Maktaba Wahhabi

530 - 612
تعاونِ باہمی اور خدمتِ خلق: اسی سنتِ کونیہ اور اللہ کے اس نظام کی وجہ سے شریعت اسلامیہ میں لوگوں کے مابین باہمی تعاون، ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے، ان کی تکالیف دور کرنے اور ان کے لیے اچھے کاموں میں سفارش کرنے کی ترغیب آئی ہے، تاکہ دائمی محبت و الفت اور پیار و اخوت کے جذبات جنم لیں اور دین تو نام ہی عبادت و بندگی اور حسنِ معاملہ کا ہے۔ علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بے شمار نسلوں اور گروہوں میں بٹے ہونے کے باوجود تمام امتوں کے تجربات اس بات کی دلیل ہیں کہ ان تمام جہانوں کے رب کا تقرب حاصل کرنا، نیکی کمانا اور اللہ کی مخلوقات کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا، ہر طرح کی خیر و بھلائی لانے کے عظیم اسباب میں سے ہے اور ان کے برعکس اللہ کا تقرب حاصل نہ کرنا، نیکی کمانے کی جستجو نہ کرنا اور مخلوقات سے حسن سلوک نہ کرنا؛ ایسے امور ہیں جو ہر قسم کی برائی کو لانے کا سبب بنتے ہیں۔ غرض اللہ کی نعمتوں کو لانے اور اس کی نقمتوں اور عذابوں کو ہٹانے کا بہترین ذریعہ اس کی اطاعت اور اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہے۔‘‘[1] اوصافِ انبیا علیہم السلام : لوگوں کو فائدہ پہنچانا اور ان کی مشکلات حل کرنے میں کوشاں رہنا، انبیا و رسل کی صفاتِ جلیلہ میں سے ہے۔ صاحبِ جود و کرم نبی یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا کیا سلوک نہ کیا، مگر اس کے باوجود انھوں نے انھیں مال و اسباب مہیا کر دیا اور انھیں کسی چیز میں کمی نہ کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مدین کے ایک کنویں کے پاس پہنچے تو لوگوں کو جانوروں کو پانی پلاتے دیکھا اور دو کمزور لڑکیوں کو الگ تھلگ پایا تو ان کے لیے کنویں کے منہ سے پتھر ہٹایا اور ان کے جانوروں کو پانی پلایا حتی کہ ان کی بکریاں خوب سیر ہوگئیں۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہو کر فرماتی ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں، فقیر کی مدد کرتے ہیں، محتاج و نادار کو کپڑے پہناتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مشکلات میں مبتلا لوگوں کی مدد و تعاون کرتے ہیں۔‘‘[2]
Flag Counter