Maktaba Wahhabi

317 - 612
پڑتا ہے جو سستی شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اور لوگوں کی واہ واہ کا طلب گار ہے، چاہے اس کے عوض میں اسے اللہ کی ناراضی ہی کیوں نہ مول لینی پڑے؟! اجتہاد و رائے: مسائلِ عقائد توقیفی ہوتے ہیں، ان میں اجتہاد و رائے کا کوئی دخل نہیں ہوتا، اسی طرح جن مسائلِ شرعیہ میں شارع علیہ السلام کی طرف سے کوئی نص موجود ہو، ان میں بھی اجتہاد کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ نص کی موجودگی میں کوئی اجتہاد مقبول نہیں۔ وہ مسائل جو متفق علیہ ہیں یا جن پر اجماعِ امت ہو چکا ہے، ان میں بھی اجتہاد کی کوئی حاجت نہیں، کیونکہ اجماع کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔ امت کا فرض ہے کہ علمی مسائل میں فکر و نظر کا معاملہ ان اہلِ علم کے سپرد کرے جو با عمل اور درجۂ اجتہاد پر فائز ہوں اور کوئی شخص حلال و حرام کے مسائل میں بلا علم دخل اندازی نہ کرے، کیونکہ یہ اللہ کے حکم کے بارے میں قطعی رائے دینا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جو کسی مسئلے کا جواب دینا چاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو جنت اور جہنم پر پیش کرے اور اچھی طرح دیکھ لے کہ کل قیامت کے دن اس کی خلاصی کیسے ہو گی؟ اس سب پر غور کرنے کے بعد جواب دے۔‘‘[1] امام مالک رحمہ اللہ اور وعظ و نصیحت: ائمہ و علما کے حلقاتِ علم تمام علوم و فنون پر مشتمل ہونے کے سلسلے میں ہم امام مالک رحمہ اللہ کا ایک بلیغ وعظ آپ کے گوش گزار کرتے ہیں، جس میں امام صاحب اپنے ایک دینی بھائی کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ اپنے نفس کو موت کے سکرات اور کرب یاد دلاؤ۔ تمھارے اعمال کی وجہ سے جو کچھ اس نفس کو پیش آنے والا ہے وہ سب بھی اسے یاد دلاؤ، اسی طرح یہ بھی یاد دلاؤ کہ موت کے بعد اللہ کے سامنے کیا حساب کتاب دینا ہو گا؟ پھر اسے یہ بھی سمجھاؤ کہ اس کے بعد ہمیشہ جنت یا جہنم میں رہنا پڑے گا، لہٰذا اس کے لیے ان اعمال کی تیاری کرو جو ان مقامات پر تمھارے لیے آسانی کا باعث ہوں۔ آپ اگر ان لوگوں کو دیکھ لیں جنھوں نے اللہ کی ناراضی مول لی اور اللہ کی ناراضی و عذ۱ب کی سختیوں میں مبتلا ہوئے،
Flag Counter