Maktaba Wahhabi

631 - 612
’’جسے یہ بات اچھی لگے کہ اس کا عمل تکمیل پذیر ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنی نیت کو صاف کرے۔‘‘ عدمِ قبولیت کا خطرہ: اس بات کا ڈر بھی دل میں رہنا چاہیے اور یہ دھڑکا لگا رہنا چاہیے کہ معلوم نہیں میرا عمل قبول بھی ہو گا یا نہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا جس میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوا وَّقُلُوْبَھُمْ وَجِلَۃٌ﴾ [المؤمنون: ۶۰] فَقُلْتُ: أَھُمُ الَّذِیْنَ یَشْرَبُوْنَ الْخَمْرَ وَیَسْرِقُوْنَ؟ فَقَالَ: (( لَا یَا بِنْتَ الصِّدِّیْقِ، وَلٰکِنَّھُمُ الَّذِیْنَ یَصُوْمُوْنَ وَ یُصَلُّوْنَ وَ یَتَصَدَّقُوْنَ وَھُمْ یَخَافُوْنَ أَنْ لَا تُقْبَلَ مِنْھُمْ )) ﴿اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَ﴾ [المومنون: ۶۱][1] ’’اور وہ لوگ جن کا یہ حال ہے کہ وہ دیتے ہیں اور جو کچھ بھی دیتے ہیں اور ان کے دل (عدم قبولیت کے خیال سے) کانپتے رہتے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: کیا ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے صدیق ( رضی اللہ عنہ ) کی بیٹی! نہیں، بلکہ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور ساتھ ہی وہ اس بات سے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہمارے یہ اعمال قبول نہ ہوں۔‘‘ (اور پھر یہ آیت پڑھی، جس میں ارشادِ الٰہی ہے): ’’یہی وہ لوگ ہیں جو خیر و بر کے کاموں میں جلدی کرتے اور ان میں سبقت لے جاتے ہیں۔‘‘ اللہ والو! ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ذہن میں رکھو: ﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ [المائدۃ: ۲۷] ’’اللہ اہلِ تقویٰ ہی سے عمل قبول کرتا ہے۔‘‘ مسلمانو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اس کا تقویٰ اس دنیا میں بہترین زادِ راہ ہے اور آخرت میں
Flag Counter