Maktaba Wahhabi

585 - 612
’’جس نے حج کیا اور دورانِ حج کوئی شہوانی حرکت کی اور نہ کسی فسق (گناہ) کا ارتکاب کیا تو وہ حج کرکے یوں گناہوں سے پاک ہوکر لوٹتا ہے جیسے اسے اس کی ماں نے آج ہی جنم دیا ہے۔‘‘ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہٗ جَزَائٌ إِلَّا الْجَنَّۃَ )) [1] ’’ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور و مقبول کی جزا تو جنت ہی ہے۔‘‘ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم دیکھ رہی ہیں کہ جہاد افضل ترین عمل ہے، کیا ہم بھی جہاد نہ کریں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا، وَلَکُنَّ أَفْضَلُ الْجِھَادِ: حَجٌّ مَبْرُوْرٌ )) [2] ’’نہیں، بلکہ تمھارے لیے حجِ مبرور افضل ترین جہاد ہے۔‘‘ حجِ مبرور وہ حج ہے، جس میں حج کرنے والے نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی نیت کو خالص کیا ہو اور حج کے تمام مناسک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا کیے ہوں، گناہوں سے اجتناب کیا ہو، دوسرے مسلمانوں کو اذیت پہنچانے سے بچا رہا ہو اور ایسے وقت میں اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو، جس میں اس کے لیے وہ حلال نہیں تھی، لغو و باطل گفتگو سے اپنی زبان کو بچا کر رکھا ہو، مالِ حلال خرچ کرکے حج کیا ہو اور حسبِ توفیق ابوابِ خیر میں خرچ کیا ہو، اگر یہ سب صفات کسی حج میں جمع ہوجائیں تو وہ حج ’’حجِ مبرور‘‘ ہوتا ہے۔ ارکانِ حج: حاجی پر ضروری ہے کہ ہر وہ چیز سیکھے، جس سے اس کا حج صحیح ہو اور احکامِ حج علما سے پوچھے۔ حاجی صاحب! حج کے تمام ارکان کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کریں، کیونکہ انھیں ادا کیے
Flag Counter