Maktaba Wahhabi

310 - 612
’’علم حاصل کرنے سے پہلے حسنِ اخلاق و آداب سیکھو۔‘‘[1] امام ابنِ وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ہم نے امام مالک رحمہ اللہ کے علم سے اتنا نہیں سیکھا جتنا ان کے اخلاق و آداب سے پایا ہے، جبکہ لوگوں نے ان سے علم بھی بہت سیکھا تھا۔‘‘[2] امام یحییٰ بن یحییٰ رحمہ اللہ تمیمی کہتے ہیں: ’’امام مالک رحمہ اللہ سے حصولِ علم کی تکمیل کے بعد میں پورا ایک سال ان کے یہاں قیام پذیر رہا اور اس دوران میں ان کی وضع قطع، ہیئت و صورت اور اخلاق و عادات سیکھتا رہا، میں نے دیکھا کہ ان کے اخلاق و عادات بالکل وہی ہیں جو صحابہ و تابعین کے تھے۔‘‘[3] دورِ حاضر اور اسلوبِ تعلیم: تعلیم و تدریس کے اس اسلوبِ جدید اور دورِ حاضر میں مروجہ طریقے سے تو کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ آداب و اخلاق سے عاری صرف کورس کی چند کتابیں یا ان کے اسباق پڑھا دیے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ آج علم کی اصل رونق، حسن و جمال، تاثیرِ بے مثال اور اس کی وسعتیں مفقود ہو گئی ہیں۔ اگر علم و معرفت اور اخلاقِ و آداب میں جدائی کر دی جائے تو علم کے چاہے کتنے بھی خزانے اور معرفت کی چاہے کتنی بھی دولت کسی کے پاس جمع ہو جائے، آپ یہ بات خود محسوس کر لیں گے کہ ایسے مجرد علم کا اصلاحِ قلوب، تزکیۂ اعمال اور اخلاق و کردار پر انتہائی ضعیف اور کمزور سا اثر رہ جائے گا۔ کسی آدمی کے ایسے علم میں کوئی خیر و بھلائی نہیں، جو اسے جامۂ آداب سے مزین اور حسنِ اخلاق سے مہذّب نہ بنا سکے۔ علم و آگہی اور اخلاق و آداب کے ما بین تفریق و جدائی کئی امراض کو جنم دیتی ہے، جیسے اہلِ علم و عقل کے خلاف زبان درازی کرنا، بداخلاقی، بدکرداری، والدین کی نافرمانی، وضع و قطع اور لباس و پوشاک میں دوسروں کی اندھی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ ساتھ ہی تعلیم و تربیت دینے والے اساتذہ پر قولی وعملی طور پر زیادتیاں اور بدتمیزیاں کرنا وغیرہ۔
Flag Counter