Maktaba Wahhabi

574 - 612
کی طرح ہو سکتا ہے، جن کے اعمالِ بد انھیں اچھے کر کے دکھائے جائیں اور جو اپنی خواہشوں کی پیروی کریں۔‘‘ اہلِ بقیع اور شہداے اُحد کی زیارت: مدینہ منورہ کی زیارت کرنے والے مردوں کے لیے جائز ہے کہ وہ بقیع الغرقد اور شہداے اُحد کی زیارت و سلام اور ان کے لیے دعا کے لیے جا سکتے ہیں۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو زیارتِ قبور کی دعا سکھلائی: (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَإِنَّا إِنْ شَآئَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ، نَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ )) [1] ’’قبرستان میں آسودہ خاک مومنو اور مسلمانو ! تم پر سلامتی ہو، ہم بھی تم سے ان شاء اللہ ملنے والے ہیں ، ہم اپنے لیے اور تمھارے لیے اللہ سے عافیت طلب کرتے ہیں۔‘‘ زیارتِ قبور کے مقاصد: قبروں کی زیارت دو عظیم مقاصد کے لیے مشروع کی گئی ہے: 1۔زیارت کرنے والے کو قبریں دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل ہوگی۔ 2۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ جس کی زیارت کی گئی ہے، اس کی مغفرت و بخشش اور رحمت کے لیے دعا کی جائے۔ زیارتِ قبور کے لیے یہ شرط ہے کہ وہاں کوئی غلط اور کفریہ اور مشرکانہ بات نہ کہی جائے، چنانچہ بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ یَزُوْرَ فَلْیَزُرْ، وَلَا تَقُوْلُوْا ھُجْرًا )) [2] ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے روک رکھا تھا، اب جو چاہے وہ قبرو ں کی زیارت کرلے، مگر کوئی قبیح و شرکیہ بات نہ کرے۔‘‘ قبروں کو مساجد نہ بنائیں: ان قبروں یا دوسری قبروں کا طواف کیا جائے، نہ اُن کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جائے،
Flag Counter