میں حاضر ہوا۔ اسی دوران میں میرا چچا عامر بھی آگیا۔ اس نے بنو عبلات کے مکرز نامی شخص کو ستر افراد کے ہمراہ گرفتار کیا تھا۔یہ لوگ مشرکین تھے جنھوں نے بدعہدی کی تھی اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
قارئین کرام! اب ذرا دیکھیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حلم اور آپ کا اعلیٰ اخلاق کہ یہ وہ ستر مجرمین تھے جنھوں نے بد عہدی کی تھی اور اسلامی لشکر پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:
(دَعُوہُمْ یَکُنْ لَّہُمْ بَدْئُ الْفُجُورِ وَثِنَاہُ)
’’ان کو چھوڑ دو، یہ وہ لوگ ہیں کہ شروع سے آخر تک برائی کا منبع ہیں۔ ان کا وبال اول و آخر انھی پر ہوگا۔‘‘،
، صحیح مسلم، حدیث:1807، 1815، والاستیعاب، ص:330،331، و سیرأعلام النبلاء:331-326/3۔
قارئین کرام! یہ ستر مشرکین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم و کرم پر تھے۔ ان لوگوں کے عزائم بڑے خطرناک تھے اور یہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری رکھتے تھے۔ مگر ہمیشہ لوگوں سے در گزر کرنے والے اور اپنے بد ترین دشمنوں کو بھی معاف کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ انتقام اور بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود اپنے دشمنوں کو معاف کر دیتے تھے۔،
، صحیح البخاري، حدیث:3560، و صحیح مسلم، حدیث:2327۔
|