Maktaba Wahhabi

546 - 612
جانتا نہ ہو، اور اصولِ تشریع و قانون سازی کے بارے میں وسیع علم نہ رکھتا ہو، اس کے لیے مسندِ اجتہاد پر قدم رکھنا روا نہیں ہے۔ اگر ان اصول و قواعد اور شرائط و اساسیات کے بغیر ہی کسی نے اجتہاد کرنے کا اقدام کیا تو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے اور اس کی شریعت پر افترا پردازی کرنے والوں میں سے ہوگا، جس سے اللہ نے یہ کہتے ہوئے منع فرمایا ہے: ﴿ وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ﴾ [النحل: ۱۱۶] ’’اور یونہی جھوٹ جو تمھاری زبانوں پر آجائے مت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے لگو۔‘‘ منہجِ سلف: سلف صالحینِ امت کا یہ منہج و طریقہ تھا کہ جس بات کو جانتے اس کے بارے میں کچھ کہتے اور جسے نہ جانتے اس کے بارے میں خاموش رہتے تھے۔ آپ علماے سلف کے تراجم و حالات میں کثرت سے یہ بات پڑھیں گے کہ وہ نئے پیش آمدہ مسائل و امور اور حوادث و قضایا میں اس وقت تک توقف کرلیا کرتے تھے جب تک اس کے بارے میں پوری معلومات حاصل نہ کرلیں اور اس کے متعلق بہ خوبی انکشاف نہ کر لیں، اس کے بعد ایسی نصِ شرعی کی روشنی میں اجتہاد کرتے جو اس مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت والی ہوتی، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایسے معاملے میں گفتگو کرے، جس کے بارے میں وہ پوری خبر نہ رکھتا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو امام المسلمین اور سید العالمین تھے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک کسی سوال کا جواب نہیں دیا کرتے تھے جب تک آسمان سے وحی نہ اتر جاتی۔‘‘[1] امام مروزی رحمہ اللہ کے بقول امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہر چیز اور ہر معاملے میں بات کرنا ضروری نہیں، پھر انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں متعدد احادیث ذکر کیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاجاتا
Flag Counter