Maktaba Wahhabi

370 - 612
مقامِ دعا: اگر بندے اﷲ کے سامنے التجا کریں نہ گڑ گڑائیں تو اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ قُلْ مَا یَعْبَؤُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَآؤُکُمْ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا﴾ [الفرقان: ۷۷] ’’کہہ دیجیے: اگر تمھاری پکار نہ ہوتی تو میرا رب تمھاری مطلق پروا نہ کرتا، تم تو جھٹلا چکے، اب عنقریب اس کی سزا تمھیں ملنے والی ہے۔‘‘ دعا انبیا کرام اور اﷲ کے خاص بندوں کی صفاتِ عالیہ میں سے ایک خاص صفت ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے: ﴿ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبَاً وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ﴾ [الأنبیاء: ۹۰] ’’وہ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ و طمع اور خوف و ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔‘‘ امام الحنفا ابراہیم خلیل علیہ السلام کا فرمان قرآن نے یوں بیان کیا ہے: ﴿ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ عَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَآئِ رَبِّیْ شَقِیًّا﴾ [مریم: ۴۸] ’’میں اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا۔‘‘ غرض دعا دلوں کی بہار اور دنیا کی جنت ہے۔ یہ ایک ایسی مطلق عبادت ہے، جس کے لیے کسی جگہ، وقت اور حالت کی کوئی پابندی نہیں، بلکہ دن رات، بر و بحر اور سفر و حضر ہر جگہ اور ہر وقت دعا کرتے رہنا چاہیے۔ دعا کرنے کا فائدہ صرف دعا کرنے والے ہی کو نہیں پہنچتا، بلکہ فوت شدگان بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرنے کے بعد ثواب پہنچنے والے ذرائع اور اعمال کو گنواتے ہوئے فرمایا ہے:
Flag Counter