Maktaba Wahhabi

448 - 612
ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو، لہٰذا موت کے اپنا پنجہ گاڑ دینے سے پہلے پہلے توبہ کرلو، کیونکہ موت آجانے کے بعد پھر زندگی عطا ہونے اور مافات کا عوض یا بدل ملنے کا کوئی موقع نہیں رہ جاتا، اس دن کوئی حیلہ بہانہ کام نہ آئے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتُوْبُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ [النور: ۳۱] ’’اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو، تاکہ تم نجات پاؤ۔‘‘ اعتکاف: اعتکاف ایک مسنون، کثیر الفوائد اور عظیم المقاصد عمل ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں سے سب سے عظیم مقصد یہ ہوتا ہے کہ بندہ تمام مخلوقات سے ناتا توڑ کر اپنے خالق سے رشتا جوڑ لے اور بندے کا اپنے خالق سے رشتا استوار کرلینا، تہذیبِ نفس اور اصلاحِ قلبی کے لیے بڑا موثر ہے۔ یہ اعتکاف ماہِ رمضان کے عشرۂ اخیر میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے تاکہ لیلۃ القدر تلاش کی جاسکے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَعْتَکِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ ۔ عَزَّ وَ جَلَّ۔ ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُہٗ مِنْ بَعْدِہٖ )) [1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پانے تک ہر سال رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف کیا کرتی تھیں۔‘‘ امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’لوگوں پر تعجب ہے کہ یہ اعتکاف کو چھوڑ بیٹھے ہیں، حالانکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ تشریف لائے، تب سے لے کر وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اعتکاف ترک نہیں کیا۔‘‘[2] اعتکاف کے بعض احکام اور احترامِ مسجد: مسلمانو! اعتکاف کے احکام سمجھ لو اور جس مسجد میں اعتکاف کرنا ہے، اس کے آداب و احترام بھی یاد کرلو۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہے، جمہور اہلِ علم کے نزدیک اس کے لیے ضروری
Flag Counter