Maktaba Wahhabi

68 - 612
’’کتنے ہی وہ لوگ ہیں، جو دن کا استقبال کر کے اس کا آغاز و ابتدا تو کرتے ہیں، مگر اسے مکمل نہیں کر پاتے اور کتنے لوگ کل کے منتظر ہیں، لیکن ان کی زندگی میں کل نہیں آپاتی۔ کاش! تم عرصہ حیات اور اس کی تیزی کے ساتھ اپنی انتہا کی طرف سفر کرنے کو نظر میں رکھتے تو تم خواہشات اور ان کی دھوکا دہی کو سخت ناپسند کرتے۔‘‘ انسان صحت و تندرستی سے حظ وافر اٹھا رہا ہوتا ہے، عافیت کی نعمت سے مالا مال ہوتا ہے، کھاتا پیتا اور اچھلتا کودتا ہے، خوشی خوشی چلتا ہے اور تکبر کے ساتھ نکلتا اور روانہ ہوتا ہے کہ اچانک مرض الموت اسے شیر کے اپنے شکار پر حملہ آور ہونے کی طرح آدبوچتی ہے، چنانچہ اس کا جسم لاغر اور اس کی آواز ہلکی اور پست ہوجاتی ہے، اس کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، اس کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور اس کے دنیا سے کوچ کرنے کے بعد اس کے اعمال کے رجسٹر اور کھاتے سمیٹ دیے جاتے ہیں۔ موت ایک حقیقت ہے: موت کتنی قریب ہے۔ روزانہ وہ ہمارے اور ہم اس کے قریب ہو رہے ہیں۔ ہمارے اور موت کے درمیان بس ہماری زندگی کی مدت پوری ہونے کا فاصلہ ہے، جو ختم ہوتے ہی ہم مردوں میں شمار ہونے لگیں گے، عمروں کی حقیقت بس اسی قدر ہے، جیسے پھول کھلتے اور مرجھا جاتے ہیں، یا چراغ روشن ہوتا اور بجھ جاتا ہے، یا انگارا دھکتا ہے، پھر جلد ہی راکھ بن جاتا ہے۔ ریت کے ان ٹیلوں پر بکھری ہوئی قبروں پر غور و فکر ہونا چاہیے، ان قبروں کے گرے پڑے پتھروں کے درمیان طمع و لالچ کرنے والے اور دنیا کے طالب غور و فکر کریں، تاکہ انھیں اس بات کا ادراک ہو کہ خواہشات اور حرام لذتوں کا راستہ اگرچہ سر سبز و شاداب اور پھولوں سے مزین ہو، آخر کار وہ انسان کو اس انتہا تک پہچاننے والا ہے، جہاں وہ قبروں میں دفن کر دیے جائیں گے۔ جس شخص کو قرآن اور موت کے ڈر نے نافرمانیوں سے نہ روکا، اس کے سامنے اگر دو پہاڑ بھی آپس میں ٹکرا جائیں تو وہ باز نہیں آسکتا۔ قبرستانوں کی کثرت اس کے لیے کسی عبرت کا باعث نہیں بنتی۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے، آج جنازہ اٹھانے والا کل خود جنازہ بن کر اٹھایا جائے گا اور جو شخص قبرستان سے اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے، عنقریب لوگ اسے قبر میں یکہ و تنہا چھوڑ کر واپس گھروں کو آجائیں گے اور اسے اس کے اعمال کا گروی بنا دیا جائے گا، اگر اعمال اچھے تو انجام اچھا
Flag Counter