Maktaba Wahhabi

399 - 612
’’جس نے بلا وجہ کسی چڑیا کو مار دیا، وہ قیامت کے دن اﷲ کے حضور فریاد کرے گی اور کہے گی کہ اے اﷲ! اس نے مجھے کسی منفعت و ضرورت کے بغیر بلا وجہ ہی کیوں قتل کر دیا تھا؟‘‘ کافروں سے حسنِ سلوک: اسلامی تعلیمات میں رحم و کرم کی ترغیب و تربیت کا تو یہ عالم ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو اس بات کا بھی حکم دے رکھا ہے کہ مسلمان تو مسلمان، کسی غیر مسلم پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو، چنانچہ سیدنا ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کا گزر شام میں ایسے غیر مسلموں پر سے ہوا، جنھیں جزیہ نہ دینے کی پاداش میں باندھ رکھا گیا تھا، سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: (( إِنَّ اللّٰہَ یُعَذِّبُ الَّذِیْنَ یُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ فِي الدُّنْیَا )) ’’جو لوگ دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں اﷲ ان کو عذاب دے گا۔‘‘ پھر وہ شام کے گورنر کے پاس گئے اور ان سے اس سلسلے میں بات کی تو اس نے انھیں کھول دینے کا حکم دے دیا۔[1] دورِ حاضر کی ضرورت: آج دنیا ان تعلیمات کی کتنی ضرورت مند و محتاج ہے اور لوگوں کو ان اسلامی اخلاق و عاداتِ عالیہ کی کتنی احتیاج ہے؟ جن سے مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کے زخم بھرتے ہیں اور یہ مغلوب و ضعیف لوگوں کی ہمدردی کا باعث ہوتی ہیں، خاص طور پر دورِ حاضر میں تواس عادتِ جمیلہ کی شدید ضرورت ہے، جبکہ ہر طرف سے بچوں کی چیخیں، بیواؤں اور بے کسوں کی سسکیاں اور بوڑھوں کے کراہنے اور آہیں بھرنے کی آوازیں آ رہی ہیں، آج کل جبکہ صرف طاقت و قوت کی زبان ہی سمجھی جاتی ہے، ایسے حالات میں ان اقدار و عادات کی انتہائی سخت ضرورت ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا . یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾ [الأحزاب: ۷۰، ۷۱]
Flag Counter