Maktaba Wahhabi

64 - 612
﴿ وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا﴾ [الفرقان: ۶۲] ’’اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا، اس کے لیے جو چاہے کہ نصیحت حاصل کرے، یا کچھ شکر کرنا چاہے۔‘‘ ہجرتِ مدینہ کے دروس: رات اور دن کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا جانا قدرتِ الٰہی کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ جو شخص رات کے وقت کوئی نیک کام بجا نہ لا سکا، وہ دن کے وقت اس کی تلافی کر لے اور جو شخص دن کے وقت کوئی عملِ صالح نہ کما سکا، وہ رات کو تلافیِ ما فات کر لے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا واقعہ مسلمانوں کے لیے کئی نصیحتیں اور دروس لیے ہوئے چھوڑتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہجرت انسان کے مالوف اسباب کے ساتھ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفرِ ہجرت کے لیے زادِ راہ لے جائیں، اونٹنی پر سواری کریں اور اس سفر کے لیے گائیڈ کرائے پر لیں۔ اگر اﷲ چاہتا تو براق کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ پہنچا دیتا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع کرے، مسلمان ان اسباب کے ساتھ اپنے دین کی مدد کرے جو اسے میسر ہوں۔ اے مسلمان! تم پر سب سے بڑا فرض اور واجب یہ ہے کہ تم اپنی ذات میں اﷲ کے دین کی مدد کرو اور وہ یوں کہ تم اﷲ تعالیٰ کی اطاعت پر گامزن ہو جاؤ، اسی طرح اپنے گھر میں اس پر عمل کر کے، اپنے معاشرے میں اس کی طرف دعوت دے کر اور اس پر صبر کر کے اس کی مدد کرو۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی جو صورتِ حال ہے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ ہجرتِ نبویہ کے مفاہیم اور حقائق سے استفادہ کیا جائے، اس دور میں بھی مسلمانوں کی حالت صرف انھیں امور کے ساتھ سدھرے گی، جن کے ساتھ سلف صالحین نے حالات سدھارنے کا کام لیا تھا اور وہ امور ہیں: سچا ایمان، توحیدِ خالص، اخلاقِ کریمہ، اﷲ تعالیٰ کے ساتھ راست روی، اس پر توکل و بھروسا، مشکلات پر صبر کرنا اور اچھے انداز میں عبادت بجا لانا جو سنتِ مطہرہ میں بیان ہوا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter