اٹھائی تھیں وہ سب درہم برہم کردیں۔ الاعراف
138 اور ہمارے حکم سے ایسا ہوا کہ بنی اسرائیل سمندر پار اتر گئے، وہاں ان کا گزر ایک گروہ پر ہوا کہ اپنے بتوں پر مجاور بنا بیٹھا تھا، بنی اسرائیل نے کہا، اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دے جیسا ان لوگوں کے لیے ہے، موسیٰ نے کہا (افسوس تم پر) تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو۔ الاعراف
139 یہ لوگ جس طریقہ پر چل رہے ہیں وہ تو تباہ ہونے والا طریقہ ہے اور انہوں نے جو عمل اختیار کیا ہے یک قلم باطل ہے۔ الاعراف
140 (نیز) موسیٰ نے کہا، کیا تم چاہتے ہو خدا کے سوا کوئی معبود تمہارے لیے تلاش کروں؟ حالانکہ وہی ہے جس نے تمہیں دنیا کی قوموں پر فضیلت دی ہے۔ الاعراف
141 اور (خدا فرماتا ہے، اے بنی اسرائیل) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دلائی۔ وہ تمہیں سخت عذابوں میں مبتلا کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی چاکری کے لیے) زندہ چھوڑ دیتے، اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی ہی آزمائش تھی۔ الاعراف
142 اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں (کے اعتکاف) کا وعدہ کیا تھا، پھر دس راتیں بڑھا کر اسے پورا (چلہ) کردیا، اس طرح پروردگار کے حضور آنے کی مقررہ میعاد چالیس راتوں کی پوری میعاد ہوگئی۔ موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا (میں اعتکاف کے لیے پہاڑ پر جاتا ہوں) تم میرے بعد قوم میں میرے جانشین بن کر رہو، اور دیکھو سب کام درستی سے کرنا، خرابی ڈالنے والوں کی راہ نہ چلنا۔ الاعراف
143 اور جب موسیٰ آیا تاکہ ہمارے مقررہ وقت میں حاضری دے، اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو (جوش طلب میں بے اختیار ہوکر) پکار اٹھا، پروردگار ! مجھے اپنا جمال دکھا کہ تیری طرف نگاہ کرسکوں، حکم ہوا تو مجھے کبھی نہ دیکھ سکے گا۔ مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر یہ (تجلی حق کی تاب لے آیا اور) اپنی جگہ ٹکا رہا تو (سمجھ لیجیو تجھے بھی میرے نظارہ کی تاب ہے اور تو) مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے پروردگار (کی قدرت) نے نمود کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کے گر پڑا۔ جب موسیٰ ہوش میں آیا تو بولا خدایا ! تیرے لیے ہر طرح کی تقدیس ہو ! میں (اپنی جسارت سے) تیرے حضور توبہ کرتا ہوں، میں ان میں پہلا شخص ہوں گا جو (اس حقیقت پر) یقین رکھتے ہیں۔ الاعراف
144 خدا نے کہا اے موسیٰ ! میں نے تجھے اپنی پیغمبری اور ہم کلامی سے لوگوں پر برگزیدگی بخشی، پس جو چیز تجھے عطا فرمائی ہے (یعنی احکام شریعت) اسے لے اور شکر بجا لا۔ الاعراف
145 اور ہم نے موسیٰ کے لیے ان تختیوں میں ہر قسم کی باتیں لکھ دی تھیں، تاکہ (دین کے) ہر معاملہ کے لیے اس میں نصیحت ہو اور ہر بات الگ الگ واضح ہوجائے، پس (ہم نے کہا) اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے اور اپنی قوم کو بھی حکم دے کہ اس کے پسندیدہ حکموں پر کار بند ہوجائے۔ وہ وقت دور نہیں کہ ہم نافرمانوں کی جگہ تمہیں دکھا دیں گے۔ الاعراف
146 جو لوگ ناحق خدا کی زمین میں سرکشی کرتے ہیں ہم اپنی نشانیوں سے ان کی نگاہیں پھرا دیں گے، وہ دنیا بھر کی نشانیاں دیکھ لیں، پھر بھی ایمان نہ لائیں، اگر وہ دیکھیں ہدایت کی سیدھی راہ سامنے ہے تو کبھی اس پر نہ چلیں، اگر دیکھیں گمراہی کی ٹیڑھی راہ سامنے ہے تو فورا چل پڑیں، ان کی ایسی حالت اس لیے ہوجاتی ہے کہ ہماری نشانیاں جھٹلاتے ہیں اور ان کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ الاعراف
147 اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور آخرت کے پیش آنے سے منکر ہوئے تو (یاد رکھ) ان کے سارے کام اکارت گئے، وہ جو کچھ بدلہ پائیں گے وہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ انہی کے کرتوتوں کا پھل ہوگا جو دنیا میں کرتے رہے۔ الاعراف
148 اور پھر ایسا ہوا کہ موسیٰ کی قوم نے اس کے (پہاڑ پر) چلے جانے کے بعد اپنے زیور کی چیزوں سے (یعنی زیور کی چیزیں گلا کر) ایک بچھڑے کا دھڑ بنایا جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور اسے (پرستش کے لیے) اختیار کرلیا۔ (افسوس ان کی عقلوں پر) کیا انہوں نے اتنی (موٹی سی) بات بھی نہ سمجھی کہ نہ تو وہ ان سے بات کرتا ہے۔ نہ کسی طرح کی رہنمائی کرسکتا ہے؟ وہ اسے لے بیٹھے اور وہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے۔ الاعراف
149 پھر جب ایسا ہوا کہ (افسوس و ندامت سے) ہاتھ ملنے لگے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ راہ (حق) سے قطعا بھٹک گئے ہیں تو کہنے لگے اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہیں کیا اور نہ بخشا تو ہمارے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ الاعراف
150 اور جب موسیٰ خشم ناک اور افسوس کرتا ہوا اپنی قوم میں لوٹا تو اس نے کہا، افسوس تم پر کس برے طریقے پر تم نے میرے پیچھے میری جانشینی کی۔ تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں ذرا بھی صبر نہ کرسکے، اس نے (جوش میں آکر) تختیاں پھینک دیں اور ہاروں کو بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا۔ ہارون نے کہا، اے میرے ماں جائے بھائی ! (میں کیا کروں) لوگوں نے مجھے بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ قتل کر ڈالیں، پس میرے ساتھ ایسا نہ کر کہ دشمن ہنسیں اور نہ مجھے (ان) ظالموں کے ساتھ شمار کر۔ الاعراف
151 موسی نے کہا پروردگار ! میرا قصور بخش دے ( کہ جوش میں آگیا) اور میرے بھائی کا بھی (کہ گمراہوں کو سختی کے ساتھ نہ روک سکا) اور ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں داخل کر، تجھ سے بڑھ کر کون ہے جو رحم کرنے والا ہو۔ الاعراف
152 خدا نے فرمایا جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی ان کے حصے میں ان کے پروردگار کا غضب آئے گا اور دنیا کی زندگی میں بھی ذلت و رسوائی پائیں گے، ہم افترا پردازوں کو (ان کی بدعملی کا) اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ الاعراف
153 ہاں جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کے بعد (متنبہ ہوکر) توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو بلا شبہ تمہارا پروردگار توبہ کے بعد بخش دینے والا رحمت والا ہے۔ الاعراف
154 اور جب موسیٰ کی خشم ناکی فرو ہوئی تو اس نے تختیاں اٹھا لیں، ان کی کتابت میں (یعنی ان حکموں میں جو ان پر لکھتے ہوئے تھے) ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو اپنے پروردگار کا ڈر رکھتے ہیں۔ الاعراف
155 اور اس غرض سے کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت میں حاضر ہوں موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چنے، پھر جب لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا تو موسیٰ نے (ہماری جناب میں) عرض کیا پروردگار ! اگر تو چاہتا تو ان سب کو اب سے پہلے ہی ہلاک کر ڈالتا اور خود میری زندگی بھی ختم کردیتا (مگر تو نے اپنے فضل و رحمت سے ہمیں مہلت دی) پھر کیا ایک ایسی بات کے لیے جو ہم میں سے چند بے وقوف آدمی کر بیٹھے ہیں تو ہم سب کو ہلاک کردے گا؟ یہ اس کے سوا کیا ہے کہ تیری طرف سے ایک آزمائش ہے، تو جسے چاہے اس میں بھٹکا دے جسے چاہے راہ دکھا دے۔ خدایا ! تو ہمارا والی ہے، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تجھ سے بہتر بخشنے والا کوئی نہیں۔ الاعراف
156 اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر، ہم تیری طرف لوٹ آئے، خدا نے فرمایا میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، پس میں ان لوگوں کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کے لیے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے۔ الاعراف
157 جر رسول کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہوگا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں تورات اور انجیل میں لکھی پائیں گے، وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا، برائی سے روکے گا، پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے، تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کے مخالفوں کے لیے روک ہوئے (راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں۔ الاعراف
158 (اے پیغمبر ! تم لوگوں سے) کہو اے افراد نسل انسانی ! میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں، وہ خدا کہ آسمانوں کی اور زمین کی ساری پادشاہت اسی کے لیے ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر اسی کی ایک ذات، وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے، پس اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول نبی امی پر کہ اللہ اور اسکے کلمات (یعنی اس کی تمام کتابوں) پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی پیروی کرو (کامیابی کی) راہ پر تم کھل جائے۔ الاعراف
159 اور موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ (ضرور) ایسا ہے جو لوگوں کو سچائی کی راہ چلاتا ہے اور سچائی ہی کے ساتھ (ان کے معاملات میں) انصاف بھی کرتا ہے۔ الاعراف
160 اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ خاندانوں کے بارہ گروہوں میں منقسم کردیا اور جب لوگوں نے موسیٰ سے پینے کے لیے پانی مانگا تو ہم نے وحی کی کہ اپنی لاٹھی (ایک (١) خاص) چٹان پر مارو۔ چانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنی اپنی جگہ پانی کی معلوم کرلی اور ہم نے بنی اسرائیل پر ابر کا سایہ کردیا تھا، اور (ان کی غذا کے لیے) من اور سلوی اتارا تھا، ہم نے کہا تھا یہ پسندیدہ غذا کھاؤ جو ہم نے عطا کی ہے۔ (اور فتنہ و فساد میں نہ پڑو) انہوں نے (نافرمانی کر کے) ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا، خود اپنے ہاتھوں اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔ الاعراف
161 اور پھر (وہ واقعہ یاد کرو) جب بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا، اس (٢) شہر میں جاکر آباد ہوجاؤ، (جس کے فتح کرنے کی تمہیں توفیق ملی ہے) اور (یہ نہایت زرخیز علاقہ ہے) جس جگہ سے چاہو اپنی غذا حاصل کرو اور تمہاری زبانوں پر حطۃ (٣) کا کلمہ جاری ہو اور اس کے دروازے میں داخل ہو تو (اللہ کے حضور) جھکے ہوئے ہو۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں اور نیک کرداروں کو (اس سے بھی) زیادہ اجر دیں گے۔ الاعراف
162 لیکن پھر ایسا ہوا کہ جو لوگ ان میں ظلم و شرارت کی راہ چلنے والے تھے انہوں نے خدا کی بتلائی ہوئی بات بدل کر ایک دوسری ہی بات بنا ڈالی (یعنی جس بات کا حکم دیا گیا تھا اس سے بالکل الٹی چال چلی) پس ہم نے آسمان سے ان پر عذاب بھیجا اس ظلم کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔ الاعراف
163 اور (اے پیغمبر) بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ خدا کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہوجاتے تھے، سب کے دن ان کی (مطلوبہ) مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آجاتیں مگر جس دن سبت نہ مناتے نہ آتیں، اس طرح ہم انہیں آزمائش میں ڈالتے تھے، بہ سبب اس نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے۔ الاعراف
164 اور جب اس شہر کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے (ان لوگوں سے جو نافرمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے) کہا تم ایسے لوگوں کو (بیکار) نصیحت کیوں کرتے ہو جنہیں (ان کی شقاوت کی وجہ سے) یا تو خدا ہلاک کردے گا یا نہایت سخت عذاب (اخروی) میں مبتلا کرے گا؟ انہوں نے کہا اس لیے کرتے ہیں تاکہ تمہارے پروردگار کے حضور معذرت کرسکیں (کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا) اور اس لیے بھی کہ شاید لوگ باز آجائیں۔ الاعراف
165 پھر جب ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو انہیں کی گئی تھیں تو ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا، ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے مگر شرارت کرنے والوں کو ایسے عذاب میں ڈالا کہ محرومی و نامرادی میں مبتلا کرنے والا عذاب تھا۔ بہ سبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کیا کرتے تھے۔ الاعراف
166 پھر جب یہ (سزا بھی انہیں عبرت نہ دلا سکی اور) وہ اس بات میں حد سے زیادہ سرکش ہوگئے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا، بندر ہوجاؤ، ذلت و خواری سے ٹھکرائے ہوئے۔ الاعراف
167 اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے اس بات کا اعلان کردیا تھا (اگر بنی اسرائیل شرارت و بدعملی سے باز نہ آئے تو) وہ قیامت کے دن کے تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو انہیں ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار (بدعملی کی) سزا دینے میں دیر کرنے والا نہیں اور ساتھ ہی بخشنے والا رحمت والا بھی ہے۔ الاعراف
168 اور ہم نے انہیں الگ الگ گروہ کر کے زمین میں متفرق کردیا، کچھ ان میں نیک تھے کچھ اس کے خلاف اور ہم نے انہیں اچھی اور بری طرح کی حالتوں میں ڈال کر آزمایا تاکہ (بدعملیوں سے) باز آجائیں۔ الاعراف
169 پھر ان لوگوں کے بعد ناخلفوں نے ان کی جگہ پائی اور کتاب الہی کے وارث ہوئے۔ وہ (دین فروشی کر کے) اس دنیائے حقیر کی متاع (بے تامل) لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں اس کی تو ہمیں معافی مل ہی جائے گی، اور اگر کوئی متاع انہیں اسی طرح (فریق ثانی سے) ہاتھ آجائے تو اسے بھی بلا تامل لے لیں، کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا ہے کہ خدا کے نام سے کوئی بات نہ کہیں مگر وہی جو سچ ہو؟ اور کیا جو کچھ کتاب میں حکم دیا گیا ہے وہ پڑھ نہیں چکے ہیں؟ جو متقی ہیں ان کے لیے تو آخرت کا گھر (دنیا اور دنیا کی خواہشوں سے) کہیں بہتر ہے ( وہ دنیا کے لیے اپنی آخرت تاراج کرنے والے نہیں، اے علمائے یہود) کیا اتنی سی بات بھی تمہاری عقل میں نہیں آتی؟ الاعراف
170 اور (بنی اسرائیل میں سے) جو لوگ کتاب اللہ کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز میں سرگرم ہیں تو (ان کے لیے کوئی کھٹکا نہیں) ہم کبھی سنوارنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ الاعراف
171 اور جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو زلزلہ (١) میں ڈالا تھا گویا ایک سائبان ہے (جو ہل رہا ہے) اور وہ (دہشت کی شدت میں) سمجھے تھے کہ بس ان کے سروں پر آگرا اور انہیں حکم دیا تھا کہ یہ کتاب جو ہم نے دی ہے مضبوطی سے پکڑے رہو اور جو کچھ اس میں بتلایا گیا ہے اسے خوب طرح یاد رکھو۔ اور یہ اس لیے ہے کہ تم برائیوں سے بچو۔ الاعراف
172 اور (اے پیغمبر ! وہ وقت بھی لوگوں کو یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی اس ذریت سے جو ان کے ہیکل سے (نسلا بعد نسل) پیدا ہونے والی تھی عہد لیا تھا اور انہیں (یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کی فطرت میں) خود اس پر گواہ ٹھہرایا تھا۔ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا تھا : ہاں تو ہی ہمارا پروردگار ہے، ہم نے اس کی گواہی دی اور یہ اس لیے کیا تھا کہ ایسا نہ ہو تم قیامت کے دن عذر کر بیٹھو کہ ہم اس سے بے خبر رہے۔ الاعراف
173 یا کہو خدایا ! شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادوں نے کیا، ہم ان کی نسل میں بعد کو پیدا ہوئے (اور لاچار وہی چال چلے جس پر پہلو کو چلتے پایا) پھر کیا تو ہمیں اس بات کے لیے ہلاک کرے گا جو (ہم سے پہلے) جھوٹی راہ پر چلنے والوں نے کی تھی؟ الاعراف
174 اور (دیکھو) اس طرح ہم سچائی کی نشانیاں الگ الگ کر کے واضح کردیتے ہیں تاکہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آئیں۔ الاعراف
175 اور (اے پیغمبر) ان لوگوں کو اس آدمی کا حال (کلام الہی میں) پڑھ کر سناؤ جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھی (یعنی دلائل حق کی سمجھ عطا کی تھی) لیکن پھر ایسا ہوا کہ اس نے (دانش و فہم کا) وہ جامہ اتار دیا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگا، نتیجہ یہ نکلا کہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ الاعراف
176 اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کے ذریعہ اس کا مرتبہ بلند کرتے (یعنی دلائل حق کا جو علم ہم نے دیا تھا وہ ایسا تھا کہ اگر اس پر قائم رہتا اور ہماری مشیت ہوتی تو بڑا درجہ پاتا) مگر وہ پستی کی طرف جھکا اور ہوائے نفس کی پیروی کی، تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی۔ مشقت میں ڈالو جب بھی ہانپے اور زبان لٹکائی، چھوڑ دو جب بھی ایسا ہی کرے، ایسی ہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں تو (اے پیغمبر) یہ حکایتیں لوگوں کو سناؤ تاکہ ان میں غور و فکر کریں۔ الاعراف
177 کیا ہی بری مثال ان لوگوں کی ہوئی جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں، وہ اپنے ہاتھوں خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔ الاعراف
178 جس پر اللہ (کامیابی کی) راہ کھول دے تو وہی راہ پر ہے اور جس پر (کامیابی کی) راہ گم کردے تو ایسے ہی لوگ ہیں جو گھاٹے ٹوٹے میں پڑے۔ الاعراف
179 اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا (یعنی بالآخر ان کا ٹھکانا جہنم ہونے والا ہے) ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ وہ (عقل و حواس کا استعمال کھو کر) چارپایوں کی طرح ہوگئے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔ الاعراف
180 اور (دیکھو) اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں (یعنی صفتیں ہیں) سو تم انہی ناموں سے اسے پکارو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں (یعنی ایسی صفتیں گھڑے ہیں جو اس کے جمال و پاکی کے خلاف ہیں) تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو وہ وقت دور نہیں کہ اپنے کیے کا بدلہ پالیں گے۔ الاعراف
181 اور جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ان میں ضرور ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو لوگوں کو سچائی کی راہ دکھاتا اور سچائی ہی کے ساتھ ان میں انصاف بھی کرتا ہے۔ الاعراف
182 اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں ہم انہیں درجہ بدرجہ (آخری نتیجہ تک) لے جائیں گے، اس طرح کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی۔ الاعراف
183 ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں (یعنی ہمارا قانون جزا ایسا ہے کہ نتائج بتدریج ظہور میں آتے ہیں اور مہلتوں پر مہلتیں ملتی رہتی ہیں، اور ہماری مخفی تدبیر بڑی ہی مضبوط ہے۔ الاعراف
184 کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا؟ ان کے رفیق کو (یعنی پیغمبر اسلام کو جو انہی میں پیدا ہوا اور جس کی زندگی کی ہر بات ان کے سامنے ہے) کچھ دیوانگی تو ہیں لگ گئی ہے (کہ خواہ مخواہ ایک بات کے پیچھے پڑ کر سب کو اپنا دشمن بنا لے) وہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ (انکار و بدعملی کی پاداش سے) کھلے طور پر خبردار کردینے والا ہے۔ الاعراف
185 پھر کیا یہ نظر اٹھا کر آسمان و زمین کی پادشاہی اور جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے نہیں دیکھتے؟ نیز یہ بات کہ ہوسکتا ہے ان کا (مقررہ) وقت قریب آگیا ہو؟ (اگر سوچنے سمجھنے کی یہ ساری باتیں انہیں ہوشیار نہیں کرسکتیں تو) پھر اس کے بعد اور کون سی بات ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں گے؟ الاعراف
186 جس پر (کامیابی کی) راہ خدا گم کردے (جیسے خدا کے ٹھہرائے ہوئے قانون نتائج کے مطابق کھویا جائے) تو پھر اس کے لیے کوئی راہ دکھانے والا نہیں، خدا (کے قانون) نے انہیں چھوڑ دیا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ الاعراف
187 (اے پیغمبر) لوگ تم سے (قیامت کے) آنے والے وقت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب قرار پائے گا؟ تم کہہ دو اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہے، وہی ہے جو اس بات کو اس کے وقت پر نمایاں کرنے و الا ہے۔ وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں واقع ہوگا، وہ تم پر نہیں آئے گا مگر اچانک۔ (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا تم اس کی کاوش میں لگے ہوئے ہو، تم کہو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف خدا ہی یہ ابت جانتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے انجان ہیں۔ الاعراف
188 (اے پیغمبر) تم کہہ دو میرا حال تو یہ ہے کہ کود اپنی جان کا نفع نقصان بھی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا، وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے، اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے خبردار کردینے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔ الاعراف
189 وہی (تمہارا پروردگار) ہے جس نے اکیلی جان سے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارے قبیلوں اور گروہوں کا مورث اعلی ایک فرد واحد تھا) اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنا دیا (یعنی مرد ہی کی نسل سے عورت بھی پیدا ہوتی ہے) تاکہ وہ اس کی رفاقت میں چین پائے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ مرد عورت کی طرف ملتفت ہوا (١) تو عورت کو حمل رہ جاتا ہے۔ پہلے حمل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور وہ وقت گزار دیتی ہے، پھر جب بوجھل ہوجاتی ہے (اور وہ وضع حمل کا وقت قریب آلگتا ہے) تو مرد اور عورت دونوں اللہ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ ان کا پرورش کرنے والا ہے : خدایا ! ہم دونوں تیرے شکر گزار ہوں گے اگر ہمیں ایک تندرست بچہ عطا فرما دے۔ الاعراف
190 پھر جب خدا نے انہیں ایک تندرست فرزند دے دیا تو جو چیز خدا نے دی اس میں دوسری ہستیوں کو شریک ٹھہرانے لگے، سو (یاد رکھو) یہ لوگ جیسی کچھ شرک کی باتیں کرتے ہیں اس سے اللہ کی ذات بہت بلند ہے۔ الاعراف
191 یہ لوگ خدا کے ساتھ کن ہستیوں کو شریک ٹھہراے ہیں؟ ایسوں کو جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے اور خود کسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ الاعراف
192 ان میں نہ تو اس کی طاقت کہ ان کی مدد کریں، نہ اس کی کہ خود اپنی ذات ہی کو مدد پہنچائیں۔ الاعراف
193 اگر تم سیدھی راہ کی طرف بلاؤ تو تمہارے پیچھے قدم نہ اٹھا سکیں اور تم انہیں پکارو یا چپ رہو دونوں حالتوں کا نتیجہ تمہارے لیے یکساں ہو۔ الاعراف
194 (نادانو) تم خدا کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہو وہ تمہاری ہی طرح خدا کے بندے ہیں، اگر تم (اپنے اس وہم میں) سچے ہو (کہ ان میں ماورائے بشریت طاقتیں ہیں) تو اپنی احتیاجوں میں پکارو، وہ تمہاری پکار کا جواب دیں گے۔ الاعراف
195 کیا ان (پتھر کی مورتیوں) کے پاؤ ہیں جن سے چلتے ہوں؟ ہاتھ ہیں جن سے پکڑتے ہوں؟ آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے ہوں؟ کان ہیں جن سے سنتے ہوں؟ (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو (اگر تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو) انہیں (جس قدر پکار سکتے ہو) پکار لو پھر ( میرے خلاف اپنی ساری) مخفی تدبیریں کر ڈالو اور مجھے (اپنے جانتے) ذرا بھی مہلت نہ دو، (پھر دیکھو نتیجہ کیا نکلتا ہے)۔ الاعراف
196 میرا کارساز تو بس اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہی ہے جو نیک انسانوں کی کارسازی کرتا ہے۔ الاعراف
197 تم اللہ کے سوا جنہیں پکارتے ہو یاد رکھو وہ نہ تو تمہاری مدد کرنے کی قدرت رکھتے ہیں نہ خود اپنی ہی مدد پر قادر ہیں۔ الاعراف
198 (اے پیغمبر) اگر تم ان لوگوں کو سیدھے رستے بلاؤ تو کبھی تمہاری پکار نہ سنیں، تمہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تمہاری طرف تک رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دیکھتے نہیں۔ الاعراف
199 (بہرحال) نرمی و درگزر سے کام لو، نیکی کا حکم دو، جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو۔ الاعراف
200 اور اگر ایسا ہو کہ شیطان کی طرف سے وسوسہ کی کوئی خلش محسوس ہو تو اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے پناہ طلب کرو۔ بلاشبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (١) الاعراف
201 جو لوگ متقی ہیں اگر انہیں شیطان کی وسوسہ اندازی سے کوئی خیال چھو بھی جاتا ہے تو فورا چونک اٹھتے ہیں اور پھر (پردہ غفلت اس طرح ہٹ جاتا ہے گویا) اچانک ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ الاعراف
202 مگر جو لوگ شیطانوں کے بھائی بند ہیں تو انہیں وہ گمراہی میں کھینچے لیے جاتے ہیں اور پھر اس میں ذرا بھی کمی نہیں کرتے۔ الاعراف
203 اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوتا ہے کہ تم ان کے پاس کوئی نشانی لے کر نہ جاؤ (جیسی نشانیوں کی وہ فرمائشیں کیا کرتے ہیں) تو کہتے ہیں کیوں کوئی نشانی پسند کر کے نہ چن لی (یعنی کیوں اپنے جی سے نہ بنا لی) تم کہہ دو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو کچھ میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرتا ہوں (میرے ارادے اور پسند کو اس میں کیا دخل؟) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے سرمایہ دلائل ہے اور ان سب کے لیے جو یقین رکھنے والے ہیں ہدایت اور رحمت۔ الاعراف
204 اور (مسلمانو) جب قرآن پڑھا جائے تو جی لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ اللہ کی مہربانی کے مستحق ثابت ہو۔ الاعراف
205 اور (اے پیغمبر) اپنے پروردگار کو صبح و شام یاد کیا کر، دل ہی دل میں عجز و نیاز کے ساتھ ڈرتے ہوئے اور زبان سے بھی آہستہ آہستہ بغیر پکارے، اور ایسا نہ کرنا کہ غافلوں میں سے ہوجاؤ۔ الاعراف
206 جو اللہ کے حضور (مقرب) ہیں وہ کبھی بڑائی میں آکر اس کی بندگی سے نہیں جھجکتے، وہ اس کی پاکی و ثنا میں زمزمہ سنج رہتے رہیں اور اسی کے آگے سربسجود ہوتے ہیں۔ الاعراف
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے الانفال
1 (اے پیغمبر) لوگ تم سے پوچھتے ہیں مال غنیمت کے بارے میں کیا ہونا چاہیے؟ (١) کہہ دو مال غنیمت دراصل اللہ اور اسکے رسو کا ہے، پس اگر تم مومن ہو تو چاہیے کہ (اس کی وجہ سے آپس میں جھگڑا نہ کرو) اللہ سے ڈرو اپنا باہمی معاملہ درست رکھو اور اسکی اور اس کے رسولوں کی اطاعت میں سرگرم ہوجاؤ۔ الانفال
2 مومنوں کی شان تو یہ ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دہل جاتے ہیں اور جب اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ ہر حال میں اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ الانفال
3 جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے (ایک حصہ ہماری راہ میں بھی) خرچ کرتے ہیں۔ الانفال
4 بلا شبہ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لیے ان کے پروردگار کے یہاں مرتبے ہیں اور بخشائش اور بڑی خوبی و عزت کی روزی۔ الانفال
5 (اس معاملہ کو بھی ویسا ہی سمجھ) جس طرح (جنگ بدر میں) یہ بات ہوئی تھی کہ تیرے پروردگار نے سچائی کے ساتھ تجھے تیرے گھر سے نکالا تھا اور یہ واقعہ ہے کہ مومنوں کا ایک گروہ اس بات سے ناخوش تھا۔ الانفال
6 وہ تجھ سے امر حق میں جھگڑنے لگے باوجودیکہ معاملہ واضح ہوچکا تھا۔ (وہ باہر نکل کر مقابل ہونے سے اس درجہ ناخوش تھے) گویا انہیں زبردستی موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے اور وہ (اپنی موت آنکھوں سے) دیکھ رہے ہیں۔ الانفال
7 اور (مسلمانو) جب ایسا ہوا تھا کہ اللہ نے تم سے وعدہ فرمایا (دشمنوں کی) دو جماعتوں میں سے کوئی ایک تمہارے ہاتھ ضرور آئے گی، اور تمہارا حال یہ تھا کہ چاہتے تھے جس جماعت میں لڑائی کی طاقت نہیں (یعنی قافلہ والی) وہ ہاتھ آجائے اور (خدا کا چاہنا دوسرا تھا) خدا چاہتا تھا اپنے وعدہ کے ذریعہ حق کو ثابت کردے اور دشمنان حق کی جڑ بنیادیں کاٹ کر رکھ دے۔ الانفال
8 (اور) یہ اس لیے تاکہ حق کو حق کر کے دکھلا دے اور باطل کو باطل کر کے۔ اگرچہ (ظلم و فساد کے) مجرم ایسا ہونا پسند نہ کریں۔ الانفال
9 جب ایسا ہوا تھا کہ (جنگ بدر کے موقع پر) تم نے اپنے پروردگار سے فریاد کی تھی کہ ہماری مدد کر اور اس نے تمہاری فریاد سن لی تھی، اس نے کہا تھا، میں ایک ہزار فرشتوں سے کہ یکے بعد دیگرے آئیں گے تمہاری مدد کروں گا۔ الانفال
10 اور اللہ نے یہ بات جو کی تو اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ (تمہارے لیے) خوشخبری ہو اور تمہارے (مضطرب دل) قرار پاجائیں، ورنہ مدد تو (ہر حال میں) اللہ کی طرف سے ہے۔ بلا شبہ وہ (سب پر) غالب آنے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ الانفال
11 جب ایسا ہوا تھا کہ اس نے چھا جانے والی غنودگی تم پر طاری کردی تھی کہ یہ اس کی طرف سے تمہارے لیے تسکین و بے خوفی کا سامان تھا اور آسمان سے تم پر پانی برسا دیا تھا کہ تمہیں پاک و صاف ہونے کا موقع دے دے اور تم سے شیطان (کے وسوسوں) کی ناپاکی دور کردے۔ نیز تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھ جائے اور (ریتلے میدانوں میں) قدم جما دے۔ الانفال
12 (اے پیغمبر) یہ وہ وقت تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں پر وحی کی تھی میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری مدد تمہارے ساتھ ہے) پس مومنوں کو استوار رکھو، عنقریب ایسا ہوگا کہ میں کافروں کے دلوں میں (مومنوں کی) دہشت ڈال دوں گا۔ سو (مسلمانو) ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ، ان کے ہاتھ پاؤں کی ایک ایک انگلی پر ضرب لگاؤ۔ الانفال
13 اور یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا تو یاد رکھو اللہ (پاداش عمل میں) سخت سزا دینے والا ہے۔ الانفال
14 (اے اعدائے حق) یہ ہے سزائے تمہارے لیے تو اس کا مزہ چکھ لو اور جان رکھو منکرین حق کو آتش دوزخ کا عذاب بھی پیش آنے والا ہے۔ الانفال
15 مسلمانو ! جب کافروں کے لشکر سے تمہاری مٹھ بھیڑ ہوجائے (یعنی وہ تم پر ہجوم کر کے چڑھ دوڑیں اور تم مقابل ہو) تو انہیں پیٹھ نہ دکھاؤ (سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرو) الانفال
16 اور جو کوئی ایسے موقع پر پیٹھ دکھلائے گا تو سمجھ لو وہ خدا کے غضب میں آگیا اور اس اس کا ٹھکانا دوزخ ہوا (اور جس کا ٹھکانا دوزخ ہوا تو) سا کے پہنچنے کی جگہ کیا ہی بری جگہ ہے۔ مگر (ہاں) جو کوئی لڑائی کی مصلحت سے ہٹ جائے یا (اپنے گروہوں میں سے) کسی گروہ کے پاس جگہ لینی چاہے (اور اس لیے ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ جائے، تو اس کا مضائقہ نہیں) الانفال
17 پھر کیا تم نے انہیں (جنگ میں) قتل کیا؟ نہیں خدا نے کیا (یعنی محض اس کی تائید سے ایسا ہو) اور (اے پیغمبر) جب تم نے (میدان جنگ میں مٹھی بھر کر خاک) پھینکی تو حقیقت یہ ہے کہ تم نے نہیں پھینکی تھی خدا نے پھینکی تھی، اور یہ اس لیے ہوا تھا تاکہ اس کے ذریعہ ایمان والوں کو ایک بہتر آزمائش میں ڈال کر آزمائے۔ بلا شبہ اللہ سننے والا، علم رکھنے والا ہے۔ الانفال
18 یہ سب تو ہوچکا، اب سن رکھو کہ اللہ کافروں کی مخفی تدبیروں کو (جو وہ دعوت حق کے مٹانے کے لیے کر رہے ہیں) کمزور کردینے والا ہے۔ الانفال
19 (اے روسائے مکہ) اگر تم فتح مندی کے ظہور کے طلبگار تھے تو دیکھ لو فتح مندی تمہارے سامنے آگئی (یعنی جنگ بدر کے نتیجہ نے ہار جیب کا فیصلہ آشکارا کردیا) اور اگر (آئندہ لڑائی سے) باز آجاؤ تو تمہارے لیے بہتری کی بات یہی ہے۔ اور اگر پھر یہی چال چلے تو ہم بھی چال چلیں گے۔ اور یاد رکھو تمہارا جتھا تمہارے کچھ کام نہ آئے گا اگرچہ بہت سے آدمی اکٹھے کرلو، یقین کرو اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔ الانفال
20 مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اس سے روگردانی نہ کرو اور تم (صدائے حق) سن رہے ہو۔ الانفال
21 اور دیکھو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے (زبان سے) کہا تھا ہم نے سنا، اور واقعہ یہ تھا کہ وہ سنتے نہ تھے۔ الانفال
22 یقینا اللہ کے نزدیک سب سے بدتر حیوان وہ (انسان) ہیں جو بہرے گونگے ہوگئے جو کچھ سمجھتے نہیں۔ الانفال
23 اور اگر اللہ دیکھتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے ( یعنی ان میں فہم و قبول حق کی کچھ بھی استعداد باقی ہے) تو ضرور انہیں سنوا دیتا، اور اگر وہ انہیں سنوائے (حالانکہ وہ جانتا ہے کہ قبولیت کی استعداد کھو چکے ہیں) تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ اس سے منہ پھیر لیں گے اور وہ اس سے پھرے ہوئے ہیں۔ الانفال
24 مسلمانو اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو، جب وہ پکارتا ہے تاکہ تمہیں (روحانی موت کی حالت سے نکال کر) زندہ کردے اور جان لو کہ (بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ) اللہ (اپنے ٹھہرائے ہوئے قوانین و اسباب کے ذریعہ) انسان اور اس کے کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے وار جان لو کہ (آخر کار) اسی کے حضور جمع کیے جاؤ گے۔ الانفال
25 اور اس فتنہ سے بچتے رہو جو اگر اٹھا تو اس کی زد صرف انہی پر نہیں پڑے گی جو تم میں ظلم کرنے والے ہیں بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور جان لو کہ اللہ (بدعملیوں کی) سزا دینے میں سخت ہے۔ الانفال
26 اور وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) تمہاری تعداد بہت تھوڑی تھی اور تم ملک میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تم اس وقت ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچانک نہ لے جائیں، پھر اللہ نے تمہیں (مدینہ میں) ٹھکانا دیا، اپنی مددگاری سے قوت بخشی اور اچھی چیزیں دے کر رزق کا سامان مہیا کردیا تاکہ تم شکر گزار ہوا۔ الانفال
27 مسلمانو ایسا نہ کرو کہ اللہ اور س کے رسول کے ساتھ خیانت کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو اور تم اس بات سے ناواقف نہیں ہو۔ الانفال
28 اور یاد رکھو تمہارا مال اور تمہاری اولاد (تمہارے لیے) ایک آزمائش ہے اور یہ بھی نہ بھولو کہ اللہ ہی ہے جس کے پاس (بخشنے کے لیے) بہت بڑا اجر ہے۔ الانفال
29 مسلمانو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو (اور اس کی نافرمانی سے بچو) تو وہ تمہارے لیے (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی ایک قوت پیدا کردے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور بخش دے گا، اللہ تو بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔ الانفال
30 اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تاکہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہا تھا، اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ الانفال
31 اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ہاں ہم نے سن لیا، اگر چاہیں تو ہم بھی اس طرح کی باتیں کہہ لیں، یہ اس کے سوا کیا ہے کہ جو پہلے گزر چکے ان کی لکھی ہوئی داستانیں ہیں۔ الانفال
32 اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ (کفار مکہ نے) کہا تھا خدایا ! اگر یہ بات (یعنی پیغمبر اسلام کی دعوت) تیری جانب سے امر حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے یا ہمیں (کسی دوسرے) عذاب دردناک میں مبتلا کر۔ الانفال
33 اور اللہ ایسا کرنے والا نہ تھا کہ تو ان کے درمیان موجود ہو اور پھر انہیں عذاب میں ڈالے حالانکہ وہ معافی مانگ رہے ہوں۔ الانفال
34 لیکن (اب کہ تجھے مکہ چھوڑ دینے پر انہوں نے مجبور کردیا) کون سی بات رہ گئی ہے کہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ وہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے متولی ہونے کے لائق نہیں، اس کے متولی اگر ہوسکتے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہوسکتے ہیں جو متقی ہوں (نہ کہ مفسد و ظالم) لیکن ان میں سے اکثر کو (یہ حقیقت) معلوم نہیں۔ الانفال
35 اور خانہ میں ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ سیٹیاں بجائیں اور تالیاں پیٹیں، تو دیکھو جیسے کچھ کفر کرتے رہے ہو، اب (اس کی پاداش میں) عذاب کا مزہ چکھ لو۔ الانفال
36 جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ اپنا مال اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو خدا کی راہ سے روکیں تو یہ لوگ آئندہ بھی (اسی طرح) خرچ کریں گے لیکن پھر (وقت آئے گا کہ یہ مال خرچ کرنا) ان کے لیے سراسر پچھتاوا ہوگا اور پھر (بالاخر) مغلوب کیے جائیں گے۔ اور (یاد رکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی (اور آخر تک اس پر جمے رہے تو) وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ الانفال
37 اور یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ ناپاک (روحوں) کو پاک (روحوں سے) جدا کردے اور جو ناپاک ہیں ان میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا دے پھر سب کو (اپنی تباہ حالیوں میں) اکٹھا کردے پھر (قیامت کے دن) اس (جمع شدہ گروہ) کو دوزخ کے حوالے کردے یہی لوگ ہیں یکسر تباہ ہوجانے والے۔ الانفال
38 (اے پیغمبر) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تم ان سے کہہ دو اگر وہ (اب بھی) باز آجائیں تو جو کچھ گزر چکا معاف کردیا جائے لیکن اگر وہ پھر (ظلم و جنگ کی طرف) لوٹے تو ( اس بارے میں) پچھلوں کا طور طریقہ اور اس کا نتیجہ گزر چکا ہے (اور ہی انہیں بھی پیش آکر رہے گا) الانفال
39 اور (مسلمانو ! اب تمہارے لیے صرف یہی چارہ کار رہ گیا ہے کہ) ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ ظلم و فساد باقی نہ رہے اور دین کا سارا معاملہ اللہ ہی کے لیے ہوجائے (یعنی دین کا معاملہ خدا اور انسان کا باہمی معاملہ ہوجائے، انسان کا طلم اس میں مداخلت نہ کرسکے) پھر اگر ایسا ہو کہ وہ (جنگ سے) باز آجائیں تو جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ الانفال
40 اور اگر (صلح و درگزر کی اس آخری دعوت سے بھی) روگردانی کریں تو یاد رکھو اللہ تمہارا رفیق و کارساز ہے (اور جس کا رفیق اللہ ہو تو) کیا ہی اچھا رفیق ہے اور کیا ہی اچھا مددگار۔ الانفال
41 اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت میں ملے اس کا پانچواح حصہ اللہ کے لیے، رسول اللہ کے لیے (رسول کے) قرابت داروں کے لیے، یتیموں کے لیے، مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے نکالنا چاہے (اور بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیئے جاسکتے ہیں) اگر تم اللہ پر اور اس (غیبی مدد) پر یقین رکھتے ہو جو ہم نے فیصلہ کردینے والے دن اپنے بندے پر نازل کی تھی جبکہ دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے تو چاہیے کہ اس تقسیم پر کاربند رہو۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔ الانفال
42 یہ وہ دن تھا کہ تم ادھر قریب کے ناکے پر تھے، ادھر دشمن دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نچلے حصے میں تھا (یعنی سمندر کے کنارے نکل گیا تھا) اور اگر تم نے آپس میں لڑائی کی بات ٹھہرائی ہوتی تو ضرور میعاد سے گزیز کرتے (کیونکہ تمہیں دشمنوں کی کثرت سے اندیشہ تھا اور تم میں سے بہتوں کی نظر قافلہ پر تھی) لیکن اللہ نے دونوں لشکروں کو بھڑا دیا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے، نیز اس لیے کہ جسے ہلاک ہونا ہے اتمام حجت کے بعد ہلاکت ہو اور جو زندہ رہنے والا ہے اتمام حجت کے بعد زندہ رہے اور بلا شبہ اللہ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ الانفال
43 (اور اے پیغمبر) یہ وہ دن تھا کہ اللہ نے تجھے خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی (یعنی یہ دکھلایا کہ اگرچہ بظاہر مسلمانوں سے زیادہ ہوں گے لیکن عزم و ثبات میں تھوڑے ثابت ہوں گے) اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو (مسلمانو) تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے، اللہ نے تمہیں اس صورت حال سے بچا لیا، یقین کرو جو کچھ انسان کے سینوں میں چھپا ہوتا ہے وہ اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔ الانفال
44 اور (پھر دیکھو) جب تم دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اور اللہ نے ایسا کیا تھا کہ دشمن تمہاری نظروں میں تھوڑے دکھائی دیئے، (کیونکہ تمہارے دلوں میں ایمان و استقامت کی روح پیدا ہوگئی تھی) اور ان کی نظروں میں تم تھوڑے دکھائی دئے (کیونکہ بظاہر تعداد میں وہی زیادہ تھے) اور یہ اس لیے کیا تھا تاکہ جو بات ہونے و الی تھی اسے کر دکھائے اور سارے کاموں کا دارومدار اللہ ہی کی ذات پر ہے۔ الانفال
45 مسلمانو ! جب (حملہ آوروں کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو لڑائی میں ثابت قدم رہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ الانفال
46 اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ایسا کرو گے تو تمہاری طاقت سست پڑجائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی اور (جیسی کچھ بھی مشکلیں مصیبتیں پیش آئیں تم) صبر کرو، اللہ ان کا ساتھی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ الانفال
47 اور (دیکھو) ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے ( لڑنے کے لیے) اتراتے ہوئے اور لوگوں کی نظروں میں نمائش کرتے ہوئے نکلے اور جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کی راہ سے (اس کے بندوں کو) روکتے ہیں۔ اور (یاد رکھو) جو کچھ بھی یہ لوگ کرتے ہیں اللہ (اپنے علم و قدرت سے) اس پر چھایا ہوا ہے۔ الانفال
48 اور (پھر) جب ایسا ہوا کہ شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما کر کے دکھا دیئے تھے اور کہا تھا آج ان لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں مگر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوا اور لگا کہنے : مجھے تم سے کچھ سرور کار نہیں، مجھے وہ بات دکھائی دے رہی ہے جو تم نہیں دیکھتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ (بدعملیوں کی پاداش میں) بہت سخت سزا دینے والا ہے۔ الانفال
49 اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (ایمان کی کمزوری کا) روگ تھا کہنے لگے تھے ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے مغرور کردیا ہے، (یعنی یہ محض دین کا نشہ ہے جو انہیں مقابلے پر لے جارہا ہے ورنہ ان کے پلے ہے کیا؟ وہ نہیں جانتے تھے کہ مسلمانوں کا بھروسہ اللہ پر ہے) اور جس کسی نے اللہ پر بھروسہ کیا تو اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ الانفال
50 اور (اے مخاطب) اگر تو (اپنی آنکھوں سے) وہ حالت دیکھے جب فرشتے (ان) کافروں کی روحیں قبض کرتے اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں اب عذاب آتش کا مزہ چکھو (تو تیرا کیا حال ہو؟) الانفال
51 (اے اعدائے حق) یہ اس (بدعملی) کا نتیجہ ہے جو خود تمہارے ہی ہاتھوں نے پہلے سے ذخیرہ کردیا اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے ظلم کرنے والا ہو۔ الانفال
52 جیسا کچھ دستور فرعون کے گروہ کا اور ان (سرکشوں) کا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں رہ چکا ہے وہی تمہارا ہوا۔ اللہ کی نشانیوں سے انکار کیا، تو اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا، بلاشبہ اللہ (پاداش عمل کی) سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ الانفال
53 (اور) یہ بات اس لیے ہوئی کہ اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ کود اسی گروہ کے افراد پر اپنی حالت نہ بدل لیں اور اس لیے بھی اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔ الانفال
54 جیسا کچھ دستور فرعون کے گروہ کا اور ان (سرکشوں) کا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں رہ چکا ہے وہی تمہارا ہوا۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں جھٹلائیں تو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کر ڈالا۔ فرعون کا گروہ (سمندر میں) غرق کیا گیا تھا اور وہ سب ظلم کرنے والے تھے۔ الانفال
55 بلا شبہ اللہ کے نزدیک بدترین چار پائے وہ (انسان) ہیں جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو یہ وہ لوگ ہیں کہ کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ الانفال
56 (اے پیغمبر) جن لوگوں سے تم نے صلح کا) عہد و پیمان کیا تھا پھر انہوں نے اسے توڑا اور ایسا ہوا کہ ہر مرتبہ عہد کر کے توڑتے ہی رہے اور (بدعہدی کے وبال سے) ڈرتے نہیں۔ الانفال
57 تو (اب چاہے جیسی حالت میں انہیں پاؤ اسی کے مطابق سلوک بھی کرو) اگر تم لڑائی میں انہیں موجود پاؤ تو ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہیں (یعنی مشرکین مکہ) انہیں بھاگتے دیکھ کر خود بھی بھاگ کھڑے ہوں (اور) ہوسکتا ہے کہ عبرت پکڑیں۔ الانفال
58 اور اگر ایک گروہ (ابھی میدان جنگ میں تو دشمنوں کے ساتھ نکلا ہے لیکن اس) سے تمہیں دغا کا اندیشہ ہے تو چاہیے ان کا عہد انہی پر الٹا دو۔ (یعنی عہد فسخ کردو) اس طرح کہ دونوں جانب یکساں حالت میں ہوجائیں (یعنی ایسا نہ کیا جائے کہ اچانک شکست عہد کی انہیں خبر دی جائے بلکہ پہلے سے جتا دینا چاہیے، تاکہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر تیاری کی مہلت مل جائے) یاد رکھو اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ الانفال
59 اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی وہ خیال نہ کریں کہ بازی لے گئے، وہ کبھی (پیروان حق کو) درماندہ نہیں کرسکتے۔ الانفال
60 اور (مسلمانو) جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کر کے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اپنا سازو سامان مہیا کیے رہو کہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ کے (کلمہ حق کے) اور اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے۔ نیز ان لوگوں کے سوا اوروں پر بھی جن کی تمہیں خبر نہیں۔ اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کی تیاری میں) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا مل جائے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ تمہاری حق تلفی ہو۔ الانفال
61 اور (دیکھو) اگر (دشمن) صلح کی طرف جھکیں تو چاہیے تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور (ہر حال میں) اللہ پر بھروسہ روکھو۔ بلاشبہ وہی ہے جو (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔ الانفال
62 اور (اے پیغمبر) اگر ان کا ارادہ یہ ہوگا کہ تجھے دھوکا دیں تو (کوئی اندیشہ کی بات نہیں) اللہ کی ذات تیرے لیے کافی ہے وہی ہے جس نے اپنی مددگاری سے اور مومنوں (کی جماعت) سے تیری تائید کی۔ الانفال
63 اور وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں باہم الفت پیدا کردی، اگر تو وہ سب کچھ خرچ کر ڈالتا جو روئے زمین میں ہے جب بھی ان کے دلوں کو باہمی الفت سے نہ جوڑ سکتا۔ لیکن یہ اللہ ہے جس نے ان میں باہمی الفت پیدا کردی، بلا شبہ وہ (اپنے کاموں میں) غالب اور حکمت والا ہے۔ الانفال
64 اے پیغمبر ! اللہ تیرے لیے کفایت پیدا کرتا ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں۔ (١) الانفال
65 اے پیغمبر ! مومنوں کو لڑائی کا شوق دلا۔ (مسلمانو) اگر تم میں بیس آدمی بھی مشکلوں کو جھیل جانے والے نکل آئے تو یقین کرو وہ دو سو دشمنوں پر غالب ہو کر رہیں گے اور اگر تم میں ایسے آدمی سو ہوگئے تو سمجھ لو ہزار کافروں کو مغلوب کر رکے رہیں گے۔ اور یہ اس لیے ہوگا کہ کافروں کا گروہ ایسا گروہ ہے جس میں سمجھ بوجھ نہیں۔ الانفال
66 (مسلمانو) اب خدا نے تم پر بوجھ ہلکا کردیا، اس نے جانا کہ تم میں کمزوری ہے، اچھا اب اگر تم میں جھیل جانے والے سو آدمی ہوں گے تو (انہیں صرف اپنے سے دوگنی تعداد کا مقابلہ کرنا ہوگا، یعنی) وہ دو سو دشمنوں پر غالب رہیں گے، اور اگر ہزار ہوں گے تو سمجھو دو ہزار دشمنوں کو مغلوب کر کے رہیں گے اور (یاد رکھو) اللہ جھیل جانے والوں کا ساتھی ہے۔ الانفال
67 نبی کے لیے سزاوار نہیں کہ اس کے قبضہ میں قیدی ہوں جب تک کہ ملک میں غلبہ حاصل نہ کرلے۔ (١) (مسلمانو) تم دنیا کی متاع چاہتے ہو اور اللہ چاہتا ہے (تمہیں) آخرت (کا اجر دے) اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ الانفال
68 اگر (اس بارے میں) پہلے سے اللہ کا حکم نہ ہوگیا ہوتا تو جو کچھ تم نے (جنگ بدر میں مال غنیمت لوٹا) اس کے لیے ضرور تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ الانفال
69 بہرحال جو کچھ تمہیں غنیمت میں ہاتھ لگا ہے اسے حلال و پاکیزہ سمجھ کر اپنے کام میں لاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ الانفال
70 اے پیغمبر لڑائی کے قیدیوں میں سے جو لوگ تمہارے قبضہ میں ہیں ان سے کہہ دو اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں کچھ نیکی پائی تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے کہیں بہتر چیز تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا، وہ بڑا بخشنے والا رحمت والا ہے۔ الانفال
71 اور اگر ان لوگوں نے چاہا تمہیں دغا دیں تو (کوئی وجہ نہیں کہ تم اس اندیشہ سے اپنا طرز عمل بدل ڈالو) یہ اس سے پہلے خود اللہ کے ساتھ خیانت کرچکے ہیں اور اسی کی پاداش ہے کہ تمہیں ان پر قدرت دے دی گئی ہے اور (یاد رکھو) اللہ سب کچھ جانتا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ الانفال
72 جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مکہ کے مہاجروں کو مدینہ میں) جگہ دی اور ان کی مدد کی تو یہی لوگ ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کا کارساز و رفیق ہے اور جن لوگوں کا حال ایسا ہوا کہ ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی تو تمہارے لیے ان کی اعانت و رفاقت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک وہ اپنے وطن سے ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو بلا شبہ تم پر ان کی مددگاری لازم ہے، الا یہ کہ کسی ایسے گروہ کے مقابلہ میں مدد چاہی جائے جس سے تمہارا (صلح و امن کا) عہد وپیمان ہے ( کہ اس صورت میں تم عہد و پیمان کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتے) اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔ الانفال
73 اور (دیکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ بھی (راہ کفر میں) ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی باہمی ولایت اور بھائی چارگی کا جو حکم دیا گیا ہے اور وفائے عہد اور اعانت مسلمین کی جو تلقین کی گئی ہے اس پر کاربند نہیں رہو گے) تو ملک میں فتنہ پیدا ہوجائے گا اور بڑی ہی خرابی پھیلے گی۔ الانفال
74 (غرض کہ) جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین مکہ کو) پناہ دی اور مدد کی تو فی الحقیقت یہی (سچے) مومن ہیں، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ الانفال
75 اور جو لوگ بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں۔ (انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھو) اور (باقی رہے) قرابت دار تو وہ اللہ کے حکم میں ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں (پس باہمی بھائی چارگی میں ان کے حقوق فراموش نہ کردیے جائیں) بلا شبہ اللہ ہر بات کا علم رکھتا ہے۔ الانفال
1 (مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔ التوبہ
2 کہ چار مہینے تک ملک میں چلو پھر (کوئی روک ٹوک نہیں، اس کے بعد جنگ کی حالت قائم ہوجائے گی) اور یاد رکھو تم کبھی اللہ کو عاجز نہ کرسکو گے اور اللہ منکروں کو (پیروان حق کے ہاتھو) زلیل کرنے والا ہے۔ التوبہ
3 اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے بڑے دن عام منادی کی جاتی ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی (یعنی اب کوئی معاہدہ اللہ کے نزدیک باقی نہیں رہا اور نہ اس کا رسول کسی معاہدہ کے لیے ذمہ دار ہے) پس اگر تم (اب بھی ظلم و شرارت سے) توبہ کرلو تو تمہارے لیے اس میں بہتری ہے اور اگر نہ مانو گے تو جان رکوھ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر کی راہ چل رہے ہیں انہیں عذاب دردناک کی خوشخبری سنا دو۔ التوبہ
4 ہاں، مشرکوں میں سے وہ لوگ کہ تم نے ان سے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے ( قول قرار نباہنے میں) کسی طرح کی کمی نہیں کی اور نہ ایسا کیا کہ تمہارے مقابلہ میں کسی کی مدد کی ہو، اس حکم سے مستثنی ہیں، پس چاہیے کہ ان کے ساتھ جتنی مدت کے لیے عہد ہوا ہے اتنی مدت تک اسے پورا کیا جائے۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (ہر بات میں) متقی ہوتے ہیں۔ التوبہ
5 پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو (جنگ کی حالت قائم ہوگئی) مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو اور جہاں کہیں ملیں گرفتار کرلو، نیز ان کا محاصرہ کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر ایسا ہو کہ وہ باز آجائیں نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان سے کسی طرح کا تعرض نہ کیا جائے۔ بلا شبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
6 اور (اے پیغمبر) اگر مشرکوں میں سے کوئی آدمی آئے اور تم سے امان مانگے تو اسے ضرور امان دو، یہاں تک کہ وہ (اچھی طرح) اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے (باامن) اس کے ٹھکانے پہنچا دو، یہ بات اس لیے ضروری ہوئی کہ یہ لوگ (دعوت حق کی حقیقت کا) علم نہیں رکھتے۔ التوبہ
7 یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ (ان) مشرکوں کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عبد ہو؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب (حدیبیہ میں) عہد و پیمان باندھا تھا (اور انہوں نے اسے نہیں توڑا) تو (ان کا عہد ضرور عہد ہے اور) جب تک وہ تمہارے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہو۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (اپنے تمام کاموں میں) متقی ہوتے ہیں۔ التوبہ
8 ان مشرکوں کا عہد کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر آج تم پر غلبہ پاجائیں تو نہ تو تمہارے لیے قرابت کا پاس کریں نہ کسی عہد و پیمان کا، وہ اپنی باتوں سے تمہیں راضی کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے دلوں کا فیصلہ اس کے خلاف ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔ (یعنی راست بازی کے تمام طریقوں اور پابندیوں سے باہر ہوچکے ہیں) التوبہ
9 ان لوگوں نے اللہ کی آیتیں ایک بہت ہی حقیر قیمت پر بیچ ڈالیں (یعنی ہوائے نفس کے تابع ہوگئے اور اللہ کی آیتوں پر یقین نہیں کیا) پس اس کی راہ سے لوگوں کو روکنے لگے (افسوس ان پر) کیا ہی برا ہے جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ التوبہ
10 کسی مومن کے لیے نہ تو قرابت کا پاس کرتے ہیں نہ عہد و قرار کا، یہی لوگ ہیں کہ ظلم میں حد سے گزر گئے ہیں۔ التوبہ
11 بہرحال اگر یہ باز آئیں نماز قائم کریں زکوۃ ادا کریں تو (پھر ان کے خلاف تمہارا ہاتھ نہیں اٹھنا چاہیئے) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں تم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں۔ التوبہ
12 اور اگر یہ اپنے عہد و پیمان جو خود کرچکے ہیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین کو برا بھلا کہیں تو پھر (اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان) کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی سوگند سو گند نہیں (اور تمہیں جنگ اس لیے کرنی چاہیے) تاکہ یہ (ظلم و بد عہدی سے) باز آجائیں۔ التوبہ
13 (مسلمانو) کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں، جنہوں نے اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبے کیے اور پھر تمہاری برخلاف لڑائی میں پہلی بھی انہی کی طرف سے ہوئی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ڈرتے ہو تو تم مومن نہیں کیونکہ) اگر مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ سزا وار ہے کہ اس کا ڈر تمہارے دلوں میں بسا ہوا۔ التوبہ
14 (مسلمانو) ان سے (بلا تامل) جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوائی میں ڈالے گا، ان پر تمہیں فتح مند کرے گا اور جماعت مومنین کے دلوں کے سارے دکھ دور کردے گا۔ التوبہ
15 ان کے دلوں کی جلن باقی نہیں رہے گی، اور پھر جس پر چاہے گا اپنی رحمت سے لوٹ آئے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنی ہر بات میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
16 (مسلمانو) کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ تم اتنے ہی چھوڑ دیئے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تو اللہ نے ان لوگوں کو پوری طرح آزمائش میں ڈالا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور اللہ کے رسول اور مومنوں کو چھوڑ کر کسی کو اپنا پوشیدہ دوست نہیں بنایا ہے، (یاد رکھو) جیسے کچھ بھی تمہارے اعمال ہیں خدا ان سب کی خبر رکھنے والا ہے۔ التوبہ
17 مشرکوں کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں ایسی حالت میں کہ وہ خود اپنے کفر کا اعتراف کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے سارے عمل اکارت گئے اور وہ عذاب آتش میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ التوبہ
18 فی الحقیقت مسجدوں کو آباد کرنے والا تو وہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا، نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی اور اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہ مانا۔ جو لوگ ایسے ہیں انہی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ (سعادت و کامیابی کی) راہ پانے والے ثابت ہوں گے۔ التوبہ
19 کیا تم لوگوں نے یوں ٹھہرا رکھا ہے کہ حاجیوں کے لیے سبیل لگا دینی اور مسجد حرام کو آباد رکھنا اسی درجہ کا کام ہے جیسا اس شخص کا کام جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں اور اللہ (کا قانون ہے کہ وہ) ظلم کرنے والوں پر (کامیابی کی) راہ نہیں کھولتا۔ التوبہ
20 جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو یقینا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ التوبہ
21 ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت اور کامل خوشنودی کی بشارت دیتا ہے۔ نیز ایسے باغوں کی جہاں ان کے لیے ہمیشگی کی نعمت ہوگی۔ التوبہ
22 اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، یقینا اللہ کے پاس (نیک کرداروں کے لیے) بہت بڑا اجر ہے۔ التوبہ
23 مسلمانو ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیز رکھیں تو انہیں اپنا رفیق و کارساز نہ بناؤ، اور جو کوئی بنائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے ہیں۔ التوبہ
24 (اے پیغمبر) مسلمانوں سے کہہ دے اگر ایسا ہے کہ تمہارے باپ تمہارے بیٹے تمہارے بھائی تمہاری بیویاں تمہاری برادری تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے تمہاری تجارت جس کے مندا پڑجانے سے ڈرتے ہو، تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں اس قدر پسند ہیں یہ ساری چیزیں تمہیں اللہ سے اس کے رسول سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارہ ہیں تو (کلمہ حق تمہارا محتاج نہیں) انتطار کرو، یہاں تک کہ جو کچھ خدا کو کرنا ہے وہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ (کا مقررہ قانون ہے کہ وہ) فاسقوں پر ( کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔ التوبہ
25 (مسلمانو) یہ واقعہ ہے کہ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کرچکا ہے (جبکہ تمہیں اپنی قلت و کمزوری سے کامیابی کی امید نہ تھی) اور جنگ حنین کے موقع پر بھی جبکہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے (اور سمجھے تھے کہ محض اپنی کثرت سے میدان مار لوگے) تو دیکھو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی ساری وسعت پر بھی تمہارے لیے تنگ ہوگئی، بالآخر ایسا ہوا کہ تم میدان کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے۔ التوبہ
26 پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر اپنی جانب سے دل کا سکون و قرار نازل فرمایا اور ایسی فوجیں اتار دیں جو تمہیں نظر نہیں آئی تھیں اور (اس طرح) ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور یہی جزا ہے ان لوگوں کی جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (یعنی ان کی بدعملی کا لازمی نتیجہ یہی ہے )۔ التوبہ
27 پھر اس کے بعد اللہ جس پر چاہے گا اپنی رحمت سے لوٹ آئے گا (یعنی توبہ قبول کرلے گا) اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
28 مسلمانو ! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مشرک نجس ہیں (یعنی شرک نے ان کے دلوں کی پاکی سلب کرلی ہے) پس چاہیے کہ اب اس برس کے بعد سے (٩ ہجری کے بعد سے) مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو (ان کی آمد و رفت کے بند ہوجانے سے) فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو (کہ وہ ہر طرح کی ضروری چیزیں ہیں باہر سے لاتے اور تجارت کرتے ہیں) تو گھبراؤ نہیں، اللہ چاہے گا تو عنقریب تمہیں اپنے فضل سے تونگر کردے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
29 اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔ التوبہ
30 اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبان سے نکالی ہوئی (ورنہ سمجھ بوجھ کر کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتا) ان لوگوں نے بھی انہی کی سی بات کہی جو ان سے پہلے کفر کی راہ اختیار کرچکے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ! یہ کدھر کو بھٹکے جارہے ہیں۔ التوبہ
31 ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علما اور مشائخ کو پروردگار بنا لیا، اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی، حالانکہ انہیں جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک خدا کی بندگی کرو، کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی، اس کی پاکی ہو اس ساجھی سے، جو یہ اس کی ذات میں لگا رہے ہیں۔ التوبہ
32 یہ لوگ چاہتے ہیں اللہ کی روشنی اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کیے بغیر رہنے والا نہیں اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے۔ التوبہ
33 (ہاں) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو حقیقی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام (ٹھہرائے ہوئے) دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو ایسا ہونا پسند نہ آئے۔ التوبہ
34 مسلمانو ! یاد رکھو (یہودیوں اور عیسائیوں کے) علما اور مشائخ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لوگوں کا مال ناحق و ناروا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے انہیں روکتے ہیں اور جو لوگ چاندی سونا اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے، تو ایسے لوگوں کو عذاب دردناک کی خوش خبری سنا دو۔ التوبہ
35 عذاب دردناک کا وہ دن جبکہ (ان کا جمع کیا ہوا) سونے چاندی کا ڈھیر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کے ماتھے، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور اس وقت کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کیا تھا، سو جو کچھ ذخیرہ کر کے جمع کرتے رہے اس کا مزہ آج چکھ لو۔ التوبہ
36 اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے کی ہے۔ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں کو اور زمین کو اس نے پیدا کیا (یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے) ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت کے مہینے ہوئے (یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم کہ امن کے مہینے سمجھے جاتے تھے اور لڑائی ممنوع تھی) دین کی سیدھی راہ یہ ہے۔ پس ان حرمت کے مہینوں میں (جنگ و خوں ریزی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور چاہیے کہ تمام مشرکوں سے بلا استثنا جنگ کرو جس طرح وہ تم سے بلا استثنا جنگ کرتے ہیں اور (ساتھ ہی) یاد رکھو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (ہرحال میں) تقوی والے ہیں۔ التوبہ
37 نسی (یعنی مہینے کو اس کی جگہ سے پیچھے ہٹا دینا جیسا کہ جاہلیت میں دستور ہوگیا تھا) اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کفر میں کچھ اور بڑھ جانا ہے۔ اس سے کافر گمراہی میں پڑتے ہیں۔ ایک ہی مہینے کو ایک برس حلال سمجھ لیتے ہیں (یعنی اس میں لڑائی جائز کردیتے ہیں) اور پھر اسی کو دوسرے برس حرام کردیتے ہیں (یعنی اس میں لڑائی ناجائز کردیتے ہیں) تاکہ اللہ نے حرمت کے مہینوں کی جو گنتی رکھی ہے اسے اپنی گنتی سے مطابق کر کے اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال کرلیں، ان کی نگاہوں میں ان کے برے کام خوشنما ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور اللہ (کا قانون ہے کہ وہ) منکرین حق پر (کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔ التوبہ
38 مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں قدم اٹھاؤ تو تمہارے پاؤں بوجھ ہو کر زمین پکڑ لیتے ہیں کیا آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کی زندگی ہی پر ریجھ گئے ہو؟ (اگر ایسا ہی ہے) تو (یاد رکھو) دنیا کی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے مگر بہت تھوڑی۔ التوبہ
39 اگر قدم نہ اٹھاؤ گے تو یاد رکھو وہ تمہیں ایک ایسے عذاب میں ڈالے گا جو دردناک ہوگا اور تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لاکھڑا کرے گا اور تم (دفاع سے غافل ہوکر) اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے (اپنا ہی نقصان کرو گے) اور اللہ تو ہر بات پر قادر ہے۔ التوبہ
40 اگر تم اللہ کے رسول کی مدد نہیں کرو گے تو (نہ کرو) اللہ نے اس کی مدد کی ہے اور اس وقت کی ہے جب کافروں نے اسے اس حال میں گھر سے نکالا تھا کہ (صرف دو آدمی تھے اور) دو میں دوسرا (اللہ کا رسول) تھا اور دونوں غار (ثور) میں چھپے بیٹھے تھے۔ اس وقت اللہ کے رسول نے اپنے ساتھی سے کہا تھا غمگین نہ ہو یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے (وہ دشمنوں کو ہم پر قابو پانے نہ دے گا) پس اللہ نے اپنا سکون و قرار اس پر نازل کیا اور پھر ایسی فوجوں سے مددگاری کی جنہیں تم نہیں دیکھتے اور بالآخر کافروں کی بات پست کی اور (تم دیکھ رہے ہو کہ) اللہ ہی کی بات ہے جس کے لیے بلندی ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ التوبہ
41 (مسلمانو ! سازو سامان کے بوجھ سے) ہلکے ہو یا بوجھل جس حال میں ہو نکل کھڑے ہو (کہ دفاع کے لیے تمہیں بلایا جارہا ہے) اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اگر تم (اپنا نفع نقصان) جانتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ التوبہ
42 (اے پیغبر) اگر تمہارا بلاوا کسی ایسی بات کے لیے ہوتا جس میں قریبی فائدہ نظر آتا اور ایسے سفر کے جو آسان ہوتا تو (یہ منافق) بلا تامل تمہارے پیچھے ہو لیتے۔ لیکن انہیں راہ دور کی دکھائی دی (اس لیے جی چرانے لگے) اور (تم دیکھو گے کہ یہ) قسمیں کھا کر (مسلمانوں سے) کہیں گے اگر ہم مقدور رکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ (افسوس ان پر) یہ (قسمیں کھا کر) اپنے کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ قطعا جھوٹے ہیں۔ التوبہ
43 (اے پیغمبر) اللہ تجھے بخشے ! تو نے ایسا کیوں کیا کہ (ان کی منافقانہ عذر دارویوں پر) انہیں (پیچھے رہ جانے کی) رخصت دے دی؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں؟ التوبہ
44 جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی تجھ سے اجازت کے طلبگار نہ ہوں گے کہ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے (اللہ کی راہ میں) جہاد کریں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ کون متقی ہیں۔ التوبہ
45 تجھ سے اجازت طلب کرنے والے تو وہی ہیں جو (فی الحقیقت) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑگئے ہیں تو اپنے شک کی حالت میں متردد ہو رہے ہیں۔ التوبہ
46 اور اگر واقعی ان لوگوں نے نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ سروسامان کی تیاری ضرور کرتے مگر (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا، پس انہیں بوجھل کردیا اور ان سے کہا گیا (یعنی ان کے بوجھ پنے نے کہا) دوسرے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ تم بھی بیٹھے رہو۔ التوبہ
47 اگر یہ تم مسلمانوں میں (گھل مل کے) نکلتے تو تمہارے اندر کچھ زیادہ نہ کرتے مگر (ہر طرح کی) خرابی اور ضرور تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کے گھوڑے دوڑاتے (کہ ادھر کی بات ادھر لگاتے، ادھر کی ادھر) اور تم جانتے ہو کہ تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی بات پر کان دھرنے والے ہیں (پس ظاہر ہے کہ ان کی موجودگی سے بجز فتنہ و فساد کے کچھ حاصل نہ ہوتا) اور اللہ جانتا ہے کون ظلم کرنے والے ہیں۔ التوبہ
48 (اے پیغمبر) یہ واقعہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوششیں کیں اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں الٹ پلٹ کر آزمائیں (چنانچہ جنگ احد میں انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی تھی) یہاں تک کہ سچائی نمایاں ہوگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور ایسا ہونا ان کے لیے خوشگوار نہ تھا۔ التوبہ
49 اور ان (منافقوں) میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : مجھے اجازت دیجیے (کہ گھر میں بیٹھا رہوں) اور فتنہ میں نہ ڈالیے تو سن رکھو یہ لوگ فتنہ ہی میں گر پڑے (کہ جھوٹے بہانے بنا کر خدا کی راہ سے منہ موڑا، اور فتنہ یہی فتنہ ہے، نہ کہ وہ وہمی فتنہ جو ان کے نفاق نے گھڑ لیا ہے) اور بلا شبہ دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ التوبہ
50 (اے پیغمبر) اگر تمہیں کوئی اچھی بات پیش آجائے تو وہ انہیں (یعنی منافقوں کو) بری لگے اور اگر کوئی مصیبت پیش آجائے تو کہنے لگیں : اسی خیال سے ہم نے پہلے ہی اپنے لیے مصلحت بینی کرلی تھی، اور پھر گردن موڑ کے خوش خوش چل دیں۔ التوبہ
51 کہہ دو ہمیں کچھ نہیں پیش آسکتا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے (اپنی کتاب میں) لکھ دیا ہے، وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر (ہر طرح کا) بھروسہ رکھیں (اس کے سوا بھروسے کا سہارا کوئی نہیں) التوبہ
52 (اے پیغمبر تم ان سے) کہو : تم ہمارے لیے جس بات کا انتظار کرتے ہو (یعنی جنگ میں قتل ہوجانے کا) وہ ہمارے لیے اس کے سوا کیا ہے کہ دو خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے (یعنی فتح اور شہادت میں سے شہادت) اور ہم تمہارے لیے جس بات کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ اپنے یہاں سے کوئی عذاب بھیج دے یا ہمارے ہی ہاتھوں عذاب دلائی۔ تو اب (نتیجہ کا) انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں۔ التوبہ
53 (اور) کہو : تم (بظاہر) خوشی سے (راہ حق میں) خرچ کرو یا ناخوش ہوکر، تمہارا خرچ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم ایک ایسے گروہ ہوگئے جو (احکام الہی سے) نافرمان ہے۔ التوبہ
54 اور خرچ کرنے کی قبولیت سے وہ محروم نہیں کیے گئے مگر اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے انکار کیا (اگرچہ وہ ایمان کے دعوے میں کسی سے پیچھے نہیں) وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر کاہلی کے ساتھ، اور (راہ حق میں) مال خرچ نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ خرچ کرنے کی ناگواری ان کے دلوں میں بسی ہوئی ہے۔ التوبہ
55 تو (دیکھو) یہ بات کہ ان لوگوں کے پاس مال و دولت ہے اور صاحب اولاد ہیں تمہیں متعجب نہ کرے، یہ تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ نے مال و اولاد ہی کی راہ سے انہیں دنیوی زندگی میں عذاب دینا چاہا ہے (کہ نفاق و بخل کی وجہ سے مال کا غم و بال جان ہورہا ہے اور اولاد کو اپنے سے برگشتہ اور اسلام میں ثابت قدم دیکھ کر شب و روز جل رہے ہیں) اور (باقی رہا آخرت کا معاملہ تو) ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں گی کہ ایمان سے محروم ہوں گے۔ التوبہ
56 اور (دیکھو) اللہ کی قسمیں کھا کر (تمہیں) یقین دلاتے ہیں کہ وہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ ایک گروہ ہے ڈرا سہما ہوا۔ التوبہ
57 (ان کے دلوں کے خوف و نفرت کا یہ حال ہے کہ) اگر انہیں پناہ کی کوئی جگہ مل جائے یا کوئی غار یا کوئ اور چھپ بیٹھنے کا سوراخ تو تم دیکھو کہ یہ فورا اس کا رخ کریں اور حالت یہ ہو کہ گویا رسی توڑ کر بھاگے جارہے ہیں۔ التوبہ
58 اور ان میں کچھ ایسے ہیں کہ مال زکوۃ بانٹنے میں تجھ پر عیب لگاتے ہیں (کہ تو لوگوں کی رعایت کرتا ہے) پھر حالت کی یہ ہے کہ اگر انہیں اس میں سے چیا جائے تو خوش ہوجائیں نہ دیا جائے تو بس اچانک بگڑ بیٹھیں۔ التوبہ
59 اور (کیا اچھا ہوتا) اگر ایسا ہوتا کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں دے دیا اس پر رضا مند ہوجاتے اور کہتے ہمارے لیے اللہ بس کرتا ہے۔ اللہ اپنے فضل سے ہمیں (بہت کچھ) عطا فرمائے گا اور اس کا رسول بھی (عطا و بخشش میں کمی کرنے والا نہیں) ہمارے لیے تو بس اللہ ہی غایت و مقصود ہے۔ التوبہ
60 صدقہ کا مال (یعنی مال زکوۃ) تو اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ صرف فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں، اور وہ کہ ان کے دلوں میں (کلمہ حق کی) الفت پیدا کرنی ہے۔ اور وہ کہ ان کی گردنیں (غلامی کی زنجیروں میں) جکڑی ہیں (اور انہیں آزاد کروانا ہے) نیز قرض داروں کے لیے (جو قرض کے بوجھ سے دب گئے ہوں، اور ادا کرنے کی طاقت نہ رکھیں) اور اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لیے اور ان تمام کاموں کے لیے جو مثل جہاد کے اعلائے کلمہ حق کے لیے ہوں) اور مسافروں کے لیے (جو اپنے گھر نہ پہنچ سکتے ہوں اور مفلسی کی حالت میں پڑگئے ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام حکموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
61 اور انہی (منافقوں) میں (وہ لوگ بھی) ہیں جو اللہ کے نبی کو (اپنی بدگوئی سے) اذیت پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص تو بہت سننے والا ہے (یعنی کان کا کچا ہے، جو بات کسی نے کہہ دی اس نے مان لی، اے پیغمبر) تم کہو ہاں وہ بہت سننے والا ہے مگر تمہاری بہتری کے لیے (کیونکہ وہ بجز حق کے کوئی بات قبول نہیں کرتا) وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے (اس لیے اللہ جو کچھ اسے سناتا ہے اس پر اسے یقین ہے) اور وہ (سچے) مومنوں کی بات پر بھی یقین رکھتا ہے (جن کی سچائی ہر طرح کے امتحانوں میں پڑ کر کھری ثابت ہوچکی ہے) اور وہ ان لوگوں کے سرتا سر رحمت ہے۔ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے ان کے لیے عذاب ہے عذاب دردناک۔ التوبہ
62 (مسلمانو) یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کرلیں، حالانکہ اگر یہ واقعی مومن ہوتے تو سمجھتے کہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اسے (اپنے ایمان و عمل سے) راضی رکھیں۔ التوبہ
63 کیا (ابھی تک) انہوں نے یہ بات (بھی) نہ جانی کی جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے، ہمیشہ اس میں جلے گا؟ اور یہ بہت ہی بڑی رسوائی ہے (جو کسی انسان کے حصے میں آسکتی ہے؟) التوبہ
64 منافق اس بات سے (بھی) ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کے بارے میں کوئی سورت نازل ہوجائے اور جو کچھ ان کے دلوں میں (چھپا) ہے وہ انہیں (علانیہ) جتا دے (تو اے پیغمبر) تم ان سے کہہ دو : تم (اپنی عادت کے مطابق) تمسخر کرتے رہو۔ یقینا اللہ اب وہ بات (پوشیدگی سے) نکال کر ظاہر کردینے والا ہے جس کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے۔ التوبہ
65 اور اگر تم ان لوگوں سے پوچھو (ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟) تو یہ ضرور جواب میں کہیں ہم نے تو یونہی جی بہلانے کو ایک بات چھیڑ دی تھی اور ہنسی مذاق کرتے تھے تم (ان سے) کہو کیا تم اللہ کے ساتھ اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہو؟ التوبہ
66 بہانے نہ بناؤ حقیقت یہ ہے کہ تم نے ایمان کا اقرار کر کے پھر کفر کیا، اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو (اس کے عدم اصرار اور توبہ و انابت کی وجہ سے) معاف بھی کردیں تاہم ایک گروہ کو ضرور عذاب دیں گے، اس لیے کہ (اصل میں) وہی مجرم تھے۔ التوبہ
67 منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم جنس، برائی کا حکم دیتے ہیں اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور (راہ حق میں خرچ کرنے سے) اپنی مٹھیاں بند رکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بھی اللہ کے حضور بھلا دیئے گئے (یعنی جو اس کی طرف سے غافل ہوجاتا ہے اس کے قوانین فضل و سعادت بھی اسے بھلا کر چھوڑ دیتے ہیں) بلا شبہ یہ منافق ہی ہیں جو (دائرہ حق سے) باہر ہوگئے ہیں۔ التوبہ
68 منافق مردوں اور منافق عورتوں کے لیے اور (کھلے) منکروں کے لیے اللہ کی طرف سے دوزخ کی آگ کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور وہی انہیں بس کرتی ہیں، نیز اللہ نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے عذاب ہے، ایسا عذاب کہ برقرار رہے گا۔ التوبہ
69 (منافقو ! تمہارا بھی وہی حال ہوا) جیسا ان لوگوں کا حال تھا کہ تم سے پہلے گزر چکے ہیں، وہ تم سے کہیں زیادہ قوت والے تھے اور مال و اولاد بھی تم سے زیادہ رکھتے تھے۔ پس ان کے حصے میں جو کچھ دنیا کے فوائد آئے وہ برت گئے، تم نے بھی اپنے حصہ کا فائدہ اسی طرح برت لیا جس طرح انہوں نے برتا تھا اور جس طرح (ہر طرح کی باطل پرستی کی) باتیں وہ کر گئے تم نے بھی کرلیں (پس یہ نہ بھولو کہ) یہی لوگ تھے جن کے سارے کام دنیا و آخرت میں اکارت ہوئے اور یہی ہیں گھاٹے ٹوٹے میں رہنے والے۔ التوبہ
70 کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں ملی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم اور مدین کے لو اور وہ کہ ان کی بستیاں الٹ دی گئی تھیں؟ ان سب کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے (مگر وہ اندھے پن سے باز نہ آئے) اور ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ التوبہ
71 اور جو مرد اور عورتیں مومن ہیں تو وہ سب ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں نماز قائم رکھتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور (ہرحال میں) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحمت فرمائے گا، یقینا اللہ سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
72 مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے اللہ کی طرف سے (نعیم ابدی کے) باغوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی (اور وہ اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، نیز ان کے لیے ہمیشگی کے باغوں میں پاک مسکن ہوں گے اور ان سب سے بڑح کر (نعمت یہ کہ) اللہ کی خوشنودیوں کا ان پر نزول ہوگا۔ التوبہ
73 اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں دونوں سے جہاد کر اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آ (کیونکہ کافروں کی عہد شکنیاں اور منافقوں کا عذر فریب اب آخری درجہ تک پہنچ چک ہے) بالآخر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (اور جس کا آخری ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری پہنچنے کی جگہ ہے۔ التوبہ
74 یہ (منافق) اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کہا اور واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ضرور کفر کی بات کہی، وہ اسلام قبول کر کے پھر کفر کی چال چلے اور اس بات کا منصوبہ باندھا جو نہ پاسکے، انہوں نے انتقام نہیں لیا مگر اس بات کا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے (مال غنیمت دے دے کر) توانگر کردیا ہے۔ بہرحال اگر یہ لوگ اب بھی باز آجائیں تو ان کے لیے بہتر ہے اور اگر گردن موڑیں تو پھر یاد رکھیں اللہ ضرور انہیں دنیا اور آخرت میں عذاب دردناک دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہونے والا ہے نہ مددگار۔ التوبہ
75 اور (دیکھو) ان میں (کچھ لوگ) ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں (مال و دولت) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ضرور نیکی کی زندگی بسر کریں گے۔ التوبہ
76 پھر جب ایسا ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے ( مال) عطا فرمایا تو اس میں کنجوسی کرنے لگے اور اپنے عہد سے پھر گئے اور حقیقت یہ ہے کہ (نیکی کی طرف سے) ان کے دل ہی پھرے ہوئے ہیں۔ التوبہ
77 پس اس بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دلوں میں نفاق (کا روگ) دائمی ہوگیا اس وقت تک کے لیے کہ یہ اللہ سے ملیں (یعنی قیامت تک دور ہونے والا نہیں ٌ) اور یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا اسے (جان بوجھ کر) پورا نہیں کیا اور نیز دروغ گوئی کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے ہیں۔ التوبہ
78 (افسوس ان پر) کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ ان کے بھیدوں اور سرگوشیوں سے واقف ہے اور یہ کہ غیب کی کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں؟ التوبہ
79 جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خوش دلی سے خیرات کرنے والے منومنوں پر (ریا کاری کا) عیب لگاتے ہیں اور جن مومنوں کو اپنی محنت مشقت کی کمائی کے سوا اور کچھ میسر نہیں (اور اسمیں سے بھی جتنا نکال سکتے ہیں راہ حق میں خرچ کردیتے ہیں) ان پر تمسخر کرنے لگتے ہیں تو (انہیں معلوم ہوجائے کہ) دراصل اللہ کی طرف سے خود ان پر تمسخر ہورہا ہے (کہ ذلت و نامرادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں) اور (آخرت میں) ان کے لیے عذاب دردناک ہے۔ التوبہ
80 (اے پیغمبر) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو (اب ان کی بخشش ہونے والی نہیں) تم اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو (یعنی سینکڑوں مرتبہ ہی دعا کیوں نہ کرو) جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا، یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ (کا مقررہ قانون یہ ہے کہ) وہ دائرہ ہدایت سے نکل جانے والوں پر (کامیابی و سعادت کی) راہ کبھی نہیں کھولتا۔ التوبہ
81 جو (منافق جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور) پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہ اس بات پر خوش ہوئے کہ اللہ کے رسول کی خواہش کے خلاف اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں یہ بات ناگوار ہوئی کہ اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا تھا اس گرمی میں (گھر کا آرام چھوڑ کر) کوچ نہ کرو۔ (اے پیغمبر) تم کہو دوزخ کی آگ کی گرمی تو (اس سے) کہیں زیادہ گرم ہوگی اگر انہوں نے سمجھا ہوتا (تو کبھی اپنی اس حالت پر خوش نہ ہوتے) التوبہ
82 اچھا یہ تھوڑا سا ہنس لیں، پھر انہیں اپنی ان بدعملیوں کی پاداش میں بہت کچھ رونا ہے جو یہ کماتے رہے ہیں۔ التوبہ
83 تو (دیکھو) اگر اللہ نے تمہیں ان کے کسی گروہ کی طرف (صحیح سلامت) لوٹا دیا اور پھر (کسی موقع پر) انہوں نے ( جہاد میں) نکلنے کی اجازت مانگی تو اس وقت تم کہہ دینا نہ تو تم میرے ساتھ کبھی نکلو اور نہ کبھی میرے ساتھ ہو کر دشمن سے لڑو، تم نے پہلی مرتبہ بیٹھ رہنا پسند کیا تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ (گھروں میں) بیٹھے رہو۔ التوبہ
84 اور (اے پیغبر) ان میں سے کوئی مرجائے تو تم کبھی اس کے جنازہ پر (اب) نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے رہنا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حالت میں مرے کہ (دائرہ) ہدایت سے باہر تھے۔ التوبہ
85 اور (دیکھو) ان کے مال اور ان کی اولاد پر تمہیں تعجب نہ ہو، اس یہ کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ چاہتا ہے مال و اولاد کے ذریعہ انہیں عذاب دے ( یعنی ایسے لوگوں کے لیے اس کا مقررہ قانون حیات ایسا ہی ہے) اور ان کی جان اس حالت میں نکلے کہ سچائی کے منکر ہوں۔ التوبہ
86 اور (اے پیغمبر) جب کوئی (قرآن کی) سورت اس بارے میں اترتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو کر جہاد کرو تو لوگ ان میں مقدور والے ہیں وہی تجھ سے رخصت مانگنے لگتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجیے، گھر میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہیں۔ التوبہ
87 انہوں نے پسند کیا کہ پیچھے رہ جانے والیوں کے ساتھ رہیں، (یعنی مرد ہو کر جنگ کے وقت عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہیں) اور ان کے دلوں پر مہر لگ گئی پس یہ کچھ سمجھتے نہیں۔ التوبہ
88 لیکن اللہ کے رسول نے اور انہوں نے جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے (راہ حق میں) جہاد کیا (اور ان کی منافقانہ چالیں کچھ بھی نہ کرسکیں) یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے نیکیاں ہیں اور یہی ہیں کہ کامیاب ہوئے۔ التوبہ
89 اللہ نے ان کے لیے (نعیم ابدی کے) ایسے باغ تیار کردیئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور اس لیے کبھی خشک ہونے والے نہیں) یہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، اور یہ ہے بہت بڑی فیروز مندی (جو ان کے حصے میں آئی) التوبہ
90 اور (اے پیغمبر) اعرابیوں میں سے (یعنی عرب کے صحرائی بدوں میں سے) عذر کرنے والے تمہارے پاس آئے کہ انہیں بھی (رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور (ان میں سے) جن لوگوں نے اظہار اسلام کر کے) اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، سو معلوم ہوا کہ ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہیں عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا۔ التوبہ
91 ناتوانوں پر بیماروں پر اور ایسے لوگوں پر جنہیں خرچ کے لیے کچھ میسر نہیں کچھ گناہ نہیں ہے (اگر وہ دفاع میں شریک نہ ہوں) بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں کوشاں رہیں (کیونکہ ایسے لوگ نیک عملی کے دائرے سے الگ نہیں ہوئے اور) نیک عملوں پر الزام کی کوئی وجہ نہیں، اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
92 اور نہ ان لوگوں پر کچھ گناہ ہے جن کا حال یہ تھا کہ (خود سواری کی مقدرت نہیں رکھتے تھے اس لیے) تیرے پاس آئے کہ ان کے لیے سواری بہم پہنچا دے اور جب تو نے کہا میں تمہارے لیے کوئی سواری نہیں پاتا تو (بے بس ہوکر) لوٹ گئے لیکن ان کی آنکھیں اس غم میں اشکبار ہورہی تھیں کہ افسوس ہمیں میسر نہیں کہ اس راہ میں کچھ خرچ کریں۔ التوبہ
93 الزام تو دراصل ان پر ہے جو تجھ سے (بیٹھے رہنے کی) اجازت مانگتے ہیں حالانکہ مالدار ہیں، انہوں نے پسند کیا کہ (جب سب لوگ راہ حق میں کوچ کر رہے ہوں تو یہ) گھروں میں رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ رہیں (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، پس جانتے بوجھتے نہیں۔ التوبہ
94 جب تم (جہاد سے لوٹ کر) ان کے پاس واپس جاؤ گے تو وہ آئیں گے اور تمہارے سامنے (طرح طرح کی) معذرتیں کریں گے۔ (اے پیغمبر) تمہیں چاہیے (اس وقت) کہہ دو معذرت کی باتیں نہ بناؤ، اب ہم تمہارا اعتبار کرنے والے نہیں، اللہ نے ہمیں پوری طرح تمہارا حال بتلا دیا ہے، اب آئندہ اللہ اور اس کا رسول دیکھے گا تمہارا عمل کیسا رہتا ہے (نفاق پر مصر رہتے ہو یا باز آتے ہو) اور پھر (بالآخر) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ظاہر و پوشیدہ ہر طرح کی باتیں جاننے والا ہے، پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ ( دنیا میں) کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ التوبہ
95 جب تم لوٹ کر ان سے ملو گے تو ضرور یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ ان سے درگزر کرو، سو چاہیے کہ تم ان سے درگزر ہی کرلو (یعنی رخ پھیر لو) یہ ناپاک ہیں، ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اس کمائی کا نتیجہ جو یہ (اپنی بدعملیوں سے) کماتے رہے۔ التوبہ
96 یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ ان سے راضی ہوجاؤ، سو (یاد رکھو) اگر تم راضی بھی ہوگئے (حالانکہ تمہیں راضی نہیں ہونا چاہیے اور تم راضی نہ ہو گے) تو اللہ ان سے کبھی راضی ہونے والا نہیں جو (دائرہ ہدایت سے) باہر ہوگئے ہیں۔ التوبہ
97 اعرابی کفر اور نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی نسبت سمجھا جائے دین کے ان حکموں کی انہیں خبر نہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیے ہیں (کیونکہ آبادیوں میں نہ رہنے کی وجہ سے تعلیم و تربیت کا موقع انہیں حاصل نہی) اور اللہ (سب کا حال) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
98 اور اعرابیوں ہی میں ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے (اپنے اوپر) جرمانہ سمجھتے ہیں اور منتظر ہیں کہ تم پر کوئی گردش آجائے (تو الٹ پڑیں) حقیقت یہ ہے کہ بری گردش کے دن خود انہی پر آنے والے ہیں اور اللہ (سب کچھ) سننے والا (سب کچھ) جاننے والا ہے۔ التوبہ
99 اور (ہاں) اعرابیوں ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقریب اور رسول کی دعاؤں کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ تو سن رکھو کہ فی الحقیقت وہ ان کے لیے موجب تقریب ہی ہے، اللہ انہیں اپنی رحمت کے دائرہ میں داخل کرے گا، بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔ التوبہ
100 اور مہاجرین اور انصار میں جو لوگ سبقت کرنے والے سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی تو اللہ ان سے خوشنود ہو وہ اللہ سے خوشنود ہوئے، اور اللہ نے ان کے لیے (نعیم ابدی کے) باغ تیار کردیئے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور اس لیے وہ خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ اس (نعمت و سرور کی زندگی) میں رہیں گے اور یہ ہے بہت بڑی فیروز مندی۔ التوبہ
101 اور ان اعرابیوں میں جو تمہارے آس پاس بستے ہیں کچھ منافق ہیں اور خود مدینہ کے باشندوں میں بھی جو نفاق میں (رہتے رہتے) مشاق ہوگئے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں، ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر اس عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے تو بہت ہی بڑا عذاب ہے۔ التوبہ
102 اور دوسرے لوگ (وہ ہیں) جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، انہوں نے ملے جلے کام کیے، کچھ اچھے کچھ برے تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ ان پر (اپنی رحمت سے) لوٹ آئے، اللہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔ التوبہ
103 (اے پیغمبر) ان لوگوں کے مال سے صدقات قبول کرلو، تم قبول کر کے انہیں (بخل و طمع کی برائیوں سے) پاک اور (دل کی نیکیوں کی ترقی سے) تربیت یافتہ کردو، نیز ان کے لیے دعائے خیر کرو، بلا شبہ تمہاری دعا ان کے دلوں کے لیے راحت و سکون ہے، اور اللہ (دعائیں) سننے والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔ التوبہ
104 کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور جو کچھ بطور خیرات کے نکالیں اسے منظور کرلیتا ہے؟ اور یہ کہ اللہ ہی ہے زیادہ سے زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بڑی ہی رحمت والا؟ التوبہ
105 اور (اے پیغمبر) تم کہو عمل کیے جاؤ، اب اللہ دیکھے گا کہ تمہارے عمل کیسے ہوتے ہیں اور اللہ کا رسول بھی دیھکے گا اور مسلمان بھی دیکھیں گے اور (پھر) تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے جس کے علم سے نہ تو کوئی ظاہر بات پوشیدہ ہے نہ کوئی چھپی بات، پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ جو کچھ کرتے رہے ہو اس کی حقیقت کیا تھی۔ التوبہ
106 اور (پچھلے تائب گروہ کے علاوہ) کچھ اور لوگ ہیں، جن کا معاملہ اس انتظار میں کہ اللہ کا حکم کیا ہوتا ہے، ملتوی ہوگیا ہے۔ وہ انہیں عذاب دے یا (اپنی رحمت سے) ان پر لوٹ آئے (اسی کے ہاتھ ہے) اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
107 اور (منافقوں میں وہ وہ لوگ بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنا کر کھڑی کی کہ نقصان پہنچائیں، کفر کریں، مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور ان لوگوں کے لیے ایک کمیں گاہ پیدا کردیں جو اب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑ چکے ہیں، وہ ضرور قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہمارا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ بھلائی ہو، لیکن اللہ کی گواہی یہ ہے کہ وہ اپنی قسموں میں قطعا جھوٹے ہیں۔ التوبہ
108 (اے پیغمبر) تم کبھی اس مسجد میں کھڑے نہ ہونا، اس بات کی کہ تم اس میں کھڑے ہو (اور بندگان الہی تمہارے پیچھے نماز پڑھیں) وہی مسجد حقدار ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے (یعنی مسجد قبا اور مسجد نبوی) اس میں ایسے لوگ (آتے) ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ پاک و صاف رہیں اور اللہ (بھی) پاک و صاف رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ التوبہ
109 کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر رکھی (جو کبھی ہلنے والی نہیں) یا وہ جس نے ایک کھائی کے گرتے ہوئے کنارے پر اپنی عمارت کی بنیاد رکھی اور وہ مع اپنے مکین کے آتش دوزخ (کے گھڑے) میں جاگری؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انہیں (کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں دکھاتا جو ظلم کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ التوبہ
110 یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے (یعنی مسجد ضرار) ہمیشہ ان کے دلوں کو شک و شبہ سے مضطرب رکھے گی۔ (یہ کانٹا نکلنے والا نہیں) مگر یہ کہ ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں (کیونکہ یہ ان کے نفاق کی ایک بہت بڑی شرارت تھی جو چلی نہیں اس لیے ہمیشہ اس کی وجہ سے خوف و ہراس کی حالت میں رہیں گے) اور اللہ سب کا حال جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ التوبہ
111 بلاشبہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لیں اور ان کا مال بھی، اور اس قیمت پر خرید لیں کہ ان کے لیے بہشت (کی جاودانی زندگی) ہو، وہ (کسی دنیوی مقصد کی راہ میں نہیں بلکہ) اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں، یہ وعدہ اللہ کے ذمہ ہوچکا (یعنی اس نے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا) تورات انجیل اور قرآن (تینوں کتابوں) میں (یکساں طور پر) اس کا اعلان ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنا عہد پورا کرنے والا ہو؟ پس (مسلمانو) اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکایا خوشیاں مناؤ اور یہی ہے جو بڑی سی بڑی فیروز مندی ہے۔ التوبہ
112 (ان لوگوں کے اوصاف و اعمال کا یہ حال ہے کہ) (اپنی لغزشوں اور خطاؤں سے) توبہ کرنے والے، عبادت میں سرگرم رہنے والے، اللہ کی حمد و ثنا کرنے والے، سیر و سیاحت کرنے والے، رکوع و سجود میں جھکنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اے پیغبر ! یہی سچے مومن ہیں) اور مومنوں کو) کامیابی و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔ التوبہ
113 پیغمبر کو اور ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ایسا کرنا سزاوار نہیں کہ جب واضح ہوگیا یہ لوگ دوزخی ہیں تو پھر مشرکیوں کی بخشائش کے طلبگار ہوں اگرچہ وہ ان کے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔ التوبہ
114 اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشائش کی آرزو کی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ اپنا وعدہ پورا کردے جو وہ اس سے کرچکا تھا (یعنی اس نے کہا تھا میرے بس میں اور تو کچھ نہیں، دعا ہے تو اس سے بارز نہیں رہوں گا) لیکن جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ (کی سچائی) کا دشمن ہے (اور کبھی حق کی راہ اختیار کرنے والا نہیں) تو اس سے بیزار ہوگیا۔ بلاشبہ ابراہیم بڑا ہی دردمند بڑا ہی بردبار (انسان) تھا۔ التوبہ
115 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ ایک گروہ کو ہدایت دے کر پھر گمراہ قرار دے تاوقیتکہ ان پر وہ ساری باتیں واضح نہ کرے جن سے انہیں بچنا چاہیے، بلا شبہ اللہ کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔ التوبہ
116 بلاشبہ آسمان اور زمین کی (ساری) پادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے (سب کچھ اسی کے قبضہ میں ہے) اور (مسلمانو) اس کے سوا نہ تو تمہارا کوئی رفیق و کارساز ہے نہ مددگار۔ التوبہ
117 یقینا اللہ اپنی رحمت سے پیغمبر پر متوجہ ہوگیا، نیز مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے بڑی تنگی اور بے سروسامانی کی گھڑی میں اس کے پیچھے قدم اٹھایا اور اس وقت اٹھایا جبکہ حالت ایسی ہوچکی تھی کہ قریب تھا ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں، پھر وہ اپنی رحمت سے ان سب پر متوجہ ہوگیا۔ بلاشبہ وہ شفقت رکھنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔ التوبہ
118 اور (اسی طرح) ان تین شخصوں پر بھی (اس کی رحمت لوٹ آئی) جو (معلق حالت میں) چھوڑ دیئے گئے تھے (اور اس وقت لوٹ آئی) جبکہ زمین اپنی ساری وسعت پر بھی ان کے لیے تنگ ہوگئی تھی، اور وہ خود بھی اپنی جان سے تنگ آگئے تھے اور انہوں نے جان لیا تھا کہ اللہ سے بھاگ کر انہیں کوئی پناہ نہیں مل سکتی مگر خود اسی کے دامن میں، پس اللہ (اپنی رحمت سے) ان پر لوٹ آیا تاکہ وہ رجوع کریں بلا شبہ اللہ ہی ہے بڑا توبہ قبول کرنے والا، بڑا ہی رحمت والا۔ التوبہ
119 مسلمانو ! خدا کے خوف سے بے پروا نہ ہوجاؤ، اور چاہیے کہ سچوں کے ساتھی بنو (کہ یہ سچائی تھی جو ان لوگوں کی بخشش کا وسیلہ ہوئی) التوبہ
120 مدینہ کے باشندوں کو اور ان اعرابیوں کو جو اس کے اطراف میں بستے ہیں لائق نہ تھا کہ اللہ کے رسول کا (دفاع میں) ساتھ نہ دیں اور پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ بات لائق تھی کہ اس کی جان کی پروا نہ کر کے محض اپنی جانوں کی فکر میں پڑجائیں، اس لیے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو مصیبت بھی پیش آتی وہ ان کے لیے ایک نیک عمل شمار کی جاتی، ہر پیاس جو وہ جھیلتے ہر محنت جو وہ اٹھاتے ہر مخمصہ جس میں وہ پڑتے ہر وہ قدم جو وہاں چلتا جہاں چلنا کاروں کے لیے غیظ و غضب کا باعث ہوتا اور وہ ہر وہ چیز جو وہ (مال غنیمت میں) دشمنوں سے پاتے (یہ سب کچھ ان کے لیے عمل نیک ثابت ہوتا، کیونکہ) اللہ نیک کرداروں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ التوبہ
121 اور (اسی طرح) وہ (اللہ کی راہ میں) کوئی رقم نہیں نکالتے چھوٹی ہو یا بڑی، اور کوئی میدان طے نہیں کرتے مگر یہ کہ (اس کی نیکی) ان کے نام لکھی جاتی ہے تاکہ اللہ ان کے کاموں کا انہیں بہتر سے بہتر اجر عطا فرمائے۔ التوبہ
122 اور (دیکھو) یہ ممکن نہ تھا کہ سب کے سب مسلمان (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں (اور تعلیم دین کے مرکز میں آ کر علم و تربیت حاصل کریں) پس کیوں نہ ایسا کیا گیا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں دانش و فہم پیدا کرتی اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنے گھروں میں واپس جاتی تو لوگوں کو (جہل و غفلت کے نتائج سے) ہوشیار کرتی تاکہ (برائیوں سے) بچیں؟ التوبہ
123 مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس (پھیلے ہوئے) ہیں اور چاہیے کہ وہ (جنگ میں) تمہاری سختی محسوس کریں (کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نیہں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو (ہر حال میں) متقی ہوتے ہیں۔ التوبہ
124 اور جب ایسا ہوتا ہے کہ (اللہ کی طرف سے) قرآن کی کوئی سورت اترتی ہے تو ان (منافقوں) میں کچھ لوگ ہیں جو (انکار و شرارت کی راہ سے) کہتے ہیں تم لوگوں میں سے کس کا ایمان اس نے زیادہ کردیا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا ایمان تو ضرور زیادہ کردیا اور وہ اس پر خوشیاں منار رہے ہیں۔ التوبہ
125 لیکن (ہاں) جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے (اور ایمان کی جگہ انکار کی ناپاکی) تو بلاشبہ اس نے ان کی ناپاکی پر ایک اور ناپاکی بڑھا دی، اور (نتیجہ بھی دیکھ لو) وہ مرگئے، اور اس حالت میں مرے کہ ایمان سے قطعی محروم تھے۔ التوبہ
126 (افسوس ان پر) کیا یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی برس اس سے خالی نہیں جاتا کہ ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائش میں نہ ڈالے جاتے ہوں پھر بھی یہ ہیں کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ التوبہ
127 اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے ( جس میں منافقوں کا ذکر ہوتا ہے) تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تم پر کسی کی نگاہ تو نہیں؟ (یعنی اپنا ذکر سن کر جو تم چونک اٹھے ہو تو اس پر کسی کی نگاہ تو نہیں پڑ رہی؟) پھر منہ پھیر کر چل دیتے ہیں، تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دل ہی (راست بازی سے) پھیر دیئے، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے کورے ہوگئے۔ التوبہ
128 (مسلمانو) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے، تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے، وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا رحمت والا ہے۔ التوبہ
129 (اے پیغمبر) اگر اس پر بھی یہ لوگ سرتابی کریں تو ان سے کہہ دو میرے لیے اللہ کا سہارا بس کرتا ہے۔ کوئی معبود نہیں ہے، مگر صرف اسی کی ذات، میں نے اس پر بھروسہ کیا، وہ (تمام عالم ہستی کی جہانداری کے) عرش عظیم (١) کا خداوندی ہے۔ التوبہ
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے یونس
1 الر۔ یہ آیتیں ہیں کتاب حکیم کی (یعنی ایسی کتاب کی جس کی تمام باتیں حکمت کی باتیں ہیں) یونس
2 کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ انہی میں سے ایک آدمی پر ہم نے وحی بھیجی؟ اس بات کی وحی کہ لوگوں کو (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرے اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دے کہ پروردگار کے حضور ان کے لیے اچھا مقام ہے؟ کافروں نے کہا بلاشبہ یہ شخص جادوگر ہے، کھلا جادوگر۔ یونس
3 (اے لوگو) تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا (یعنی چھ معین زمانوں میں پیدا کیا) پھر اپنے تخت حکومت پر متکمن ہوگیا، وہی تمام کاموں کا بندوبست کرر ہا ہے ( یعنی کائنات ہستی پیدا بھی اسی نے کی اور فرماں روائی بھی صرف اسی کی ہوئی) اس کے حضور کوئی سفارشی نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ خود وہ اجازت دے دے، اور اجازت کے بعد کوئی اس کی جرات کرے، یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار پس اسی کی بندگی کرو، کیا تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟ یونس
4 تم سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، وہی ہے جو پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے (یعنی مرنے کے بعد دوبرہ زندہ کرے گا) تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں انصاف کے ساتھ بدلہ دے، باقی رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو انہیں پاداش کفر میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور عذاب دردناک یونس
5 وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو روشن اور پھر چاند کی منزلوں کا اندازہ ٹھہرا دیا تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ نے یہ سب کچھ نہیں بنایا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں وہ (اپنی قدرت و حکمت کی) دلیلیں کھول کھول کر بیان کردیتا ہے۔ یونس
6 بلاشبہ اس بات میں کہ رات کے پیچھے دن اور دن کے پیچھے رات آتی ہے اور بلا شبہ ان تمام چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں میں اور زمین میں پیدا کی ہیں ان لوگوں کے لیے ٠ قدرت و حکمت کی) نشانیاں ہیں جو متقی ہیں۔ (١) یونس
7 جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، صرف دنیا کی زدنگی ہی میں مگن ہیں اور اس حالت پر مطمئن ہوگئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ یونس
8 تو ایسے ہی لوگ ہیں جن کا (آخری) ٹھکانا دوزخ ہوگا، بسبب اس کمائی کے جو (خود اپنے ہی عملوں کے ذریعہ) کماتے رہتے ہیں۔ یونس
9 جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے تو ان کے ایمان کی وجہ سے (کامیابی و سعادت کی) راہ ان کا پروردگار ان پر کھول دے گا۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جبکہ وہ نعمت الہی کے باغوں میں ہوں گے۔ یونس
10 وہاں ان کی پکار یہ ہوگی کہ خدایا ساری پاکیاں تیرے ہی لیے ہیں ان کی دعا یہ ہوگی کہ سلامتی ہو اور دعاؤں کا خاتمہ یہ ہوگا کہ الحمد للہ رب العالمین۔ یونس
11 اور (دیکھو) انسان جس طرح فائدہ کے لیے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ اسے نقصان پہنچانے میں جلد باز ہوتا (یعنی اگر اس کا قانون جزا ایسا ہوتا کہ ہر بدعملی کا برا نتیجہ فورا کام کرجائے) تو اس کا وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا (لیکن قانون جزا نے یہاں ڈھیل دے رکھی ہے) پس جو لوگ (مرنے کے بعد) ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشیوں میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔ یونس
12 اور جب کبھی انسان کو کوئی رنج پہنچتا ہے تو خواہ کسی حال میں ہو، کروٹ پر لیٹا ہو، بیٹھا ہو، کھڑا ہو ہمیں پکارنے لگے گا، لیکن جب ہم اس کا رنج دور کردیتے ہیں تو پھر اس طرح (منہ موڑے ہوئے) چل دیتا ہے گویا رنج و مصیبت میں کبھی اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا، تو دیکھو ! جو حد سے گزر گئے ہیں ان کی نگاہوں میں اسی طرح ان کے کام خوش نما کردئے گئے ہیں۔ یونس
13 اور تم سے پہلے کتنی ہی امتیں گزر چکی ہیں جب انہوں نے ظلم کی راہ اختیار کی تو ہم نے انہیں (پاداش عمل میں) ہلاک کردیا، ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے مگر اس پر بھی وہ آمادہ نہ ہوئے کہ ایمان لائیں (تو دیکھو) مجرموں کو اسی طرح ہم ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں۔ یونس
14 پھر ان امتوں کے بعد ہم نے تمہیں ان کا جانشین بنایا تاکہ دیکھیں تمہارے کام کیسے ہوتے ہیں؟ یونس
15 اور (اے پیغمبر) جب تم ہماری واضح آیتیں انہیں پڑھ کر سناتے ہو تو جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں اس قرآن کے سوا کوئی دوسرا قرآن لاکر سناؤ، یا اسی (کے مطالب) میں رد و بدل کردو، تم کہو میرا یہ مقدور نہیں کہ اپنے جی سے اس میں ردو بدل کردوں، میں تو بس اسی حکم کا تابع ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے۔ میں ڈرتا ہوں اگر اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کروں تو عذاب کا ایک بہت بڑا دن آنے والا ہے۔ یونس
16 اور تم کہو اگر اللہ چاہتا تو میں قرآن تمہیں سناتا ہی نہیں اور تمہیں اس سے خبردار ہی نہ کرتا ( مگر اس کا چاہنا یہی ہوا کہ تم میں اس کا کلام نازل ہو اور تمہیں اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے) پھر دیکھو یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملہ سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں، کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں؟ یونس
17 پھر بتلاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اپنے جی سے جھوٹ بات بنا کر اللہ پر افترا کرے اور اس آدمی سے جو اللہ سچی آیتیں جھٹلائے؟ یقینا جرم کرنے والے کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ یونس
18 اور (یہ مشرک) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ تو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ فائدہ، اور کہتے ہیں (ہم اس لیے ان کی پرستش کرتے ہیں کہ) یہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں (اے پیغمبر تم) کہہ دو کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دینی چاہتے ہو جو خود اسے معلوم نہیں، نہ تو آسمانوں میں اور نہ زمینوں میں؟ پاک اور بلند ہے اس کی ذات اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ یونس
19 اور (ابتدا میں) انسانوں کی ایک ہی امت تھی، پھر الگ الگ ہوگئے، اور اگر تمہارے پروردگار کی جانب سے پہلے ایک بات نہ ٹھہرا دی گئی ہوتی (یعنی لوگ الگ الگ راہوں میں چلیں گے اور اسی اختلاف میں ان کے لیے آزمائش عمل ہوگی) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرر ہے ہیں ان کا فیصلہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔ یونس
20 اور یہ لوگ کہتے ہیں کیں ایسا نہ ہوا کہ اس پر (یعنی پیغبر اسلام پر) اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی اترتی؟ تو (اے پیغبر) تم کہہ دو غیب کا علم تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے، پس انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ یونس
21 اور جب ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو درد دکھ کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فورا ہماری (رحمت کی) نشانیوں میں باریک باریک حیلے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم کہہ دو اللہ ان باریکیوں میں سب سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری یہ ساری مکاریاں قلمبند کر رہے ہیں۔ یونس
22 وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی کشکی اور تری میں سیر و گردش کا سامان کردیا ہے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تم جہازوں میں سوار ہوتے ہو جہاز موافق ہوا پاکر تمہیں لے اڑتے ہیں، مسافر خوش ہوتے ہیں (کہ کیا اچھی ہوا چل رہی ہے) پھر اچانک ہوائے تند کے جھونکے نمودار ہوجاتے اور ہر طرف سے موجیں ہجوم کرنے لگتی ہیں اور مسافر خیال کرتے ہیں بس اب ان میں گھر گئے (اور بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی) تو اس وقت (انہیں خدا کے سوا اور کوئی ہستی یاس نہیں آتی وہ) دین کے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارنے لگتے ہیں، خدایا ! اگر اس حالت سے ہمیں نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔ یونس
23 پھر (دیکھو) جب اللہ انہیں نجات دے دیتا ہے تو اچانک (اپنا عہد و پیمان بھول جاتے ہیں) اور ناحق ملک میں سرکشی و فساد کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری سرکشی کا وبال تو خود تمہاری ہی جانوں پر پڑنے والا ہے۔ یہ دنیا کی (چند روزہ) زندگی کے فائدے ہیں، سو اٹھا لو، پھر تمہیں ہماری ہی طرف لوٹ کر اانا ہے، اس وقت ہم تمہیں بتائیں گے کہ جو کچھ دنیا میں کرتے رہے اس کی حقیقت کیا تھی۔ یونس
24 دنیا کی زندگی کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے یہ معاملہ کہ آسمان سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی نابات جو انسانوں اور چارپایوں کے لیے غذا کا کام دیتی ہیں اس سے شاداب ہو کر پھلی پھولیں اور باہمدگر مل گئیں، پھر جب وہ وقت آیا کہ زمین نے اپنے (سبزی اور لالی کے) سارے زیور پہن لیے اور (لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور گراں بار باغوں سے) خوشنما ہوگئی اور زمین کے مالک سمجھے اب فصل ہمارے قابو میں آگئی ہے تو اچانک ہمارا حکم دن کے وقت یا رات کے وقت نمودار ہوگیا اور ہم نے زمین کی ساری فصل اس طرح بیخ و بن سے کاٹ کے رکھ دی گویا ایک دن پہلے تک ان کا نام و نشان ہی نہ تھا، اس طرح ہم (حقیقت کی) دلیلیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔ یونس
25 اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے (کامیابی و نجات کی) سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ یونس
26 (اس کا قانون تو یہ ہے کہ) جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہی ہوگی اور (جتنی اور جیسی کچھ ان کی بھلائی تھی) اس سے بھی کچھ زیادہ، ان کے چہروں پر نہ تو (محرومی کی) کالک لگے گی نہ ذلت کا اثر نمایاں ہوگا، ایسے ہی لوگ جنتی ہیں ہمیشہ جنت میں رہنے والے۔ یونس
27 اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا نتیجہ ویسا ہی نکلے گا جیسی کچھ برائی ہوگی، اور ان پر خواری چھا جائے گی، اللہ (کے قانون) سے انہیں بچانے والا کوئی نہ ہوگ، ان کے چہروں پر اس طرح کالک چھا جائے گی جیسے اندھیری رات کا ایک ٹکڑا چہروں پر اڑھا دیا گیا ہو، سو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں، دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے۔ یونس
28 اور (دیکھو) جس دن ایسا ہوگا کہ ہم ان سب کو اپنے حضور اکٹھا کریں گے اور پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے تم اور وہ سب جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا اپنی جگہ سے نہ ہلو، (یعنی اپنے مقام میں رکے رہو، آگے نہ بڑھو) اور پھر ایسا ہوگا کہ ایک دوسرے سے انہیں الگ الگ کردیں گے (یعنی شرک کرنے والوں میں اور ان میں جنہیں شریک بنایا گیا امتیاز پیدا ہوجائے گا) تب وہ ہستیاں جنہیں خدا کے ساتھ شریک بنایا گیا ہے کہیں گی : یہ بات تو نہ تھی کہ تم ہماری ہی پرستش کرتے تھے۔ یونس
29 آج کے دن ہم میں اور تم میں اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۔ (وہ جانتا ہے کہ) تمہاری پرستاریوں سے ہم یک قلم بے خبر تھے۔ یونس
30 پس اس دن ہر آدمی جانچ لے گا کہ جو کچھ وہ پہلے کرچکا ہے اس کی حقیقت کیا تھی، سب اللہ کے حضور کہ ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور حقیقت کے خلاف جس قدر افترا پردازیاں کرتے رہے ہیں سب ان سے کھوئی جائیں گی۔ یونس
31 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے پوچھو وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین کی بخشائشوں کے ذریعہ روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضۃ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور پھر وہ کون ہے جو تمام کارخانہ ہستی کا انتظام کر رہا ہے؟ وہ (فورا) بول اٹھیں گے کہ اللہ، پس تم کہو، اگر ایسا ہی ہے تو پھر تم (انکار حق کے نتیجہ سے) ڈرتے نہیں؟ یونس
32 یہی اللہ فی الحقیقت تمہارا پروردگار ہے پھر بتلاؤ سچائی کے جان لینے کے بعد اسے نہ ماننا گمراہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ تم (حقیقت سے) منہ پھیرے کدھر کو جارہے ہو؟ یونس
33 (اے پیغمبر) اسی طرح تیرے پروردگار کا فرمودہ ان لوگوں پر صادق آگیا جو (دائرہ ہدایت سے) باہر ہوگئے ہیں کہ وہ ایمان لانے والے نہیں۔ یونس
34 (اے پیغمبر) ان سے پوچھو : کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو خلقت کی پیدائش شروع کرے اور پھر اسے دہرائے؟ تم کہو یہ تو اللہ ہے جو ابتدا میں پیدا کرتا ہے پھر اسے دہرائے گا، پس غور کرو تمہاری الٹی چال تمہیں کدھر کو لے جارہی ہے؟ یونس
35 ان سے پوچھو کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو حق کی راہ دکھاتا ہے؟ پھر جو حق کی راہ دکھائے وہ اس کا حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ خود ہی راہ نہیں پاتا جب تک اسے راہ نہ دکھائی جائے؟ (افسوس تم پر) تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟ یونس
36 اور ان لوگوں میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو صرف وہم و گمان کی باتوں پر چلتے ہیں اور سچائی کی معرفت میں گمان کچھ کام نہیں دے سکتا، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں۔ یونس
37 اور اس قرآن کا معاملہ ایسا نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اپنے جی سے گھڑ لائے، وہ تو ان تمام وحیوں کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور کتاب اللہ کی تفصیل ہے (یعنی اللہ کی کتابوں میں جو کچھ تعلیم دی گئی ہے وہ سب اس میں کھول کھول کر بیان کردی گئی ہے) اس میں کچھ شبہ نہیں، تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ یونس
38 کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے (یعنی پیغمبر اسلام نے) اللہ کے نام پر یہ افترا کیا ہے؟ تم کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو (اور ایک آدمی اپنے جی سے گھڑ کر ایسا کلام بنا سکتا ہے) تو قرآن کی مانند ایک سورت بنا کر پیش کردو اور خدا کے سوا جن جن ہستیوں کو اپنی مدد کے لیے بلاسکتے ہو (تمہیں پوری طرح اجازت ہے) بلا لو۔ یونس
39 نہیں یہ بات نہیں ہے، اصل حقیقت ی ہے کہ جس بات پر یہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اور جس بات کا نتیجہ ابھی پیش نہیں آیا اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہوگئے، ٹھیک اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، تو دیکھو ظلم کرنے والوں کا کیسا کچھ انچام ہوچکا ہے۔ یونس
40 اور (اے پیغبر) ان میں (یعنی تیری قوم میں) کچھ تو ایسے ہیں جو قرآن پر (آئندہ) ایمان لائیں گے، کچھ ایسے ہیں جو ایمان لانے والے نہیں، اور تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون لوگ مفسد ہیں۔ یونس
41 اور اگر یہ (اس قدر سمجھانے پر بھی) تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے، تمہارے لیے تمہارا، میں جو کچھ کرتا ہوں اس کی ذمہ داری تم پر نہیں، تم جو کچھ کرتے ہو، اس کے لیے میں ذمہ دار نہیں (ہر شخص کے لیے اس کا عمل ہے اور عمل کے مطابق نتیجہ، پس تم اپنی راہ چلو، مجھے اپنی راہ چلنے دو، اور دیکھو اللہ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے) یونس
42 اور (اے پیغمبر) ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تیری باتوں کی طرف کان لگاتے ہیں (اور تو خیال کرتا ہے یہ کلام حق سن کر اس کی سچائی پالیں گے حالانکہ فی الحقیقت وہ سنتے نہیں) پھر کیا تو بہروں کو بات سنائے گا اگرچہ وہ بات نہ پاسکتے ہوں؟ یونس
43 اور ان میں کچھ ایسے ہیں جو تیری طرف تکتے ہیں (اور تو خیال کرتا ہے یہ تجھے سمجھ کر دیکھتے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے نہیں) پھر کیا تو اندھے کو راہ دکھادے گا، اگرچہ اسے کچھ سوجھ بوجھ نہ پڑتا ہوں؟ یونس
44 یقینا اللہ انسانوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا (کہ انہیں جبرا اندھا بہرا بنا دے) مگر خود انسان ہی ہے جو اپنے اوپر ظلم کرتا ہے (کہ اس کی بخشی ہوئی قوتوں سے کام نہیں لیتا اور ہٹ اور ضد میں آکر سچائی سے انکار کردیتا ہے) یونس
45 اور جس دن ایسا ہوگا کہ اللہ ان سب کو اپنے حضور جمع کرے گا اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا گویا (دنیا میں) اس سے زیادہ نہیں ٹھہرے جیسے گھڑی بھر کو لوگ ٹھہر جائیں اور آپس میں صاحب سلامت کرلیں (تو) بلاشبہ وہ لوگ بڑے ہی گھاٹے میں رہے جنہوں نے اللہ کی ملاقات کا اعتقاد جھٹلایا اور وہ کبھی (کامیابی کی) راہ پانے والے نہ تھے۔ یونس
46 اور (اے پیغمبر) ہم نے ان لوگوں سے ( یعنی منکرین عرب سے) جن جن باتوں کا وعدہ کیا ہے (یعنی دعوت حق کے پیش آنے والے نتائج کی خبر دی ہے) ان میں سے بعض باتیں تجھے (تیری زندگی میں) دکھا دیں یا (ان کے ظہور سے پہلے) تیرا وقت پورا کردیں لیکن بہرحال انہیں ہماری ہی طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے۔ یونس
47 اور (یاد رکھو) ہر امت کے لیے ایک رسول ہے (جو ان میں پیدا ہوتا ہے اور انہیں دین حق کی طرف بلاتا ہے) پھر جب کسی امت میں اس کا رسول ظاہر ہوگیا تو (ہمارا قانون یہ ہے کہ) ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ ناانصافی ہو۔ یونس
48 اور یہ لوگ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ یہ بات (یعنی انکار حق کی پاداش) کب ظہور میں آئے گی؟ یونس
49 (اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ معاملہ کچھ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کب واقع ہوگا) میں تو خود اپنی جان کا بھی نفع نقصان اپنے قبضہ میں نہیں رکھتا۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ نے چاہا ہے، ہر امت کے لیے (پاداش عمل کا) ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ وقت آ پہنچتا ہے تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔ یونس
50 (اے پیغمبر) تم ان لوگوں سے کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ تم کیا کرو گے اگر اس کا عذاب راتوں رات نازل ہو یا دن دہاڑے تم پر مسلط ہوجائے؟ پھر کیا بات ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچار رہے ہیں؟ یونس
51 کیا جب وہ واقع ہوجائے گا اس وقت تم یقین کرو گے؟ (لیکن اس وقت یقین کرنا کچھ سود مند نہ ہو، اس وقت تو کہا جائے گا) ہاں اب تم نے یقین کیا اور تم ہی تھے کہ اس کی طلب میں جلدی مچایا کرتے تھے۔ یونس
52 پھر ظلم کرنے والوں سے کہا جائے گا اب ہمیشگی کا عذاب چکھو، تمہیں جو کچھ بدلہ مل رہا ہے یہ اس کے سو کیا ہے کہ خود تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے جو دنیا میں کماتے رہے ہو۔ یونس
53 اور تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ بات واقعی سچ ہے؟ تم (بلا تامل) کہو ہاں میرا پروردگار اس پر شاہد ہے کہ یہ سچائی کے سوا کچھ نہیں، اور تم کھی ایسا نہیں کرسکتے کہ اسے (اس کے کاموں میں) عاجز کردو۔ یونس
54 اور (آنے والا عذاب اس درجہ ہولناک ہے اور اس کا وقوع اس درجہ قطعی ہے کہ) اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے، اور دیکھو جب انہوں نے عذاب اپنے سامنے دیکھا تو (اپنی سرکشی و انکار یاد کر رکے) دل ہی دل میں پچھتانے لگے پھر ان کے درمیان (یعنی مومنوں اور سرکشوں کے درمیان) انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ان پر کسی طرح کی زیادتی واقع ہو۔ یونس
55 یاد رکھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے لیے (اس کے سوا کوئی نہیں جسے حکم و تصرف میں کچھ دخل ہو) اور یہ بات بھی نہ بھولو کہ اللہ کا وعدہ حق ہے، (وہ کبھی ٹل نہیں سکتا) مگر ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو یہ بات نہیں جانتے۔ یونس
56 وہی جلاتا ہے، وہی مارتا ہے، اور وہی ہے جس کی طرف تم سب کو (بالآخر) لوٹنا ہے۔ یونس
57 اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے ایک ایسی چیز آگئی جو موعظت ہے، دل کی تمام بیماریوں کے شفا ہے اور اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو (اس پر) یقین رکھتے ہیں۔ یونس
58 (اے پیغمبر) تم کہو یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کی رحمت ہے، پس چاہیے کہ اس پر خوشی منائیں اور یہ ان ساری چیزوں سے بہتر ہے جسے وہ (دنیا کی زندگی میں) جمع کرتے رہتے ہیں۔ یونس
59 (اے پیغمبر) تم ان سے کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ جو روزی اللہ نے تمہاری لیے پیدا کی ہے تم نے (محض اپنے اوہام و ظنوں کی بنا پر) اس میں سے بعض کو حرام ٹھہرا دیا بعض کو حلال سمجھ لیا ہے، تم پوچھو ( یہ جو تم نے حلال و حرام کا حکم لگایا تو) کیا اللہ نے اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ پر بہتان باندھتے ہو؟ یونس
60 اور جن لوگوں کی جراتوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے نام پر جھوٹ بول کر افترا پردازی کر رہے ہیں انہوں نے روز قیامت کو کیا سمجھ رکھا ہے (کیا وہ سمجھتے ہیں اللہ کی جانب سے کوئی پرسش ہونے والی نہیں؟) حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسانوں کے لیے بڑا ہی فضل رکھا ہے (کہ اس نے جزائے عمل کو آخرت پر اٹھا رکھ ہے اور دنیا میں سب کو مہلت عمل دے دی ہے) لیکن ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو اس کا شکر نہیں بجا لاتے۔ یونس
61 اور (اے پیغبر) تم کسی حال میں ہو اور قرآن کی کوئی سی آیت بھی پڑھ کر سناتے ہو اور (اے لوگو) تم کوئی سا کام بھی کرتے ہو مگر وہ بات کرتے ہوئے ہماری نگاہوں سے غائب نہیں ہوتے اور نہ تو زمین میں نہ آسمان میں کوئی چیز تمہارے پروردگار کے علم سے غائب ہے، ذرہ بھر کوئی چیز ہو یا اس سے چھوٹی یا بڑی سب کچھ ایک کتاب واضح مندرج ہے۔ یونس
62 یاد رکھو جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔ یونس
63 یہ وہ لوگ ہیں کہ ایمان لائے اور زندگی ایسی بسر کی کہ برائیوں سے بچتے رہے۔ یونس
64 ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی (کامرانی و سعادت کی) بشارت ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی اللہ کے فرمان اٹل ہیں، کبھی بدلنے والے نہیں، اور یہی سب سے بڑی فیروز مندی ہے جو انسان کے حصے میں آسکتی ہے۔ یونس
65 (اور اے پیغمبر) منکروں کی (معاندانہ) باتوں سے تم آزردہ نہ ہو، ساری عزتیں اللہ ہی کے لیے ہیں (وہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے) وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ یونس
66 یاد رکھو وہ تمام ہستیاں جو آسمانوں میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں اللہ ہی کے تابع فرمان ہیں، اور جو لوگ اللہ کے سوا اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پکارتے ہیں تم جانتے ہو وہ کس بات کی پیروی کرتے ہیں؟ (کیا یقین و بصیرت کی؟ نہیں) محض وہم و گمان کی، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ (ہر بات میں) اپنی اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ یونس
67 وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کا وقت بنا دیا کہ اس میں آرام پاؤ اور دن کا وقت کہ اس کی روشنی میں دیکھو بھالو، بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لیے (ربوبیت الہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں جو (کلام حق) سنتے (اور سمجھتے) ہیں۔ یونس
68 یہ کہتے ہیں اللہ نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے، اس کے لے تقدیس ہو، وہ تو (اس طرح کی تمام احتیاجوں سے) بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کے لیے ہے، تمہارے پاس ایسی بات کہنے کے لیے کون سی دلیل آگئی؟ کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں؟ یونس
69 (اے پیغمبر) تم کہو، جو لوگ اللہ پر بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔ یونس
70 ان کے لیے صرف دنیا ہی کی متاع ہے، پھر (آخرکار) ہماری طرف لوٹنا ہے، تب ہم انہیں عذاب سخت کا مزہ چکھائیں گے کہ جیسی کچھ کفر کی باتیں کرتے رہے ہیں اس کا نتیجہ پالیں۔ یونس
71 اور (اے پیغمبر) انہیں نوح کا حال سناؤ، جب ایسا ہوا تھا کہ اس نے اپنی قوم سے کہا تھا اے میری قوم اگر تم پر یہ بات شاق گزرتی ہے کہ میں تم میں (دعوت و ہدایت کے لیے) کھڑا ہوں اور اللہ کی نشانیوں کے ساتھ پند و نصیحت کرتا ہوں تو میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو اسے ٹھان لو اور اپنے شریکوں کو بھی ساتھ لے لو، پھر جو کچھ تمہارا منصوب ہو اسے اچھی طرح سمجھ بوجھ لو کہ کوئی پہلو نظر سے رہ نہ جائے پھر جو کچھ میرے خلاف کرنا ہے کر گزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو (اور دیکھو آخر کار کیا نتیجہ نکلتا ہے؟) یونس
72 پھر اگر (اس پر بھی تم باز نہ آئے اور) مجھ سے روگردانی کی تو (یاد رکھو اپنا ہی نقصان کرو گے) میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کے لیے تم سے کسی مزدوری کا طلبگار نہیں ہوا تھا، میری مزدوری تو اللہ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں، مجھے (اسی کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ اس کے فرمانبردار بندوں کے گروہ میں شامل رہوں۔ یونس
73 اس پر بھی لوگوں نے اسے جھٹلایا، پس ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں سوار تھے (طوفان سے) بچا لیا، اور (غرق شدہ قوم کا) جانشین بنایا اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ان سب کو غرق کردیا، تو دیکھو ان لوگوں کا حشر کیسا ہوا جو (انکار و سرکشی کے نتائج سے) خبردار کردئے گئے تھے؟ یونس
74 پھر نوح کے بعد ہم نے (کتنے ہی) رسولوں کو ان کی قوموں میں پیدا کیا، وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے اس پر بھی ان کی قومیں تیار نہ تھیں کہ جو بات پہلے جھٹلا چکی ہیں اسے (دلیلیں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو جو لوگ (سرکشی اور فساد میں) حد سے گزر جاتے ہیں ہم اسی طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ یونس
75 پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد موسیٰ اور ہارون کو بھیجا، فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف، وہ ہماری نشانیاں اپنے ساتھ رکھتے تھے، مگر فرعون اور اسکے درباریوں نے گھمنڈ کیا، ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا۔ یونس
76 پھر جب ہماری جانب سے سچائی ان پر نمودار ہوگئی تو کہنے لگے یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جادو ہے، صریح جادو۔ یونس
77 موسی نے کہا تم سچائی کے حق میں جب وہ نمودار ہوگئی ایسی بات کہتے ہو؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادوگر تو کبھی کامیابی نہیں پاسکتے۔ یونس
78 انہوں نے (جواب میں) کہا، کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس راہ پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے دیکھا ہے اس سے ہمیں ہٹا دو اور ملک میں تم دونوں بھائیوں کے لیے سرداری ہوجائے؟ ہم تو تمہیں ماننے والے نہیں۔ یونس
79 اور فرعون نے کہا میری مملکت میں جتنے ماہر جادوگر ہیں سب کو میرے حضور حاضر کرو۔ یونس
80 جب جادوگرو آموجود ہوئے (اور مقابلہ کا میدان گرم ہوا) تو موسیٰ نے کہا، تمہیں جو کچھ میدان میں ڈالنا ہے ڈال دو۔ یونس
81 جب انہوں نے (اپنی جادو کی رسیاں اور لاٹھیاں) ڈال دیں تو موسیٰ نے کہا تم جو کچھ بنا کر لائے ہو یہ جادو ہے اور یقینا اللہ اسے ملیا میٹ کرے گا، اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ مفسدوں کا کام نہیں سنوارتا۔ یونس
82 وہ حق کو اپنے احکام کے مطابق ضرور ثابت کر دکھائے گا اگرچہ ان لوگوں کو جو مجرم ہیں ایسا ہونا پسند نہ آئے۔ یونس
83 تو دیکھو اس پر بھی ایسا ہوا کہ موسیٰ پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس کی قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا، وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں، اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک (مصر) میں بڑا ہی سرکش (بادشاہ) تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ (ظلم و استبداد میں) بالکل چھوٹ تھا۔ یونس
84 اور موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا لوگو ! اگر تم فی الحقیقت اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کی فرمانبرداری کرنی چاہتے ہو تو چاہیے کہ صرف اسی پر بھروسہ کرو (اور فرعون کی طاقت سے نہ ڈرو) یونس
85 انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا (ہم دعا کرتے ہیں کہ) پروردگار ہمیں اس ظالم گروہ کے لیے آزمائشوں کا موجب نہ بنائیو (کہ اس کے ظلم و ستم کے مقابلہ میں کمزوری دکھائیں) یونس
86 اور اپنی رحمت سے ایسا کیجیو کہ اس کافر گروہ کے پنجہ سے نجات پاجائیں۔ یونس
87 اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون) پر وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں مکان بناؤ اور اپنے مکانوں کو قبلہ رخ تعمیر کرو۔ نیز (ان میں) نماز قائم کرو اور جو ایمان لائے ہیں انہیں (کامیابی کی) بشارت دو۔ یونس
88 اور موسیٰ نے دعا مانگی خدایا تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیا کی زندگی میں زیب و زینت کی چیزیں اور مال و دولت کی شوکتیں بخشی ہیں تو خدایا ! کیا یہ اس لیے ہے کہ تیری راہ سے یہ لوگوں کو بھٹکائیں، خدایا ! ان کی دولت زائل کردے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک عذاب دردناک اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ یونس
89 اللہ نے فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی، تو اب تم (اپنی راہ میں) جم کر کھڑے ہوجاؤ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو (میرا طریق کار) نہیں جانتے (اور اس لیے صبر نہیں کرسکتے) یونس
90 اور پھر ایسا ہوا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اتار دیا، یہ دیکھ کر فرعون اور اس کے لشکر نے پیچھا کیا، مقصود یہ تھا کہ ظلم و شرارت کریں، لیکن جب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ فرعون سمندر میں غرق ہونے لگا تو اس وقت پکار اٹھا میں یقین کرتا ہوں کہ اسی ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں بھی اسی کے فرمانبرداروں میں ہوں۔ یونس
91 (ہم نے کہا) ہاں اب تو ایمان لایا، حالانکہ پہلے برابر نافرمانی کرتا رہا اور تو دنیا کے مفسد انسانوں میں سے ایک (بڑا ہی) مفسد تھا۔ یونس
92 پس ااج ہم ایسا کریں گے کہ تیرے جسم کو (سمندر کی موجوں سے) بچا لیں گے، تاکہ ان لوگوں کے لیے جو تیرے بعد آنے والے ہیں (قدرت حق کی) ایک نشانی ہو اور اکثر انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں کی طرف سے یک قلم غافل رہتے ہیں۔ یونس
93 اور ہم نے بنی اسرائیل کو (اپنے عدہ کے مطابق فلسطین میں) بسنے کا بہت اچھا ٹھکانا دیا تھا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا سامان کردیا تھا، پھر جب کبھی انہوں نے (دین حق کے بارے میں) اختلاف کیا تو علم کی روشنی ضرور ان پر نمودار ہوئی (یعنی ان میں یکے بعد دیگرے نبی مبعوث ہوتے رہے لیکن پھر بھی وہ حقیقت پر متفق نہ ہوئے) قیامت کے دن تمہارا پروردگار ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (یعنی انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت حال کیا تھی) یونس
94 اور اگر تمہیں اس بات میں کسی طرح کا شک ہو جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تمہارے زمانے سے پہلے کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں (یعنی اہل کتاب) کہ یقینا یہ سچائی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتری ہے تو ہرگز ایسا نہ کرنا کہ شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ یونس
95 اور نہ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اللہ کی نشانیاں جھٹلائیں اور نیتجہ یہ نکلا کہ نامراد ہوئے۔ یونس
96 (اے پیغبر) جن لوگوں پر اللہ کا فرمان صادق آگیا ہے (یعنی اس کا یہ قانون کہ جو آنکھیں بند کرلے گا اسے کچھ نظر نہیں آئے گا) وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ یونس
97 اگر (دنیا جہان کی) ساری نشانیاں بھی ان کے سامنے آجائیں تب بھی نہ مانیں یہاں تک کہ عذاب دردناک اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یونس
98 پھر کیوں ایسا ہوا کہ قوم یونس کی بستی کے سوا اور کوئی بستی نہ نکلی کہ (نزول عذاب سے پہلے) یقین کرلیتی اور ایمان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتی؟ یونس کی قوم جب ایمان لے آئی تو ہم نے رسوائی کا وہ عذاب اس پر سے ٹال دیا جو دنیا کیز ندگی میں پیش آنے والا تھا اور ایک خاص مدت تک سروسامان زندگی سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دے دی۔ یونس
99 اور (اے پیغمبر) اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے آدمی روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے (اور دنیا میں اعتقاد کا اختلاف باقی ہی نہ رہتا لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس کی مشیت یہی ہوئی کہ طرح طرح کی طبیعتیں اور طرح طرح کی استعداد دیں ظہور میں آئیں، پھر اگر لوگ نہیں ماتے تو) کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک ایمان نہ لاؤ میں چھوڑنے والا نہیں؟ یونس
100 اور (یاد رکھو) کسی جان کے اختیار میں نہیں کہ (کسی بات پر) یقین لے آئے مگر یہ کہ اللہ کے حکم سے ( یعنی اللہ نے اس بارے میں جو قانون طبیعت بنا دیا ہے اس کے اندر رہ کر اس سے باہر کوئی نہیں جاسکتا) اور (اس کا قانون ہے کہ) وہ ان لوگوں کو (محرومی و شقاوت کی) گندگی میں چھوڑ دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ یونس
101 (اے پیغمبر) تم ان لوگوں سے کہو جو کچھ آسمان میں (تمہارے اوپر) اور جو کچھ زمین میں (تمہارے چاروں طرف) ہے اس سب پر نظر ڈالو (اور دیکھو وہ زبان حال سے کس حقیقت کی شہادت دے رہے ہیں؟) لیکن جو لوگ یقین نہیں رکھتے ان کے لیے نہ تو (قدرت کی) نشانیاں ہی کچھ سود مند ہیں نہ (ہوشیار کرنے والوں کی ( تنبیہیں۔ یونس
102 پھر اگر یہ لوگ منتظر ہیں تو ان کا انتظار اس بات کے سوا اور کس بات کے لیے ہوسکتا ہے کہ جیسے کچھ (عذاب کے) دن ان سے پہلے لوگوں پر گزر چکے ہیں ویسے ہی ان پر بھی آموجود ہوں، تو تم کہہ دو اچھا انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ یونس
103 پھر (جب عذاب کی گھڑی آجاتی ہے تو ہمارا قانون ہے کہ) اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو اس سے بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے اپنے اوپر ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ مومنوں کو بچا لیا کریں۔ یونس
104 (اے پیغمبر) تم کہہ دو اے لوگو ! اگر تم میرے دین کے بارے میں کسی طرح کے شبہ میں ہو تو میں بتلا دیتا ہوں کہ میرا طریقہ کیا ہے، تم اللہ کے سوا جن ہستیوں کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا، میں تو اللہ کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضۃ میں تمہاری زندگی ہے اور جس کے حکم سے تم پر موت طاری ہوتی ہے، اور مجھے اسی کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ مومنوں کے زمرے میں رہوں۔ یونس
105 اور نیز مجھے کہا گیا ہے کہ ہر طرف سے ہٹ کر اپنا رخ اللہ کے دین کی طرف کرلے اور ایسا ہرگز نہ کیجیو کہ شرک کرنے والوں میں سے ہوجائے۔ یونس
106 اور (مجھے حکم دیا ہے کہ) اللہ کے سو کسی کو نہ پکار۔ اس کے سوا جو کوئی ہے وہ نہ تو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اگر تو نے ایسا کیا تو پھر یقینا تو بھی ظلم کرنے والوں میں گنا جائے گا۔ یونس
107 اور اگر اللہ کے حکم سے تجھے کوئی دکھ پہنچے تو جان لے کہ اسے دور کرنے والا کوئی نہیں مگر اسی کی ذات، اگر وہ تجھے کسی طرح کی خوبی بخشنی چاہے تو جان لے کہ کوئی نہیں جو اس کا فضل روک سکے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا فضل کردے، وہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ یونس
108 (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی تمہارے پاس آگئی ہے، پس جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا تو اس کی گمراہی اسی کے آگے آئے گی۔ میں تم پر نگہبان نہیں ہوں (کہ زبردستی کسی راہ میں کھینچ لے جاؤں اور پھر اس سے نکلنے نہ دوں) یونس
109 (اے پیغمبر) جو کچھ تم پر وحی کی جاتی ہے اس پر چلتے رہو اور اپنی راہ میں جمے رہو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ یونس
0 شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے ھود
1 الر۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں (اپنے مطالب و دلائل میں) مضبوط کی گئیں پھر کھول کھول کر واضح کردی گئیں، یہ اس کی طرف سے ہے جو حکمت والا (اور ساتھ ہی) ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے۔ ھود
2 (اس کا اعلان کیا ہے؟) یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، یقین کرو میں اسی کی طرف سے تمہیں خبردار کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔ ھود
3 اور یہ کہ اپنے پروردگار سے معافی کے طلبگار ہو اور اس کی طرف لوٹ جاؤ، (ایسا کرو گے تو) وہ تمہیں ایک وقت مقرر تک زندگی کے فوائد سے بہت اچھی طرح بہرہ مند کرے گا، اور (اپنے قانو کے مطابق) ہر زیادہ (عمل) کرنے والے کو اس کی سعی مزید کا اجر بھی دے گا، لیکن اگر تم نے روگردانی کی تو میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایک بڑا دن نمودار نہ ہوجائے۔ ھود
4 تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اور اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔ ھود
5 (اے پیغمبر) تو سن رکھ کہ یہ لوگ اپنے سینو کو لپیٹے ہیں کہ اللہ سے چھپیں (یعنی اپنے دل کی باتیں چھپا کر رکھتے ہیں) مگر یاد رکھ (انسان کی کوئی بات بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں) یہ جب اپنے سارے کپڑے اوپر ڈال لیتے ہیں تو اس وقت بھی چھپ نہیں سکتے، جو کچھ یہ چھپا کر کریں اور جو کچھ کھلم کھلا کریں سب اللہ کو معلوم ہے، وہ تو سینوں کے اندر کا بھید جاننے والا ہے۔ ھود
6 اور زمین میں چلنے والا کوئی جانور نہیں ہے جس کی روزی کا انتظام اللہ پر نہ ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ اس کا ٹھکانا کہاں ہے اور وہ جگہ کہاں ہے جہاں بالآخر اس کا وجود سونپ دیا جائے گا؟ یہ سب کچھ (علم الہی کی) کتاب میں مندرج ہے۔ ھود
7 اور وہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور اس کے تخت (حکومت) کی فرماں روائی پانی پر تھی، اور اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائش میں ڈالے اور یہ بات ظاہر ہوجائے کہ کون عمل میں بہتر ہے، اور (اے پیغمبر) اگر تو ان لوگوں سے کہے تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو جو لوگ منکر ہیں وہ ضرور بول اٹھیں یہ تو صریح جادو کی سی باتیں ہیں۔ ھود
8 اور اگر ان پر عذاب کا نازل کرنا ایک مقررہ مدت تک ہم تاخیر میں ڈال دیں تو یہ ضرور کہنے لگیں : کون سی بات ہے جو اسے روک رہی ہے؟ سو سن رکھو جس دن عذاب ان پر آئے گا تو پھر کسی کے ٹالے ٹلنے والا نیہں، اور جس بات کی یہ ہنسی اڑایا کرتے تھے (تم دیکھو گے کہ) وہی انہیں آلگی۔ ھود
9 اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں (یعنی اسے ایک نعمت بخشیں) اور پھر اس سے وہ ہٹا لیں تو (وہ ذرا بھی صبر نہیں کرسکتا) یک قلم مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ ھود
10 اور اگر اسے دکھ پہنچا ہو اور اس کے بعد راحت کا مزہ چکھا دیں تو پھر (یک قلم غافل ہوجاتا ہے اور) کہتا ہے اب تو برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں (اب کیا غم ہے) حقیقت یہ ہے کہ انسان (ذرا سی بات میں) خوش ہوجانے والا اور ڈینگیں مارنے والا ہے۔ ھود
11 مگر ہاں ! جو صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کی راہ چلتے ہیں تو ان کا حال ایسا نہیں ہوتا، ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے بخشش ہے اور بہت بڑا اجر ہے ھود
12 پھر (اے پیغمبر) کیا تو ایسا کرے گا کہ جو کچھ تجھ پر وحی کیا جاتا ہے اس میں سے کچھ باتیں چھوڑ دے گا اور اس کی وجہ سے دل تنگ رہے گا؟ اور یہ اس لیے کہ لوگ کہہ اٹھیں گے اس آدمی پر کوئی خزانہ (آسمان سے) کیوں نہیں اتر آیا؟ یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ آکر کھڑا ہوجاتا؟ (نہیں تجھے تو دل تنگ نہیں ہونا چاہیے) تیرا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرنے والا ہے (تجھ پر اس کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ تیری باتیں مان بھی لیں) اور ہر چیز پر اللہ ہی نگہبان ہے۔ ھود
13 پھر کیا یہ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ اس آدمی نے قرآن اپنے جی سے گھڑ لیا ہے؟ (اے پیغمبر) تو کہہ دے اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو اس طرح کی دس سورتیں گھڑی ہوئی بنا کر پیش کردو، اور اللہ کے سوا کسی کو (اپنی مدد کے لیے) پکار سکتے ہو پکار لو۔ (١) ھود
14 پھر اگر (تمہارے ٹھہرائے ہوئے معبود) تمہاری پکار کا جواب نہ دیں (اور تم اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو) تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ ہی کے علم سے اترا ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اب بتلاؤ کیا تم یہ بات تسلیم کرتے ہو؟ ھود
15 جو کوئی (صرف) دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے تو (ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ) اس کی کوشش و عمل کے تنائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے۔ ھود
16 لیکن (یاد رکھو) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت (کی زندگی) میں (دوزخ کی) آگ کے سوا کچھ نہ ہوگا، جو کچھ انہوں نے یہاں بنایا ہے سب اکارت جائے گا اور جو کچھ کرتے رہے ہیں سب نابود ہونے والا ہے۔ ھود
17 پھر دیکھو جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل رکھتے ہوں (یعنی وجدان و عقل کا فیصلہ) اور اس کے ساتھ ہی ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آگیا ہو ( یعنی اللہ کی وحی) اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سر تا پارحمت آچکی ہو ( اور تصدیق کر رہی ہو تو کیا ایسے لوگ انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں) یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور (ملک کے مختلف) گروہوں میں سے جو کوئی اس سے منکر ہوا تو یقین کرو (دوزخ کی) آگ ہی وہ ٹھکانا ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ پس (اے پیغمبر) تو اس کی نسبت کسی طرح کے شک میں نہ پڑیو ( یعنی دعوت قرآن کی کامیابی کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کیجیو) وہ تیرے پروردگار کی جانب سے امر حق ہے۔ لیکن (ایسا ہی ہوتا ہے) کہ اکثر آدمی (سچائی پر) ایمان نہیں لاتے۔ ھود
18 اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان باندھے؟ جو ایسا کر رہے ہیں وہ اپنے پروردگار کے حضور پیش کیے جائیں گے اور اس وقت گواہ گواہی دیں گے کہ یہ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا۔ ھود
19 تو سن رکھو ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکارا جو اللہ کی راہ سے اس کے بندوں کو روکتے ہیں اور چاہتے ہیں اس میں کجی پیدا کردیں اور جو آخرت سے بھی منکر ہوئے۔ ھود
20 یہ لوگ نہ تو زمین میں ( اللہ کو) عاجز کردینے والے تھے نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز تھا، انہیں دوگنا عذاب ہوگا (کیونکہ ان کی سرکشی اور ہٹ دھرمی ایسی تھی کہ) نہ تو حق بات سن سکتے تھے نہ (حقیقت کی روشنی پر) نظر تھی۔ ھود
21 یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں تباہی میں ڈالیں اور زندگی میں جو کچھ (حق کے خلاف) افترا پردازیاں کرتے رہے وہ سب (آخرت میں) ان سے کھوئی گئیں۔ ھود
22 اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی لوگ ہیں کہ آخرت میں سب سے زیادہ تباہ حال ہوں گے۔ ھود
23 لیکن جو لوگ ایمان لائے، نیک کام کیے اور اپنے پروردگار کی طرف قرار پکڑ لیا تو وہ جنت والے ہیں، جنت کی (کامرانیوں) میں ہمیشہ رہنے والے۔ ھود
24 ان دو فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا اور ایک دکھنے سننے والا، پھر بتلاؤ کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟ ھود
25 اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا، اس نے کہا (لوگو) میں تمہیں (انکار و بدعملی کے نتائج سے) آشکارا خبردار کرنے والا ہوں۔ ھود
26 اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایک دردناک دن نہ آجائے۔ ھود
27 اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔ ھود
28 نوح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے حضور سے ایک رحمت بھی مجھے بخشی دی ہو (یعنی راہ حق دکھا دی ہو) مگر وہ تمہیں دکھائی نہ دے تو (میں اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں جو کر رہا ہوں؟) کیا ہم جبرا تمہیں راہ دکھا دیں حالانکہ تم اس سے بے زار ہو؟ ھود
29 لوگو یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں تو اس پر مال و دولت کا تم سے طالب نہیں، میری خدمت کی مزدوری جو کچھ ہے صرف اللہ پر ہے، اور یہ بھی سمجھ لو کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہوں میں کتنے ہی ذلیل ہوں گے مگر) میں ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنے پاس سے انہیں ہنکا دوں، انہیں بھی اپنے پروردگار سے) ایک دن) ملنا ہے (اور وہ ہم سب کے اعمال کا حساب لینے والا ہے) لیکن (میں تمہیں سمجھاؤں تو کس طرح سمجھاؤں) میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جماعت ہو (حقیقت سے) جاہل۔ ھود
30 اے میری قوم کے لوگو ! مجھے بتلاؤ اگر میں ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال باہر کروں (اور اللہ کی طرف سے مواخذہ ہو جس کے نزدیک معیار قبولیت ایمان و عمل ہے، نہ کہ تمہاری گھڑٰ ہوئی شرافت اور ذلت) تو اللہ کے مقابلہ میں کون ہے جو میری مدد کرے گا؟ (افسوس تم پر) کیا تم غور نہیں کرتے۔ ھود
31 اور دیکھو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں، نہ میرا یہ دعوی ہے کہ میں فرشتہ ہوں، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جن لوگوں کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اللہ انہیں کوئی بھلائی نہیں دے گا (جیسا کہ تمہارا اعتقاد ہے) اللہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں کے دلوں میں ہے، اگر میں (تمہاری خواہش کے مطابق) ایسا کہوں تو جونہی ایسی بات کہی میں ظالموں میں سے ہوگیا۔ ھود
32 اس پر ان لوگوں نے کہا اے نوح تو نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑ چکا (اب ان باتوں سے کچھ بننے والا نہیں) اگر تو سچا ہے تو جس بات کا وعدہ کیا ہے وہ ہمیں لا دکھا۔ ھود
33 نوح نے کہا اگر اللہ کو منظور ہوگا تو بلا شبہ تم پر وہ بات لے آئے گا اور تمہیں یہ قدرت نہیں کہ (اسے کسی بات سے) عاجز کردو۔ ھود
34 اور اگر اللہ کی مشیت یہی ہے کہ تمہیں ہلاک کرے تو میں کتنا ہی نصیحت کرنا چاہوں میری نصیحت کچھ سود مند نہ ہوگی وہی تمہارا پروردگار ہے، اسی کی طرف تمہیں لوٹنا ہے۔ ھود
35 (حکم اللہ ہوا، اے نوح) کیا یہ لوگ کہتے ہیں اس آدمی نے (یعنی نوح نے) اپنے جی سے یہ بات گھڑ لی ہے؟ تو کہہ دے اگر میں نے یہ بات گھڑ لی ہے تو میرا جرم مجھ پر اور تم جو جرم کر رہے ہو (اس کی پاداش تمہارے لیے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ ھود
36 اور نوح پر وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اب کوئی ایمان لانے والا نیہں، پس جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر (بے کار کو) غم نہ کھا۔ ھود
37 اور (کہا گیا کہ) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بنانا شروع کردے اور ان ظالموں کے بارے میں اب ہم سے کچھ عرص معروض نہ کر، یقینا یہ لوگ غرق ہوجانے والے ہیں۔ ھود
38 چنانچہ نوح کشتی بنانے لگا۔ اور جب کبھی ایسا ہوتا کہ اس کی قوم کا کوئی گروہ اس پر سے گزرتا تو (اسے کشتنی بنانے میں مشغول دیکھ کر) تمسخر کرنے لگا، نوح انہیں جواب دیتا کہ اگر ہماری ہنسی اڑاتے ہو تو (ڑالو) اسی طرح ہم بھی (تمہاری بے وقوفیوں پر ایک دن) ہنسیں گے۔ ھود
39 وہ وقت دور نہیں جب تمہیں معلوم ہوجائے گا کون ہے جس پر ایسا عذاب آتا ہے کہ اسے رسوا کرے اور پھر دائمی عذاب بھی اس پر نازل ہو۔ ھود
40 (یہ سب کچھ ہوتا رہا) یہاں تک کہ جب وہ وقت آگیا کہ ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات ظہور میں آئے اور (فطرت کے) تنور نے جوش مارا تو ہم نے (نوح کو) حکم دیا ہر قسم (کے جانوروں) کے دو دو جوڑے کشتی میں لے لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لو۔ مگر اہل و عیال میں وہ لوگ داخل نہیں جن کے لیے پہلے بات کہی جاچکی ہے (یعنی کہا جاچکا ہے کہ انہیں غرق ہونا ہے) نیز ان لوگوں کو بھی لے لو جو ایمان لا چکے ہیں، اور نوح کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے مگر بہت تھوڑے آدمی۔ ھود
41 اور (نوح نے ساتھیوں سے) کہا کشتی میں سوار ہوجاؤ اللہ کے نام سے اسے چلنا ہے ورا اللہ ہی کے نام سے ٹھہرنا، بلاشبہ میرا پروردگار بخشنے والا رحمت والا ہے۔ ھود
42 اور (دیکھو) ایسی موجوں میں کہ پہاڑ کی طرح اٹھتی ہیں کشتی انہیں لیے جارہی ہے، اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا، وہ کنارہ پر (کھڑا) تھا، اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔ ھود
43 اس نے کہا میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا، وہ مجھے پانی کی زد سے بچا لے گا، نوح نے کہا، (تو کس خیال خام میں پڑا ہے؟) آج اللہ کی (ٹھہرائی ہوئی) بات سے بچانے والا کوئی نہیں مگر ہاں وہی جس پر رحم کرے اور (دیکھو) دونوں کے درمیان ایک موج حائل ہوگئی۔ پس وہ انہی میں ہوا جو ڈوبنے والے تھے۔ ھود
44 اور (پھر اللہ کا) حکم ہوا اے زمین ! اپنا پانی پی لے، اور اے آسمان ! تھم جا، اور پانی کا چڑھاؤ اتر گیا اور حادثہ انجام پا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا نامرادی اس گروہ کے لیے ہے جو ظلم کرنے والا گروہ تھا۔ ھود
45 اور نوح نے اپنے پروردگار سے دعا کی، اس نے کہا خدایا ! میرا بیٹا تو میرے گھر کے لوگوں میں سے ہے، اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے، تجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔ ھود
46 (خدا نے) فرمایا اے نوح ! وہ تیرے گھر کے لوگوں میں سے نہیں، وہ تو (سرتاپا) عمل بد ہے (١) پس جس حقیقت کا تجھے علم نہیں اس بارے میں سوال نہ کر۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ناواقفوں میں سے نہ ہوجانا۔ ھود
47 (نوح نے) عرض کیا خدایا ! میں اس بات سے تیرے حضور پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی بات کا سوال کروں جس کی حقیقت کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور رحم نہ فرمایا تو میں ان لوگوں میں سے ہوجاؤں گا جو تباہ حال ہوئے۔ ھود
48 حکم ہوا اے نوح ! اب کشتی سے اتر، ہماری جانب سے تجھ پر سلامتی اور برکتیں ہوں، نیز ان جماعتوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور دوسری کتنی ہی جماعتیں ہیں (بعد کو آنے والی) جنہیں ہم (زندگی کے فائدوں سے) بہرہ مند کریں گے۔ لیکن پھر انہیں (پاداش عمل میں) ہماری طرف سے عذاب دردناک پہنچے گا۔ ھود
49 (اے پیغمبر) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے وحی کے ذریعہ سے تجھے بتلا رہے ہیں، اس سے پہلے نہ تو یہ باتیں تو جانتا تھا نہ تیری قوم، پس صبر کر (اور منکروں کے جہل و شرارت سے دلگیر نہ ہو) انجام کار متقیوں ہی کے لیے ہے۔ ھود
50 اور ہم نے (قوم) عاد کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے ہود کو بھیجا۔ ہود نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقین کرو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ (حقیقت کے خلاف) افترا پردازیاں کر رہے ہو۔ ھود
51 اے میری قوم کے لوگو ! میں اس بات کے لیے تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ تو اسی پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر کیا تم (اتنی صاف بات بھی) نہیں سمجھتے؟ ھود
52 اور اے میری قوم کے لوگو ! اپنے پروردگار سے (اپنے قصوروں کی) مغفرت مانگو، اور (آئندہ کے لیے) اس کی جناب میں توبہ کرو، وہ تم پر برستے ہوئے بادل بھیجتا ہے (جس سے تمہارے کھیت اور باغ شاداب ہوجاتے ہیں) اور تمہاری قوتوں پر نئی نئی قوتیں بڑھاتا ہے (کہ روز بروز گھٹنے کی جگہ اور زیادہ بڑھتے جاتے ہو) اور (دیکھو) جرم کرتے ہوئے اس سے منہ نہ موڑو۔ ھود
53 (ان لوگوں نے) کہا اے ہود ! تو ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر تو آیا نہیں (جسے ہم دلیل سمجھیں) اور ہم ایسا کرنے والے نہیں کہ تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں، ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں۔ ھود
54 ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی معبود کی تجھ پر مار پڑگئی ہے (اسای لیے اس طرح کی باتیں کرنے لگا ہے) ہود نے کہا میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جن ہستیوں کو تم نے اس کا شریک بنا رکھا ہے مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں۔ ھود
55 تم سب ملکر میرے خلاف جو کچھ تدبیریں کرسکتے ہو ضرور کرو اور مجھے (ذرا بھی) مہلت نہ دو (پھر دیکھ لو، نتیجہ کیا نکلتا ہے؟) ھود
56 میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی، کوئی حرکت کرنے والی ہستی نہیں کہ اس کے قبضہ سے باہر ہو۔ (١) میرا پروردگار (حق و عدل کی) سیدھی راہ پر ہے (یعنی اس کی راہ ظلم کی راہ نہیں ہوسکتی) ھود
57 پھر اگر (اس پر بھی تم) نے روگردانی کی تو جس بات کے لیے میں بھیجا گیا تھا وہ میں نے پہنچا دی (اس سے زیادہ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے) اور (مجھے تو نظر آرہا ہے کہ) میرا پروردگار کسی دوسرے گروہ کو تمہاری جگہ دے دے گا اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے، یقینا میرا پروردگار ہر چیز کا نگران حال ہے۔ ھود
58 اور (دیکھو) جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود کو بچا لیا اور ان لوگوں کو بھی بچا لیا جو اس کے ساتھ (سچائی پر) ایمان لائے تھے اور ایسے عذاب سے بچایا کہ بڑا ہی سخت عذاب تھا۔ ھود
59 یہ ہے سرگزشت عاد کی، انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں (ہٹ دھرمی اور سرکشی کرتے ہوئے) جھٹلائیں اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر متکبر و سرکش کے حکم کی پیروی کی۔ ھود
60 اور ایسا ہوا کہ دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت پڑی (یعنی رحمت الہی کی برکتوں سے محرومی ہوئی) اور قیامت کے دن بھی۔ تو سن رکھو کہ قوم عاد نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی، اور سن رکھو کہ عاد کے لیے محرومی کا اعلان ہوا جو ہود کی قوم تھی۔ ھود
61 اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر اسی میں تمہیں بسا دیا، پس چاہیے کہ اس سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رکوع ہو کر رہو۔ یقین کرو، میرا پروردگار (ہر ایک کے) پاس ہے، اور (ہر ایک کی) دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔ ھود
62 لوگوں نے کہا اے صالح پہلے تو تو ایک ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں پھر کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ ان معبودوں کی پوجا نہ کریں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں؟ (یہ کیسی بات ہے؟) ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو کہ ہمارے دل میں اترتی نہیں۔ ھود
63 صالح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنی رحمت مجھے عطا فرمائی ہو تو پھر کون ہے جو اللہ کے مقابلہ میں میری مدد کرے گا اگر میں اس کے حکم سے سرتابی کروں؟ تم (اپنی توقع کے مطابق دعوت کار دے کر) مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہو۔ ھود
64 اور اے میری قوم کے لوگو ! دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی (یعنی اس کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی) تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے، پس اسے چھوڑ دو، اللہ کی زمین میں چرتی رہے، اسے کسی طرح کی اذیت نہ پہنچانا، ورنہ فورا عذاب آ پکڑے گا۔ ھود
65 لیکن لوگوں نے (اور زیادہ ضد میں آکر) اسے ہلاک کر ڈالا، تب صالح نے کہا، (اب تمہیں صرف) تین دن (کی مہلت ہے) اپنے گھروں میں کھا پی لو، یہ وعدہ ہے، جھوٹا نہ نکلے گا۔ ھود
66 پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آپہنچا تو ہم نے صالح کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ اپنی رحمت سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے نجات دے دی (اے پیغمبر) بلاشبہ تیرا پروردگار ہے جو قوت والا اور سب پر غالب ہے۔ ھود
67 اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کا ٰحال یہ ہوا کہ ایک زور کی کڑک نے آلیا، جب صبح ہوئی تو سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے۔ ھود
68 (وہ اس طرح اچانک مرگئے) گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے تو سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور ہاں سن رکھو کہ ثمود کے لیے محرومی ہوئی۔ ھود
69 اور یہ واقعہ ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے تھے، انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو، ابراہیم نے کہا تم پر بھی سلامتی، پھر ابراہیم فورا ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا (اور ان کے سامنے رکھ دیا کہ یہ میرے مہمان ہیں) ھود
70 پھر جب اس نے دیکھا ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو ان سے بدگمان ہوا اور جی میں ڈرا (کہ یہ کیا بات ہے؟) انہوں نے کہا خوف نہ کر، ہم تو (اللہ کی طرف سے) قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ھود
71 اور اس کی بیوی (سارہ) بھی (خیمہ میں) کھڑی (سن رہی) تھی، وہ ہنس پڑی (یعنی اندیشہ کے دور ہوجانے سے خوش ہوگئی) پس ہم نے اسے (اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے) اسحاق (کے پیدا ہونے) کی خوشخبری دی اور اس کی کہ اسحاق کے بعد یعقوب کا ظہور ہوگا۔ ھود
72 وہ بولی افسوس مجھ پر کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میرے اولاد ہو حالانکہ میں بڑھیا ہوگئی ہوں اور یہ میرا شوہر بھی بوڑھا ہوچکا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔ ھود
73 انہوں نے کہا کیا تو اللہ کے کاموں پر