Maktaba Wahhabi

534 - 612
مصیبت کا پیش خیمہ ہے۔[1] اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اہلِ مروء ت لوگ اور اہلِ جاہ و منصب حضرات جب کسی ضرورت مند کو پاتے ہیں تو یہ ان کا فضل و احسان مانتے ہیں کہ انھوں نے ان سے کام کروا کر انھیں خدمت و نیکی کا موقع مہیاکیا۔‘‘ سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’تین آدمیوں کو میں بدلہ نہیں دے سکتا۔ ایک وہ جس نے مجھے سلام کرنے میں پہل کی۔ دوسرا وہ جس نے مجلس میں مجھے بیٹھنے کی جگہ دی اور تیسرا وہ جس نے مجھے سلام کرنے کے لیے آنے میں اپنے قدموں کو غبار آلود کیا، اور چوتھا شخص تو ایسا ہے کہ اسے میری طرف سے صرف اللہ ہی بدلہ دے گا۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون ہے؟ فرمایا: وہ شخص جسے رات کو کوئی معاملہ اور ضرورت پیش آگئی، رات بھر اس نے سوچ بچار کی کہ میں اپنی یہ حاجت کس سے بیان کروں اور بالآخر اس نے مجھے اس لائق سمجھا کہ وہ اپنی حاجت مجھے بتائے اور واقعی اس نے وہ میرے سامنے رکھی۔‘‘[2] آدابِ سفارش: ضرورت مند اور سفارش طلب کرنے والے کو چاہیے کہ وہ صرف اس کام کے اہل لوگوں سے طلب کریں، بے وقت مطالبہ نہ کریں اور اس چیز کا مطالبہ نہ کریں جس کے وہ مستحق نہیں ہیں، جس نے کوئی ایسی چیز طلب کی جس کا وہ مستحق نہیں ہے تو اسے حرمان و مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا ۔ اچھے کلمات اختیار کریں اور میٹھی بات کہیں اور اگر کسی کی سفارش نہ مانی جائے تو اسے ملامت نہ کریں، سفارش کرنے والا چاہے کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو۔ خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش ایک عورت نے قبول نہیں کی تھی۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے کہا: (( لَوْ رَاجَعْتِ زَوْجَکِ فَإِنَّہٗ أَبُوْ وَلَدِکِ )) قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَتَأْمُرُنِيْ؟ قَالَ: (( لَا، إِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ )) قَالَتْ: فَلَا حَاجَۃَ لِيْ فِیْہِ )) [3]
Flag Counter