اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنا چاہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی سازش کا راز فاش ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ ان سازش کرنے والوں کو قتل کروادیا جائے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی معاف کردیا اور ساتھ ہی فرمایا:
((لَا یُتَحَدَّثُ أَنَّ مُحَمَّداً یَقْتُلُ أَصْحَابَہٗ))[1]
’’ میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ باتیں کریں کہ محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔‘‘
اور انھیں ساتھی اس لیے کہا کہ وہ مسلمانوں کے بھیس میں تھے اگرچہ دراصل وہ کافر [منافق] تھے۔
۸۔ کفار و مشرکین کے ساتھ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و رأفت کا اندازہ کرنا ہوتو فتح مکہ کا واقعہ ذہن میں رکھ کر دیکھیں کہ جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مارا، لہولہان کیا،دانت توڑے،بیٹیوں کو طلاقیں دے کر ذہنی و نفسیاتی اذیتیں پہنچائیں، گالیاں دیں، برا بھلا کہا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے جو بالآخر ہجرت پر جاکر ختم ہوئے۔ لیکن فتح مکہ کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، مشرکین سے اپنا قبلہ آزاد کروایااور بیت اللہ شریف کو بتوں کی نجاست سے پاک کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار قدسی نفوس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ اس طرح بائیبل کے سفر استثناء (باب: ۳۳) کے پہلے اور دو سرے فقرہ میں دی گئی بشارت بھی پوری ہو گئی جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماگئے ہیں :
|