Maktaba Wahhabi

371 - 612
(( أَوْ وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہٗ )) [1] ’’یا نیک اولاد جو اپنے مرنے والے (والدین) کے لیے دعا کرے۔‘‘ دعا ردِ بلا کا ذریعہ اور مومن کا ہتھیار ہے: دعائیں اﷲ کے فضل و کرم سے بلاؤں کو ٹالتی، مصائب کو دور کرتی اور عذاب و ہلاکت کو روکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعا تو مومن کا ہتھیار ہے۔ حصولِ مطلوب و مقصود اور طلبِ نفع کے لیے اس دعا سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، یہ نعمتوں کو لاتی اور عذابوں کو ٹالتی ہے، اسی کے ذریعے غموں اور پریشانیوں کا مداوا ممکن ہے۔ اس سے بڑا شرف اور کیا ہو سکتا ہے کہ دعا کے وقت بندے کو اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ جتنا اخلاص زیادہ ہوگا اور جس قدر قوی امید کے ساتھ اﷲ سے دعا مانگی جائے گی، اتنی ہی زیادہ وہ دعا قبول ہوگی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں دعا کی قبولیت کی فکر نہیں کرتا، میں تو صرف دعا کرنا ضروری جانتا ہوں، کیوں کہ جب دعا ہو تو اس کے بعد قبولیت یقینی ہوتی ہے۔‘‘[2] عاجز و کمزور کون؟ لوگوں میں سے عاجز ترین وہ شخص ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہے اور ان میں سے کمزور ترین وہ شخص ہے، جو اﷲ کو پکارنے میں کمزور ہو۔ دعا میں فائدے ہی فائدے ہیں۔ مسلمان اپنے جواد و کریم رب سے مانگنے کے لیے دعا کرتا ہے اور وہ اسے دیتا ہے، خواہ فوراً دے دے یا کچھ تاخیر کردے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ہر دعا کرنے والے کی پکار سنی اور قبول کی جاتی ہے، لیکن قبولیت کے کئی انداز ہوتے ہیں: کبھی تو اسے عین وہی چیز عطا کر دی جاتی ہے، جو اس نے طلب کی ہو اور کبھی اس کا کوئی دوسرا معاوضہ دے دیا جاتا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter