Maktaba Wahhabi

316 - 612
دورِ حاضر اور فتویٰ بازی: ہمارے اس دور کے لوگ بات کرنے اور فتویٰ صادر کرنے میں بڑا شوق رکھتے ہیں، اگر انھیں اپنے انجام کے بارے میں خبر ہو جائے تو وہ اس شوق میں بڑے محتاط ہو جائیں، سیدنا عمر فاروق، سیدنا علی اور سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہم صحابہ کرام میں سے بہترین علما تھے، وہ خیر القرون میں سے اس عہد میں تھے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے، ان کے سامنے مسائل آتے تو وہ بھی پہلے ایک دوسرے کے ساتھ اس مسئلے کے بارے مشورہ کرنے کے بعد جواب دیتے تھے، جبکہ ہمارے اس زمانے کے لوگوں کا فخر ہی فتویٰ بازی بن چکا ہے!! یہ اکابر علما و ائمہ جنھوں نے اپنے علم و عمل سے دنیا کو بھر دیا تھا، ان میں سے ایک عالم سوال پوچھے جانے پر کہتا ہے: ’’میں نہیں جانتا۔‘‘ آپ کو یہ جان کر انتہائی تعجب ہو گا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو علمِ شریعت میں اس مقدار کے بھی مالک نہیں، جو قابلِ ذکر ہو، چہ جائیکہ وہ فتویٰ دینے کے اہل ہوں، مگر اس کم علمی کے باوجود وہ حدودِ شریعت پر دست درازی کرتے اور حلال و حرام کے بارے میں فتوے صادر کرتے پھرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کلب یا مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا ہے تو اس مجلس کے برخواست ہونے سے پہلے ہر کوئی اپنے اپنے اختصاص اور اپنی اپنی پسند کے حساب سے فتویٰ صادر کر چکا ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے: ’’میرے خیال میں۔‘‘ کوئی کہتا ہے: ’’میری نگاہ و اعتقاد میں۔‘‘ کوئی اس کے حرام ہونے اور کوئی حلال ہونے کا یقینی فیصلہ صادر فرما رہا ہوتا ہے۔ سبحان اللہ! کیا کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینا اور اللہ کی طرف سے تصدیق کرنا، جہالت، ظن و تخمین اور وہم و گمان کا میدان بن چکا ہے؟ اگر کوئی انجینئر طب کا پیشہ اختیار کرلے اور مریضوں کے لیے طبی نسخے تجویز کرنا شروع کر دے تو تم لوگ اس کے بارے میں کیا کہو گے؟ اس کے اس فعل کو کیا نام دو گے اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ اسی طرح ایک شخص شریعت کی حدود پر دست درازی کرتا ہے اور کتب و جرائد کے صفحات کے صفحات مختلف چیزوں کے حلال و حرام قرار دینے میں سیاہ کیے چلا جاتا ہے، حالانکہ وہ فتویٰ دینے کا اہل تو کجا وہ تو اہلِ شریعت میں سے بھی نہیں، ایسے شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ خاص طور پر جدید پیش آمدہ فقہی مسائل کے معاملے میں کہ اگر یہ معاملات و مسائل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں پیش آئے ہوتے تو وہ سارے اہلِ بدر کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے اور پھر جا کر ان کا جواب دیتے، مگر ہمارے زمانے میں فتویٰ بازی ایک ایسا میدان بن چکا ہے جس میں ہر وہ شخص کود
Flag Counter