Maktaba Wahhabi

232 - 612
چمٹ گیا، یہی انتہائی غرض و غایت ہے۔ امید و رجا اور خوف و خشیت: ان سب کو اپنے اپنے مقام پر رکھو۔ جب پیاس بڑھ جائے تو اپنی امید کا دامن پھیلا دو، اللہ بڑا کریم ہے۔ کثرتِ دعا وہ بہترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ابتلا و آزمایش ہی ہے کہ بندہ دعا کرے اور قبول نہ ہو، لہٰذا اسے بار بار دعا کرنی چاہیے اور طویل مدت تک دعا کرتے رہنا چاہیے، اگر پھر بھی دعا کا کوئی اثر ظاہر نہ ہو تو یہ بلا و مصیبت ہے جس پر صبر کرنا چاہیے۔ دعا کی قبولیت میں تاخیر در اصل ایک مرض کا نتیجہ ہے جس کا علاج کروانا ضروری ہے۔ کرمِ الٰہی بڑا وسیع ہے اور وہاں بخل کا کوئی دخل ہی نہیں ہے، البتہ بعض دفعہ قبولیت میں تاخیر کسی مصلحت کے تحت ہو تی ہے اور جلدی قبول ہو جانے میں نقصان ہوتا ہے تو یہ بلا میں بھی گویا نعمت کا ایک پہلو ہے۔ قبولیتِ دعا میں تاخیر کے اسباب: کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ قبولیتِ دعا میں مانع کوئی آفت و خطا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ تمھاری روزی مشتبہ ہو، یا پھر عدمِ قبولیت کی سزا اس لیے دی جا رہی ہو کہ تم نے کوئی گناہ کیا تھا، اس سے توبہ تو کرلی مگر صدقِ دل سے نہیں کی۔ اگر اپنی حالت کو اچھا نہ پائیں تو اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کریں جن کا تم نے شکر ادا نہیں کیا، یا اپنے ان گناہوں کو ذہن میں لائیں جن کا تم نے ارتکاب کیا ہے۔ نعمتوں کے پلٹ جانے اور سزاؤں کے اچانک چھا جانے سے بچو۔ اگر بدن کسی خیر وبھلائی کے کام کو ادا کرنے سے عاجز و معذور ہے تو تمھاری نیت بدستور قائم رہنی چاہیے کہ میں یہ کام کروں گا۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ موت کے ساتھ ہی عمل کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا، وہ ایسے اعمال و صدقات جاریہ سر انجام دیتا ہے جن کا اجر و ثواب اسے موت کے بعد بھی پہنچتا رہے۔ وہ ایسی اولاد کے حصول میں کوشاں رہتا ہے جو اس کے بعد اللہ کا ذکر کرتی اور اس کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہے، اسی لیے تو کہتے ہیں: ’’جس نے اولاد چھوڑی وہ گویا مرا ہی نہیں۔‘‘ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْھَا وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ﴾ [حم السجدۃ: ۴۶] ’’جس نے نیک عمل کیا وہ اس کا اجر پائے گا اور جس نے برائی کی وہ اس کا انجام بھگتے گا اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا ہر گز نہیں ہے۔ ‘‘
Flag Counter